جنگِ یرموک
اسلامی تاریخ کی ایک یادگار جنگ کا ولولہ انگیز اور پُرتاثیر قصّہ
علامہ شبلی نعمانی
یہ ۶۳۶ء (۱۵ ہجری) کی بات ہے، رومی مسلمان لشکر سے شکست کھا کھا کر دمشق و حمص وغیرہ سے نکلے تو انطاکیہ پہنچے۔ ہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پامال کر دیا۔ ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معزز آدمیوں کو دربار میں طلب کیا اور کہاکہ عرب تم سے زور اور جمعیت میں سروسامان میں کم ہیں۔ پھر تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا اور کسی نے کچھ جواب نہ دیا لیکن ایک تجربہ کار بڈھے نےعرض کی کہ ’’عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں۔
وہ رات کو عبادت کرتے ہیں۔ دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی طرح کا ظلم نہیں کرتے۔ ہر ایک سے برابری کے ساتھ ملتے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بدکاریاں کرتے ہیں ، اقرار کی پابندی نہیں کرتے۔ اوروں میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے۔‘‘
قیصر درحقیقت شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ لیکن ہر شہر اور ضلع سے جوق در جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے۔ قیصر کو سخت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ شہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلے میں صرف کر دیا جائے روم ، قسطنطنیہ ، جزیرہ، آرمینیہ ، ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں پائے تخت انطاکیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہو جائیں۔
تمام اضلاع کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو سکیں، روانہ کیے جائیں۔ ان کا احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان امنڈ آیا۔ انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگاہ جاتی تھی، فوجوں کا ٹڈی دل پھیلا ہوا تھا۔
حضرت ابو عبیدہؓ نے جو مقامات فتح کر لیے تھے، وہاں کے امراء اور رئیس ان کے عدل و انصاف کے اس قدر گرویدہ ہو گئے کہ باوجود تخالف مذہب کے خود اپنی طرف سے دشمن کی خبر لانے کے لیے جاسوس مقرر کر رکھے تھے۔ چنانچہ ان کے ذریعے حضرت ابو عبیدہؓ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی ۔ انھوں نے تمام افسروں کو جمع کیا اور کھڑے ہو کر ایک پر اثر تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا ۔
مسلمانو! اللہ نے تم کو بار بار جانچا اور تم اس کی جانچ میں پورے اُترے۔ اس کے صلہ میں اللہ نے ہمیشہ تم کو مظفر و منصور رکھا۔ اب تمہارا دشمن اس سر و سامان سے تمہارے مقابلے کے لیے چلا ہے کہ زمین کانپ اُٹھی ہے۔
اب بتاؤ کیا صلاح ہے؟
یزید بن سفیانؓ (معاویہؓ کے بھائی) کھڑے ہوئے اور کہا۔
میری رائے ہے کہ عورتوں اور بچوں کو شہر میں رہنے دیں اور ہم خود شہر کے باہر لشکر آ راء ہوں۔ اس کے ساتھ خالد بن ولید اور عمروبن العاص کو خط لکھا جائے کہ دمشق اور فلسطین سے چل کر مدد کو آئیں۔
شرجیلؓ بن حسنہ نے کہا کہ اس موقع پر ہر شخص کو آزادانہ رائے دینی چاہیے۔ یزید نے جو رائے دی ہے بے شبہ خیر خواہی سے دی لیکن میں اس کا مخالف ہوں۔ شہر والے تمام عیسائی ہیں۔ ممکن ہے وہ تعصب سے ہمارے اہل و عیال کو پکڑ کر قیصر کے حوالے کر دیں یا خود مار ڈالیں۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا، اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسائیوں کو شر سے نکال دیں۔ شرجیلؓ نے اُٹھ کر کہ۔
اے امیر! تجھ کو ہرگز یہ حق حاصل نہیں۔ ہم نے ان عیسائیوں کو اس شرط پر امن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں۔ اس لیے نقص عہد کیونکر ہو سکتا ہے؟
حضرت ابو عبیدہؓ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہیں ہوئی کہ آخر کیا کیا جائے؟ عام حاضرین نے رائے دی کہ حمص میں ٹھہر کر امدادی فوج کا انتظار کیا جائے۔ ابو عبیدہؓ نے کہا، اتنا وقت کہاں ہے؟ آخر یہ رائے ٹھہری کہ حمص چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں۔ وہاں خالدؓ موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے۔ یہ ارادہ مصمم ہو چکا تو حضرت ابو عبیدہؓ نے حبیبؓ بن مسلمہ کو جو افسر خزانہ تھے، بلا کر کہا کہ ’’عیسائیوں سے جو جزیہ یا خراج لیا جاتا ہے، اس معاوضہ میں لیا گیا کہ ہم ان کو ان کے دشمنوں سے بچا سکیں لیکن اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے۔
اس لیے جو کچھ ان سے وصول ہوا ہے، سب ان کو واپس دے دو اور ان سے کہہ دو کہ ہم کو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا، اب بھی ہے۔ چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جزیہ جو حفاظت کا معاوضہ ہے تم کو واپس کیا جاتا ہے۔
چنانچہ کئی لاکھ رقم جو وصول ہوئی تھی، واپس کر دی گئی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا ایسا اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے کہ ’’خدا تم کو واپس لائے۔
یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انھوں نے کہا، توریت کی قسم ،جب تک ہم زندہ ہیں، قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیے اور ہر جگہ چوکی پر پہرہ بٹھا دیا۔
ابو عبیدہؓ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتاؤ نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہو چکے تھے، ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقم وصول ہوئی، واپس کر دی جائے۔
غرض ابو عبیدہؓ دمشق کو روانہ ہوئے اور ان تمام حالات سے خلیفہ اسلام حضرت عمرؓ کو اطلاع دی۔ حضرت عمرؓ یہ سن کر کہ مسلمان، رومیوں کے ڈر سے حمص سے چلے آئے، نہایت رنجیدہ ہوئے لیکن جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ کُل فوج اور افسران کا بھی یہی فیصلہ تھا،تو فی لجملہ تسلی ہوئی اور فرمایا کہ خدا نے کسی مصلحت سے تمام مسلمانوں کو اس رائے پر متفق کیا ہو گا۔
ابوعبیدہؓ کو جواب لکھا ’’میں مدد کے لیے سعیدؓ بن عامر کو بھیجتا ہوں لیکن فتح و شکست فوج کی قلت و کثرت پر نہیں۔
ابوعبیدہؓ نے دمشق پہنچ کر تمام افسروں کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا۔ یزیدؓ بن ابو سفیان، شرجیلؓ بن حسنہ، معاذؓ بن جبل سب نے مختلف آراء دیں۔ اسی اثنا میں عمروؓبن العاص کا قاصد خط لے کر پہنچا جس کا یہ مضمون تھا کہ اردن کے اضلاع میں عام بغاوت پھیل گئی ہے۔ رومیوں کی آمد آمد نے سخت تہلکہ ڈال دیا ہے اور حمص کو چھوڑ کر چلانا آنا نہایت بے رعبی کا سبب ہوا ہے۔
ابوعبیدہؓ نے جواب میں لکھا کہ حمص کو ہم نے ڈر کر نہیں چھوڑا، بلکہ مقصود یہ تھا کہ دشمن محفوظ مقامات سے نکل آئے اور اسلامی فوجیں جو جا بجا پھیلی ہوئی ہیں، یکجا ہو جائیں۔ خط میں یہ بھی لکھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ٹلو، میں وہیں آ کر تم سے ملتا ہوں۔
