31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

کباڑیا

کباڑیا

گھنٹی کی آواز  نے فضا میں ارتعاش پیدا کیا تھا۔ ایسے میں طلبا قطاروں میں اپنے کمروں میں جاتے دکھائی دیتے تھے۔ اُسے آج پھر دیر ہو گئی تھی۔ کندھے پہ گرد آلود بستہ لٹکائے جب وہ کلاس میں داخل ہوا تو حاضری مکمل ہو چکی تھی۔
آپ سب کا پنجم جماعت میں پہلا دن ہے۔ چلیے سب کے تعارف سے شروعات کرتے ہیں۔
اُستاد صاحب خوشگوار موڈ میں دکھائی دیتے تھے۔
’’میرا نام عارف ہے۔ میرے والد امام مسجد ہیں۔
آگے کی نشست پہ بیٹھا وہ لڑکا اَب دیگر تفصیلات بتانے لگا۔
لڑکے اُٹھتے جاتے اور اَپنا تعارف کرواتے۔ ایسے میں وہ اس منظر سے بیزار دکھائی دیتا تھا۔
میرا نام طاہر سلطان ہے۔ میں نے درجہ ٔچہارم میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔
وہ کچھ سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔
اور آپ کے والد کیا کرتے ہیں؟ اُستاد صاحب نے پوچھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا۔ فضا میں دھند سی چھانے لگی اور اس کے سامنے کا منظر بدلنے لگا۔

٭٭٭

ابا تو یہ کام چھوڑ کیوں نہیں دیتا؟ وہ چہرے پر ڈھیروں بیزاری سجائے آج پھر وہی بات دہرا رہا تھا۔ سلطان احمد مسکرایا۔
کیسے چھوڑ دوں پتر؟ یہ ہمارا جدی پشتی کام ہے۔ اس کی مسکراہٹ ہنوز قائم تھی۔
مجھے شرم آتی ہے کسی کو بتاتے ہوئے کہ میرا ابا…۔ وہ وہیں رُک گیا تھا۔
یہی کہ میرا اَبا کباڑیے کا کام کرتا ہے؟
مسکراہٹ ابھی بھی لبوں سے چپکی تھی۔ پتر میں کباڑیا، میرا ابا کباڑیا، میرا دادا کباڑیا۔ اسی کام سے ہماری روزی چلتی ہے۔
لیکن یہ کیا کام ہوا ابا؟ ہر وقت اس غلاظت کے گرد رہو۔ وہ اب اپنے باپ کے بازوؤں کو دیکھ رَہا تھا، جس نے اپنی آستینوں کو کہنیوں تک چڑھا رکھا تھا اور اَب وہ کباڑ میں سے پلاسٹک کی بوتلیں نکال کر علیحدہ کر رہا تھا۔
یہ کام ہمیں روزی روٹی دیتا ہے۔ یہیں سے پیسے آتے ہیں۔ تُو تو اسکول جاتا ہے۔‘‘ سلطان احمد اب اُسے پیار سے سمجھا رہا تھا۔ ابا کی نصیحتوں کو نظر انداز کر کے وہ اَب کسی اور سوچ میں نظر آتا تھا۔
ابا تو جانتا ہے تجھے اماں کیوں چھوڑ کے چلی گئی؟‘‘ سلطان احمد کی مسکراہٹ ایک جھٹکے سے غائب ہوئی۔

٭٭٭

آسمان پر بادل اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ ایسے میں صحن میں دو چارپائیاں بچھی تھیں۔ اُس کی آنکھیں چاند پر جمی تھیں اَور ذہن ماضی کی خاک چھان رہا تھا۔
اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے کبھی اماں ابا کو خوش دیکھا ہو۔ وہ پانچ سال کا تھا جب اماں اسے لے کر چلی گئی تھی اُس پختہ گھر میں، جو اس کے گھر سے بالکل مختلف تھا، لیکن وہ گھر اسے کبھی اَپنا نہیں لگا۔
وہ پہلے پہل سلیم فاروق میں اپنا باپ تلاش کرتا رہا لیکن پھر اسے اندازہ ہوا کہ سونے کا کاروبار کرنے والا وه شخص اس کا باپ نہیں تھا۔ وہ صرف اس کی ماں کا نیا شوہر تھا۔ اب وہ ماں کی سنہری چوڑیوں سے بھری کلائیاں دیکھتا تو سلطان احمد کو یاد کرتا۔
وہ دو سال اس نے دولت کی ریل پیل دیکھتے ہوئے گزارے تھے۔
پھر اماں کی ایک حادثے میں موت کے بعد وہ واپس ابا کے پاس بھیج دیا گیا۔ سات سالہ طاہر سلطان اَب اس بدبو کا عادی نہیں رہا تھا جو اس گھر کے کونے کونے سے اسے آتی تھی۔ اس نے یہاں آ کر فیصلہ کیا تھا کہ وہ بڑا ہو کر سلیم فاروق بنے گا نا کہ سلطان احمد۔

٭٭٭

ابا آج میں نے میزان شاہ کو دیکھا۔ سلطان احمد تازہ لائے گئے کباڑ کی جانچ کر رہا تھا جب وہ چپکے سے پاس آ بیٹھا۔
اچھا! کیا دیکھا؟ سلطان احمد نے سوال کیا۔
اس کی یہ لمبی گاڑی۔ وہ اَب جوش سے بتاتے ہوئے ہاتھوں سے اشارے کر رہا تھا۔
اس کے پیچھے چلتے بندوق بردار گارڈ، اس کے کلف لگے اُجلے سفید کپڑے۔ کپڑوں کا ذکر کرتے ہوئے اس  نے بے اختیار سلطان احمد کے کپڑوں پر نگاہ دوڑائی۔
اور تو نے یہ نہیں دیکھا اس نے کیا قہر ڈھایا؟
سلطان احمد کو دہائیاں دیتی وہ بیوہ یاد آئی جس کی زمین پر میزان شاہ نے قبضہ جمایا تھا۔
ابا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ دنیا کا یہی اصول ہے۔‘‘ سلطان احمد حیران ہوا۔
پتر ہم کباڑ کا کام کرتے ہیں…
کباڑیے کہلاتے ہیں لیکن کسی کا نقصان نہیں کرتے۔ انسان وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے۔ تو نے میزان شاہ کے اُجلے سفید کپڑے دیکھے ہیں، اس کے اندر چھپی کالک نہیں دیکھی؟ من پلیدی سے پاک ہونا چاہیے، تن کا کیا ہے…
سلطان احمد اور بھی کچھ بولتا جا رہا تھا مگر اس کے دماغ میں صرف ایک منظر تھا۔ لمبی گاڑی سے سفید اُجلے کپڑوں میں اُترتا طاہر سلطان۔

٭٭٭

سورج آسمان پہ پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ایسے میں پتھروں سے بنے بڑی حویلی کے اس پختہ راستے پر وہ گاڑی چلتی نظر آتی تھی۔ سفید سنگ مر مر کے بنے زینوں کے قریب وه آ کر رُکی اور اس میں سے ایک نوجوان برآمد ہوا۔ وه اَب حویلی کے اَندر تنگ راستوں سے ہوتا ہوا، اس بڑے کمرے میں داخل ہو گیا۔
طاہر سلطان!‘‘ میزان شاہ اسے دیکھتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا اَور اُسے گلے سے لگا لیا۔
اس بار تو دل جیت لیا تم نے۔‘‘ میزان شاہ خاصا خوش دکھائی دیتا تھا۔
یہ آپ کا بھروسا اور پیار ہے جس نے مجھے اس قابل بنایا سردار۔‘‘ وہ اس منظر میں پہلی بار بولا تھا۔
تم میرے بیٹے کی طرح ہو طاہر سلطان…میرے جانشین۔

٭٭٭

سفید چونے سے ڈھکے اِس مکان کے سامنے وسیع لان تھا، جہاں وہیل چیئر پر بیٹھا وہ بوڑھا شخص بےحس و حرکت دکھائی دیتا تھا۔ اس نے گاڑی گیٹ پر روکی اور چابی ملازم کے حوالے کرتے ہوئے وہ دائیں جانب لان کی طرف آ گیا۔
آ گیا میرا پتر۔ سلطان احمد کی آواز میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی۔
ہاں ابا۔ اَب کی بار کام لمبا ہو گیا تھا، بس اسی لیے دیر ہو گئی۔
تُو یہ کام چھوڑ کیوں نہیں دیتا؟ وقت نے باپ بیٹے کو کس موڑ پر لاکھڑا کیا تھا۔ آج باپ وہی بات دہرا رہا تھا، جسے کہتے کہتے طاہر سلطان کا سارا بچپن بیت گیا تھا۔
تو کیا کباڑیا بن جاؤں؟
وہی غلاظت اُٹھاتا پھروں جسے اُٹھاتے آپ کی عمر گزر گئی؟ وہ یہ سوال سن کے بھڑک اُٹھا تھا۔ جس کا جواب اس کا باپ ہر بار شفقت سے دیا کرتا تھا۔
پتر غلاظت اُٹھانا اس آگ سے بہت بہتر ہے جسے تو جمع کر رہا ہے۔ سلطان احمد کے لہجے کی نرمی آج بھی قائم تھی۔
میں نے تیرا نام طاہر رکھا تھا… پاک۔ آہ! تو نے خود کو آلودہ کر لیا۔‘‘ اَب کی بار اس کے لہجے میں افسوس تھا۔
’’تمہارا نام بھی تو سلطان ہے نا اَبا۔ تم کہاں کے سلطان ٹھہرے؟‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا۔
جو اَپنی ’مَیں‘ کو، اپنے ’نفس‘ کو مار لیتا ہے، اپنی خواہش پر قابو پا نا سیکھ جاتا ہے، وہی اصل سلطان ہے۔
بہتر یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اپنے حال پہ چھوڑ دیں۔ وہ اُکتائے ہوئے انداز میں کہتا گھر کے اندر بڑھ گیا۔ بیس سال بعد بھی ان میں سے کوئی دوسرے کو قائل نہیں کر پایا تھا۔

٭٭٭

سڑک پر ٹریفک رواں دَواں تھی۔ ایسے میں وه بوڑھا شخص لکڑی کی سوکھی لاٹھی پکڑے اپنی دھن میں کہیں جاتا دکھائی دیتا تھا۔
کیوں اس کباڑ کو اکٹھا کرتے ہو؟ کیوں اس آگ سے کھیلتے ہو؟
وہ بوڑھا ایک طرف کھڑے آپس میں رقم تقسیم کرتے دو لڑکوں پربرس پڑا تھا۔
کون ہے یہ؟‘‘ ان میں سے ایک لڑکا حیرانی سے بولا تھا۔
پاگل دکھائی دیتا ہے بیچارہ۔ دوسرا لڑکا اسے اَب بے نیازی سے آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر کہہ رہا تھا۔ اگلا چوک پار کر کے اب وہ بوڑھا سڑک کے مصروف ترین حصے میں آ گیا تھا۔
سامنے سے آتی عورت نے ہاتھ میں موجود لفافے میں سے پھل نکال کر اس کی طرف بڑھایا تھا۔ ساتھ میں شاید دس کا نوٹ بھی تھا۔ اس نے پھل کو بائیں ہاتھ میں تھامتے ہوئے نوٹ زمین پہ پھینک دیا۔
کباڑ کباڑ، آگ آگ۔
وہ بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھتا جاتا تھا۔ پھل کھاتے ہوئے وہ اَچانک دائیں جانب مڑا اور پیچھے سے آتے ٹرک سے بری طرح ٹکرایا تھا۔ زمین پر پڑے خون میں لت پت اُس وجود کے گرد مجمع اِکٹھا ہونے لگا تھا۔
ترس کھاتے، ویڈیو بناتے، استغفار کرتے ہجوم میں ایک شخص اپنی چھوٹی چھوٹی نظریں بوڑھے وجود پر ڈالے ہوئے تھا۔ پھر اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔
پندرہ سولہ برس پرانا اَخبار کا تراشہ جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا۔
علاقہ غیر کے دہشت گردوں کے ساتھ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث طاہر سلطان اور دیگر ساتھی گرفتار۔
اپنی آخری سانسیں لیتا وہ بوڑھا وجود دھیرے دھیرے بڑبڑا رہا تھا۔
میں کباڑیا، میں کباڑیا۔

٭٭٭

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles