29 C
Lahore
Tuesday, April 23, 2024

Book Store

جوہری کی آنکھ(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

اٹھارہویں قسط
(18)

جوہری کی آنکھ

’’فوزیہ بیٹی…! چلی جاؤ۔ رانیہ کا پھر فون آیا تھا۔ آخر پرانے ہمسائے ہیں۔ آج کل تو اپنے رشتے دار امیر ہو جائیں تو وہ غریب رشتے داروں کو نہیں بلاتے۔ یہ تو صرف ہمسائے تھے۔‘‘ فوزیہ کی خالہ نصرت اُسے تیل مہندی پر جانے کے لیے قائل کر رہی تھی۔
’’فوزیہ.! پہلے یہ دوائی کھا لو۔‘‘ فوزیہ کی ماں ثریا نے کہا۔ اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی۔
نصرت دروازے کی طرف روانہ ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد بلال دو شاپر بیگ اُٹھائے فوزیہ کے کمرے میں داخل ہوا۔
’’السلام علیکم !کیا حال ہے فوزیہ جی؟‘‘ بلال  نے پوچھا۔
فوزیہ بلال کو دیکھ کر بیٹھ گئی جو اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔
’’سر…آپ…یہاں…بارش میں…‘‘ فوزیہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’بیٹھنے کے لیے نہیں کہو گی…‘‘بلال مسکراتے ہوئے بولا۔
’’کیوں نہیں بیٹا…تمہارا اپنا گھر ہے…‘‘ثریا نے جلدی سے لکڑی کی کرسی بلال کی طرف کر دی۔
’’بیٹھو بیٹا جم جم بیٹھو…میں چائے لے کر آتی ہوں‘‘
’’امی …! چائے میں چینی نہیں ڈالنی…اور پتی اچھی طرح کاڑھ لیجیے گا… ہاں وہ…اس سیف میں نیا تولیہ ہے…وہ بھی دے دیں…‘‘فوزیہ نے اپنی ماں کو ساری ہدایات ایک ساتھ دیں۔
’’سر…یہ فروٹ کیوں لائے آپ…؟‘‘فوزیہ منہ بنا کر بولی۔
’’اس لیے …کہ تم بیمار ہو…‘‘بلال جانچتی نگاہوں سے دیکھ کربولا۔
’’کیا لیاقت کا فون آیا تھا ؟‘‘
’’سر…قسم سے …بڑے چالو ہیں آپ…دو سال آپ کے ساتھ کام کیا ہے اتنا تو میں بھی سمجھتی ہوں۔ میرا چہرہ دیکھ کر آپ کو معلوم ہوگیا ہے…‘‘
’’کیا معلوم ہوگیا ہے مجھے …فوزیہ جی…؟‘‘
’’یہی کہ لیاقت نے فون کیا تھا …رو رہا تھا …پہلے تو دو دفعہ میں نے فون کاٹ دیا …پھر میں نے اٹھالیا…معافیاں مانگ رہا تھا …پھر مجھے ترس آگیا ‘‘
’’اچھا …اچھا…‘‘بلال نے لمبا سا اچھا کہا تو فوزیہ سمجھ گئی کہ بلال نے اس کا مذاق اڑایا ہے۔
’’سر…! قسم سے …آپ مریض کا بھی مذاق اڑاتے ہیں‘‘
’’مریض کہاں سے ، ایک دم ٹھیک ہو‘‘بلال نے کہا۔
’’سر… !… وہ آپ کے دوست ڈاکٹر محسن بڑے اچھے انسان ہیں، بالکل منا بھائی ایم بی بی ایس کی طرح، سر…! رات کو تو وہ اپنے گھر سے ہمارے لیے کھانا بھی لائے تھے ۔ ‘‘
’’بلال بیٹا چائے …‘‘ نصرت نے ایک چھوٹی میز پر نمکو بسکٹ اور چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو بلال بیٹا میں اسے کہہ رہی ہوں کہ آج رات کو تیل مہندی ہے، وہاں چلی جائے، میں بھی ساتھ چلوں گی مگر مانتی ہی نہیں‘‘
’’سر آپ آئیں گے نا …‘‘فوزیہ نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’میں تو نہیں آؤں گا …مگر تم ضرور جانا…اسکول کے سامنے والا شادی ہال ہے نا…؟‘‘ بلال نے تصدیق چاہی۔
’’جی سروہی ہے…تیل مہندی اور بارات اسی ہال میں ہیں‘‘
’’قسم سے …سر…پاس ہی تو ہے‘‘بلال نے فوزیہ کی نقل اتاری ۔
’’آج بلال بھائی کہاں ہیں؟ ‘‘عادل نے بابا جمعہ سے پوچھا۔
’’وہ نہیں آئے گا …اس کا فون آیا تھا …کچھ مصروف ہے ‘‘بابا جمعہ جوتا سلائی کرتے ہوئے بولے۔
’آپی وہ سڑک کے پار موچی ہے ناں، یہاں بلال بھائی آتے ہیں’‘‘DJ گاڑی سڑک کنارے روک کر ہاتھ کے اشارے سے نوشی کو بتارہا تھا۔
’’Realy how Disgusting‘‘نوشی حقارت سے بولی۔
’’What Nonsense‘‘توشی نے نوشی کے رویے پر ری ایکٹ کیا۔
’’ایک بزرگ آدمی ہے اپنی محنت کر رہا ہے اس میں برائی کیا ہے ‘‘
’’ایک انتہائی پڑھا لکھا آدمی جو کہ اس شہر کے مشہور اسکول کا پرنسپل بھی ہے اور جس کا تعلقElite کلاس سے ہے، تمہارے بلال صاحب ، یہاں آتے ہیں، اس بڈھے موچی کے پاس۔ ‘‘
’’So What‘‘ توشی نے پھر بلال کی وکالت کی۔
’’اس میں کونسی برائی ہے وہ کونسا گناہ کر رہا ہے ،یہاں آ کر؟‘‘
’’Are You Mad?‘‘نوشی نے تلخ لہجے میں کہا۔
’’آؤDJ …! بڈھے کی خبر لیتے ہیں‘‘
’’رکو…تم لوگ …!!میں جاتی ہوں۔‘‘ توشی نے ان دونوں کو روکا۔ اس ڈر سے کہ کوئی بدتمیزی نہ کر دیں۔
’’السلام علیکم…بابا جی …!‘‘ توشی نے یہ سوچ کر عقیدت سے سلام کیا کہ اگر بلال یہاں آتا ہے تو کوئی خاص بات ضرور ہو گی۔
’’وعلیکم السلام…جی بیٹا جی …کیا خدمت کروں…؟‘‘بابا جمعہ نے جواب دیا۔
’’آپ بیگ وغیرہ بھی سلائی کرلیتے ہیں۔ ‘‘ توشی نے جھوٹ موٹ پوچھا۔
’’تم خود آئی ہو کہ گاڑی والی نے بھیجا ہے۔ ‘‘ بابا جمعہ حلیمی سے بولے۔
’’جی وہ میں…میں بیگ سلائی کروانا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’عادل بیٹا … ایک تو کیک لے کر آؤ…اور دوسرا اقبال کو چائے کا فون کر دو…نمبر اس میں ہے …‘‘بابا جمعہ نے کاپی عادل کو تھما دی۔ عادل اپنی جگہ سے اٹھ کر چلا گیا اور اقبال کا نمبر اس نے دیکھ لیا کاپی سے
’’آؤ بیٹا جی…یہاں بیٹھو…‘‘ بابا جمعہ نے اپنے کندھے سے اپنی چادر اُتار کر کارپٹ کے ٹکڑے پر بچھا دی۔
’’آپ بڑی ہو…یا وہ گاڑی والی…‘‘
’’جی …وہ‘‘توشی حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ بولی۔
’’اچھا تو تم تسلیم ہو…اور وہ ہے …نسیم…‘‘
’’یہ بڈھا موچی تو بڑا تیز ہے‘‘ توشی نے اپنے دل ہی دل میں کہا۔
’’جی بیٹا…آپ نے کیا کہا مجھے…‘‘بابا جمعہ نے پوچھا جوہری کی آنکھ سے دیکھتے ہوئے ۔
’’نہیں …نہیں کچھ بھی نہیں…آپ ہمیں کیسے جانتے ہیں؟ ‘‘
’’جس کی وجہ سے آپ بیٹا جی یہاں آئی ہو…اسی کی وجہ سے جانتا ہوں۔ وہ باپ ہی کیا …جو بیٹے کی آنکھوں کی تحریر نہ پڑھ سکے ‘‘
’’مطلب…میں سمجھ نہیں پائی…‘‘توشی ہولے سے بولی۔
’’اس کا تو پتہ نہیں…میں اسے اپنا بیٹا سمجھتا ہوں‘‘
’’اور ہمارے نام…وہ بھی اصل والے‘‘توشی دھیمے لہجے میں بولی۔
’’آپ کے نام آپ دونوں کی شخصیت کے مطابق ہیں، تسلیم یعنی مان جانے والی اور نسیم ہوا کو کہتے ہیں۔ اللہ کرے یہ نسیم، نسیمِ سحر بن جائے۔
عادل کیک اور ببلو چائے لے کر آچکا تھا، بابا جمعہ نے بابر یعنی ببلو کو بتایا یہ دو کپ چائے اور کیک اس سرخ گاڑی میں دے آئو۔
عادل لکڑی کا اسٹول لے کر بیٹھ گیا اور یہ تینوں چائے پینے میں مصروف ہوگئے ۔
’’بابا جی …! آپ نے اپنا نام نہیں بتایا‘‘توشی چائے کا سپ لیتے ہوئے بولی جو کہ اب گھل مل گئی تھی بابا جمعہ کیساتھ۔
’’میرا نام…جمعہ خاں میواتی ہے‘‘
’’یہ بھی کوئی نام ہوا…جمعہ خاں میواتی‘‘توشی نے دو ٹوک رائے دے دی
’’آپ پٹھان ہیں کیا؟‘‘
’’نہیں بیٹا جی…!میں میو یعنی میواتی ہوں اور میں خاں ہوں خان نہیں…صرف ایک نقطے کا فرق ہے اکثر نقطے کا فرق سارا معنی بدل دیتا ہے اور سارا مطلب بھی‘‘
’’بابا جی…جمعہ کا کیا مطلب ہے‘‘توشی نے جلدی سے پوچھا۔ آج پہلی دفعہ تھا عادل خاموشی سے بات سن رہا تھا۔
’’بیٹا جی…! جمعہ کا مطلب جمعہ ہی ہے ، ہمارے بزرگ بڑے سادہ لوگ تھے، میرے باپ کا نام سفید خاں میواتی تھا اور میرے دادا کا نام موج خاں میواتی تھا‘‘
’’پھر بھی کوئی مطلب تو ہوگا…بابا جی‘‘عادل خاموش نہیں رہ سکا۔
’’بچو…! ایک مطلب ہے Friday‘‘بابا جمعہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بابا جمعہ عادل کی طرف دیکھتے ہوئے بولے :
’’اکثر دانشوروں سے پوچھا ہے مجھے جواب نہیں ملا… عادل بیٹا…! اگر پتہ چلے تو مجھے بھی بتائیے گا‘‘
’’اور بابا جی…بلال کا کیا مطلب ہے‘‘توشی نے سنجیدگی سے پوچھا جوکہ اپنی چائے ختم کرچکی تھی۔
’’بلال کا مطلب ہے…عشق…‘‘بابا جمعہ عقیدت سے بولے۔
’’اور عشق کا مطلب کیا ہے ‘‘توشی نے یک لخت پوچھا۔
’’عشق کا مطلب ہے بلال … بلال کا مطلب ہے عشق‘‘
’’میں صرف نام بلال کا مطلب جاننا چاہتی ہوں ‘‘توشی بے قراری سے بولی۔
’’بیٹا جی…! کچھ نام خود میں اتنے بڑے ہوتے ہیں…کہ مطلب ان کے آگے چھوٹا پڑ جاتا ہے اور ایسا ہی ایک نام …بلال …بھی ہے ‘‘
DJ پاس کھڑا اطلاع دے رہا تھا اور چائے کی ٹرے اس کے ہاتھ میں تھی۔
’’بابا جی…! آپی آپ کا شکریہ ادا کر رہی تھی …اور آپ کو بلارہی ہیں‘‘DJنے توشی کی طرف دیکھ کر کہا۔
توشی وہاں سے جاچکی تھی، DJ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ایک دفعہ پھر غور سے بابا جمعہ کو دیکھا گاڑی میں جاتے ہوئے۔
’’تم بھی حد کردیتی ہو…‘‘نوشی نے خفگی سے کہا۔
’’آپی جی…! یہ تو وہی بات ہوگئی…جاسوس کودشمن کے علاقے میں جاسوسی کے لیے بھیجا جائے اور وہ رشتہ داری کر لے دشمنوں کے ساتھ ‘‘
’’شٹ اَپ DJ۔‘‘توشی بھڑکی۔ نوشی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
’’ویسے آپی…چائے مزیدار تھی…دودھ پتی تھی، پانی کا قطرہ بھی نہیں تھا۔‘‘
’’BG…تم دونوں کے بارے میں صحیح کہتی ہے۔ ایک SMS اور دوسرا DJ کھانے پینے کے یار ہیں۔‘‘ توشی نے اپنا غصہ DJ پر نکالا۔
’’اس پر کیوں بھڑک رہی ہو…اس نے تو ٹھیک بات کی …تم تو بڈھے موچی سے ایسے باتیں کر رہی تھیں…جیسے اسے سالوں سے جانتی ہو۔‘‘نوشی نے DJ کا دفاع کیا۔
’’میں تو انہیں نہیں جانتی… مگر وہ ہم دونوں کو سالوں سے ہی جانتے ہیں‘‘اس بار توشی نے بابا جمعہ کا ذکر عقیدت سے کیا تھا۔
’’کیا مطلب سالو ں سے جانتے ہیں؟ ‘‘نوشی کو تشویش ہوئی ۔
’’مطلب پھر بتاؤں گی۔ ‘‘ توشی نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ باتوں باتوں میں اُن کی کار گھر پہنچ گئی تھی۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles