وہ آخر اگست کی ایک چمکیلی اور روشن صبح تھی جب شاہدہ نے پہلی مرتبہ لیفٹینٹ اشفاق کو دیکھا۔ وہ اسی روز کراچی سے لاہور آیا تھا۔ اگرچہ گرمیوں کا موسم بڑی حد تک گزر چکا تھا اور درختوں سے زرد اور مرجھائے ہوئے پتے ٹوٹ ٹوٹ کر ہوا میں ڈولنے لگے تھے۔ تاہم ابھی سورج کی تمازت نہ جانے پائی تھی۔ دھوپ میں بیٹھنے سے یوں محسوس ہوتا جیسے چھوٹے چھوٹے دہانوں والی چیونٹیاں بدن میں کاٹ رہی ہوں۔
لیفٹینٹ اشفاق احمد اس وقت میجر توفیقی اور ان کی بیگم عذرا کے ساتھ بنگلے کے مشرقی برآمدے میں بیٹھا جنگ کے بارے میں باتیں کر رہا تھا۔ شاہدہ جب کمرے کا دروازہ کھول کر ہاتھ میں چائے کی ٹرے لیے داخل ہوئی اور اس کی پہلی نظر سامنے کرسی پر بیٹھے فوجی پر پڑی تو اس کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹتے چھوٹتے بچی۔ اس نے جلدی جلدی چائے کے برتن نائلن کی سرخ و سپید تاروں سے بنے ہوئے میز پوش پر چنُن دیے اور اس کی نچلی منزل میں ٹرے رکھ، الٹے قدموں واپس باورچی خانے چلی گئی۔
برآمدے سے باورچی خانے تک آتے آتے کتنا مختصر راستہ تھا لیکن آج وہ کتنا طویل ہو گیا۔ درمیان میں صرف دو کمرے ہی تو تھے، ایک بیٹھک اور دوسرا سونے کا کمرا مگر شاہدہ کو یوں لگا جیسے وہ صدیوں اس راستے پر چلتی رہی اور باورچی خانہ تک آتے آتے بوڑھی ہو گئی ہے۔ آتش دان میں کوئلے چٹخ چٹخ کر ارد گرد ننھی منی چنگاریاں اچھال رہے تھے۔ پر اس کے دل و دماغ میں تو خود غیر مرئی چنگاریاں پھوٹنے لگی تھی۔ اس نے سوچا یہ جوان اسے اتنا عجیب بھولا بھالا اتنا کھویا کھویا سا کیوں لگا ہے۔ آخر اس سے پہلے بھی تو اس گھر میں میجر توفیقی کے کئی نوجوان رشتہ دار کئی فوجی و سول دوست آتے رہے ہیں لیکن یہ لڑکا ان سب سے جدا جدا کیوں محسوس ہوا؟ اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکی۔ لیفٹینٹ اشفاق کی ایک جھلک، بس ایک جھلک، اس کی آنکھوں کے دور دراز گوشوں میں اُتر گئی تھی۔
وہی گول مٹول چہرہ، رنگ گندمی، بال سیاہ اور چمکیلے، آنکھیں جیسے موم بتی کی کانپتی ہوئی لو اور خاکی قمیص کے نیچے بھرے بھرے سڈول شانے، جن پر چاندی کے دو دو گلاب سجے ہوئے تھے۔
کچھ دیر بعد جب وہ لوگ چائے پی چکے تو میجر توفیقی کی بیگم عذرا نے شاہدہ کو آواز دی لیکن شاہدہ وہاں کہاں تھی۔ آواز پھر دی گئی۔ جواب نہ ملا۔ آخر عذرا خود اُٹھ کر باورچی خانہ تک آئی۔ اس کی جوتی کی ٹک ٹک بھی شاہدہ کے کانوں کو بیدار نہ کر سکی۔
عذرا نے دیکھا کہ شاہدہ آتش دان کے پاس لکڑی کی ایک چوکی پر زانوؤں میں سر دیے گم سم بیٹھی ہے۔ چھوٹی چھوٹی چنگاریاں اس پر اُچھل اُچھل کر دیوالی کی خوشیاں منا رہی ہیں۔
’’شاہدہ۔ او شاہدہ۔ تمہیں کیا ہوا ہے؟‘‘ بیگم نے اس کے کندھے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’چائے کے برتن اٹھا لو!‘‘
وہ ایک جھٹکے کے ساتھ جیسے خوابوں کے کسی دور دراز جزیرے سے ایک ہی پل میں لوٹ آئی۔ ’’جی۔ بیگم صاحبہ!‘‘
جب وہ میز پر سے چائے کے برتن سمیٹ رہی تھی تو اسے یوں لگا جیسے اس کی ٹانگیں عجیب سے انداز میں کپکپائی تھیں۔ وہ کرسی پر اُسی انداز میں بیٹھا تھا مگر اب کے شاہدہ اسے دیکھنے کی جرات نہ کر سکی۔ جب وہ ٹرے اُٹھا کر چلنے لگی تو میجر توفیقی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ ’’سنو شاہدہ! ہم ذرا شہر تک جا رہے ہیں۔ میرے دوست لیفٹینٹ یہیں ٹھہریں گے۔ ہمارے آنے تک تم ان کا بستر چھوٹے کمرے میں لگا دو۔‘‘
’’میرا تو خیال تھا۔‘‘ بیگم توفیقی نے مسکراتے ہوئے کہا
’’اشفاق صاحب ہمارے ساتھ ہی چلتے۔ گاڑی میں کیا تکلیف ہو گی؟‘‘
’’نہیں بھابھی پلیز!‘‘ لیفٹینٹ اشفاق نے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’میں بری طرح تھک چکا۔ کراچی سے یہاں تک کا سفر… اور وہ بھی مورچوں سے فوراً واپسی کے بعد۔‘‘ اس کے کچھ دیر بعد میجر توفیقی کی گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور کھلی سڑک پر چلی گئی۔
لیفٹینٹ اشفاق وہیں کرسی پر بیٹھا تھا۔ شاہدہ وہیں ٹرے لیے کھڑی تھی۔ سر سبز لان کی طرف سے ہوتی ہوئی سورج کی چمکیلی شعائیں ان کے قدموں کو چھونے لگی تھیں۔ پھر شاہدہ کچھ کہے سنے بغیر برتن لے کر اندر چلی آئی۔ برتن باورچی خانے میں رکھ کر اس نے چھوٹے کمرے میں جو مہمان خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، ایک پلنگ پر بستر بچھایا، تپائی کو پلنگ کے سرہانے رکھا اور اس پر گلدان سجایا اور اس کے ساتھ ہی پانی کا ایک گلاس رکھ دیا۔
جب وہ لیفٹینٹ اشفاق کا اٹیچی کیس اٹھانے بیٹھک میں آئی تو وہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔ اپنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھے دیواروں پر سجی تصاویر دیکھ رہا تھا۔
ایک تصویر میں کسی جھیل کنارے نرگس کے پیلے پیلے خوشنما پھولوں کی لمبی سی قطار تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے اور ہری ہری ڈالیوں پر جھکے ننھے ننھے نرگس کے پھول پانی کی لہروں کے ساتھ ساتھ رقص کر رہے ہیں۔ لیفٹینٹ اشفاق کی نظریں اس تصویر پر گڑ کر رہ گئیں۔ اس نے ایک طویل آہ کھینچی اور بولا یہ ’’کیسا دلکش منظر ہے۔ اسے دیکھ کر انگریزی کی ایک مشہور نظم ’’ڈیفوڈلز‘‘ یاد آ جاتی ہے… آئی وانڈر ڈایلون ایز اے کلاؤڈ… اوہ… جنگ کے بعد ڈرائنگ روم میں تصویریں دیکھنا عجیب سا لگتا ہے۔‘‘ اور پھر اس کی نظر شاہدہ پر پڑی جو ایک بڑے سے ریڈیو گرام کے پاس چپ چاپ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ خود بھی ایک خوبصورت ریڈیو گرام ہے جس کے اُوپر ہلکے جامنی رنگ کا غلاف چڑھا دیا گیا ہو۔ سفید شلوار، جامنی رنگ کی ریشمی قمیص، جو اسے بیگم توفیقی نے ابھی پچھلے اتوار ہی کو دی تھی۔ اور ململ کا اجلا ڈوپٹا، اس کے سانولے سلونے چہرے اس کے اکہرے بدن اور اس کی کھوئی کھوئی سی شخصیت پر کتنا پھب رہا تھا۔
’’میں نے آپ کا بستراس کمرے میں لگا دیا ہے۔‘‘ اس نے چھوٹے کمرے کی سمت اشارہ کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا اور بڑھ کر صوفے پر رکھا اس کا اٹیچی کیس اُٹھانے لگی۔
’’نہیں۔ نہیں۔ آپ تکلیف مت کریں۔‘‘ لیفٹینٹ نے لپک کر اٹیچی پکڑ لیا اورپھر وہ دھیمے قدموں سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ شاہدہ سوچتی رہ گئی یہ کسی قسم کا نوجوان ہے؟ شاید زندگی میں پہلی مرتبہ کسی نے اسے آپ کہا ہے۔
وہ کمروں کی جھاڑ پونچھ میں مصروف ہو گئی۔ جب وہ خواب گاہ میں بستر کی چادریں ٹھیک کر رہی تھی تو اسے لیفٹینٹ اشفاق کے گنگنانے کی آواز سنائی دی… وہی انگریزی کا مصرعہ… آئی وانڈر ڈایلون… اسے سن کر شاہدہ کو یوں محسوس ہوا جیسے موسم برسات کی کسی گھنگھور رات میں کونجوں کی ایک لمبی ڈار تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد پکارتی ہوئی آسمان پر اُڑی جا رہی ہے۔
کچھ دیر بعد میجر توفیقی اور عذرا بازار سے واپس آ گئے۔ مرتبہ وہ نعمان اور شمع کو اپنے ساتھ ہی لیتے آئے۔ وہ صبح سے اپنے کسی عزیز کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ نعمان کی عمر آٹھ نو سال اور شمع کی سولہ سترہ برس تھی۔ وہ شاہدہ سے عمر میں دو تین برس چھوٹی تھی لیکن اس سے کہیں زیادہ جاذبِ نظر، شوخ اور سج دھج والی تھی۔ گورا رنگ، بدن قدرے فربہ، کٹےہوئے بھورے بھورے بال، آنکھوں کی سیپیوں سے باہر کو نکلتی ہوئی سرمے کی دھاریں، ہونٹوں پر گلابی رنگ کی لپ اسٹک، کانوں میں سونے کی بالیاں، کپڑے چست اور گلے میں مفلر۔ باتیں کرنے میں وہ بڑی تیز اور ہوشیار تھی۔ بیگم توفیقی نے دونوں بچوں کا لیفٹینٹ اشفاق سے تعارف کرایا۔ شاہدہ بھی ان کے پاس کھڑی تھی۔ لیفٹینٹ نے اب اپنی فوجی وردی اُتار کر نیلی دھاریوں والا سوٹ پہن لیا تھا۔ــ
’’شمع، یہ ہیں تمہارے ابو کے ایک بڑے اچھے دوست لیفٹینٹ اشفاق۔ رن کچھ کے محاذ سے واپس آئے ہیں۔‘‘ بیگم نے تعارف کراتے ہوئے کہا ’’اور اشفاق صاحب یہ ہے میری بیٹی شمع توفیقی۔ اس نے اسی سال ایف۔ ایس۔ سی۔ پاس کیا ہے۔ اب میڈیکل میں داخلہ لینا چاہتی ہے اور یہ ہے میرا منا نعمان۔ تیسری جماعت میں ہے!‘‘
’’خوب۔ بھئی بہت خوب!‘‘ اشفاق نے نعمان کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیر کر شمع کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اور مس شمع توفیقی۔ آپ تو بہت جلد ایک نامور ڈاکٹر بننے والی ہیں۔ ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں! کیوں نہیں جناب!‘‘ شمع تڑاخ سے بولی:
’’جب آپ میدان جنگ سے زخمی ہو کر اسپتال میں آئیں گے تو…‘‘
’’ہٹ بے وقوف!‘‘ میجر توفیقی نے اسے ٹوک دیا۔
’’ایسے نہیں کہتے بیٹا۔‘‘ قریب کھڑی شاہدہ کو بھی اس لمحہ شوخ شمع پر بڑا غصہ آیا۔ ہتھنی کی ہتھنی ہو گئی مگر بات کرنے کی تمیز نہیں … مگر وہ اس غصے کا اظہار اپنے چہرے کے تاثرات سے قطعاً نہ کر سکی بلکہ اس پر ہلکی ہلکی سی بجھی بجھی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ اتنے میں نعمان نےاپنے ’’لو سی‘‘ کو کھول دیا جو سفید رنگ کا ایک چھوٹا سا آسٹریلین کتا تھا۔ آتے ہی وہ باری باری سب کے پاؤں میں لوٹنے لگا۔ اور پھر وہ بیٹھک میں جا بیٹھے۔ کسی نے شاہدہ کا تعارف کرانے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ بھلا اس کی ضرورت بھی کیا تھی؟ اگر کسی بچی کے ماں باپ مر جائیں اور وہ دنیا میں تنہا رہ جائے۔ پھر کوئی اس بچی پر خدا واسطے ترس کھا کر اس کی پرورش کرے اور وہ چپکے چپکے گلو کی بیل کی مانند بڑی ہو جائے تو آخر اس کا مہان سے تعارف کرانے کی کیا تک ہوئی؟ یہی بات اس وقت شاہدہ نے بھی سوچی اور چپ چاپ آنگن کی سنہری دھوپ میں جا بیٹھی۔
دن اسی طرح گپ شپ میں گزر گیا۔ رات کا کھانا معمول سے پیشتر ہی کھا لیا گیا۔ تب وہ لوگ فلم دیکھنے چلے گئے۔ گھر پر صرف شاہدہ اور نعمان ہی تھے۔
’’نومی! یہ کون ہیں؟‘‘ شاہدہ نے نعمان کو بستر میں سلاتے ہوئے پوچھا۔
’’لیفٹینٹ ہیں آرمی میں۔‘‘ نعمان انگریزی کے الفاظ بڑی خوبصورتی سے ادا کرتا تھا۔ ’’ابو کہتے ہیں یہ بڑے بہادر ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ شاہدہ نے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔
’’اور نہیں تو، پتا ہے اب وہ یہیں رہیں گے!‘‘
’’کیا کہا نومی!‘‘ شاہدہ نے چونک کر پوچھا ’’وہ ہمارے گھر ہی رہیں گے؟‘‘
’’نہیں، ہمارے گھر میں تو پتا نہیں رہیں کہ نہ رہیں… ابو کہتے ہیں اب ان کا تبادلہ لاہور ہو گیا ہے۔ کراچی سے آئے ہیں جناب!‘‘ نعمان نے کروٹ بدلی اور کچھ توقف کے بعد پھر بولا: ’’میں بھی بڑا ہو کر لیفٹینٹ بنوں گا اور اسی طرح وردی پہنوں گا۔‘‘
’’شاباش!‘‘ شاہدہ نے اسے تھپکی دی ’’اچھا منے، اب تم سو جاؤ!‘‘
کچھ دیر بعد نعمان کی منی پلکیں نیچے کو جھکتی گئیں۔ شاہدہ نے شمع سے سفید ساٹن کا ایک ٹکڑا اور چند رنگ برنگے دھاگوں کی تاریں مانگ رکھی تھیں۔ سوئی دھاگے لے کر وہ کپڑے پر کڑھائی کرنے لگی۔ بڑی خاموشی اور سکون سے۔ ایک بار اس نے لحظہ بھر کے لیے سوچا، وہ کتنی نادان ہے، یوں ہی اس لیفٹینٹ کے بارے میں سوچنے لگ گئی۔ بھلا اس کا اور شاہدہ کا کیا جوڑ؟ شاہدہ… ایک معمولی غیر تعلیم یافتہ لڑکی، جس کا کام صبح سویرے اُٹھنا، دن بھر گھر کا کام کاج کرنا اور رات گئے تھک ٹوٹ کر بستر میں دبک جانا۔ کسی لیفٹینٹ کے بارے میں سوچنا تو مس شمع توفیقی کو زیب دیتا ہے جو خوبصورت لباس پہنتی ہے، انگریزی میں گفتگو کر سکتی ہے اور… اور۔
اس سے آگے وہ کچھ نہ سوچ سکی۔ اس نے سر جھٹک کر یہ خیال ذہن سے نکال دینا چاہا۔ پھر سوچا، وہ لوگ سینما گھر میں مزے سے بیٹھے فلم دیکھ رہے ہوں گے۔ بات بات پر قہقہے گونجتے ہوں گے اور ہال میں بیٹھے دوسرے تماشائی بار بار ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوں گے۔ مس شمع توفیقی نے سبز رنگ کا سلکی سوٹ پہنا ہوا ہے اور لیفٹینٹ اشفاق نے آسمانی رنگ کا۔ اس کی نیلی ٹائی بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ اس کے ایک طرف میجر صاحب ہوں گے اور دوسری طرف مس شمع یا شاید بیگم صاحبہ‘‘۔
شاہدہ نے ایک بار پھر سر جھٹکا اور اس بیکار سوچ کو دماغ سے نکال پھینکنے کی کوشش کی لیکن… وہ نہ جانے کیوں ایسا نہ کر سکی… آپ نے دیکھا ہو گا شام کے وقت کبھی کبھار باہر سے کوئی چمگادڑ آپ کے کمرے میں گھس آتی اور کمرے میں اِدھر ادھر اڑنے لگتی ہے۔ آپ سہم سے جاتے اور اسے باہر نکالنے کے لیے ’’سی سی‘‘ کی آوازیں نکالتےہیں لیکن وہ باہر جانے کا نام نہیں لیتی۔ کبھی ایک دیوار کی طرف جاتی ہے اور کبھی دوسری کی طرف۔ کبھی چھت کے ساتھ لٹکتی اور کبھی آپ کے بالکل قریب سے گزر جاتی ہے… پھر جب آپ تھک جاتے ہیں تو وہ خود ہی روشن دان سے باہر اسی فضا میں واپس چلی جاتی ہے جہاں سے آئی تھی۔
شاہدہ کے ذہن میں بھی لیفٹینٹ اشفاق کا خیال کچھ اسی طرح داخل ہوا تھا۔ کبھی یہاں، کبھی وہاں، کبھی ٹھہر جاتا، کبھی پھر اُڑنے لگتا۔ اسی عالم میں ایک بار تیز نوک والی سوئی اس کے انگوٹھے میں چبھ گئی۔ خون کے دو تین لال لال قطرے ٹپک کر کپڑے میں جذب ہو گئے۔ شاید یہ اس کی خاموش محبت کا پہلا نذرانہ عقیدت تھا!
اگلی صبح میجر توفیقی کے دفتر جاتے ہی بیگم توفیقی، شمع، نعمان اور لیفٹینٹ اشفاق موٹر میں بیٹھ کر راوی کی سیر کرنے چلے گئے۔ شاہدہ کو پھر گھر پر ہی چھوڑ دیا گیا کیونکہ خانساماں چند روز کی چھٹی پر گیا ہوا تھا۔ گھر میں سوائے شاہدہ کے اور کسے چھوڑا جاتا؟
اسی روز دوپہر کا کھانا کھا کر میجر توفیقی اور عذرا قیلولہ کر رہے تھے۔ شمع اور شاہدہ لان میں گلاب کے پھولوں کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں۔ شمع سر سبز گھاس پر لیٹی کوئی ناول پڑھ رہی تھی۔ شاہدہ رومال بنانے میں مصروف تھی۔ اتنے میں لیفٹینٹ اشفاق باہر چلا آیا۔ اسے اپنی طرف آتا دیکھ کر شاہدہ سنبھل کر بیٹھ گئی مگر شمع اسی طرح ٹانگیں پسارے لیٹی رہی جیسے اس نے کوئی نوٹس ہی نہ لیا ہو۔
’’آپ کا بنگلہ بڑا خوبصورت ہے!‘‘ اشفاق نے قریب آ کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’مس شمع! میں ایک پھول توڑ سکتا ہوں؟‘‘
’’کیوں نہیں؟‘‘ شمع نے اسے متبسم نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ٹھہریے، میں خود آپ کو توڑ دیتی ہوں شاید آپ کو کانٹے چبھ جائیں!‘‘
وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھی اور کیاری میں سے قرمزی رنگ کا یک گلاب توڑنے لگی۔ لیفٹیننٹ اشفاق شاہدہ کے پاس کھڑا تھا اور وہ چھوئی موئی بنی بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ رک گئے تھے اور دل بے اختیار زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔
’’ارے آپ تو بڑے خوبصورت رومال بناتی ہیں!‘‘ اشفاق نے اس کے ہاتھوں میں خوبصورت حاشیے والا رومال دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔ ’’دیکھوں تو، کون سا پھول بن رہا ہے۔‘‘
اور پھر جیسے شاہدہ نہیں، کسی اور ہی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر رومال لیفٹیننٹ کو پکڑا دیا۔
’’شاید، یہ نرگس کا پھول بن رہا ہے۔‘‘ وہ رومال دیکھتے ہوئے بولا۔
’’جی ہاں۔ ’’شاہدہ نے پہلی بار سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کے چہرے پر کتنی معصومیت تھی۔ مہین ہونٹوں پر شگفتگی کی ایک موہوم سی تہ چمک رہی تھی اور آنکھوں میں جیسے محبت کا طوفان موجزن تھا۔
’’یہ لیں۔ دیکھیں اس کا رنگ کتنا حسین ہے!‘‘ شمع نے لیفٹیننٹ کو پھول تھماتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ نے اس وقت کوٹ پہنا ہوتا تو میں اس میں ٹانک دیتی۔‘‘
’’شکریہ مس شمع توفیقی!‘‘ اشفاق نے پھول لے کر اسے نتھنوں کے قریب لے جاتے ہوئے جواب دیا اور پھر لمبا سانس لے کر بولا۔ ’’آپ نے ان سے تو ہمارا تعارف کرایا ہی نہیں۔ دیکھیں یہ کتنی اچھی کشیدہ کاری کرتی ہے۔‘‘
’’یہ شاہدہ ہے۔‘‘ شمع نے بے ساختگی سے کہا اور شاہدہ کی نگاہوں میں سارا بنگلہ ایک دم سے گھوم گیا۔ بنگلے کی چھت کے اس پار نیلا آسمان تھرکنے لگا۔ شمع کہہ رہی تھی ’’ہمارے پاس ہی رہتی ہے۔ ابھی میں پیدا بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس کے والدین ایک حادثہ کا شکار ہو گئے تھے۔‘‘
اور اس کے بعد لمبی خاموشی پھیل گئی۔ قریب ہی کیل کے ایک ریشمی پیڑ پر کوئی بلبل چہچہانے لگا۔ اشفاق نے چپکے سے رومال شاہدہ کی سمت بڑھایا اور اس نے خاموشی سے اسے تھام لیا۔ شمع ناول کھول کر اس کے اوراق پلٹنے لگی۔ اشفاق کچھ کہے سنے بغیر لان کی دوسری طرف بڑھ گیا۔ جہاں کینو اور مالٹے کے درخت ایک دوسرے سے الجھ رہے تھے۔
دو دن گزر گئے۔ لیفٹیننٹ اشفاق کے اعزاز میں پُرتکلف کھانے پکائے گئے۔ ریڈیو گرام پر دیس بدیس کے ریکارڈ بجے۔ میجر توفیقی اور اشفاق رات گئے تک ایک دوسرے کے ساتھ شطرنج کھیلتے۔ مس شمع توفیقی نے بہت سے لطیفے اور ننھے نعمان نے اپنی کتابوں کی اُردو انگریزی نظمیں بڑے مزے لے لے کر سنائیں، بیگم توفیقی نے کچھ اِدھر اُدھر کے قصے بیان کیے اور اس طرح وقت آگے سرکتا رہا۔
ایک روز جب شاہدہ غسل کرنے میں مصروف تھی تو لیفٹیننٹ اشفاق اپنا اٹیچی کیس لے کر ہیڈ کوارٹرز میں حاضری دینے چلا گیا۔شاہدہ کو یہ جان کر سخت صدمہ ہوا کہ وہ اسے بوقت روانگی نہ مل سکی۔ تاہم شمع کی اس بات سے اسے قدرے ڈھارس ملی کہ اب وہ لاہور میں ہی رہیں گے اور کہتے تھے کہ ہفتہ میں ایک آدھ چکر لگاتا رہوں گا۔ بیگم توفیقی اور نعمان نے اسے خصوصی تاکید کی تھی۔
پھر حالات کچھ ایک دم پلٹ سے گئے۔ یوں جیسے آسمان پر چودہویں کا چاند بڑی آب و تاب سے چمک رہا ہو اور ہر چیز چاندنی کے مقدس کہرے میں نہا رہی ہو کہ اچانک کہیں سے گھنگھور گھٹا اُٹھ کر آسمان پر محیط ہو جائے۔ چاند سیاہ سمندروں میں ڈوب جائے اور نورانی کہرہ تاریکی میں جذب ہو کر رہ جائے۔ کچھ اسی طرح واقعات نے رخ بدلا تھا۔
میجر توفیقی کو صدر مقام سےایک ضروری میٹنگ کے لیے طلب کر لیا گیا اور وہ راولپنڈی چلے گئے۔ گھر پر ریڈیو کی خبریں زیادہ محویت اور انہماک سے سنی جانے لگیں۔ شاہدہ کو پتہ چلا کہ آزاد کشمیر میں پاکستان اور بھارت کی لڑائی چھڑ گئی ہے۔ میجر توفیقی دو تین روز تک گھر واپس نہ آئے۔ البتہ ایک شام انھوں نے ٹیلیفون پر عذرا کو اطلاع دی کہ ملکی حالات نازک تر ہو رہے ہیں اور بڑی جنگ کا شدید خطرہ ہے مگر وہ جلد ہی لاہور واپس آ جائیں گے۔ کسی قسم کی فکر کی ضرورت نہیں۔ اس سے اگلے ہی روز میجر توفیقی کا خانساماں اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو گیا۔
وہ شروع ستمبر کی زرد اور اُداس صبح تھی جب لیفٹیننٹ اشفاق آخری مرتبہ میجر توفیقی کے بنگلے پر آیا۔ گھر کے سب افراد باہر گئے ہوئے تھے۔ اردلی ابھی بازار سے ترکاری لے کر نہ آیا تھا۔ شاہدہ آنگن میں کپڑے دھو رہی تھی۔ دروازے کی گھنٹی بجی اور ساتھ ہی لوسی اپنی زنجیر ہلا کر بھونکا۔ شاہدہ نے جلدی سے صابن والے ہاتھ دھوئے اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ برآمدے میں لیفٹیننٹ اشفاق کھڑا تھا۔ اس نےفوجی وردی پہن رکھی تھی اور سیاہ بوٹ لشکارے مار رہے تھے۔
’’ہیلو شاہدہ!‘‘ اس نے سر جھکا کر سلام کرنے کے انداز میں کہا۔ ’’کیا میجر صاحب پنڈی سے واپس آ گئے؟‘‘
’’نہیں وہ اب تک نہیں آئے۔ آپ اندر تشریف رکھیں۔ شاید ابھی آ جائیں۔‘‘ شاہدہ نے بڑے تپاک اور ادب سے اسے اندر آنے کی دعوت دی۔
’’نہیں۔ وہ معلوم نہیں کب آئیں۔ اور مجھے ذرا جلدی ہے۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے اپنی بائیں کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی۔ ’’وہ لوگ آئیں تو انھیں بتا دیجیے گا کہ میں لاہور سے جا رہا ہوں۔‘‘
’’جی!‘‘ شاہدہ نے لرز کر پوچھا اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا پھیل گیا۔ دو تین لمحے خاموشی طاری رہی۔ پھر لیفٹیننٹ اشفاق نے ہونٹوں پر ایک پُر اسرار سی مسکراہٹ لاتے ہوئے سلسلۂ تکلم شروع کیا: ’’میری یونٹ سیالکوٹ شفٹ ہو گئی ہے کیونکہ وہاں بارڈر پر دشمن کی فوجیں دھڑا دھڑ جمع ہو رہی ہیں۔ حملے کا سخت خطرہ ہے۔ میری طرف سے ان سب کو بہت بہت سلام کہیے گا… اور… اور…‘‘
وہ جانے کیا کہنا چاہتا تھا جو اس کے لبوں تک نہ آ سکا۔ اس کے چہرے پر اداسی کی دبیز تہ چڑھ گئی۔ اس نے جانے کے لیے قدم اُٹھایا۔
’’جی، ایک منٹ ٹھہریے۔‘‘ شاہدہ نے چونک کر اسے روکا اور جلدی سے اندر چلی گئی۔
جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھوں میں ایک سفید رومال تھا، بہت چھوٹا نہ بڑا۔ کناروں پر خوبصورت حاشیے اور بیچوں بیچ نرگس کے پھولوں کا ایک گچھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے اسے لیفٹیننٹ اشفاق کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا:
’’کیا آپ یہ رومال لینا پسند کریں گے؟‘‘
’’اوہ، کیوں نہیں۔‘‘ لیفٹیننٹ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور وہ دو قدم آگے بڑھ آیا۔
’’لیکن…لیکن یہ تو آپ نے بڑی محنت سے بنایا ہے۔‘‘
’’جی میں نے واقعی اسے بڑی محنت سے بنایا ہے۔‘‘ شاہدہ کی آواز بھرّا گئی۔ ’’ اسی لیے آپ کو دے رہی ہوں۔ آپ کو نرگس کے پھول بڑے پیارے لگتے ہیں نا۔‘‘
’’شکریہ مس شاہدہ۔‘‘ لیفٹیننٹ نے جھک کر بڑی تعظیم سے رومال لے لیا اور خوابناک لہجے میں بولا ’’ میں اس گھر کو ہر روز خواب میں دیکھا کروں گا۔‘‘
’’کیا آپ پھر یہاں تشریف لائیں گے؟‘‘ شاہدہ نے اس حد تک نرم گفتاری سے سوال کیا جس حد تک وہ کر سکتی تھی۔
’’ہاں میں کوشش کروں گا… اگر گوشت پوست کے ساتھ نہیں تو روح کے ساتھ…‘‘ وہ بولا۔ اسی لمحے ایک بلبل اڑتا ہوا آیا اور ان سے کچھ دُور سنہری دھوپ میں فرش پر پھدکنے لگا، پھر ایک بار وہ چہچہایا اور اپنی زرد دم نچاتے ہوئے دوبارہ درختوں کی سمت اُڑ گیا۔
’’اچھا، اب مجھے چلنا چاہیے۔‘‘ لیفٹیننٹ نے اس کی طرف حسرت زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا اور سر سے ٹوپی اُتار کر سیلوٹ کیا۔ اسے یوں لگا جیسے شاہدہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکا لیکن شاہدہ ایک لفظ بھی تو نہ ادا کر سکی۔ وہ دروازے کا سہارا لیے کھڑی تھی۔ اس کا سر پٹ کے ساتھ لگا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں، ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ جب اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ لمبے لمبے قدم اُٹھاتا لان سے گزر کر دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے بے اختیار ایک سسکی بھری اور آنسوؤں کے گرم گرم قطرے پلکوں کا بند توڑ کر گالوں پر لڑھک آئے۔ دیر تک اسے کچھ نظر نہ آیا۔ ہر طرف دھند ہی دھند تھی اور گہرا کہرا دھرتی کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔
اسی رات میجر توفیقی راولپنڈی سے واپس چلے آئے۔ شاہدہ نے انھیں لیفٹیننٹ اشفاق کی آمد اور روانگی کے بارے میں بتایا۔ ان سے معلوم ہوا کہ پاکستان کی تمام سرحدوں پر بھارتی فوجیں بڑی بھاری تعداد میں نقل و حرکت کر رہی ہیں اور کسی بھی وقت جنگ چھڑ جانے کا خطرہ ہے۔
آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ چھے ستمبر کی صبح کاذب کو بھارتی فوجوں نے لاہور سیکٹر پر اچانک دھاوا بول دیا۔ اور دونوں پڑوسی ملکوں میں باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔
اور پھر پورے سترہ روز ریڈیو جنگ کی نئی نئی خبریں سناتا رہا۔ بنگلے کے پہلو میں فوراً ایک پناہ گاہ کھول دی گئی۔ جب بھی خطرے کا سائرن بجتا، سب اہلِ خانہ اس میں چلے جاتے۔ یہ خندق وی شکل کی تھی۔ قریباً چار ساڑھے فٹ گہری۔ اُوپر ٹین کی بھاری بھر کم چادریں اور ان پر سیمنٹ اور ریت کی متعدد بوریاں پڑی ہوئی تھیں۔ جب بھی شاہدہ اس پناہ گاہ میں گھستی اور فضا میں جہازوں کے اُڑنے کی خوفناک آوازیں سنائی دیتیں۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگتا اور آنکھوں میں ایک دم لیفٹیننٹ اشفاق کی صورت گھوم جاتی۔ وہ سوچتی:
’’یا اللہ وہ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہوں گے؟‘‘
اس کے ذہن میں چنگھاڑ چنگھاڑ کر بم گراتے ہوئے جہاز، توپوں کی دھائیں دھائیں، آگ اور خون کے طوفان کی پرچھائیاں عجیب سا خوف پیدا کر دیتیں۔ وہ لرز لرز کر دل ہی دل میں اس کی سلامتی کی دعائیں مانگنے لگتی۔
اس جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ، دونوں محاذوں پر بھارت نے شدید دباؤ ڈالا۔ ریڈیو نے خبر دی کہ سیالکوٹ سیکٹر میں دشمن نے پانچ سو سینچورین ٹینک سے یلغار کی لیکن پاک فوج کے جوان اپنی چھاتیوں سے بم باندھ کر ان کے آگے لیٹ گئے اور انھیں تہس نہس کر دیا۔
جس دن شاہدہ نے یہ خبر سنی، اس کا بدن کانپ کانپ گیا اسے ایسے محسوس ہوا جیسے اس کا لیفٹیننٹ اشفاق بھی انھیں سرخرو شہیدوں میں شامل تھا اور وہی سب سے پہلے اپنے سینے سے بم باندھ کر ایک بھارتی ٹینک کے پٹے دار پہیوں تلے جا لیٹا تھا۔ یہ سوچ کر اس پر ایک عجیب حزن و انبساط کی ملی جلی کیفیت طاری ہو گئی۔ سترہ روزہ لڑائی کے بعد آخر کار جنگ کا طوفان تھما اور ہنگامی حالات ختم ہوئے تو شاہدہ غمزدہ دل کے ساتھ لیفٹیننٹ اشفاق کا انتظار کرنے لگی۔ سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے اسے یوں محسوس ہوتا کہ کوئی اپنے بھاری بھر کم بوٹوں کے ساتھ اس کے آس پاس پھر رہاہے لیکن کوئی بھی نہ ہوتا۔
تیسرے روز جب میجر توفیقی جی۔ ایچ۔ کیو سے واپس گھر آئے تو ان کے ساتھ ایک کیپٹن ڈاکٹر بھی تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ میجر توفیقی سے ملنے خاص طور پر سیالکوٹ سے آیا ہے۔ میجر توفیقی نے بتایا کہ وہ سیالکوٹ سیکٹر میں لیفٹیننٹ اشفاق کے ساتھ اگلے مورچوں میں شریک ِ جنگ تھا۔ کھانے کے بعد قہوہ بنایا گیا۔ جب شاہدہ برتن سمیٹ کر باورچی خانے میں جانے لگی تو ڈاکٹر نے اسے آہستہ سے کہا: ’’سنیں! میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’جی، کیا مجھ سے؟‘‘ شاہدہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
’’یقیناً آپ ہی سے۔‘‘ ڈاکٹر نے اس کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیتے ہوئے جواب دیا۔ ’’لیکن یہاں نہیں، آپ کچھ دیر کے لیے باہر لان میں آ جائیں۔‘‘
شاہدہ بغیر کچھ جواب دیے باورچی خانے میں چلی گئی۔ برتن رکھ کر واپس آئی تو ڈاکٹر وہاں نہ تھا۔ میجر توفیقی عذرا اور بچوں کے پاس خواب گاہ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ سیدھی لان میں پہنچی۔ ڈاکٹر کیلوں کے جھنڈ کے قریب خاموشی سے کھڑا تھا۔
’’میں آپ کو لیفٹیننٹ اشفاق مرحوم کا آخری سلام دینا چاہتا ہوں۔‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا: ’’کیا آپ نے اسے کوئی رومال تحفے میں دیا تھا؟‘‘
’’جی!‘‘ شاہدہ کی نگاہوں میں نرگس کے پھولوں والا رومال گھوم گیا جس میں اس کے لہو کے دو تین قطرے جذب ہو گئے تھے اور دھونے کے باوجود ان کا رنگ نہ مٹا تھا۔
’’آخری دنوں میں مجھے اس کے ساتھ رہنے کا کافی موقع ملا۔ جب وہ زخمی ہوا تو اس وقت میں کیمپ میں تھا۔‘‘ ڈاکٹر نے آہ بھر کر بات جاری رکھی۔ ’’میں نے اس ایسے بہادر اور غیور سپاہی بہت کم دیکھے ہیں۔ اس کی چھاتی اور شانوں کو بم کے ٹکڑوں نے بری طرح زخمی کر دیا تھا۔ میں نے اسے بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر وہ دوسرے ہی دن چل بسا۔ مرنے سے ایک رات پہلے اس نے مجھ سے اپنی ماں کے نام ایک خط لکھوایا جو کویت میں رہتی ہے۔
’’شاید آپ کو خبر نہ ہو کہ وہ ایک اچھا شاعر بھی تھا۔ اس نے اپنی ماں کو جو خط لکھوایا اسے لکھتے لکھتے میں رو پڑا۔ شاہدہ صاحبہ، ہم ڈاکٹر لوگ عموماً بڑے سخت دل ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی جذباتی اور پُردرد خط تھا۔ جب وہ خط لکھوا چکا تو میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا تمہارا اور کوئی عزیز نہیں؟‘‘
وہ یہ سوال سن کر مسکرا دیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک بڑی دل آویز چمک پیدا ہوئی اور بولا: ’’ہاں! ایک اور بھی ہے۔‘‘ ’’کون ہے وہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
ایک لڑکی ہے، شاہدہ! بڑی مظلوم ہے میری طرح۔ لاہور میں میجر توفیقی کے گھر رہتی ہے۔ اس کا رنگ میٹھا سانولا اور آنکھیں بادام کی کلیوں کی مانند ہیں… اور پھر اس نے اپنا ہاتھ اُٹھا کر مجھے ایک رومال دکھانے کی کوشش کی۔ دیکھو یہ رومال۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر مجھے دیا تھا۔ میری اس کی ملاقات گو بڑی مختصر سی تھی لیکن یہ ملاقات بڑی طویل تھی، اتنی کہ کبھی نہ ختم ہونے والی۔ پھر اس نے مجھے وصیت کی کہ میں وہ رومال اس کے ساتھ قبر میں دفنا دوں۔
شاہدہ صاحبہ! سچ مچ وہ آپ سے بڑی گہری محبت کرتا تھا۔ مجھے اس کی موت کا انتہائی صدمہ ہوا… اور ہاں! اس نے کہا تھا کہ میں آپ سے کسی نہ کسی طرح ملنے کی کوشش کروں۔ آپ کو اس کا آخری سلام دینے کے بعد کہوں کہ…
’’کہ وہ اپنے پاکیزہ وطن کی حفاظت کی خاطر شہیدوں میں شامل ہوا ہے، اسی لیے اس کی موت کا سوگ نہ منایا جائے۔‘‘
یہ کہہ کر کیپٹن کی آواز بھرّا گئی اور اس کی آنکھوں میںشبنم کے قطرے اُمڈ آئے۔ جب اس نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے شاہدہ کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک ابدی مسکراہٹ آوایزاں تھی۔ حزن و ملال کی ایک بھی شکن وہاں موجود نہیں تھی۔ قریب ہی کسی درخت پر ایک فاختہ گھوں گھوں کر کے نئی رت کو خوش آمدید کہہ رہی تھی۔
٭٭٭