احساس کے انداز
ممتا کا دکھ
۲۰ اگست والدہ کی 24ویں برسی پر خراج تحسین
تحریر ؛۔ جاویدایاز خاں
و ہ ایک نہایت کمزور دبلا پتلا گیارہ سالہ نالائق طالبعلم تھا۔ بچپن کے تیز بخار سے قوت سماعت سے محروم نیم بہرے پن کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے ہم عمر بچوں سے الگ تھلگ اپنی دنیا میں مگن رہتا۔
وہ اس بات سے بےنیاز تھا کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے اور ایک نالائق اور منحوس بچہ کیوں سمجھتے ہیں ؟ اس کے رویے کی وجہ سے ایک دن اسکول کے پرنسپل نے اُسے ایک سر بہ مہر لفافہ دیا اور کہا کہ یہ اپنی والدہ کو دے دینا۔
اس نے وہ خط اپنی ماں کو تھما دیا اور متجسس نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔ خط پڑھ کر اس کی ماں کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔ اس نے بیٹے کو بتایا کہ خط میں اس کے پرنسپل نے لکھا ہے کہ
“تمہارا بیٹا ایک ذہین بچہ ہے اور ہمارا سکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے۔ ہمارے پاس اتنے اچھے اُستاد بھی نہیں جو اسے پڑھا سکیں۔ لہٰذا آپ اسے خود ہی پڑھائیں۔ ”
بچے نے پہلی مرتبہ اپنے بارے میں ایسے تعریفی کلمات سنے تو وہ خوشی سےجھوم اُٹھا۔ اس کے جسم میں خوداعتمادی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔پھر اس کی ماں نے اس کی تعلیم وتربیت اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ جلد ہی وہ اپنے بیٹے کے لیے علم کا سمندر تلاش کر کے اس کی رگ وجاں میں سمونے میں کامیاب ہو گئی۔
اس کی پوشیدہ صلاحیتیں رفتہ رفتہ نکھر کر سامنے آنے لگیں۔ غربت کے باعث اس باہمت بچے نے صرف گیارہ سال کی عمر میں ٹرین میں کتابیں بیچ کر اپنے آٹھ بہن بھائیوں کی کفالت کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اُٹھا لی۔ گھر پر ہی اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔
پھر وہ لمحہ آن پہنچا جب اس ناتواں نوجوان نے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا کر سب کو حیران کر دیا۔
جی ہاں!یہ ایک ہزار سے زیادہ ایجادات کا موجد، نوبل انعام یافتہ، انیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس دان تھامس ایلو ایڈیسن تھا۔ جس نے بجلی کا بلب ایجاد کر کے آج بھی پوری دنیا کو روشن رکھا ہوا ہے۔
اس کی ایجادات سے دنیا کا بچہ بچہ واقف ہے ۔ان ایجادات کے احسان تلے پوری دنیا آج بھی دبی ہوئی ہے ۔
بلب کی ایجاد کے لیے اس نے ایک ہزار کے قریب تجربات کئے، جن میں نو سو ننانوے ناکام ہوئے جب اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تو اس کے ذہن میں اپنی ماں کے کہے الفاظ گردش کرنے لگتے کہ
” تمہارا بیٹا جینیئس ہے۔ ”
یہ الفاظ جادوئی پڑیا کی طرح اس میں نئی توانائی پیدا کر دیتے اور وہ بلند آواز میں خود کلامی کرتا
” تھامس ! تم ایک جینیئس ہو۔ ” اگر کائنات کی قسمت میں روشنی ہے تو اس کے مؤجد تم ہو گے۔ صرف تم !!
پھر ایسا ہی ہوا۔ ایک شام واقعی بلب جل اُٹھا اور دنیا اندھیروں سے نکل کر اُجالوں میں داخل ہو گئی۔
بجلی کی ایجاد کے بعد اس نے ایجادات کا ڈھیر لگا دیا اور اپنی 84 سالہ زندگی میں سب سے زیادہ ایجادات کرنے والا سائنسدان بن کر دنیا کے افق پر ہمیشہ کے لیے انمٹ نقوش چھوڑ گیا ۔
جب اس کی شہرت آسمان کو چھو رہی تھی تو ایک شام وہ اپنے گھر کی پرانی الماری میں کچھ تلاش کر رہا تھا۔
اچانک اس کی نظر ایک بوسیدہ کاغذ پر پڑی جسے وہ خوب پہہچانتا تھا۔ یہ وہی خط تھا جو بچپن میں اسے اسکول کے پرنسپل نے ماں کو دینے کے لیے دیا تھا ۔ اس کی ماں کو دنیا سے گزرے بہت عرصہ بیت چکا تھا ۔
اس نے خط کھولا۔ لکھا تھا۔
” آپ کا بیٹا انتہائی کند ذہن اور ذہنی طور پر ناکارہ ہے۔ ہم اسے مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے۔ آپ اسے خود گھر پر پڑھائیں۔”
اس خط کی اصل عبارت پڑھ کر ایڈیسن کی آنکھیں آنسوں سے لبریز ہو گئیں۔ وہ جی بھر بلند آواز سے روتا رہا اور یہ رونا اسے اپنی ماں اور اس کی ممتا کے اس دکھ کو محسوس کر کے آیا۔ جسے وہ اپنے اندر سمو کر دنیا سے چلی گئی ۔
اس رات تھامس نے اپنی ڈائری میں یہ شاندار جملہ لکھا۔
” تھامس ایلوایڈیسن ایک ذہنی طور پر ناکارہ بچہ تھا مگر اس کی عظیم ماں نے اسے ایک جینیئس بنا دیا۔ ”
میں جب بھی یہ واقعہ پڑھتا ہوں تومجھے اپنی ماں یاد آ جاتی ہے۔ اس کی مجبوریوں ،محرمیوں، قربانیوں، دکھوں اور بلند عظمت کے بے شمار واقعات یاد آ جاتے ہیں۔
میں نے جب بھی “ماں” کے بارے میں لکھنا چاہا، نا جانے کیوں میرے الفاط کا ذخیرہ کم پڑ جاتا۔بےشک ماں اس دنیا میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس باغ قدرت میں سب سے خوبصورت پھول ہے جس کی عظمت بیان کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت ،ممتا ، ایثار و قربانی کا پیکر ہوتی ہے۔ کائنات کے سب سے اچھے ،سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
ہمارے کردار ہماری ماں کی تربیت سے تعمیر ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں جونہی کوئی خاتون ماں بنتی ہے، اللہ کی تمام رحمتیں اس پر نچھاور ہو جاتی ہیں۔
قدرت نے اس کے پاوں تلے جنت رکھ کر اس کی عظمت کو سب سے بلند کر دیا ہے۔ ماؤں کی خوبیاں یکساں ہوتی ہیں۔ اس لیے ہر شخص کے لیے اس کی ماں سب سے عظیم ہوتی ہے ۔
یہ 1972ء کی بات ہے۔ میں نے میٹرک پاس کر لیا تھا۔ والد صاحب ہندوستان میں جنگی قیدی تھے۔ قلیل تنخواہ اور نو بہن بھائی۔ شاید یہ میری ماں کے لیے مشکل ترین وقت تھا۔ امی جان کو لوگوں کے کپڑے سی کر گزارہ کرنا پڑتا۔
میں روز صبح تلاشِ روزگار میں نکلتا۔ سینکڑوں انٹرویو دے ڈالے مگر روز شام کو منہ لٹکائے واپس آتا تو وہ میرا حوصلہ بڑھاتی۔ اگلی صبح میں ایک نئے جذبے سے کوشش شروع کر دیتا۔ ہمارے ہمسایوں کو بھی میری ناکامیوں کی خبر تھی۔
ایک روز میں پھر ناکام واپس آیا تو مجھے پتا چلا کہ امی جان رو رہی ہیں۔ میں نے وجہ جاننا چاہی تو ٹال دیا لیکن میری چھوٹی بہن نے سارا واقعہ مجھے بتایا:
وہ ہمسایوں کے گھر ملنے گئیں تھیں۔ ہمسائی اپنے خاوند کے ساتھ کسی کام سے بازار جا رہی تھی۔ اس لیے انہیں روانہ کر کے وہ ان کے بچوں کے ہمراہ گپ شپ کرنے لگیں۔ تھوڑی دیر میں وہ دونوں میاں بیوی واپس آ گئے۔ ان کی بچی نے پوچھا آپ تو احمد پور گئے تھے اتنی جلدی واپس کیوں آ گئے۔
ہمسائی سمجھی کہ امی جان واپس اپنے گھر جا چکی ہوں گی ، لیکن وہ ابھی اندر ہی بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کی بات سن رہی تھیں۔ ہمسائی نے بتایا کہ وہ جا رہے تھے تو راستے میں گھر سے نکلتے ہی جاوید نظر آ گیا۔ وہ احمد پور سے واپس آ رہا تھا۔ ہم نے سوچا کہ یہ جہاں جاتا ہے ناکام ہوتا ہے۔ آجکل اس کے برے دن چل رہے ہیں۔ اس کی شکل دیکھ لی ہے۔ اس لیے اب ہمارے کام بھی نہیں ہوں گے۔ لہذا ہم واپس آ گئے ہیں۔”
یہ بات امی جان کو بہت ہی بری لگی۔ کوئی ماں اپنے بچے کو منحوس یا ناکام انسان سننا برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ بڑے غصہ میں واپس آئیں اور بڑی دیر تک روتی رہیں۔ یہ اُن کے آنسو ہی تھے جس نے میرے لیے خوش قسمتی کے سارے دروازے کھول دئیے۔
اللہ کی رحمت برسنے لگی۔ وہ شاید میری زندگی کا آخری مشکل ترین دن تھا۔ پھر عروج ہی عروج رہا۔ ترقی پر ترقی ہوتی چلی گئی۔ میں ایک مزدور سے بینک ایگزیکٹیو تک جا پہنچا ۔میری ماں کو اپنی تمام زندگی میں جب بھی یہ واقعہ یاد آتا تو رونے لگتیں ۔
وہ دل کی مریض تھیں۔ میں انھیں انجیو گرافی اور بائی پاس کے لیے آغا خان ہسپتال کراچی لے جا رہا تھا۔ جس صبح ہماری روانگی تھی، اس رات میں دیر سے واپس آیا تو جاگ رہی تھیں۔ ہم نے ساتھ کھانا کھایا۔ پھر وہ بتانے لگیں کہ وہ آج سب سے مل کر آئی ہیں اور سب کہا سنا معاف کروا دیا ہے۔
پتا نہیں اب زندگی ساتھ دے یا نہ دے ؟ کراچی سے زندہ آؤں یا نہیں ؟ پھر اپنی تیاری کے بارے میں بتایا اور بہت سی باتیں کیں۔ میں نے کہا بہت دیر ہو گئی ہے۔ آپ آرام کریں۔ انھیں سہارا دے کر کمرے تک لے گیا۔ وہ اپنی شائستہ بیٹی کے ساتھ سوتی تھیں۔
میں واپس ہونے لگا تو بولیں، جاوید میں نے آج اس ہمسائی کو بھی معاف کر دیا جس نے تمہیں منحوس کہا تھا۔ تم بھی معاف کر دو!”
ان کی آواز لڑکھڑا رہی تھی۔ میں نے ان کے چہرے پر عظمت اور ممتا کے وہ جذبات دیکھے جو بیان نہیں کئے جا سکتے۔ اتنا بڑا عفو و درگزر ، حوصلہ اور دل ایک ماں کا ہی ہو سکتا ہے۔ واقعی ماں رب کا ایک روپ اور پیکر وفا ہوتی ہے۔ انھوں نے ساری عمر کا سنبھالا ہوا اپنی ممتا کا یہ طویل دکھ آج دُور کر دیا تھا ۔
ان کی آنکھوں میں خوشی کے ستارے جھلملا رہے تھے۔ جو اس بات کا اظہار تھا کہ ان کا بیٹا دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے۔ میں نےکہا:
بہتر ایسا ہی ہو گا۔ پھر ان سے نظر ملائے بغیر واپس آیا تو میری آنکھیں ان کی عظمت کی وجہ سے نم تھیں۔
دوسری صبح وہ ہم میں نہیں تھیں۔ دل کے شدید دورے نے ہم سے ہماری ماں کا یہ خوش بخت سایہ اس رات ہمیشہ کے لیے چھین لیا ۔
کہتے ہیں دکھ مرنے کا نہیں، دکھ بچھڑنے کا ہوتا ہے۔ انسان کو موت نہیں رلاتی ۔۔ وہ پیا ر رلاتا ہے جو مرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ہمارے دلوں میں وہ اور ان کا پیار آج بھی زندہ ہے۔
وہ کہہ رہی ہیں کہ:
لوگوں آؤ دیکھو ! میں خوش قسمت اولاد کی ماں ہوں۔ میرا نام شمشاد ہے۔
شمشاد اس گھنے لمبے ، خوبصورت ، سفید پھولدار اور سایہ دار درخت کو کہتے جس کی گھنی چھاؤں تلے خوش قسمتی جنم لیتی ہے ۔ میرا یہ سایہ سدا میرے بچوں پر قائم رہے گا۔
لیکن ہمیں ان کی کمی کا احساس ہر لمحہ رہتا ہے ۔ کیونکہ دنیا میں سب کچھ ماں سے ہے۔ اس کے بغیر کچھ نہیں ۔ ان کی محبت ایک بہتے دریا کی طرح تھی۔
دریا اگر سوکھ بھی جائے تو ریت سے اس کی نمی کبھی نہیں جاتی ۔
باغ کس کام کا جس میں گل ُوشمشاد نہ ہو
لطف دیتی نہیں بے شیشہ و ساغر محفل