خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
اٹھارواں حصہ
ڈینش طرزِ تعمیرکا جادُو اور چلبلی حسینہ
طارق محمود مرزا، سڈنی
صبح نو بجے آنکھ کھلی تو بدن تکان سے چور تھا، مگر میں ظالم محبوب کی طرح اس کی آہ و بکا سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔ نیم گرم پانی کے شاور سے خاصی راحت ملی۔ رہی سہی کسر کیفے ایکسپریسو کے ناشتے اور خوش ذائقہ کافی نے پوری کر دی۔
آج بھی موسم خوش گوار تھا، مگر گزشتہ دو دنوں میں آسٹریلیا کے موسم گرما کے اثرات زائل ہو گئے تھے اور اسکینڈے نیویا کی یخ بستگی اثر انداز ہونے لگی تھی۔ لہٰذا آج تیسرے روز دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی گرم جیکٹ میں ملبوس تھا۔
ناشتے کے بعد میں ہوٹل واپس آ گیا کیونکہ آج میرا ایک گرائیں (اہلِ علاقہ) مجھے ملنے آ رہا تھا۔ گیارہ بجے میرے موبائل کی گھنٹی گنگنائی اور میں نیچے آ گیا۔ راجہ غفور افضل نیچے موجود تھے۔ راجہ صاحب کا تعلق بھی مردم خیز اور شہیدوں کی تحصیل گوجر خان سے ہے۔
وہ گزشتہ سینتالیس برس سے ڈنمارک میں مقیم ہیں۔ صحافی اور براڈ کاسٹر ہیں۔ پچیس برس سے اپنا ایف۔ ایم ریڈیو پروگرام کرتے ہیں۔ ان کے ریڈیو چینل کی نشریات ڈنمارک کی پاکستانی کمیونٹی میں کافی مقبول ہیں۔ راجہ صاحب کمیونٹی کے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
ان کے ساتھ سب سے پہلے ہم کوپن ہیگن کے سب سے بڑے قدیم اور تاریخی سنٹرل ریلوے اسٹیشن گئے جو میرے ہوٹل سے چند منٹ کی مسافت پر واقع تھا۔ اس اسٹیشن سے نہ صرف مقامی بلکہ دوسرے شہروں، قصبوں، ایئرپورٹ اور سویڈن، ناروے کے لیے بھی ٹرینیں چلتی ہیں۔
علاوہ ازیں نئی میٹرو بھی یہاں سے روانہ ہوتی ہے جو کوپن ہیگن کے اندر سترہ اسٹیشن پر رُکتی ہے۔ یوں یہ انتہائی مصروف اسٹیشن ہے۔ ہم سنٹرل اسٹیشن کے سامنے پہنچے جو بلند و بالا سنگی دیواروں، بڑی بڑی محرابی کھڑکیوں، دلکش بالکونیوں اور شاندار گنبدوں کی وجہ سے انتہائی شاندار اور پرشکوہ عمارت ہے۔
یوں تو اس کے اوپر کئی گنبد واقع ہیں مگر مرکزی ہال کے اوپر استادہ گنبد اتنا بڑا، اتنا بلند اور وسیع و عریض ہے کہ اس کے نیچے کھڑے ہو کر یوں لگتا ہے آسمان کے نیچے موجود ہیں۔ باہر سے سنٹرل اسٹیشن جتنا قدیم اور مرعوب کُن نظر آتا ہے اندر سے اتنا ہی کشادہ، جدید اور دلکش ہے۔ یہ عمارت۱۹۱۱ء میں ہینرچ وینیک نامی ڈینش انجینئر کے دستِ کمال کے ذریعہ وجود میں آئی۔ ایک صدی گزرنے کے بعد بھی یہ نہ صرف اسی آن اور شان سے قائم ہے، بلکہ لاکھوں لوگوں کو مستفید کر رہی ہے۔
ہم اس عمارت کے مرکزی ہال کے اندر گئے تو اس کی چھتوں کی اونچائی دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ یہ ہال بڑے گنبد کے نیچے واقع ہے۔ چھت اتنی بلند ہے کہ اسے دیکھنے کے لیے سر نوّے ڈگری پیچھے لے جانا پڑتا ہے۔ ہال میں صرف مسافر ہی نہیں تھے بلکہ یہاں اچھا خاصا مصروف بازار ہے۔ جس میں کیفے، دکانیں، ریستوران، پھل اور پھولوں کی دکانیں، سفری سہولیات کے دفاتر، ڈاکخانہ، بینک، شراب خانہ، موبائل فون کمپنیوں کی شاخیں اور دیگر اشیائے ضرورت دستیاب ہیں۔ دوسری منزل پر ہوٹل بھی ہے۔
ہال میں اس وقت جم غفیر تھا۔ دنیا بھر کے ہر رنگ و نسل کے سیاح موجود تھے۔ کچھ کرسیوں پر بیٹھے تھے ۔کئی خریداری میں مصروف تھے ۔بعض ٹکٹ وغیرہ خرید رہے تھے۔ کئی ایک گوشے میں موجود انٹرنیٹ کیفے میں کمپیوٹرز کے سامنے براجمان تھے غرضیکہ ایک بین الاقوامی اجتماع تھا جو ہمارے ارد گرد موجود تھا۔ راجہ غفور صاحب بولے
یہاں ہر وقت ایسے ہی رش رہتا ہے
میں نے کہا یہ رش اگر دس گنا بڑھ جائے تو بھی گوجر خان کے بازاروں کے برابر نہیں ہو سکتا
اوہ جی مرزا صاحب! آپ نے کیا یاد کرا دیا۔ گوجر خان جیسی رونق یہاں کہاں۔ وہاں کی تازہ مٹھائیاں اور گرم جلیبیاں یاد کرا دیں
حقّہ، تمباکو اور نسوار تو یاد نہیں آئی۔ اس کا بھی پورا بازار ہے۔
راجہ صاحب ہنسنے لگے۔ فکر نہ کریں، وہ حقہ، تمباکو اور نسوار یہاں ڈنمارک میں بھی دستیاب ہے۔
میں نے کہا، سب کچھ یہاں مل سکتا ہے مگر ٹھیلے والوں کی گاہکوں کو متوجہ کرنے والی دلچسپ صدائیں یہاں نہیں ہوں گی۔
راجہ صاحب ہنسے، یوں تو یہاں پاکستان والی رونقیں ندارد ہیں۔ وہ میلے ٹھیلے، وہ کبڈی کے مقابلے، بیلوں کی دوڑ، چائے خانے، تھڑے کی محفلیں، پوٹھوہاری بیت بازی، ڈرامے اور احباب کی محفلیں، سب یاد آتے ہیں۔
میں نے کہا، اس کے ساتھ ساتھ خطہ پوٹھوہار کی پھلاہیوں، ٹاہلیوں، شہتوت اور دریک کی خوشبو اور ٹھنڈک بھی یاد آتی ہے۔ سرسوں کے زرد پھولوں کے کھیت نگاہوں میں گھومتے ہیں۔ گندم کی سنہری بالیوں کا سونا دِل میں ہلچل مچاتا ہے ۔ شوریدہ ندیاں نالے یادوں میں جگمگاتے ہیں۔ بارش کے پہلے قطرے سے زمین سے اُٹھنے والی خوشبو آج بھی دل و دماغ کو مسحور کرتی ہے۔
وہ سرِ شام مویشیوں کے ریوڑ گھنٹیوں کی صداؤں میں، ڈوبتے سورج کے سامنے سے گزر کر گھروں کو لوٹتے ہیں تو یہ صدائیں دیر تک کانوں میں رس گھولتی رہتی ہیں۔ وہ صبحِ دم فاختہ کی میٹھی بولیاں، چڑیوں کی چہچہاہٹ اور اسکول جاتے بچوں کی کھلکھلاہٹ بھی ان سندر یادوں کا حصہ ہیں۔
راجہ افضل مسکرائے، میں بھول گیا تھا کہ ایک افسانہ نگار کے ہمراہ ہوں۔ ویسے آپ کی باتیں سُن کر چند لمحوں کے لئے میں اس ماحول کا حصہ بن گیا تھا
میں اس ماحول سے کبھی باہر نکلا ہی نہیں۔ یہ میرے اندر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
راجہ افضل کا ٹکٹ استعمال کر کے ہم نیچے اتر کرپلیٹ فارم پر آ گئے۔ میرے دائیں بائیں متعدد پلیٹ فارم اور ریل کی پٹریاں تھیں۔ اس اسٹیشن میں داخل ہونے کے متعدد راستے ہیں۔ ہم سامنے والے حصہ سے داخل ہوئے تھے جبکہ اس کے مخالف سمت اور مشرق میں ٹری وولی باغ کی طرف بھی داخلے کے راستے ہیں۔
ڈنمارک کے طول و عرض میں ریل کا جال بچھا ہے۔ ریل کے ساتھ ساتھ میٹرو اور ایکسپریس ٹرین بھی چلتی ہے یہ سلسلہ ڈنمارک سے نکل کر اسکینڈے نیویا بلکہ یورپ کے دیگر ملکوں تک پھیلا ہے۔ میرے خیال میں ملکوں کی ترقی کا ایک پیمانہ اس کے ذرائع نقل و حمل بھی ہیں۔
جہاں ذرائع نقل و حمل عام اور سبک رفتار ہیں وہ ملک ترقی یافتہ اور اس کی عوام خوشحال ہے۔ صنعتی اور معاشی ترقی کی گاڑی نقل و حمل کے تیز ترین پہیوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ تمام ترقی یافتہ ممالک کے درمیان یہ قدر مشترک ہے کہ وہاں رسل و رسائل اور نقل و حمل کے ذرائع جدید، قابل بھروسا اور خاص و عام کی دسترس میں ہیں۔
اس کی ایک مثال طاہر عدیل کی اچانک جرمنی روانگی ہے۔ ایک عام شہری ہونے کے باوجود وہ اتنی آسانی سے دوسرے ملک پہنچ گئے اور اگلے دن لوٹ آئے۔ ان ملکوں میں ایک عام اور مزدور پیشہ شخص اپنی ایک دن کی کمائی سے یہ ٹکٹ خریدنے کا متحمل ہے۔ ریل، بس، ہوائی جہاز، بحری جہاز، کار سمیت اتنے ذرائع سفر موجود ہیں کہ انتخاب مشکل ہے۔ مسابقت کی اس فضا میں ٹکٹ ارزاں اور ہمہ وقت دستیاب ہیں جس سے ہر خاص و عام مستفید ہوسکتا ہے۔ یوں ترقی کا پہیہ رواں دواں رہتا ہے۔
اب ہم کوپن ہیگن سٹی ہال (بلدیہ کا مرکزی دفتر) کے سامنے کھڑے تھے۔ سٹی ہال اپنی منفرداور پرشکوہ عمارت، بلند و بالا کلاک ٹاور اور تاریخی اہمیت کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ سنٹرل اسٹیشن سے زیادہ دور نہیں ہے۔
دراصل شہر کے جس حصے میں میرا قیام تھا، وہ قدیم، تاریخی اور قابلِ دید مقامات کا مرکز تھا۔ سنٹرل اسٹیشن کے علاوہ اس سے ملحق مشہور و معروف اسٹریٹ، تاریخی اور سیاحتی دلچسپیوں سے معمور، ڈنمارک کا شاہی محل، شاہی گرجا گھر، بے شمار عجائب گھر، آرٹ گیلریاں اس علاقے میں واقع ہیں۔ یوں یہ علاقہ سیاحوں کی جنت سمجھا جاتا ہے۔
سٹی ہال کی شاندار عمارت کے سامنے کشادہ صحن میں اس وقت بلاشبہ سیکڑوں سیاح موجود تھے۔ جو چمکیلی دھوپ میں ٹولیوں کی شکل میں کہیں بیٹھے اور کہیں گھومتے نظر آتے تھے۔ اینٹوں سے پختہ صاف ستھرے فرش پر جگہ جگہ رنگا رنگ پھولوں سے لبریز بڑے بڑے گملے رکھے تھے۔
مرکز میں موتیوں کی طرح اُچھلتے پانی والا فوارہ، درجنوں دیدہ زیب سنگی مجسمے، گٹار اور دوسرے آلاتِ موسیقی سے دُھنیں بکھیرتے فنکار، ان دُھنوں پر تھرکتے دلکش بدن، ہشاش بشاش چہروں والے سیاح اور کبوتروں کے غول میں یہ مقام جنت ارضی لگ رہا تھا۔
راجہ افضل سرخ اینٹوں والی، محرابی در و دیوار والی عمارت کے پسِ منظر کے ساتھ میری تصاویر بنا رہے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ ان تصاویر میں وہ بھی نظر آئیں، لہٰذا پاس سے گزرتی ایک چنچل حسینہ سے میں نے درخواست کی کیا آپ ہماری فوٹو بنا سکتی ہیں؟
نازک ڈالی کی طرح لچکتی اور گیندے کے پھول کی طرح مہکتی یہ دوشیزہ رُک گئی۔ اس کے سرخ یاقوتی لبوں پر مسکراہٹ کے موتی سج گئے۔ اس نے کیمرا لیا اور توبہ شکن ادا سے بولی، ضرور! یہاں کھڑے ہو جائیے، قریب ہو جائیے، چہروں پر مسکراہٹ لائیے، میری آنکھوں میں دیکھئے، پھر مسکرائیے۔
ہم اس کافر ادا کی ہدایات پر عمل کر رہے تھے مگر وہ مطمئن نہیں تھی۔ وہ میرے پاس آئی اور ساتھ جڑ کر، بہت زیادہ جڑ کر بولی، ایسے کھڑے ہوں۔ فاصلے اچھے نہیں ہوتے۔
راجہ غفور نے کہا، بی بی ہم دونوں مرد ہیں اور دوست ہیں اور کتنا قریب کرنا چاہتی ہیں۔
یہی تو میں کہہ رہی ہوں یہ نہ سوچیں کہ دونوں مرد ہیں ۔بلکہ یہ سوچیں کہ اپنی اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دل میں وہی احساسات لائیں۔ چہرے پر نرمی اور محبت پھیل جائے گی۔
راجہ صاحب نے کہا، تیس برس سے ایک بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے وہ فیلنگ نہیں آ سکتی جو آپ کی عمر میں ہوتی ہے۔
یہ کیا بات ہوئی، حسینہ کی شوخی بھری حجّت جاری تھی
جتنا طویل ساتھ ہو اتنی زیادہ محبت ہونی چاہئے۔ تیس برس میں تو سارے فاصلے مٹ جانے چاہئے۔
راجہ صاحب نے مذاقاً کہا، بی بی ہماری تصویر بنانے کی بجائے ہمارے ساتھ آ کر کھڑی ہو جاؤ۔ تصویر کوئی اور بنا لے گا۔ اس طرح شاید ہم تمہاری بات سمجھ سکیں۔
وہ حسینہ بھی ڈینش تھی جو ہر حال میں خوش رہنے والی قوم ہے۔ فوراً تیار ہو گئی۔
یہ ٹھیک ہے۔ میں اپنی دوست کو بلاتی ہوں ۔وہ تصویر بنائے گی میں آپ دونوں کے بیچ کھڑی ہوتی ہوں۔ دیکھنا کیسی تصویر بنے گی۔
نیلی جینز، سیاہ جیکٹ اور سرخ ٹوپی میں ملبوس یہ کھلونا ہمارے بیچ آ کھڑا ہوا اور اس کی دوست نے کیمرا سنبھال لیا۔
اس نے ہماری کمر میں ہاتھ ڈال کر اتنا قریب کر لیا کہ من و تُو کا فرق مٹ گیا۔ راجہ صاحب کا مذاق ہمارے گلے پڑ گیا تھا۔ ہم ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔ اس نے مزید غضب یہ کیا کہ جاتے جاتے یورپی اندازِ رخصت کے مطابق ہمارے گالوں پر لال نشان ثبت کر گئی۔ میں نے راجہ افضل سے کہا
ہور چُوپو! اب یہ تصویر دکھائیں گے کسے؟
راجہ صاحب جھینپ مٹاتے ہوئے بولے، آپ سیاح ہیں، رکھ لیں، دوستوں کو دکھائیے گا کہ ڈنمارک میں یوں سواگت ہوتا ہے۔
میں نے کہا، میں اِسے ڈیلیٹ کر رہا ہوں ورنہ اُلٹا سواگت بھی ہو سکتا ہے۔
ہم دونوں ہنستے ہوئے سٹی ہال کے اندر چل دیے۔ یہاں ایک بڑا ہال ہے جسے سٹی ہال کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے ہال ہیں۔ ایک ہال میں قدیم ترین گھڑیوں اور گھڑیالوں کی نمائش لگی تھی۔ اس میں دور قدیم کی عجیب و غریب گھڑیاں موجود تھیں۔
مرکزی ہال میں پہنچے تو سنٹرل اسٹیشن کی طرح اس کی انتہائی بلند چھت، دیدہ زیب فانوس، لمبے پائپ سے منسلک پنکھے، خوشنما نقش و نگار والی دیواریں، تاریخی تصاویر، رنگین شیشوں والے بڑے بڑے دریچے، لکڑی کے کشادہ زینے، شاندار سٹیج اور چوبی کرسیاں میز اس قوم کی عظمتِ رفتہ کی یاد دلا رہے تھے۔ اس کا فرش سفید اور سیاہ ٹائلوں سے مزین ہے۔
اس تین منزلہ عمارت کے زینے اور بالکونیاں، ستون، محرابیں اور دیدہ زیب نقش و نگار انتہائی خوبصورت تھے۔ سٹی ہال کا صدر دروازہ بہت بڑا اور پر شکوہ ہے ۔محرابی کھڑکیاں بھی فنِ تعمیر کا دلکش نمونہ ہیں۔ بحیثیت مجموعی یہ عمارت سادگی، پرکاری، بناوٹ و سجاوٹ، پائیداری و نفاست فن و مہارت کا ایسا دلکش نمونہ ہے جو قابلِ ذکر اور قابل دید ہے۔
یہ سٹی ہال۱۸۹۲ء سے۱۹۰۵ء کے درمیان تعمیر ہوا اس کا خاکہ مشہور ڈینش معمار مارٹن کی ذہنی تخلیق ہے ۔یہ نیشنل رومانٹک طرز تعمیر کا مظہر ہے جو انیسویں اور بیسویں صدی میں اسکینڈے نیویا میں عام تھا۔ اس کا گھنٹہ مینار۱۰۵ میٹر بلند ہے جو کوپن ہیگن کی بلند ترین عمارتوں میں شامل ہے کیونکہ کوپن ہیگن میں بہت زیادہ اُونچی عمارتیں نہیں ہیں۔
یہ مضمون انگریزی میں پڑھیں
https://shanurdu.com/the-magic-of-danish-architecture/