ایک ذہین وکیل کا عجب فسانہ، وہ ہر قیمت پر جیتنا چاہتا تھا
کیری ہرمن سیارہ زہرہ کے زیریں علاقے میں رہنے والا ایک وکیل تھا۔ آج وہ اپنے ایک پرانے دوست سے ملنے زہرہ کے فضائی موسمی اسٹیشن میں داخل ہوا۔ برک مکنٹائر ادھیڑ عمر شخص تھا۔ وہ زیادہ تر اسی پرواز کرتے ہوئے موسمی اسٹیشن پر ہوتا۔ اپنی خود کار کرسی پر بیٹھے ہوئے اس کے کانوں پر باریک تار کی طرح مائیکرو اسپیکر اور منہ کے سامنے اسی طرح کا مائیکروفون لگا ہوا تھا۔
وہ موسمی اسٹیشن سے ٹکرانے والی ہواؤں کی آواز سن رہا تھا۔ ساتھ ساتھ زہرہ کے موسم کا تجزیہ بھی کر رہا تھا۔ اسے بہترین سپر کمپیوٹر اور دیگر میکانکی آلات کی مدد حاصل تھی۔ خشک خوراک بھی اچھی خاصی مقدار میں یہاں موجود تھی۔ وقتاً فوقتاً ادارے کے افراد یہاں خوراک فراہم کرتے رہتے تھے۔
تمہارے پاس دس منٹ اور ہیں۔ ہرمن بولا۔
تمہیں معلوم ہے کہ میں یہاں کتنی مشکل سے فارغ ہو کر آیا ہوں۔
مکنٹائر اپنے بھاری جسم اور بڑی آنکھوں کےساتھ مخصوص دانشورانہ انداز میں بولا
مشکل؟ لگتا ہے کہ تم زیریں علاقے کے باشندے اپنے ’’جنتی باغ‘‘ کو خوب استعمال کر چکے۔ تب ہی ایسی بات کر رہے ہو۔ دس منٹ بعد ہم انتہائی بلندی پر ہوں گے۔ اس صورت میں نیچے جانے پر کھوجی پارٹیوں کو تمہاری ہڈیاں تک ایک جگہ نہیں ملیں گی۔
ہرمن بے یقینی کے عالم میں ہنسا ’’میں تو صرف ایک جھٹکے سے اچانک یہاں آیا ہوں۔ میری زندگی کا ایک اہم قاعدہ بھی یہ ہے کہ جو کام کرنا ہو بالکل اچانک کرو۔ اسی لیے میرا وجود اس قدر بے چین رہتا ہے۔‘‘
’’اور تم بہت جلد قبرستان میں ہو گے۔‘‘ مکنٹائر نے جوب دیا۔
’’درحقیقت تم ناعاقبت اندیش ہو۔‘‘ ہرمن بھی ترکی بہ ترکی بولا۔ ’’تم بھی تو بہت بور انسان ہو۔ تم میرا مذاق اُڑانے کے بجائے مجھے اپنے بارے میں کچھ بتاؤ کہ تم اس قدر گوشہ نشین کیوں ہو؟ آخر تم کرتے کیا ہو؟‘‘
’’میں اپنی میز پر ہوتا اور موسمی ڈیٹا تیار کرتا ہوں۔ یہ سب ڈیٹا میں نیچے شہر میں قائم موسمیاتی مرکز کو نشر کر دیتا ہوں۔ یہاں اسٹیشن پر ایک مشاہداتی مشین موجود ہے، جو مجھے مختلف باتوں کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے۔ ہم یہاں پر جو دماغ استعمال کرتے ہیں، وہ حرفِ آخر ہے۔ یہ مشاہدات حاصل کر کے انھیں واضح کرتا ہے۔ آسان حسابات میں تبدیل کرتا اور اس طرح بالکل صحیح نتائج اخذ کر کے ہمیں مطلع کر دیتا ہے۔ میرا کام ان تمام نتائج کے ذریعے موسم کی ایک تصویر بنانا ہے۔ یہ تصویر مکمل کر کے میں زیریں علاقے کی جانب بھیج دیتا ہوں۔
مزید یہ کہ دماغ (کنٹرول سسٹم) حرارت اور روشنی کے پلانٹ بھی چلاتا ہے۔ یہ خودکار طور پر اسٹیشن کی مرمت بھی جانچتا رہتا ہے۔ یہ ہدایات سنتا اور ان میں رہ جانے والی خامیوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ اس میں ایک علیحدہ حصہ نظریاتی مسائل حل کرتا ہے۔‘‘
’’گویا یہ ایک چھوٹا سا دیوتا ہوا۔ کوئی غلطی نہیں، ناقابلِ شکست۔‘‘ ہرمن بے یقینی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بولا۔ ’’بالکل، تم یہ کہہ سکتے ہو۔‘‘ مکنٹائر نے جواب دیا۔
ہرمن نے کہا: ’’چھوڑو یار، کوئی مشین بھی مکمل نہیں۔ صرف بے انتہا باریک تاروں پر مشتمل اور انسان کے بنائے ہوئے ہزاروں پیغامات لیے ہوتی ہیں۔‘‘
مکنٹائر اس مشین کی حمایت میں بولا، ’’یہ بیم کنکشن کے استعمال سے اپنے اندر نظم و ضبط قائم رکھتی ہے۔ اس میں کوئی تار نہیں۔ مرمت خودکار طور پر انجام پاتی ہے۔ اس مشین میں اتنا کام ہوتا ہے کہ جیسے بہت وسیع ادارہ ہو۔ اس میں بیس مختلف حصے ہیں جو مختلف کام کرتے ہیں لیکن ہر حصہ بیک وقت بھی تمام اسٹیشن کو سنبھال سکتا ہے۔ حرارتی نظام سے حسابی عمل تک، سارا کام یہ مشین خود کرتی ہے۔ اگر صرف ایک حصے کا مشاہدہ کرو گے، تو تمہیں اندازہ ہو گا کہ اسٹیشن کا دماغ کتنا زیادہ کام کرتا ہے۔ یہ دماغ ہر طرح کے حالات سے نمٹ سکتا ہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ کیری ہرمن نے اپنا گال سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن اگر کوئی بات ایسی ہو گئی، جو اس دماغ کے بیسوں حصوں پر بھاری ہوئی تو کیا یہ مشین خود کو تباہ نہیں کر لے گی، یا پھر چپ ہو کر بیٹھ جائےگی۔‘‘
’’اسے بھول جاؤ کیری، انسان تو کیا دیوتاؤں کے بس میں بھی اس مشین کی کارکردگی متاثر کرنا نہیں۔ کوئی چیز بھی اسے اس کی فرائض کی ادائیگی سے نہیں روک سکتی۔‘‘
ہرمن کی آنکھیں چمک اُٹھیں، بولا ’’اگر میں تمہاری مشین کو چکرا دوں تو؟‘‘
’’زیادہ سنجیدہ مت ہو کیری۔ اگر تم یہ سوچتے ہو کہ توڑ پھوڑ مچا یا غلط بٹن دبا کر اس مشین کو دھوکا دے سکتے ہو، تو میں تمہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ کسی اور طریقے سے تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔‘‘
۔میں تم سے پانچ ہزار کریڈٹس کی شرط لگاتا ہوں۔‘‘ ہرمن دھیمے لہجے میں بولا۔
’’اگر تم مجھے صرف ایک منٹ کے لیے اس مشین کےساتھ تنہا چھوڑ دو تو میں اسے بے کار کر دوں گا۔‘‘
’’کیری، مجھے علم ہے کہ پانچ ہزار کریڈٹس میری سالانہ تنخواہ کے برابر ہیں مگر پھر بھی میں تم سے قطعاً کوئی شرط لگانا نہیں چاہتا۔ تم اس مشین کی پشت پر موجود ٹیکنالوجی سے ذرا بھی واقف نہیں۔ تمہیں نہیں معلوم کہ میں اتنا پُریقین کیوں ہوں۔ شرط لگانا میرے لیے کوئی مشکل نہیں، مگر یہ سراسر تم پر ڈاکہ ہو گا۔‘‘ مکنٹائر نے ہرمن کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’شرط اب بھی موجود ہے۔‘‘ ہرمن نے جیسے کوئی اثر نہیں لیا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے۔‘‘ مکنٹائر بھی غصے میں آ گیا۔ ’’اگر تم چاہتے ہو کہ عدم ادائیگی کے مقدمات بھگتو اور اپنی بے عزتی کرواؤ تو مجھے یہ شرط منظور ہے۔‘‘
ہرمن، مکنٹائر کے پیچھے چلتا ہوا سٹنگ روم سے باہر آ گیا، جس کی کھڑکی سے باہر سفید آسمان جھانک رہا تھا۔ یہاں سے نکل کر وہ دھاتی دیواروں والی ایک راہداری میں آ گئے۔ راہداری کے سرے پر ایک بڑا کمرا موجود تھا۔ اس کی دیواریں اور دروازہ سب کچھ شیشے کے تھے۔
مکنٹائر یہاں آ کر رک گیا۔ ’’وہ رہی مشین۔‘‘ اس نے شفاف دیوار کے پار ایک سمت اشارہ کیا۔ ’’اگر تمہیں مشین سے کوئی بات کرنی ہے تو وہاں بنی جالی کے سامنے جا کر بولنا۔ لیکن میں تمہیں ایک تنبیہہ کر دوں کہ اگر تمہارے ذہن میں اب بھی توڑ پھوڑ کا کوئی خیال ہے تو اسے ترک کر دو، کیونکہ حرارت اور روشنی کے نظام میں کوئی ایمرجنسی کنٹرول نہیں۔ یہ نظام ایک چھوٹے ایٹمی ری ایکٹر سے چلتے ہیں، جسے قابو کرنا صرف اس مشین کے بس میں ہے۔‘‘
’’میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی چیز تباہ نہیں کروں گا۔ دیکھو نہ میرے دائیں ہاتھ میں کچھ ہے اور نہ بائیں ہاتھ میں۔ نہ ہی میں نے اپنے کپڑوں میں کوئی چیز چھپائی ہوئی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر ہرمن نے اپنے ہاتھ اُوپر کر دیے۔
’’جلدی جاؤ۔ میں تھوڑی دیر بعد تمہارے ساتھ کافی پینا چاہتا ہوں تاکہ تمہاری شکست پر دعوت ہو جائے۔‘‘ مکنٹائر نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ہرمن شفاف دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا اور دروازہ بند کر دیا۔ اب وہ دونوں ایک دوسرے کو صرف دیکھ سکتے تھے، سن نہیں سکتے تھے۔
مکنٹائر نے سگریٹ سلگایا اور ہرمن کو دیکھنے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا مشین کے پاس پہنچ چکا تھا۔ مکنٹائر نے سوچا کہ آدھ منٹ بعد ہی وہ باہر نکل کر اپنی شکست تسلیم کرے گا۔
ہرمن کی ایک عادت مکنٹائر کو سب سے زیادہ کھلتی تھی۔ وہ کسی کو برتر ماننے پر آمادہ نہیں ہوتا تھا۔ پُرسکون انداز میں سگریٹ کا کش لیتے ہوئے مکنٹائر نے سوچا کہ اب ہرمن اس مشین کو برتر ماننے پر مجبور ہو جائے گا جو اس کی یقینی شکست اور میری فتح ہو گی۔
سارے نظام اس قدر پُرسکون تھے، جتنا کہ مکنٹائر خود، اسے اپنی جیت کا یقین تھا۔ تیس سیکنڈ گزر گئے اور صرف تیس سیکنڈ باقی رہ گئے۔
مکنٹائر اپنے خیالوں میں مست تھا کہ اچانک اسٹیشن کی تمام روشنیاں بجھ گئیں اور حرارتی نظام بند ہو گیا۔ ایٹمی ری ایکٹر بے کار ہو گیا۔ ٹیلی ویژن، ٹیلی فون اور دیگر مواصلاتی نظام بالکل مردہ ہو گئے۔
راہداری میں ہلکی سی لال روشنی اور انٹر کام صرف اس لیے چل رہے تھے کہ ان کا تعلق ایک علیحدہ بیٹری سے تھا۔ مکنٹائر کنٹرول پینل پر آیا اور چیخا۔ ’’کیری تم نے مشین کے ساتھ کیا کیا؟‘‘
’’فکر نہ کرو، مشین اب بھی مکمل طور پر آپریٹ کی جا سکتی ہے۔‘‘ ہرمن نے جواب دیا۔
مکنٹائر تیزی سے کمپیوٹر پینل پر جھکا تاکہ مشین کو سارے نظام بحال کرنے کی ہدایت دے، لیکن پینل خود بھی بے جان تھا۔
’’یہ تم نے کیا کر دیا؟‘‘ وہ ہرمن پر چیخا۔
’’پہلے تم میری فتح تسلیم کرو، پھر میں یہ سب تمہیں بتاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں شکست کھا چکا۔‘‘
تمہاری مشین کام کے اعتبار سے تو بہترین ہو سکتی ہے، مگر منطق کے لیے بے کار ہے۔ ایک معمولی سے تناقص نے اس کا دماغ خراب کر دیا۔
مکنٹائر بھونچکا رہ گیا۔
ہاں تناقص نے۔ یہ میرے منطق کے نصاب میں شامل چھوٹا سا حصہ ہے، ایپی مندیس کا تناقص۔ جب تم باہر میرا انتظار کر رہے تھے تو میں نے مشین کے پاس جا کر کہا,
جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں، تم اسے مسترد کر دینا کیونکہ میرا ہر بیان جھوٹا ہے۔
مشین نےمیرا جملہ سنا اور فیصلہ کیا کہ اسے مسترد کر دے، لیکن اگر وہ میری بات درست مانتی تب ہی ایسا کر سکتی تھی۔ حالانکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں، وہ جھوٹ ہے۔
یعنی اگر مشین میرا جملہ درست مانتی تو وہی جملہ اسے مسترد کرنا پڑتا۔ اور اگر وہ میرا جملہ مسترد کرتی، تو وہی جملہ اسے درست ماننا پڑتا۔
تمہاری مشین میرے بیان میں اُلجھ کر رہ گئی اور اس کے اندرونی نظام بیکار ہو گئے، کیونکہ تمام ہدایات شاید یہی ’’دماغ‘‘ جاری کرتا ہے۔‘‘
مکنٹائر نے شدید غصے کے عالم میں کہا۔ ’’تم نے مشین تو بے کار کر دی مگر اب وہ کام کس طرح کرے گی؟ جبکہ وہ بالکل گونگی، بہری اور اندھی ہو چکی۔‘‘
پورے اسٹیشن پر سناٹا چھا گیا۔ زہرہ پر ہواؤں کے جھکڑ دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر شور پیدا کر رہے تھے۔ آوازیں بلند سے بلند تر ہو رہی تھیں۔ دونوں نے خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
اسٹیشن کا درجۂ حرارت بڑی تیزی سے گرتا جا رہا تھا۔
٭٭٭