23 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

اکلوتا

 

اکلوتا

شکیل احمد چوہان

اکلوتا بولنا شروع ہوا اور بولتا ہی گیا۔ اُس کے دل میں تیس سال سے بھرا ہوا لاوا آج اُبل پڑا تھا۔ بولنے والی زبان پر یہ الفاظ آج پہلی بار آئے تھے۔ یہ اُس کا غصہ تھا یا درد، اندازہ لگانا مشکل تھا۔ سننے والا ان جملوں اور لفظوں سے اچھی طرح واقف تھا۔
ان کڑوے لفظوں سے اس کی زبان کی پرانی شناسائی تھی۔ اس کی زبان پر ان لفظوں کا ہی ذائقہ تھا، مگر اس کے کانوں  نے آج پہلی بار ایسے لفظوں کی تپش محسوس کی تھی جس کی وجہ سے اس کے کان جوار بھاٹا بنے ہوئے تھے۔ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اس کی زبان حلق سے نکال لیتا۔ کہنے والا تو ’’اکلوتا‘‘ تھا۔
اس کے جانے کے بعد وہ اپنے پُرکھوں کی حویلی میں اکیلا تھا۔ جہاں اس کی مرضی کے بغیر کسی کی آواز نہیں نکلتی تھی۔ اب سناٹا تھا۔ روح کو زخمی کر دینے والی خاموشی مگر اس کے کانوں میں طبلِ جنگ بج رہا تھا۔ سب جا چکے تھے۔ اس کے خادموں کو اس طرف آنے کی اجازت نہ تھی۔
یہ سرخ چھوٹی اینٹوں سے بنی ہوئی نوابوں کی حویلی تھی، جہاں وہ اکبری جاہ و جلال سے چلتا تھا، اب اس کے قدموں میں بے بسی اور جنبش تھی۔ وہ اپنی حویلی کے مرغولی دروں والے برآمدے میں سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا تھا۔ اسے آج پہلی بار لگا تھا کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے، اپنے غیض و غضب کے ساتھ۔ سردی میں بھی اس کی پیشانی پر پسینہ تھا وہ بڑی مشکل سے دیوان پر بیٹھ پایا تھا۔
وہ یادوں کے قبرستان میں پہنچ چکا تھا، جہاں پر گیارہ مقبرے تھے۔
’’بارہ لوگوں نے مل کر آپ کو فرعون بنایا۔‘‘
اس کے کانوں میں آگ کے شعلے بھڑکے۔ اسے یاد آیا ایک مقبرہ بننا ابھی باقی تھا۔
نواب جہانگیر ریاست سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ نواب ریاست علی کی دوسری بیوی سے تیسری اولاد، پہلی بیوی کے ہاں پانچ بیٹیوں کی پیدائش کے بعد ریاست علی کے والدین نے اس کی دوسری شادی کر دی۔ اگر ایسا کہیں تو بہتر ہو گا کہ اس کی پہلی بیوی نے ہی ریاست علی کے والدین کو مجبور کیا تھا کہ اس کے خاوند کی دوسری شادی کی جائے۔
ریاست علی کی دوسری شادی کے بعد بھی اسے اپنی ریاست کا وارث نہیں ملا تھا۔ پہلی دو بیٹیوں کے بعد خدا خدا کر کے ان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی تھی۔ کوئی سائیں، جوگی، پیر، فقیر ایسا نہیں تھا جس سے دُعا نہ کروائی ہو۔ کوئی وید، حکیم، ڈاکٹر نہیں بچا تھا جس سے دوا نہ لی ہو۔
جس دن جہانگیر پیدا ہوا، اُس دن نواب ریاست علی نے اپنے سارے علاقے کی دعوت کی تھی۔ اردگرد کے سارے گوٹھ نواب ریاست علی کی دعوت پر پہنچے تھے۔ وقت گزرتا گیا جہانگیر کے دادا دادی کے انتقال کے بعد بھی اس کے ناز نخرے اٹھانے والوں کی کمی نہیں تھی۔
سات بہنیں، دو مائیں اور دسواں نواب ریاست علی۔ جہانگیر کی ہر خواہش حرفِ آخر ہوتی۔ جس کی وجہ سے جہانگیر کی طبیعت اور اس کا مزاج کافی سخت اور گھمنڈی ہو گیا تھا۔ نواب ریاست کے باپ کو انگریز سرکار جاتے جاتے لمبی چوڑی جاگیر عطا کر گئی تھی۔
نواب ریاست علی بھی اکلوتا تھا لہٰذا شراکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نواب ریاست علی نے اپنی جاگیر کو بچانے کے لیے اپنی ساتوں بیٹیوں کی شادی اپنے سے چھوٹے گھرانوں میں کروائی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی ساری بیٹیوں سے اپنے حصے کی دستبرداری بھی لکھوا لی تھی۔
نواب جہانگیر جوان ہو چکا تھا، اب وہ اپنے باپ کی جاگیر کا اکلوتا وارث تھا۔ مغرور، گھمنڈی، خودسر، ضدی ہزار برائیاں تھیں اس کے اندر۔ اس کے شوق بھی راجوں، مہاراجوں اور نوابوں جیسے ہی تھے۔ کتوں کی لڑائی، مرغوں کی لڑائی، گھوڑوں کی دوڑ سارے شوق جہانگیر نے پال رکھے تھے۔ شراب اور جوئے کی کمی تھی جو وہ کراچی جا کر پوری کر لیتا۔
ایک بہت بڑی خوبی اس کے اندر تھی، اس نے گوٹھ کی کسی بہو بیٹی کی طرف کبھی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ ایک دن کراچی کسی کام سے وہ اپنی ماں کے دُور کے رشتے داروں کی طرف گیا تھا جہاں اس کی نظر عابدہ پر پڑی۔ گھر آکر اس نے فیصلہ سنا دیا کہ وہ شادی کرے گا تو صرف اسی لڑکی سے۔
نواب ریاست علی اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر غفور احمد کے ہاں پہنچے تھے۔ غفور ہائی اسکول میں ماسٹر تھا۔ غفور کے بچوں میں عابدہ بڑی تھی اور میٹرک پاس بھی، ماسٹر غفور اسے آگے پڑھانا چاہتے تھے مگر عابدہ سلائی کڑھائی اور خانہ داری میں زیادہ خوش رہتی جس وجہ سے اس کے باپ نے آگے پڑھنے پر زیادہ زور نہیں ڈالا تھا۔
ماسٹر۔۔۔! میں اپنے جہانگیر کا رشتہ لے کر آیا ہوں۔‘‘ نواب ریاست علی نے رشتہ ایسے مانگا جیسے اعلان کر کے فیصلہ سنایا ہو۔
نواب صاحب۔۔۔! آپ بڑے ہیں، عمر میں بھی اور مرتبے میں بھی۔ میرا آپ کا کیا جوڑ؟‘‘ ماسٹر غفور نے مسکراتے ہوئے بات گول کرنا چاہی۔
’’وہ تو ٹھیک ہے پر جہانگیر کی ضد ہے کہ شادی وہ تمھاری بیٹی ہی سے کرے گا۔‘‘
ماسٹر غفور کافی دیر نظریں جھکائے سوچتا رہا پھر ہمت کر کے بول ہی پڑا
نواب صاحب۔۔۔! سچ بات تو یہ ہے کہ میں یہ رشتہ کرنا ہی نہیں چاہتا۔‘‘ ماسٹر غفور نے گردن جھکائے ہی دبے لفظوں میں دل کی بات کہہ دی۔
’’تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے غفور۔۔۔! میں خود نواب ریاست علی اپنے اکلوتے بیٹے کا رشتہ لے کر آیا ہوں۔‘‘ نواب ریاست علی نے گرج دار آواز میں اپنی حیثیت اور مقام یاد دلایا۔
’’تم ایک معمولی ماسٹر ہو اور کرائے کے مکان میں رہتے ہو۔ میرا بیٹا میری جاگیر کا اکلوتا وارث ہے۔‘‘
اکلوتا وارث۔۔۔!!! یہی تو نواب صاحب میری بیٹی بھولی اور معصوم ہے اور آپ کا اکلوتا بیٹا مغرور اور غصے والا ہے۔۔۔ یہ بے جوڑ رشتہ ہے۔ میرا تجربہ ہے اکلوتا بیٹا بھی بگڑ جاتا ہے اور زیادہ بہنوں کا بھائی بھی بگڑا ہوتا ہے اور آپ کے بیٹے میں دونوں خوبیاں موجود ہیں۔۔۔ میں یہ رشتہ نہیں کر سکتا۔
ماسٹر غفور نے عاجزی سے انکار کر دیا، نواب ریاست علی کو غصہ تو آیا مگر وہ بھی یہ رشتہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ صرف بیٹے کی ضد کی خاطر یہاں پہنچا تھا۔ جب یہ خبر جہانگیر تک پہنچی تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا
اگر عابدہ سے میری شادی نہ ہوئی تو پھر کسی کی بھی نہیں ہو گی۔ میں ہر اُس لڑکے کو ہی مار دوں گا جو اس سے منسوب ہو گا۔
جہانگیر نے ماسٹر غفور کے گھر جا کر سیدھی دھمکی دی تھی۔ ماسٹر غفور ٹھہرا شریف آدمی اس نے مجبوری میں ہاں کر دی۔ جہانگیر اور عابدہ کی شادی کو تین ماہ ہی گزرے تھے کہ نوابوں کو نئے وارث کی فکر پڑ گئی تھی۔ جہانگیر کی دونوں مائیں اور ساتوں بہنوں میں سے جو بھی میکے آئی ہوتی وہ یہ بات عابدہ سے لے کر بیٹھ جاتیں
’’کب تم اس گھر کو وارث دو گی؟‘‘
جہانگیر کے مزاج میں شادی کے بعد بھی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی بلکہ وہ پہلے سے زیادہ خودسر اور بدلحاظ ہو گیا۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ عابدہ کی ماں بہن ایک کر دیتا۔ شادی کو تین سال گزر گئے تھے۔ ریاست علی نے جہانگیر کی حیدرآباد میں اپنے ہم پلہ خاندان میں دوسری شادی کر دی تھی۔ جہانگیر کی دوسری بیوی نے شادی کے دس دن بعد ہی خلع کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا تھا۔ جہانگیر نے اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے دی۔ اس کا غصہ بھی عابدہ پر ہی نکلا تھا۔
تمھاری وجہ سے نیلوفر نے مجھ سے طلاق لی ہے۔‘‘ جہانگیر نے ساری ذمہ داری عابدہ پر ڈال دی۔
آپ خود اس کے ذمہ دار ہیں۔
عابدہ کی زبان پر لگا خاموشی کا تالا آخر کھل ہی گیا تھا۔ ادھر عابدہ کی زبان کھلنے کی دیر تھی جہانگیر کا ہاتھ بھی اٹھ گیا، پھر ایسا اٹھا کہ کبھی قابو میں نہ آیا، جہانگیر نے اس دن عابدہ کو بہت مارا تھا۔
آپ جیسے فرعون کے ساتھ کوئی بھی عورت گزارہ نہیں کر سکتی۔
عابدہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھی ہوئی بول رہی تھی، اس کے ہونٹوں سے لہو رس رہا تھا۔
جہانگیر کے کمرے سے باہر جاتے ہوئے قدم رک گئے تھے۔ وہ پلٹا اور فرش پر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ عابدہ کو گردن پر بکھرے ہوئے بالوں سے پکڑا اور جھٹکے سے اس کی جھکی ہوئی گردن کو سیدھا کیا اور دائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا پھر بولا:
’’فرعون کو بھی اللہ ہی نے پیدا کیا تھا۔‘‘
نا۔۔۔ نا۔۔۔ نواب صاحب۔۔۔! وہ تو انسان ہی پیدا کرتا ہے۔ انسان خود ہی فرعون بن جاتا ہے۔ نبوت کا ظہور بھی انسانی شکل ہی میں ہوتا ہے۔‘‘ عابدہ نے جہانگیر سے آنکھیں ملا کر جواب دیا۔
جہانگیر نے ایک زوردار طمانچہ اسی لمحے عابدہ کو جڑ دیا پھر یہ اکثر ہونے لگا۔ عابدہ کی زبان کھلتی اور جہانگیر کا ہاتھ اٹھتا۔ خدا کی کرنی چند دنوں بعد پتہ چلا عابدہ جہانگیرکے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ شادی کے تقریباً چار سال بعد نوابوں کو اپنی جاگیر کا وارث مل ہی گیا۔
نواب ریاست علی نے اپنے پوتے کا نام نواب حارث علی رکھا۔ اس کی تربیت بھی جہانگیر کی طرز پر کی جا رہی تھی جو کہ عابدہ کو منظور نہ تھا۔ عابدہ نے اپنے بیٹے کی اچھی تربیت کے سارے جتن کیے تھے۔ چند سال بعد نواب ریاست علی اور اس کی دونوں بیویوں کو اپنی دنیا پر بنائی ہوئی ریاست چھوڑنے کا حکم مل گیا۔ نواب ریاست آگے چلا گیا اور اس کی ریاست پیچھے رہ گئی۔
اس ریاست کا اب سیاہ سفید کا مالک جہانگیر ہی تھا۔ وہ اپنے شوق پورے کرنے کے لیے زمین پربینکوں سے قرض لیتا رہا۔ پھر نوبت یہ آن پڑی کی بینکوں کا قرض اتارنے کے لیے اپنی زمین بیچنا شروع کر دی تھی۔
عابدہ نے عقلمندی دکھائی اور جیسے تیسے کر کے اپنے بیٹے کو ولایت پڑھنے کے لیے بھیج دیا۔ حارث جوانی کی سیڑھیاں چڑھتا رہا اور جہانگیر بڑھاپے کی سیڑھیاں اترتا گیا۔ وقت کی اس گردش میں حارث کی ساتھ پھوپھیوں میں سے چھ جوانی کے مینار چھوڑ کر موت کے مقبروں میں دفن ہو گئیں۔
نواب حارث علی ولایت سے ڈاکٹر حارث علی بن کر لوٹا۔ ڈاکٹر حارث علی کراچی کا ایک مشہور سائیکاٹرسٹ تو تھا ہی، اس کی قابلیت کا چرچا بھی تھا۔ جہانگیر کی جاگیر میں جان باقی نہ رہی۔ ریاست میں سے ست (رس) نچوڑ لیا گیا، بس نام کی نوابی تھی۔ چند مربعے زمین کے وہ بھی کچھ گروی تھے باقی ٹھیکے پر۔ چند ایکڑ زمین جہانگیر کے پاس بچی تھی۔ جہانگیر پہلے کراچی جا کر شراب اور جوئے سے فیض یاب ہوتا تھا۔ اب اس نے یہ کام اپنے گھر میں ہی شروع کر دیا۔ جہانگیر کی زبان اور ہاتھ بھی اس کے قابو میں نہ تھے۔ وہ بڑھاپے کے باوجود عابدہ کو مارتا، اسے ننگی گالیاں دیتا۔ جب عابدہ اسے لاجواب کر دیتی تو وہ اسے اور مارتا۔ عابدہ نے اس سے بدتمیزی کبھی نہیں کی تھی۔
حارث نے کئی بار اپنے باپ کو سمجھایا کہ اب بس کرے میری ماں کی ہڈیاں بہت کمزور ہو گئی ہیں۔ ایک دن حارث اپنی شادی کی بات کرنے کے لیے کراچی سے گوٹھ آیا۔
’’ابا جی۔۔۔! حدیث کا مفہوم ہے: بدترین ہیں وہ انسان جو عورتوں کو مارتے ہیں۔‘‘ حارث نے ادب کے ساتھ اپنے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’میں نے ساری زندگی اپنے باپ نواب ریاست علی کو کچھ نہیں سمجھایا اور تو مجھے سمجھا رہا ہے۔‘‘ جہانگیر کو اپنے بیٹے کی کہی ہوئی بات ناگوار گزری تھی۔
’’سمجھانے والا کام تو دادا جی نے بھی نہیں کیا تھا۔‘‘
’’تو اپنی بکواس بند کر اور دفع ہو جا یہاں سے۔ حرام زادے۔۔۔ بے غیرت۔۔۔ کنجری کے بیٹے۔۔۔ تو نے دودھ ہی گندی ماں کا پیا ہے۔‘‘ جہانگیر غصے سے چلایا۔
’’اباجی۔۔۔! آپ صرف نام کے ہی نواب ہیں۔ اور کچھ نہیں تو نوابوں کی تہذیب اور تمیز ہی سیکھ لیتے۔‘‘
حارث کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے۔ جہانگیر نے وہ کیا جو وہ اس کی ماں کے ساتھ ہمیشہ سے کرتا آرہا تھا۔ جہانگیر نے جوان بیٹے کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ عابدہ نے آگے بڑھ کر جہانگیر کو روکا۔ اس نے غصے سے اسے بھی دھکا دے دیا تھا۔ اگلے دن حارث پھر اپنے باپ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا:
’’میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں اور لڑکی کے گھر والوں سے بات کریں۔‘‘
’’کون ہیں وہ لوگ؟‘‘ جہانگیر نے روکھے انداز میں پوچھا۔
’’میمن ہیں، لڑکی ڈاکٹر ہے، میرے ساتھ پڑھتی تھی۔‘‘
’’فیصلہ خود کیا اور عمل درآمد مجھ سے کروانا چاہتے ہو۔ میں نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں ماں جی کو اپنے ساتھ لے جاتا ہوں۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔۔۔! وہ میری اجازت کے بغیر کیسے جا سکتی ہے آخر میں اس کا مجازی خدا ہوں۔‘‘
’’آپ مجازی خدا نہیں۔۔۔ آپ تو میری ماں کے خدا بن بیٹھے ہیں۔‘‘
یہ تمیز سیکھی ہے تم نے ولایت جا کر، رات کو بکواس کر رہے تھے کہ مجھے تمیز نہیں ہے۔‘‘ جہانگیر نے غصے سے کہا۔
اباجی۔۔۔! میں معذرت چاہتا ہوں، میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا، میں تو کہنا چاہ رہا تھا کہ انسان کو اپنی عمر کے حساب سے بدل جانا چاہیے۔ اب آپ بزرگ ہیں، ماں جی کو گالیاں دیتے اور مارتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ تھوڑی لچک پیدا کریں اپنے رویے میں۔ آپ دونوں میرے ساتھ کراچی چلیں۔‘‘
اب میں آخری عمر میں اپنے پُرکھوں کی حویلی چھوڑ کر تمھارے گھونسلے میں جا بیٹھوں۔۔۔ جہانگیر ٹوٹ سکتا ہے کسی کے آگے جھک نہیں سکتا۔‘‘
ابا جی۔۔۔! گستاخی معاف۔۔۔! جھکنے والوں کو ہی دنیا میں عزت ملی ہے۔ آپ صرف اللہ کے سامنے سجدے میں گر جائیں۔ ساری دنیا آپ کے تابع ہو جائے گی اور آپ کی فرماں برداری کرے گی اور ان میں سے آپ کا یہ بیٹا سب سے آگے ہو گا۔ اباجی۔۔۔! نہ آپ کو اپنا پہلا سجدہ یاد ہوگا اور نہ ہی آخری یاد ہے۔‘‘
تو ڈاکٹر ہے کہ مولوی۔ نہ تو مجھے تجھ سے نصیحتیں سننی ہیں اور نہ ہی عاجزی کی دوا لینی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تو میرا خون ہی نہیں ہے۔‘‘
نواب صاحب۔۔۔! اگر یہ بات کوئی اور کہتا تو میں مسیحا سے جلاد بن جاتا۔ میری ماں کے خاوند نے مجھے اور میری ماں کو ایک ساتھ گالی دی ہے۔‘‘ حارث نے بڑے اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کیا پر وہ زخمی لہجے میں بولا تھا۔
’’ماں جی۔۔۔! آپ میرے ساتھ چلیں!‘‘
عابدہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش جاری تھی۔ اس نے حقارت سے جہانگیر کی طرف دیکھا۔ وہ خاموشی سے اپنے بیٹے کے پیچھے چل دی تھی۔
’’عابدہ۔۔۔! اگر تم نے اس گھر سے قدم باہر نکالا تو میں تمھیں طلاق دے دوں گا۔‘‘
جہانگیر کو اپنی کہی ہوئی کسی بات پر پشیمانی نہیں تھی۔ الٹا اس نے عابدہ کو دھمکی دے دی۔ عابدہ کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے تھے۔
’’ماں جی۔۔۔! ایسی ذلت سے طلاق ہزار گنا بہتر ہے۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔ نواب صاحب آپ طلاق دے دیں۔‘‘ حارث نے پیچھے مڑ کر اپنے والدین کو مخاطب کیا تھا۔
حارث بیٹا۔۔۔! یا انسان بہادر ہوتا ہے ۔۔۔نہیں تو ڈرپوک۔۔۔! میں ڈرپوک ہوں، نیلوفر بہادر تھی، اس نے دس دن بعد ہی اپنے فرعون کو دریائے نیل میں ڈبو دیا تھا اور میں چونتیس سال سے بچھڑے کی پوجا کر رہی ہوں۔ حارث بیٹا۔۔۔! تم جاؤ میری ہجرت کا وقت ابھی نہیں آیا۔
حارث جس بات سے بے خبر تھا وہ بھی اسے پتہ چل گئی، کراچی لوٹنے سے پہلے گھر کے ایک ملازم سے۔
چند دن بعد حارث نے شادی کر لی تھی پھر ایک دن جہانگیر نے عابدہ کو بہت مارا جس کی وجہ سے وہ بستر کے ساتھ چمٹ کے رہ گئی۔
جہانگیر نے حارث کو اس کی ماں کی بیماری کی اطلاع نہیں دی تھی۔ اس دور میں ٹیلی فون کی سہولت بھی بہت کم لوگوں کو میسر تھی۔ چند دن بعد حارث اپنی بیوی کے ساتھ خود ہی آیا تھا۔ عابدہ شاید اپنے بیٹے کا ہی انتظار کر رہی تھی۔
جس شام حارث گھر پہنچا اسی رات عابدہ اگلے جہاں پہنچ گئی۔ حارث کو اپنی ماں کے جسم پر لگے ہوئے ظلم کے ٹھپے نظر آگئے تھے۔ عابدہ نے اپنے بیٹے کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ اگلے دن حارث نے اپنی ماں کی تدفین کی، بہت بڑا جنازہ ہوا تھا۔ عابدہ کی وفات پر ہر آنکھ اشک بار تھی۔
دوپہر کے بعد حارث کراچی جانے کے لیے تیار تھا۔ وہ اپنی بیوی کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے باپ کو الوداعی سلام کہنے کے لیے اپنی حویلی کے صحن میں داخل ہوا تھا، جہانگیر نے حارث کو دیکھا تو تمام ملازموں کو جانے کا حکم صادر کر دیا۔
’’کوئی اِدھر نہ آئے جب تک میں نہ بلاؤں۔‘‘
نواب صاحب۔۔۔! چلتا ہوں۔ حارث نے اپنے آنسو صاف کیے اور پلٹ گیا جانے کے لیے۔
پھر کب آؤ گے؟‘‘ جہانگیر نے اپنی خرخراہٹی آواز میں پوچھا۔
کبھی نہیں۔‘‘ حارث نے دھیمے سے جواب دیا۔
اپنی ماں کا جنازہ دیکھ کر۔۔۔ لوگوں کی آنکھوں سے گرتے آنسو میری ماں کی عظمت کا ثبوت تھے نواب صاحب۔۔۔! دودھ اور خون۔۔۔
حارث بات کرتے کرتے رُک گیا۔ اسے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ وہ اپنی ماں کی طرح باادب تھا۔ اس کی ماں نے ہمیشہ اس کے باپ کو لاجواب کیا تھا مگر ادب کی رسی ہاتھ سے نہیں چھوٹی۔
میری ماں کنج۔۔۔ میری ماں عابدہ تھی۔۔۔ نام کی بھی اور کردار کی بھی۔‘‘ حارث کوشش کے باوجود بھی کنجری نہیں کہہ سکا تھا۔
نواب صاحب۔۔۔! آج میں آپ کے سامنے گردن جھکائے کھڑا ہوں یہ میری ماں کے دودھ ہی کا اثر ہے۔ آپ کے بقول میرا خون تو۔۔۔ خیر چھوڑیں۔۔۔ یہاں سے جانے کے بعد میں آپ کی دوسری بیوی نیلوفر سے ملا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے نواب جہانگیر سے طلاق کیوں لی۔۔۔؟ انھوں نے جواب دیا کیوں کہ میں عابدہ نہیں تھی۔ انھوں  نے آپ کی اصلیت مجھے بتائی۔ آپ نے خود کہا تھا میری رگوں میں آپ کا خون نہیں ہے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
جہاں تک میری بات ہے میری نظروں میں میری ماں اللہ اور اُس کے رسول کے بعد سب سے زیادہ معتبر ہے۔ آپ کے بقول:
اگر میں حرام زادہ بھی ہوا پھر بھی میری نظروں میں میری ماں کے مرتبے اور مقام میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی۔‘‘
آج کے بعد میرے اور آپ کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔ میری ماں جسے مجازی خدا سمجھتی رہی وہ تو فرعون تھا۔ بارہ لوگوں نے مل کر آپ کو فرعون بنایا تھا۔
نواب حارث علی۔۔۔ ڈاکٹر حارث علی بن کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نوابوں کی حویلی سے چلا گیا۔ ایک اکلوتا دُوسرے اکلوتے کو تنہا چھوڑ گیا تھا۔ ڈاکٹر حارث کے جانے کے بعد جہانگیر خود اپنی لاش کو گھسیٹ گھساٹ کر اپنے کمرے میں پہنچا تھا۔
اگلی صبح جب خادم نواب جہانگیر ریاست کے کمرے میں گیا تو وہ دیوان پر ٹیک لگائے، کھیتوں کی طرف کُھلنے والی کھڑکی سے باہر کھلی آنکھوں کے ساتھ اپنی جاگیر کو دیکھ رہا تھا۔
وہ الگ بات ہے تب آنکھوں میں نور نہیں تھا۔

٭…٭…٭

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles