22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

ادھوری کہانی(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

تیرہویں قسط

ادھوری کہانی

بلال اپنے آفس میں لیپ ٹاپ پر مصروف تھا ۔ جب فرح اندر داخل ہوئی۔
’’السلام علیکم …بلال کیسے ہو؟‘‘ فرح نے کہا۔
’’وعلیکم السلام ، اللہ کا شکر ہے ، بھابھی آپ کا کیا حال ہے؟ ‘‘
’’یہ تمہارا پارسل ہے۔ جنجوعہ صاحب نے بھیجا ہے۔ ‘‘ فرح نے پلاسٹک بیگ بلال کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ تشریف رکھیں! ‘‘ بلال نے لب کشائی کی ۔
’’نہیں بھئی۔ بچوں کو چھوڑنے آئی تھی۔ جب تک میں نہیں جاؤں گی، جنجوعہ صاحب ناشتہ نہیں کریں گے۔ ناشتہ اور رات کا کھانا ہم اکھٹے کھاتے ہیں۔ سوائے ہفتہ کی رات کے۔‘‘ فرح نے جانے سے پہلے ساری رام لیلا سنا دی۔
بلال نے پلاسٹک بیگ کھولا تو اس میں ایرانی شال اور ایک خوبصورت بلوچی فراک تھی۔ بلوچی فراک پر ہاتھ سے بہت خوبصورت کام  تھا۔ اس دوران فوزیہ بول پڑی :
’’جنجوعہ صاحب کی کیا مجال بھابھی فرح کے بغیر ناشتہ کر لیں۔ ان کی تو جان جاتی ہے۔ سر ! قسم سے بہت ڈرتے ہیں ان محترمہ سے۔‘‘ بلال نے آنکھوں سے گھوری ڈالی۔
’’سر ! قسم سے سچ کہہ رہی ہوں۔ جنجوعہ صاحب نے پہلا مکان ہمارے گاؤں کے سامنے ہی بنایا تھا۔ جب بارش ہوتی تو مکان پر شاپر بیگ ڈلوا دیتے۔ کہیں مکان کی چھتیں ٹپکنا شروع نہ کر دیں۔
سب سے مزے کی بات جب ان کا مکان سیل ہوگیا تو مالک مکان نے گراج میں اپنی پجارو کھڑی کی تو گراج کا فرش بیٹھ گیا… سر قسم سے …‘‘فوزیہ نے ہاتھ پر ہاتھ مارا جیسے کوئی لطیفہ یاد آگیا ہو اور کھل کھلا کر ہنسنا شروع کردیا۔
’’پھر کیا ہوا …؟‘‘بلال نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’ہونا کیا تھا … سر! … ‘‘فوزیہ مسلسل ہنس رہی تھی ۔
’’پھر اس آدمی نے پنچایت بلائی جس نے جنجوعہ صاحب کا مکان خریدا تھا۔ سر…! سردیوں کے دن پھر بھی جنجوعہ صاحب کو پسینہ آرہا تھا۔ اپنی عینک اتار کر بار بار صاف کرتے کبھی بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے پریس کرتے، ہمارے گائوں کے چوہدری صاحب کے بیٹے نے کہا :
’’ آپ کے مکان کا گراج دوسرے دن ہی بیٹھ گیا ہے‘‘ جنجوعہ صاحب معصومیت سے بولے:
’’ وہ جی میں نے اپنی Suzuki Fx کھڑی کی، اس کے وزن سے تو نہیں بیٹھا تھا‘‘ سب لوگ ہنس پڑے پھر طارق رامے نے اس کی جان چھڑوائی تھی۔ اس نے کہا کہ جنجوعہ صاحب گراج مرمت کروادیں گے تب جان چھوٹی تھی سر ! …‘‘فوزیہ بلال کی طرف دیکھ کر بولی جوکہ مسلسل فوزیہ کو دیکھ رہا تھا۔
’’تم وہاں کیا کر رہی تھی؟ ‘‘بلال نے پوچھا۔
’’سر کوئی سات آٹھ سال پرانی بات ہے تب تو میں سارا علاقہ گھومتی تھی۔ سر! اس وقت تو سارے پلاٹ خالی تھے۔‘‘
’’مجھے ایک بات بتاؤ تم اتنا بولتی ہو، تھکتی نہیں؟‘‘
بلال کے پوچھنے پر، فوزیہ نے چھوٹے بچے کی طرح گردن ہلادی۔
’’اچھا خیر۔ یہ لو۔ تمہارے لیے۔‘‘
بلال نے فراک فوزیہ کی طرف بڑھا دی۔ فوزیہ نے جلدی سے فراک پکڑ کر دیکھنا شروع کردی ۔
’’سر ! بہت خوبصورت ہے۔‘‘ فوزیہ کے چہرے پر بچوں جیسی خوشی تھی جس کو اس کا من پسند کھلونا مل جائے۔
آج کافی دنوں بعد عادل بابا جمعہ سے دوسری بار ملنے آیا، بلال پہلے سے موجود تھا۔
بابا جمعہ جوتا مرمت کر رہے تھے اور بلال پاس بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔
’’میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں ‘‘عادل نے عرض کی ۔
’’جی بیٹا…! یہ کام ختم کرلوں پھر بات کرتے ہیں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد بابا جمعہ نے کام ختم کر لیا۔ وہ اپنے دستانے اُتارتے ہوئے بولے :
’’جی بیٹا…! پوچھیے اپنا سوال‘‘
’’میں نے میٹرک میں لاہور بورڈ سے ٹاپ کیا تھا ، FSC میں میری بورڈ میں سیکنڈ پوزیشن تھی۔
اب میں لٹریچر پڑھ رہا ہوں ،پنجاب یونیورسٹی سے۔ میں ایک مشہور اخبار میں کالم بھی لکھتا ہوں، (عادل) کے نام سے۔
پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ میری وہ کمائی جو مجھے کالم لکھنے سے حاصل ہوتی ہے حلال ہے یا حرام…؟‘‘
’’بیٹا آپ کسی مفتی کے پاس جائو میں تو اَن پڑھ بندہ ہوں‘‘
’’مجھے آپ سے جواب چاہیے کسی مفتی سے نہیں …‘‘
’’کالم میں سچ لکھتے ہو یا جھوٹ؟‘‘بابا جمعہ نے پوچھا۔
’’اپنا سچ لکھتا ہوں ‘‘عادل نے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا۔
’’ہوچھوٹے مگر باتیں بڑی کرتے ہو‘‘بابا جمعہ مسکرا کر بولے، تھوڑا توقف کیا پھر کہنے لگے : ’’دیکھو بیٹا ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ تمہارا سچ حقیقت نہ ہو۔‘‘
اتنے میں سڑک کے دوسری طرف سے آواز آئی، ایک شخص بولان کیری ڈبہ سے اترا۔
اس کے بازوؤں میں ساتھ آٹھ سال کا لڑکا بے ہوش حالت میں تھا، وہ یکایک بغیر دیکھے سڑک پار کر آیا۔
’’ہجور ہجور گجب ہوگو… میرا چھورا لو سیانپ کاٹ کھائیو (حضور حضور غضب ہو گیا، میرے بیٹے کو سانپ نے کاٹ لیا) ‘‘
حمید خاں میو نے ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ دیا، اس کے چہرے سے ایک باپ کا درد جھلک رہا تھا۔
اس کے ساتھ دو اور آدمی بھی تھے، اسلام دین بولان High Roof کا مالک اور خالد چھوٹا حمید خاں میو کا دوست۔
بلال فوراً کارپٹ سے اُٹھ گیا، عادل بھی سائیڈ پر ہٹ گیا۔
’’حمید خاں…! اسے یہاں لٹا دو…اللہ خیر کرے گا۔‘‘
بابا جمعہ نے حمید کو تسلی دی ۔ اس کے بعد بابا جمعہ نے پڑھنا شروع کیا۔
بلال نے پیچھے نیم کے درخت سے پتے ٹہنیوں سمیت توڑ کر بابا جمعہ کو پکڑا دیے۔
انہوں نے دَم کرنا شروع کر دیا ۔ اُوپر سے نیچے کی طرف۔
بلال نے بابا جمعہ کے بینچ کے نیچے سے ٹاٹ کی بوری کا ایک ٹکڑا پکڑا اور لکڑی کے صندوق سے ماچس لی ۔ اسے بجلی کے کھمبے سے تھوڑی دُور آگ لگادی۔
خالد چھوٹا نے حمید خاں کو اپنے بازو میں لیا ہوا تھا اور اسے تسلی دے رہا تھا۔
بلال نے گھڑے سے پانی کا پیالہ بھرا اور حمید خاں کو دیا اور اسے آنکھوں سے تسلی دی۔
اس کے بعد بابا جمعہ کی بڑی سی قینچی پکڑی اور بابا جمعہ کے پاس رکھ دی۔ سانپ کے دانتوں کا نشان ٹخنے کے پاس تھا مگر زہر ران تک پہنچ گیا تھا۔
زہر کی وجہ سے ٹانگ نیلی پڑ چکی تھی۔
بچہ ابھی تک بے ہوش تھا۔ بابا جمعہ مسلسل اوپر سے نیچے کی طرف نیم کے پتے ران سے ٹخنے کی طرف جھاڑ رہے تھے،
جیسے کالے کوٹ سے مٹی کے ذرات کوٹ برش سے صاف کر رہے ہوں۔
بلال نے بچے کی پتلوں پائنچے سے کاٹ کر اوپر تک سمیٹ دی تھی۔
اب بچے کی ٹانگ میں زہر نظر آرہا تھا۔ بابا جمعہ مسلسل کچھ پڑھ رہے تھے اور ٹانگ پر پھونک مار رہے تھے۔
عادل کے لیے یہ نئی صورت حال تھی جو اس کے چہرے پر واضح نظر آ رہی تھی۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا:
’’ کیسے جاہل لوگ ہیں۔ 2013 میں بھی یہ لوگ موچی سے علاج کروا رہے ہیں۔ پاس ہی تو جنرل ہسپتال ہے۔ ‘‘
حمید خاں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اس کی کالی سیاہ داڑھی آنسوؤں سے گیلی ہو چکی تھی۔ وہ منہ میں کچھ پڑھ رہا تھا۔
کبھی آسمان کی طرف دیکھتا اور کبھی اپنے بیٹے کی طرف۔
خالد چھوٹا گیس کٹر چلانے والا جو سارا دن لوہا کاٹتا تھا، وہ بھی نرم پڑ چکا تھا۔
گیس کٹر سے لوہا کٹتا ہوا دیکھنا اس کے لیے آسان تھا، مگر اپنے دوست کا دل کٹتا ہوا دیکھنا مشکل تھا۔
خالد چھوٹا کی اپنی اولاد نہیں تھی مگر وہ ایک باپ کا درد خوب سمجھتا تھا۔
اسلام دین ریٹائرڈ فوجی جو اب اپنی گاڑی رینٹ پر چلاتا ہے، جذبات سے ماورا مگر آج اس کی آنکھوں نے تمام حساب برابر کر دیے۔
وہ بار بار اپنی گرم چادر سے چپکے سے اپنے آنسو صاف کر رہا تھا۔
آدھ گھنٹہ ہو چکا تھا۔ بچے کی سانس چل رہی تھی مگر وہ بے ہوش تھا۔ بابا جمعہ اور بلال انتہائی پُراعتماد تھے، چند منٹوں بعد بچے کے ماتھے پر سخت سردی میں پسینہ تھا۔
بلال نے وہ بوری کی راکھ جو اب جل کر ٹھنڈ ی ہو چکی تھی۔ ایک سِلْور کی پلیٹ میں ڈال کر بابا جمعہ کے پاس رکھ دی۔ زہر اب پنڈلی تک آ گیا تھا۔
بابا جمعہ نے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے راکھ کا حصار پنڈلی کے گرد باندھا۔ جیسے منہ زور سیلابی پانی کے سامنے مضبوط چٹان کا بند ہو۔
بابا جمعہ مسلسل پڑھ رہے تھے اور پتوں سے جھاڑ رہے تھے۔
اوپر سے نیچے کی طرف۔ اس کے بعد انہوں نے ایک اور بند باندھا، پھر تیسرا بند باندھا۔ اب زہر سانپ کے دانتوں کے نشان تک آ چکا تھا۔
بلال نے استرے میں بلیڈ ڈال کر دیا اور ساتھ ہی کالی ڈبیا دی۔ جس میں ایک کالی مرہم جو کالے جلے انجن آئل جیسی مگر آئل سے گاڑھی تھی، وہ رکھ دی۔
بابا جمعہ نے سانپ کے دانتوں کی جگہ ہلکا سا کٹ لگایا اور اوپر سے دبایا۔ چند منٹ کے اندر ہی جسم سے سارا زہر باہر نکل آیا۔ بابا جمعہ نے وہ مرہم زخم پر لگا دی۔
لڑکا ہوش میں آ رہا تھا، مگر درد کی وجہ سے اس کے رونے اور ہائے ہائے کی دبی دبی آوازیں گلے سے نکل رہی تھیں۔
’’حمید خاں اللہ کا کرم ہوگیا۔‘‘
بابا جمعہ نے ہاتھ دھوتے ہوئے کہا۔ بلال ان کے ہاتھ دھلا رہا تھا۔ بابا جمعہ نے اپنے کندھے والے صافے سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بلال سے کہا :
’’بلال صاحب…! حمید خاں کو پرہیز بتا دو۔‘‘
’’تین دن بچے کو نہلانا نہیں۔ گھر کی تمام عورتوں سے دور رکھنا۔
نمک اور سرخ مرچ بالکل بند، کالی مرچ دیسی گھی میں ڈال کر کھلاؤ ۔ کچے پیاز کے ساتھ بیسن کی روٹی دو۔ یہ سارے پرہیز تین دن کے لیے ہیں۔ تین دن تک یہ کالی مرہم لگانی ہے۔ اس کے بعد اگر زخم ہو تو ڈاکٹر سے پٹی کروا لینا اور 101روپیہ یاد سے مسجد میں دے دینا۔ ‘‘
حمید خاں میو نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا۔ خالد چھوٹا  نے اپنی گرم چادر میں بچے کو لپیٹا اور اٹھا لیا مگر اس کا ٹخنہ ننگا تھا۔ حمید نے بند مٹھی سے بابا جمعہ کی خدمت کرنا چاہی مگر بابا جمعہ نے انکار کر دیا۔
’’میں اپنی خوشی سے دے رہا ہوں ہجور۔‘‘ حمید نے التجا کی۔
’’نہیں حمید خاں۔ تم نیک آدمی ہو۔ میرے لیے دُعا کر دینا۔‘‘ بابا جمعہ نے کہا۔
اسلام دین نے عقیدت کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے بابا جمعہ سے مصافحہ کیا۔ جانے سے پہلے اسلام دین بابا جمعہ اور بلال کو سلیوٹ کیا۔
عادل حیران تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا یہ کرامت کیسے ہو گئی؟ اعتقاد اور علم کی جنگ ابھی باقی تھی۔
اعتقاد والے جیت کر جا چکے تھے اور علم والا اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔
’’میں اسے تعویذ گنڈا کہوں یا جہالت ۔‘‘ عادل نے دو ٹوک کہہ دیا۔ بابا جمعہ اور بلال مسکرا دیے۔
’’اس کاجواب آپ کو بلال صاحب دیں گے۔ ‘‘بابا جمعہ نے حکم صادر کر دیا۔
’’نہ تو یہ تعویذ گنڈا ہے اور نہ ہی جہالت۔ یہ ایک روحانی علم ہے جو ان کے بڑوں کو ایک بزرگ کی عطا ہے۔ آپ اسے فیض بھی کہہ سکتے ہیں ۔
زہر جسم سے نکالنا روحانی عمل سے ہوا۔ اس کے بعد وہ کالی مرہم لگانا طبعی عمل ہے۔ سیدھی سی بات ہے۔ ‘‘
’’مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ زہر جسم میں چلا جائے پھر نکال لیا جائے؟‘‘ عادل بولا۔
نکالا تو اُس نے ہے۔ ہم نے تو صرف کوشش کی ہے۔‘‘ بلال  نے جامع وضاحت پیش کی مگر عادل پھر بول پڑا:
’’یہ اَن پڑھ لوگ ایسا عقیدہ رکھ سکتے ہیں۔ میں نہیں۔ ‘‘
’’چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ میں نے بھی پنجاب یونیورسٹی سے MBA کیا ہے۔ اس کے بعد MA اسلامیات اور اب میٹرک تک اسکول چلا رہا ہوں۔ میرا اسکول شہر کے تین ہائی کلاس اسکولوں میں شمار کیا جاتا ہے مگر میں بھی یہی عقیدہ رکھتا ہوں۔ ‘‘
’’مغرب ہونے والی ہے میں جو سوال پوچھنے آیا تھا۔ اس کا جواب مجھے اب تک نہیں ملا۔‘‘
عادل نے جارحانہ انداز میں کہا۔ بابا جمعہ جو ساری گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے، بول پڑے :
’’ بیٹا جی…! وہ کیا…؟ ‘‘
’’پہلے تو ایک سوال تھا مگر اب دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں اپنا سچ لکھ دوں تو کیا اس کے پیسے حلال ہیں۔ دوسرا سوال اس کا بیٹا ٹھیک ہو گیا تھا تو آپ اس کا دل رکھنے کے لیے پیسے لے لیتے یہ آپ کی محنت تھی ۔ ‘‘
’’عادل عقیل ہاشمی۔! یاد رکھو۔ اپنے سچ کو بیچنا جو حقیقت پر مبنی نہ ہو بہت بڑا گناہ ہے۔  اس سے بھی کئی گنا بڑا گناہ ہے اللہ کی سچی کتاب کو بیچنا۔ میں نے جو کچھ دم کیا تھا، وہ قرآن مجید سے تھا۔
بیٹا جس نیکی کی اُجرت لی جائے اس کا اجر نہیں ملتا۔ ‘‘
’’تو پھر کہانی، افسانہ، ناول لکھنے والے سب گناہ گار ہوئے اور ان کی کمائی حرام ہوئی۔‘‘ عادل خفگی سے بولا۔
’’بیٹا جی کہانی تو ہوتی ہی فرضی ہے۔ اس طرح افسانہ اور ناول بھی، مگر کالم لکھنے والے حقیقت کے دعویدار ہوتے ہیں۔
اگر ان کا کالم حقیقت پر مبنی نہ ہو تو جھوٹ ہی ہوا نا، اور جھوٹ کی کمائی حرام ہوتی ہے۔ خواہ آپ کا سچ ہی ہو۔‘‘ بابا جمعہ نے جواب دیا۔

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles