سلسلے وار ناول
بلال صاحب
انیسویں قسط
(19)
غیرت مند
’’میرا جانے کو بالکل دل نہیں چاہ رہا۔ ایک تو یہ موسم، تمہارے ساتھ کوئی پاگل ہی ہو گا، جو اتنی سردی میں باہر جائے۔ اوپر سے یہ کالے سیاہ بادل۔‘‘
ولید نے ارم کی کالی سیاہ زلفوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ ارم اُس کے پہلو میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان دونوں کی ٹانگیں سامنے پڑے سینٹر ٹیبل پر تھیں۔ ارم کے کھلے کالے سیاہ بال اس کے شانوں سے ہوتے ہوئے اس کی چھاتی پر تھے اور وہ پستہ، بادام اور کاجو سے موسم کی ٹھنڈک کو دور کر رہے تھے۔ خشک میوہ جات کی پلیٹ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی تھی ۔
’’میں یہ چاہتی ہوں ہمارا یہ ساتھ ہمیشہ کے لیے رہے۔ اسی لیے تمہیں بھیج رہی ہوں۔ یہ عمر انگور کی بیل کی طرح ہوتی ہے، جو چیز قریب مل جائے اسی کے ساتھ لپٹ جاتی ہے، اور وہ دونوں بیلیں کسی کے ساتھ لپٹنا چاہتی ہیں۔ ولید ابھی موقع ہے۔ اسے کیش کر لو۔‘‘
ارم ایک تجربہ کار عورت کی طرح بول رہی تھی۔ اِرم کی عمر 30 کے آس پاس مگر اپنی جسامت کی وجہ سے زیادہ نہیں لگتی تھی۔ وہ سلم اینڈ سمارٹ تھی اور پرکشش بھی۔
’’تم بھی کبھی کسی کے ساتھ لپٹی تھی۔‘‘ولید نے مذاق میں پوچھا۔
ہاں، دس سال پہلے۔ جب میں بھی انگور کی بیل کی طرح تھی۔ میں اسے مضبوط درخت سمجھ کر اُس کمینے سے لپٹ گئی۔ وہ درخت تو تھا لیکن اندر سے کھوکھلا سوکھا ہوا۔ میں اس کے مصنوعی پینٹ کو اس کی ہریالی سمجھ بیٹھی تھی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا ؟‘‘ولید نے تجسس سے پوچھا۔
ارم نے گہری ٹھنڈی سانس بھری اور بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی :
’’ہونا کیا تھا۔ وہی جو ہم جیسوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکالتی ہیں۔ وہ پوری زندگی ذلیل خوار ہوتی ہیں۔
دل نواز چغتائی عرف ڈینگی ہمارے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ ڈیفنس میں کسی ڈیلر کے پاس کمیشن پر کام کرتا تھا۔ ڈینگی گاؤں جاتا تو نئی گاڑی ، نئے نئے موبائل، روپیہ پیسہ خوب دکھا کر آتا ۔
اس کے چچا کی بیٹی میری سہیلی تھی۔ اس کے ذریعے مجھے موبائل اور سم دی۔ رات کو گھنٹوں میں چوری اس سے باتیں کرتی۔ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی۔
اس نے کہا لاہور آ جاؤ، رانی بنا کر رکھوں گا۔ پیسے اس نے اپنی چچا کی بیٹی کے ذریعے بھیجے تھے۔
میں گھر سے بھاگ کر ٹھوکر نیاز بیگ لاہور آ گئی۔ وہاں سے ڈینگی مجھے ڈیفنس لے آیا۔ ڈیفنس کے ایک گھر میں ہم پورا مہینہ ساتھ رہے۔
شادی سے پہلے ہم شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے۔ میرے گھر والے اسے بھی فون کرتے۔
بیٹا ارم نہیں مل رہی۔ لاہور پتا کرنا۔
یہ اسپیکر پر مجھے ان کی باتیں سنواتا۔ مہینہ بعد ایک دن یہ اچانک غائب ہو گیا۔ دو دن گزر گئے اس کا کوئی پتا نہیں۔ موبائل اس کا بند تھا ۔
دو دن بعد ایک آدمی آیا۔ اس نے کہا یہ گھر ہمارے انویسٹر کا ہے ۔ یہاں سے نکلو۔
میں نے کہا میں کہاں جاؤں؟
اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی آفر دی۔ میں ڈرتی ڈرتی اس کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے مجھے ڈینگی کے بارے میں بتایا کہ ہم دونوں ساتھ کام کرتے ہیں، اور وہ گاڑی بھی میری تھی۔
میں نے اس سے پوچھا اب ڈینگی کہاں ہے ؟
وہ گاؤں چلا گیا ہے ۔ اپنے چچا کی بیٹی سے اس کی اگلے ہفتے شادی ہے۔ مجھے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ تب اس نے اپنے موبائل سے اوپن سپیکر پر ڈینگی سے بات کی۔ وہ میرے ساتھ گزاری راتوں کا مزہ لے لے کر حال بیان کر رہا تھا۔ میں سن کر شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔
گاؤں میں اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ میں کہاں ہوں اور میرے ساتھ ڈینگی نے کیا کیا تھا؟
میری سہیلی جس سے شادی کرنے سے ڈئیگی انکاری تھا، اس نے ڈینگی سے کہا۔ اب اگر تم نے مجھ سے شادی نہیں کی تو میں ارم کی کہانی سب کو بتا دوں گی۔
ڈینگی نے میری سہیلی سے شادی کر لی۔ پھر سجاد باجوہ نے مجھے ایک سال رکھیل بنا کر رکھا۔ جب اس کا دل بھر گیا تو مجھے چھوڑ دیا اور آج میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔‘‘
اشکوں سے اس کے گال بھیگ چکے تھے۔ وہ الٹے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئی بولی :
’’ولید ! جو لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگتی ہیں، زندگی ختم ہو جاتی ہے مگر ان کا سفر ختم نہیں ہوتا۔ کبھی نہیں…‘‘
’’میری انگور کی بیل۔‘‘ولید نے ارم کو اپنے بازو میں لے کر اس کی پیشانی چوم لی۔ اب یہ انگور کی بیل ایک دیسی کیکر کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی ۔ یہ دوسری بات ہے کہ اب یہ بیل شیشم کی لکڑی سے زیادہ مضبوط تھی۔
ڈھول کی تھاپ پر مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا۔ ایک طرف عورتوں کی محفل اور دوسری طرف منچلے نوجوان ڈانس اور بھنگڑا ڈال کر ہلکان ہوچکے تھے مگر ہٹنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔
اتنے میں ثانیہ کے باپ کی آواز بلند ہوئی:
’’بس بھئی بس…بہت ہوگیا اب کھانا کھاؤ…دیر بھی ہو چکی ہے …اور سردی بھی بہت ہے…چلو شاباش…کھانا کھل گیا ‘‘
یہ سن کر نوشی ہجوم سے نکل کر واش روم کی طرف بڑھی، مووی میکر کی لائٹ والی کیبل سے اس کا پائوں پھنسا اور وہ گرتے گرتے بچی۔ اگر ولید کے مضبوط بازو اسے سہارا نہ دیتے تو وہ زمین پر ہوتی۔ ولید نے اسے ایسے سنبھالا جیسے وہ پوزیشن لیے کھڑا ہو، نوشی ولید کی بانہوں میں تھی دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔
کیکر کے کانٹوں والے درخت نے انگور کی نرم و نازک بیل کو تھام لیا…لپٹنا ابھی باقی تھا…نوشی کے لیے یہ نیا تجربہ تھا…وہ زندگی میں پہلی بار کسی مرد کے بازوئوں میں تھی۔
’’وہ…میں نے دیکھا نہیں…Thank you‘‘
نوشی نے اپنی گولڈن آوارہ لٹیں کان کے پیچھے کیں اور اپنا پیلا جوڑا درست کیا اور شرماتی ہوئی واش روم کی طرف چلی گئی ۔ تھوڑی دیر میں وہ واپس لوٹی تو ولید وہیں کھڑا تھا، کھانا کھل چکا تھا، اس لیے اس طرف کسی کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔
’’آپ بہت خوبصورت ہیں…میں اپنی زندگی میں یہ منظر کبھی نہیں بھلاسکوں گا‘‘ولید نے نوشی کو آنکھ بھر کر دیکھا اور یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔
عورت کتنی ہی پڑھی لکھی اور تیز کیوں نہ ہو تعریف کی تیز دھار تلوار اس کے بت کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے اور یہی کچھ نوشی کے ساتھ ہوا تھا۔
وہ تعریف کی تلوار سے ریزہ ریزہ ہوچکی تھی، سارے فنکشن کے دوران ولید کا فوکس اس پر تھا، اب موقع ملا تو وہ اپنا کام کرکے جاچکا تھا، بغیر کھانا کھائے ہوئے۔ کھانے سے فارغ ہوکر مہمان جانا شروع ہوچکے تھے۔ دلہن کے پاس صرف نوشی اس کے ساتھ کھسر پھسر کر رہی تھی اس واقعے کے بعد نوشی کی نگاہیں مسلسل کسی تلاش میں تھیں مگر ولید جاچکا تھا۔
توشی اور فوزیہ ایک سائیڈ پر صوفے پر بیٹھی تھیں، ان کے سامنے گیس ہیٹر لگا ہوا تھا سارا پروگرام فوزیہ نے اسی جگہ بیٹھ کر دیکھا تھا۔
نصرت ایک کونے میں اپنی پرانی دوستوں سے گپ شپ میں مصروف تھی۔
’’کس کے ساتھ آئی تھیں‘‘توشی نے پوچھا۔
’’رانیہ نے گاڑی بھیجی تھی …ہاں یاد آیا ڈاکٹر محسن تمہارا پوچھ رہے تھے ‘‘فوزیہ نے بتایا۔
’’وہ کیو ں میرا پوچھ رہا تھا Made in Chinaڈاکٹر‘‘توشی انداز سے بولی۔
’’مجھے لگتا ہے …ڈاکٹر محسن دل دے بیٹھا ہے تمہیں‘‘فوزیہ نے شرارتی لہجے میں کہا۔
’’یہ لو… یہ منہ اور مسور کی دال … چار بچوں کا باپ لگتا ہے …میرا اس سے کیا جوڑ…‘‘توشی جھوٹ موٹ انکار کر رہی تھی۔
’’قسم سے …تم دونوں کی جوڑی بڑی اچھی لگے گی…نوشی اور سر بلال سے بھی زیادہ ‘‘فوزیہ نے نوشی کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’بس…ڈاکٹر محسن تھوڑے موٹے ہیں…باقی گورے چٹے…اونچے لمبے جوان ہیں۔ دل کے بھی بہت اچھے ہیں…‘‘فوزیہ بول رہی تھی اور توشی غور سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’چلو فوزیہ بیٹی…! بہت دیر ہو گئی ہے …‘‘ نصرت پاس کھڑی ہوئی کہہ رہی تھیں۔
’’ہم چھوڑ دیتے ہیں…آپ کو‘‘توشی نے لفٹ کی آفر کر دی۔ اتنے میں نوشی بھی آچکی تھی۔ نوشی نے آتے ہی کہا :
’’چلو… چلیں…‘‘
’’چلو…فوزیہ کو بھی گھر چھوڑنا ہے ‘‘توشی بولی۔
’’Ok no problemچھوڑ دیتے ہیں، تم لوگ آئو میں DJکو کہتی ہوں کہ گاڑی سامنے لے آئے ‘‘یہ کہہ کر وہ ہال سے باہر چلی گئی۔ اس کا Phone بھی DJ کے پاس تھا، اس لیے گاڑی کو دیکھنے کے لیے ہال کے ساتھ خالی پلاٹ میں گئی، جہاں گاڑیوں کی پارکنگ تھی۔
DJ کار میں آنکھیں بند کیے ہوئے عطا اللہ خان کے گانے سن رہا تھا۔ نوشی نے اُسے آواز دی : ’’DJ… DJ… چلو چلیں‘‘ DJکو عطا اللہ کی اونچی آواز کے آگے نوشی کی آواز سنائی نہیں دی۔
’’ہم چھوڑ دیتے ہیں…چھمک چھلو…‘‘ایک لڑکا نوشی کی کلائی پکڑتے ہوئے بولا۔
’’How dare youچھوڑو مجھے…حرام زادے…‘‘نوشی کلائی چھڑواتے ہوئے چیخی۔ نوشی کی چیخ DJ کے کان سے ٹکراتی ہے۔
’’ڈانس تو کرینہ سے بھی اچھا کرتی ہو…چھمک چھلو…‘‘دوسرا لڑکا بولا۔
اتنے میں DJ کی نظر اُن پر پڑ جاتی ہے، وہ آگے بڑھتا ہے۔ دوسرا زور سے DJ کے پیٹ میں گھونسا مارتا ہے اور اُسے دھکا دیتا ہے DJ زمین پر گر جاتاہے۔ کمر کے بل اسی دوران ہال کے مرکزی دروازے پر نصرت یہ سب دیکھ لیتی ہے۔
’’اوئے …بے غیرتو…کتے دے پُترو…چھڈ دیو بچی نوں‘‘ نصرت ایک بہادر دیہاتی خاتون کی طرح ان پر لپکی۔ توشی اور فوزیہ ہال کے مین دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ نصرت نے جاتے ہی جس لڑکے نے کلائی پکڑی تھی، اس کے گال پر تھپڑ رسید کر دیا، لیاقت کا سارا غصہ اس کے گال پر نکلا۔ وہ دونوں لڑکے آناً فاناً گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے بھاگ گئے۔
ایک شور مچ گیا، چور چور سب لوگ باہر دوڑے۔ ’’کیا ہوا…خیریت تو ہے …چور تھے۔ پولیس کو فون کرو…کوئی نقصان تو نہیں ہوا…سکیورٹی گارڈ کہاں تھا…منیجر کو بلائو۔ یہ سکیورٹی گارڈ آگیا ۔‘‘ جتنے منہ اُتنی باتیں۔
’’تم کہاں تھے؟ ‘‘رانیہ کے والد غصے سے بولے۔
’’سروہ میں پیچھے کھانا کھارہا تھا ‘‘گارڈ ڈرتے ڈرتے بولا۔
’’منیجر کہاں ہے؟ ‘‘
’’سر وہ ابھی چلے گئے ‘‘ آفس کے ایک لڑکے نے بتایا۔
اس دوران نوشی نصرت کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔ وہ کانپ رہی تھی ایک سردی اور دوسرا ڈر اس کی عزت پر حملہ ہوا تھا۔ پاس پہنچ کر اعظم بسرا بولے : ’’میں پولیس کو فون کرتا ہوں ‘‘
’’نہیں…پاجی…بچت ہو گئی…موبائل چھین رہے تھے …چور تھے۔ یہ DJنے بڑی بہادری دکھائی۔ پولیس کو فون مت کریں، بڑے سوال پوچھتے ہیں ‘‘ نصرت نوشی کو اپنی چادر میں لپیٹتے ہوئے بول رہی تھی۔ DJ اپنی تکلیف بھول کر مسکرا رہا تھا۔ سب DJ کی بہادری پر اس کو داد دے رہے تھے، DJصابن کی جھاگ کی طرح کھل اٹھا تھا۔
’’یہ بہادری نہیں بے وقوفی ہے موبائل ہی تو تھا اگر بچی کو کچھ ہوجاتا …تو…‘‘اعظم بسرا غصے سے بولے۔
DJ کی بہادری کی جھاگ اعظم بسرا کے غصے سے فوراً بیٹھ گئی، اسے اپنی تکلیف پھر یاد آگئی ۔
’’میں تم لوگوں کو چھوڑ کر آتا ہوں ‘‘اعظم بسرا نے کہا۔
’’نہیں انکل …Thank you ہم چلے جائیں گے ‘‘ توشی نے پریشانی کے باوجود کہہ دیا تھا۔ وہ سب گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے نکل آئے راستے میں فوزیہ بولی:
’’خالہ…! آپ نے یہ کیوں کہا چور تھے…میں ان کمینوں کو اچھی طرح جانتی ہوں‘‘
’’تم ابھی بچی ہو…عزت کی سفید چادر پر …بدنامی کا ایک چھینٹا بھی نظر آجاتا ہے‘‘
’’گھر پہنچ کر فون کردینا‘‘گاڑی سے اترتے ہوئے توشی کی طرف دیکھ کر فوزیہ بولی۔ نصرت نے نوشی کا ماتھا چوما جو اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی پھر وہ بھی گاڑی سے اتر گئی۔
سارے رستے نوشی نے ایک لفظ نہیں بولا جیسے کومے میں ہو، وہ گھر پہنچے تو 12بج چکے تھے، ان کے آنے سے چند منٹ پہلے ہی ناہید اور شعیب کسی پارٹی سے لوٹے تھے، لائونج میں نوشی کی نظر اپنی ماں پر پڑی تو اس نے گلے لگ کر زور زور سے رونا شروع کردیا، اس کی آواز سن کر شعیب نیچے آگیا، جو سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اپنے کمرے میں جانے کے لیے۔
’’کیا ہوا…بے بی…میری جان…کیا ہوا…کوئی بتائے گا مجھے…‘‘ناہید نے غصے سے ری ایکٹ کیا۔
’’توشی کیا ہوا بتائو مجھے …DJتم بتائو مجھے…‘‘ناہید غصے سے چلائی…DJنے سارا معاملہ بتادیا جو کچھ اس نے دیکھا تھا۔
’’کون تھے وہ لوگ…؟‘‘شعیب جذباتی انداز میں بولا۔
’’اُن کی تو میں…ان کی یہ ہمت‘‘
’’میں نہیں جانتا ان کے نام…ہاں ان کو پہچان لوں گا‘‘DJ نے ہولے سے کہا۔
’’میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں‘‘ناہید نے اپنے پرس سے فون نکالتے ہوئے اپنے تیور دکھائے۔
’’ر ک جائیں ماما‘‘توشی نے آواز لگا دی۔ اس کے کانوں میں نصرت کے الفاظ گونجے :
’’عزت کی سفید چادر پر بدنامی کا ایک چھینٹا بھی نظر آجاتا ہے‘‘
’’کیا بتائیں گی پولیس کو…جو ہوا ہے … اور ہم کن کے خلاف کمپلین فائل کریں گے … ہم لوگ تو ان کا نام پتہ کچھ بھی نہیں جانتے ‘‘
DJکو کچھ یاد آیا’’شیعبی سر…ان کو میں نے دو تین دفعہ ایک سنوکر کلب میں دیکھا ہے، شاید وہاں مل جائیں…‘‘
’’چلو…چلتے ہیں…تم پہچان تو لوگے ان کو…؟‘‘شعیب نے کرخت لہجے میں پوچھا۔
’’شعیب رکو…میری بات سنو…بس معلومات لینا ان کے بارے میں باقی بعد میں دیکھیں گے‘‘ناہید نے سمجھایا۔
’’ماما دیکھنا کچھ نہیں ہے …ان کو مجھ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنا ہو گی … بس‘‘نوشی جلالی آواز کے ساتھ بولی۔
’’تم معافی کی بات کر رہی ہو …میں تو ان کو برباد کردوں گی ‘‘ناہید نے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔
DJ کو اپنی بے وقوفی پر غصہ آرہا تھا، کیوں اس نے پوائنٹ اسکور کرنے کی کوشش کی تھی، سارا سنوکر کلب انہوں نے دیکھ لیا مگر وہ نہیں ملے، کلب سے نکل کر جب شعیب اور DJ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو شعیب والی سائیڈ پر آکر ایک گاڑی پارکنگ میں رکی۔
’’کیوں شعیب کدھر جارہے ہو؟‘‘وکی نے آواز دی جو گاڑی سے اُتر رہا تھا ۔
’’مال لے کر آیا ہوں …آجا…یاد کرے گا‘‘دوسری آواز گونجی جو کہ سنی کی تھی۔
’’چھمک چھلو تو ہاتھ سے نکل گئی…مگر یہ تو ہے ‘‘وکی نے چرس کا ایک ٹکڑا شعیب کو دکھایا۔
’’یہی تھے … ہاں بالکل …یہی تھے ‘‘DJعجلت میں بولا، شعیب کے کندھے کو ہلاتے ہوئے، جو کہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا اور وہ ونڈ اسکرین سے ان کو دیکھ رہا تھا۔
شعیب کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا۔ وہ نیچے اترا اور سنی کو مارنے لگا، وکی نے دیکھا جو کہ سنی سے کچھ آگے چل رہا تھا۔
واپس پلٹا اور شعیب پر چڑھ دوڑا وکی اور سنی جسامت میں DJاور شعیب سے زیادہ طاقتور تھے۔
ان دونوں نے DJاور شعیب کی خوب دھلائی کی۔ شور مچ گیا سنوکر کلب سے لڑکے باہر آگئے ۔
’’حرام زادو … وہ میری بہن تھی‘‘شعیب اپنے ماتھے اور ہونٹوں سے بہتے ہوئے خون کے قطروں کو دیکھتے ہوئے بولا۔
’’جن کے اوپر تو اپنے گندے ہاتھ صاف کرتا تھا، وہ بھی کسی کی بہنیں تھیں‘‘ سنی غصے سے چیخا اسے کچھ لڑکوں نے پکڑا ہوا تھا۔
’’چھوڑو مجھے…بڑا غیرت مند بنتا ہے…ہمارے کیے ہوئے شکار پر کتنی دعوتیں اڑائی ہیں…اس حرام زادے نے۔‘‘ وکی اپنے آپ کو لڑکوں سے چھڑاتے ہوئے بول رہا تھا۔
اتنے میں سنوکر کلب کا مالک آ گیا۔ ’’وکی اور سنی نکلو یہاں سے پولیس آگئی تو معاملہ بگڑ جائے گا… نکلو… نکلو۔‘‘اس نے آنکھ کا اشارہ کیا۔ ’’نکلو بادشاہو‘‘گوگی بٹ سنوکر کلب کا مالک پھر سے بولا۔ وکی اور سنی جلدی سے وہاں سے کھسک گئے۔
’’بادشاہو آپ بھی کمال کرتے ہو…کل تک اکٹھی عیاشی کرتے آئے ہو اور آج جوتیوں جوتی ہو رہے ہو۔ رات گئی بات گئی…ایک صلاح میر ی لے لو…اگر معاملہ پولیس میں لے کر گئے تو ننگا وہ تمہیں بھی کر دیں گے…آگے آپ کی مرضی‘‘گوگی بٹ نے DJ کی طرف دیکھا پھر ہمدردی سے کہنے لگا : ’’اس غریب کو بھی لے جائو اور خود بھی پٹی شٹی کرواکر جانا چلو میں بھی چلتاہوں تمہارے ساتھ۔ اوئے پپو کلب بند کردے‘‘
گوگی بٹ نے پاس ہی پرائیویٹ ہسپتال سے دونوں کی مرہم پٹی کروادی اور ان دونوں کو گھر بھیج دیا اور فون ملایا سنی کو…
’’بادشاہو…اگر کیس پولیس میں جاتا تو لاکھوں کا خرچہ تھا اور خواری وکھری۔ بچت کروادی ہے…تم دونوں کی…اب چا پانی پہنچا دینا ok bye‘‘
’’تم گھر کچھ بتانا نہیں‘‘شعیب نے DJکو دھیمی آواز میں ہدایت دی۔
’’مگر یہ جو ہماری حالت ہوئی ہے ‘‘DJنے اپنے ماتھے پر بندھی پٹی کو چھوکر کہا۔
’’گاڑی کے ساتھ ہمارا ایکسیڈنٹ ہوا ہے…‘‘شعیب منہ ٹیڑھاکرکے بولا ۔
’’مگر…‘‘’’اگر مگرچھوڑ‘‘شعیب نے پانچ ہزار کے چند نوٹ DJ کی سامنے والی پاکٹ میں ڈال دیے۔
’’یاد رکھو…وہ لڑکے ہم کو ملے ہی نہیں…اور یہ ہمارا ایکسیڈنٹ ہوا ہے…ورنہ تم مجھے جانتے ہو…اچھی طرح سے‘‘شعیب نے رعب جمایا۔
’’وہ تو میں…آپ کو جان ہی گیا ہوں…اچھی طرح سے ‘‘DJرک رک کر بولا۔ جب وہ لوگ گھر پہنچے تو صبح کے ساڑھے چار بج رہے تھے، اس کے باوجود نوشی اور توشی اور ناہید جاگ رہی تھیں۔ جیسے ہی ناہید کی شعیب پر نظر پڑی وہ تڑپتے ہوئے بولی :
’’او مائی گاڈ … یہ کیا ہو گیا ہے توشی پانی لائو بھائی کے لیے … تم بیٹھو یہاں پر‘‘ ناہید نے شعیب کو صوفے پر بٹھایا۔
’’ DJتم بتائو کیا ہوا…؟‘‘ توشی نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں جی …بڑے غیرت مند ہیں…شعیب سر…جب سے سنا ہے۔ بس خون اتر آیا ان کی آنکھوں… وہ تو ان کی قسمت اچھی کہ وہ ملے نہیں ‘‘
’’پھر یہ چوٹیں کیسے لگیں تم دونوں کو…؟‘‘توشی نے پریشانی سے پوچھا۔
’’جب ہم سنوکر کلب سے نکلے تو سڑک پار کرتے ہوئے گاڑی سے ٹکر ہوگئی شعیب سر کی ‘‘
’’اور تمہیں کیا ہو…؟‘‘ توشی تشویش سے بولی۔
’’ان کی گاڑی سے ٹکر ہوئی اور میری ان سے … بڑے غیرت مند بھائی ہیں آپ کے… اللہ ویری دشمن کو بچائے ایسے بھائی سے‘‘ DJ نے آہستہ سے منہ میں کہا کراہتے ہوئے۔
جب DJ اپنے کمرے میں جارہا تھا تو بلال کی نظر اس پر پڑ گئی جو کہ تہجد کے لیے اٹھ چکا تھا۔ وہ اسی لمحے سرونٹ کوارٹر میں گیا اس کے پیچھے۔
DJساری کہانی گل شیر خان کو سنارہا تھا جوکہ لاہور آئے ہوئے تھے۔ اسی دوران بلال وہاں پہنچ گیا اس نے سب کچھ سن لیا۔
واپس اپنے کمرے میں آگیا دودھ گرم کیا اور DJ کے لیے لے کر گیا۔
’’DJیہ پی لو‘‘بلال ہمدردی سے بولا۔
DJنے دودھ کا مگ ہاتھ میں پکڑا تو اس کی آنکھوں سے ضبط کے باوجود آنسو جاری ہو گئے۔ اس نے دودھ کا مگ اپنے پلنگ کے ساتھ پڑے ہوئے اسٹول پر رکھ دیا اور خود بلال کے ساتھ لپٹ کر رونے لگا، زور زور سے ایک بچے کی طرح۔ بلال نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ بلال سمجھ گیا کہانی کچھ اور ہے۔
فجر کی نماز کے بعد اس نے دعا کی :
’’ یااللہ میری مدد کر…!‘‘ بس ایک جملہ اس نے کئی بار دہرایا صرف ایک جملہ نماز سے فارغ ہوکر وہ مسلسل بے چین تھا اس نے ناشتہ بھی نہیں کیا، کبھی وہ چلنا شروع ہوجاتا اِدھر سے اُدھر کبھی بیٹھ جاتا اس کے ذہن میں DJکے الفاظ گونج رہے تھے :
’’اس چھمک چھلو کو گاڑی میں ڈال ‘‘ان الفاظ سے اس کا دماغ پھٹ رہا تھا اس نے دروازہ کھولنے کے لیے ناب پر ہاتھ رکھا پھر اٹھالیا۔ دستک کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا پھر روک لیا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اندر جائے یا نہیں دستک دے کر پوچھ لے۔
اتنے میں BG توشی کے کمرے سے نکلی۔
’’بلال…! تم…یہاں…؟ ناشتہ دے کر آئی ہوں‘‘BGنے اسے بتایا۔ بلال اندر چلا گیا۔ ناشتے کی ٹرالی ان کے سامنے پڑی ہوئی تھی مگر ان دونوں نے ناشتے کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔
’’تھوڑا سا کھالو‘‘توشی اصرار کر رہی تھی۔
’’چلو یہ جوس پی لو…بس تھوڑا سا…آئو بلال بیٹھو…ناشتہ کرلو…‘‘توشی نے بلال کو دیکھ کر کہا۔
وہ دونوں اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ناشتے کی ٹرالی ان کے سامنے بیڈ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ بلال کرسی لے کر ٹرالی کی دوسری طرف نوشی کے بالکل سامنے بیٹھ گیا۔ صبح کے 11بج رہے تھے۔ بلال اس سے پہلے دو دفعہ DJ کے کمرے میں گیا تھا۔ مگر وہ سویا ہوا تھا۔ اس نے مناسب نہیں سمجھا کہ اسے اٹھائے اسی طرح اس نے نوشی کے کمرے کے کتنے چکر لگائے تھے ۔
’’تم اب آئے ہو…؟‘‘نوشی شکوے کے انداز میں بولی۔ اس کی آنکھوں میں نمکین پانی جلن کر رہا تھا، آنسو گالوں پر گرنا شروع ہوگئے ۔ بلال خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جس پر بہت سارے گلے شکوے تھے۔
’’جب خبر ہوگی…تبھی آئے گا‘‘توشی نے بلال کی وکالت کی۔
’’تم تو کہتی تھی …کہ محبت کرنے والے محبوب کی سانسوں کا بھی حساب رکھتے ہیں…یہاں تو زخموں کی بھی خبر نہیں‘‘نوشی نے بلال کی لاعلمی کو نقص بتایا۔ بلال توشی کی طرف متوجہ ہوا۔
’’تم جانتی ہو…کون تھے وہ لوگ…؟‘‘بلال نے توشی سے پوچھا۔ توشی نے لاعلمی سے گردن ہلادی۔ بلال اٹھا اور کمرے سے نکل آیا۔ DJ ابھی تک سویا ہوا تھا۔ SMSگھر کے کام کاج میں مصروف تھا اور خان صاحب بھی موجود نہیں تھے۔
بلال اپنی گاڑی لے کر گھر سے نکل گیا۔ نوشی ٹیرس پر کھڑی دیکھ رہی تھی، کمرے میں آکر توشی سے پوچھا:
’’آج کون سا دن ہے…؟‘‘
’’سنڈے …کیوں پوچھ رہی ہو…؟‘‘توشی نے سوال کیا۔
’’چلے گئے ہیں…‘‘ نوشی نے طنز سے کہا۔
’’کون…؟‘‘توشی نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
’’جن پر آپ کو مان تھا…اب پتہ کرو…بھائی اور ماما بھی کچھ کریں گے یا پھر زبانی جمع خرچ ہی…‘‘نوشی کے الفاظ تو ادب لحاظ والے تھے مگر اس کا انداز انتہائی تیکھا تھا۔
توشی اٹھی اور جلدی سے شعیب کے کمرے کی طرف روانہ ہوئی۔ جب دروازے پر دستک دینے لگی تو اندر سے ناہید اور شعیب بلند سروں میں جھگڑ رہے تھے۔
’’فار گاڈ سیک آپ سمجھنے کی کوشش کریں وہ لوگ بہت پاور فل ہیں…پولیس کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں…پلیز ماما …! آپ میری بات سمجھیں…آپ خوامخواہ ایموشنل ہورہی ہیں…‘‘
’’چلو ٹھیک ہے…ان سے کہو وہ آکر نوشی سے معافی مانگ لیں‘‘ناہید غصے سے بولی۔
’’امپاسبل …ایسا نہیں ہوسکتا‘‘شعیب نے جلدی سے کہا۔
’’امپاسبل…تم بھائی ہو…؟اتنا بڑا الیکٹرک شاک مجھے رات کو نوشی کی بات سن کر نہیں لگا تھا…جتنا تمہاری یہ بات سن کر لگا ہے…‘‘
’’چلو سلوشن بتائو‘‘ناہید نے سخت لہجے میں پوچھا تھا۔
’’رات گئی بات گئی‘‘شعیب نے گوگی بٹ کا جملہ دہرایا۔
’’Are you mad?‘‘ناہید غصے سے چلائی ۔
’’بی پریکٹیکل ماما…! مجھے پتا ہے آپ ڈسٹرب ہیں…مگر ریالٹی یہی ہے…‘‘شعیب اطمیان سے اپنی ماں کو سمجھا رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔ ناہید ملامتی نظروں سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی ۔ اس نے افسوس سے ٹھنڈی آہ بھری اور غصے سے کمرے میں سے نکل آئی۔ توشی باہر کھڑی تھی، دروازے سے کان لگائے ہوئے۔ ناہید نے کھاجانے والی نظروں سے توشی کو دیکھا اور پائوں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
’’کیا ہوا …کیا کچھ کہا ماما اور شعیب بھائی نے۔ ‘‘ نوشی فوراً بول اٹھی۔ توشی کو دیکھ کر جب وہ اپنے کمرے میں واپس لوٹی۔
’’DJسچ کہتا ہے …بڑا غیرت مند بھائی ہے ہمارا…شعیب بھائی پتہ کر رہے ہیں…انہوں نے کہا معافی تو انہیں ہر حال میں مانگنا پڑے گی‘‘توشی جھوٹی مسکراہٹ سے نوشی کو بتا رہی تھی ۔
(جاری ہے)