20 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

خواب

 

خواب

ادیبہ شہزاد

ایک ایسی لڑکی کا فسانۂ حیات جو دل کی خواہشیں ناتمام رہ جانے پر ماتم کناں تھی

اس روز طبیعت ایسی بےقرار ہوئی جیسے کسی پتنگے کو اندھیر نگری میں چھوڑدیا جائے اور وہ روشنی کی تلاش میں کبھی اِدھر کبھی اُدھر منڈلاتا پھرے مگر کہیں کوئی چراغ میسر نہ ہو۔ میں بھی اس اضطراب کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے کئی جتن کرنے لگا۔ـ اوّل کتاب لے کر بیٹھا مگر الفاظ دل و دماغ کی راہ سے چپ چاپ گزرتے چلے گئے۔ سوچا، کچھ دیر ٹی ـوی دیکھ لیا جائے مگر انواع و اقسام کی صورتیں عجب عجب آوازوں کے ساتھ یوں دکھائی دینے لگیں گویا کوئی لشکر حملہ آور ہونے کہ اطلاع دے رہا ہو۔ ـصبح سے دوپہر ہو گئی اور میں یہی نہ سوچ سکا کہ چھٹی کا دن کس طرح بسر ہو؟ـ
شعبۂ تدریس سے وابستہ ہوئے دوسرا برس تھا۔ اس کُل دورانیہ میں یہ میری پہلی چھٹی تھی جو میں نے آرام کرنے کی غرض سے کی تھی۔ ـخیال تھا کہ ایک روز کے لیے اگر ہر جماعت میں جا کر ایک ہی نظم کی تشریح میں ربط اللسان ہونے سے قاصر رہا تو ممکن ہے کہ ذہن اپنی اصل پر واپس آ جائے۔ میں کسی نئے تخیلاتی سفر پر جانے کے قابل ہو سکوں اور اپنی ادھوری کتاب کی تکمیل کی منصوبہ بندی کر سکوں ـمگر ذہن کسی زنگ لگے دھات کی طرح جامد تھا۔
میری پریشانی میں مزید اضافہ ہوا۔ آدرش اور حقیقت کا ایسا تضاد ہمیشہ بدنما اثرات مرتب کرتا ہے۔ ـمیں نے خود کو مزید سیماب پا ہونے سے بچانے کے لیے کہیں باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر نگاہ ڈالی۔
اس بیس مرلہ کرائے کے مکان کا صحن رنگا رنگ پھولوں، شہتوت اور کیکر کے بڑے بڑے درختوں کی آماجگاہ تھا۔ چمکتے فرش اور درختوں کی لمبی شاخوں سے ہوتی ہوئی میری نظر آسمان پر پڑی جو سرمئی اور سفید بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ایسا مغرور موسم دیکھ طبیعت کچھ مچلی، جی للچایا۔ میں نے الماری سے سفید چمکتا کرتا پاجامہ نکال کر زیب تن کیا، بالوں کو ایک طرف جمایا اور چنداں بڑھی ہوئی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ سوچنے لگا کہ اماں نے کیا سوچ کر مجھے شفیق چچا کی بیٹی سے شادی کرنے کی پیشکش کی۔
انھیں خوب علم تھا کہ مجھے نئے زمانے کی نئی سوچ، بڑے خواب دیکھنے والی، کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھنے والی شریک حیات کی تلاش ہے جو گھر کی چار دیواری میں قید ہو کر میاں کی جی حضوری اور بچوں کی خدمت میں ہی خود کی تکمیل خیال نہ کرے بلکہ یہ ادراک رکھتی ہو کہ عورت بھی اس دنیا کی ایک فرد ہے اور ذاتیات کے بعد اس پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دنیا میں اپنے حصے کا انقلاب لا کر اپنے کام کے نشانات چھوڑ کر خود کو امر کرے۔
پچھلے ماہ جب گھر گیا تو پری سے مل کر بخوبی اندازہ ہو گیا کہ وہ روایتی خیالات کی حامل عام سی لڑکی تھی جس نے خیالوں کی دنیا بسا رکھی تھی۔ اس نے ترازو کے ایک پلڑے میں مجھے اور دوسرے میں کسی تصوراتی شخصیت کو رکھا ہوا تھا۔ ایسی شخصیت جس میں ایک بھی نقص نہ تھا۔ اس کے نزدیک دونوں پلڑے برابر تھے۔ ـ ٹھنڈی ہوا میں بادلوں بھرے آسمان تلے جب اس کے گھر کے چھت پر کھڑے میں نے اس سے سوال کیا
’’آپ کا سب سے بڑا خواب کیا ہے؟‘‘ گلابی لباس میں ملبوس معصوم سی صورت کی حامل پری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
’’خواب…؟ میں نے تو کبھی بڑے خواب دیکھے ہی نہیں جی۔ میں تو بس کسی عام سی لڑکی کی طرح اپنے مجازیٔ خدا کے خوابوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ ـمیں بڑے خواب نہیں دیکھتی مگر بڑے خواب دیکھنے والا ساتھی ضرور چاہتی ہوں۔ جب اس کے خواب پورے ہو جائیں گے تو سمجھوں گی کہ میرے خواب بھی پورے ہو گئے۔‘‘
اس دوران اس نے ایک بار بھی مجھ سے نظریں نہیں ملائیں۔ اس دور میں ایسی سادہ لوح لڑکی کا ایسا رویہ میرے لیے باعثِ تعجب تھا۔ وہ تو شاید مجھے اپنا صنم مان کر خود کو برہمن سمجھنے کی غلطی کر بیٹھی تھی مگر مجھے ایسی اللہ میاں کی گائے کے ساتھ گزارہ کرنے کا خیال قدرے ناگوار گزرا۔ ذہن میں ایک کے بعددوسرا خوفناک خیال آنے لگا۔ ـکبھی وہ شرماتی ہوئی میری ڈانٹ ڈپٹ سن رہی تو ـکبھی مجھ سے اپنے آنسو چھپانے لگتی۔ ـکبھی میرے لیے کھانا بناتے ہوئے گنگناتی دکھائی دیتی۔ ایسی شریکِ حیات کا میرے خیالات میں دور دور تک گزر تھا نہ خواہش۔
میں نے فوراً اُسے ذہن سے جھٹکا ـاور گھر پہنچتے ہی انکار کی نوید سنا ڈالی۔ امّاں نے پریشان ہو کر مجھے سمجھانا شروع کر دیا ـ اور اچھی طرح سوچ بچار کرنے کو کہا۔ انھوں نے سمجھایا کہ جب اگلے ماہ اسلام آباد سے آؤ تو اُس وقت اپنا آخری فیصلہ سنانا۔ اب مہینہ ختم ہونے کو تھا۔ ـمیں اپنا فیصلہ بدلنے کی سعی کرتا رہا مگر دل راضی نہ ہوا۔ جوتا پہنتے پہنتے آخری خیال یہی آیا کہ اس بار اماں کو صاف انکار کر دوں گا۔
بھئی دنیا میں لڑکیوں کی کمی تھوڑی ہے ـ کوئی نہ کوئی تو ضرور ہو گی جو میرے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو گی۔ ـان خیالات کے بعد میں پھر سے پتنگا بن گیا۔ ـپھڑپھڑاتا پتنگا،ـ جو اُجالے کی تلاش میں اندھیرے پر دھاوا بول چکا تھا۔ برآئے نام تیاری کے بعد اپنی ستر سی ـسی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور بادلوں بھرے آسمان تلے کھلی سڑکوں پر بلاوجہ گھومنے لگا۔
ستمبر کے مہینے میں ایسی ٹھنڈی ہوائیں قدرے فرحت بخش ثابت ہو رہی تھیں۔ ـتقریباً پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد میں ایک بڑے سے شاندار شاپنگ سنٹر پر رکا۔ـ خریداری کا ذوق تو ہرگز نہ تھا مگر آتے جاتے لوگوں کو دیکھنا اور ان کے چہرے پڑھنا ہمیشہ سے ہی بھایا کرتا۔ ایسے میں محض میرا ذہن میرے ہمراہ ہوتا، ـوہاں لوگوں کی بھیڑ تھی۔ـ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سعی کرتے، خود کو منوانے کی جدوجہد کرتے، کسی کو نیچا دکھانے کی، کسی کو سر پہ اُٹھانے کی کوشش جاری تھی۔ـ ایک بے نام سا سفر جاری تھا۔ـ
یوں لگتا کہ سب ایک ہی منزل کے مسافر تھے مگر یہ تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے کہ ان کی منزل کسی اور کی بھی منزل ہے۔ـ ہر ایک کو لگ رہا تھا کہ وہ منفرد ہے۔ اس سینکڑوں کے مجمع میں کوئی اس جیسا نہیں ـ کوئی اس کا ہم سفر نہیں بلکہ سب کا راستہ جدا جدا ہے ـیہ ادراک بیک وقت صحیح بھی تھا اور غلط بھی ـکیوں؟ یہی سوچتے سوچتے میں دوسرے فلور پر گھومنے لگا۔ ـاسی دوران میری نظر چند قدم دور دائیں رُخ کھڑی لڑکی پر پڑی۔ـ وہ سرخ ساڑی میں ملبوس نازک سی حسینہ معلوم ہوتی تھی۔ ایک بجھنے کے قریب پھڑپھڑاتی لو والا چراغ جو اپنے خاتمے سے محض ایک پھونک کی دُوری پر تھا۔ ـیہاں ہلکی سی ہوا چلی اور وہاں وہ اپنا وجود کھو بیٹھا۔ـ اسے پہچاننے میں مجھے ایک لمحہ بھی نہ لگا ـجو پہلی ملاقات میں ہی میرے ذہن پر ثبت ہو چکی تھی۔ آج دوسری بار دیکھنے پر کیونکر بھولی ہو گی؟
میں مضمحل قدم اُٹھاتا اس کے قریب پہنچا۔ ـاُلجھتے تاثرات لیے آخر بول ہی پڑا
ـ’’آپ وہی ہیں نا؟‘‘
’’جی؟ مجھ سے کچھ کہا آپ نے؟‘‘ وہ مڑی ـ سیاہ بالوں کو بڑی سختی سے جوڑے میں باندھ رکھا تھا۔ـ ایک بھی بال اپنی مرضی سے جھولنے کے قابل نہ تھا۔ ـغور کرنے پر ایسا معلوم ہونے لگا کہ گویا بالوں کو جبراً خاموش کر کےقید کیا گیا ہو۔ ایسی قید کہ انھیں کراہنے تک کی بھی اجازت نہ تھی۔
’’آپ قیصرہ جبیں ہیں ـشاعرہ؟‘‘ میں نے تجسس آمیز لہجہ اپنایا:ـ
“ جی میں قیصرہ جبیں ہی ہوں ـ مگر شاعرہ نہیں ہوں۔ ـ آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ بالوں کے بعد میری نظر اس کی آنکھوں پر پڑی۔ ـیہ جملہ کہتے ہی ان میں نمی بھر آئی تھی۔ ـ جسے وہ خود سے بھی چھپانا چاہتی تھی۔ ـمجھے معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔
’’میں نے دو سال قبل آپ کو ایک مشاعرےمیں دیکھا تھا۔ـ وہاں آپ نے ایک قدرے باغیانہ سی نظم پڑھی تھی۔ جس کا عنوان تو مجھے یاد نہیں مگر خواتین کی خوب نمائندگی کی آپ نے۔ـ اس کے بعد آپ کو کسی مشاعرے میں نہیں دیکھا۔ـ کیا اب آپ شاعری نہیں کرتیں؟‘‘
میں نے ربط سے ایک کے بعد ایک لفظ کہا۔ ـاس دوران اس کے چہرے پر کئی تاثرات آئے اور گئے مگر ہر تاثر کہیں نہ کہیں پشیمانی سے جا ملتا تھا۔
’’میں نے کہا نا آپ سے، میں شاعرہ نہیں۔ کسی مشاعرے میں گئی اور نہ ہی آپ سے پہلے کبھی ملاقات ہوئی۔‘‘ اس نے بظاہر اکتائے ہوئے اندازمیں کہا۔ ـمجھے دو سال پہلے کا وہ دن یاد آ گیا جب مشاعرے کے بعد میں نے بمشکل اس خوبرو ’انقلابی‘ شاعرہ سے ملاقات کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ ـ دو منٹ کی ملاقات میں اس نے میرے تعریفی کلمات کے جواب میں بس اتنا کہا تھا ،’’کبھی کسی کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ مت بنئیے گا۔ ممکن ہو تو راستے کے پتھر ہٹا دیجیے گا اور اگر نہ کر سکیں تو کم از کم مزید پتھر نہ پھینکیے گا۔ـ بہت شکریہ۔‘‘
’’مختصر سا کلام مگر بلا کی تاثیر لیے ہوئے۔ـ اس ملاقات کے بعد میری نظروں میں عورت کا مقام مزید معتبر ہو گیا تھا۔ ـمیں اسے نہیں بھول سکتا۔ـ میں اسے کیسے بھول سکتا تھا؟ مجھے غلط فہمی کیونکر ہو سکتی تھی؟
’’مجھے یاد ہے میں نے آپ سے ہی ملاقات کی تھی۔ ـ میں نے آپ کی شاعری تلاش کرنے کی بھی کافی کوشش کی ـمگر اس ایک مشاعرے کے علاوہ کبھی آپ کی شاعری کہیں سُنی نہ پڑھی۔ ـ بہت خوب کلام تھا آپ کا۔‘‘
’’آپ بس بھی کیجیے۔‘‘ اس نے ہاتھ اُٹھا کر غصے کا اظہار کیا۔ ـیوں لگا جیسے میرا ایک ایک لفظ آگ میں ایندھن کا کام دے رہا ہو۔ ـ آواز میں ایسی دہشت تھی کہ میں پل بھر کے لیے گھبرا کر پیچھے ہٹا۔ـ غور کرنے پر اس کی آنکھ سے ٹپکتا آنسو بھی واضح ہوا جسے اس نے فوراً ہی صاف کر لیا۔ ـمیں حیران ہوا کہ ـ ایسا بھی کیا ہو گیا کہ اس کی آنکھ سے آنسو ہی نکل پڑے؟ کیا میری باتیں اتنی ناگوار گزریں؟ مگر میں نے تو کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں کی۔ ـاس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا، عقب سے ایک شخص نمودار ہوا۔ـ وہ سفید شلوار قمیص اور واسکٹ میں ملبوس تھا۔ بال بڑھے ہوئے اور ہلکی ڈاڑھی نمایاں تھی۔
’’کیا ہوا؟ یہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے تم سے؟‘‘ وہ ناسمجھی اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات لیے درشتی سے بولا۔ ـ
’’راہ چلتا آدمی ـ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ وہی شاعرہ ہیں جسے میں نے دو سال پہلے کسی مشاعرے میں دیکھا تھا۔ـ میں نے کہا کہ میں شاعرہ نہیں اور نہ ہی آپ کو جانتی ہوں مگر یہ مانتا ہی نہیں۔‘‘ اس نے بے بسی سے ساری کہانی اپنے شوہر کو سنا ڈالی۔ ـ وہ مجھ پر برس پڑا۔ ـ
’’بھائی یہ شاعری وغیرہ آپ سے جیسے لوگوں کا کام ہے۔ـ ہم سیاست دان ہیں۔ـ ہماری خواتین یہ کام نہیں کرتیں۔ تمہیں اندازہ بھی نہیں کہ میری بیوی سے ایسی بدتمیزی کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔‘‘
میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ واقعتاً ایک سیاست دان تھا۔ـ ایم این اے ـ جسے میں پہچان نہ سکا ـ اور جسے پہچان گیا تھا، وہ ایک پل میں دستبردار ہو گئی۔
’’چھوڑ دیجیے اسے۔ خوامخواہ اپنا موڈ خراب نہ کریں۔‘‘ اس نے پیار بھرے فکرمند لہجے میں گویا التجا۔ ـ
’’ اب آپ شرافت سے یہاں سے چلتے بنیں۔‘‘ اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔ ـمیں فوراً ہی چند قدم پیچھے ہٹا اورـ وہ دونوں میرے سامنے سے گزر کر آگے بڑھ گئے۔
’’کہیں تم شادی سے پہلے کبھی شاعری تو نہیں کرتی رہیں؟ کیا کسی مشاعرے پر گئی ہو کبھی؟‘‘ وہ چلتے چلتے اس سے پوچھنے لگا۔
’’نہیں تو!ـ باکل نہیں۔ـ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو یہ کام نہیں پسند۔ـ مجھے بھی نہیں…‘‘
آواز گھٹتے گھٹتے غائب ہو گئی ـ اور ساتھ ہی وہ دونوں نفوس بھی منظر سے پردہ نشین ہو چکے تھے۔ ـ
اس کے جاتے ہی میں دل برداشتہ ہوا۔ ـاس کی آنکھوں میں آنے والے آنسو کا کیا مطلب تھا؟ گویا کوئی آدھی ادھوری حسرت جس کے پورا ہونے کا انتظار کرتے کرتے انسان کی ہمت جواب دے جائے۔ـ اس کی آنکھوں میں کبھی نہ ختم ہونے والے انتظار کی کہانی رقم تھی۔ـ میں ایک بار پھر بلا مقصد گھومنے لگا ـ مگر اب وہاں دل نہیں لگ رہا تھا۔ کسی شخص پر نظر نہ ٹھہری۔ـ میں پھر ایک بھٹکا ہوا پتنگا بن گیا۔
ـ باہر آیا تو ایک بار پھر سے اس پر نظر پڑی۔ـ وہ ایک شاندار گاڑی کے بغل میں کھڑی تھی۔ اکیلی تھی اور غالباً اپنے سیاست دان شوہر کا انتظار کر رہی تھی جو کہیں گیا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے نظریں پھیر لیں۔ ـہمارے درمیان چند قدموں کا ہی فاصلہ تھا۔ـ اس کی ہچکچاہٹ سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔ ـاسی پل اس نے گاڑی سے ایک کاغذ اور قلم نکالا، ـکچھ سوچ کر لکھا اور میری طرف دیکھتے ہوئے وہ کاغذ زمین پر پھینک دیا۔ ـاسی دوران اس کا شوہر آ گیا اور ـکچھ دریافت کیا۔ جواب میں اس نے محض سر ہلایا۔ـ دونوں گاڑی میں بیٹھے اور اگلے ہی پل وہ گاڑی کئی گاڑیوں کے درمیان کھو گئی۔ـ وہ تہ شدہ کاغذ اب تک زمین پر گرا تھا۔ میں آگے بڑھا اور اسے کھولا۔
’’وہ شاعرہ جو اپنے خوابوں کے لیے لڑ نہ سکی، کیا شاعرہ ہو سکتی ہے؟‘‘ لکھائی واضح تھی۔ـ یہ پڑھتے ہی میں نے کاغذ دوبارہ وہیں پھینک دیا اپنی موٹرسائیکل کی طرف جاتے ہوئے سوچنے لگا کہ اب کی بار اماں کو پری کے لیے ہاں کہہ دوں گا۔ ـ
میں کسی کے خواب قتل کرنے کا روادار نہیں ہو سکتا۔ ـ
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles