Home جائزہ ہماری سانسوں میں آج تک۔۔۔

ہماری سانسوں میں آج تک۔۔۔

کار تک پہنچتے پہنچتے ہم سردی سے ٹھٹھر چکے تھے۔ حالانکہ اپریل کے آخری عشرے میں یہ موسم گرما تھا ۔لیکن اسکینڈے نیویا میں سردی کا راج کبھی مکمل ختم نہیں ہوتا۔

0
606

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

ستٓرہواں 17 حصہ

ہماری سانسوں میں آج تک۔۔۔

طارق محمود مرزا، سڈنی

کار تک پہنچتے پہنچتے ہم سردی سے ٹھٹھر چکے تھے۔ حالانکہ اپریل کے آخری عشرے میں یہ موسم گرما تھا ۔لیکن اسکینڈے نیویا میں سردی کا راج کبھی مکمل ختم نہیں ہوتا۔
گرمیوں میں بھی باد و باراں کے موسم میں اور رات کی آمد کے ساتھ سردی لوٹ آتی ہے۔ خصوصاً ایسے ساحلی مقام پر سرد ہوائیں چلتی ہیں ۔یہاں لوگ بارہ مہینے ہیٹر استعمال کرتے اور گرم لباس پہنتے ہیں۔ ان کے کندھے جھک جاتے ہیں مگر جسم کی سردی کم نہیں ہوتی۔
واپسی کے سفر کے دوران طاہر عدیل کو جرمنی سے ایک دوست کی کال آئی۔ یہ دوست طاہر عدیل کو اگلی شام جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والے ایک مشاعرے میں شرکت کی دعوت دے رہے تھے۔
طاہر عدیل نے شروع میں معذرت کی مگر دوست کا اصرار جاری رہا۔ بالآخر وہ جانے پر راضی ہو گئے۔ لہٰذا اگلی شام وہ جرمنی میں مشاعرے میں موجود تھے۔ ملکوں کے درمیان ہم آہنگی ہو اور عوام خوشحال ہوں تو فاصلے کیسے سمٹ جاتے ہیں اس بات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
غروبِ آفتاب کے بعد بھی کافی دیر تک اس کی روشنی باقی رہی۔ طاہر عدیل  نے کار میں پٹرول بھرا۔ اس دوران ہم  نے سروس اسٹیشن سے چائے کے کپ بھرے اور واپسی کے سفر کے لیے تیار ہو گئے۔
اس مرتبہ ساحلی شاہراہ کے بجائے طاہر عدیل نے موٹر وے کا انتخاب کیا جو بہت سبک رفتار ثابت ہوا۔ جاتے وقت تین گھنٹے لگے تھے جبکہ ہم ڈیڑھ گھنٹے میں واپس کوپن ہیگن پہنچ گئے۔
گاڑی کے باہر تاریکی تھی لہٰذا ہم نے اندر اپنی محفل جما لی۔ شعر و ادب کے شگوفے پھوٹنے لگے۔ شعر اور ادبا کے دلچسپ واقعات بیان ہونے لگے۔ نصر ملک صاحب کی پٹاری میں ایسے کئی دلچسپ قصے تھے۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند کے بیشتر شعرا سے ان کی بالمشافہ ملاقات ہے۔
جلا وطنی کے دنوں میں احمد فراز کچھ عرصہ ان کے گھر بھی ٹھہرے تھے۔یوں اُن کے پاس سنانے کے لیے کئی دلچسپ باتیں تھیں۔ اسی دوران گاڑی میں تسلیم فاضلی مرحوم کے میٹھے بول اور مہدی حسن کی شیریں آواز جیسے کانوں میں رس گھولنے لگی۔

ہماری سانسوں میں آج تک و ہ حناکی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیںنظر سے مستی جھلک رہی ہے

یہ گیت میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں۔ ہزاروں مرتبہ سننے کے بعد آج بھی مجھے مسحور کر دیتا ہے۔ آغاز میں اس غزل کے بولوں سے زیادہ مہدی حسن اور نور جہاں کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ سروں کا یہ سحر قائم تھا کہ تسلیم فاضلی کی سدا بہار شاعری، نازک خیالی، معنویت، شعریت اور الفاظ کی جادوگری کا تاثر دل و دماغ میں گھر کرتا گیا۔

وہ میرے نزدیک آتے آتے حیا سے ایک دم سمٹ گئے تھے
میرے خیالوں میں آج تک وہ بدن کی ڈالی لچک رہی ہے

کیا بلا کی نازک خیالی ہے. بدن کی ڈالی لچک رہی ہے۔ کیا حُسنِ خیال ہے۔ کیا نغمگی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کوئی سراپا غزل نظروں کے سامنے جلوہ گر ہو۔ جس دور کی یہ فلمی شاعری تھی۔ ان دنوں عام شاعری کا معیار کیا ہو گا۔ وہ بھی کیا دور تھا۔
کوپن ہیگن میں طاہر عدیل صاحب کے گھر میں شام کا کھانا تیار تھا۔ ہم تینوں کے علاوہ طاہر عدیل کے دو اور دوست بھی آ گئے۔ میں  نے ان شعرا سے ان کا کلام بھی سنا اور ڈنمارک کے رہن سہن، تاریخ، جغرافیہ، موسم، ادب اور دیگر موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
نصف شب کے قریب طاہر عدیل نے پہلے نصر ملک اور پھر مجھے ہوٹل میں چھوڑا۔ اس نوجوان دوست کی محبت اور مہمان نوازی کی خوشبو اور آج کے دن کی دلچسپ یادوں سے میرا خزینہِ دل مزید بڑھ گیا۔
گرینڈ ہوٹل کے بالمقابل سڑک کی دوسری جانب ایک بڑا گروسری سٹور چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ میں چند ضروری اشیاء کی خریداری کے لیے اس کے اندر چلا گیا ۔
یہ خاصا بڑا اسٹور تھا اور اس کے مختلف حصے تھے۔ اندر درجنوں سیاح خریداری میں مصروف تھے۔ مگر کاؤنٹر پر مصروف ایک شخص کے علاوہ پورے اسٹور میں عملے کا کوئی اورٍ فرد موجود نہیں تھا۔ اس لیے مطلوبہ اشیا ڈھونڈنے میں دقّت ہو رہی تھی۔
مطلوبہ اشیا لے کر میں کاؤنٹر پر پہنچا تو کئی لوگ میرے آگے قطار میں کھڑے تھے۔ دکان دار اشیا کو اسکین کرتا اور پاس رکھی مشین کی طرف اشارہ کرتا۔ گاہک اس کے اندر ریزگاری ڈالتے، مشین انہیں گنتی اور رسید اُگل دیتی۔
جس نے کارڈ سے ادائیگی کرنی ہوتی وہ اپنا کارڈ  مشین سے چھوتا، رسید اٹھاتا اور چل دیتا۔ دُکان دار صرف نوٹ وصول کرتا تھا۔ ریزگاری اور کارڈ دونوں کے لئے مشینیں موجود تھیں۔ گاہک اپنا سامان خود لفافے میں ڈالتے اور باہر کی راہ لیتے۔
یوں دُکان دار کے ذمہ کم سے کم کام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے اسٹور میں صرف ایک شخص مامور تھا۔ اگر اتنا بڑا اسٹور کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں ہوتا تو کم از کم دس بارہ افراد مصروفِ عمل ہوتے۔ دراصل ترقی یافتہ ملکوں میں کارکنان کی کم از کم تنخواہ اور اس کے حقوق اتنے زیادہ ہیں اور دوسری جانب بوجہ مسابقت شرح منافع اتنا کم ہے کہ وہ زائد عملے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اچھے خاصے کاروبار بھی غیر ضروری کارکنان کی تنخواہیں ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اُدھر مشینیں جتنی بھی گراں ہوں افراد کی اُجرت سے بہرحال ارزاں ہیں۔ اس طریقہ میں قباحت یہ ہے کہ گاہک کی مدد اور تسلی کے لیے عملہ نہیں ہوتا۔ عموماً اپنی مدد آپ کرنی پڑتی ہے۔
کمپیوٹر اور جدید مشینوں سے نابلد افراد کے علاوہ وہ بزرگ جو عملے کے مدد کے عادی ہیں، ان مشینوں سے سخت نالاں ہیں۔شاعرِ مشرق نے بجا فرمایا تھا
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات

NO COMMENTS