20 C
Lahore
Tuesday, November 12, 2024

Book Store

کھوکھلے بندے

عبرانی افسانچہ

🎀 کھوکھلے بندے ( The Hollow Men ) 🎀

ایٹگر کریٹ ( Etgar Keret )

اردو مترجم ؛ قیصر نذیر خاورؔ

میں جب ننھا بچہ تھا ، تو ہمارے گھر ہر طرح کے لوگ آتے اور سامنے والے دروازے پر دستک دیتے ۔ میرے والد دروازے میں بنے ننھے سوراخ سے باہر جھانکتے لیکن دروازہ نہ کھولتے ۔
لوگ دروازے پر دستک دیتے رہتے۔
اس کو پاگل پن کی حد تک پیٹتے اور میں ان سے خوفزدہ ہو جاتا۔
میرے والد، لیکن ، میرے پاس آتے اور قالین پر میرے پاس لیٹ جاتے ۔
ان کی پشت پیانو کی طرف ہوتی اور وہ مجھے گلے کے ساتھ لگا کر زور سے بھینچتے ہوئے، سرگوشی کرتے،
” ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ تو بس کھوکھلے لوگ ہیں۔“
اور پھر وہ میرے کان میں کہتے،
” اے ملاح، دروازہ کھولو ۔ ہمیں پتا ہے کہ تم وہاں ہو ۔ “
اور ایک لمحے بعد ہی لوگ وہی کہنے لگتے جو میرے والد نے کہا ہوتا ، لیکن وہ اسے اونچی آواز میں دہراتے ۔
پھر وہ گھر کے ارد گرد چند بار چکر لگاتے اور بند دروازے باہر کی طرف سےکھولنے کی کوشش کرتے ۔ میرے والد میرے کان میں بُڑبُڑ کرتے تو وہ بھی باہر اسی طرح بُڑبُڑانا شروع کر دیتے جیسے یہ میرے والد کے کہے کی بازگشت ہو ۔
” تم نے دیکھا ۔ “
والد پھر سے سرگوشی کرتے ۔
” ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ کھوکھلے لوگ ہیں۔  ان کے جسم نہیں ہیں اور یہ بس آوازیں ہیں ۔“ اور پھر میرے والد سرگوشی کرتے۔
” دیکھو ملاح ، ہم دوبارہ آئیں گے تم نے غلط لوگوں سے پنگا لیا ہے ۔ “
اور پھر وہ ان کے پیچھے پیچھے ان کے کہے الفاظ دہراتے ۔
یہ کھوکھلے لوگ ہمیشہ واپس آتے رہتے اور ہم ان سے چھپ جاتے ۔
اور پھر میری ماں آواز نکالے بِنا ہی مر گئی، لیکن ان کا جسم تھا ، اور ہم اسے دفنانے کے لیے گئے ۔ ہم ساتھ میں پارکڈھندڑ* بھی لے کر گئے جو ان کی میت پر بین کر سکتا تھا اور میرے والد نے مجھے کتاب میں دکھایا کہ یہ بین اصل میں کیا تھے۔
وہ بندہ بھی انہیں میں سے ایک تھا ۔
تب ایک ہفتہ خاموشی چھائی رہی، لیکن اس کے بعد وہ پھر آئے ۔ ہم ایک کونے میں دبکے رہے ۔ بعض اوقات میرے والد وہی کچھ کہتے، جو وہ بولتے تھے اور کبھی میں یہ بولتا تھا ۔
میں اپنے آپ میں اس بات پر حیران ہوتا کہ پہلے میں ان کی وجہ سے خوفزدہ رہتا تھا لیکن اب میرے الفاظ ان سے یوں ٹکرا کر واپس آتے جیسے ٹینس کا گیند دیوار سے ٹکرا کر واپس آتا ہے۔
یہ سب ساکت اور بے معانی تھا ۔
پھر میرے والد بھی پیانو کے پاس والے کونے میں مر گئے.
میں نے انہیں اسی طرح گلے سے لگا کر بھینچا ، جس طرح وہ تب مجھے گلے لگا کر بھینچتے تھے۔ جب میں ڈرا کرتا تھا ۔
ہم نے جب انہیں قبر میں اتارا تو وہ خاموش تھے ۔
وہ تب بھی خاموش تھے، جب پارکڈھندڑ* نے بین ڈالے ۔ بین جنہیں میں کتاب کی وجہ سے جانتا تھا۔
وہ تب بھی خاموش تھے جب ہم  نے انہیں قبر میں اتارا اور انہیں مٹی سے ڈھانپ دیا ۔
تب ان کے بعد ، میں خاموش تھا کیونکہ جب سب کچھ کہا اور کیا جا چکا ، تو مجھے لگا کہ میں بھی انہی میں سے ایک تھا ۔


* پارکڈھندڑ = وہ پیشہ ور بندے جو کسی کی موت پر ‘ پِٹ سیاپا ‘ کرنے کے لیے خصوصی طور پر بلائے جاتے ہیں ۔
یہ سندھی زبان کا لفظ ہے ویسے ہی جیسے گجراتی میں ‘ پِٹ سیاپا ‘ کرنے والی عورتوں کو رودالی کہتے ہیں ۔


درج بالا افسانچہ ایٹگر کریٹ کے دوسرے مجموعے ’ Ga’agu’ai le-Kissinger ‘ ( کیسنجر یاد آتا ہے ۔ )
شائع شدہ 1994 ء سے لیا گیا ہے ۔ یہ اس مجموعے کی چوتھی کہانی ہے ۔
مترجم کی  کتاب ’’ جھوٹ کی سرزمین اور دیگر افسانے ‘‘ سے

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles