21 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 52

 

( 52 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

جبران جپہ کے نمبر کو ٹریس کرتے ہوئے خفیہ اداروں کے لوگ اُس لوہے کے گودام تک پہنچ گئے۔ اُنھوں نے جبران جپہ کو گرفتار کر لیا۔
جبران کے گھر سے خالی ہاتھ لوٹنے کے بعد منشا مزاری اپنے بنگلے پر پہنچی۔ دونوں گاڑیاں اندر داخل ہو چکی تھیں۔ عطا نے منشامزاری کی طرف کا دروازہ کھولا۔ وہ گاڑی سے باہر نکلی تو ایک سیکورٹی گارڈ اپنے ہاتھوں میں سرمد کی دی ہوئی چادر اُٹھائے بھاگا ہوا آیا اور آتے ہی کہنے لگا:
’’بی بی سرکار۔۔۔! یہ آپ کے لیے۔۔۔‘‘
منشامزاری نے لمحہ بھر سوچا، پھر کچھ کہے بغیر ہی وہ کالی چادر پکڑ لی۔ اُسی لمحے سیکورٹی گارڈ نے بھی بتانا شروع کر دیا:
’’چراغ والی کے سرمد نواب آپ کے لیے دے گئے تھے۔‘‘
سرمد کا نام سنتے ہی منشا نے وہ چادر زمین پر پھینک دی جیسے ناپاک ہو، پھر غرّاتے ہوئے پوچھنے لگی:
’’وہ کب آیا تھا یہاں؟‘‘
’’12 دسمبر کو جس دن آپ کینیڈا کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔‘‘
’’ارے جاؤ منشامزاری۔۔۔! بارہ گھنٹوں کے بجائے تُم اگلے بارہ سال تک بھی مجھے ڈھونڈ نہیں پاؤ گی۔‘‘ منشا کے کانوں میں سرمد کی بارہ سال پہلے کہی ہوئی بات گونجی۔ عطا کا فون بجنے لگا۔ منشا اپنے پیروں میں سرمد کی دی ہوئی کالی چادر روندتے ہوئے بنگلے کے اندر جانے لگی۔ عطا نے کال ریسیو کی۔
’’عطا۔۔۔! سرمد بول رہا ہوں۔۔۔ منشا سے بات کرواؤ۔۔۔!‘‘
عطا نے اپنے موبائل پر یہ سنتے ہی وہاں سے جاتی ہوئی منشا کو مخاطب کیا:
’’بی بی سرکار۔۔۔! سرمد۔۔۔‘‘
منشا اُنھی قدموں پر رُک گئی۔ اُس کے اندر ایک تلاطم اُٹھنے لگا۔ عطا نے بھاگ کر منشا کو موبائل پیش کیا۔ منشا نے فون کان سے لگاتے ہی حقارت سے بھرے لہجے میں گرجتے ہوئے کہا:
’’کمینے۔۔۔ بھگوڑے۔۔۔ بزدل۔۔۔ کہاں چھپا بیٹھا ہے تُو۔۔۔؟‘‘
’’میں۔۔۔ چراغ والی۔۔۔اپنے ماں باپ کی قبروں پر مٹی ڈالنے جا رہا ہوں۔‘‘ سرمد نے بڑے دھیمے انداز میں بتایا اور پُرسکون انداز سے کال کاٹتے ہوئے موبائل کشمالہ کو دے دیا۔
’’یہ منشا کون ہے؟‘‘ کشمالہ کو ہلکی سی تشویش ہوئی۔
’’منشا بچپن کا دوست ہے۔۔۔ ہمارے گاؤں کے سردار کا بیٹا۔۔۔ جس دن ہم ایک دُوسرے کو نہ دیکھتے بے چینی ہمیں پل پل ڈستی۔۔۔‘‘ سرمد نے بڑے تحمل سے بتایا۔ کشمالہ نے اُسے بڑے پریم سے دیکھا۔ وہ اُس کی بانھوں میں جلد سے جلد پگھل جانا چاہتی تھی، مگر کیا کرتی۔ وہ گاڑی میں تھی۔ اس کے باوجود اُس نے سرمد کے بازو کو تھامتے ہوئے اُس کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔ سرمد تھا تو کشمالہ کے پہلو میں، مگر وہ وہاں نہ تھا۔
کشمالہ نے دھیرے سے پوچھا:
’’خوشبو میں کون سا وائرس تھا؟‘‘
سرمد نے چونک کر کشمالہ کی طرف دیکھا، مگر وہ بڑی شان سے سرمد کے شانے پر سر رکھے ہوئے تھی۔ سرمد نے کوئی جواب نہیں دیا تو کشمالہ اُسی تال میں پھر سے بول اُٹھی:
’’کوئی عورت بھی ہے تمھاری زندگی میں؟‘‘
یکایک سرمد کے مکھڑے پر پشیمانی کے جھرنے بہنے لگے۔ اُس نے کشمالہ کو جواب دینے کے بجائے آنکھیں موند لیں۔ ایک ایک کر کے تصویری شکل میں اُسے وہ ساری عورتیں دکھائی دینے لگیں جو اُس کی زندگی میں آئی تھیں۔ آخر میں بگھی میں بیٹھی ہوئی آٹھ سالہ منو، اس کے بعد عروسی لباس میں ملبوس رمشا اور سب سے آخر میں ڈاکٹر آنیہ۔ ڈاکٹر آنیہ پر جا کے تصویروں کی ریل رُک گئی۔
’’یہ ڈاکٹر آنیہ کون ہے؟‘‘
کشمالہ کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔ سرمد نے آنکھیں کھولیں تو کشمالہ نے اُس کے چہرے کے سامنے وہ کارڈ کر رکھا تھا۔ سرمد نے کارڈ دیکھا تو کہنے لگا:
’’آنیہ ایک سفر میں ہم سفر تھی۔‘‘
کشمالہ نے لمحہ بھر سوچا ، پھر آنیہ کا نمبر کارڈ سے دیکھتے ہوئے اپنے فون پر لکھا اور ساتھ ہی ڈائل بھی کر دیا۔ سرمد نے کشمالہ کے اِس عمل پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
٭
ہاتھوں میں مہندی رچائے، کلائیوں میں گجرے سجائے، پیلا لباس پہنے آنیہ دُنیاجہاں سے بے فکر ہو کر مست سو رہی تھی۔ اُس کا موبائل مسلسل اُسے اُٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ آخرکار موبائل کی گھنٹی اُسے اُٹھانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔ اُس نے غنودگی کے عالم میں کال ریسیو کی:
’’ہیلو۔۔۔‘‘
’’میں اور سرمد سوات ہنی مون منانے جا رہے ہیں۔‘‘
اپنے موبائل پر کشمالہ کی یہ بات سنتے ہی آنیہ کی گھگھی بندھ گئی۔ اُسے شدید دُکھ ہوا۔ اُس کے باوجود وہ تفتیشی انداز میں بولی:
’’آپ کون۔۔۔؟‘‘
کشمالہ نے لمحہ بھر سوچا، پھر بڑے نٹ کھٹ انداز میں کہنے لگی:
’’ ہنی مون کس کے ساتھ منایا جاتا ہے۔۔۔؟‘‘
یہ سنتے ہی آنیہ اُٹھ کے بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنے انداز کو معتبر بناتے ہوئے کہا:
’’Congratulation میری بھی کل رات کو رخصتی ہے۔۔۔ سرمد سے بات کروا سکتی ہیں؟‘‘
کشمالہ نے مسکراتے ہوئے موبائل سرمد کی طرف کر دیا، پھر فاتحانہ انداز سے کہنے لگی:
’’ڈاکٹر آنیہ تُم سے بات کرنا چاہتی ہے۔‘‘
سرمد نے کشمالہ کے ہاتھ سے موبائل لیتے ہوئے اپنے کان سے لگا کر کہا:
’’جی آنیہ جی۔۔۔!!‘‘
’’میں نے بھی سہارا ڈھونڈ لیا ہے۔‘‘ آنیہ نے تلخی سے کہا اور کال کاٹ دی۔ ضبط کے باوجود آنیہ کی آنکھوں سے چند خاموش آنسو نکل آئے۔
٭
منشا کی گاڑیاں فرّاٹے بھرتی چراغ والی کی طرف جا رہی تھیں۔ منشا حسبِ معمول پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی عطا کے چھوٹے بھائی ضادو سے موبائل پر تلخ انداز میں مخاطب تھی:
’’ضادو۔۔۔!! اگر اُس نے قبروں پر مٹی ڈال دی تو تجھے مٹی بھی نصیب نہ ہو گی۔۔۔ آخری بات۔۔۔!! میرے پہنچنے تک اُسے زندہ رکھنا۔‘‘ منشا نے کال کاٹے بغیر ہی موبائل عطا کی طرف بڑھا دیا۔ عطا نے موبائل کان سے لگاتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا:
’’ضادو۔۔۔! جو بی بی سرکار نے بتایا ہے، ویسا ہی ہونا چاہیے۔۔۔ ورنہ۔۔۔‘‘

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles