صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
01/02/13
میں متحدہ عرب امارات کے صدر عزت مآب شیخ زاید النہیان کا ابوظہبی میں انٹرویو لے کر جب 1974ء میں پہلی بار انگلستان گیا ٗ تو وہاںکا ماحول کسی قدر غیر مانوس لگا۔
دیکھاکہ انگریز قریب سے گزرتے ہوئے ایک دوسرے کو ’’ہائے‘‘ کہتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ’’ہائے‘‘ مغربی اقوام کا تکیہ کلام ہے جس کا مطلب ’’سلام کرنا‘‘ ہے۔
ہمارے ہاں یہ رواج فروغ نہیں پا سکا ٗ حالانکہ اسلامی تعلیمات میں سلام اور دعا میں سبقت لے جانے کی بڑی تاکید اور ایک دوسرے کے ساتھ خوش خلقی اور شگفتہ مزاجی سے پیش آنے پر نیکیوں میں اضافے کی بشارت دی گئی ہے۔
میں نے انگلستان میں یہ بھی دیکھا کہ وہاں کے لوگ ایک دوسرے کی تعریف و توصیف میں فیاضی سے کام لیتے ہیں ۔
اگر اُنہیں آپ کی نکٹائی پسند آ گئی ٗ تو آپ کے حُسنِ انتخاب کی داد دیں گے۔
پہلے تو مجھے اُن کی اِس عادت پر تصنع اور بناوٹ کا گمان گزرا اور میں یہی خیال کرتا رہا کہ اِن کے سماجی رویے زیادہ تر مصنوعی ہیں ٗ
لیکن دو چار ہفتے گزر جانے کے بعد مجھے اِس خوشگوار احساس نے اپنی آغوش میں لے لیا
کہ وہاں کی تہذیب میں خوش گفتاری اور قدر شناسی رچی بسی ہے اور یہی اُن کی شادمانی اور زندہ دلی کا راز ہے۔
پاکستانی اہلِ مغرب سے کہیں زیادہ خوش گفتار اور زندہ دل واقع ہوئے ہیں کہ اُن کا مربوط اور مستحکم خاندانی نظام اُنہیں خوشیاں بھی عطا کرتا ہے جس سے مغرب تقریباً محروم ہو چکا ہے۔
بہن بھائیوں اور قریبی رشتے داروں سے ملنے اور اُن کے ساتھ رہنے میں جو راحت اور سکون ملتا ہے ٗ اِس کا کوئی بدل نہیں ٗ
مگر ہمارے معاشرتی رویوں میں توازن اور اعتدال کم اور اُن پر دھندلاہٹ کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے۔
اِس کی بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ ہمارے ہاں قیادت کے معیارات بہت اونچے ہیں جو ہماری سماجی کیفیات سے ہم آہنگی نہیں رکھتے۔
ہماری نظر میں حضرت عمر ص اور حضرت علی ص جیسے حکمرانوں اور حضرت خالد بن ولید ص جیسے سپہ سالاروں کے سوا اور کوئی جچتا ہی نہیں
حالانکہ اُنہیں آقائے نامدار سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ کا قرب حاصل تھا۔
عہدِ حاضر میں بڑا تغیر آ چکا ہے ٗ سماج بدل گیا ہے اور وہ ادارے ناپید ہوتے جا رہے ہیں جو انسان سازی پر مامور تھے
اِس لیے ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اب جوکچھ میسر ہے ٗ اُس کی اصلاح اور قدر شناسی کا عمل اور خیر کی تلاش تیز تر کی جائے۔
پاکستان تو ویسے ہی فوجی اور سیاسی آمروں کے قبضے میں رہا ہے اور دہشت گردی نے
معمول کا نظامِ زندگی اور نظمِ مملکت کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں
یہ شکست و ریخت اِس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ہر بڑے اور فیصلہ کن مرحلے میں تدبر اور
تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔
جنرل مشرف جب تعزیری کارروائی کے خوف سے 5ستمبر 2008ء کو منصبِ صدارت سے مستعفی ہوئے
تو جنرل اشفاق پرویز کیانی کا قومی کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا۔
وہ مزاج اور تہذیبی اقدار میں اپنے پیشرو سے بڑے مختلف ہیں۔
اُنہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی کی حیثیت سے جناب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف
ریفرنس دائر کرنے میں حصہ نہیں لیا جو اپنے باس کی غلط سوچ سے بغاوت کا آئینہ دار تھا۔
فوجی سربراہ بن جانے کے بعد اُنہوں نے فوج کو انتخابات کے عمل سے الگ تھلگ کر لیا
اور جو حکومت وجود میں آئی ٗ اُس کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا
حالانکہ حکومت کے اندر بعض طاقت ور عناصر فوج اور اُس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر
شبخون مارنے کے لیے گھات میں بیٹھے ہوئے تھے۔
وزیر اعظم گیلانی جب پہلی بار امریکہ روانہ ہوئے ٗ تو انتہائی عجلت میں آئی ایس آئی کو
وزیرِ داخلہ جناب رحمن ملک کے تحت کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا
تاہم فوجی قیادت کی طرف سے سخت موقف اختیار کرنے پر حکومت کو اپنا قدم واپس لینا پڑا۔
اسی طرح نومبر 2008ء میں ممبئی پر دہشت گردی کا ہولناک حملہ ہوا ٗ
تو بھارت نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی کو دہلی طلب کر لیا اور
ہماری حکومت نے اُنہیں بھارت جانے کا حکم بھی دے ڈالا۔
اِس پر جنرل کیانی ڈٹ گئے اور پاکستان کو انتہائی خطرناک نتائج سے محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔
صدر آصف علی زرداری نے عالمِ بدحواسی میں یہ پبلک بیان داغ دیا کہ پاکستان
فرسٹ اسٹرائیک کے حق سے بھی دستبردار ہو گیا ہے
لیکن سول سوسائٹی اور فوجی قیادت نے اعلان کیا کہ جنگ کے منڈلاتے ہوئے خطرات
میں ہم ایٹمی حملے میں پہل کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ یہی ہماری سلامتی کی ضمانت ہے۔
انہی دنوں سوات میں طالبان نے اپنی رِٹ قائم کر لی اور اُن کے اسلام آباد تک پہنچنے کے چرچے ہونے لگے۔
جنرل کیانی نے قوم کی حمایت سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا اور جوانوں اور افسروں نے جانوں کی قربانیاں دے کر ریاست کی رِٹ بحال کی۔
اِس کے علاوہ فاٹا اور بلوچستان میں ترقیاتی عمل کے ذریعے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں
اور بستیوں کے درمیان ذرائع آمد و رفت فراہم کرنے کے عظیم کارنامے سرانجام دیے۔
عین اُس وقت جب فوج اپنے سپہ سالار کی قیادت میں وطن کے دفاع اور داخلی دشمن کے خلاف
سردھڑ کی بازی لگا رہی تھی
امریکا نے اُسے زیرِدام لانے کے لیے ستمبر 2009ء میں کیری لوگر بل کا جال بچھایا اور تاثر یہ دیا کہ
پہلی بار عوام کی فلاح و بہبود کے لیے پانچ سالہ اقتصادی امداد کا تحفہ دیا جا رہا ہے
مگر فوجی امداد کے حوالے سے اِس بل میں جو شرائط عائد کی گئیں ٗ اُن کی بنیاد پر امریکہ
فوجی کمانڈ پر قابض ہو سکتا تھا۔
ہماری حکومت جو این آر او کی امریکی بیساکھیوں پر قائم تھی ٗ اُس نے کیری لوگر بل پر شادیانے بجائے
لیکن فوجی قیادت نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے امریکی عزائم بے نقاب کر دیے
اور امریکی کانگرس کو اپنے منصوبوں میں تبدیلیاں لانا پڑیں۔
حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر نومبر 2010ء میں حکومت نے جنرل کیانی کی مدتِ ملازمت میں
تین سال کی توسیع کی جس پر بعض حلقوںمیں چہ مہ گوئیاں بھی ہوتی رہیں ٗ مگر جنرل کیانی نے ملکی سلامتی
جمہوریت کے استحکام اور پس ماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جو زبردست کردار ادا کیا ہے ٗ اُس نے یہ ثابت کر دیا کہ حکومت کا فیصلہ دور اندیشی پر مبنی تھا
کیونکہ جنرل کیانی ایک دانش مند اور نہایت مضبوط اعصاب کے مالک فوجی قائد کے طور پر اُبھرے ہیں
جنہوں نے افغانستان اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں گہرائی پیدا کر لی ہے
چنانچہ قوم کو اُن کی صلاحیتوں کی قدر اور اُن کی قیادت کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔
حیرت ہے کہ جب پاکستان انتخابات کے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے ٗ بھارت لائن آف کنٹرول کی
خلاف ورزی پر تُلا ہوا ہے اور امریکہ ڈرون حملے بند کرنے سے گریز کر رہا ہے
حالانکہ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت اُنہیں کاؤنٹر پروڈیکٹو سمجھتی ہے
تو ایسے میں کرنل (ر) انعام رحیم جنرل کیانی کی توسیع کو غیر آئینی قرار دینے پر کیوں کمر بستہ ہیں۔
بادی النظر میں جنرل صاحب کی مدتِ ملازمت میں توسیع صدرِ مملکت نے
وزیر اعظم کی ایڈوائس پر آئین کے عین مطابق دی تھی اور اِس کی نظیر پہلے سے موجود بھی ہے۔ 1955ء میں جنرل ایوب خاں کو چار سال پر مبنی پوری ٹرم کی توسیع دی گئی تھی
جبکہ 1952ء میں پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کی منظوری دے چکی تھی۔
کرنل صاحب کو اِس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ اُن کا حد سے بڑھا ہوا جوش و خروش
ہمارے سب سے مضبوط اور منظم ادارے پر
ایک ہیبت ناک خود کش حملے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