31 C
Lahore
Friday, April 19, 2024

Book Store

لالو کا خوف

احساس کے انداز

لالو کا خوف

دشوار گزار راستے ہی خوبصورت منزل کی طرف جاتے ہیں

تحریر ؛۔جاوید ایاز خان

دادا جان کی بے پناہ محبت کی ہی وجہ تھی کہ وہ مجھے اپنی نگاہوں کے سامنے اور اپنے ساتھ ساتھ رکھتے ۔
فجر کی نماز پر ساتھ لے کر جاتے اور سمجھاتے کہ معمولی سے معمولی چیز بھی اللہ سے مانگتے ہیں ۔
میری دعا کے دوران میرے اُٹھے ہوئے ہاتھوں میں چپکے سے کوئی سکہ ڈال دیتے ۔مجھے یقین ہو جاتا کہ میری دعا قبول ہوئی ہے۔ جب میں انہیں بتاتا تو کہتے اللہ سب کو دیتا ہے۔ کوئی مانگنے والا تو ہو ؟
ایک دفعہ مجھے ایک کھلونا پسند آیا مگر اس کی قیمت اس وقت ایک روپیہ تھی۔ میں  نے ان سے خواہش کا اظہار کیا تو کہا صبح اللہ سے مانگیں گے ۔
پھر صبح کی دعا میں ایک دم وہ روپیہ میری ہتھیلیوں میں آ گرا تو میں خوشی سے اچھل پڑا۔ میرے ننھے سے ذہن میں یہ یقین کہ اللہ ہی دیتا ہے، ایسا آیا کہ اب بڑھاپے میں بھی جب مجھے کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی طلب ہوتی ہے ۔
تہجد میں جا کر اپنے رب سے مانگتا ہوں۔ اس پاک ذات نے آج تک مجھے مانگنے زیادہ دیا اور بغیر مانگے بھی دیا ۔
میرے بڑے ابا اب اس دنیا میں نہیں مگر ان کے دئیے ہوئے سبق میری عملی زندگی میں میرے لیے مشعل راہ بنے اور کامیابی کا زینہ ثابت ہوئے۔
ایسا ہی ایک واقعہ یہ ہے جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی ۔
میری نانی جان کا گھر ہمارے گھر سے تقریباً ایک کلو میڑ دور تھا ۔میرے خالہ زاد بھائی شکیل خان میرے دوست بھی تھے اس لیے دن میں ایک دو مرتبہ مجھے وہاں جانے کی اجازت تھی۔
راستے میں کنجڑوں کا ایک محلہ چاردیواری کے اندر تھا اور مین پھاٹک پر انہوں نے ایک خونخوار قسم کا کتا رکھا ہوا تھا۔
جس کا نام لالو تھا جو ہر وقت وہاں بیٹھا رہتا۔ بڑے لوگوں کو دیکھ بھونکتا۔  چھوٹے بچے ڈر کر بھاگتے تو ان کے پیچھے دوڑ پڑتا ۔
مجھے اور شکیل خان کو کئی مرتبہ اس نے اسی طرح خوفزدہ کیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں ۔اب لالو کے خوف سے ہمیں آنے جانے کے لیے ایک لمبا چکر کاٹنا پڑتا ۔
مجبوراً ایک لمبے راستے کو اختیار کرنا پڑا ۔ایک دن اچانک بڑے ابا ( دادا جان ) سے مڈ بھیڑ ہوگئی انہوں نے پکڑ لیا اور پوچھا کدھر سے آ رہے ہو ؟
تو میں نے جواب دیا نانی اماں کے گھر گیا تھا۔  تو ناراض ہوئے اور بولے تمہاری نانی اماں کے گھر یہ راستہ تو نہیں جاتا مجبوراً لالو کے خوف کا تمام قصہ انہیں بتانا پڑا ۔
انہوں  نے کہا، ٹھیک ہے میں صبح تمہارے ساتھ چلوں گا اور اس لالو کا انتظام کروں گا ۔
دوسری صبح انہوں اپنی بندوق اور ایک لاٹھی ساتھ لی اور مجھے ساتھ لے کر کنجڑوں کی محلے پہنچے۔
کوئی سو فٹ دور ٹھہر کر بندوق میں کارتوس ڈالا اور مجھے لاٹھی دی کہ جاؤ۔
اگر یہ بھونکے یا تمہاری جانب بڑھے تو اسے لاٹھی مارنا میں یہاں پر ہی ٹھہرتا ہوں اگر لالو نے تمہیں کچھ کہا تو اسے گولی مار دوں گا ۔
میں جانتا تھا کہ بڑے ابا انڈین آرمی میں رائفل شوٹنگ کے چیمپئن رہ چکے تھے اور بہترین نشانہ بازی کے تمغے حاصل کر چکے تھے۔
وہ یقیناً لالو کو مار دیں گے۔ اس لیے بے دھڑک چل پڑا جب لالو کے نزدیک پہنچا، تو حسب معمول لالو نے بھونکنا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ میری جانب بڑھتا میں نے بے خوف و خطر اس کی جانب لاٹھی گھمائی۔
خود بھی اس کی طرف بڑھا مجھے پتا تھا کہ بڑے ابا بندوق لیے میری پشت پر موجود ہیں۔
لالو یکایک اپنی جگہ پر ٹھہر گیا اور بتیسی نکال کر غرؔانے لگا۔ وہ مجھے ڈرانا چاہتا تھا مگر میں مزید آگے بڑھا تو وہ بھونکتا ہوا پیچھے بھاگ نکلا۔
میں آرام سے گلی پار کر گیا بڑے ابا نے کہا واپس آؤ۔
واپسی پر پھر اس نے ڈرانے کی کوشش کی مگر میری لاٹھی اور جذبہ دیکھ کر پھر دوڑ گیا۔ واپس بڑے ابا کے پاس آیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا اب پھر جاؤ لیکن بغیر لاٹھی کے اگر یہ تمہاری طرف بڑھے تو دوڑنا مت،
بلکہ زمین سے پتھر اُٹھا کر اسے مارنے کا اشارہ کرنا میں پھر گیا تو اس  نے پھر وہی حرکت کی مگر میری جرات اور ہاتھ میں پتھر دیکھ کر پھر ڈر کر بھاگ نکلا ۔میرا حوصلہ بڑھ چکا تھا۔
میں پھر واپس آیا اور تیسری مرتبہ مجھے پتھر اُٹھانے اور اشارہ کرنے کی ضرورت بھی پیش نہ آئی۔
وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا اور بتیسی نکال کر غرایا مگر میری جانب نہ بڑھا۔
یہ عمل بڑے ابا نے کئی مرتبہ دہرانے کو کہا۔
آخری مرتبہ تو لالو  نے مجھے دیکھا اور چپ چاپ گردن جھکا کر بیٹھا رہا تو میں نے خود اسے ڈرانے کے لیے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ وہ دوڑ گیا ۔
شاید وہ اب مجھ سے ڈرنے لگا تھا ۔میرا خوف ختم ہو چکا تھا ۔
ہم دادا پوتے واپس آ رہے تھے تو بڑے ابا بولے۔
بیٹا کبھی کتوں کے ڈر سے راستے نہیں چھوڑے جاتے۔ تمہاری زندگی میں نہ جانے کتنے لالو چہرے بدل بدل کر تمہارا راستہ روکیں گے۔
تم  نے خوف سے راستہ نہیں بدلنا۔ ہمیشہ سیدھا راستہ اختیار کرنا۔ بلکہ زندگی میں مشکل حالات کا حوصلے اور بہادری سے سامنا کرنا چاہیے ۔
اپنے مقصد کے حصول کے لیے لڑنا ہے اور اپنے راستے کی روکاوٹیں دور کرنی ہیں ۔ یاد رکھنا بہادروں کے راستے نہیں روکے جا سکتے۔ بزدلوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوتی۔
دراصل لالو خود تم سے خوفزدہ تھا۔ تمہیں ڈرا کر اپنا خوف دور کرنا چاہتا تھا۔ بلامقصد حملہ کرنے والا بزدل ہوتا ہے ۔
اس لیے کتوں اور سانپوں کے ڈر سے راستے ، خونخوار جانوروں کے خوف سے جنگل ،مگر مچھوں کے خوف سے سمندر کبھی نہیں چھوڑے جاتے اور گولیوں کی بوچھار سے ڈر کر محاذ جنگ سے دوڑا نہیں جاتا ۔
یاد رکھو کتوں کے خوف سے راستے بدلنے والے کھبی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔
کتے بھونکتے رہتے ہیں۔ قافلے چلتے رہتے ہیں۔
دشوار گزار اور مشکل راستے ہی خوبصورت منزلوں کی جانب جاتے ہیں ۔
موت اور زندگی خدا کی جانب سے دی گئی ہے، جس کا وقت مقرر ہے ۔
ہاں جب تک وقت مقررہ نہ آ جائے، زندگی خود آپ کی حفاظت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دو عالمی جنگوں میں حصہ لینے اور بہادری کے بےشمار فوجی اعزازات اپنے سینے پر سجانے کے باوجود وہ محفوظ رہے ۔
صرف ایک گولی کان کو چھید کر گزر سکی اس لیے جو بھی حالات و واقعات ہوں۔ کامیابی، ناکامی، عزت ،ذلت ،زندگی ،موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اور کسی سے نہیں ڈرتا ۔
مجھے بڑے ابا کی یہ بات بہت اچھی لگی اور پھر اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی سے خوفزدہ نہیں ہوا۔
بے شمار لالو میری راہ میں آئے مگر میں نے اپنے راہ کی ہر رکاوٹ سے فرار کے بجائے مقابلہ کر نے کو ترجیح دی۔ یہ جان لیا کہ کامیابی کے لیے خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنا ہے، تو خوف ہمارے خوابوں اور ارادوں کو پورا ہونے سے نہیں روک سکتا ۔
کیونکہ ہمارا خدا ہماری حفاظت کر رہا ہے ۔ہماری نئی نسل کو آج اسی بے خوفی اور بہادرانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
انہیں یہ باور کر لینا چاہیے کہ طاقت اور پانی اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ کوئی روکاوٹ یا ڈر ان کا راستہ نہیں روک سکتا ۔
اپنے آپ کو ہر لحاظ سے اتنا مضبوط کریں کہ منزلیں خود ان کے قدم چومنے پر مجبور ہو جائیں ۔

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles