32 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

ؒحضرت داتا گنج بخش

امام الاولیاء ، سلطان المشائخ حضرت ابولحسن علی بن عثمان ہجویری
  المعروف  حضرت داتا گنج بخش


محمود میاں نجمی

       سلطنت غزنویہ کے پہلے حکمران سلطان محمود غزنوی کی عظیم الشان سلطنت شمال مغربی ایران سے  لے کر برصغیر میں پنجاب تک اور ماوراء نہر میں خوارزم اور مکران تک پھیلی ہوئی تھی۔ سلطنت کا دارالحکومت
غزنی اسلامی دنیا کا اہم تجارتی، ثقافتی، علمی ،فکری اور معاشی حب تھا۔
سلطان محمود عظیم فوجی جرنیل کے علاؤہ راسخ العقیدہ مسلمان اور علم و ادب ،عدل و انصاف کے بڑے علمبردار تھے۔
انھوں  نے دنیا بھر سے علماء و مشائخ کو غزنی میں جمع کرلیا تھا ۔ 400ھجری ، 9نومبر 1009 عیسوی کو حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ غزنی کے ایک گاؤں*ہجویر* میں پیدا ہوئے۔

والدین  نے “علی” نام رکھا۔ بچپن میں اپنے ماموں حضرت تاج الاولیا اور والد سید عثمان سے دینی تعلیم حاصل کی۔
بہت چھوٹی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا، لیکن پھر والد کا انتقال ہو گیا۔
چنانچہ ذرا بڑے ہوئے تو ماموں کے مشورے پر مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی کے ہاتھ پر بیعت کی۔
گزرتے وقت کے ساتھ علم کی طلب بڑھتی رھی۔ چنانچہ غزنی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد “غزنی” کو خیر آباد کہا اور چالیس سال تک ملکوں ملکوں خاک چھانتے رہے۔
اولیاء اللہ و مشائخ کی صحبت میں علم و تصوف سمیت مختلف قسم کے جدید علوم کے اسرار و رموز سے فیض یاب ہونے اور علم و عمل کے بیش بہا موتی اپنے قلوب میں جمع کرنے کے بعد واپس اپنے شہر” غزنی” تشریف لائے ہی تھے کہ ایک دن مرشد نے طلب فرمایا

سید علی، اب غزنی کو تمہاری ضرورت نہیں ہے، چنانچہ ہندوستان کے شہر” لاہور” ہجرت کر جاؤ اور اپنے علوم سے اہل ہندوستان کو فیض پہنچاؤ
مرشد کا حکم سر آنکھوں پر، آپ  نے  اپنے آبائ شہر” غرنی” کو خیر آباد کہہ کر ” لاہور” جانے کی تیاری شروع کر دی ۔
431 ہجری ، 1039عیسوی کی ایک خوش گوار صبح اپنے دو قریبی ساتھیوں  حضرت ابوسعید غزنوی اور حضرت احمد سرخسی کے ہمراہ “لاہور” روانہ ہوئے۔
اجنبی شہر کے دشوار گزار راستوں کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ایک حسین شام  لاہور شہر  پہنچے۔

دن بھر کا تھکا ہارا سورج مغرب سے ابھرتے رات کے اندھیروں میں گم ہو چکا تھا ۔ اہل لاہور بھی سونے کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ شہر لاہور  کے تمام دروازے بند ہو چکے تھے ۔
تھکن سے چور سید علی نے رات قیام کے لیے چاروں جانب نظریں دوڑائیں تو سامنے ایک ٹیلہ نظر آیا۔
اس پر چڑھے تو برابر میں بہتے دریائے راوی کے صاف شفاف پانی  کی پرجوش موجیں اپنے اجنبی مہمانوں کو مسکراتے ہوئے  خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ چنانچہ یہاں قیام کا فیصلہ فرمایا۔

صبح دروازہ کھلنے پر شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ سامنے سے ایک جنازہ آ رہا ہے۔ اہل جنازہ سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ قطب الاقطاب حضرت سید میراں حسین زنجانی رحمتہ اللہ علیہ کا جنازہ ہے۔
اب آپ کو سمجھ آئی کہ مرشد  نے کیوں لاہور ہجرت کا حکم فرمایا تھا۔
لوگوں کے اصرار پر ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور انھیں چاہ میراں میں سپرد خاک کیا گیا۔
لاہور میں حضرت داتا گنج بخش کا مستقل قیام اسی ٹیلے پر رہا جہاں آپ نے پہلی رات بسر کی تھی۔

زنذہ دلان لاہور  نے شہر کی تمام خوبصورت جگہیں آپ کے قدموں پر نچھاور کر دی تھیں، لیکن آپ کا فرمانا تھا کہ مجھے اس جگہ سے محبت ہے جس نے اجنبی شہر میں  مجھ  پردیسی کو پہلی رات  اپنی گود میں پناہ دی تھی۔
یہاں قیام کے فوراً بعد  آپ  نے سب سے پہلے ایک مسجد اور مدرسہ قائم کیا۔ جبکہ غریب غربا اور مساکین  کے لیے ایک لنگر خانے کا اہتمام بھی کیا جو آج تک  نہایت زور و شور سے جاری و ساری ھے۔
حضرت داتا گنج بخش کی رحلت کو 950 سال گزر چکے لیکن آج بھی  آپ کا مزار فائض الانوار مرجع خاص و عام ہے،  جہاں سخی و گدا ،
فقیر و بادشاہ ،
صوفیاء و اولیاء،
مجبور و بےکس،
مفلس و لاچار  ہر روز ہزاروں کی تعداد میں حاضر ہو کر آپ کے فیوض و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

حضرت داتا گنج بخش جس زمانے میں لاہور تشریف لائے۔
اس وقت لاہور کا کرتا دھرتا  ایک ہندو جادوگر رائے راجو نام کا ظالم وجابر شخص تھا۔ جس نے اپنے جادو کے زور پر اہلیان لاہور کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا تھا۔
ایک دن داتا صاحب اپنی خانقاہ کے باہر کھڑے تھے کہ سامنے سے ایک عورت دودھ لے کر گزری۔ دودھ کا مٹکا دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ یہ دودھ میرے ہاتھ فروخت کر دو۔
وہ بولی یہ دودھ رائے راجو کے لیے ہے۔ اگر اس تک نہ پہنچا تو ہمارے جانور دودھ کی جگہ خون دینے لگ جاتے ہیں۔

آپ نے فرمایا، تم دودھ مجھے دے دو، پھر قدرت کا تماشا دیکھو۔
عورت نے دودھ آپ کو فروخت کر دیا۔
آپ نے تھوڑا سا پیا باقی دریا میں بہا دیا۔ شام کو عورت نے دودھ دوہا تو حیران رہ گئ۔ جانوروں نے روزانہ سے دگنا دودھ دیا تھا۔
داتا صاحب کی اس کرامت کا علم عام لوگوں کو بھی ہو گیا۔ لوگ جوق در جوق دودھ  لے کر حاضر ہونے لگے۔ آپ چند گھونٹ پینے کے بعد باقی سب دریا میں بہا دیتے۔
یوں ایک وقت وہ آیا کہ رائے راجو کو دودھ دینے والا کوئی نہ تھا۔

ایک روز وہ اپنے چیلوں کے ساتھ  نہایت غصے کی حالت میں حضرت داتا صاحب سے دو دو ہاتھ کرنے  کی غرض سے ان کی خانقاہ میں داخل ہوا۔
آپ نفل ادا فرما رہے تھے۔ راۓ راجو کی نظر جیسے  ہی آپ کے چہرے پر پڑی تو  وہ کانپ اٹھا اور اس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
داتا صاحب نے سلام پھیر کر فرمایا، تو کس مقصد سے آیا ہے؟
بولا،  آپ کی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں۔
آپ نے فرمایا، میری کرامت ہی نے تو تجھے یہاں آنے پر مجبور کیا ھے۔
اب تو اپنا کوئی شعبدہ دکھا۔

رائے راجو نے اپنا سب سے خاص شعبدہ دکھانے کے لیے ہرن کی کھال بچھائی
اور اس پر بیٹھ کر ہوا میں اڑنے لگا۔ آپ نے اپنا جوتا ہوا میں اچھالا، جوتا راۓ راجو کے سر پر برسنے لگا، یہاں تک کہ اسے زمین پر گرا دیا۔
راجو  نے جب اپنے سب سے اھم شعبدے کا یہ حشر دیکھا تو سہم گیا اور حضرت داتا گنج بخش کے قدموں میں گر پڑا۔ پھر معافی مانگ کر مشرف بہ اسلام ہوا
اور اپنے آپ کو خانقاہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ۔
حضرت داتا گنج بخش نےاس کا نام “شیخ ہندی ” رکھا۔
شیخ ہندی ، حضرت داتا گنج بخش کے مرید خاص کے مرتبہ پر فائز ہوئے شیخ ہندی کی اولاد ہی آج تک حضرت داتا گنج بخش کے مزار مبارک کی مجاور چلی آرہی ہے۔

حضرت داتا گنج بخش کے ہاتھوں ہزاروں کافر مسلمان اور ہزاروں گمراہ راہ راست پر آئے۔
آپ کی پرنور روحانی شخصیت، سحر انگیز وعظ و نصیحت اور جہد مسلسل  نے کفر و شرک کے کافرانہ ماحول میں رشد و ہدایت  کی وہ شمع روشن کی جس کی کرنوں  نے  دور دراز تک کے علاقوں کو منور کر دیا۔
لوگ جوق در جوق آپ کے آستانے پر آ کر اپنے من کا میل دھو کر مشرف بہ اسلام ہونے لگے۔
داتا کی نگری کے رہائشی ذندہ دالان لاہور کا آپ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ
انھوں  نے اپنے شہر کا نام ہی” داتا نگر” رکھ لیا۔
سلطان الہند حضرت معین الدین چشتی اجمیری المعروف خواجہ غریب نواز کو جب ہندوستان کی ولایت ملی
تو آپ نے سب سے پہلے داتا دربار پر حاضری دی اور  چلہ کاٹا۔ اس موقع پر  اپنی عقیدت کا اظہار یوں کیا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا،
ناقصاں را پیرکامل کاملاں را راہنما،
حضرت داتا گنج بخش زندگی بھر شریعت پر عمل پیرا رہے۔
صوم و صلاۃ سمیت تمام احکامات قرآن و احادیث پر  سختی سے کار بند رہتے،
آپ اکثر عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے۔
آپ صوفیانہ رسم و رواج کے سخت ترین مخالف تھے۔
تمام مریدوں سے سختی سے صوم و صلوٰۃ کی پابندی کراتے تھے۔

آپ کی معرکتہ الا آرا کتاب “کشف المحجوب “تصوف کے موضوع پر فارسی کی پہلی مستند  کتاب ھے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 465ھجری میں ہوا۔
اس وقت عمر مبارکہ 65 سال تھی۔
آپ کا عرس ماہ صفر کی 19اور 20 تاریخ کو ہوتا ہے
جبکہ مزار پر غسل کی تقریب 9محرم کو ہوتی ہے
( محمود میاں نجمی کی کتاب۔ “قصص  الاولیاء” سے ایک اقتباس)

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles