15 C
Lahore
Tuesday, April 30, 2024

Book Store

طلب سے تڑپ تک

احساس کے انداز 
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
ہر مسلمان کے دل کی سب سے بڑی تمنا خانہ خدا کی حاضری اور دیدار روضہ رسولﷺ زیارت
و حاضری سے بڑھ کرکوئی  چیز ہو ہی نہیں سکتی
ایک ایسی آرزو جس کے پورے ہونے کے خواب پوری زندگی دیکھے جاتے ہیں جس نے ان مقدس مقامات
کو نہیں دیکھا اور حضور ؐ کی چوکھٹ پر حاضری نہیں دی
پوری زندگی ایک بار شرف باریابی کی تمنا کرتا ہے اور جسے یہ شرف حاصل ہوجائے
وہ بار بار حاضری کی دعا کرتا ہے
جس نے حرمین  شریفین  کی زیارت نہیں کی اس کی تو طلب اور خواہش ہوتی ہے
جو وقت کے ساتھ ساتھ  بڑھتی چلی جاتی ہے
اور جو ایک دفعہ دیکھ لے اس کی تڑپ قابل دید ہوتی ہے ۔طلب اور تڑپ کا یہ سفر
ہزاروں سالوں سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔
کہتے ہیں  حج وعمرہ کرنے والوں کی قسمت پر رشک ہی کیا جاسکتا ہے بلکہ ان معاملات میں
تو شاید ایک حد تک حسد بھی جائز ہے ۔
ایک حدیث مبارک ہے “ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے
اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں ہے  ( صیح بخاری )
مکہ مکرمہ ہی وہ شہر ہے جسے رحمتاللعالمینﷺ کا وطن اور آپ ؐ کی ولادت گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے
یہیں سے اسلام کی آواز بلند ہوئی اور یہی اسلامی تعلیمات کا پہلا مرکز قرار پایا اور
یہاں سے پھوٹنے والی روشنی اہل اسلام کے سینوں کو منور کرتی ہے
مکہ ومدینہ شریف کی  انہیں مقدس زمینوں  اور گلیوں پر حضورﷺ کے قدم مبارک ثبت ہیں ۔
یہاں پر ہی اعلان نبوت کیا گیا ۔۔
کرہ ءارض پر موجود اربوں ان گنت لوگوں کےکعبہ کی دید کے طالب  چہرے اور
بے شمار ترستی آنکھیں ہیں
اور وہ رب کریم اپنی ہر ذی روح کا درد ،کرب اور تڑپ خوب خوب جانتا ہے
صرف انسان ہی نہیں  اسے خبر ہے ہر  بوجھ سے دبے بلبلاتے جانور ،پانی میں ڈوبتی مکھی
اور سانس لینے کے لیے  تڑپتی  مچھلی کی بھی
کسی بڑے  پتھر میں موجود کیڑے کی بھی اور اس تکیے کی بھی جو راتوں کو طلب و تڑپ میں
بہتے آنسوں سے نم ہو جاتا ہے ۔
اپنے گناہوں پر شرمندگی اور پھر اس کا اپنے رب کے سامنے اقرار اور اس اقرار کے بعد
اس کی رحمت کی طلب و تڑپ اور تمناء استغفارشاید ہی اس سے زیادہ لطیف کیفیت انسان پر
طاری ہو سکتی ہے
اس سے خوبصورت احساس اور کیا ہوگا کہ بندہ اپنے مالک کے آگے صدق دل کے ساتھ حاضر ہو
اور اس کی آنکھ سے اس احساس سے کہ وہ اپنے مالک کے سامنے ہے آنسو جاری ہو جائیں
بس اسی ایک لمحے کی تڑپ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی جو ہماری خواہش میں شدت پیدا کرتی چلی جاتی ہے ۔
اور پھر اذن باریابی ملے تو وہ  بکھرے بالوں اور بےقرار چہرہ لیے دو بے سلے کپڑوں پہن کر
کعبہ کی سمت “لبیک لبیک  اللھم لبیک ” پکارتا ہوا پوری دنیا سے ناتا توڑ کر پروانہ وار دوڑتا ہے
خانہ خدا کے گرد چکر لگا کر دیوانہ وار طواف کرتا ہے
یہی  وارفتگی  کا عا لم  اور بےقراری ہمارے رب کو پسند ہے۔بندے کی یہی تو ادا  اور تڑپتی دعا ہے جو اسےشرف  قبولیت سے سرفراز کر دیتی ہے
اور وہ  پاک ذات اسے اپنے گھر بلا نے کا اعزاز عطا کر دیتی ہے اور وہ عاشقانہ انداز میں
تلبیہ کی صدائیں بلند کرتا اپنے عشق ومحبت میں سرشار مسجد حرام پہنچ کر جب
پہلی نظر کعبۃاللہ پر ڈالتا ہے
تو بے اختیار آنکھیں چھلک پڑتی ہیں  اپنی  پہلے سے سوچی ہوئیں دعائیں بھول کر
اسی مرکز تجلیات کے سحر میں گم ہو جاتا ہے اور
پروانہ وار تلاش محبوب میں دیار محبوب کے چکر لگانا اس کا کام بن جاتا ہے
حجر اسود تک پہنچنے تک  تلبیہ  جاری رہتا ہے
پھر طواف کے دوران رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان بلند آواز یہ دعا کثرت سے پڑھتا ہے
اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا کی بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت کی بھی
اور ہمیں آگ کے عذاب سے بھی بچائیے ۔پھر  حجر اسود کا بوسہ اور مقام ابراہیم پر
دو سجدے اس کی حاضری کی قبولیت ہوتے ہیں
اور زمزم  کا معجزاتی پانی اس کا پہلا انعام ہوتا ہے جسے خوب سیر ہوکر پینے کی ہدایت ہے
پھر وہ صفا مرویٰ کے درمیان چل اور  دوڑ کر حکم محبوب سے سعی کرتا دکھائی دیتا ہے
اور حضرت حاجرہ ؒ  کی سنت کی پیروی کرتے ہوے  اپنے دلی احوال کو باری تعالیٰ کے حضور پیش کر دیتا ہے
کہ  میرے پاس تیرے دروازے کو کھٹکھٹانے کے علاوہ کوئی دوسرا حیلہ نہیں
اگر اس در سے بھی لوٹا دیا گیا تو کون سا دروازہ ہے جس کو کھٹکھٹاوں ؟”گو خانہ کعبہ کی زیارت
اور اسے دیکھنا بھی ایک اہم عبادت ہے جو قرب خداوندی کا باعث بنتی ہے
ان لمحات میں فاصلے مٹ جاتے ہیں اور بندے کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؒ سے روایت ہے کہ
رسول اللہ ؐ نے فرمایا ” تم حج اورعمرہ باربار کرتے رہا کرو کیونکہ یہ دونوں فقر ( غربت )
اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے آگ کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل
اور زنگ کو صاف کرتی ہے “( ترمذی ؛۷۳۸)
ایک اور حدیث میں حضور نے فرمایا کہ ” حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اگر وہ اللہ سے دعا کریں
تو اللہ ان کی دعا قبول کرے اور اگر وہ اللہ سے مغفرت طلب کریں تو اللہ ان کی مغفرت فرما دے ”
( ابن ماجہ : ۲۸۸۳)
مکہ شریف کی زیارات بھی  عمرہ کا ایک اہم  جزو ہیں جبل ابو قیبیس( جہاں شق القر کا معجزہ واقع ہوا )
جنت المعلی(قدیم قبرستان جہاں  حضرت خدیجہ ؒ سمیت بےشمار عظیم ہستیاں مدفن ہیں  )
حضورﷺ کا مقام پیدائش ،غار حراء(جہاں  وحی نازل ہوئی )
 غار ثور ،غار مرسلات ،دارارقم ،جبل رحمت ،میدان منیٰ ،عرفات اور مزدلفہ ،  مسجد نمرہ
(جہاں آخری خطبہ دیا گیا
مقام بیت الرضوان  و صلح حدیبیہ اور بےشمار متبرک مساجد  مسجد کیف ،مسجد عائشہ ؒ
مسجد جن ،مسجد الرایتہ ، مکان حضرت خدیجہ ؒ اور مکان حضرت  صدیق اکبر ؒ شامل ہیں ۔
اور پھر  زندگی کے وہ قیمتی لمحات  آتے ہیں جب مدینے کے سفر کا آغاز ہوتا ہے
میرے پیارے نبی کا شہر جس کا نام لیتے اور تصور کرتے ہی ایک خاص احساس رگ وپے میں دورنے لگتا ہے
دل کو یقین نہیں آرہا ہوتاکہ ہم اس سرزمین کی جانب جا رہے ہیں جہاں آنے کی تمنا دنیا کے
اربوں لوگ پوری پوری زندگی کرتے ہیں
جو سراسر رحمت وبرکت ہے پورا سفر ایک اضطراب کی کیفیت میں  گزرتا ہے سنگلاخ پہاڑوں
اور صحراوں سے گزر کر کھجوروں کی سرسبز وادی یثرب پہنچتے ہی سبز گنبد خضریٰ اور
اس کے میناروں پر نظر پڑتی ہے
جو گنبد  نہ  سونے کی اینٹوں سے بنا ہے اور نہ جوہرات جڑے ہیں
لیکن اس جیسا گنبد اور مینار دنیا میں اور کوئی نہیں جو تعمیراتی سادگی کے باوجود ایک
خاص کشش اور نور رکھتا ہے تو لبوں پر بے اختیار درود وسلام
اور آنکھوں میں آنسوں کی برسات کے ساتھ ہی ایک عجیب ٹھنڈک اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔
لوگوں وہاں بیٹھے اس کےدیدار ہی کرتے رہتے ہیں اور پھر وہ لمحہ آن پہنچتا ہے
جب حضورﷺ کی بارگاہ میں حاضری اور سلام پیش کرنے کے لیے باب السلام سے داخل ہوتے ہیں
اور بلند ہاتھوں کے ساتھ  درود سلام پڑھتے اشک بہاتے روزے کی سنہری جالیوں کو اپنی آنکھوں سے
چومتےچند لمحے وہاں رک کر اپنا اور سب کا سلام پیش کرتے ہوے  باب دعا پہنچ جاتے ہیں
جہاں دعا کے لیے بےشمار لوگ اشکوں کے نذرانے پیش کرتے ہیں اور
اپنی شفاعت کی درخواست پیش کرتے ہیں
منبر رسولﷺ کے ساتھ  جنت کے ٹکڑے ”  ریاض الجنہ” میں
دو نفل ہماری زندگی کا قیمتی سرمایہ بن جاتے ہیں۔
جی چاہتا ہے کہ یہیں رک جائیں اور ان فضاؤں میں ان کے قدموں میں اپنی  زندگی بیتا دیں
اور   یہ انوار مدینہ سمیٹ لائیں ۔
یہی تو وہ  ہم سب کی طلب اور تڑپ ہے جو پوری زندگی بے چین  کئے رکھتی ہے ۔
مدینہ شریف کی زیارات عمرہ کا لازمی جزو ہیں
جن میں جنت بقیع  جہاں بےشمار صحابہ کرام ،رضوان اللہ ،تابعین ،تبع تابعین ،اولیا کرام
اور بزرگان مدفن ہیں اور سب سے اہم بنت رسول ؐحضرت فاطمہ زہرا ؒ،
بے شمار اہل بیت کے علاوہ حضرت عثمان بن عفان ؒ مدفن ہیں اور مقام احد ،جنگ خندق کی مساجد
مسجد قباء ( جہاں کے دونفل عمرہ کے ثواب کے برابر ہیں )
مسجد قبلتین بھی ان مقدس مقامات میں شامل ہیں مقام بدر اورمقام  خیبر بھی ہیں ۔
۲۰۰۶ء میں حج کے بعد سے میری  بھی تڑپ دیدار روضہ رسولﷺ اور خواہش سلام  عمر کے
ساتھ ساتھ دن بدن بڑھتی چلی جارہی تھی
رئٹائرمنٹ کے بعد اس شدت میں اضافہ ہونے لگاپھر اچانک سترہ سال کے بعد میری دعا رنگ لائی اور رحمت خداوندی جوش میں آئی اور مجھےشرف  باریابی حرمین شریف کی اجازت عطا ہوئی
اور میں بادیدہ تر ۲۹ جنوری ۲۰۲۳ء کو شرمندہ شرمندہ   اپنے سر پر گناہوں کے انبار لیے
سوے حرم روانہ ہوا تو یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ “کعبہ کس منہ سے  جاؤ گے غالب ۔
۔شرم تم کو مگر نہیں آتی “مگر اسکے کرم  اور رحم پر یقین رکھتے ہوئے حوصلہ بھی مل رہا تھا
کہ وہ ستر ماوں سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرنے والا رب ہےوہی تو معاف کرنے والا ہے  ۔
اس  مبارک سفر کی  لمحہ لمحہ  مکمل اور روح پرور روئیداد قسط وار لکھوں گا  ۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles