32 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

ازدواجی خوشیوں کا راز

 

خوشیوں کا راز

میاں بیوی کی سچی محبت ساتھ نبھانے میں ہے…نسلِ نو کی جلد بازی گھر بسنے نہیں دیتی

ڈاکٹر محمد نوید ازہر

دین اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس میں مرد اور عورت دونوں کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے۔ جہاں عورت کو ماں، بہن، بیٹی کے اعزاز سے نوازا گیا، حق مہر سے سرفراز کیا گیا اور وراثت میں حصہ دار بنایا گیا ہے، وہاں مرد کو بھی تعظیم اور تکریم بخشی گئی ہے۔ اس کے سر پر فضیلت کا تاج سجا کر اِسے مجازی خدا کا لقب عطا کیا گیا ہے۔ مرد کی یہ برتری عورت ہی کے فائدے میں ہے اور اسی میں ازدواجی زندگی کا آرام و سکون پوشیدہ ہے۔
حقوق و فرائض کی اس تقسیم سے کسی صنف کو زیرِ بار کرنا مقصود نہیں، بلکہ اس کا مقصد طرفین کی زندگی کو خوشگوار بنانا اور لازوال مسرتوں سے ہمکنار کرنا ہے۔ لِتَسکُنُوا اِلَیہا کے تحت راحت و سکون ہی رشتہ ازدواج کا بنیادی تقاضا ہے۔ عورت پر، مرد کا کیا حق ہے اور اسے کس طرح اپنے خاوند کی دلجوئی کرنی چاہیے، اس کی باریک سے باریک تفصیل بھی رسول رحمت ؐکے فرمودات عالیہ میں نظر انداز نہیں کی گئی۔
اسلامی نظام حیات میں مرد و زن پر جو فرائض عائد کیے گئے ہیں، وہ عدل و انصاف کے تقا ضوں کے عین مطابق ہیں۔ دونوں کے فرائض کی نشان دہی دونوں کی فطرت کے مطابق کی گئی ہے۔ مرد اور عورت دونوں اللہ کی مخلوق ہیں۔ اللہ اپنی کسی مخلوق پر ظلم نہیں کرتا۔ جب وہ کسی مخلوق پر ذمے داری عائد کرتا ہے تو اس سے عہدہ بر آ ہونے کی ہمت اور طاقت بھی عطا کرتا ہے۔ مرد کی فطری خصوصیات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ گھرانے کا نگران ہو۔ وہی خاندان کی معاشرتی ضروریات کا کفیل ہے اور خاندانی اخراجات کا ذمہ دار ہے۔ چناں چہ خاندان میں نمایاں اور بالا تر رتبے کا مالک ہونا اس کا حق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامی نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
ـ’’مرد محافظ و نگران ہیں عورتوں پر، اس وجہ سے کہ فضیلت دی ہے اللہ نے مردوں کو عورتوں پر، اور اس وجہ سے کہ مرد خرچ کرتے ہیں اپنے مالوں سے (عورتوں کی ضرورت اور آرام کے لیے)، تو نیک عورتیں اطاعت گزار ہوتی ہیں، (اپنی پاک دامنی اور مرد کے حقوق کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں مردوں کی غیر حاضری میں، اللہ کی حفاظت سے۔۔۔الخ (النساء۴:۳۴)
اگر مرد کو عورت پرفضیلت نہ دی جائے تو لازمی طور پر بچوں کی پرورش صحیح خطوط پر نہیں ہو سکے گی۔ والدکی شخصیت کمزور ہونے کی وجہ سے و الدہ کی شخصیت بچوں پر غالب آ جائے گی۔ یہ روز مرہ مشاہدے کی بات ہے کہ اگر باپ فوت ہو چکا ہو یا بچوں کا کوئی قانونی سرپرست نہ ہو تو بچے اعصابی، نفسیاتی اور اخلاقی غرضیکہ ہر لحاظ سے نا مکمل رہ کر بے راہ روی کی نذر ہو جاتے ہیں۔
امام بیہقیؒ نے سنن میں ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بہترین عورت وہ ہے کہ جب تو اسے دیکھے تو تجھے خوش کر دے، جب تو اسے کوئی حکم دے تو تیری اطاعت کرے، جب تو غائب ہو تو تیرے مال کی اور اپنی حفاظت کرے‘‘۔ پھر رسول اللہ (ﷺ) نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی۔ (تفسیر طبری،زیر آیتِ مذکورہ)
حاکم اور بیہقی نے حصین بن محصن کے واسطے سے روایت نقل کی ہے کہ مجھے میری پھوپھی نے بتایا کہ میں حضور ﷺ کی بارگاہ میں ایک کام کے سلسلے میں حاضر ہوئی۔ آپؐ نے پوچھا:اے عورت! کیا تیرا خاوند ہے؟ میں نے عرض کیا:جی ہاں، فرمایا:تیرا اس کے ساتھ کیا سلوک ہے؟ میں نے عرض کیا:میں اس کی ضرورت پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، مگر جو کام کرنے سے عاجز ہوں۔ فرمایا:
’’خیال رکھنا کہ تم اس کے ہاں کیا حیثیت رکھتی ہو۔ بے شک اطاعت کی صورت میں وہ تمہاری جنت اور نافرمانی کی صورت میں وہ تمہاری جہنم ہے‘‘۔ (مستدر ک حاکم،ج ۲، ۲۶۸۴)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جس شخص کی بیوی اپنے خاوند کے بلانے پر انکار کر دیتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ اس وقت تک ناراض رہتا ہے، جب تک اس کا خاوند اس سے راضی نہ ہو جائے۔‘‘ (مسلم،۳۵۴۰) ایک حدیث میں ہے کہ عورت پر لعنت نازل ہوتی رہتی ہے۔ (مسلم،۳۵۳۸)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’مجھے جہنم کی آگ دکھائی گئی، جہنم میں ان عورتوں کی تعداد زیادہ تھی جو ناشکری کرتی ہیں۔ پوچھا گیا:کیا اللہ کی ناشکری کرتی ہیں؟ فرمایا:خاوندکی نافرمانی کرتی ہیں اور اس کے احسانات کا شکریہ ادا نہیں کرتیں اگر تم زندگی بھر ان کے ساتھ احسان کرتے رہو اور صرف ایک دن وہ تم سے ناپسندیدہ چیز دیکھیں، تو کہہ دیتی ہیں:مجھے تم سے کبھی بھلائی نہیں پہنچی‘‘۔ (بخاری ،حدیث نمبر ۲۹)
امام احمد نے حضرت اسماء بنت یزید سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہؐ ہمارے پاس سے گزرے، جبکہ ہم عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں۔ آپؐ نے ہمیں سلام فرمایا اور ارشاد فرمایا:
’’احسان کرنے والوں کی ناشکری سے بچو‘‘۔ ہم نے عرض کیا:احسان کرنے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ فرمایا:
’’ممکن ہے تم میں سے کوئی عورت اپنے والدین کے پاس زیادہ عرصہ شادی کے بغیر رہی ہو، پھر اللہ تعالیٰ اسے کسی خاوند کے مقدر میں کر دے، اور اللہ اسے اس خاوند سے مال اور اولاد دے، پھر وہ عورت غصے میں آ کر کہے:میں نے تم سے کبھی خیر نہیں دیکھی‘‘۔ (مسند احمد،ج۴)
امام بزار اور حاکم نے ابن عمرؓ سے رویت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس عورت کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا، جو اپنے شوہر کی شکر گزار نہیں ہے۔ حالانکہ وہ خاوندسے بےنیاز بھی نہیں ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم،ج۲، حدیث نمبر۲۷۷۱)
حاکم اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک عورت رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ عرض کیا:یا رسول اللہؐ! مجھے بتائیے:عورت پر خاوند کا کیا حق ہے؟ فرمایا:
’’بیوی پر خاوندکا یہ حق ہے کہ اگر اس کے ناک سے خون، پیپ اور زرد پانی بہ رہا ہو اور وہ اسے اپنی زبان سے صاف کرے ،تب بھی اس نے اپنے خاوندکا حق ادا نہیں کیا۔ اگر کسی انسان کے لیے یہ جائز ہوتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے، تو عورت کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے خاوند کو اس وقت سجدہ کرے جب وہ عورت کے پاس آئے، کیونکہ اللہ نے مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم،ج۲،۲۷۶۸)
امام احمد نے حضرت معاذ بن جبل ؓسے روایت کیا ہے کہ وہ یمن آئے تو ایک عورت نے آپ سے پوچھا:عورت پر مرد کاکیا حق ہے، کیونکہ میں اپنے گھر میں ایک بوڑھا چھوڑ کر آئی ہوں؟ تو آپ نے فرمایا:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں معاذ کی جان ہے، اگر تو اس کی طرف لوٹے اور پائے کہ جذام (کوڑھ کی بیماری) نے اس کے گوشت کو پھاڑ دیا ہے اور اس کے نتھنوں کو بھی پھاڑ دیا ہے، اور تو اسے اس حال میں پائے کہ اس کے دونوں نتھنوں سے خون اور پیپ بہہ رہی ہو، پھر تو اس کے دونوں نتھنوں کو اپنے منہ میں لے لے، تاکہ اس کا حق ادا کرے، تو پھر بھی اس کا حق ادا نہ کر سکے گی‘‘۔ (مسند امام احمد)
بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ خاوندکی اجازت کے بغیر، گھر سے باہر نکلے یا خاوندکے نا پسندیدہ شخص کو گھر میں آنے دے۔ چنانچہ امام حاکم اور امام بیہقی نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
’’وہ عورت جو اللہ پر ایمان رکھتی ہے، اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ خاوند کے گھر میں کسی مرد کو آنے کی اجازت دے، جبکہ خاوند اسے ناپسند کرتا ہو۔ خاوند ناپسند کرے تو وہ گھر سے نہ نکلے۔ خاوند کے مقابلے میں کسی اور کی اطاعت نہ کرے۔ اس کے سینے کے ساتھ کھردری نہ ہو۔ اس کے بستر سے الگ نہ ہو۔ خاوند کو اذیت نہ دے۔ اگر خاوند ظالم ہو تب بھی اس کے پاس آئے، یہاں تک کہ اسے راضی کرے۔ اگر خاوند اسے قبول کرے تو بہت بہتر، اللہ بھی اس کا عذر قبول فرمائے گا۔ اگر خاوند راضی نہ ہوا، تو اس نے اللہ کے ہاں تو اپنا عذر پہنچا ہی دیا ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم،ج۲،۲۷۶۸)
فرمانبردار اور اطاعت شعار بیوی کے لیے خاوند کی خدمت میں جہاد کا ثواب پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ طبرانی نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک عورت حضورؐ کی خدمت میں عورتوں کی نمائندہ بن کر حاضر ہوئی۔ اس نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہؐ! اللہ نے مردوں پر جہاد فرض کیا ہے۔ اگر وہ کسی کو قتل کر دیں، تو ان کو اجر ملتا ہے۔ اگر انھیں قتل کر دیا جائے، تب بھی وہ رتبہ شہادت پر فائز ہو کر زندہ رہتے ہیں، اللہ کے ہاں انھیں رزق دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف ہم عورتیں مردوں کی خدمت میں لگی رہتی ہیں (جہاد کی نیکی سے محروم ہیں)۔ ہمارا کیا اجر اور حق ہے؟ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:
’’تو جس عورت سے بھی ملے اسے پیغام دینا کہ خاوند کی اطاعت اور اس کے حق کو پہچاننا اُس عمل (جہاد) کے ہم پلہ ہے، لیکن تم میں سے بہت کم عورتیں یہ کام کرتی ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد،ج۶،۷۶۳۱)
طبرانی نے اوسط میں حضرت عائشہؓ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐسے عرض کیا:ایک عورت پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟ فرمایا:’’خاوند کا۔‘‘ میں نے عرض کیا:مرد پر سب سے زیادہ کس کا حق ہے؟ فرمایا:’’ماں کا‘‘۔ (مجمع الزوائد،ج۶،۷۶۴۵)
امام بزار نے حضرت علیؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
’’اے عورتوں کی جماعت! اللہ سے ڈرو اور اپنے خاوندوں کی رضا تلاش کرو۔ اگر عورت اپنے خاوند کے حق کو جانتی ہو، تو صبح و شام کھانے کے وقت اس کے سامنے کھڑی رہے‘‘۔
خاوند کی ناراضی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی قرار دیا گیا ہے۔ امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت جابرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’تین افراد ایسے ہیں جن کی نہ نماز قبول ہو گی اور نہ ہی کوئی نیکی آسمان کی طرف بلند ہو گی۔ ۱بھاگا ہوا غلام۔ ۲بیوی، جس پر اس کا خاوند نا راض ہو، تاوقتیکہ وہ راضی ہو جائے۔ ۳نشے میں مدہوش آدمی، یہاں تک کہ وہ نشے سے باہر آ جائے۔ (شعب الایمان،ج۶، ۸۶۰۰)
حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں حضرت انسؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک مرد جہاد کے لیے گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا تم نیچے نہ اترنا۔ اس عورت کا والد نیچے رہتا تھا۔ وہ بیمار ہو گیا۔ اس عورت نے رسول اللہؐ کی طرف پیغام بھیجا، تاکہ آپؐ کو صورت حال بتا کر آپؐ سے مشورہ لے۔ آپؐ نے اس عورت کو پیغام بھیجا:’’اِتَّقیِ اللّٰہَ وَ اَطِیعیِ زَوجَک‘‘ (اللہ سے ڈرو، اوراپنے خاوند کی اطاعت کرو)۔ پھر اس کا والد فوت ہو گیا۔ اس نے رسول اللہؐ کو خبر کرنے اور مشورہ طلب کرنے کے لیے پیغام بھیجا۔ تب بھی رسول اللہؐ نے یہی جواب ارشاد فرمایا۔ رسول اللہؐ اس کے والد کے جنازے پر تشریف لے گئے۔ اس کی نماز جنازہ پڑھی، اس کے بعد اس عورت کی طرف پیغام بھیجاکہ ’’اللہ تعالیٰ نے تیری اپنے خاوند کی اطاعت کی وجہ سے تیرے باپ کو بخش دیا ہے‘‘۔ (نوادر الاصول،ج۱،بیروت، ص:۱۷۶)
موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کی دینی تعلیمات کی طرف لوگوں کی توجہ کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت دینی خطوط پر نہیں کر رہے۔ تعلیم کا شعبہ کالج اور یونیورسٹی کو سونپ دیا گیا ہے، جبکہ تربیت مفقود ہو چکی۔ لڑکیوں کی تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ والدین انھیں تعلیمی اداروں میں بھیج کر، گراں قدر فیسیں ادا کر کے اور اعلیٰ ڈگریاں دلوا کر سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فرض سے سبک دوش ہو چکے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد شادی کی نوبت آ جاتی ہے۔ امور خانہ داری اور سلیقہ شعاری سیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خاوند کے گھر جا کر، جب سر پر گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہے، تو ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ اعلیٰ ڈگریوں کے حصول میں، رٹا لگا لگا کر، دماغ اس طرح خرچ ہو چکا ہوتا ہے کہ گھر چلانے کی صلاحیت بالکل نہیں رہتی۔ اپنی ہی تعلیم آنکھوں پر ایک حجاب بن جاتی ہے۔
سسرال والے اگر سمجھاتے بجھاتے ہیں تو اسے اپنی توہین سمجھ لیا جاتا ہے۔ کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور صفائی کرنے کو اضافی بوجھ، بلکہ بیوی پر ظلم قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شادی کے فوراً بعد ہی جب نوک جھونک شروع ہو جاتی ہے، تو ازدواجی زندگی اپنی آب و تاب سے محروم ہو جاتی ہے۔حالانکہ ازواجِ مطہرات یہ سارے کام خود کیا کرتی تھیں اور فرصت کے وقت حضورِ اکرم ﷺ ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔
رہی سہی کسر میں میکے والوں کی نصیحت یہ ہوتی ہے کہ بالکل برداشت نہ کرنا، ورنہ کڑُھتی رہو گی اور تمہاری صحت برباد ہو جائے گی۔ مزید برآں لڑکی کے بھائی اور کزن بھی گاہے بہ گاہے ملاقات کے لیے آتے اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ بہنیں اور بھابیاں ٹیلی فون پر مسلسل حالاتِ حاضرہ سے واقفیت حاصل کرتی رہتی ہیں۔ ماحول میں کشیدگی پیدا ہونے سے خاوند کا دل گھر سے اچاٹ ہو جاتا ہے۔ وہ جب فکرِمعاش سے فارغ ہو کر، گھر آتا ہے تو اسے شریکِ حیات سے محبت و الفت کے لطیف جذبات کی بجائے شکوہ و شکایت ملتی ہے۔ سکون و راحت کی بجائے ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا اثر بیوی پر بھی پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں زوجین کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔
خاوند کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ بیوی اس کا کہنا نہیں مانتی۔ اسے کسی کام کا سلیقہ نہیں۔ ہر وقت موبائل استعمال کرتی، یا نفسیاتی مسائل پیدا کرنے والے ٹی وی ڈرامے دیکھتی رہتی ہے۔ گھریلو معاملات کی طرف اس کی توجہ نہیں۔ دوسری طرف بیوی کو شکایت ہوتی ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہے، ان پڑھ نہیں۔ اپنے حقوق اچھی طرح جانتی ہے۔ خاوند اس پربلا وجہ رعب جماتا ہے۔ اس کی توہین کرتا ہے۔ اسے والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ، جب چاہے آنے جانے کی آزادی نہیں دیتا اور یوں اس کے حقوق کو پامال کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسے اپنے حقوق کے دائرے کا صحیح معنوں میں علم ہی نہیں ہوتا۔ وہ نہیں جانتی کہ اسلام کے دیے گئے حقوق سے تجاوز کر کے وہ جن حقوق کو حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ دراصل اس کا استحصال ہیں۔ وہ تنظیمیں جو اسے حقوق نسواں کے نام پر آزادی مانگنے کی ترغیب دیتی ہیں، وہ اصل میں اس پر ظلم کا دروازہ کھولنے کی سازش کر رہی ہیں۔ عورت کو اسلام نے خاوند کی پناہ میں رکھ کر جو حقوق دیے ہیں، وہ بہت بڑے حقوق ہیں۔ ستم یہ ہے کہ وہ لڑکی، جس پر اعلیٰ ڈگری کے حصول کے بعد اچانک ایک نئے خاندان کی تشکیل کی ذمہ داری ڈال دی گئی، اسے تو اس حوالے سے رہنمائی ہی مہیا نہیں کی گئی۔ اسے کالج اور یونیورسٹی میں جو بھاری بھرکم نصابات پڑھائے گئے، ان میں کہیں اس بات کا ذکر ہی نہیں تھا کہ اس کی تعلیم کا اصل مصرف تو ایک کنبے اور خاندان کی پرورش ہے۔
شادی کے چند روز بعد ہی شروع ہو جانے والی یہ تلخی اکثر اوقات ہمیشہ کے لیے سکون و راحت کی غارت گر بن جاتی ہے۔ بہت کم خاندان ہوتے ہیں جو صبر سے کام لیتے ہوئے، لڑکی کو کچھ عرصہ کی مہلت دے کر، اسے نئے ماحول میں ڈھلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
آخرِ کار وہ خاوند جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ رکھی گئی ہے ’’بِیَدِہِ عُقدَۃُ النِّکاَح (البقرہ : ۲۳۷)‘‘، اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور برس، دو برس میں ہی دونوں خاندان جو شادی کے دن ایک دوسرے پر فخر کر رہے تھے، زندگی بھر کے لیے ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، جس کی سزا اس نئے بیاہتا جوڑے کی اولاد کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اور تو اور، اکثر صورتوں میں، اس تعلق کو توڑتے ہوئے بھی انھیں دین و مذہب کا خیال نہیں رہتا اور وہ اس بارے میں دی گئی قرآنی تعلیمات کو، غصے میں بے قابو ہو کر، بالکل پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔
نکاح ایسے باہمی ملاپ کا نام ہے، جیسے ’’نیند آنکھوں میں گھل مل جاتی ہے، یا بارش کے قطرے زمین میں جذب ہو جاتے ہیں‘‘۔ نکاح کا مقصد میاں بیوی، دونوں کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے، زندگی کو برباد کرنا نہیں ہے۔ اسی لیے بربادی کی صورت میں اسلام نے اس رشتے میں علاحدگی کی گنجائش رکھی ہے، جو یقیناً اسلام کا انسانیت پر بہت بڑا احسان ہے، لیکن اس رشتے کو بربادی سے بچانے کے لیے بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کی ہے۔ ہمارا معاشرہ جس تیزی کے ساتھ دینی تعلیمات سے دور ہوتا جا رہا ہے، اسی تیزی کے ساتھ اس کا خمیازہ بھی بھگت رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سالانہ اڑھائی لاکھ کے قریب طلاقیں واقع ہو رہی ہیں۔ یہ صرف اسلامی تعلیمات سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب روزِ قیامت لوگ دوزخ میں، مبتلائے عذاب ہوں گے، تو رسولِ محترم ﷺ سے پوچھا جائے گا کہ یہ لوگ عذاب میں کیوں مبتلا ہیں؟ کیا آپ نے انھیں عذابِ الٰہی سے ڈرانے کا فریضہ ادا نہیں کیا تھا؟ کیا ان کی طرف قرآن نہیں اترا تھا؟ کیا ان سے قیامت کے عذاب کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا؟ اس سوال کے جواب میں رسولِ محترم ﷺ ارشاد فرمائیں گے:
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰ (الفرقان: ۳۰)
’’اے رب کریم! میری قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔ قرآن کا مذاق اڑاتی تھی۔‘‘
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles