22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

احساسِ بندگی

تحریر، جاوید راہی

 جون جولائی کی حبس اور آگ برساتاسورج گورنمنٹ کالونی کے بہبود آبادی دفتر کے باہر چاروں جانب لڑکے اور لڑکیاں خالی آسامیوں کی کل تیرہ مختلف سیٹوں کیلئے سینکڑوں امیدوار ایک دوسرے سے آگے جانے کی کوشش میں پریشان تھے۔ قطار میں لگے میرے پیچھے والے لڑکے نے مجھے مخاطب کیاتو میں نے گھوم کر دیکھا وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ میں نے کس آسامی کیلئے انٹرویو دینا ہے؟ ۔
’’سپروائزر کیلئے‘‘ میں نے مختصر جواب دیتے دوبارہ گیٹ کی طرف دیکھا جہاں دھینگا مشتی پروگرام عروج پر تھا۔
آخر میں بھی گیٹ عبور کر کے اندر ہال میں پہنچ گیا وہ لڑکا بھی میرے قریب آکھڑا ہوا۔ ایک طرف خواتین کا انٹرویو لینے والا گروپ بیٹھا تھا دوسری طرف بڑے سے ہال میں مردوں کیلئے انتظام تھا۔ میرا نام پکارا گیا میں نے تین ممبران کے سامنے پہنچ کر ان کے سوالات کا جواب دیا اور مجھے فارغ کرتے ڈاک میں رابطہ کرنے کا کہا گیا میں دوسرے دروازے سے باہر نکل گیا۔
پیاس کے مارے گلا خشک ہو رہا تھا ۔ ایک طرف شر بت کی ریڑھی پر رش لگا ہو ا تھامیں نے بھی ایک گلاس کا آرڈردیا اور انتظار کرنے لگا ۔ابھی میرا نمبر نہیں آیا تھا کہ وہی میرے پیچھے لائن میں لگا لڑکا میرے پاس آکھڑا ہوا ،اس نے بھی شربت کا کہا اور مجھ سے مخاطب ہوا۔
’’ بس جی فارمیلٹی پوری کر رہے ہیں جن کو رکھنا تھا وہ تو فیصلہ پہلے سے ہی ہو چکا ہے‘‘۔میں نے تائید میں سر ہلا یا اور شربت والے کا بڑھا یا ہوا گلاس پکڑتے اس سے پوچھا ’’آپ نے کس پوسٹ کیلئے انٹرویو دیا ہے؟‘‘ ۔
’’گریجویشن کرکے نائب قاصد کی آسامی کیلئے قسمت آزمائی کر رہا ہوں‘‘۔ اس کے لہجے کی کڑواہٹ بتا رہی تھی کہ وہ بے ورزگاری سے خاصا دلبرداشتہ تھا۔
اس نے گلاس خالی کرتے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالتے شربت والے کو دیتے ہوئے دو گلاسوں کے پیسے کاٹنے کا کہا میں نے روکا مگر اس نے ہاتھ کے اسے اشارہ کر دیا کہ میرے بھی کاٹ لے۔
شہر کی جانب جانے والے بہت سے چنگ چی رکشے آوازیں لگا رہے تھے اس نے مجھ سے پوچھا’’شہر یا بس اسٹینڈ؟‘‘
میں نے کہا شہر میں ۔
’’میں بھی اُدھر جا رہا ہوں‘‘ پھر ہم دونوں ایک رکشہ میں پیچھے بیٹھ گئے۔
’’آپ کا نام؟‘‘اس نے بیٹھے ہی مجھ سے پوچھا۔
’’عامر علی‘‘ ۔ میں نے بتایا اور تمہارا ۔
’’پرویز احمد ‘‘۔اس نے اپنی فائل سنبھالتے جواب دیا ۔اِدھر اُدھر کی باتوں میں ہم دونوںنے ایک دوسرے بارے میں بہت کچھ جان لیا تھا اور شہر اسٹاپ پر ہم دونوں ایک دوسرے کو نمبر دیتے الگ ہوگئے۔
عامر علی نے جیل میں کھڑے کھڑے میرے پوچھنے پر اپنی زندگی کے تاریک باب اُلٹے ہوئے پھر سے کہنا شروع کیا۔
’’میرے اور پرویز کے بیچ جو بے روزگاری کا پُل قائم تھا اس پر آتے جاتے کئی ماہ ہو گئے اس دوران ہمارے درمیان بہت سے دن رات مشترکہ ہوگئے ۔
ایک روز پرویز کا فون آیا اسے کسی فیکٹری میں حساب کتاب کی چھوٹی سی جاب مل گئی تھی اور وہ بڑا خوش تھا مجھے بھی اس نے اسی فیکٹری میں ڈیلی اُجرت پر کام کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ بیروزگاری اور گھروالوں کی طعنہ زنی کے ہاتھوں تنگ تھا فوراً حامی بھر لی اور اس کے پاس چلا گیا۔
یہاں ہوزری کا کام ہو تا تھا۔ مشینوں کے علاوہ ہاتھ سے کرنے والے بھی یہاں بہت سے کام تھے ،خواتین والے حصہ میں پیکنگ کا کام ہوتا ۔ یہاں ہر عمر کی خواتین کا م کرتیں تھیں۔ ادھر مرد حضرات کیلئے جانا منع تھا صرف چند لوگ تھے جوا سٹاک وغیرہ اور دیگر ایسے کام سرانجام دیتے۔
دوہ ماہ تک میں کئی شعبوں میں کام کرتا رہا مجھے کمپیوٹر کی سوج بوجھ تھی ۔پروڈکشن منیجر نے میری ڈیوٹی اوپر والے کاموں سے ہٹاکر پیکنگ والے شعبہ میں لگا دی۔ چونکہ میں پرویز بھائی کے ساتھ کوارٹر میں رہ رہا تھا اور کھانا بھی ہم دونوں اکٹھے کھاتے سامان کی ادائیگی مل بانٹ کر کر لیتے ۔گو کہ تنخواہ قلیل تھی مگر نہ ہونے سے تو بہتر تھا۔
خالہ رضیہ جس محلہ میں رہتی وہاں کی دو لڑکیاں سمیرا اور زینب بھی اس کے ہمراہ میری طرح ڈیلی ویجز پر کام کیلئے آتی تھیں۔ خالہ سے میری واقفیت آتے ہی اس پیکنگ کھاتہ میں ہوئی تھی۔اس کاخاوند اسے چھوڑ کر کہیں کسی کے ساتھ منہ کالا کر گیا تھا یہ بیچاری اپنے تین چھوٹے بچوں کی کفالت خود کر رہی تھی ۔ سمیرا اور زینب دونوں اسکے ساتھ ساتھ ہی رہتی تھیں اس لئے ان کے پر پُرزے نہیںنکلے تھے ورنہ تو خدا کی پناہ تھی اِدھر۔
زینب مجھے پہلے ہی دن سے اچھی لگی اور میں کسی نہ کسی بہانے اسے مخاطب کرنے لگا تھا مگر وہ صرف مطلب کی بات کا جواب دیتی تھی۔
ایک دو بار خالہ رضیہ نے میرا اس طرح زینب میں دلچسپی لینا محسوس تو کیا مگر جان بوجھ کر نظر انداز کر گئی۔ میں نے تہیہ کر لیاتھا کہ زینب کو شیشے میں اُتار کر ہی دم لوں گا۔ اس بات کا تذکرہ میں نے پرویز بھائی سے بھی کیا تو اس نے منہ بناتے کہا کہ عامر جی یہ لڑکیاں بڑی تیز طرار ہو تی ہیں اپنا بھائو چڑھا رہی ہے ایک دن خود ہی لفٹ کروا دے گی، ڈٹے رہو۔ اس نے بستر پر کروٹ لیتے آنکھیں بند کر لیں۔
آخر کار میری بے چینی پر خالہ رضیہ کو ترس آگیا اس نے بنڈل رکھتے مجھے آہستگی سے مخاطب کیا ’’عامر بیٹا۔‘‘
’’جی خالہ‘‘ ! میں نے ہاتھ روکتے اس کی طرف دیکھا۔
’’زینب تمہاری شکایت کر رہی تھی مجھ سے‘‘۔
میں گھبرا گیا اور آنکھیں چرا لیں۔
’’وہ بہت مجبوری کے تحت اس کا م پر آئی ہے ورنہ اس کے گھر والے تو ‘‘۔۔۔۔
بات ادھوری چھوڑتے وہ گودام کھاتہ سے باہرچلی گئی۔
تمام رات میں بستر پر پڑا کروٹیں بدلتا رہا ۔ رہ رہ کر مجھے خالہ رضیہ کی بات پریشان کر رہی تھی کہ زینب تمہاری شکایت کر رہی تھی۔ میں نے کیا کِیا تھا جو اس نے میری شکایت کر دی کسی کو دیکھنا یا دِل میں رکھنا تو کوئی جرم نہیں۔
پتہ نہیں کب آنکھ لگ گئی ۔صبح جلدی تیار ہو کر میں فیکٹری پہنچ گیا کیونکہ تمام لوگ اِدھر اُدھر بیٹھے یا گھومتے پھرتے مل جاتے تھے سائرن بجتے اپنے اپنے شعبوں کی طرف چل پڑتے تھے۔ زینب اور سمیرا اکیلی باہر کی دیوار کے سائے میں کھڑی تھیں میں بِلا جھجھک دونوں کے قریب جا کھڑا ہوا ۔ خدا جانے مجھ میں کہاں سے ہمت آگئی میں نے زینب کو براہ راست مخاطب کرتے پوچھا ۔
’’جناب مجھ سے کوئی شکایت‘‘؟
وہ اس اچانک حملہ پر گھبرا گئی۔
’’جی نہیں تو‘‘!اس کی گھبراہٹ پر سمیرا مسکرائے بغیر نہ رہ سکی اور برجستہ درمیان میں کود پڑی۔اس سے بڑی شکایت اور کیا ہو سکتی ہے کہ جو دِل میں ہے اس کا اظہار کیوں نہیں کر دیتے یوں گیلی لکڑی کی طرح سلگتے رہتے ہو۔ یہ آپ کو کچھ نہیں کہتی سمیرا نے اشارہ زینب کی طرف کیا۔
’’دیکھیں میرے دِل میں آپ دونوں کیلئے بڑی عزت اور جگہ ہے‘‘۔
’’ نہ نہ صرف ایک کیلئے دِ ل میں دونہیں ایک ہی رکھا جاتا ہے‘‘ سمیرا کے لہجہ میں شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔ میں واقعی گھبرا گیا تھا اس کی بات پر۔
’’اچھا اب جلدی سے بتادیں کہ زینب آپ کو کیوں اچھی لگتی ہے؟‘‘ ۔
’’سمیرا ان کو بھی کچھ بولنے دیں یا آپ ہی سب کچھ سر انجام دیں گی؟‘‘ مجھے یکدم پرویز بھائی کی کہی بات یا د آگئی کہ زینب اپنا بھائو بڑھا رہی ہے۔ میں کچھ اوربولتامگر خالہ رضیہ کھانے والا ڈبہ سنبھالتے سیدھی ہمارے پاس آرکی۔’’ ہاں جی کیا مسئلہ چل رہا ہے؟‘‘
’’وہی خالہ شکایت والا ‘‘۔میں نے ہنستے ہوئے جواباً کہا۔
’’ہاں پوچھ لو خود زینب سے جو کہہ رہی تھی کہ مجھے کھاجانے والی نظروں سے آتے جاتے گھورتا رہتا ہے‘‘۔
’’خالہ جی کھا جانے والی نہیں پیار بھری نظروں سے انہیں دیکھتا ہوں۔‘‘ کچھ اور بات آگے بڑھتی کہ اچانک سائرن کی آواز پر واچ مین نے اندر سے گیٹ کی زنجیر گرا دی اورکر اپنے اپنے کھاتوں کی طرف بڑھنے لگے۔
زینب اور میں زن آشنائی کے راستے پر آگے بڑھتے جارہے تھے وہ بہت اچھی اور کم گو لڑکی تھی دو ماہ کی رفاقت میں صرف دو چار بار ہم دونوں موٹرسائیکل پر اِدھر اُدھر سیر کرنے اور بریانی برگر تک محدود رہے ۔نہ میں نے حد کراس کرنے کی کوشش کی اور نہ اس کی طرف سے کوئی حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔ سمیرا اور خالہ رضیہ ہمارے تعلقات سے آگاہ تھیں۔ میں اس کے انکار کے باوجود کچھ نہ کچھ اس کیلئے لے آتا جو وہ پس و پیش کے بعد رکھ لیتی ۔ زینب کی ایک بہن اور ایک بھائی تھے دونوں اس سے چھوٹے ہونے کے سبب وہ ہی انکی کفالت کرتی ۔
ایک روز وہ بہت پریشان دکھائی دی۔ میرے اصرار پر اس نے بتایا کہ والد صاحب پر غبن کا الزام تھا اور وہ جیل میں تھے اس کا مقدمہ لڑنے کیلئے اسے اس نوکری کا سہارا لینا پڑا ۔وکیل بقایا کا تقاضا کر رہا تھا میرے پوچھنے پر اس نے بتایاکہ اس کو دس ہزار روپے دینے ہیں۔ میرے پاس مشکل سے تین ہزار اکٹھے ہوئے ہیں۔ زینب کی بات سے میرے چہرے پر پریشانی پھیل گئی ۔میرا حال بھی ایسا ہی تھا کیونکہ زیادہ تر تنخواہ کا حصہ میں زینب پر ہی خرچ کر ڈالتا تھا۔ جواب میں اسے مطمئن تو کر دیا مگر سات ہزار کیسے آئیں گے ؟رات کو میںنے پرویز بھائی سے پوچھا اس نے دوہزار دینے کا وعدہ کر دیا ۔
صبح ڈیوٹی پر آتے میں نے بہت سے قافیے جوڑے مگر بات کوئی بنی نہیں کے مصداق آگے سوچنے لگا۔اگر فیکٹری میں کوئی گڑ بڑ کرتا تو سیکیورٹی اتنی سخت تھی چاروں جانب کیمروں کا جال بچھا ہوا تھا کوئی چیز اندر سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔
اُدھر میں نے زینب سے وعدہ کرلیا تھا کہ میں ضرور اس کی مدد کروںگا۔ پرویز بھائی نے حسبِ وعدہ دو ہزار دیئے اب پانچ ہزار کی بات تھی بڑی سوچ بچار کے بعد جو میرے دل میں خیال آیا وہ بڑا ہی خطرناک تھا۔
فیکٹری کے ہم سے بڑے ورکر ز کیلئے اے لائن کی طرف جانا پڑتا تھا کیونکہ وہ سب سے آخر میں تھی ہمارے لئے تو اوپر نیچے تین منزل کوارٹر تھے جبکہ ان کیلئے چھوٹے چھوٹے صاف ستھرے گھر الگ الگ مالکان نے بنا کر دیئے ہوئے تھے۔
جو فیصلہ میں نے کیا گو کہ بڑا ہی گھٹیا تھا مگر زینب کیلئے میں کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔
جب مجھے یقین ہو گیا کہ پرویز بھائی سو گیا ہ تو میں چپکے سے اُٹھا اور کوارٹر باہر سے بند کر تا ہوا باہر نکل آیا۔ پیچھے سے گھوم کر اے لائن کے پچھواڑے پہنچ گیا یہاں سب اپنے گھر کی خود نگرانی کرتے تھے چاروں جانب خاموشی تھی میں ایک مناسب گھر کو ذہن میں رکھتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔ چند پل اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد میں نے دیوار کے اوپر ہاتھ جماتے ایک جست بھری اور اس کے اوپر چڑھ گیا دونوں جانب ایک ہی طرح کی اونچائی تھی۔ مجھے اندر اترنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی چھوٹا سا دالان تھا جسے میں کوئی آواز کئے بغیر عبور کر گیا ۔
ایک کمرے میں گھر والے سوئے ہوئے تھے گھبراہٹ کے مارے میرا برا حال تھا دوسرا کمرہ جس میں گھر کا سامان رکھا ہوا تھا میں دبے پائوں اس کے اندر داخل ہو گیا اِدھراُدھر ہاتھ مارتے مجھے دراز میں چین اور بندے پڑے مل گئے دوسرے دراز میں چھوٹا سا پرس جس میں کچھ پیسے پڑے تھے میں نے اسی کو غنیمت جانا اور دھک دھک کرتے دل کو سنبھالتا ہوا کمرے سے نکل کر دوبارہ دالان میں آگیا۔
دروازے کی کنڈی لگی ہوئی تھی جس کو میں نے آہستہ سے کھولا اور باہر نکل آیا۔ سب کچھ ٹھیک پاکر میں تیز تیز قدم اٹھاتا مزدوروں کے کوارٹر وں کی طرف چل پڑا ۔ایک جگہ رُک کر میں نے لمبے لمبے سانس لئے اور آگے بڑھ آیا۔اپنے کوارٹر میں آکر میں نے خود کو بستر پر گراتے پرویز بھائی کی طرف دیکھا جو بدستور پڑا سو رہا تھا۔ جب میرا ذہن کچھ سوچنے کے لائق ہو ا تو مجھے خود پر یقین نہ آیا کہ میں کیا کر آیا ہوں بہر کیف میں نے پرس کھول کر اس کے اندر پڑی نقدی کا جائزہ لیا وہ سات ہزار تین سو روپے تھے پرس میں نے پھاڑ کر واش روم کے گٹر میں بہا دیا اور چین بندے سنبھال کررکھ لئے او ر سو گیا۔
ڈیوٹی پر آکر میں نے سات ہزار روپے زینب کو دیتے کہا کہ جلدی جاکر وکیل کے سپرد کر دینا تاکہ آپ کے والد کا مقدمہ لڑنے میں وہ کوئی تاخیر نہ کرے۔ زینب نے تشکر بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور شکریہ کے ساتھ روپے پکڑ لئے۔ دو ہزارپرویز بھائی کو لوٹا دیئے کہ اب ان کی ضرورت نہیں ۔
چھٹی والے دن میں نے وہ چین اور بندے سنار کودیتے اس کے بدلے زینب کیلئے بالیاں لے لیں۔ شام کو اس کے گھر فون کر کے اسے ملنے کی بات کی تو اس نے کہا کہ تم میرے گھر آجائو۔ پہلے بھی ایک آدھ بار اس کے ساتھ جا چکا تھا ان کے گھراس لئے بغیر جھجھک کے پہنچ گیازینب کی والدہ پہلے سے بھی زیادہ محبت سے پیش آئیں اور چائے بنانے کچن میں چلی گئی ۔میںنے جیب سے بالیاں نکالتے بڑی اپنائیت کا مظاہرہ کرتے زینب کے ہاتھ پر رکھ دیں پہلے تو اسے حیرت ہوئی پھروہ یکدم خوشی سے بے قابو ہو تے میرے سینے سے لگ گئی۔
ہماری زندگی اب نئے راستے پر گامزن تھی میں زینب کے والدکا مقدمہ اب خود لڑ رہا تھا چھوٹی چھوٹی چوریاں کرنے کی عادت پڑ چکی تھی زینب کو میں نے فیکٹری سے ہٹا لیا تھا اور خود بھی نوکری چھوڑ کر زینب کے محلہ میں ایک کرائے کا مکان حاصل کر لیا۔
اس مکان سے تھوڑے فاصلے پر کریانہ سٹور تھا جس سے تھوڑی بہت واقفیت بن گئی اس کے بینچ پر بیٹھ کر محلہ کے اور بھی لوگ اخبار پڑھتے میں بھی چلا جاتا ادھر ہی ایک رکشہ والے سے سلام دعا ہو گئی جو دوسری گلی میں رہتا تھا ۔ چوری چکاری سے خرچہ تو چل رہا تھا مگر زینب کی فرمائشیں آگے آگے بھاگ رہی تھیں اور مجھے کام کرنے کی اشد ضرورت پیش آگئی تو میں نے رکشہ ڈرائیوربِلو سے بات کی تو اس نے آٹو دہاڑی پر لے کر دینے کا مشورہ دیا ۔ میں چونکہ اچھا ڈرائیور بھی تھا میرے دل کو اس کی بات لگی اور میں رکشہ چلا نے لگا ۔
دو چار دن ذرا مشکل لگا پھر ٹرینڈ ہو گیا پہلے پہل علاقوں کی نشاندہی پریشانی کا مسئلہ بنی پھر کچھ سواریوں سے اور کچھ پوچھ پاچھ سے کام نکل جاتا۔ رکشہ چلانے کا ایک فائدہ ہوا گھروںاور علاقوں کو تاڑنے کا موقع مل گیا۔ اعوان ٹائون کی ایک سواری اٹھائی اور ڈوبن پورہ سے ہوتا ہو ا کھڑاک نالہ کراس کر رہا تھا کہ آگے پولیس ناکہ پر چیکنگ ہو رہی تھی مجھے روکنا پڑا لمبی لائن لگی ہوئی تھی ۔جب میری نظر پیچھے پڑی تو سواری غائب تھی اورایک شاپر کونے میں پڑا ہوا تھا۔میں نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر وہ مجھے کہیں بھی دکھائی نہ دیا تو میں نے وہ بڑا سا شاپر اُٹھا کر اپنے پیروں میں رکھ لیا اور رکشہ آگے بڑھا یا ۔
خالی رکشہ دیکھ کر ایک سواری نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہا مگرمیں فراٹے بھرتا آگے نکل آیا ۔ ایک گلی میں رُک کر میں نے شاپر کھولا اوپر کپڑے اور نیچے چرس کے بڑے بڑے پیک ٹکڑے بھرے ہوئے تھے میں سمجھ گیا کہ وہ کوئی منشیات فروش تھا یا تو اس کیلئے چیکنگ تھی یا روٹین کا ناکہ تھا مگر وہ ڈر کر نو دو گیارہ ہو گیا۔
میں شاپر کو پھر سے سنبھالتا ہو اگھر کی طرف چل پڑا۔ رکشہ روک کر شاپر اُٹھا یا اور اپنے کمرے میں اسے چھپا کر دوبارہ کام پر نکل پڑا۔ اصل میں مجھے اس سواری کی تلاش تھی مگر شام تک مجھے وہ کہیں بھی دکھائی نہ دیا رکشہ چھوڑکر میں گھر آگیا اور پھر سے اس شاپر کا جائزہ لیا ۔ وہ بیس ٹکڑے تھے بڑے بڑے ،وزن دس بارہ کلو سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔
کئی دن تک میں اسے گھر میں چھپائے رہا جب مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ چرس میری ملکیت تھی تو اسے ٹھکانے لگانے کا سوچنے لگا۔میرے کئی پیٹی بھائی چرس کے عادی تھے ایک لڑکا عنصر تھا جس کو میں نے پوچھا کہ وہ چرس کہاں سے لیتا ہے تو اس نے بتایا کہ گوالمنڈی میں ایک ہے ملنے والا جو فروخت کرتا ہے ، کیوں خیر ہے ؟ اس نے برجستہ پوچھا ۔
نہیں بس یونہی پوچھا تھا۔ پھرمیں نے اس سے پورا پتہ لیا چرس بیچنے والے کا دوسرے دن ایک ٹکڑا رکشہ میں سیٹ کے نیچے رکھا اور اس کی تلاش میں نکل پڑا وہاں اسے ڈھونڈنے میں کوئی دِقت نہ ہوئی اور وہ کباڑیا بازار میں مل گیا ۔اسے بڑے اعتماد میں لے کر اس سے بات کی تو اس نے مال دِکھانے کا کہامیں نے سیٹ کے نیچے پڑا چرس کا چھتر نکال کر اسے دکھایا تو وہ مال لینے کیلئے تیار ہو گیا۔
شام کو ایک جگہ کا تعین اس نے کیا اور میں شاپر لے کر آگیا ۔ بندہ وہ ایماندار اور کاروباری تھا اس نے اس ساری چرس کے مجھے چالیس ہزار دیئے یہ رقم زندگی میں پہلی بار نصیب ہوئی تھی ۔ تمام رات میں یہ فیصلہ نہ کر پایا کہ اس کو کس طرح استعمال کروں پہلے سوچا آدھی گھر بھیج دوں اور باقی خود پر اور زینب پر خرچ ڈالوں پھر یہ سوچ کر گھر کا خیال دِل سے نکال دیا اور زینب پر دِل کھول کر روپیہ لوٹاتا رہا۔
رکشہ تو صرف دِکھاوے کیلئے تھا اصل میں تو میرے اندر بڑا ہاتھ مارنے کی جستجو چل رہی تھی ۔ رکشہ ڈرائیوروں کے ساتھ رہ کر ہر بُری جگہ اور بُرے لوگوں کا پتہ چل گیا تھا ۔ چالیس ہزار میں سے ایک ریوالور بھی خرید لیا تھا میں نے۔کسی کو ساتھ ملانے کی بجائے میں اکیلا ہی کوئی واردات کرنے کے بارے میں پلان کر رہا تھا اس کیلئے جو گھر میں ذہن میں رکھا ہوا تھا وہ کسی سرکاری آفیسر کا تھا دو چار بار اس کا جائزہ لیا گھر میں ایک خاتون دو بچے اور شائد ایک نوکر تھا۔ آج میرا مکمل پروگرام بنا ہوا تھا کہ رکشہ کسی جگہ چھوڑکر خود اس گھر میں داخل ہو جائوں۔
ایک محفوظ جگہ پر رکشہ کھڑ ا کیا اور دوکاندار کو یہ کہہ کرآگے بڑھ گیا کہ ابھی آتا ہوں وہ گھر دو تین گلیوں کو کراس کر کے آتا تھا۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ میں ڈکیتی کیلئے تیار ہو ں تو میںنے بڑے اعتماد کے ساتھ باہر لگی بیل کا بٹن دبا دیا ۔
دروازہ کھولنے والا پانچ چھ سالہ لڑکا تھا ۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر اس کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا اندر کی طرف لپکا گھرکی مالکن کو میں نے بار بار دیکھ رکھا تھا جو بیٹی کو گود میں لئے ٹی وی دیکھ رہی تھی میرے ہاتھ میں پکڑے پستول اور اپنے بچے کا بازو دیکھتے سکتہ میں آگئی میں نے آہستہ آواز میں کہا کہ اگر شور مچایا تو اس کو گولی مار دوں گا جلدی سے اُٹھو اور سب کچھ نکالو۔
وہ بچی کو ساتھ لگائے تیزی سے اُٹھی اور میرے آگے ایک کمرے کی طرف چل پڑی ۔ سامنے لوہے کی الماری رکھی ہوئی تھی اس کے پٹ کھولتے گھر کی مالکن نے سونے کے زیورات اور نقدی میرے حوالے کرتے اپنے بیٹے کو کھینچ کر اپنے ساتھ لگا لیامیں نے دروازہ باہر سے بند کرتے اس کو وارننگ دی اگر کوئی گڑ بڑ کی تو مجھ سے کسی نیکی کی توقع نہ رکھنااس نے یقین دلایا کہ میں کچھ نہیں کرتی۔
میں دروازے کی جانب گھوما تو سامنے گھر کا ملازم سبزی والا تھیلا پکڑے حیرانگی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے ریوالور جو نیفے میں چھپا لیا تھا فوراًنکالا اور ا س کی جانب بڑھا جو دروازے سے باہر نکل چکا تھا اس سے پہلے کہ میں کوئی بات کرتا اس نے چیخنا شروع کر دیا میں نے گھبراہٹ میں اس پر فائر داغ دیا۔
گولی اس کے سر پر لگی اور وہ میرے پیروں میں لڑھک گیا ۔گولی کی آواز اور اس کے چیخنے پر آس پاس کے لوگ اکٹھے ہو گئے تھے۔ میں ایک طرف بھاگا جا رہا تھااور لوگ میرے پیچھے چور چور کرتے چلے
آرہے تھے کہ سامنے سے آنے والی اینٹ میرے سر پر لگی اور میں زمین پر گر پڑا اور ریوالور میرے ہاتھوں سے نکل کر دور جا گرا۔
پیچھا کرنے والوں نے مجھے لاتوں اور گھونسوں پر رکھ لیا میرا پورا جسم لہو لہان ہو چکا تھا اگر بروقت پولیس کی گاڑی نہ پہنچ جاتی تو لوگ مجھے مار مار کر ختم کر ڈالتے۔
مجھے ہسپتال لا یا گیا میں نیم بے ہوشی میں تین دِن تک پڑا رہا میرے ہاتھوں کو ہتھکڑی لگا کر ہسپتال کے بیڈ پر حراست میں لے رکھا تھا پولیس نے۔ جب میں ذرا سا بولنے اور اُٹھ کر بیٹھنے کے قابل ہوا تو میری انکوائری شروع ہو گئی ۔ میں نے جو کچھ بھی آج تک کیا تھا سب کچھ سچ سچ بتا دیا مگر اس کے باوجو د ان کو یقین نہیں آرہا تھا ۔قتل تو مجھ سے ہو چکا تھا اس گھر کے ملازم کا ۔ڈکیتی ، چوری اور قتل کا مقدمہ چل رہا ہے۔
زینب کے چکر میں اور اس کے والد کو بچاتے میں خود سر تک غلاظت کی دلدل میں دھنس گیا ہوں‘‘۔ آنکھوں میں آئے آنسوئوں کو اس نے ہاتھ سے صاف کیا اور اپنا سر جیل کی سلاخوں سے ٹکا دیا۔
٭٭٭٭٭

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles