30 C
Lahore
Tuesday, April 16, 2024

Book Store

حرا کا حجاب

حرا کا حجاب

شکیل احمد چوہان

’’ہر فکر کے پیچھے ایک حرا ہوتی ہے۔‘‘
پتا ہے امی جی۔۔۔! ہر فکر کے پیچھے ایک حرا ہوتی ہے۔ ہر جلوت کے پیچھے ایک خلوت ہے۔ طاقت کا سرچشمہ علم ہے۔ عیاں کو بیان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ چار سنہری اُصول میرے دادا محمد جمیل شاہ نے میرے باپ محمد نوید شاہ کو سکھائے تھے اور ابو کے انتقال کے بعد یہ آپ کی ڈیوٹی ٹھہری۔
حرا نوید شاہ نے چڑتے ہوئے اپنی ماں شگفتہ بانو کو جواب دیا۔
حرا بیٹی۔۔۔! یاد تو میں کراتی ہوں، تجھے غصہ کیوںآتا ہے۔۔۔؟‘‘ شگفتہ نے رات کی باسی روٹی اور چائے کا کپ اپنے جہیز کے میز پر رکھا تھا۔
’’چلو ناشتہ کر لو کالج سے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
حرا نے نوالہ منہ میں ڈالا اور گرم چائے کا گھونٹ لیا۔ گرم چائے نے زبان کو حرارت پہنچائی اور دل کے شکوئے زبان پر آ ہی گئے۔دادا کہتے تھے
ہر فکر کے پیچھے حرا ہوتی ہے‘‘ اور یہاں حرا کے آگے پیچھے غربت ہے، جلوت کا تو پتا نہیں۔ یہاں تو خلوت ہی خلوت ہے۔ ہمیں کوئی رشتہ دار بلاتا نہیں اور خود ہماری طرف آتا نہیں۔ عیاں کو بیان کی ضرورت نہیں۔ یہ خوب کہا تھا، دادا جی نے ہماری غربت سب پر عیاں ہے۔ مجال ہے کوئی بیان کے بغیر سمجھ جائے۔۔۔
تیسرا سنہری اُصول تو بھول ہی گئی، طاقت کا سرچشمہ علم ہے۔ علم پڑھ پڑھ کر مجھے چشمہ لگ گیا، طاقت نہیں ملی۔‘‘
حرا بیٹی۔۔۔! تو ایسی بے ادبی کی باتیں مت کیا کر…‘‘ شگفتہ نے شفقت سے حرا کے بازو پر ہاتھ رکھا جو کہ اُس کے سامنے ہی بیٹھی تھی۔
امی جی۔۔۔! کسی کے سامنے اپنی غربت کا رونا رونے سے بہتر ہے، اُس سے شکوہ کر لو جس کے سامنے سب کچھ ہے۔
پچھلے کچھ عرصے سے جو کام تم نے شروع کیا ہوا ہے، اُسے چھوڑ دو بیٹی۔۔۔! ہم سیّد ہیں۔۔۔ اپنے خاندانی رُتبے کا ہی خیال کر لو۔
شگفتہ نے حرا کو اُس کا مقام اور کام دونوں کی یاددہانی کروائی، اُسے ڈر تھا بے عزتی کا رسوائی کا۔
اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہی پوری کر رہی ہوں۔ اس سے کسی کا کوئی نقصان تو نہیں ہوتا اگر کچھ گناہ ہے بھی تو وہ صرف میری ذات پر ہے۔‘‘ حرا نے اپنا بیگ پکڑا اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کو روانہ ہو گئی۔
حرا علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کے فائنل ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی۔حرا نوید چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ بچپن میں ہی اس کا باپ ایک ایکسیڈینٹ میں فوت ہو گیا، ماں سلائی کا کام جانتی تھی۔ اپنے جہیز کی سلائی مشین نکالی اور زندگی کا پہیہ چل پڑا۔
حرا شروع ہی سے پڑھنے میں لائق تھی، حرا نے اپنی حسرتوں کا رس نچوڑ نچوڑ کر اپنے قلم میں سیاہی ڈالی۔۔۔ چھوٹے بہن بھائی بھی اُس کی دیکھا دیکھی قناعت شعار، پڑھنے میں لائق اور روشن ضمیر بنتے گئے، شگفتہ کو زیادہ سر کھپانا نہیں پڑا، اپنے بچوں کے ساتھ اِن تمام خوبیوں کے باوجود وہ تھے تو بچے ہی۔ اُن کی کچھ معصوم سی آرزویں ہوتیں جو حرا پوری کر دیتی تھی۔ حالاں کہ اُسے وہ سب کچھ کرنا قطعی پسند نہیں تھا، پھر بھی وہ کر رہی تھی۔
حرا اپنی کلاس میں حجاب کرتی تھی، چہرے پر نقاب ہوتا اور پورے جسم پر برقعہ۔ بارہ مہینے پاؤں میں جوگر شوز پہنتی۔ کسی نے پوچھا ایسا کیوں۔۔۔؟ حرا بولی: میرے پیروں میں درد رہتا ہے ڈاکٹر نے سجیسٹ کیا تھا۔ کندھے پر لیدر کا ایک کالا بیگ ہوتا جو کہ اُس نے ٹاؤن شپ کی لنڈا مارکیٹ سے خریدا تھا۔
کالج پیدل جاتی، وجہ کالج اُس کے گھر کے پاس ہی تھا۔ وہ (شاہ دی کھوئی) کی مکین تھی۔ اپنی کلاس میں سب سے الگ تھلگ رہتی۔ کوئی دوست نہیں تھا، اُس کا۔ اپنی کلاس کی سب سے لائق اسٹوڈنٹ تھی۔ کالج میں فارغ وقت جناح ہسپتال اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کے اوول گراؤنڈ کے درمیان واقع کینٹین جو کہ شاہین مال کے نام سے مشہور تھی، وہاں پائی جاتی مگر اکیلی۔
ہاتھ میں کتاب ہوتی کبھی کبھار کینٹین سے چائے پی لیتی۔ اکثر اپنی نظریں کتاب پر جمائے رکھتی اِرد گرد سے بے نیاز۔ کالج کے پہلے سال اُس کے کلاس فیلوز نے اُس سے دوستی کی کوشش کی تھی، اب چار سال بعد سب کو اُس کی عادت کا اندازہ ہو گیا تھا۔
اب اُس کے کلاس فیلوز جانتے تھے کہ اگر وہ حرا کے پاس بیٹھے تو وہ اُٹھ کر چلی جائے گی۔ سوائے ایک کے اور وہ میں تھا۔ حرا اکثر شاہین مال سے اوول گراؤنڈ کی طرف جاتی ہوئی، دو راہداریوں میں سے ایک میں بیٹھی ہوتی۔ جہاں پر وہ بہت ساری نظروں سے محفوظ رہتی کیوں کہ وہ جگہ دو عمارتوں کے درمیان تھی۔ اوول گراؤنڈ کا ڈریسنگ روم اور شاہین مال کی مارکیٹ کی عمارتوں کی پشتیں آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ اُن کے درمیان سے اسٹیڈیم کی طرف دو راستے نکلتے جن میں سے کوئی ایک حراکا ٹھکانہ ہوتا تھا۔
حرا باجی۔۔۔! برگر بہت مزیدار ہے۔‘‘ حیا نے برگر کھاتے ہوئے حرا کو مخاطب کیا۔
’’میرا سینڈوچ زیادہ اچھا ہے۔‘‘ جویریہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔
نہیں جی۔۔! میرا تیمے والا سموسہ سب سے زیادہ تیستی ہے۔‘‘ جاسم نے توتلی زبان میں فیصلہ سنایا۔
حرا کے بہن بھائی رات کو کھانے کی بجائے اُس کی لائی ہوئی چیزوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔
اب تم سب دانت صاف کرو اور اپنے اپنے بستروں میں گھس جاؤ۔‘‘ حرا اپنی کتاب پر نظریں جمائے ہی کہہ رہی تھی۔
حرا کے تینوں بہن بھائی سو چکے تھے۔ رات کے دوسرے پہر شگفتہ بانو کی آنکھ کھلی تو حرا پڑھ رہی تھی۔
تمھیں نیند کیوں نہیں آتی…؟ پہلے اپنے کالج جاتی ہو۔۔۔ پھر پتا نہیں کہاں کہاں پڑھانے جاتی ہو۔۔۔ پھر ٹیوشن والے بچے آجاتے ہیں۔ اُس کے بعد اپنی موٹی موٹی کتابیں لے کر بیٹھ جاتی ہو۔۔۔ سو جاؤ حرا بیٹی سو جاؤ۔۔۔!‘‘
امی جی۔۔۔! خواب نیندیں اُڑا دیتے ہیں، خواب سو کر پورے نہیں ہوتے اور میرا خواب اِ س ملک کی بڑی ہارٹ سرجن بننا ہے۔
تیری ساری باتیں ٹھیک ہیں سوائے ایک کے، بیٹی۔۔۔! یہ کام چھوڑ دے جو تو کرتی ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔
شگفتہ نے پھر حرا کو سمجھایا تھا، اُس کی ’’تو‘‘ میں بہت کچھ چھپا ہوا تھا۔
تو کیا ۔۔۔۔ ! بتائیں؟‘‘ حرا تیکھے انداز میں بولی دھیمی آواز کے ساتھ۔
ہر بات سوال نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر بات کا جواب ہوتا ہے۔ بس یہ جان لو، اس معاشرے میں بد سے بدنام بُرا ہے۔
امی جی۔۔۔! میں میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہوں۔ آپ میرے ساتھ معرفت کی باتیں شروع کر دیتی ہیں۔
جسے معرفت مل جائے وہ معروف ہو جاتا ہے۔
شگفتہ بانو نے اپنا لحاف ہٹایا اور وضو کرنے چلی گئی۔ جب وہ وضو کر کے واپس لوٹی حرا جواب سوچ کر تیار بیٹھی تھی۔ فوراً بولی
امی جی۔۔۔! ایسی مشہوری کا کیا کرنا جس سے مشکلیں اور غم ہی دور نہ ہوں۔‘‘
غم سے جنم ہے۔۔۔! اور جنم سے غم۔۔۔!‘‘ شگفتہ بانو نے یہ کہا اور تہجد کے لیے اپنا مصلیٰ بچھایا اور اپنے مالک کے حضور کھڑی ہو گئی۔ شگفتہ نے سلام پھیرا ہی تھا کہ حرا فوراً بول پڑی
امی جی۔۔۔! دُعا کریں آج میرا آخری پیپر ہے۔ اُس کے بعد ہاؤس جاب۔ بس سال ڈیڑھ سال کی بات ہے، پھر ان شاء اللہ سرکل چل جائے گا۔ میں آگے پڑھوں گی بھی اور جاب بھی کروں گی۔
حرا کا آخری پیپر بھی بہت شان دار ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر میں وہاں ہوتا تو ایسا کبھی نہ ہونے دیتا۔ میں پیپر دے کر وہاں سے نکل گیا تھا۔
حرا پیپر سے فارغ ہونے کے بعد حسبِ معمول کینٹین میں بیٹھی ہوئی تھی۔ جب عروج داؤد وہاں پہنچی۔ عروج داؤد ہماری کلاس کی دوسری لائق اسٹوڈنٹ تھی۔
اُس کی ہزار کوشش کے باوجود وہ حرا کو ہرا نہیں سکی۔ عروج داؤد کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی۔ عروج اور جواد جا کر حرا کے پاس بیٹھے ہی تھے۔ّ
حرا نے اپنے شولڈر بیگ میں اپنا سامان ڈالا اور وہاں سے اٹھ گئی۔
’’حرا رُکو۔۔۔!عروج داؤد غیض و غضب سے چلاّئی۔ حرا رُک گئی۔
عروج لپکی حرا کی طرف اور اس کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔
میرا موبائل کہاں ہے۔۔۔؟‘‘ عروج نے ٹٹولتی نظروں سے صدا لگائی۔
کون سا موبائل۔۔۔؟ حرا دھیمی آواز میں بولی۔
وہ جو تمھارے بیگ میں ہے۔ دیکھو حرا۔۔۔! میرا ٹمپر ہائی مت کرو۔ شرافت سے میرا موبائل نکال دو۔
عروج کے لہجے میں کڑواہٹ تھی۔
عروج۔۔۔! تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرے پاس تمھارا موبائل نہیں ہے۔ حرا نے سمجھانے کی کوشش کی۔
غلط فہمی کیسی۔۔۔؟ میں گاڑی میں بیٹھی تھی، گھر جانے کے لیے۔ جواد نے کہا چلو کینٹین سے چائے پیتے ہیں۔
میں نے ٹیبل پر موبائل رکھا ہی تھا کہ تم نے اُٹھا کر اپنے بیگ میں ڈال لیا۔
عروج کی گھن گرج سے ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ جن میں علامہ اقبال میڈیکل کالج کے کافی سارے اسٹوڈنٹس بھی تھے، اس کے علاوہ مارکیٹ کے افراد بھی شامل تھے۔
’’یہ جھوٹ ہے۔۔۔!‘‘ حرا نے مختصر سا جواب ہے۔
اچھا جی۔۔۔! چوری تم کرو اور جھوٹی میں۔ عروج نے طنز سے کہا۔
دیکھو عروج۔۔۔! میں تمھیں جھوٹا نہیں کہہ رہی، میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ میں نے تمھارا موبائل نہیں اٹھایا۔ حرا نے پھر سے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
میں گواہی دیتا ہوں، عروج کی نظریں کبھی دھوکا نہیں کھا سکتیں۔ جواد نے بات کو ہوا دی۔
جواد اور جواز میں فرق رہنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دلیل اور ذلیل میں، تم لوگ بغیر دلیل کے مجھے ذلیل کر رہے ہو اور جہاں تک دھوکے کی بات ہے، عروج ہی دھوکہ دیتی ہے حرا نہیں۔
ڈاکٹر حرا ! ڈاکٹروں والی باتیں کرو اور شیکسپئر کو کم پڑھا کرو۔ ڈرامہ چھوڑو اور موبائل واپس کر دو۔ اس بار نیلم بولی۔
تم لوگوں کو شرم آنی چاہیے، مجھ پر الزام لگاتے ہوئے، چار سال سے ہم اکٹھے پڑھ رہے ہیں۔ میں نے کبھی کسی سے بال پین تک نہیں مانگا اور تم سب چوری کا الزام لگا رہے ہو مجھ پر، ہٹو آگے سے!‘‘ اِس بار حرا کی آواز میں قدرے ناراضی تھی۔
تو تم اپنے بیگ کی تلاشی دے دو۔ جواد نے قدرے غصے سے کہا۔
میں اپنے بیگ کی تلاشی نہیں دوں گی۔ حرا نے دو ٹوک کہہ دیا۔
چور کی داڑھی میں تنکا۔ نیلم نے پھر سے کہا جو کہ عروج کی بیسٹ فرینڈ تھی۔
اگر میں چور نہ ہوئی تو ۔۔۔ بولو ڈاکٹر نیلم۔۔۔! پھر تم تینوں کو مجھ پر جھوٹا الزام لگانے کی کیا سزا ملنی چاہیے؟‘‘ حرا نے نیلم کو کھری کھری سنائیں۔
تم ثابت کر دو کہ تم چور نہیں ہو۔ جواد نے پھر سے عروج کی نظروں میں ہیرو بننے کی کوشش کی۔
کافی دیر بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ حرا اپنے بیگ کی تلاشی دینے کو تیار نہیں تھی۔ شریف چاچا سموسے والا بولا
حرا بیٹی۔۔۔! میں بھی یہی کہوں گا تم اپنے بیگ کی تلاشی دے دو۔ شریف چاچا سموسے والا جس کی سب مارکیٹ والے عزت کرتے تھے اور سارے طالب علم بھی۔
وجہ یہ تھی کہ وہ اس مارکیٹ کا سب سے پُرانا اور بزرگ آدمی تھا۔
حرا نے اپنا بیگ ہارے ہوئے سپاہی کی طرح کندھے سے اُتار کر لوہے کی میز پر رکھ دیا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے ہاری ہوئی فوج کے سپاہی اپنے ہتھیار دشمن کے سامنے ڈال دیتے ہیں۔
نیلم نے جلدی سے حرا کے بیگ کی زیپ کھولی اور اُسے ٹیبل پر اُلٹ دیا۔ لوہے کی میز پر ایک , چند بال پین، ایک پینسل، ریزر، اسکیل، ایک کوری کاپی اور ایک کالا شاپر بیگ پڑا ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر ثاقب میرے دوست نے اُسی وقت مجھے موبائل پر اطلاع دی۔ میں نے بائیک واپس موڑ دی تھی کالج کی طرف۔
دیکھا نا۔۔۔! موبائل اِسی شاپر بیگ میں ہے۔ عروج داؤد نے فاتحانہ انداز میں کہا تھا۔
چاچا شریف نے وہ شاپر بیگ کھولا۔ جس کے اندر کاپی کے کورے کاغذوں میں لپٹے ہوئے تین پیکٹ تھے، سب کی نظریں اُن تین پیکٹوں پر جمی ہوئی تھیں۔
چاچا شریف کے بوڑھے لرزتے ہوئے ہاتھوں نے پہلا کاپی کا کاغذ کھولا تو اُس میں اُس کے ہاتھ کے بنے ہوئے ڈھائی سموسے تھے۔ دوسرے کاغذ میں ڈیڑھ برگر اور تیسرے میں دو سینڈوچ تھے۔ حرا کی گھنٹہ بھر کی محنت رسوا ہو گئی۔
یہ سب کچھ اُس نے مختلف میزوں سے اکٹھا کیا تھا، اپنے بہن بھائیوں کے لیے جو اُس کے کالج کے ساتھی بچا کر گئے تھے۔ وہ چپکے سے اُنھیں اپنے بیگ میں ڈال لیتی تھی۔ ایسا کرتے ہوئے کئی بار میں نے بھی حرا کو دیکھا تھا مگر میں خاموش رہا تھا۔ اسی کام سے حرا کی ماں بھی اُسے منع کرتی رہتی تھی۔
سارا ہجوم اندر کی کہانی سمجھ گیا تھا۔ کُھسر پھسر شروع ہو گئی۔ ایک دوسرے کے کانوں میں کچھ چہروں پر حیرت تھی اور کچھ کتابی چہرے مسکرا رہے تھے۔ چاچا شریف نے وہ سارا مالِ غنیمت آہستہ آہستہ حرا کے بیگ میں واپس ڈالا۔
چاچا شریف کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ حرا نظریں جھکائے کھڑی تھی، بالکل ایک مجسمے کی طرح۔
میں قسم کھا کر کہتی ہوں، موبائل اِس نے برقعے کے اندر چھپایا ہے۔ عروج داؤد کو ہار منظور نہیں تھی۔ وہ اس بار ہر حال میں حرا کو ہرانا چاہتی تھی۔
حرا  نے برف کی طرح سرد آنکھیں اٹھائیں اور عروج کی آنکھوں میں دہکتے ہوئے انگاروں کو دیکھا۔ انگاروں کی حدت سے حرا کی آنکھوں میں جمی برف اشکوں کی صورت میں ٹپکنا شروع ہو گئی۔
حرا اپنی ماں کا ترکی برقعہ پہنے ہوئے تھی۔ برقعہ کی ساتھی رومالی پھٹ جانے کی وجہ سے وہ اس کی جگہ اسکارف (اسٹالر) استعمال کرتی تھی۔ اسکارف اُس کے چہرے اور سر پر ہوتا، صرف حرا کی آنکھیں نظر آتیں۔ کالی سیاہ آنکھیں جو آنسوؤں سے بھیگ چکی تھیں۔
حرا نے آہستہ آہستہ چپ چاپ اپنے ترکی برقعہ کے موٹے موٹے بٹن کھولنا شروع کیے۔ حرا کے جسم سے کالے برقعے کا پردہ اٹھ چکا تھا۔ کالے پردے کے نیچے حرا ایک گرم سوٹ پہنے ہوئے تھی جس کے اوپر دو پیوند لگے ہوئے تھے۔ سویٹر اور جرسی کی مہربانی سے کچھ غربت کے نشان ننگا ہونے سے بچ گئے تھے۔(پردہ عزت بھی چھپاتا ہے اور غربت بھی)۔
حرا کا پردہ اُترنے سے اس کی دونوں چیزیں ننگی ہو گئیں۔ حرا اپنے پیروں پر گھومی، چکی کے پاٹوں کی طرح اسی جگہ گردن جھکائے ہوئے۔ کچھ آنکھوں میں نمی تھی، کچھ ہونٹوں پر زیرِلب مسکراہٹ ابھری۔ حرا اس مجلس کی میرِ مجلس جو ٹھہری تھی۔ اُس کے کپڑے اُس کی غربت چھپانے میں ناکام ہو چکے تھے۔ صرف اسکارف کو کامیابی ملی کیوں کہ چہرے پر نقاب ابھی بھی باقی تھا۔
حرا  نے اپنے دائیں ہاتھ سے اپنی بائیں کنپٹی کے پاس لگی ہوئی پین کو چُھوا ہی تھا، اپنے چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے اُسی لمحے چاچا شریف چیخا زور سے۔۔۔
نا۔۔۔ نا۔۔۔ میری بچی۔۔۔! ایسا مت کرو۔۔۔ دفع ہو جاؤ تم سب یہاں سے۔۔۔ بے حیاؤ دفع ہو جاؤ۔۔۔!
اُسی لمحے میں نے اپنی موٹرسائیکل عروج داؤد کی گاڑی کے ساتھ کھڑی کی۔ میں نے دیکھا چابی اسٹیرنگ کے نیچے لٹک رہی تھی اور عروج کا موبائل ساتھ والی سیٹ پر پڑا ہوا تھا۔
جس وقت جواد نے عروج کو چائے کے لیے کہا، وہ جلدی سے گاڑی سے اُتری اور جواد کے ساتھ چل دی۔ عروج جواد میں بہت زیادہ انٹرسٹ لیتی تھی۔
عروج۔۔۔! تمھارا موبائل۔۔۔!‘‘ میں بھاگتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔ اُس وقت سب لوگ نظرین جھکائے مڑ رہے تھے۔ سب نے حیرت سے میرے ہاتھ کی طرف دیکھا جس میں موبائل تھا۔
یہ سارا تماشا عروج نے لگایا ہے۔‘‘ ثاقب نے مجھے بتایا۔ میں نے قہر آلود نگاہوں سے عروج کی طرف دیکھا۔ چند آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں۔
’’چاچا شریف ہمیں کیوں ڈانٹ رہے ہیں۔‘‘
’’سارا قصور عروج کا ہے۔‘‘
’’حرا اتنی غریب ہے۔۔۔؟‘‘
’’اُس نے کبھی اپنی غربت کا ذکر تو نہیں کیا۔‘‘
’’میں تو سمجھتی تھی کسی کھاتے پیتے گھر سے ہو گی۔‘‘
’’پر ہے تو سب سے لائق۔‘‘
’’اب سمجھ آئی، وہ الگ الگ کیوں رہتی تھی۔‘‘
’’کیسے کیسوں کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل جاتا ہے۔‘‘ نیلم نے حقارت سے آخری جملہ بولا تھا۔
میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔۔۔ تم جیسی کردار کی گندی لڑکیوں کو تو بالکل نہیں ملنا چاہیے۔‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’توقیر۔۔۔! اپنی حد میں رہو۔۔۔! اپنی حیثیت دیکھ کر بات کیا کرو۔‘‘ جواد نے مجھے دھمکی دی تھی۔
تمھاری اور عروج کی اسٹوری سناؤں۔۔۔؟ اور نیلم تمھاری ہسٹری سے بھی میں اچھی طرح واقف ہوں۔ یہ لو اپنا موبائل۔۔۔!‘‘ میں نے عروج کے ہاتھ پر موبائل پٹخ دیا۔
اُن تینوں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی۔ چاچا شریف نے حرا کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُس کا برقع کرسی کی ٹیک سے اُٹھا کر اُسے تھما دیا اور خود اپنے آنسو صاف کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ حرا نے اپنا برقعہ پہنا اور خاموشی سے نظریں جھکا کر وہاں سے چلی گئی۔
میرا اور حرا کا رشتہ بھی عجیب تھا۔ اُس نے کبھی مجھے آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور میری ہمت نہیں ہوئی کہ اُس کو آنکھ بھر کر دیکھ لوں۔ اِ س کے باوجود ہم کبھی کبھی اکٹھے چائے پی لیتے تھے۔ حرا میری کلاس فیلو تھی اور مجھ سے بہت لائق تھی۔ محمد نوید شاہ کی حرا نوید شاہ میری زندگی میں نوید بن کر آئی اور میری توقیر میں اضافہ کیا۔
آج وہ حرا توقیر شاہ کے نام سے جانی جاتی ہے جو کہ پاکستان کی مشہور ہارٹ سرجن ہے۔ وہ آج بھی حجاب کرتی ہے۔ حرا مجھ سے اکثر کہتی ہے
’’ڈاکٹر صاحب۔۔۔! عورت کا پردہ اُس کی عزت بھی بڑھاتا ہے اور اُس کی غربت بھی چھپاتا ہے۔‘‘
حرا نے اپنے سارے کلاس فیلوز کو معاف کر دیا تھا مگر وہ اُن میں سے کسی کو نہیں ملتی۔
حرا کی زندگی کی کتاب میں، وہ دن بک مارک ہے، زندگی کے پنّے تو آگے بڑھتے رہے۔ بُک مارک وہیں ہے۔ کسی کی عزت کا حجاب کبھی نہیں اُتارنا چاہیے۔ نہیں تو زندگی آگے بڑھ جاتی ہے بُک مارک وہیں رہتا ہے بالکل حرا کی طرح۔ حرا اُس دن کو بھول نہیں سکی آج تک۔
آج آٹھ سال بعد حرا نے اپنے سارے خواب پورے کر لیے۔ اُس نے اپنا آبائی گھر نئے سرے سے تعمیر کروایا۔ اس سال میں اور حرا اس کی امی کو حج پر لے کر گئے تھے۔ اس کے بہن بھائی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حرا اب بڑی پُرسکون نیند سوتی ہے۔ ایک پرسنل بات بتاتا ہوں۔
ہو سکتا ہے آپ کو یقین نہ آئے، میں نے حرا کا چہرہ پہلی بار اپنی شادی والی رات کو دیکھا تھا۔ اُسی لمحے پہلی دفعہ حرا نے مجھ سے نظریں ملائیں۔

٭…٭…٭

Previous article
Next article

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles