23 C
Lahore
Friday, April 19, 2024

Book Store

گم شدہ سکہ

گم شدہ سکہ
(اصول اور محبت)

تحریر, جاوید ایاز خان

جاوید آپ اسی جگہ ٹہرو میں ابھی چھلنی لے کر آتا ہوں اور وہ تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چل دییے اور میں حیران و پریشان چلچلاتی دھوپ اور سنسان گلی میں کھڑا ان کو جاتا دیکھ رہا تھا۔
یہ تھے میرے پیارے بڑے ابا (دادا جان )جمعدار(نائب صوبیدار) محمد فیاض خان۔
آپ انڈین آرمی سے ریٹایرڈ تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں بے پناہ بہادری اور شجاعت کی وجہ سے ان کے سینے کے دائیں جانب بہادری کے تمغے سجے ہوتے اور بائیں جانب نشانہ بازی اور ہاکی کے تمغے چمک رہے ہوتے۔
کیو نکہ وہ ہاکی اور رائفل شوٹنگ کے کھیل میں انڈین ٓارمی کی نمائندگی کرتے رہے تھے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ۱۹۴۸ء میں پولیس قومی رضاکار کا تصور پیش کیا۔ کوٹ میں قومی رضاکار تنظیم کے سربراہ رائفل کلب کے بانی ممبر تحصیل کونسل و جرگہ ممبر اور پٹھان برادری کوٹ ادو کے صدر تھے۔
بے شمار نوجوانوں کو رائفل کلب کے ذریعہ فوج میں بھجوا چکے تھے۔ اپنے تمام بیٹوں کو ۱۹۴۷ میں جہاد کشمیر پر عملی طور پر حصہ لینے کے لیے روانہ کیا۔ جنہوں نے وہاں بے شمار بہادری اور جرات کے کارنامے انجام دیے۔ وہ علحیدہ سے تحریر کروں گا۔
آپ مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد اور پاکستان کے لیے ان کی خدمات کی وجہ سے صدر پاکستان محمد ایوب خان نے انھیں فداےؑقوم/ سالاراعظم قومی رضاکاراں کا خطاب بمعہ گولڈ میڈل دیا تھا۔
شہر کا ہر خاص و عام ان کی دل و جان سے عزت اور محبت کرتا تھا۔ مخلوق خدا کی خدمت بے لوث انجام دیتے۔ شہر کی تمام تر سیاسی سماجی دینی ثقافتی اور ترقیاتی سرگرمیوں میں نمایاں پیش پیش رہتے۔
میں ان کا سب سے لاڈلا پوتا تھا۔ بے انتہا محبت فرماتے۔ اس کی ایک خاص وجہ تھی جو انشا ٔاللہ اپنی کسی آئندہ تحریر میں بیان کروں گا۔

مصنف جاوید ایاز کی اپنے عظیم دادا کے ساتھ یادگار تصویر
مصنف جاوید ایاز کی اپنے عظیم دادا کے ساتھ یادگار تصویر

میں لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ کر شرارتی اور ضدی ہو گیا تھا اور پڑھائی سے دور بھاگتا۔ پہلے مجھے انھوں  نے مولانا عبدالجلیل صاحب کے مدرسہ میں داخل کرایا۔ مولانا بڑے مہربان اور بڑے ابا جی کی بڑی عزت کرتے تھے مگر مجھے قابو نہ کرپائے۔
جب تک بڑے ابا جی بیٹھے رہتے، میں پڑھتا رہتا۔ جوں ہی وہ جانے لگتے میں بھی دوڑ کر ان کے ساتھ ہی چلا جاتا۔ پھر پرائمری اسکول نمبر ۲ میں کوشش کی مگر بات نہ بنی۔ استادوں نے جواب دے دیا۔ اب میں سارا دن ان کے ساتھ رہتا۔ وہ بھی ہر وقت مجھے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔ْ
انھوں  نے تربیت کا انداز بدلا اور خود ہی مجھے نماز، کلمے، دعائیں اور چھوٹی ٓایات یاد کرانا شروع کر دیں جو میں بڑی جلدی سیکھ گیا۔ ان کے ساتھ فجر سے عشاء تک مسجد میں جاتا۔ ہر وقت ان کے ساتھ ساتھ رہنے سے تمام گھر والے رشک کی وجہ سے بڑے ابا کی پونچھ کہا کرتے۔
بڑی اماں (دادی جان )بڑی سخت گیر اور غصہ والی خاتون تھیں۔ پورا گھر ان سے ڈرتا تھا۔ یہاں تک کہ گھر کی بہویں اور بیٹیاں ان کا سامنا کرنے سے کتراتی تھیں سواےُ میرے۔ ان کی جھاڑ کا کوئی جواب تک نہ دیتا۔ وہ میرے ساتھ بڑے ابا کی بےجا محبت کو میرے بگاڑ کا سبب سمجھتی تھیں۔
جب بھی مجھے ان کے ساتھ دیکھتیں، تنک کر کہتیں “یہ کلیجی کا ٹکڑا کیوں ہر وقت آپ کے ساتھ چپکا رہتا ہے؟ شرارتی اور ضدی ہوتا جا رہا ہے !!! آخر یہ کب اسکول جانا اور پڑھنا شروع کرے گا ؟
وہ مجھے میرے کالے رنگ کی وجہ سے کلیجی کا ٹکڑا کہتیں مگر بڑےابا کا سینہ میرے لیے فراخ رہتا۔ وہ ہلکی آواز میں جواب دیتے، ” اللہ کی بندی تجھے نہیں پتا۔ شرارتی بچے ذہین ہوتے ہیں۔ یہ بچہ خاندان بھر میں سب سے زیادہ پڑھے گا اور اس گھر کا نام روشن کرے گا۔
بڑی آماں تلملا کر رہ جاتیں اور اپنی گول شیشوں والی عینک اُوپر اُٹھا کر کہتیں، “دیکھ لینا یہ کوئی بڑا گل کھلاے گا۔ مجھے اس کے لچھن ابھی سے ٹھیک نہیں لگتے۔
بڑے ابا  نے مجھے پہلا سبق یہ دیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، جھوٹ نہیں بولنا۔ جہاں جانا ہے بتلاا اور پوچھ کر جانا ہے۔
مغرب کی نماز کے بعد گھر سے باہر بالکل نہیں نکلنا۔ رات کو عشاء کے بعد جاگنا نہیں۔ سونے سے پہلے سونے کی دعا پڑھنی ہے۔ کھانا ہاتھ دھو اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا ہے۔ کھانے کے بعد شکر الحمد اللہ کہنا ہے۔
روزانہ گرمیوں میں اپنے ساتھ نہلاتے۔ دانت صاف کرنے کے لیے مسواک بنا کر دی اور اپنے سامنے کراتے۔ پانی ننگے سر نہیں پینا، اگر کچھ نہیں تو سر پر ہاتھ ہی رکھ لو۔
اپنی جوتی خود مرمت اور صاف کرنا سکھایا۔ مجھے ہفتہ میں ایک دفعہ بندوق کی صفائی کرنا سکھایا۔ بندوق چلانا اور نشانے بازی سکھائی۔ مجھے یہ سبق پڑھائی سے ٓاسان لگے، اس لیے ازبر ہو گئے۔ لیکن ہماری دادی اماں جن کو سب بڑی اماں کہتے تھے، یہ سمجھتی تھیں کہ میں دادا کی محبت میں بگڑتا جا رہا ہوں۔ مجھے جلد کسی اسکول میں داخل کرانا چاہیے۔
محلے والے بھی میری شرارتوں اور ضد سے نالاں رہتے۔ مجھے جتنے پیسے جیب خرچ کے لیے ملتےم میں بازاری چیزیں خرید کر کھا جاتا تھا۔ محلہ سے کوئی پھیری والا خالی نہ جاتا۔ سب گھر والوں کے خیال میں بڑے ابا کے لاڈ اور پیار کی وجہ سے ایسا تھا، جو کسی حد تک درست بھی تھا۔
یہی وجہ تھی لوگ میری روز کوئی نہ کوئی جھوٹی شکایت بڑے ابا کو کرتے مگر وہ کسی کی ایک نہ سنتے۔ الٹا میری حمایت کرتے۔ یہی وجہ تھی مجھے گھر کے سارے لوگ رشک اور حسد سے دیکھتے۔
خاص طور پر میرے ساتھ کے بچے اور دوسرے چچا و پھوپھی زاد بھائی۔ یہ سب مجھ سے بےحد محبت کرنے کے باوجود بڑے ابا کی مجھ سے شدید چاہت اور لگاؤ کو شاید اپنی اور دوسروں کی حق تلفی خیال کرتے اور میری جھوٹی شکایات کرتے۔
جب بھی کوئی شکایت ہوتی، میں سچ بتا دیتا۔ بڑے ابا تحقیق کرتے تو میں سچا ثابت ہوتا۔ اس طرح میرا سچ بولنا ان کے دل میں میری محبت اور بڑھا دیتا۔ وہ سب کو میری مثال دیتے۔
اس روز مجھے امی جان نے ایک روپے کا سکہ دیا اور کہا کہ نانی اماں کو دے ٓآو۔ شاید انھوں  نے ادھار چکانا تھا۔ کیونکہ اباجی کو پہلی تنخواہ ملی تھی۔ میں شرارتی تو تھا ہی، سکے سے کھیلتا چل پڑا۔
پہلے سکہ پھینکتا اور پھر زمین سے اُٹھا لیتا کئی مرتبہ ایسا کرتے کرتے چاچا پٹھانے خان صاحب کے گھر کے پاس پہنچا جہاں اب پٹھانے خان چوک بنا ہوا ہے، یہاں کھلا میدان تھا اور ریت کا ٹیلہ تھا۔ میں  نے وہ سکہ پھر پھینکا مگر اس مرتبہ وہ کہیں ریت میں ایسا گرا کہ غائب ہو گیا اور باوجود کوشش، میں اسے ڈھونڈ نہ سکا۔ میں پریشان ہو گیا۔ ۱۹۵۹ ء میں ایک روپیہ گم ہونا ایسا ہی تھا جیسے آج ۱۰۰۰ کا نوٹ گم ہو جائے۔
پہلے تو اپنے طور بہت کوشش کی اور پھر روتا ہوا بڑے ابا کے پاس گھر پہنچا۔ اس وقت والد صاحب کی کل تنخواہ ۱۰ روپے تھی۔ ان کی نئی نئی نوکری بطور سیکریٹری یونین کونسل گجرات ہوئی تھی۔
بڑے ابا  نے پوچھا تو میں  نے ساری روداد سچ سچ سنا دی۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔
بڑی اماں چلا کر بولیں، یہ جھوٹا ہے۔ اس  نے پیسے خرچ کر کے کچھ کھا پی لیا ہو گا۔
ایک بچہ بولا، ہاں ہاں میں  نے اسے برف کے گولے کھاتے خود دیکھا ہے۔ دوسرے نے کہا، بڑے ابا یہ بازار میں گھوم رہا تھا۔ ایک بچے نے تو یہاں تک کہا، بڑے ابا میرے سامنے اس نے بسکٹ کا ڈبا خریدا ہے۔
باقی سب گھر والوں کا خیال بھی یہی تھا کہ میں  نے وہ روپیہ خرچ کر لیا ہے۔ کچھ کھا پی لیا ہے اور اب سارا جھوٹا ڈراما ہے۔
امی جان بچاری کا بہت برا حال تھا۔ ایک تو یہ ڈر کہ بچے کو اتنی بڑی رقم کیوں دی؟ دوسرا رقم کا نقصان، تیسرا بچے پر الزام۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔
بڑی اماں کا غصہ دیکھنے لائق تھا۔ بڑے ابا کی کلاس لینے کا موقع ہاتھ آیا تو خوب بولیں، میں نہ کہتی تھی یہ بگڑتا جا رہا ہے۔  امی جان پر تو وہ برس پڑیں ، یہ اتنی بڑی اور سیانی ہے اس  نے اتنی بڑی رقم اتنے چھوٹے بچے کو کیوں دی ؟
امی جان کے بدن میں کاٹو تو لہو نہیں۔ جواب دینے کی جرات نہ بولنے کی سکت۔ گھونگھٹ تلے چپ چاپ آنسو بہا کر رہ گیں۔
مجھ سے پوچھا، سچ سچ بتاؤ کیا ہوا ہے ؟
میں نے واقعہ دھرا دیا۔ پھر تو بڑے ابا  نے کسی کی ایک نہ سنی۔ مجھے لے کر اس جگہ آئے اور ریت میں خوب تلاش کیا مگر سکہ تو جیسے زمین کھا گئی تھی۔ ہر طرف ریت ہی ریت۔ سخت چلچلاتی دھوپ میں سائے کے لیے سر پر کپڑا ڈال کر مجھے وہاں کھڑا کیا اور کہنے لگے، جاوید آپ  نے یہاں کھڑے رہنا ہے۔ میں گھر سے چھلنی لاتا ہوں۔ ہم ریت چھان کر سکہ تلاش کریں گے۔
چند منٹوں بعد ایک بڑی چھلنی سمیت واپس آئے اور ہم دادا پوتے نے ریت چھاننا شروع کر دی۔ ہمیں اس طرح کرتا دیکھ کئی لوگ وہاں اکٹھا ہو چکے تھے۔
میں آج بھی وہ منظر یاد کرتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں کہ کسطرح وہ عظیم ہستی شدید دھوپ اور گرمی میں ریت چھان رہی تھی۔ چچا پٹھانے خان، ملک کے نامور گلوکار ( صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ) کا ڈیرہ ساتھ ہی تھا۔
انہوں  نے اور دوسرے لوگوں نے کہا، خان صاحب کبھی ریت سے بھی چیز ملتی ہے؟ آپ رہنے دیں۔ ہم تلاش کرتے ہیں اور ساتھ مل کر ریت ٹٹولتے رہے مگر کچھ نظر نہ آیا۔ میں ایک طرف شرمندہ شرمندہ کھڑا تھا۔ اپنی غلطی کا اور بڑے ابا کی تکلیف کا شدید احساس ہو رہا تھا کہ اچانک بڑے ابا کی خوشی سے بھرپور آواز سنائی دی۔
یہ دیکھو سکہ مل گیا۔
وہ چھلنی میں ایک روپے کا چمکتا ہوا سکہ اٹھا لائے۔ انھوں نے مجھے پیار سے گلے لگایا اور ایک ایک کو وہ چمکتا ہوا سکہ دکھایا۔ وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔
چچا پٹھانے خان بولے، خان صاحب یہ تو کمال ہی ہو گیا۔ بڑے ابا کی طرح چچا پٹھانے خان بھی مجھے بہت پیار کرتے تھے۔ بڑے ابا نے سب کا شکریہ ادا کیا اور گھر واپس ہوئے۔
سکہ ملنے کی خبر سے گھر پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔ کوئی بھی ریمارکس نہ دے سکا۔ بڑے ابا  نے بڑی اماں کی طرف غور سے دیکھا اور کہا۔
اللہ کی بندی میں نہ کہتا تھا یہ بچہ جھوٹ نہیں بولتا، مگر ہر چیز سے بے نیاز بڑی اماں نے اپنا پاندان اُٹھایا اور جلدی جلدی اپنے اور بڑے ابا کے لیے پان بنانے لگیں جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہ ہو اور بولیں
آپ کے پان پر چونا زیادہ لگ گیا ہے۔ احتیاط سے کھانا۔ میں فخر سے ایک ایک کو دیکھ رہا تھا اور سکہ ڈھونڈنے کی روداد بتا رہا تھا۔
سب سے پہلے امی جان کو وہ سکہ واپس کیا تو وہ غصہ اور فخر سے بولیں، جاؤ اپنی بڑی اما ں کو دکھاؤ ۔
شاید وہ اس سے زیادہ غصہ کا اظہار کر نے کی جسارت نہ رکھتی تھیں لیکن ان کی جان میں جان آ چکی تھی ۔ بڑے ابا  نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سب کو مخاطب کیا اور صرف اتنا کہا، دیکھ لو میں نے کہا تھا نہ کہ جاوید جھوٹ نہیں بولتا، پھر اور مجھے لے کر عصر کی نماز کے لیے چل دیے۔
چلو جاوید اللہ کا شکر ادا کریں۔ میں تو تھا ہی پونچھ۔  ساتھ ہو لیا۔ مسجد میں باآواز بلند خدا کا شکر ادا کیا تاکہ میں بھی سن سکوں اور دہرا سکوں ۔
میں آج بھی سوچتا ہوں کس قدر عظیم لوگ تھے اور کس قدر محبت کرنے والے تھے وہ لوگ جنہوں نے ایک بچے کو شرمندگی سے بچانے کے لیے کسی چیز کی پروا نہ کی اور اسے سب کی نظروں میں سرخرو کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے اور تکلیف اُ ٹھائی۔
بڑے ابا جب تک حیات رہے اس موضوح پر ان سے کبھی کوئی بات نہ ہوئی لیکن آج یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ ملنے والا وہ سکہ وہ نہیں تھا جو گم ہوا تھا، بلکہ ملنے والا سکہ بڑے ابا چھلنی لانے کے بہانے سے جا کر من پھول دکاندار سے ادھار لائے تھے۔
بہت عرصہ بعد یہ بات مجھے من پھول  نے تب بتائی جب بڑے ابا اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ کاش وہ زندہ ہوتے تو میں ضرور پوچھتا کہ
بڑے ابا آپ نے میری خاطر جھوٹ بول کر اپنا اصول کیوں توڑا ؟  آپ کی محبت آپ کے اصولوں سے کیسے جیت گئی؟ مجھے معلوم ہے وہ جواب میں مسکراتے اور کہتے، جاوید اصول انسان اور معاشرے کی اصلاح اور محبت اور بھلائی کے لیے بنائے اور اپنائے جاتے ہیں۔ اچھائی اور فلاح کے لیے اصول بدلنے میں کوئی حرج نہیں۔ کسی کی عزت یا اسے شرمندگی سے بچانے کے لیے جھوٹ بولنا برائی نہیں  نیکی ہوتی ہے۔
جی ہاں! محبت کا دوسرا نام احساس تحفظ اور عزت نفس کا خیال رکھنا ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کا احاطہ عقل کے بس کی بات نہیں۔ نہ ہی یہاں عقل کی کوئی چال کام آتی ہے۔ محبت سچ میں ایسا نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جا سکتا۔ اس کے راہنما اصول کی سو فیصد کوئی گائیڈ یا تربیتی کتابچہ بھی تحریر نہ کیا جا سکتا ہے ۔
شاید محبت اصولوں سے بالا تر ہو کر سوچتی ہے۔ یہی وجہ ہے محبت عقل اور اصولوں پر غالب آ جاتی ہے ۔ یہ سب لکھنے اور بتانے کا مقصد اپنی نئی نسل کو بچوں کی دل جوئی شفقت ومحبت اور اصلاح کی روایت زندہ رکھنے کی ہدایت ہے اور احساس دلانا ہے کہ ہم  نے اپنی نسلوں کی تربیت / کردار سازی اپنے بزرگوں کی قائم شدہ اعلی روایات کو اپنا کر کرنی ہے۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles