20 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

چاہت گلابوں سی

” میری چاہت گلابوں کی“ ( نئے افق جون 2017ء) اپنے شائع شدہ افسانوں میں سے یہ افسانہ بھی مجھے بہت پسند ہے کیونکہ یہ افسانے سے کہیں زیادہ حقیقت پر مبنی ہے 
(شہباز اکبر الفت)
شہباز اکبر الفت
شہباز اکبر الفت

”میری چاہت گلابوں سی“

کچھ رشتے، ناطے، نام کے، حوالوں کے محتاج نہیں ہوتے، احساس کی ڈور انہیں اس قدر مضبوطی سے
باندھ دیتی ہے کہ الگ ہونے اور دور چلے جانے کا تصور بھی محال ہو جاتا ہے
میرا اور شازیہ کا تعلق بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ہمارے درمیان دوستی تھی نہ دشمنی۔ محبت اور نہ ہی نفرت۔ ہوزری کی ایک فیکٹری میں ہم صبح ملے، اجنبیت کی دیوار دوپہر کے وقت اس لمحہ ڈھے گئی جب اس نے ٹفن کھولا۔ انڈے پراٹھے کی اشتہا انگیز خوشبو جونہی میرے نتھنوں سے ٹکرائی، میں نے پلٹ کر دیکھا۔ اس  نے مسکرا کر جھٹ کھانا میرے آگے رکھ دیا۔
یہ اس غیر محسوس تعلق کی ابتداء تھی جس نے آگے چل کر محبت جتنی وسعت اختیار کر لی۔ ایک بڑی سی میز پر, ایک ساتھ کھڑے ہو کر کام کرتے ہوئے شاید دل بھی ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ کم از کم میرا تو یہی حال تھا۔
خاص طور پر جب وہ زندگی سے بھرپور قہقہہ لگاتی، میرا دل اس کے عارض پر پڑنے والے گڑھوں میں ڈوب ڈوب سا جاتا۔
محبت کی کہانی کہیں بھی، کہیں سے بھی شروع ہو سکتی ہے۔ کسی گھر، دفتر، فیکٹری، پارک، اسکول، اسٹاپ حتیٰ کہ کوئی عام سا فٹ پاتھ بھی کسی پیار کرنے والے لئے وصل کا مقام بن سکتا ہے
یہ کبھی اور کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔  مال و دولت، جاہ و حشمت ، رنگ، نسل ، مذہب اور قوم نہیں دیکھتی۔ دل تو کسی مہندی والے ہاتھوں سے بنے پراٹھے، گرما گرم چائے ، تلسی سپاری اور کوکومو کے ایک پیکٹ پر بھی ہار سکتا ہے
محبت انسانی خمیر میں شامل، خیر سے گندھا ہوا، وہ انمول جذبہ ہے جو دل کی دھڑکن اور سانس کی ڈور سے کسی اٹوٹ اور دائمی رشتے کی طرح جڑا ہوتا ہے۔
یہ امجد جاوید کے ”بے رنگ پیا”، محمود ظفر اقبال ہاشمی کے ”سفید گلاب” اور سباس گل کے ”لفظوں میں تو دل کا سجدہ ہے”، قوس و قزح کے سارے رنگ اس کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں۔
اس کی خوشبو سے روح معطر جبکہ اس پر ایقان بندے کو رب کے قریب لے جاتا ہے۔
یہ تو ایک بے موسم پھل ہے جو پت جڑ، ساون، بسنت اور بہار کے سارے ذائقے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
وہم و گماں، زباں و بیاں اور زماں و مکاں کی قید سے آزاد، خلائے بسیط کی وسعتوں تک میں پھیلی ایک لامحدود نعمت ہے، جو ازل سے ابد تک ہمیشہ موجود رہنے کے لئے بچھا دی گئی ہے۔
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ محبت دراصل ہے کیا؟ یہ کس طرح دل پر وار کرتی اور کتنے رنگ بدلتی ہے؟
محبت ، وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر ٹھنڈی آہیں بھرنے، غمگین گانے سننے، المیہ شاعری، ناول اور افسانے پڑھنے کا ہی نام نہیں، یہ کوئی کھلونا بھی نہیں کہ پسند آنے پر اسے پانے کے لئے دل بچوں کی طرح مچل جائے۔
محبت ہونا بھی ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ یہ تو ایک عطا ہے، گوہر نایاب، جو صرف نصیب والوں کو ہی ملتا ہے۔
محبت تو بابا بلھے شاہؒ، وارث شاہؒ، سچل سرمستؒ، رحمان باباؒ کے صوفیانہ کلام، شاہ حسینؒ کی کافیوں میں ملتی ہے، جنہیں سن کر ہاتھ پاؤں اور دل و دماغ وجد میں آ جائیں۔
io تو شاید ہما نامی پرندے جیسی ہوتی ہے جس کے سر پر سوار ہو جائے اسے بادشاہ بنا دے، یا پھر پارس پتھر کی طرح جو لوہے کو چھو کر بھی سونا کر دے۔
محبت کے لئے صرف ایک چیز ضروری ہوتی ہے، اور وہ ہے ایک پیار بھرا دل، جو میں پہلی ہی نظر میں اس کے آگے ہار بیٹھا تھا۔
اسے پھولوں سے پیار تھا۔ گلابوں سے عشق۔ گلاب کی اقسام اور خواص کے بارے میں اس کی معلومات بھی خاصی حیرت انگیز تھیں۔
خاص طور پر میرے لئے۔ وہ باتونی اس قدر روانی سے بولتی تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اس کی ہر بات کا یقین کرنا پڑتا۔
۞۞۞۞
فیکٹری کے سبزہ زار میں فوارے کے پاس، پھولوں کی وہ باڑھ پہلی بار اسی نے مجھے دکھائی تھی جس میں نیلے، پیلے، سرخ، گلابی اور سفید رنگ کے مہکتے ہوئے گلاب کے پھول دل و دماغ کو معطر کر دیتے۔
گلابوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ بہت پرجوش ہو جایا کرتی۔ اس کا چہرہ کھل کھل سا جاتا اور وہ دور کہیں آسمان کی وسعتوں میں کھو جاتی۔ ایسے وقت میں اس کے گلاب چہرے کو تکتے رہنا میری سب سے بڑی خوشی ہوتی۔
” سرخ رنگ کا گلاب محبت کی علامت ہوتا ہے۔“ اس نے گویا انکشاف کیا۔
”اچھا! اور یہ گلابی رنگ کا؟“ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
” گلابی رنگ کا گلاب دوستی کا اظہار کرنے کے لئے دیا جاتا ہے۔“ اس نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔
”اور نیلا گلاب؟“ اب کی بار میری نظر ایک مہکتے ہوئے نیلے گلاب پر پڑی تھی۔
” نیلے گلاب کا تو مجھے نہیں پتا۔ “ اس نے کندھے اچکائے۔
”اور سفید گلاب؟“ ابر کی طرح اجلے اور شفاف سفید گلاب پر میری نظر جم کر رہ گئی۔
” سفید گلاب اپنے نام اور رنگت کی طرح تقدس اور پاکیزگی کی علامت ہوتا ہے۔“ اس نے کہتے ہوئے بڑے احترام سے سفید گلاب کا پھول توڑا اور چوم کر بالوں میں سجا لیا۔
ایک دن میں نے پیلے گلاب کی خاصیت پوچھی تو وہ ہونٹ سکیڑ کر لاپروائی سے بولی۔
” پیلا گلاب نفرت کی علامت ہوتا ہے۔“
”ہائیں! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی پھول نفرت کی علامت ہو اور وہ بھی گلاب کا؟“ میں  نے احتجاج کیا۔
پتا نہیں، میں نے تو یہی سنا ہے۔“ اس نے ٹالنا چاہا۔
”غلط، کس سے سنا؟ بتاﺅ۔“ میں نے پہلی بار کھلم کھلا اختلاف کیا۔ میرے دل کو ٹھیس پہنچی تھی۔ باقاعدہ بحث پر اتر آیا۔
”چھوڑو بھی۔ اگر یہ پھول تمہیں یہ محبت کی علامت لگتا ہے تو تم اپنی محبوبہ کو پیلا گلاب دے کر اپنے پیار کا اظہار کر دینا۔“ اس نے ہنس کر اپنی طرف سے بات ہی ختم کر دی۔
۞۞۞۞
اس گلابوں جیسی لڑکی کے لئے محبت کا شگوفہ کب کھل کر مہکتا ہوا گلاب بنا؟ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ اس کی خوشبو نے تن اور من کو مہکا سا دیا تھا۔ اس کے سوا کچھ نظر بھی نہیں آتا تھا۔
ہر طرف گلاب کی کیاریوں کے خوش رنگ مناظر، فضا میں رچی خوشبو اور موسیقی کی مدھر تان سے زندگی بہت خوب صورت لگنے لگی تھی۔ کئی بار سوچا، ایک قدم آگے بڑھوں، گھٹنا ٹیکوں، سر جھکاؤں اور ایک سرخ گلاب آگے بڑھا کر چاہت کا اظہار کر دوں۔
عقل کہتی تھی کہ یہ ممکنات میں سے ہے مگر ایک عاشق صادق کے لئے یہ مرحلہ بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ میں اتنی ہمت کہاں سے لاتا؟ کھو دینے کا ڈر ہمیشہ پالینے کے جذبے پر حاوی ہو جاتا۔
وسط اپریل کی ایک چمکیلی صبح ، کیاری کے پاس سے گزرتے ہوئے سرخ گلاب کو دیکھ کر میں ایک لمحہ کے لئے رک گیا۔ اُمید و بیم کی ایک ملی جلی کیفیت کے ساتھ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے توڑا اور کچھ کہے بغیر اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس کا ردعمل خاصا سخت اور قدرے غیر متوقع تھا۔
”یہ کیا ہے؟“
”گلاب کا پھول۔“ میں  نے آہستہ سے کہا۔
”مجھے کیوں دے رہے ہو؟“ اس نے سرد لہجے میں پوچھا۔
”تمہیں پسند ہے نا۔“ میں ہڑبڑا سا گیا۔
”تو؟“ اس نے گھورا۔
اس کی آنکھوں کی تو ویسے ہی تاب نہیں لا پاتا تھا۔ جواب دینے کے بجائے خاموشی سے سر جھکا لیا۔
”سرخ گلاب دینے کا مطلب سمجھتے ہو؟“ اس کا لہجہ مزید سخت ہو گیا۔
”جی۔“ میں نے جی کڑا کے کہہ دیا۔ کچھ لمحے کے لئے ہر طرف سکوت طاری ہو گیا۔
”تو پھر ؟“ اب کی بار اس کا لہجہ تھوڑا نرم پڑ گیا۔
”پھر یہ کہ تم سے پیار کرنے لگا ہوں اور اپنا بنانا چاہتا ہوں۔“ اب اظہار میں تاخیر کا کوئی مطلب نہیں تھا۔
” رک جاﺅ ایاز۔ ایسا مت کرو۔ میں نے تمہارے بارے میں ایسا کبھی نہیں سوچا۔“ میرے دو ٹوک اظہار پر اس نے احتجاج کیا۔
” بات اب سوچنے سمجھنے کی حد سے آگے نکل گئی ہے شازی۔ یقین کرو اگر تم نہ ملی تو مر جاﺅں گا۔“ آنسو بے اختیار ہی بہنے لگے تھے۔
”شٹ اپ۔۔ کوئی کسی کے لئے نہیں مر تا۔ آئندہ میرے ساتھ اس موضوع پر بات مت کرنا، سمجھے؟“ وہ چلائی اور پاﺅں پٹخ کر آگے بڑھ گئی۔
۞۞۞۞
قربتیں بڑھنے سے فاصلوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کچھ دیر بعد ہم پھر ایک ساتھ کھڑے کام کر رہے تھے، لیکن اب ہمارے درمیان گویا صدیوں کا فاصلہ پیدا ہو چکا تھا۔
ماحول پر خاموشی کی ایک گہری چادر تن گئی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس سے اتنے سخت وریہ کی توقع نہیں تھی۔ کسی سے پیار کرنا اور اس کا اظہار کر دینا کوئی اتنا بڑا جرم بھی نہیں تھا۔
دن رات تڑپتا رہا، چپ چاپ آنسو بہاتا رہا، کئی بار بلیڈ سے کلائی پر اس کا نام بھی چھیدا۔ دسمبر کی کہر آلود راتوں میں شرٹ اتار کر گھاس پر لیٹ جانا اور سگریٹ پھونکتے رہنا عادت سی بن گئی تھی۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس دن کے بعد گلاب کی وہ کیاری میرا تو مستقل ٹھکانہ بن گئی مگر اسے دوبارہ وہاں کبھی نہیں دیکھا۔ شاید میری وہاں موجودگی کے پیش نظر ہی اس نے وہاں آنا چھوڑ دیا تھا۔
”یہ بہت غلط بات ہے ایاز۔“ ایک دن اس کی بڑی بہن نے میرا راستہ روک لیا۔
”کیا آپی؟“
” یہی تمہارے اور شازیہ کے درمیان بے رخی والا معاملہ۔ ایک جگہ، ایک ساتھ کام کرنا ہے تو پھر یہ رویہ نہیں چلے گا۔“ انہوں نے بڑے پیار سے سمجھایا۔
”آپی، وہ خود ہی اب بات نہیں کرتی۔ میں کیا کروں؟“ میں نے مریل سے لہجے میں کہا۔
” تم بات کر کے تو دیکھو۔ اگر اسے کسی بات پر غصہ آیا بھی تھا، تو اب تک ختم ہو چکا ہو گا۔ وہ زیادہ دیر دل میں بات رکھنے والی نہیں ہے۔“
آپی نے یقین دلایا تو میرے مردہ وجود میں جیسے نئی جان پڑ گئی۔ اسے گلاب پسند تھے۔ اسے گلاب دے کر ہی منایا جا سکتا تھا۔
میں نے دوڑ کر کیاری سے گلاب کا پھول توڑ لیا لیکن اب کی بار اس کا رنگ گلابی تھا۔ دوستی کے اظہار کی علامت۔ کم از کم دوستی پر تو اسے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے تھا۔
”یہ کیا ہے؟“ اس نے حسب سابق بے اعتنائی سے پوچھا۔
”گلاب کا پھول۔“ میں نے چہک کر کہا۔
”مجھے کیوں دے رہے ہو۔“ اس کا لہجہ بدستور سرد تھا۔
”تمہیں پسند ہے نا۔“ میں ایک بار پھر ہڑبڑا سا گیا۔
”تو؟“ اس نے ایک بار پھر مجھے گھورا۔
اُف، اس کی آنکھیں، تاب کہاں سے لاتا؟
”گلابی رنگ کے گلاب دینے کا مطلب سمجھتے ہو؟“ اس کا لہجہ مزید سخت ہو گیا۔
”جی، یہ رنگ دوستی کی علامت ہے۔ دوستی کے اظہار کے لئے دیا جاتا ہے۔ ہم دوست تو بن سکتے ہیں نا؟ میرے ملتجیانہ لہجے پر اس نے گہری سانس لی اور بڑے تحمل سے بولی۔
” اگر تم پہلے یہ گلاب دے دیتے تو شاید سوچتی لیکن اب نہیں۔ تم میرے نزدیک دوست لیکن تم دوستی کا مطلب محبت ہی سمجھتے رہو گے لہٰذا میں یہ قبول نہیں کر سکتی۔”
اس نے میرا گلابی گلاب حتمی طور پر واپس میری طرف سرکا دیا۔
اس کے بغیر میرا گزارا بھی نہیں تھا اور بات کئے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ زندہ رہنے کے لئے کچھ تو کرنا تھا۔ اگلی صبح میں اس کے لئے نیلا گلاب توڑ کر لے گیا۔ اس نے میری طرف اس طرح دیکھا جیسے میرے سر پر سینگ اُگ آئے ہوں۔
”اب یہ کیا ہے یار؟“ بہت دنوں بعد میں نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی۔
”یہ نیلا گلاب ہے اور اس کا مطلب مجھے بھی نہیں پتا۔ لہٰذا کچھ سوچے سمجھے بغیر قبول کر لو۔ اس کا مطلب سر دست یہی سمجھ لو کہ اب ہمارے ہمارے درمیان کچھ نہیں۔“ میں نے خوش دلی سے نیلا گلاب اس کی طرف بڑھایا۔
” ڈرامے بند کرو اور سیدھی طرح کام پر لگ جاﺅ۔“ وہ بے ساختہ ہنسنے لگی لیکن اس نے گلاب کا پھول نہ پکڑا۔
” اوکے لیکن یہ پھول۔۔۔۔“
” میں یہ بھی نہیں لے سکتی ایاز۔ تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟“ وہ زچ سی ہو گئی۔
” مجھے آج کھل کر سمجھا ہی دو کہ تم مجھے کیا سمجھانا چاہتی ہو؟“
میں نے سنجیدہ ہوئے بغیر اپنے دل کی بات کہہ دی۔
’میں جانتی ہوں کہ تم مجھے بہت پیار کرتے ہو۔
یہ بھی جانتی ہوں کہ تمہاری چاہت بالکل گلابوں جیسی ہے۔ سچی، خالص اور معطر لیکن میں اسے قبول نہیں کر سکتی۔
میں نے واقعی تمہارے بارے میں کبھی ایسا نہیں سوچا۔ تم یہ سوچ کر مجھے بھول جاﺅ کہ میں تمہارے پیار کے قابل ہی نہیں۔“ اس کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی اتر آئی تھی۔
”آخر ایسا کیوں؟ “اب احتجاج کی باری میری تھی۔
” مجھے نہیں پتا کہ ایسا کیوں ہے؟ بس ایسا ہی ہے۔ دیکھو، محبت کوئی زبردستی کا سودا نہیں۔ یہ دل کی باتیں ہیں۔ دل کب کس پر آ جائے؟ کچھ کہہ نہیں سکتی لیکن مجھے افسوس ہے کہ وہ تم نہیں ہو۔“ اس نے صاف صاف کہہ دیا۔
۞۞۞۞
مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ کامران کسی طوفان کی طرح اس کی زندگی میں آ گیا۔ سٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ کا پیٹرن ماسٹر، مردانہ وجاہت کا نمونہ، خوش شکل ، خوش لباس اور لچھے دار گفتگو کا ماہرگفتگو۔
پہلے دوستی اور پھر محبت۔ تھوڑے دنوں میں ان دونوں کی محبت کی داستانیں پوری فیکٹری میں گونجنے لگیں۔ میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کانوں سے سن رہا تھا لیکن شاید پتھر کا ہو گیا تھا۔
بظاہر میں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ خلاف توقع اب کی بار اس کے ساتھ معمول کا رویہ برقرار رکھا۔ بظاہر ہر تعلق سے انکاری ہونے کے باوجود وہ اپنی ساری داستان عشق مجھے سناتی رہی اور میں نم حلق کے ساتھ سنتا رہا۔
کامران اب اس سے فیکٹری سے باہر اکیلے میں ملنے کی ضد کرنے لگا تھا۔ شازیہ کو اس کی نیت پر شبہ نہیں تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اپنی بڑی بہن کی موجودگی میں وہ اس کے ساتھ کہیں باہر نہیں جا سکتی تھی۔
دونوں بہنوں میں کامران کی وجہ سے کئی بار تلخ کلامی بھی ہو چکی تھی۔ پھر ایک دن اس کی بہن بخار کی وجہ سے فیکٹری نہ آ سکی۔ اسی شام چھٹی کے وقت کامران موٹر سائیکل لے کر آ گیا۔ شازیہ نے ایک نظر میری طرف دیکھا۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے منع کیا لیکن خلاف توقع اس نے نظریں چرا لیں اور دوسرے ہی لمحے وہ بائیک پر اس کے پیچھے بیٹھ چکی تھی۔
۞۞۞۞
اگلی صبح میں فیکٹری صرف اپنا حساب لینے گیا۔ اب مجھے وہاں کام نہیں کرنا تھا۔ کئی دنوں سے مجھے وہاں اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اپنی محبت کو کسی دوسرے کے ساتھ دیکھ کر برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔
میری بھی ہمت جواب دے گئی تھی۔ خاص طور پر کل والے واقعے کے بعد۔ اکاﺅنٹ سیکشن سے اپنے واجبات کی وصولی کے بعد سٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ کے قریب سے گزرتے ہوئے میں نے عقب سے کامران کے بے ساختہ قہقہے کی آواز سنی۔
وہ شاید اپنے دوستوں کو کل والے واقعے کی تفصیلات بتا رہا تھا۔ اس کا قہقہہ کسی پگھلے ہوئے سیسے کی طرح میرے کانوں میں اتر گیا۔
گیٹ کے قریب اور گلابوں کی کیاری کے پاس۔ میں  نے اس کا ہیولہ سا دیکھا۔ اس کی پشت دوسری طرف تھی۔ میرے قدم بے ساختہ اس کی طرف بڑھ گئے۔
” میں جا رہا ہوں، ہمیشہ کے لئے۔ تمہاری دنیا سے بہت دور۔“ میں نے دھیمے سے لہجے میں اطلاع دی۔
”مجھے چھوڑ کر؟“ سوال غیر متوقع تھا۔
” جی۔“ نہ چاہنے کے باوجود بی میرا لہجہ سپاٹ ہو گیا۔
وہ آہستگی سے مڑی، گلابوں جیسی اس لڑکی کا بجھا ہوا چہرہ، متورم آنکھیں اور بکھرے ہوئے بال، لمحہ بھر میں ہی ساری کہانی سمجھا گئے۔
” آ ج کوئی گلاب نہیں دو گے؟ “
”کیوں؟“
”نشانی کے طور پر، ہمیشہ سنبھال کر، اپنے دل سے لگا کر رکھوں گی۔ “
”کون سا؟“
”کوئی سا بھی۔“ اس کے نم لہجے میں صدیوں کی تڑپ تھی۔ ساتھ ہی اس کی نظریں پیلے گلاب پر جم گئیں، جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ یہ نفرت کی علامت ہے۔ حالانکہ میرا آج بھی ایمان ہے کہ اللہ کا بنایا ہوا کوئی پھول نفرت کی علامت نہیں ہو سکتا۔
ہوس کو محبت کا نام دینے والے نہ صرف اللہ کے گناہ گار ہوتے ہیں بلکہ قانون، اخلاق، معاشرہ اور انسانیت کے بھی مجرم بن جاتے ہیں۔
وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر میرا پیار تھی۔ میرا عشق صوفیانہ، ، میری محبت سچی تھی۔ محبت ہمیشہ سچی، خالص اور پاک ہوتی ہے  میں نے کشکول کی طرح پھیلی اس کی دونوں ہتھیلیوں کے بیچ ، تقدس اور پاکیزگی کی علامت ’‘سفید گلاب “رکھ دیا۔
(ختم شد)
Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles