باب چہارم
ایئرسیال اور کراچی ایئرپورٹ ہوٹل
محمد توفیق
ایرانی کوچ رحمان محمدی راد کے پیشہ ورانہ اخلاص کا یہ عالم ہے کہ روانگی کے دن بھی اس نے ٹریننگ سیشن کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
صبح نو بجے آخری ٹریننگ سیشن دیکھنے ہال گئے۔ ڈیڑھ گھنٹے میں ٹیم کو سروس، ریسپشن، سیٹنگ اور سمیشنگ کی خصوصی ڈرلز کروائی گئیں۔
اس کے بعد کولنگ ڈاؤن ایکسرسائزز جس کے بعد کھلاڑی اپنے کمروں میں سامان کی پیکنگ وغیرہ کے لیے چلے گئے۔
حسن اور میں گیارہ بجے گیسٹ ہاؤس واپس آئے۔ حسن نے ٹوکیو میں اپنے پرانے سیالکوٹی دوست گلزار پسیا کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر موبائل پر بات کروائی، جنہوں نے ٹوکیو میں میزبانی اور کیوٹو تک بُلٹ ٹرین میں سفر کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔
خدا جانے ٹوکیومیں حالات کیا رُخ اختیار کریں اور کیا ہم پسیا کی پُرجوش میزبانی سے مستفید بھی ہو پائیں گے؟ گیسٹ ہاؤس کے میلے کچیلے صوفوں پر نیم دراز ہو کر ٹی وی دیکھتے رہے۔ بی بی سی پر خبریں نشر ہو رہی تھیں ۔
جس کے مطابق برازیل اور ارجنٹائن کے مابین ورلڈ کپ فٹ بال کوالی فائنگ میچ ہنگامے کی نذر ہو گیا کیونکہ ارجنٹائن کے چار کھلاڑیوں پر قرنطینہ کیے بغیر ٹیم میں شامل ہونے کا الزام لگا تھا۔
یہ کورونا پتا نہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ بظاہر آثار تو اچھے نہیں۔
پاکستان والی بال فیڈریشن کے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن اور سیکرٹری پنجاب والی بال ایسوسی ایشن محمد جاوید بخش لاہور ایئرپورٹ پر ٹیم کو رخصت کرنے موجود ہیں۔
بے یقینی کے ”پل صراط“ سے گزر کر ٹیم کی روانگی کے لیے مختلف ایئرلائنز کے تانے بانے ملا کر اس سفر کو ممکن بنانے میں ان کی انتظامی صلاحیتوں کا بڑا عمل دخل ہے۔
ڈیرہ غازی خان کے جم پل نفیس و دلنواز جاوید 1970-82ء تک قومی والی بال ٹیم کے اہم کھلاڑی اور ایئرفورس کے نمک خوار رہے ہیں۔
پاکستانی دستہ منہ پر تھوبڑا چڑھائے سہ پہر ساڑھے چار بجے ایئر سیال سے کراچی پہنچا۔ ایئر سیال سے اولین سفر کا تجربہ خوشگوار رہا۔
زندہ دل سیالکوٹیوں نے اپنی مصنوعات کی امپورٹ ایکسپورٹ کے لیے پی آئی اے کی محتاجی کی بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا جو اچھوتا تجربہ کیا ہے۔، یہ ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔
پرواز ہموار اور فضائی میزبان خوش کلام، خوش اخلاق، خوبصورت اور توبہ شکن ہیں۔
ایک کی آنکھیں تو جیسے افغانستان کی شربت گلا! ہر چند پستہ قد! ہم پنجاب کی جٹی فردوس، انجمن، نرگس اور صائمہ کا تصورِ جاناں لیے ہُوئے ہیں۔
کھانے سے زیادہ کھلانے والی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ویسے کھانے کا تکلف کیا بھی نہیں گیا۔ محض پانی کی ایک بوتل پر ٹرخا دیا گیا۔
کبھی دوران پرواز اخبارات کی فراہمی کی روایت ہُوا کرتی تھی، جو اَب باقی نہیں۔ ہمارے اخبارات میں چار ہی خبریں ہوتی ہیں۔ جن کا ہمیں پہلے سے ہی علم ہوتا ہے۔
”حاکم کا قصیدہ، عوام کا مرثیہ، ٹریفک کا حادثہ اور پولیس کا چھاپہ“!
خیر رعایت سے کام لیتے ہُوئے انہیں یہ سوچ کر گریس مارکس دے ڈالے کہ سات فُٹے والی بال کے کھلاڑیوں کے ساتھ رہ رہ کر ہمارا معیارِ قد شاید بڑھ گیا ہے۔
کراچی ایئرپورٹ پر قومی والی بال ایسوسی ایشن کے سیکرٹری شاہ نعیم ظفر اور دیگر عہدے دار استقبال کے لیے موجودہیں۔
آج کی شب ہمارا قیام ایئر پورٹ ہوٹل میں ہو گا جو قریب ہی واقع ہونے اور کراچی کی روایتی اور بےہنگم ٹریفک سے نجات کے باعث غنیمت ہے۔
راقم الحروف کو 36ممالک میں بطور چیف ڈی مشن، منیجر اور آبزرور خدمات سر انجام دینے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔
گزشتہ 25 سالوں میں بارہا ایئرپورٹ ہوٹل میں آتے جاتے مختصر قیام کا موقع بھی ملا۔ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ مایوسی ہوئی۔
یہ ہوٹل اب آثارِ قدیمہ کا ایسا نمونہ بن چکا جہاں شاید غیر ملکی سیاح تو کُجا اہرامِ مصر سے برآمد ہونے والی قدیم فرعونوں کی ممیاں بھی قیام پزیر ہونا پسند نہ کریں۔
کمروں کا رنگ و روغن جا بجا اُکھڑا ہُوا۔ فرنیچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور بے رنگ، گندے واش روم، ٹونٹیاں نلکے زنگ آلود حتی کہ دیوار پر ایستادہ خستہ حال ٹی وی کو رسیوں سے باندھا گیا ہے۔ گویا حضرت سلیمان ؑ کو ٹیک دینے والا عصا ہو۔
بستر پر دراز ہونے کی کوشش کی تو اسے ہماری یہ بے ادبی ایک آنکھ نہ بھائی۔ کمر کا حصہ تقریباً زمین کو چھونے لگا اور ٹانگیں بلندی کی طرف۔ پلنگ کی ایسی بلندی، ایسی پستی، باقی ”ستے خیراں نے“۔
نیشنل فلیگ کیریئر کو آخر ہم کب تک ادھار کا چارہ کھلا کر قومی بھینس کا دودھ پلاتے رہیں گے؟نیشنل فلیگ کیریئر پی آئی اے اور ایئر پورٹ ہوٹل اس حال کو کیسے پہنچا؟
یہ اداروں کی لوٹ کھسوٹ اور اقربأ پروری کا قومی نوحہ ہے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
”محفوظ مصطفی بھٹو جو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ہمشیر کا بیٹا تھا۔ جس کی تعلیمی قابلیت قطعی اس پوسٹ کے معیار کے مطابق نہ تھی، لیکن اسے پی آئی اے میں سیلز پروموشن آفیسر جیسی اہم پوسٹ پر تعینات کرا دیا گیا۔
جس کے لیے لوگ نہ جانے کتنی سفارشیں، رشوت اور دھکے کھاتے ہیں۔ محفوظ مصطفی بھٹو کا دفتر اُس وقت کراچی جم خانہ کلب کے نزدیک تھا۔
انہیں پی آئی اے کی طرف سےایک بہترین گاڑی اور خاطر تواضع کے لیے پر کشش بجٹ مہیا کیا جاتا۔
اس کا نام محفوظ مصطفی بھٹو تھا لیکن عرف عام میں وہ ٹِکو کے نام سے مشہور تھا۔
اس کے اصل نام سے بہت کم لوگ واقف تھے۔
ممتاز علی بھٹو اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے۔
اس لیے محفوظ مصطفی عرف ٹِکو کی تمام سرگرمیوں کا تعلق پی آئی اے سے نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے مختلف وزرا، سیکرٹریٹ سمیت وفاق کے سرکاری دفاتر میں گھومنے پھرنے اور مختلف فائلوں پر دستخط کرانے تک ہی محدود رہتا۔
پی آئی اے کے معاملات سے اس کی لاپروائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کے سینئر افسران نے نوٹس لیتے ہُوئے اسے وارننگ لیٹر جاری کر دئیے،
لیکن اس کے خلاف کوئی انضباطی کارروائی کرنے سے ڈر جاتے۔ بات چلتے چلتے چیئرمین پی آئی اے ائیرمارشل ریٹائرڈ نور خان کی میز تک جا پہنچی۔
جس کا انہوں نے سخت نوٹس لیتے ہُوئے محفوظ مصطفی کی اچھی طرح کھچائی کرتے ہُوئے اسے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہُوئے خبردار کیا کہ اگر پی آئی اے میں رہنا ہے،
تو آپ کو کام کرنا ہو گا اور آپ کے کام کی رپورٹ مانگی جائے گی۔
اگر آپ ایسا نہیں کر تے تو پھر آپ کو بغیر کسی نوٹس کے گھر بھیج دیا جائے گا۔
ذہن نشین کر لیجئے کہ اپنے فرائض میں دلچسپی کے سوا آپ کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں۔
محفوظ مصطفی عرف ٹکو کو چیئر مین/منیجنگ ڈائریکٹر پی آئی اے کی جانب سے وارننگ لیٹر جاری ہونے کے چند روز بعد وزیراعظم ہاؤس سے ائیرمارشل نور خان کو پیغام موصول ہُوا کہ پرائم منسٹر لاڑکانہ جا رہے ہیں۔
انہوں نے آپ کو پی آئی اے کے فلاں فلاں معاملات پر بریفنگ کے لیے بلایا ہے۔
پیغام ملتے ہی ائیر مارشل نور خان نے متعلقہ معاملات کی فائلیں اور بریفنگ تیار کیں اور مقررہ دن کراچی سے لاڑکانہ پہنچ گئے۔
جہاں المرتضیٰ ہاؤس میں وزیر اعظم بھٹو سے ان کی ملاقات ہونا تھی۔
اس میٹنگ میں ائیر مارشل نور خان نے پی آئی اے کے معاملات پر تفصیل سے بریفنگ دی، جو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔
میٹنگ کے بعد ائیر مارشل نور خان وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ ملانے کے بعد جانے لگے تو پرائم منسٹر نے سپاٹ لہجے میں کہا:
ائیر مارشل مت بھولیے گا کہ بھٹو جہاں بھی ہے وہ بھٹو ہوتا ہے۔
ان کے الفاظ تھے: “Air Marshal, A Bhutto is a Bhutto, where ever he is”
ائیرمارشل نورخان سمجھ گئے کہ انہیں محفوظ مصطفی بھٹو عرف ٹیکو سیلز پرومومشن آفیسرز پی آئی اے کے حوالے سے متنبّہ کیا جا رہا ہے، جو والدہ کی طرف سے بھٹو ہے۔
نور خان نے اس بات پر کسی قسم کا رد عمل یا اس کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے وزیراعظم کو خداحافظ کہتے ہُوئے لاڑکانہ سے سیدھےکراچی اپنے دفتر پہنچے اور چند منٹوں بعد اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہاوُس فیکس کر دیا۔
بھٹّو اک بڑا آدمی تھا لیکن پھر اس سے واقعی اک بڑا آدمی ٹکرا گیا۔ محفوظ مصطفیٰ بھٹو وہ پہلی ٹیڑھی اینٹ تھی، جو سابقہ وزیر اعظم بھٹّو کے ہاتھوں پی آئی اے میں لگی جس کے بعد یہ پوری عمارت ہی ٹیڑھی اینٹوں سے بھر دی گئی“۔
وہ پی آئی اے جو ائرمارشل نورخان کے زمانے میں پاکستان کے وقار کی علامت تھی۔ آج پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کی وجہ بن گئی ہے۔
میڈیا سمیت ہوائی سفر کے تمام محکموں اور برانچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ ائیرمارشل نور خان کے بعد پی آئی اے آہستہ آہستہ نیچے کی جانب گرتی چلی گئی۔
پھر ایسی گری کہ کبھی سنبھالی ہی نہیں جا سکی۔ آج نہیں تو کل وقت بتائے گا کہ جو ائیرلائن کبھی دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی تھی۔
تباہی کی اِس حالت کو کیسے پہنچی؟ ائیر مارشل نور خان اس قوم کا وہ ستارہ تھا جو ائیر فورس، پی آئی اے، اسکوائش، ہاکی اور کرکٹ کے ہر عہدے پر جہاں جہاں بھی براجمان ہُوا، پاکستان کے نام اور مقام کو بلندیوں تک لے گیا۔
بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے سیاح اور ٹریولر اپنے اپنے ملکوں کی ائیر لائنز پر پی آئی اے کو ترجیح دیتے تھے۔
نور خان مرحوم کی وطن سے محبت اور مر مٹنے کا جذبہ اس ایک واقعہ سے ہی سمجھ لیں کہ 20, جنوری 1978ءکو پی آئی اے کا طیارہ کراچی میں ہائی جیک کر لیا گیا۔
ہائی جیکر نے پائلٹ کو حکم دیا کہ جہاز کو بھارت لے جایا جائے۔ ائیر مارشل نور خان ہائی جیکر سے بات کرنے کے لئے جہاز کے اندر اکیلے ہی خالی ہاتھ جا پہنچے۔ اسے باتوں میں مصروف رکھتے ہُوئے اچانک اس کے ہاتھ سے پستول چھیننے کے لیے اس پر جھپٹے۔
اس دوران ہائی جیکر کی چلائی گئی گولی سے ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی، لیکن اس کے باوجود ہائی جیکر پر قابو پاتے ہُوئے جہاز کے مسافروں کی زندگیاں محفوظ بنانے میں کامیاب رہے۔
آج یہ حالت ہے کہ پی آئی اے پر پابندیاں لگ رہی ہیں۔
جبکہ وہ ائیر لائنز جنہیں پی آئی اے نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، آج وہ پی آئی اے کی جگہ اس ریجن کا بزنس سنبھال رہی ہیں۔
پی آئی اے کے ساتھ جو ہُوا، اس پر کاش کوئی ایسا کمیشن بنے جو اوپن کورٹ میں ہر ذمہ دار کو قوم کے سامنے لا کر بتائے کہ پی آئی اے کو کس کس نے لوٹا؟ اور بے دردی سے تباہ کیا؟
نور خان جیسے نابغۂ روزگار افراد زمین کا نمک ہُوا کرتے ہیں۔
نور خان پاکستان اسپورٹس کے بھی عظیم محسن ہیں۔ پی آئی اے کی ”کولٹس سکیم“ ان کی بے لوث اور دور رس کاوشوں کی بدولت ہی پاکستان نے ہاکی، کرکٹ اور اسکوش میں دنیا بھر میں اپنا سکہ منوایا۔
1996ء میں مسافر کو “P.T.V” کے پروگرام ”اسپورٹس راؤنڈ اَپ“ کے لیے ان کے طویل انٹرویو کا اعزاز ملا۔ پی آئی اے طیارہ ہائی جیک اور کھیلوں کے لیے ان کی درخشاں خدمات کا ذکر آیا
تو خیال تھا کی وہ اپنی ان خدمات کے حوالے سے طویل تمہید اور شاید خود ستائشی کے پُل باندھیں گے لیکن انہوں نے شانے اچکا کر مختصر جملے میں بات ختم کر دی
“Well! it was my duty, That’s all”۔
ہماری حکومت دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پاکستان کو جنت بنانے کی دعویدار ہے۔ جب غیر ملکی سیاحوں کا پاکستان سے پہلا تعارف ایئر پورٹ ہوٹل کی صورت میں ہو گا
تو وہ ہمارے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے؟
اس کا فیصلہ مسافر پاکستان کے بزرجمہروں اور سقراطوں پر چھوڑتا ہے۔
ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ حکومتی سر پرستی میں رینگنے والا یہ مردہ گھوڑا اب تعفّن چھوڑ گیا ہے۔
اس کی تدفین کر کے شاندار پانچ ستارہ ہوٹل تعمیر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
غالباً عطاالحق قاسمی نے اپنے کسی کالم میں تحریر کیا ہے
” بعض لوگ اپنی زندگی میں ہی مر چکے ہوتے ہیں لیکن انہیں اپنی موت کا احساس نہیں ہوتا۔ لوگ ان کے قریب سے گزرتے ہُوئے تعفّن سے بچنے کی غرض سے منہ پر رومال رکھ لیتے ہیں“۔
کراچی کا ایئر پورٹ ہوٹل اس کی کلاسیکل مثال ہے۔
اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔
مصنف کا تعارف
نام: محمد توفیق
سینئر نائب صدر پاکستان ٹینس فیڈریشن،
چیئرمین ڈیویلپمنٹ کمیٹی پاکستان والی بال فیڈریشن
قومی سلیکٹرپاکستان سکواش فیڈریشن
ولدیت: میجر (ر) محمد طارق اعوان
تاریخ و جائے پیدائش: 8 اکتوبر 1960ء ، شیرانوالہ گیٹ ہری پور ہزارہ
تعلیم: ایم اے معاشیات، ایم اے سیاسیات، ایم بی اے ایگزیکٹو
تعلیمی ادارے: برن ہال سکول، گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد، ایچی سن کالج لاہور
پاکستان کی نمائندگی: سیول اولمپکس، اٹلانٹا اولمپکس، بیجنگ ایشین گیمز، کلکتہ سیف گیمز،کامن ویلتھ گیمز آسٹریلیا،
ڈیوس کپ ٹینس، ومبلڈن ٹینس،ٹور ڈی فرانس سائیکل ریس، ایشیائی والی بال چیمپئن شپ جاپان،
ایشیائی اسکواش چیمپئن شپ بھارت، انٹرنیشنل سیٹلائٹ ٹینس شام، والی بال منیجر قطر، ایران، دوبئی
سپورٹس کمنٹری/اینکر پرسن: پی ٹی وی ایوارڈ یافتہ ،ورلڈ کپ فٹبال، ورلڈ اولمپکس سمیت 30 کھیلوں پر رواں تبصرہ
عالمی سیاحت: امریکہ، فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، بیلجیم، سپین، اٹلی، چین، آسٹریا، چیکو سلوواکیہ، سوئٹزرلینڈ، جاپان، ڈنمارک،
ناروے، روس،جرمنی، جنوبی کوریا، سویڈن، سلوواکیہ، ہانگ کانگ، متحدہ عرب امارات،سعودی عرب،
بنگلہ دیش، ایران، بھارت، نیپال، قطر، شام، ازبکستان، ایتھوپیا
تصانیف:
ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
بمبئی براستہ مدراس
تری خوشبو سفر میں ہے
تیرا میرا سارا سفر
کھیل کا ارتقائی سفر
اولمپکس اور فٹبال
کھیل اور کھلاڑی
اردو سفر نامے کا گل خود رو
واہ کی تہذیب اور فنون ِ لطیفہ
شمشیر و سناں اوّل
کھلاڑی جاپان میں(سفرنامچہ)