نماز کی اہمیت
یہی ایک وہ مستند کلیہ ہے جو بحیثیت مسلمان ہمیں ہر طرح کے ڈپریشن اور ذہنی عوارض سے نجات فراہم کرتاہے
طاہر ایوب جنجوعہ
انسانی فطرت کا تقاضا ہے روزِ ازل سے انسان سکون اطمینان اور خوشیوں کا متلاشی رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف وہ ہر طرح کے جتن کرتا بلکہ انھیں ہر مول اور ہر قیمت میں خریدنے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ آج کے اس موجودہ دور میں چہار سُو جس طرح سے پریشانیوں، غموں اور دکھوں کےکالے سیاہ بادل چھائے ہوئے اور جس طرح ہمارے معاشرے کا ہر فرد نفسیاتی دباؤ، ذہنی انتشار اور اندرونی خلفشار کا شکار ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحیثیت مسلمان کوئی وجہ تو ہے جو ہماری اس طرزِ معاشرت میں افراتفری اور بحرانی کیفیات برپا کیے ہوئے ہے-
آج اسلام کی دولت اور ایک مکمل نظامِ زندگی موجود ہونے کے باوجود ہماری تہذیبی و معاشرتی حالت یہ ہے کہ عامل پیر، بابے، نجومی اور جوتشی جگہ جگہ ٹینشن بھگاؤ سینٹر کھولے دن رات ’’ہر مشکل کا حل‘‘، ’’ہر کامیابی کا راز‘‘ جیسے دعوؤں سے نہ صرف ’’فیض‘‘ بانٹتے پھر رہے بلکہ تمام طرح کی بیماریوں، مصائب و مشکلات کے علاج بھی ایجاد کر چکے ہیں۔
یہ الگ بات کہ ان کے اس فیض سے کسی کو افاقہ ہو نہ ہو، ان کی اپنی پریشانیاں اور غم ضرور دور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت تو یہ دھندہ جدید خطوط پر استوار ہو کر باقاعدہ ایک انڈسٹری اور کاروبار کی صورت اختیار کر چکا۔ بہرحال یہ ایک الگ اور بڑا موضوع ہے، جس پر پھر کبھی ضرور بات ہو گی۔ فی الوقت ہمارا موضوع ایک اینٹی ڈپریشن، اینٹی اینگزائٹی اور اینٹی اسٹریس دوا اور بےچین دلوں کا چین ،اور بےقرار روحوں کی غذا یعنی نماز ہے۔
بحیثیت مسلمان نماز ہماری زندگیوں میں بہت اہم ہے۔
یہ ایسا تحفہِ خداوندی ہے جو حقیقی معنوں میں کامیابی اور شفا کا ضامن ہے۔ جو باقاعدگی سے نماز ادا کرتے ہیں، وہ اس کی لذت، چاشنی، لطف اور سرُور کو اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ میں کوئی عالم نہیں، نہ ہی کوئی داعی یا مبلغ کہ قرآن و حدیث یا آئمہ و محدثین کے اقوال و فرامین کی روشنی میں اس کی برتری و اہمیت ثابت کروں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا اور لکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ اور حقیقی امر یہ بھی ہے کہ نماز کی ادائیگی کے طریقہ کار کے سوا اس کی فرضیت پر تمام مسالکِ اسلامیان کا نہ صرف اتفاق ہے، بلکہ تمام مسالک نماز کی ادائیگی کو غیر معمولی اہمیت بھی دیتے ہیں-
نماز خالقِ کائنات سے تعلق کا ایک دیرینہ ذریعہ اور عبادات میں سب سے اہم عبادت ہے۔ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات بھی اپنی جگہ مسلّم لیکن سرِدست ہمارا موضوع انسان کی ذہنی و جسمانی صحت پر خشوع و خضوع سے ادا کی گئی نماز کے اثرات اور جدید طبی تحقیقات کی رُو سے اس کے ثمرات کا جائزہ ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر سطح کی برائیاں، عیب اور نقص انسانی زندگی میں ذہنی انتشار اور نفسیاتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان کا یہ اندرونی خلفشار ہی انسان میں رنج ،الم اور حزن و ملال کی کیفیات برپا کرتا ہے۔
اسی طرح جدید طبی ماہرین کے مطابق طہارت، پاکیزگی اور نفاست نہ صرف انسانی ذہن پر انتہائی مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب کرتی بلکہ اسے آزردگی اور بے سکونی کی کیفیات سے بھی نجات دلاتی ہے۔ ان حقائق کے پیشِ نظر بلاشبہ یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ نماز انسان کو ہر طرح کی ذہنی و نفسیاتی اور جسمانی پیچیدگیوں سے چھٹکارا دلا کر اسے سکون، فراغت اور طمانیت کا خوشگوار احساس بخشتی ہے۔
سجدہ اور دماغی کارکردگی
یونیورسٹی آف ملائیشیا کی ایک ریسرچ نے سائنس و طب کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق دوران نماز مختلف نمازیوں کی حرکات و سکنات کا بغور معائنہ کیا گیا۔ نتائج سے پتہ چلا کہ نماز کے دوران اور خصوصاً سجدے کے وقت دماغ میں ایلفا ویوز ایکٹویٹی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ ایلفا ویوز وہ اعصابی لہریں ہیں جو انسانی دماغ میں سکون ، اطمینان اور خوشی کے جذبات پیدا کرتی ہیں۔
یہ لہریں روزمرہ زندگی کی مشکلات اور تکالیف کے شکار دماغ کو پُرسکون کرنے اور انسانی توجہ اور صلاحیتوں کو نکھارنے میں بھی اہم کردار ادا کر تی ہیں۔ ایلفا ویوز کی کثرت دماغ کے پرائٹل ور آکسیپیٹل حصوں میں دیکھی گئی جو کہ دماغ کے بالائی اور عقبی حصوں میں واقع ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بار بار کے تجربات کے دوران یہی صورتحال نظر آئی اور اگرچہ دیگر مراحل کے دوران ایلفا ویوز میں نسبتاً کم اضافہ ہوتا تھا لیکن سجدے کے دوران ان کے سگنل عروج پر پہنچ جاتے۔
تجربے کے نتائج اس قدر شاندار اور حیران کن تھے کہ اس تحقیق کو فوری طور پر بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسی جریدے اپلائیڈ سائیکالوجی میں شائع کرنے کی درخواست کر دی گئی۔
دلچسپ بات یہ کہ مغرب کے متعدد جرائد نے بھی اس تحقیق کے بارے میں مضامین شائع کیے اور اعتراف کیا کہ اس بات کے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ مسلمانوں کی یہ عبادت دماغ میں ایلفا ویو کارکردگی کو نمایاں طور پر بڑھا دیتی ہے۔
یوگا سے بہتر نماز
مغرب کے ماہرینِ نفسیات ’’یوگا‘‘ کی اہمیت و افادیت کے قائل ہیں۔ وہ اکثر ذہنی انتشار، پریشانی اور بے خوابی کے شکار مریضوں کو یوگا کی تلقین کرتے ہیں۔ یوگا کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ مریض اپنی تمام تر توجہ اور دماغی قوت صرف ایک نقطے پرمرکوز کر دیتا ہے۔
ایک وقت میں صرف ایک ہی خیال ذہن میں موجود رہتا ہے اور ا س کے علاوہ دیگر افکار وخیالات سے توجہ ہٹا لی جاتی ہے۔ اس سے دماغ رفتہ رفتہ پُرسکون ہو جاتا ہے اور ذہنی انتشار اور پریشانی ختم ہو جاتی ہے۔
’’یوگا‘‘ کا یہ انداز اور علاج تو آج دریافت ہوا لیکن نماز میں اللہ کی جانب دل کو متوجہ کرنے اور دیگر تمام افکار و خیالات سے توجہ ہٹا کر اللہ کے سامنے کھڑا رہنے اور یک سوئی کے اس تصور سے ذہنی انتشار و پریشانی دُور کرنے کا طریقہ چودہ سو سال پہلے نماز کی شکل میں بتا دیا گیا۔
جسمانی تناؤ اور بےچینی کا خاتمہ
اسی طرح برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی، امریکا کی مینیسوٹا یونیورسٹی اور پین اسٹیٹ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اگر پانچ وقت کی نماز کو عادت بنا لیا جائے اور درست انداز سے ادا کی جائے تو یہ جسمانی تناؤ اور بے چینی کا خاتمہ کرنے کے ساتھ کمردرد اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل سے بھی نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ مختلف طبی رپورٹوں سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ نماز اور جسمانی طور پر صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنے میں گہرا تعلق موجود ہے۔
تہجد کی نماز اور جدید تحقیق
ایک عربی ویب سائٹ ’’المحیط‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے حیاتیاتی ماہرین کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا کہ جو لوگ رات کے پچھلے پہر نماز ادا کرتے ہیں، ان میں بڑھاپے کے اثرات جلد ظاہر نہیں ہوتے۔ رات کے آخری حصے میں بیدار ہونے سے انسانی صحت اور دماغ پر اچھے اثرات مرتب ہو تے ہیں۔
’’المحیط‘‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے شہر میونخ میں واقع Ludwig University کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں انسانی جسم کی حیاتیاتی گھڑی کا سراغ لگانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیاتیاتی گھڑی انسان کے دماغ کے اگلے حصے میں غدود کی شکل میں موجود ہے جو جسم میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ غدود کھجور کی گٹھلی کی شکل میں ہوتے ہیں جو روشنی اور اندھیرے میں مرتب ہونے والے اثرات دماغ تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
کوئی انسان اگر دیر رات تک جا گتا ہے تو اس کا منفی اثر دماغ کے اس حصے پر براہ راست پڑتا ہے۔ اس کا اثر انسانی صحت پر رو نما ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان رات کے پچھلے پہر اُٹھ کر کسی قسم کی ورزش کرے تو اس کےبھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور صحت ٹھیک رہتی ہے۔ انسان جلد بوڑھا نہیں ہوتا۔ رپورٹ کے مطابق جر من ماہرین نے ہلکی پھلکی ورزش کو زیادہ مفید قرار دیا ہے۔ رات کے پچھلے پہر کی فضا اور آب و ہوا بھی انسانی جسم پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔
جرمن ماہرین کا کہنا ہے کہ نماز میں وہ تمام فوائد پائے جاتے ہیں جو کسی بھی صحت بخش ورزش میں مو جود ہیں۔ رات کے پچھلے پہر ادا کی جانے والی نماز کے مثبت اثرات براہِ راست ریڑھ کی ہڈی پر مرتب ہوتے جبکہ اعصاب کو تقویت ملتی ہے۔ نتیجے میں چہرے پر جھریاں نمودار نہیں ہوتیں۔
محققین نے 55 ہزار لوگوں پر تحقیق کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ افراد جو رات کو جلدی سوتے اور آخری پہر میں اُٹھ کر ہلکی پھلکی ورزش کرتے ہیں، وہ دیر سے بو ڑھے ہوتے ہیں۔ اس کی بنیا دی وجہ ان کی بائیو لوجیکل گھڑی پر مرتب ہونے والے مثبت اثرات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مصر کے ما ئیکر وبا ئیو لو جسٹ ڈاکٹر ہانی المنصوری نے اپنی تحقیق پر اپنے مقالے میں بحث کرتے ہوئے لکھا کہ جس طرح انسانی جسم پر غذا اثرات مرتب کرتی ہے، ویسے ہی انسان کے معمولات بھی اس کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ہانی کے مطابق جو لوگ اپنی بائیو لو جیکل گھڑی کی حفاظت کرنے کے خواہاں ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ تہجد کی ادائیگی اپنا معمول بنا لیں۔
نفسیاتی و ذہنی مسائل کا حل
دنیا بھر کے اکثر بڑے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نفسیاتی و ذہنی مسائل کے حل کے لیے مہنگے اور منفی نتائج کے حامل علاج سے کہیں بہتر اور آسان نسخہ صرف اور صرف نماز ہے۔
بہترین اور مکمل ورزش
دنیا کے بڑے فزیو تھراپسٹ اس امر کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ ایک وجہ یہ بھی کہ اصولاً اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے۔ اللہ ربّ العزت نے اپنی اس عبادت یعنی نماز میں وہ تمام عوامل رکھ دیے ہیں جو ورزش اور فزیو تھراپی کی تمام کسوٹی اور معیارات پر پورا اترتے ہیں-
مزید نماز کا سب سے بڑا فائدہ یہ کہ انسان پاک صاف اور شفاف طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے۔ اس سے وہ کئی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔
وضو اور جدید سائنسی تحقیق
پانچ وقت وضو کرنے سے تمام بدن اندر اور باہر سے دھل جاتا ہے۔ دانت صاف رہتے ہیں۔ یقیناً انسانی جسم کی زیادہ تر بیماریاں دانتوں سے ہی جنم لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ نمازی کو جہاں قلب و دل کو سکون میسر ہوتا ہے، وہیں اس میں کچھ اور دوسری خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں،مثلاً:
٭ وہ وقت کا پابند ہوتا ہے۔
٭ نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ اصول پرست اور وفا شعار ہوتا ہے۔
٭ باحیا اور بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ با اعتماد اور پرکشش شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔
الغرض نماز انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ اسے مادیت سمیت ہر طرح کی دنیاوی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کرتی ہے۔ البتہ یہ خصوصیات پیدا کرنے کے لیے روایتی قسم کی نماز کی عادت کافی نہیں۔ اس کے لیے خشوع و خضوع اور دوسرے شرعی لوازمات پورے کرنا بھی ضروری ہے۔
اگر ہم آج سے ہی اپنے اور اپنے گھر والوں کو نماز کا عادی بنانے کا عہد کر لیں اور پھر اس عہد پر کاربند رہیں تو یقین مانیے کہ ہماری زندگیوں میں نہ صرف انقلابی کیفیات پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی، بلکہ ہر قسم کی وقتی منفعت، ہوس، لالچ اقتدار و اختیار کے لیے کبیدہ خاطر اور رنجیدہ ہونے کے بجائے سکون، اطمینان کی زندگیاں ہمارا مقدر بن جائیں گی۔
یقیناً ہماری دنیاوی زندگی باغ و بہار اور کیف و سرور کی کیفیت میں بسر ہونا شروع ہو جائے گی۔ بس یہی ایک وہ مستند کلیہ ہے جو بحیثیت مسلمان ہمیں ہر طرح کے ڈپریشن اور ذہنی عوارض سے نجات فراہم کر سکتا ہے۔
٭٭٭