جہنم کا سودا
احمد نعمان شیخ
’’کیا کبھی دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنے لیے جہنم کا سودا کیا؟‘‘
چائے کا کپ ہونٹوں سے لگاتے ہی زبیر کا ہاتھ ایک لمحے کے لئے رک گیا۔ اس نے عجیب سی نظروں سے راحیل کی طرف دیکھا اور پھر چائے کا گھونٹ بھرنے کے بعد مسکراتے ہوئے راحیل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا
بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ ایسا کون ہو گا جو دوسروں کی خوشی کی خاطر خود جہنم میں جانا چاہے؟۔۔۔۔۔ میں نے تو سنا ہے روزِ محشر کوئی بھی کسی کو نہیں پہچانے گا۔ ماں باپ، اولاد، بہن بھائی، دوست احباب سب پرائے ہو جائیں گے۔ زبیر نے جواب دینے کے بعد چائے کا کپ پھر سے اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ بات تو ٹھیک کی تم نے۔ میں نے تو بس ایسے ہی یہ بات کہہ دی۔
راحیل فی الحال حقیقت بتانا نہیں چاہتا تھا۔
زبیر اور راحیل اسکول اور کالج میں ایک ساتھ پڑھتے تھے ۔ لیکن اچانک راحیل کے والد کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا اور دونوں کی طویل رفاقت پر ضرب لگ گئی۔ اس کے بعد اکثر خط و کتابت ہوتی رہی لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہوتی چلی گئی۔ پڑھائی کے بعداپنی اپنی نوکری میں دونوں ایسے مصروف ہوئے کہ دونوں کے درمیان رابطہ ختم نہ ہو سکا مگر آج اچانک ایک طویل عرصے کے بعد لاہور کے ایک بڑے گروسری اسٹور میں دونوں کا سامنا ہو گیا۔
دونوں ایک دوسرے کو پہلی ہی نظر میں پہچان گئے حالانکہ راحیل کے چہرے پر گھنی سیاہ داڑھی تھی۔ حال احوال کے بعد دونوں قریبی کیفے میں آ گئے اور چائے کا آرڈر دے دیا۔
پہلے راحیل اپنی فیملی اور نوکری کے بارے میں بتاتا رہا, پھر اچانک سے راحیل کے اُس سوال نے زبیر کو چونکا دیا لیکن راحیل نے جلد ہی بات پلٹ دی۔
تم سے یہاں اچانک ملنے کی امید نہیں تھی مجھے۔ زبیر نے راحیل سے کہا۔
اتنا تو مجھے پتا تھا کہ تم آج کل لاہورمیں ہی ہو۔ مگرمجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ ایسے ملاقات ہو جائے گی۔ راحیل کے چہرے پر خوشی دیدنی تھی۔
ہاں۔۔۔۔ کچھ عرصہ نوکری کے سلسلے میں سیالکوٹ بھی رہا ہوں۔ لیکن پھر تبادلہ کروا کر اب مستقل طور پر اپنے آبائی شہر لاہور ہی شفٹ ہو گیا ہوں۔ زبیر نے جواب دیا۔
اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ اپنے شہر سے ہزاروں یادیں وابسطہ ہوتی ہیں۔ راحیل نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔ وہ بھی کافی عرصہ بعد لاہور واپس آیا تھا۔
’’مگر تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں اب لاہور میں ہوتا ہوں؟‘‘
کچھ دن پہلے دانش ملا تھا۔ اسی نے تمہارے بارے میں بتا یا تھا۔ بدقسمتی سے اس کے پاس تمہاراموبائل نمبر نہیں تھا، ورنہ میں فون کر لیتا۔ راحیل نے ایک پرانے دوست کا نام لیا جو ان کے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا۔
ہاں۔۔۔۔ دانش سے بھی رابطہ ہوئے بھی عرصہ گزر گیا۔ نوکری اور فیملی میں انسان ایسا الجھ جاتا ہے کہ پرانے دوستوں کو ملنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔
اور سناؤ۔۔۔۔۔۔ کیسی گزر رہی ہے زندگی؟ راحیل نے زبیر سے پوچھا۔
اللہ کا شکرہے۔ فرمانبردار اولاد ہے۔ دکھ سکھ کی ساتھی نیک بیوی ہے۔ والدین کا سایہ سر پر سلامت ہے اور سرکاری نوکری ہے۔ اب زندگی سے اور کیا تمنا کروں؟ زبیر مسکراتے ہوئے اپنے بارے میں بتانے لگا۔ کچھ دیر راحیل اس کی طرف دیکھتا رہا ، پھر پوچھنے لگا۔
’’بچوں کی سناؤ۔۔۔۔۔۔ کس اسکول میں اور کس جماعت میں پڑھتے ہیں؟‘‘
تینو ں بچے شہر کے بہترین اور مہنگے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ بڑا بیٹا پانچویں کلاس میں ہے، چھوٹا تیسری میں اور بیٹی نرسری میں۔
’’مہنگا اسکول۔۔۔۔ کیا فیس ہے ماہانہ ؟‘‘
تینوں کی ملا کر تقریباً تیس ہزار روپے ماہانہ بن جاتی ہے۔ ویسے فیس تو زیادہ ہے لیکن اسکول کی پڑھائی اور سہولیات بہت شاندار ہیں۔
سہولیات سے کیا مراد ؟
ہر کلاس میں اے سی لگا ہوا ہے۔ جنریٹر کی سہولت بھی میسر ہے۔ تمہیں تومعلوم ہی ہے اپنے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا حال۔ میں برداشت نہیں کر سکتا کہ میرے بچے گرمی میں بیٹھ کر پڑھیں۔ تم تو جانتے ہی ہو، میں نے خود ساری زندگی سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھا، لیکن اپنی اولاد کو بہترین اسکول میں ہی تعلیم دلوا رہا ہوں۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ بچے اسکول کیسے جاتے ہیں؟ اسکول بس یا وین وغیرہ سے ؟
راحیل نے پہلی بار اپنی چائے کا کپ اٹھایا اور پھونک مارنے لگا۔ شاید وہ زیادہ گرم چائے پینے کا عادی نہیں تھا۔
ارے نہیں یار۔۔ ۔۔۔۔ میرے پاس ہونڈا سٹی ہے۔ ڈرائیور کے ساتھ ہی آتے جاتے ہیں۔ زبیر نے بتایا۔
’’ارے واہ۔۔۔۔ بچوں کے لئے ہونڈا سٹی اور اپنے لیے سوزوکی مہران۔‘‘
میرا کیا ہے۔ تمہیں یاد ہے؟ ابا جی کے پاس تو ایک سائیکل ہوا کرتی تھی۔ اسی پر مجھے پیچھے کیرئیر پر بٹھا کر اسکول لاتے لے جاتے تھے۔ پھر کچھ بڑا ہوا تو اپنی سائیکل خرید لی۔ کالج تک اسی پر جاتا رہا۔ زبیر کو اپنا اسکول کا زمانہ یاد آ گیا۔
’’بھابھی جی کی سناؤ۔ کیا مصروفیات ہیں ان کی ؟‘‘
بس ہماری بیگم کو تو آن لائن شاپنگ سے فرصت نہیں ملتی۔ جب دیکھو کبھی گھر میں کوئی ڈریس آ رہا ہے تو کوئی جیولری ۔ کبھی جوتے اور کبھی ہینڈ بیگ۔
اچھی بات ہے۔۔۔۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آن لائن شاپنگ کا بہت رواج ہو گیا ہے۔ تم اپنے لیے بھی کچھ خریدتے ہو یا نہیں؟ راحیل نے پوچھا۔
ارے مردوں کا کیا ہے۔۔۔۔۔ دو جینز ، چار پانچ ٹی شرٹس اور چار شلوار قمیض کے جوڑوں میں پورا سال گزر جاتا ہے۔ شادی بیاہ جیسے فنکشن میں جانے کے لئے ایک سوٹ رکھا ہوا ہے۔ بس گزارہ ہو جاتا ہے۔
ہاں۔۔۔۔۔ یہ تو ہے۔ راحیل نے زبیر کی تائید کی۔
انکل اور آنٹی کیسے ہیں؟ راحیل اب زبیر کے والدین کے بارے میں پوچھنے لگا۔
اللہ کا شکر ہے ابا جی اور اماں جی دونوں ہی ٹھیک ہیں۔ ابا جی کو شوگر کا مسئلہ ہے اور اماں جی کو جگر کا۔ لیکن دونوں صحت مند ہیں۔ ابھی پچھلے سال ہی میں نے دونوں کو حج پر بھیجا تھا۔ اللہ کا شکر ہے ان کی حج کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔
’’ما شا ء اللہ۔۔۔۔ تم نے بیت اللہ کی زیارت کی؟‘‘
کہاں یار۔۔۔۔۔۔زندگی میں مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ وقت ہی نہیں ملا۔ سوچ رہا ہوں لاک ڈاؤن کے بعد جب عمرہ کا ویزہ ملنے لگے گا تو اس بار ضرور عمرہ کروں گا۔ زبیر کے لہجے میں افسوس نمایاں تھا جسے راحیل نے بھی محسوس کیا۔
’’دانش بتا رہا تھا کہ تم نے اندرون لاہور والا گھر بیچ دیا تھا اور کہیں اور شفٹ ہو گئے ہو۔‘‘
ہاں۔۔۔۔۔۔ وہ گھر تو دادا جی کا تھا، ان کے انتقال کے بعد ابا جی کا جو حصہ بنا، وہ لے کر اور کچھ اپنی جمع پونجی سے میں نے اب بحریہ ٹاؤن میں دس مرلے کا گھر بنایا ہے۔تقریباً ایک کروڑ میں پڑ گیا وہ گھر۔
ماشاء اللہ ! یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ تم لوگوں کی ساری زندگی اپنے دادا کے چھوٹے سے تین مرلے کے گھر میں گزر گئی ۔
ہاں۔۔۔۔۔ ہماری فیملی اور دو چچا اور ا ن کی فیملی اور پھر دادا جی ۔۔۔۔ ہمارے حصے میں تو صرف ایک کمرا ہی تھا۔ اسی میں سونا، کھانا اور پڑھنا۔مگر اپنے بچوں کے لئے میں نے اسٹڈی کے لیے الگ سے کمرا بنایا ہے۔ سونے کے لیے الگ سے بیڈ روم۔ جن چیزوں کے لئے میں اپنے بچپن میں ترستا رہا، میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بھی ترسیں ۔ میں انھیں دنیا کی ہر نعمت دینا چاہتا ہوں۔ راحیل کو زبیر کی آنکھوں میں ایک خاص چمک کا احساس ہونے لگا۔
اپنی اولاد کے لیے تو ہر کوئی اپنی اوقات سے بڑھ کر کرنا چاہتا ہے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تم اپنی اولاد کے لیے اتنے فکر مند ہو۔ راحیل نے اپنا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔ زبیر اپنی چائے ختم کر چکا تھا۔
اچھا یہ بتاؤ نوکری کیسی جا رہی ہے؟ جتنی بہترین زندگی گزار رہے ہو، مجھے لگتا ہے کہ کم از کم سترہ، اٹھارہ گریڈ کے سرکاری آفیسر ہو گے اور تنخواہ بھی کم از کم ایک لاکھ روپے تو ہو گی۔ راحیل کی بات سن کر زبیر نے ایک قہقہہ لگایا اور گویا ہوا
کیوں مذاق کرتے ہو میرے دوست ؟ میں محکمہ بلدیہ میں گریڈ آٹھ کا معمولی سا کلرک ہوں۔ تنخواہ سب الاؤنس وغیرہ ملا کر چالیس بیالیس ہزار تک بنتی ہے۔
زبیر چائے کا بل ادا کرنے کے لیے ویٹر کو تلاش کرنے لگا۔
تو پھر کوئی سائیڈ بزنس لازمی ہو گا۔ راحیل نے اپنا خیال پیش کیا۔
ارے نہیں۔۔۔۔ آفس میں سارا دن فائلوں میں سر کھپانے کے بعد کس میں ہمت ہے کہ کوئی کاروبار بھی کر سکے۔ زبیر نے ویٹر کو اشارہ کرتے ہوئے بل لانے کا کہا۔
تو پھر یہ سب ۔۔۔۔۔دو دو گاڑیاں، بڑا سا گھر، بچوں کی بہترین اسکول میں تعلیم اور بیگم کی شاہ خرچیاں۔۔۔۔۔ یہ سب کیسے پورا کرتے ہو؟ راحیل نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
بس یار۔۔۔۔اب تم سے کیا چھپانا۔ میری نوکری بہت شاندار ہے۔ ہمارے دفتر میں بہت سے سائل اپنا کام کروانے آتے ہیں۔ تو جس کا بھی کام ہو جاتا ہے وہ اپنی محبت نچھاور کردیتا ہے۔ اسی طرح سے یہ بہترین زندگی گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔ زبیر نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے کہا ۔ ویٹر نے آ کر بل سامنے رکھا۔ زبیر نے بل پر رقم دیکھ کر جیب میں سے بٹوا نکالا اور مطلوبہ رقم ادا کی۔
ارے یہ کیا۔۔۔۔۔۔ تم نے ابھی تک اپنی چائے ختم نہیں کی؟ زبیر نے راحیل کا کپ دیکھ کر پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔ میں چائے ٹھنڈی کر کے پیتا ہوں۔ مجھے گرم چیزوں سے اور آگ سے ڈر لگتا ہے۔ اور آگ چاہے دنیا کی ہو یا پھر جہنم کی۔
راحیل نے چائے کا کپ اٹھایا اور پھر ایک ہی سانس میں ساری چائے پی گیا اور کپ میز پر رکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا ۔ زبیر اس کی بات کا مطلب ابھی تک نہیں سمجھا تھا۔ اٹھنے کے بعد راحیل نے اپنی جیب سے بٹوا نکالا اور ایک چائے کے کپ کے پیسے زبیر کے ہاتھ میں رکھتے ہوئے بولا
مجھے دیر ہو رہی ہے، اب چلتا ہوں۔ پر جاتے جاتے وہی سوال پھر سے کروں گا۔ راحیل کو زبیر کے بارے میں بتائی گئی دانش کی بات یاد آنے لگی۔
کون سا سوال؟ زبیر نے دھیرے سے پوچھا۔
کیا کبھی دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنے لیے جہنم کا سودا کیا؟
زبیر نے جب یہ سنا تو اس کا ہاتھ بے اختیار اپنی جیکٹ کی جیب میںچلا گیا جہا ں ہزار ہزار کے نوٹوں کی ایک گڈی موجود تھی جو آج صبح ہی ایک سائل اپنی غیر قانونی فائل کو قانونی بنانے کے لئے اپنی محبت کی صورت میں اسے دے گیا تھا۔ کچھ دیر وہ راحیل کا سپاٹ چہرہ دیکھتا رہا اور پھر بلا ارادہ اس کی زبان سے نکلا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔ گھر والوں کی خوشی کی خاطر اپنے لیے تو جہنم کا سودا ہی کیا۔‘‘
٭٭٭