دوسرے دن ابوعبیدہؓ دمشق سے روانہ ہو گئے اور اردن کی حدود میں یرموک پہنچ کر قیام کیا۔ عمروؓبن العاص بھی یہیں آ کر ملے۔ یہ علاقہ جنگ کی ضرورتوں کے لیے اس لحاظ سے مناسب تھا کہ عرب کی سرحد بہ نسبت اور تمام مقامات کے قریب تھی اور پشت پر عرب کی سرحد تک کھلا میدان تھا۔ جس سے یہ موقع حاصل تھا کہ ضرورت پر جہاں تک چاہیں، پیچھے ہٹتے جائیں۔
حضرت عمرؓ نے سعیدؓ بن عامر کے ساتھ جو فوج روانہ کی تھی، وہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔ ادھر رومیوں کی آمد اور ان کےسامان کی صورت حال سن سن کر مسلمان گھبرائے جاتے تھے۔ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کے پاس اور ایک اور قاصد دوڑایا اور لکھا کہ رومی بحر و بر سے اُبل پڑے ہیں۔ راہب اور خانقاہ نشین جنہوں نے کبھی خلوت سے قدم باہر نہیں نکالا تھا، نکل نکل کر فوج کے ساتھ ہوتے جاتے۔
خط پہنچا تو حضرت عمرؓ نے مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور خط پڑھ کر سنایا۔ تمام صحابہ بے اختیار رو پڑے اور نہایت جوش کے ساتھ پکار کر کہا، امیر المومنین! خدا کے لیے ہم کو اجازت دے دیں کہ ہم اپنے بھائیوں پر جا کر نثار ہو جائیں۔ خدانخواستہ ان کا بال بیکا ہوا تو پھر جینا بے سود ہے۔
مہاجرین و انصار کا جوش بڑھتا جاتا تھا یہاں تک کہ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا کہ امیر المومنین! تُو خود سپہ سالار بن اور ہم کو کو ساتھ لے کر چل۔
لیکن دوسرے صحابہ نے اس سے اختلاف کیا اور رائے یہ ٹھہری کہ اور امدادی فوجیں بھیجی جائیں۔ حضرت عمرؓ نے قاصد سے دریافت کیا کہ دشمن کہاں تک آ گئے ہیں؟ اس نے کہا ’’یرموک سے تین چار مترل کا فاصلہ رہ گیا ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ نہایت غمزدہ ہوئےا ور فرمایا کہ ’’افسوس اب کیا ہو سکتا ہے؟ اتنے عرصہ میں کیونکر مدد پہنچ سکتی ہے؟‘‘ پھر ابوعبیدہؓ کے نام نہایت پُرتاثیر الفاظ میں ایک خط لکھا اور قاصد سے کہا کہ خود ایک ایک صف میں جا کر یہ خط سنانا اور زبانی کہنا کہ حوصلہ کسی صورت نہ ہارنا۔
یہ عجیب حسن اتفاق ہوا کہ جس دن قاصد ابوعبیدہؓ کے پاس آیا اسی دن عامرؓ بھی ہزار آدمی کے ساتھ پہنچ گئے۔ مسلمانوں کو نہایت تقویت ہوئی اور انھوں نے استقلال کے ساتھ لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔ رومی فوجیں یرموک کے مقابل دیر الجبل میں اُتریں۔ خالدؓ نے لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔
معاذؓ بن جبل بڑے رتبہ کے صحابی تھے، انھیں میمنہ پر مقرر کیا۔ قبات بن اشیم کو میسرہ اور ہاشم بن عتبہ کو پیدل فوج کی افسری دی۔ اپنے رکاب کی فوج کے چار حصے کیے ایک کو اپنی رکاب میں رکھا باقی پر قیس بن ہبرہ، میسرہ بن شمروق اور عمروبن الطفیل کو مقرر کیا۔ یہ تینوں بہاد رتمام عرب میں انتخاب تھے اور اس وجہ سے فارس العرب کہلاتے تھے۔
رومی بھی بڑے سروسامان سے نکلے۔ دو لاکھ سے زیادہ کی جمعیت تھی اور ۲۴ صفیں تھیں۔ جن کے آگے آگے مذہبی پیشوا ہاتھوں میں صلیبیں لیے جوش دلاتے جاتے تھے۔ فوجیں بالکل مقابل آ گئیں تو ایک بطریق صف چیر کر نکلا اور کہا کہ میں تنہا لڑنا چاہتا ہوں۔ میسرہ بن مسروق نے گھوڑا بڑھایا مگر دشمن چونکہ نہایت تنومند اور جوان تھا، خالد نے روکا اور قیس بن ہبیرہ کی طرف دیکھا۔ وہ یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے بڑھے:
’’پردہ نشین عورتوں سے پوچھ لو، کیا میں لڑائی کے دن بہادروں کے کام نہیں کرتا۔‘‘
قیس اس طرح جھپٹ کر پہنچے کہ بطریق ہتھیار بھی نہیں سنبھال سکا تھا کہ ان کا وار چل گیا۔ تلوار سر پر پڑی اور خود کاٹتی ہوئی گردن تک اتر آئی۔ بطریق ڈگمگا کر گھوڑے سے گرا۔ ساتھ ہی مسلمانوں نے تکبیر کا نعرہ مارا۔ خالدؓ نے کہا شگون اچھا ہوا اور اب اللہ نے چاہا تو آگے فتح ہے۔ عیسائیوں نے خالدؓ کے ہمرکاب افسروں کے مقابلہ میں فوجیں متعین کی تھیں لیکن سب نے شکست کھائی۔ا س دن یہیں تک نوبت پہنچ کر لڑائی ملتوی رہ گئی۔
رات کو باہان نے سردار جمع کر کے کہا کہ عربوں کو شام کی دولت کا مزہ پڑ چکا۔ بہتر یہ ہے کہ مال و زر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالا جائے۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا۔ دوسرے دن ابوعبیدہؓ کے پاس قاصد بھیجا کہ کسی معزز افسر کو ہمارے پاس بھیج دو۔ ہم اس صلح کے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کا انتخاب کیا۔ قاصد، جو پیغام لے کر آیا تھا، اس کا نام جارج تھا۔ جس وقت وہ پہنچا شام ہو چکی تھی۔ ذرا دیر بعد مغرب کی نماز شروع ہو گئی۔ مسلمان جس ذوق و شوق کے سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس محویت سکون و وقار ادب و خضوع سے انھوں نے نماز ادا کی، قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔
جب نماز ہو چکی تو اس نے ابوعبیدہؓ سے چند سوالات کیے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ تم عیسیٰؑ کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو؟ ابوعبیدہؓ نے قرآن کی آیتیں پڑھیں۔
مترجم نے الفاظ کا ترجمہ کیا تو جارج بے اختیار پکار اُٹھا ’’بے شک عیسیٰ کے یہی اوصاف ہیں اور بے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کلمۂ توحید پڑھا اور مسلمان ہو گیا وہ اپنی قوم کے پاس واپس جانا نہیں چاہتا تھا لیکن حضرت ابوعبیدہؓ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بدعہدی کا گمان نہ ہو، مجبور کیا اور کہا کہ یہاں سے جو سفیر جائے گا، اس کے ساتھ چلے آنا۔
دوسرے دن خالدؓ رومیوں کی لشکر گاہ میں گئے۔ رومیوں نے اپنی شوکت دکھانے کے لیے پہلے سے یہ انتظام کر رکھا تھا کہ راستے کے دونوں جانب دور تک سواروں کی صفیں قائم کی تھیں جو سر سے پاؤں تک لوہے میں غرق تھے لیکن خالدؓ اس لاپروائی اور تحقیر کی نگاہ ان پر نظر ڈالتے جاتے جس طرح شیر بکروں کے ریوڑ چیرتا چلا جاتا ہے۔
باہان کے خیمے کے پاس پہنچے تو اس نے نہایت احترام کے ساتھ استقبال کیا اور لاکر اپنے برابر بٹھایا۔
مترجم کے ذریعے گفتگو شروع ہوئی۔ باہان نے معمولی بات چیت کے بعد لیکچر کے طریقے سے تقریر شروع کی۔ حضرت عیسیٰؑ کی تعریف کے بعد قیصر کا نام لیا اور فخر سے کہا کہ ہمارا بادشاہ تمام بادشاہوں کا شہنشاہ ہے۔ ترجمان الفاظ کا ابھی پورا ترجمہ نہ کر سکا تھا کہ خالدؓ نے باہان کو روک دیا اور کہا کہ تمہارا بادشاہ ایسا ہی ہو گا لیکن ہم نے جسے سردار بنا رکھا ہے، اس کو ایک لحظہ کے لیے اگر بادشاہی کا خیال آئے تو ہم فوراً اس کو معزول کر دیں۔
باہان نے پھر تقریر شروع کی اور اپنے جاہ و دولت کا فخر بیان کر کے کہا کہ اہلِ عرب! تمہاری قوم کے جو لوگ ہمارے ملک میں آ کر آباد ہوئے، ہم نے ہمیشہ ان کے ساتھ دوستانہ سلوک رکھا۔ ہمارا خیال تھا کہ اس مراعات کا تمام عرب ممنون ہو گا لیکن خلاف توقع تم ہمارے ملک پر چڑھ آئے اور چاہتے ہو کہ ہمیں ہمارے ہی ملک سے نکال دو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ بہت سی قوموں نے بارہا ایسے ارادے کیے لیکن کبھی کامیاب نہیں ہوئیں۔
اب تم کو کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ کوئی قوم جاہل، وحشی اور بے سروسامان نہیں، یہ حوصلہ ہوا ہے۔ ہم اس پر بھی در گزر کرتے ہیں بلکہ اگر تم یہاں سے چلے جاؤ تو انعام کے طور پر سپہ سالار کو دس ہزار دینار اور افسروں کو ہزار ہزار اور عام سپاہیوں کو سو سو دینار دلوا دیے جائیں گے۔
باہان اپنی تقریر ختم کر چکا تو خالدؓ اُٹھےا ور حمد و نعت کے بعد کہا، بے شبہ تم دولت مند اور مالدار ہو، صاحب حکومت ہو۔ تم نے اپنے ہمسایہ عربوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی ہمیں معلوم ہے، لیکن یہ تمہارا کچھ احسان نہ تھا بلکہ اشاعت مذہب کی ایک تدبیر تھی۔ جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ عیسائی ہو گئے اور آج خود ہمارے مقابلے میں تمہارے ساتھ ہو کر ہم سے لڑتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم نہایت محتاج، تنگدست اور خانہ بدوش تھے۔
ہمارے ظلم و جہالت کا یہ حال تھا کہ قوی کمزور کو پیس ڈالتا تھا۔ قبائل آپس میں لڑلڑ کر برباد ہوتے جاتے تھے۔ بہت سے خدا بنا رکھے تھے اور ان کو پوجتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے بت تراشتے تھے اور اس کی عبادت کرتے تھے، لیکن خدا نے ہم پر رحم کیا اور ایک پیغمبرؐ بھیجا جو خود ہماری قوم سے تھا اور ہم میں سب سے زیادہ شریف، زیادہ فیاض، زیادہ پاک خو تھا۔ اسؐ نے ہمیں توحید سکھائی اور بتا دیا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ وہ بیوی اور اولاد نہیں رکھتا۔وہ بالکل یکتا ویگانہ ہے۔
اس نے ہم کو یہ بھی حکم دیا کہ ہم ان عقائد کو تمام دنیا کے سامنے پیش کریں۔ جس نے ان کو مانا وہ مسلمان اور ہمارا بھائی ہے۔ جس نے نہ مانا لیکن جزیہ دینا قبول کیا، اس کے ہم حامی اور محافظ ہیں۔ جس کو دونوں سے انکار ہو، اس کے لیے تلوار ہے۔‘‘
باہان نے جزیہ کا نام سن کر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور اپنے لشکر کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’مر کر بھی جزیہ نہ دیں گے۔ ہم جزیہ لیتے ہیں دیتے نہیں۔‘‘ غرض کوئی معاملہ طے نہیں ہوا اور خالدؓ اُٹھ کر چلے آئے۔ اب اُس تاریخی لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں جس کے بعد رومی پھر کبھی سنبھل نہ سکے۔ خالدؓ کے چلے آنے کے بعد باہان نے سرداروں کو جمع کیا اور کہا کہ تم نے سنا، اہلِ عرب کو دعویٰ ہے کہ جب تک تم ان کی رعایا نہ بن جاؤ ان کے حملے سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ تم کو ان کی غلامی منظور ہے؟ تمام افسروں نے بڑے جوش سے کہا کہ مر جائیں گے مگر یہ ذلت گوارا نہیں ہو سکتی۔
صبح ہوئی تو رومی اس جوش اور سروسامان سے نکلے کہ مسلمانوں کو بھی حیرت ہو گئی۔ خالدؓ نے یہ دیکھ کر عرب کے عام قاعدے کے خلاف نئے طور سے فوج آرائی کی۔ فوج جو تیس پینتیس ہزار تھی، اس کے چھتیس حصے کیے اور آگے پیچھے نہایت ترتیب کے ساتھ اسی قدر صفیں قائم کیں۔ قلبِ فوج ابوعبیدہؓ کو دیا۔
میمنہ پر عمروؓ بن العاص اور شرجیلؓ مامور ہوئے۔ میسرہ یزید بن ابی سفیان کی کمان میں تھا۔ ان کے علاوہ ہر صف پر الگ الگ جو افسر متعین کیے، چن کر ان لوگوں کو کیا جو بہادری اور فنون جنگ میں شہرت عام رکھتے تھے۔ خطبا جو اپنے زور کلام سے لوگوں میں ہل چل ڈال دیتے تھے، اس خدمت پر مامور ہوئے کہ پُرجوش تقریروں سے فوج کو جوش دلائیں۔ انھیں میں ابوسفیان بھی تھے جو فوجوں کے سامنے یہ الفاظ کہتے پھرتے
یارو! نگاہیں نیچی رکھو۔ برچھیاں تان لو۔ اپنی جگہ پر جمے رہو پھر جب دشمن حملہ آور ہو تو آنے دو۔ یہاں تک کہ جب برچھیوں کی نوک پر آ جائیں تو شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑو۔
فوج کی تعداد اگرچہ کم تھی یعنی ۳۰، ۳۵ ہزار سے زیادہ آدمی نہ تھے لیکن تمام عرب میں منتخب۔ ان میں سے خاص وہ بزرگ جنہوں نے رسول اللہؐ کا جمال مبارک دیکھا تھا ایک ہزار تھے، سو بزرگ وہ تھے جو جنگ بدر میں رسول اللہؐ کے ہمرکاب رہے تھے۔
عرب کے مشہور قبائل میں سے دس ہزار سے زیادہ صرف ازو کے قبیلے کے تھے۔ حمیر کی ایک بڑی جماعت تھی، ہمدان، خولان نجم، جذام وغیرہ کے مشہور سردار تھے۔ اس معرکہ کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ عورتیں بھی اس میں شریک تھیں اور نہایت بہادری سے لڑیں۔ امیر معاویہؓ کی ماں ہند حملہ کرتی ہوئی بڑھتیں تو پکارتیں، عضدواغطفان بسیوفکم۔ امیر معاویہ کی بہن جویریرہ نے بھی بڑی دلیری سے جنگ کی۔
مقدادؓ جو نہایت خوش آواز تھے، فوج کے آگے آگے سورۂ انفال (جس میں جہاد کی ترغیب ہے) تلاوت کرتے جاتے تھے۔
اُدھر رومیوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ تیس ہزار آدمیوں نے پاؤں میں بیڑیاں پہن لیں کہ ہٹنے کا خیال تک نہ آئے۔ جنگ کی ابتدا رومیوں کی طرف سے ہوئی۔
دو لاکھ کا ٹڈی دل ایک ساتھ بڑھا۔ ہزاروں پادری اور بشپ ہاتھوں میں صلیب لیے آگے تھے۔ اور حضرت عیسیٰؑ کی جے پکارتے آتے۔ یہ سروسامان دیکھ کر ایک شخص کی زبان سے بے اختیار نکلا۔ ’’اللہ اکبر کس قدر بے انتہا فوج ہے۔‘‘ خالدؓ نے جھلا کر کہا، چپ رہ۔ اللہ کی قسم میرے گھوڑے کے سم اچھے ہوتے تو میں کہہ دیتا ’’عیسائی اتنی ہی فوج اور بڑھا لیں۔‘‘
غرض عیسائیوں نے نہایت زور و شور سے حملہ کیا اور تیروں کا مینہ برساتے بڑھے۔ مسلمان دیر تک ثابت قدم رہے لیکن حملہ اس زور کا تھا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علیحدہ ہو گیا اور نہایت بے ترتیبی سے پیچھے ہٹا۔ ہزیمت یافتہ ہٹتے ہٹتے خواتین کے خیمہ گاہ تک آ گئے۔ عورتوں کو یہ حالت دیکھ کر سخت غصہ آیا۔ انھوں نے خیمہ کی چوبیں اکھاڑ لیں اور پکاریں کہ نامردو! ادھر آئے تو چوبوں سے تمہارا سر توڑ دیں گے۔
یہ حالت دیکھ کر معاذؓ بن جبل جو میمنہ کے ایک حصہ کے سپہ سالار تھے، گھوڑے سے کود پڑے اور کہا کہ میں تو پیدل لڑتا ہوں لیکن کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کر سکے تو گھوڑا حاضر ہے۔‘‘ ان کے بیٹے نے کہا ’’ہاں یہ حق میں ادا کروں گا۔ کیونکہ میں سوار ہو کر اچھا لڑ سکتا ہوں۔‘‘
غرض دونوں باپ بیٹے فوج میں گھسے اور اس دلیری سے جنگ کی کہ مسلمانوں کے اُکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ ساتھ ہی حجاج جو قبیلہ ’زبدہ‘ کے سردار تھے، پانچ سو آدمی لے کر بڑھے اور عیسائیوں کو روک لیا جو مسلمانوں کا تعاقب کرتے چلے آئے تھے۔ میمنہ میں قبیلہ ازد شروع حملہ سے ثابت قدم رہا تھا۔
عیسائیوں نے لڑائی کا سارا زور ان پر ڈالا لیکن وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے۔ جنگ کی یہ شدت تھی کہ فوج میں ہر طرف سر ہاتھ بازو کٹ کٹ کر گرتے جاتے تھے لیکن ان کے پائے ثبات کو لغرش نہیں ہوئی۔ عمروبن الطفیل جو قبیلہ کے سردار تھے، تلوار مارتے جاتے اور للکارتے کہ ازدیو! دیکھنا۔ مسلمانوں پر تمہاری وجہ سے داغ نہ آئے۔
‘‘ نو بڑے بڑے بہادر ان کے ہاتھ سے مارے گئے اور آخر خود شہادت حاصل کی۔
حضرت خالدؓ نے اپنی فوج کو پیچھے لگا رکھا تھا۔ اچانک وہ صف چیر کر نکلے اور اس زور سے حملہ کیا کہ رومیوں کی صفیں ابتر کر دیں۔ عکرمہ نے جو ابوجہل کے فرزند تھے اور سلام لانے سے پہلے اکثر کفار کے ساتھ رہ کر لڑے تھے، گھوڑا آگے بڑھایا اور کہا ’’عیسائیو! میں کسی زمانے (کفر کی حالت) میں خود رسول اللہؐ سے لڑ چکا ہوں۔ کیا آج تمہارے مقابلہ میں میرا پاؤں پیچھے پڑ سکتا ہے؟ یہ کہہ کر فوج کی طرف دیکھا اور کہا، مرنے پر کون بیعت کرتا ہے؟ چار سو اشخاص نے جن میں ضرار بن ازور بھی تھے، مرنے پر بیعت کی اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ قریباً سب کے سب وہیں کٹ کر رہ گئے۔ عکرمہ کی لاش مقتولوں کے ڈھیر میں ملی۔ کچھ کچھ دم باقی تھا۔ خالدؓ نے اپے زانو پر ان کا سر رکھا اور گلے میں پانی ٹپکا کر کہا۔ ’’خدا کی قسم عمرؓ کا گمان غلط تھا کہ ہم شہید ہو کر نہ مریں گے۔‘‘
غرض عکرمہ اور ان کے ساتھی گو خود شہید ہو گئے لیکن رومیوں کے ہزاروں آدمی برباد کر دیے۔ خالدؓ کے حملوں نے اور بھی ان کی طاقت توڑ دی یہاں تک کہ آخر ان کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ خالدؓ ان کو دباتے ہوئے سپہ سالار (ورنجار) تک پہنچ گئے۔ ورنجار اور رومی افسروں نے آنکھوں پر رومال ڈال لیے کہ اگر ان کی آنکھیں فتح کی صورت نہ دیکھ سکیں تو شکست بھی نہ دیکھیں۔ عین اس وقت جب ادھر میمنہ میں بازار اقبال گرم تھا، ابن قطاطیر نے میسرہ پر حملہ کیا۔ بدقسمتی سے اس حصے میں اکثر لحم و غسان کے قبیلہ کے آدمی تھے جو شام کے اطراف میں بودباش رکھتے تھے۔ ایک مدت سے روم کے باجگزار رہتے آتے تھے۔
رومویوں کا رعب جو دلوں میں سمایا ہوا تھا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ پہلے ہی حملے میں ان کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ اگر افسروں نے بھی بے ہمتی کی ہوتی تو لڑائی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ رومی بھگوڑوں کا پیچھا کرتے ہوئے خیموں تک پہنچ گئے۔
عورتیں یہ حالت دیکھ کر بے اختیار نکل پڑیں اور ان کی پامردی نے عیسائیوں کو آگے بڑنے سے روک دیا۔ فوج اگرچہ ابتر ہو گئی تھی لیکن افسروں میں سے قباث بن اشیمؓ، سعید بن زید، یزیدؓ بن ابی سفیان، عمروؓبن شرجیل بن حسنہ داد شجاعت دے رہے تھے۔
قباث کے ہاتھ سے تلواریں اور نیزے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جاتے مگر ان کے تیور پر بل نہ آتا۔ نیزہ ٹوٹ کر گرتا تو کہتے کہ کوئی ہے جو اس شخص کو ہتھیار دے جس نے خدا سے اقرار کیا ہے کہ میدان جنگ سے ہٹے گا تو مر کر ہٹے گا۔‘‘
لوگ فوراً تلوار یا نیزہ ان کے ہاتھ میں لا کر دے دیتے اور پھر وہ شیر کی طرح جھپٹ کر دشمن پر جا پڑتے۔ ابوالاعور گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے رکاب کی فوج سے مخاطب ہو کر کہا کہ صبر و استقلال دنیا میں عزت ہے اور عقبی میں رحمت، دیکھنا یہ دولت ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ’’سعیدؓ بن زید غصہ میں گھٹنے ٹیکے ہوئے کھڑے تھے۔ رومی ان کی طرف بڑھے تو شیر کی طرح جھپٹے اور مقدمہ کے افسر کو مار کر گرا دیا۔ یزیدؓ بن ابی سفیان (معاویہؓ کے بھائی) بڑی ثابت قدمی سے لڑ رہے تھے۔
اتفاق سے ان کے والد ابوسفیان جو فوج کو جوش دلاتے پھرتے تھے ، ان کی طرف آ نکلے۔ بیٹے کو دیکھ کر کہا ، جان پدر اس وقت میدان میں ایک ایک سپاہی شجاعت کے جوہر دکھا رہا ہے۔ تُو سپہ سالار ہے اور سپاہیوں کی بہ نسبت تجھ پر شجاعت کا زیادہ حق ہے۔ تیری فوج میں سے ایک سپاہی بھی اس میدان میں تجھ سے بازی لے گیا تو تیرے لیے شرم کی جگہ ہے۔
شرجیلؓ کا یہ حال تھا کہ رومیوں کا چاروں طرف سے نرغہ تھا اور یہ درمیان میں پہاڑ کی طرح ڈٹے کھڑے نعرہ مارتے، ’’خدا کے ساتھ سودا کرنے والے اور خدا کے ہمسایہ بننے والے کہاں ہیں؟ یہ آواز جس کے کان میں پڑی ، بے اختیار لوٹ پڑا یہاں تک کہ اکھڑی ہوئی فوج پھر سنبھل گئی۔ شرجیلؓ نے ان کو لے کر اس بہادری سے جنگ کی کہ رومی جو ٹوٹے چلے آتے تھے، بڑھنے سے رک گئے۔
ادھر عورتیں خیموں سے نکل نکل کر فوج کی پشت پر آ کھڑی ہوئیں اور چلا کر کہتی تھیں کہ میدان سےقدم ہٹایا تو پھر ’’ہمارا منہ نہ دیکھنا۔‘‘
لڑائی کے معقول پہلو اب تک برابر تھے بلکہ غلبہ کا پلہ رومیوں کی طرف تھا۔ دفعتاً قیس بن ہبیرہ جن کو خالدؓ نے فوج کا ایک حصہ دے کر میسرہ کی پشت پر متعین کر دیا تھا، عقب سے نکلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ رومی سرداروں نے بہت سنبھالا مگر ان کی فوج سنبھل نہ سکی تمام صفیں ابتر ہو گئیں اور گھبرا کر پیچھے ہٹیں۔ ساتھ ہی سعیدؓ بن زید نے قلب سے نکل کر حملہ کیا۔ رومی دور تک ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ میدان کے سرے پر جو نالہ تھا، اس کے کنارے تک آ گئے۔ تھوڑی دیر میں ان کی لاشوں نے وہ نالہ بھر دیا اور میدان خالی ہو گیا۔
اس لڑائی کا یہ واقعہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس وقت گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی، حباش بن قیس جو ایک بہادر سپاہی تھے، بڑی جانبازی سے لڑ رہے تھے۔ اس اثنا میں کسی نے ان کے پاؤں پر تلوار ماری اور ایک پاؤں کٹ کر الگ ہو گیا۔ حباش کو خبر تک نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو ڈھونڈتے پھرتے تھے کہ میرا پاؤں کیا ہوا؟ ان کے قبیلے کے لوگ اس واقعہ پر ہمیشہ فخر کرتے تھے۔
رومیوں کے جس قدر آدمی مارے گئے ان کی تعداد میں اختلاف ہے۔ طبری اور ازدی نے لاکھ سے زیادہ بیان کی ہے۔ بلاذری نے ستر ہزار لکھا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار کا نقصان ہوا جن میں ضرارؓ بن ازور، ہاشم بن العاصی ایان، سعیدؓ وغیرہ تھے۔ قیصر انطاکیہ میں تھا کہ شکست کی خبر پہنچی۔ اسی وقت قسطنطنیہ کی تیاری کی۔ چلتے وقت شام کی طرف رُخ کر کے کہا۔ ’’الوداع اے شام‘‘ ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو نامہ فتح لکھا۔ اور ایک مختصر سی جماعت بھیجی جس میں خدیفہ بن الیمان بھی تھے۔ حضرت عمرؓ یرموک کی خبر کے انتظار میں کئی دن سے سوئے نہ تھے۔ فتح کی خبر پہنچی تو دفعتاً سجدہ میں گرے اور اللہ کا شکرا دا کیا۔
ابوعبیدہؓ یرموک سے حمص کو واپس گئے اور خالدؓ کو سنسرین روانہ کیا۔ شہر والوں نے اوّل مقابلہ کیا لیکن پھر قلعہ بند ہو کر جزیہ کی شرط پر صلح کر لی۔ یہاں عرب کے قبائل میں سے قبیلہ تنوخ مدت سے آ کر آباد ہو گیا تھا۔ یہ لوگ برسوں تک کمل کے خیموں میں بسر کرتے رہے تھے لیکن رفتہ رفتہ تمدن کا یہاں اثر ہوا کہ بڑی بڑی عالیشان عمارتیں بنوالی تھیں۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے ہم قوی کے اتحاد سے ان کو اسلام کی ترغیب دی چنانچہ سب مسلمان ہو گئے۔ صرف بن سلیح کا خاندان عیسائیت پر قائم رہا۔ چند روز کے بعد وہ بھی مسلمان ہو گیا۔ قبیلہ طے کے بھی بہت سے لوگ یہاں آباد تھے۔ انھوں نے بھی اپنی خوشی سے اسلام قبول کر لیا۔ جنگِ یرموک ۱۵ تا ۲۰ اگست ۶۳۶ء میں لڑی گئی۔
٭٭٭