جامین
شکیل احمد چوہان
کئی سال پہلے کی بات ہے، شکرگڑھ کے نواحی گاؤں سے ایک نوجوان جامین اپنے ٹھیکیدار کے ساتھ بلوچستان کے ایک علاقے میں گیا، وہاں پر اُس کے ٹھیکے دار کو سڑک بنانے کا ٹھیکہ ملا تھا۔ سڑک کی تعمیر کے دوران چھوٹی عید آن پہنچی، جامین عید اپنے گاؤں کرنا چاہتا تھا مگر طالب حسین نہیں مانا۔
اُستاد۔۔۔! تو بھی کمال کرتا ہے نہ تو خود گھر گیا ہے اور نہ ہی مجھے جانے دے رہا ہے۔‘‘ جامین شکایتی انداز میں بولا۔
اوئے جامین۔۔۔! نا تیری رَن اور نہ ہی بچے۔۔۔ تو گاؤں جا کر کیا کرے گا۔ یہاں ساتھ والے قصبے میں اپنا ٹھیکے دار ساجد بلوچ رہتا ہے۔ عید پر اُس کے پاس چلیں گے۔ یہ بلوچی بڑی خدمت کرتے ہیں تین چار دن وہاں مزے کریں گے۔
عید کے دوسرے دن جامین قصبے میں مٹرگشت کر رہا تھا۔ اچانک اُسے ایک گھر کے ساتھ ملحقہ باڑے سے ایک میٹھی آواز سنائی دی۔
کسی لڑکی کی آواز تھی جو کہ خود ایک بڑی سی چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ صرف اُس کے دودھیا ہاتھ اور نیلی آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ وہ کچھ بول رہی تھی جو جامین کی سمجھ سے باہر تھا۔ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے جامین کو اپنی طرف بلایا، جامین نے حیرت سے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ اُسے ہی بلا رہی تھی۔
جامین کی سمجھ سے باہر تھا آخر ماجرا کیا ہے، جامین گھبرا رہا تھا اور وہ لڑکی پریشان تھی۔ جامین ہمت کر کے اُس کے پاس چلا ہی گیا، وہ بلوچی زبان میں اُس سے کچھ کہہ رہی تھی۔ جو جامین کی سمجھ سے باہر تھا۔ جب جامین کی نظر اُس لڑکی کے ہاتھ میں بڑے سے چھرے پر پڑی تو اُس پر لرزہ طاری ہو گیا، وہ کنّی کترا کر وہاں سے کھسکنا چاہ رہا تھا۔ لڑکی کو اُس کے ارادوں کی بھنک لگ گئی تھی۔
لڑکی نے دودھیا رنگت والے روئی کی طرح نرم دائیں ہاتھ سے جامین کی مضبوط کلائی تھامی اور اندر باڑے میں لے آئی اور اپنے بائیں ہاتھ میں تھامے ہوئے چھرے کو سامنے کی طرف کر دیا، جب جامین نے چھرے کی سمت کی طرف دیکھا تو ایک بچھڑا تڑپ رہا تھا۔
اس دوران لڑکی کی چادر اُس کے چہرے سے ہٹی۔ جامین دیکھتا ہی رہ گیا۔ چودھویں رات کا چاند بدلیوں کو چیر کر باہر نکلا تھا۔ جامین نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا تھا۔ پر اس سے زیادہ حسین چہرہ اُس نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔ جامین دودھ سے زیادہ سفید چہرے کو دیکھ رہا تھا۔
جگنو کی طرح چمکتی پیشانی موٹی موٹی نیلی آنکھیں، دودھیا رنگت، تیکھی ٹھوڑی، سرخ گلاب کی پتیوں جیسے رخسار۔ جامین بچھڑے کی بجائے اُس پری زاد کو چشمِ اُلفت سے دیکھ رہا تھا۔ اُسی لمحے جامین کے دل سے دُعا نکلی:
’’یامولا۔۔۔! اسے میری بنا دے۔‘‘
پری زاد نے دوبارہ جامین کو کلائی سے پکڑا تو جامین تخیل کی دنیا سے واپس لوٹا، اب کی بار وہ پری زاد اُسے بچھڑے کے پاس ہی لے گئی تھی اور چھرے کو جامین کے حوالے کرتے ہوئے اُسے اشارے سے سمجھایا۔ اسے ذبح کر دو۔
جامین کو ساری بات سمجھ آگئی تھی۔
وہ پری زاد تڑپتے ہوئے بچھڑے کو حرام ہونے سے بچانے کے لیے حلال کروانا چاہتی تھی۔ جامین نے جلدی سے چھرا پکڑا اور بچھڑے کو ذبح کردیا۔ پہلی بار پری زاد نے جامین کو غور سے دیکھا تھا۔ اسے لگا یہ اس علاقے سے نہیں ہے۔
’’آ۔۔۔آپ اس کا گو۔۔۔گوشت بنا سکتے ہیں؟‘‘ بلوچی لڑکی نے اٹک اٹک کر پوچھا۔
جامین نے چشم الفت کی بجائے چشم حیرت سے اُس لڑکی کی طرف دیکھا تھا۔ اُس نے سوچا یہ پری تو اُردو بھی بولتی ہے۔ جامین اُس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر گلا خشک تھا۔
اُس نے حلق کا لعاب اندر نگلا اور بڑی مشکل سے گردن کو ہاں میں جنبش دی۔ جامین موسمی قصائی بھی تھا۔جو بہت سارے لوگوں کی طرح عیدِ قربان پر قصائی کا کام بھی کرتا تھا۔
جامین ہر طرح کی مزدوری کرتا رہا تھا۔ وہ کام کرنے سے پہلے معاوضہ طے کر لیتا تھا۔ اُس دن وہ اپنے کام میں مشغول تھا معاوضے کی فکر کیے بغیر۔ وہ لڑکی تھوڑی دیر وہاں کھڑی رہی۔ اُس کے بعد اُس نے جامین کو سب کچھ مہیا کر دیا تھا جو گوشت بنانے کے لیے درکار ہوتا ہے۔
اس دوران اُن دونوں میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ جامین کے چِت (دل) میں چور آچکا تھا، وہ چور نگاہوں سے اُسے دیکھتا رہا، وہ اُس سُچّل موتی کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔
لڑکی نے بھی جامین کو نیلی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اُن نیلی جھیل جیسی آنکھوں کے اندر کئی راز تھے۔ جن سے جامین کچھ اخذ نہیں کر پارہا تھا۔ سارا کام ختم کرنے کے بعد جامین وہاں سے نکل آیا چپ چاپ۔ اس لڑکی نے جامین کا شکریہ ادا کیا اور صرف یہ پوچھا:
’’تم کہاں ٹھہرے ہو؟‘‘
اگلے دن تڑکے ہی تڑکے ایک شخص عمر پچاس کے آس پاس جامین کو ڈھونڈتا ہوا ساجد بلوچ کے ڈیرے پر پہنچا تھا۔
تمھارے مہمان نے میرا نقصان کیا ہے۔‘‘ عطاء اللہ بلوچ نے غصے سے کہا۔
طالب حسین اور جامین نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا تھا، وہ دونوں ناشتہ کر رہے تھے۔ جو ساجد اُن کے لیے لے کر آیا تھا۔ ساجد نے عطاء اللہ کو ایک طرف لے جا کر معلومات لی تو پتہ یہ چلا کہ وہ بچھڑا عطاء اللہ کا تھا۔ عطاء اللہ بچھڑے کی قیمت مانگ رہا تھا، جب کہ جامین انکاری تھا۔ عطاء اللہ مرنے مرانے پر آگیا تھا۔ قصہ مختصر عطاء اللہ ہی نے کہا:
’’سردار۔۔۔! جو بھی فیصلہ کر دے گا مجھے منظور ہو گا۔‘‘
وہ چاروں سردار کے روبرو پیش ہو گئے تھے۔ بوڑھا بلوچ سردار ایک زیرک شخص تھا۔ اُس نے پہلے عطاء اللہ کی ساری بات سنی پھر اُسے مشورہ دیا:
’’عطاء اللہ۔۔۔! یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اس لڑکے نے تمھاری اجازت کے بغیر تمھارا بچھڑا ذبح کر دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو بچھڑا مرجاتا۔ پھر یہ چھ ہزار بھی نہ ملتے جو قصائی کو گوشت دے کر حاصل ہوئے ہیں۔‘‘
’’سردار۔۔۔! مجھے پورے اٹھارہ ہزار ہی چاہیے۔ وہ بچھڑا چند روز پہلے ہی میں نے قربانی کے لیے خریدا تھا۔‘‘ عطاء اللہ نے فیصلہ سننے سے پہلے ہی اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا تھا۔
بوڑھے سردار کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اُبھر آئی۔
’’عطاء اللہ۔۔۔! ہر دفعہ تمھاری مرضی کے مطابق فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ یہ لڑکا ہمارا پاکستانی بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا مہمان بھی ہے۔ اِس کے ساتھ انصاف ہو گا۔‘‘
جامین کے چہرے پر گھبراہٹ ڈیرے ڈالے ہوئی تھی۔ بلوچ سردار نے جامین کی طرف دیکھا اور میٹھی زبان میں بولا:
’’بیٹا۔۔۔! تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
’’جامین!‘‘ جواب ملا۔
’’جامین۔۔۔! یہ کیسا نام ہے، کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘ سردار نے حیرت سے پوچھا۔
’’مطلب جی۔۔۔ وہ تو پتہ نہیں۔‘‘
’’مسلمان ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔! ہاں۔۔۔! جی۔‘‘ جامین نے بلبلاہٹ میں کہا۔
’’تمھارے باپ کا کیا نام ہے؟‘‘
’’محمد امین!‘‘ جامین نے جلدی سے جواب دیا۔ بلوچ سردار نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، پھر کہنے لگا:
’’تمھارا سیدھا نام کیا ہے؟‘‘
’’جمال امین۔۔۔ مگر سب لوگ مجھے جامین ہی کہتے ہیں۔‘‘
اُس کے بعد بلوچ سردار نے جامین کے متعلق سب کچھ پوچھا، اُس کے خاندان کے بارے میں، اس کے گھر کے بارے میں، اس کی ازدواجی حیثیت کے متعلق سب سے آخر میں بچھڑے کو ذبح کرنے کی وجہ بلوچ سردار ایک دفعہ پھر عطاء اللہ سے مخاطب ہوا:
’’عطاء اللہ۔۔۔! فیصلہ نہ کرواؤ اور اِس لڑکے کو اس کی غلطی کی معافی دے دو۔‘‘
’’نہیں سردار۔۔۔! آپ فیصلہ ہی کرو۔ ‘‘ عطاء اللہ بضد تھا۔ بلوچ سردار کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی تھی۔
’’ٹھیکے دار۔۔۔! تمھارے پاس اِس لڑکے کے کتنے پیسے جمع ہیں؟‘‘ سردار نے طالب حسین کو سنجیدگی سے مخاطب کیا، طالب حسین بلوچ سردار کا جلالی انداز دیکھ کر گھبرا گیا تھا۔
’’جی وہ کوئی آٹھ دس ہزار ہو گا، ابھی حساب نہیں کیا۔‘‘ طالب حسین نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کل تم اٹھارہ ہزار روپیہ لے کر یہاں آؤ۔‘‘
طالب حسین کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ جامین بُت بنا سردار کو حیرت سے دیکھ رہا تھا، ساجد کے چہرے پر پریشانی بڑھ گئی۔ عطاء اللہ کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ ابھری تھی۔ کافی دیر وہاں خاموشی رقص کرتی رہی۔ جامین نے ہمت کر کے آواز نکالی۔
’’سردار بابا۔۔۔! مجھے آپ کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘
’’مگر۔۔۔ مگر کیا؟‘‘ سردار نے ٹٹولتی نظروں سے پوچھا۔
’’میں مانتا ہوں میں نے غلطی کی، مجھے عطاء اللہ کا بچھڑا ذبح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر اِن کی بیٹی مجھے مجبور نہ کرتی تو میں ایسا کبھی نہ کرتا۔‘‘
’’وہ میری بیوی ہے۔۔۔ بیٹی نہیں۔‘‘ عطاء اللہ آگ بگولہ ہوا تھا۔
جامین نے آگ اگلتے ہوئے عطاء اللہ کو سر تا پیر غور سے دیکھا۔ کالی رنگت، چہرے پر ماتا کے داغ، دانت پیلے، توند نکلی ہوئی، بڑھاپے کی دہلیز کے اوپر کھڑا ہوا عطاء اللہ بلوچ۔
وہ تمھاری بیوی ہے؟‘‘ جامین نے دوبارہ پوچھا۔ اُسے اپنے کانوںپر یقین نہیں آیا تھا۔
ہاں۔۔۔! وہ میری بیوی ہے۔‘‘ عطاء اللہ نے کھا جانے والی نظروں سے جامین کو دیکھا جو بہت غصے میں تھا۔
عطاء اللہ۔۔۔! تم اپنے غصے کو قابو میں رکھا کرو۔ یہ تمھارا گھر نہیں ہے۔ یہ میرا ڈیرہ ہے۔‘‘ سردار نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ سردار کو عطاء اللہ کی تلخی پسند نہ آئی تھی۔
عطاء اللہ نے سردار کی طرف دیکھا تو شرمندگی سے گردن جھکا لی۔ عطاء اللہ کی وہ لڑکی تیسری بیوی تھی جو کہ اُس نے اپنے گھر سے دور الگ گھر میں رکھی تھی۔ عطاء اللہ ایک کھاتا پیتا آدمی تھا۔ پہلی بیوی کے مرنے کے بعد اُس نے دوسری شادی کر لی تھی اور تیسری شادی کو چھ ماہ ہی گزرے تھے۔
اب تم سب جا سکتے ہو۔ عطاء اللہ۔۔۔! کل تم اپنی بیوی کو بھی لے کر آؤ۔ وہ اندر زنان خانہ میں بیٹھے گی اور ٹھیکے دار تم اٹھارہ ہزار ساتھ لے کر آنا۔
ساجد بلوچ کے ڈیرے پر آنے کے بعد جامین نے پروگرام بنایا کہ وہ اس علاقے سے بھاگ کر کوئٹہ چلا جائے گا اور کوئٹہ سے لاہور کی ٹرین پکڑ کر لاہور اور وہاں سے شکرگڑھ۔ ساجد کو اُس کے ارادے کی خبر ہو گئی تھی۔ اُس نے کہا
پورے بلوچستان میں کسی کی مجال نہیں ہے کہ وہ سردار سے بھاگ سکے یا اُس کا کیا ہوا فیصلہ ماننے سے انکار کر دے۔ تمھارے حق میں یہی بہتر ہے کہ تم اٹھارہ ہزار دے دو۔
ساجد بھائی۔۔۔! کیسے دے دوں؟ میں غریب آدمی ہوں۔ دوماہ کے بعد یہ رقم اکٹھی ہوئی ہے۔ بڑی عید کے بعد میری بہن کی شادی ہے۔ ابّا میرا بیمار رہتا ہے۔ چھوٹے بہن بھائی پڑھ رہے ہیں، زندگی میں پہلی بار کوئی کام پیسوں کے بغیر کیا تھا۔ تمھارا بڈھا سردار بھی سمجھ سے باہر ہے۔
چھے ہزار تو اس کو مل گئے ہیں، بارہ ہزار لینے کی بجائے (ٹھیکے دار تم اٹھارہ ہزار ساتھ لے کر آنا)
جامین نے بلوچ سردار کی نقل اتاری تھی اسی کے انداز میں۔
اُستاد۔۔۔! میں یہاں سے بھاگ رہا ہوں، تم پیسے مت دینا۔(یہ بلوچی بڑی خدمت کرتے ہیں) اس بار رونے والی شکل بنا کر جامین نے طالب حسین کی بھی نقل اتاری تھی۔
’’میری خدمت تو بلوچیوں نے کر دی۔تم اپنی خیر مناؤ۔‘‘ جامین نے کہا۔
اتنا بڑا بچھڑا میں نے اکیلے ہی بنایا لاہور میں عید کے دنوں میں اتنا بڑا جانور ذبح کرنے کے اچھے خاصے پیسے ملتے ہیں۔ چائے پانی الگ سے پلاتے ہیں۔ اس لڑکی نے چائے پانی کا بھی نہیں پوچھا۔ سردی ہے چلو چائے ہی پلا دیتی۔ کچھ بھی ہو جائے میں ایک روپیہ نہیں دوں گا۔‘‘ جامین نے اپنے ارادے ظاہر کیے تھے۔
’’جامین۔۔۔! یہ لاہور نہیں ہے، بلوچستان ہے۔ یہاں پر عورتیں غیرمردوں کو چائے پانی نہیں پوچھتیں۔ گھر میں کوئی مرد ہوتا تو وہ تمھاری لاہور والوں سے زیادہ خاطرمدارت کرتا۔‘‘
ساجد بلوچ اور طالب حسین کی ملاقات کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہوئی تھی۔ کچھ سال پہلے جب ساجد کسی کام کے سلسلے میں لاہور گیا تھا۔ دونوں کی سیٹیں ساتھ ساتھ تھیں۔ ساجد بلوچ کو چھوٹے موٹے سرکاری ٹھیکے مل جاتے تھے۔ اس نے طالب حسین کو بھی اپنے ساتھ رکھ لیا۔
اس سڑک کا ٹھیکہ بھی ساجد کو ہی ملا تھا۔ اس نے طالب حسین کو بھی بلا لیا تھا۔ جامین طالب حسین کا دور کا رشتہ دار تھا۔ساجد کو جامین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا احساس تھا مگر وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا۔
’’طالب حسین۔۔۔! تم جامین کا حساب کرو جو بھی نقصان ہوا ہم تینوں برابر تقسیم کر لیں گے۔‘‘
طالب حسین نے اپنے بستے سے کاپی پینسل نکال لی تھی۔ جامین سے حساب کرنے کے لیے جامین اب بھی کچھ گم سم تھا۔ اسے ساجد کی بات سن کر بھی کوئی خاص خوشی نہ ہوئی تھی۔
’’ساجد بھائی۔۔۔! وہ لڑکی سچ میں اس کی بیوی ہے؟‘‘
ہاں۔۔۔!‘‘ ساجد نے مختصر سا جواب دیا اور جامین کے چہرے پر اپنی نظریں جما دیں جہاں پر عجیب سے تاثرات تھے۔
جامین۔۔۔! اِدھر میری طرف دیکھو!‘‘ ساجد نے جامین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی تھی۔ طالب حسین بے نیازی سے حساب کتاب میں مصروف تھا۔
عطاء اللہ اور رحیم بخش دوست تھے۔ رحیم بخش کی بیوی ماں بننے والی تھی۔ یہاں کی دائی بولی اگر بیوی کی جان بچانی ہے تو اسے شہر لے جاؤ۔ شہر کے ڈاکٹروں نے بڑے آپریشن کا بول دیا تھا۔ رحیم بخش غریب آدمی تھا۔ وہ پہلے ہی عطاء اللہ کا مقروض تھا۔ اُسے عطاء اللہ سے مزید قرض لینا پڑا، آپریشن کے دوران رحیم بخش کی بیوی مر گئی تب پری گل پیدا ہوئی تھی۔ اب رحیم بخش کی بیٹی پری گل عطاء اللہ کی تیسری بیوی ہے۔‘‘ ساجد نے ساری تفصیل بتائی۔
جامین پریشان ہو گیا تھاطالب حسین نے پہلی دفعہ اپنی توجہ ان دونوں کی طرف کی تھی۔
’’پری گل نے عطاء اللہ سے کیوں شادی کی تھی؟‘‘ جامین نے پوچھا۔
’’رحیم بخش کے مرنے کے بعد عطاء اللہ نے اپنی رقم کا مطالبہ کر دیا تھا وہ بھی سود سمیت۔ اصل رقم تو وہ شاید ادا کر دیتی سود کہاں سے دیتی۔ پری گل کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ عطاء اللہ سردار کے پاس فیصلہ لے گیا، سردار نے پری گل سے پوچھا وہ کب تک عطاء اللہ کا قرض واپس کرے گی۔
اُس نے کہا میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ صرف میرے باپ کا گھر ہے۔ اگر میں اُسے بیچ دیتی ہوں تو میں کہاں جاؤں گی۔ سردار نے عطاء اللہ سے پوچھا اب بتاؤ کیا کہتے ہو۔
عطاء اللہ بولا: یہ اپنے باپ کے گھر ہی میں رہے ۔ میں قرض اور سود چھوڑتا ہوں اس کے بدلے میں پری گل کو مجھ سے نکاح کرنا ہو گا۔ پری گل نے یہ سنا تو اس کے آنسو نکل آئے پھر بھی اس نے ہاں کر دی تھی۔‘‘ ساجد کی آنکھوں میں نمی تھی۔
جامین پتھرائی ہوئی آنکھوں سے خیالوں میں گم تھا۔ طالب حسین حساب بھول گیا تھا یہ باتیں سن کر۔ جامین کو پہلے اٹھارہ ہزار کا غم تھا۔ پری گل کی کہانی جاننے کے بعد اُسے نئی پریشانی نے گھیر لیا تھا۔ وہ رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتا رہا تھا۔
اُسے ایسا لگ رہا تھا کہ ایک پری، جِن کی قید میں ہے اور کسی آدم زاد کا انتظار کر رہی ہے۔ جامین نے رات کھلی آنکھوں سے گزار دی تھی۔ اگر وہ آنکھیں بند کرتا تھا تو پری گل کا حسین چہرہ بند آنکھوں کے اندھیرے کے آگے آجاتا تھا۔
اگلا دن فیصلے کا دن تھا۔ سردار نے ساجد اور طالب حسین کو باہر بیٹھنے کا حکم دیا تھا۔ جب وہ لوگ بیٹھک سے باہر چلے گئے تھے تب سردار نے پری گل کو زنان خانے سے بلوایا تھا۔ اُس وقت وہاں صرف چار افراد تھے۔ سردار، عطاء اللہ، پری گل اور جامین۔ سردار نے پری گل کی طرف دیکھا جو کہ پردے میں تھی۔
’’گل بیٹی۔۔۔! تم بتاؤ ساری بات۔‘‘
پری گل نے ساری بات بوڑھے سردار کو بتائی:
’’سارا قصور میرا ہے۔ اس لڑکے نے تو ہماری مدد کی تھی۔‘‘ پری گل نے آنکھ بھر کر جامین کو دیکھا تھا۔
پری گل کی آنکھوں میں کچھ تو تھا۔ عطاء اللہ تو وہ نہ دیکھ سکا مگر تجربے کی آنکھ سے کچھ نہ چھپ سکا۔ سردار کی نظریں پری گل پر مرکوز تھیں۔
جامین نے بھی چپکے سے پری گل کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
’’سردار۔۔۔! میری بیوی کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ یہ میری غیرموجودگی میں گھر سے باڑے میں آئی اور اس لڑکے کا ہاتھ تھاما اور پتہ نہیں کیا کچھ کیا ان دونوں نے ۔۔۔ میں پھر بھی اسے رکھے ہوئے ہوں۔‘‘ عطاء اللہ اپنی عظمت بیان کر رہا تھا۔
سردار نے پری گل کو واپس زنان خانے میں جانے کا حکم دیا، پری گل نے جاتے ہوئے نفرت سے عطاء اللہ کو دیکھا تھا۔
’’ٹھیکے دار۔۔۔! تم عطاء اللہ کو اٹھارہ ہزار روپے دے دو۔‘‘
طالب حسین نے جلدی سے اٹھارہ ہزار روپے عطاء اللہ کو پیش کر دیے تھے جو کچھ دیر پہلے پری گل کے جانے کے بعد ساجد کے ساتھ اندر آیا تھا۔ عطاء اللہ نے جلدی سے رقم گن کر کھیسے میں ڈال لی تھی۔ جامین گردن جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اٹھارہ ہزار جانے کا افسوس نہیں تھا۔
ہاں عطاء اللہ کی باتوں سے ضرور دکھ پہنچا تھا۔
’’عطاء اللہ۔۔۔! تمھاری رقم پوری ہے؟‘‘ سردار نے پوچھا۔ عطاء اللہ نے خوشی سے گردن کو ہلایا۔
’’عطاء اللہ۔۔۔! چھ ہزار گوشت والے اور اٹھارہ ہزار یہ، کل چوبیس۔ اس میں چھبیس ہزار اور ڈالو اور ابھی کے ابھی پری گل کو طلاق دے کر فارغ کرو۔ وہ اسی لائق ہے جو اپنے خاوند کی غیرموجودگی میں اس کا بچھڑا ذبح کروا دے، اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باڑے تک آئے اور کسی غیر مرد کا ہاتھ تھام لے اسے یہی سزا ملنی چاہیے۔ تم پچاس ہزار حق مہر ادا کرو اور پری گل کو ابھی طلاق دو۔
’’مگر سردار۔۔۔!‘‘ عطاء اللہ نے پریشانی سے کہا تھا۔
’’اگر مگر چھوڑو۔۔۔ یہ میرا فیصلہ ہے اور تم تو میرے فیصلوں سے اچھی طرح واقف ہو۔‘‘ بوڑھے سردار نے رُعب دار آواز میں فرمان جاری کر دیا تھا۔ اس سے پہلے کہ عطاء اللہ طلاق دیتا وہ زمین پر گر گیا منہ کے بل۔ تھوڑی دیر تڑپا پھر اس کے جسم کو سکون مل گیا تھا۔
ادھر روح کو جسم کی قید سے آزادی ملی دوسری طرف پری بھی آزاد ہو گئی ایک جن کی قید سے۔ پانچ ماہ بعد بوڑھے بلوچ سردار نے پری گل کا نکاح جمال امین سے کروا دیا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے جمال امین کون؟ اپنا جامین۔۔۔!
٭…٭…٭