20 C
Lahore
Thursday, December 5, 2024

Book Store

chuhon ki diwaaren|چوہوں کی دیواریں|Maqbool Jahangir

،
،چوہوں کی دیواریں

مقبول جہانگیر

وہ میری زندگی کا انتہائی منحوس، لیکن ناقابلِ فراموش دن تھا کہ مَیں اپنے آبائی محل ایکس ہام میں داخل ہوا۔
جولائی کی ۱۶ تاریخ تھی اور زمانہ آج سے سو سال پہلے کا۔
محل کی مرمت گزشتہ کئی ماہ سے ہو رہی تھی اور یہ وہ دِن تھا کہ آخری مزدور بھی کام ختم کر کے جا چکا تھا۔ ایکس ہام محل گزشتہ کئی صدیوں سے خالی اور ویران پڑا تھا۔
غالباً جیمز اوّل کے دور سے اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ ایک روز میرے خاندان کے چند افراد پُراسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔
روایت یہ تھی کہ اُنھیں کسی شخص نے تیزدھار آلے کی مدد سے قتل کیا ہے اور پھر لاشوں کو اِس بری طرح نوچا اور بھنھوڑا جیسے بلی، چوہے کو نوچتی اور بھنبھوڑتی ہے۔
ایکس ہام محل کے بارے میں عوام کے اندر طرح طرح کی لرزہ خیز کہانیاں اور دَاستانیں مشہور تھیں جو ہمارے خاندان میں بھی سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو منتقل ہوئی تھیں۔
کہتے ہیں کہ میرے دادا کا پردادا جو گیارہویں بیرن کے نام سے مشہور تھا، اِن داستانوں کا اصل سبب بنا۔ اُس نے نامعلوم جنون کے تحت پہلے اپنے تمام خادموں کو قتل کیا، پھر بیوی اور پانچ بچوں کو ہلاک کیا اور وِرجینیا کی طرف بھاگ گیا جہاں ہمارے خاندان کے کچھ اور اَفراد بھی رہتے تھے۔
اُس کے بعد پتا نہیں چل سکا کہ گیارہویں بیرن کا کیا حشر ہوا اَور وُہ وِرجینیا سے کہاں گیا …..
ایکس ہام محل جیسی عظیم الشان عمارت یوں یکایک چھوڑ دینا جس میں دولت کے بےشمار اَنبار نوادر کی شکل میں جمع تھے اور اَپنے بیوی بچوں اور خادموں کو وحشیانہ انداز سے قتل کر دینا صحیح الدماغ آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔
لوگ کہا کرتے تھے کہ بیرن کو کالے علم سے بڑی دلچسپی تھی اور بالآخر اُسی علم کے باعث ایکس ہام کے مکینوں پر یہ آفت ٹوٹی۔
یہ عظیم الشان محل جو صدیوں پرانا تھا اور گاتھک، سیکسن اور رُومیوں کے عظیم فنِ تعمیر کا نادرِ روزگار نمونہ، اِس مشہور وَاقعے کے بعد بالکل خالی پڑا رَہا۔ اِس کا وسیع و عریض باغ اجڑ گیا۔
بڑے بڑے کمروں کی دیواریں اور فرش گرد و غبار سے اٹ گئے۔ جگہ جگہ مکڑیوں نے مہیب جالے تن دیے اور ہزارہا چمگادڑیں اِس کے اندھیرے برآمدوں اور لمبی راہداریوں میں لٹکی رہنے لگیں۔
لوہے اور لکڑی کے بنے ہوئے بلند دروازے، کھڑکیاں اور اُن پر لٹکے ہوئے بھاری پردے سب بوسیدہ ہو گئے، لیکن گرے نہیں۔ چپے چپے پر اونچی گھاس اور خاردار پودوں نے جنم لیا.
آہستہ آہستہ ایکس ہام کی پُرشکوہ اَور شاندار عمارت اُس ویرانی اور ہولناک سناٹے کے اندر پوشیدہ ہو گئی اور صدیوں تک پوشیدہ رہی۔
چونکہ ایکس ہام محل کا مالک قتل جیسی بھیانک واردات کر کے بھاگا تھا، اِس لیے اُس کی جائیداد شاہی حکم کے تحت ضبط کر لی گئی اور چونکہ بیرن کی طرف سے مقدمہ لڑنے والا کوئی شخص انگلستان میں نہ تھا، اِس لیے عرصۂ دراز تک اِس عمارت کے دروازوں اور کمروں پر قفل چڑھے رہے۔
آخر نوریز فیملی کے ایک مقتدر رُکن نے جس کا اُمرا پر خاصا اثر تھا، خاصی خطیر رقم کے عوض یہ محل حکومت سے خرید لیا اور اَپنے خاندان سمیت یہاں آن بسا، مگر اُسے ایک ماہ رَہنا بھی نصیب نہ ہوا۔
روایت یہ ہے کہ ایک روز وُہ بھی اپنے خاندان کے تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر ایسا غائب ہوا کہ آج تک اُس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
اِس دوسرے حادثے کے بعد ہی تمام ملک میں ایکس ہام کے بارے میں عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہوئیں اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کالا علم جاننے والے بیرن کی روح اِس میں رہتی ہے اور وُہ کسی بھی شخص کو جو محل کے اندر قدم رکھے گا، جیتا نہ چھوڑے گی۔
بعض مہم پسند اور خطروں سے کھیلنے والے لوگوں نے ایکس ہام میں جانے اور رَہنے کی کوشش بھی کی اور اِن کہانیوں کے بارے میں تحقیق و تفتیش بھی کی، لیکن کوئی قابلِ ذکر نتیجہ برآمد نہ ہوا.
تاہم وہ شخص جو کبھی زمانۂ قدیم میں اِس محل کے اندر گیا، اِس بات پر یقین رکھتا تھا کہ یہاں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ ہے ضرور۔
قصبہ مانچسٹر کے مغرب میں تین میل کے فاصلے پر چونے، لوہے، لکڑی اور پتھر کی بنی ہوئی اِس قدیم اور پُرشکوہ عمارت کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے ماہرینِ تعمیرات آتے رہتے تھے.
اِسی وجہ سے اِس کی شہرت انگلستان اور دوسرے یورپی ملکوں میں عام تھی، لیکن مَیں اِس سے بالکل بےخبر رہا۔ شاید اِس لیے کہ کئی پشتوں سے ہمارا خاندان انگلستان سے نکل کر امریکا جا بسا تھا۔
مجھے خوب یاد ہے مَیں سات سال کا تھا کہ ایک روز دادا نے کھانے کی میز پر ایکس ہام محل کا ذکر کیا اور میرے والد کو بتایا کہ وہ تاریخی عمارت ہماری ملکیت رہی ہے۔
اُنھوں نے ایک وصیت نامے کا ذکر بھی کیا جو لفافے میں بند تھا اور میرے پردادا کے پاس حفاظت سے رکھا تھا۔ وہ کبھی کبھی اُسے تنہائی میں کھول کر دیکھا کرتے اور کچھ سوچتے، لیکن اُنھوں نے اپنے بیٹے کو اُس کے بارے میں کچھ نہ بتایا کہ اِس میں کیا لکھا ہے۔
اُن دنوں وہ کارفیکس میں رہتے تھے اور سول وار کا دور تھا۔ اچانک ایک روز مکان میں آگ لگی اور سب کچھ جل گیا۔
میرے پردادا بھی اُسی آگ میں جل مرے۔
پھر وہ بڑا سا لفافہ کسی نے نہ دیکھا۔
دادا کارفیکس سے اپنے خاندان کو لے کر میساچوسٹس چلے آئے اور اُن کا انتقال وہیں ہوا۔
والد اُن دنوں فوج میں تھے اور زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتے۔
اِس لیے ایکس ہام کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں مل سکیں اور نہ وہ وَقت ایسا تھا کہ مَیں اُن سے کچھ پوچھ سکتا۔
۱۹۰۴ء میں میرے والد نے وفات پائی۔ مرنے سے تھوڑی دیر پہلے تک وہ پورے ہوش و حواس میں تھے۔ خاندان کے سبھی افراد اُن کے پاس موجود تھے۔ والد نے زندگی کے آخری سانس لیتے ہوئے اپنی انگلی سے میری طرف اشارہ کیا اور بولے:
’’ایکس ہام ….. نوریز فیملی سے واپس لے لو ….. وہ ہمارا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہی اُنھوں نے دم توڑ دیا۔
چند روز تک تو اُن کے یہ پُراسرار الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہے، پھر مَیں اُنھیں بھول گیا۔ کیونکہ اپنے کاروبار میں اِس قدر پھنسا ہوا تھا کہ کسی اور طرف توجہ کرنے کی فرصت نہ تھی۔
اُنہی دنوں میری بیوی بھی دنیا سے رخصت ہوئی اور دَس سال کے اکلوتے لڑکے الفرڈ کی پرورش اور تربیت کی ذمےداری میرے ہی کندھوں پر آن پڑی۔
الفرڈ نہایت سمجھ دار اَور ذہین بچہ تھا اور ہمیشہ مجھ سے اپنے خاندان کے بزرگوں کے حالات پوچھا کرتا، مجھے کچھ معلوم ہوتا، تو بتاتا؟ تاہم چند موٹی موٹی باتیں مَیں نے اُسے بتائیں۔
اُسے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہم کوئی ایرے غیرے نہیں، بلکہ انگلستان کے قدیم، معزز اور اَمیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور اَنچسٹر کی مشہور عمارت ایکس ہام کے اصل مالک بھی ہم ہی ہیں۔
الفرڈ کو مَیں نے اُس کی ضد اور شدید شوق کے پیشِ نظر انگلستان بھیجا اور ہوابازی کی تربیت دینے والے ایک سکول میں داخل کرا دِیا۔ اُس نے بہت جلد تربیت ختم کی اور ہواباز بن گیا۔
وہ برابر مجھے خط لکھتا اور ہر خط میں کوئی نہ کوئی نئی دریافت اپنے خاندان سے متعلق ضرور ہوتی۔ رائل فلائنگ کارپس کا ایک کیپٹن ایڈورڈ نوریز اُس کا دوست بن گیا تھا .
جب کیپٹن نوریز نے اُسے بتایا کہ ایکس ہام کا قدیم محل ابھی تک اُنہی کے قبضے میں چلا آتا ہے، تو الفرڈ مزید صبر و ضبط سے کام نہ لے سکا اور اُس نے ایک خط میں اپنے دادا کی وصیت کے الفاظ لکھے اور زور دِیا کہ ایکس ہام محل نوریز خاندان سے واپس خرید لیا جائے۔
وہ اُسے فروخت کرنے کے لیے بھی بخوشی آمادہ ہیں۔ اُس میں کوئی شخص گزشتہ تین سو برس سے نہیں رہا کیونکہ عمارت بدنام ہو چکی ہے اور اُس کے بارے میں مانچسٹر کا ہر فرد کہتا ہے کہ یہ آسیب زدہ ہے۔
کیپٹن نوریز نے میرے لڑکے کو ایکس ہام کی چند لرزہ خیز کہانیاں سنائیں جن کے بارے میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی کہ غلط ہوں گی۔
جب سے اُس فیملی نے یہ عمارت خریدی تھی، اُسی وقت سے اُن پر کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہی حتیٰ کہ اُن لوگوں نے آپس میں ہی ایک دوسرے کے گلے کاٹنے شروع کر دیے۔
آخر وہ سب کے سب یہاں سے نکل گئے اور اَنچسٹر کے دوسرے مکانوں میں جا بسے۔
الفرڈ کے بار بار کے تقاضوں سے تنگ آ کر آخر مَیں نے ایکس ہام خریدنے کا ارادہ کر لیا۔ اُس وقت کیپٹن نوریز کا حقیقی چچا اُس کا مالک تھا اور اَپنی عمر کے اسّی برس مکمل کر چکا تھا۔
انتہائی نفرت اور حقارت کے ساتھ اُس خبیث بڈھے نے مجھے دیکھا اور آپ ہی آپ کچھ بڑبڑانے لگا۔
کیپٹن نوریز نے اُس کی طرف سے معذرت کی اور اَیکس ہام کو بیچنے کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کر کے تمام کاغذات مکمل کرائے.
یوں یہ عمارت صدیوں بعد دوبارہ ہمارے خاندان کے قبضے میں آ گئی۔
الفرڈ کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اُس نے جوش میں آ کر کہا:
’’ابّا! تم دیکھنا مَیں اِس محل کی کیسی عمدہ مرمت کراتا ہوں۔ بڑے بڑے لوگ آئیں گے اور حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دے لیں گے۔
غضب خدا کا ہم کوئی معمولی آدمی ہیں۔ ہم ڈی ….. لا ….. پورز ہیں ….. جس کے خاندان کا ہر شخص بیرن ہے بیرن۔‘‘
مجھے اپنے کاروبار کے سلسلے میں اُنہی دنوں امریکا واپس جانا پڑا اَور پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی۔
دو سال تک مجھے اپنے بیٹے کا کوئی خط نہ ملا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے،
البتہ ایک دو مرتبہ کیپٹن نوریز کا خط آیا جس سے معلوم ہوا کہ اَلفرڈ بخیریت ہے اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب مَیں اپنے الفرڈ کو دیکھنے انگلستان گیا، تو وہ اَپنی دونوں ٹانگیں کھو چکا تھا۔
اُسے اِس حالت میں دیکھ کر کلیجہ پھٹ گیا اور قریب تھا میرے دل کی حرکت بند ہو جائے، اُس نے بڑے استقلال اور حوصلے سے کہا:
’’ابّا! اِس میں گھبرانے یا رونے کی کیا بات ہے۔ مَیں نے ایک نیک مقصد اور وَطن کی حفاظت کا فرض انجام دیتے ہوئے ٹانگیں کھوئی ہیں۔ خدا کو یہی منظور تھا۔ اب مَیں کچھ زیادہ دِن نہ جیوں گا، لیکن مرنے سے پہلے ایکس ہام کو اپنی اصلی حالت میں ضرور دَیکھنا چاہتا ہوں۔
پیارے ابّا! آپ میری یہ خواہش پوری کریں گے؟‘‘
میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ مَیں نے بےاختیار اُسے لپٹا لیا اور بولا:
’’بیٹا! میری یہ تمام دولت آخر ہے کس کی؟ یہ سب کچھ تمہارے ہی لیے ہے۔ مَیں بہت جلد ایکس ہام کی مرمت کراؤں گا اور خدا نے چاہا، تو آئندہ موسمِ سرما تک ہم امریکا سے آ کر اُس میں آباد ہو جائیں گے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ مکان آسیب زدہ ہے، لیکن مَیں اُن آسیبوں اور بھوتوں پر یقین نہیں رکھتا۔
ویسے بھی کیپٹن نوریز کا خیال ہے کہ لوگوں نے خواہ مخواہ کی کہانیاں بنا رکھی ہیں۔ اگر کسی انسان نے اُس عمارت کے اندر کسی کا خون بہایا ہے یا کسی کو قتل کیا، تو اُس کی وجہ بدروحیں یا آسیب نہیں ہو سکتے۔‘‘
میرے اِن جملوں پر الفرڈ کی آنکھیں فرطِ مسرّت سے چمکنے لگیں۔
اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مَیں تمام کاروبار اَپنے حصّےداروں کے سپرد کر کے انگلستان آ گیا اور اَنچسٹر ہی میں ایک مکان کرائے پر لے کر رہنے لگا۔ مَیں نے بہت جلد محسوس کر لیا کہ اِس قصبے کے لوگ ہمیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور دُور دُور رَہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابتدا میں خیال آیا شاید دو چار روز میں گھل مل جائیں اور چونکہ ہم اتنے دن دیارِ غیر امریکا میں رہ کر آئے ہیں، اِس لیے یہ ہمارے قریب نہیں آتے۔ مگر بہت جلد پتا چل گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔
وہ ہمیں شیطان، مردود اَور نہ جانے کیا کچھ سمجھتے اور برملا کہتے تھے کہ ہم ڈی لا پورز والے انسانوں کے بھیس میں بلائیں ہیں اور ایک نہ ایک دن اِس گاؤں پر کوئی ایسی آفت لے کر آئیں گے کہ ایک فرد بھی زندہ نہ بچے گا۔
ایکس ہام کی مرمت اور تعمیر کے کام کے لیے مانچسٹر کا کوئی آدمی تیار نہ ہوا۔
اُن کے دلوں میں ہمارے خاندان کے خلاف صدیوں سے نفرت اور حقارت کا مادہ بھرا ہوا تھا جو آہستہ آہستہ نکل رہا تھا۔
اُنھوں نے ہمیں مانچسٹر سے نکالنے کی بڑی کوشش کی، مگر پولیس ہماری مدد کے لیے موجود تھی اور پھر الفرڈ کی خدمات کا جب ذکر کیا جاتا، جو اُس نے اِس جنگ میں انگلستان کے لیے ادا کی تھیں، تو لوگوں کا غصّہ کچھ ٹھنڈا پڑتا۔
اُنھوں نے اِس قصبے کے اندر رَہنے کی اجازت تو دے دی، مگر ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنا پسند نہ کیا۔
ہم نے اِسی کو غنیمت سمجھا۔
مانچسٹر کے لوگوں کے اِس نامعقول اور بےہودہ رَویّے سے ہمیں بےحد رنج ہوا۔
خصوصاً الفرڈ نے اُسے بہت زیادہ محسوس کیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ انگریز جتنا قدامت پسند، مُحبِ وطن ہے، اُس سے کہیں زیادہ کینہ پرور اَور تنگ دل بھی ہے۔
کیپٹن نوریز کبھی کبھی ہم سے ملنے آتا اور وُہ بھی رات کی تاریکی میں ….. کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مانچسٹر کا کوئی شخص اُسے ہمارے پاس آتا جاتا دیکھے۔
وہ کسی قدر پست قامت اور فربہ آدمی تھا۔ طبیعت کا نرم اور بےحد خوش مزاج۔ اُسے الفرڈ سے بےپناہ محبت تھی۔ وہ کہا کرتا:
’’الفرڈ! فکر نہ کرو، مَیں تمہارے ابّا کا ہر معاملے میں ساتھ دوں گا اور جہاں تک ممکن ہو سکا، ایکس ہام کی مرمت کے کام میں اُن کا ہاتھ بٹاؤں گا۔‘‘
بڑی مشکل سے چند راج مزدور باہر سے گراں معاوضے پر لائے گئے اور کام کا آغاز ہوا، لیکن چند روز بعد ہی اچانک الفرڈ کی حالت بگڑی ۔
اِس سے پیشتر کہ مَیں کسی ڈاکٹر کو بلاؤں، اُس نے آخری ہچکی لی اور دَم توڑ دیا۔
مرتے وقت اُس کے لبوں پر بھی ایکس ہام کا نام تھا۔
الفرڈ کے مرنے سے میری کمر ہی گویا ٹوٹ گئی۔ اب مَیں یہاں رہ کر کیا کرتا اور ایکس ہام سے مجھے کیا دلچسپی تھی؟ چنانچہ مَیں نے امریکا چلے جانے کا فیصلہ کیا، مگر کیپٹن نوریز نے دلاسا دیا اور کہا:
’’مَیں آپ کو اپنا حقیقی چچا تصوّر کرتا ہوں۔ الفرڈ کی بڑی خواہش تھی کہ ایکس ہام اِس کے خاندان کو دوبارہ مل جائے۔ اُس کی یہ خواہش پوری ہو چکی۔
اب مرمت کا کام باقی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُس کی روح کو تسکین پہنچانے کے لیے آپ الفرڈ کی دوسری خواہش رد نہ کریں گے۔‘‘
مَیں نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور مرمت کا کام زور شور سے شروع ہوا۔ میری خستہ حالت اور کیفیت دیکھ کر مانچسٹر کے بعض معّمر اور شریف لوگوں کے دل میں خدا نے رحم کے جذبات پیدا کر دیے.
جب اُنھوں نے یہ سنا کہ مَیں محض اپنے آنجہانی بیٹے کی آخری خواہش پوری کرنے کے احترام میں ایکس ہام کی مرمت کرا رَہا ہوں، تو اُن کے ذہن کسی قدر صاف ہوئے۔
اب وہ میرے کام میں روڑے اٹکاتے نہ گالیاں دیتے، تاہم اکثر لوگ ایسے تھے جو اَب بھی مجھے آدمی کے بھیس میں شیطان سمجھ کر دُور دُور رَہتے اور قریب سے گزرنا بھی پڑتا، تو سینے پر انگلی سے صلیب کا نشان بناتے ہوئے گزرتے۔
اُنہی دنوں ایک اطالوی ماہرِ آثارِ قدیمہ مسٹر بسانیو مانچسٹر میں آیا۔
اُس کا مقصد ایکس ہام کو دیکھنا اور اُس کے بارے میں مزید تاریخی معلومات حاصل کرنا تھا۔ میرے ساتھ ہی وہ اُس کے معائنے کے لیے گیا اور جونہی ہم وادی سے گزر کر آخری سِرے پر پہنچے اور اَیکس ہام کے بلند بُرج دکھائی دیے، بسانیو ٹھٹک گیا۔
اُس کے چہرے پر حیرت اور خوف کے آثار نمودار ہوئے اور آنکھیں تارہ سی بن گئیں۔
چند لمحے بعد اُس نے اِس انداز میں گردن ہلائی جیسے میری موجودگی سے بالکل بےخبر کسی نادیدہ شخص کے سوال کا جواب دے رہا ہو۔ مَیں پریشانی کے عالم میں اُسے دیکھ رہا تھا۔
یکایک وہ ہوش میں آیا اور مجھ سے معذرت طلب انداز میں بولا:
’’معاف کیجیے، مَیں ایک خیال میں گم ہو گیا تھا۔ عمارت لافانی اور بےحد قیمتی ہے، بےحد قیمتی۔ مَیں اِس عظیم خزانے کے مالک کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔
آپ بہت خوش نصیب ہیں جناب کہ یہ عمارت جس کی قدامت کا کوئی اندازہ فی الحال ممکن نہیں، آپ کے قبضے میں ہے۔‘‘
مَیں چپ چاپ اُس کے ساتھ چلتا رہا۔ جب ہم اُس اجڑے ہوئے، لیکن وسیع و عریض باغ میں داخل ہوئے جو عمارت کے شرقاً غرباً پھیلا ہوا تھا.
جہاں سے اُس کا پُرشکوہ اَور عظیم دروازہ صاف دکھائی دیتا تھا، تو بسانیو کے حلق سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی۔
’آہ ….. دروازہ …..  بُرجیاں ….. یہ کھڑکیاں ….. یہ دیواریں …..‘‘
انتہائی بےتابی اور اِضطراب کے عالم میں وہ میری پروا کیے بغیر دوڑا اَور دَروازے کے قریب پہنچ گیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ شاہ بلوط کے بنے ہوئے دروازے کے نقش و نگار دیکھنا چاہتا ہے، لیکن وہ تو کچھ اور ہی دیکھ رہا تھا۔
جب میری اُس پر نگاہ پڑی، تو ایک لحظے کے لیے جیسے میرا خون سرد ہو گیا۔
یہ کسی نامعلوم دھات کا بنا ہوا سیاہ رَنگ کا ایک بڑا مجسمہ تھا اور کس کا؟ چوہے کا ….. بہت بڑے چوہے کا جس کا منہ بڑے بھیانک انداز میں کھلا ہوا تھا اور سفید نوکیلے دانت جو خدا جانے کس چیز سے بنائے گئے تھے، صاف نظر آتے تھے۔
چوہے کی آنکھوں میں سرخ رنگ کے چمکدار پتھر جڑے تھے۔ میرے ساتھی نے اپنا رومال نکالا اور گرد و غبار سے اٹے ہوئے چوہے کے اُس مکروہ مجسمے کو صاف کرنے لگا۔
اب مَیں نے دیکھا کہ اُس پر رومن الفاظ میں چند حروف لکھے ہیں جنہیں میرا ساتھی محدّب شیشے کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس کے لب سختی سے بھنچے ہوئے تھے ۔
وُہ دُنیا و مافیہا سے بےخبر اُن الفاظ میں کھویا ہوا تھا۔ مَیں نے اُس سے پوچھنے کی کوشش کی، مگر اُس نے ہاتھ اٹھا کر کہا:
’’جناب ذرا صبر کیجیے ….. مَیں سب کچھ آپ کو بتاؤں گا۔‘‘
پھر وہ محل کے اندر گیا اور ایک ایک کمرے اور ایک ایک راہداری اور برآمدے کو دیکھا۔ جس چیز پر اُس کی نظر پڑتی، وہیں جم جاتی۔ کبھی کبھی وہ اَپنی بغل میں دبی ہوئی ایک کتاب نکال کر کچھ دیکھتا اور پنسل سے کہیں کہیں نوٹ لکھتا۔
ایکس ہام کے مغربی حصّے کی دیواریں اُس کی خاصی دلچسپی کا باعث بن رہی تھیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اُن پرانی، بوسیدہ اَور پلستر سے اکھڑی ہوئی سیاہ دِیواروں میں اُس شخص کو کیا نظر آ رہا تھا کہ وہ وَہاں سے ٹلنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔
پاگلوں کی طرح وہ ایک طرف سے دوسری طرف جاتا اور پھر فیتہ نکال کر دیواروں کی لمبائی چوڑائی ناپنے لگتا۔ اِس دوران میں اُس کی توجہ نہ اُن ہزاروں چمگادڑوں کی طرف گئی جو تاریک زینوں اور اُونچی چھتوں کے اندر لٹکی ہوئی تھیں۔
نہ مکڑیوں کے اُن مہیب اور بڑے بڑے جالوں کو دیکھ سکا جو بار بار اُس کی راہ میں حائل ہوتے تھے۔ جنگلی کبوتروں اور چڑیوں کے وہ بےشمار گھونسلے جو ایکس ہام کے اندرونی اور تاریک کمروں میں جا بجا بنے ہوئے تھے، اُس کی نگاہ میں نہ آئے۔
رات کو کھانے کے بعد جب وہ آرام سے بیٹھا قہوہ پی رہا تھا کہ میرے استفسار پر مدھم لہجے میں بولا:
’’جناب! مَیں حیران ہوں کہ کن الفاظ میں اِس عظیم اور تاریخی عمارت کا ذکر کروں۔ یقین فرمائیے پورے انگلستان میں ایسی عمارت کوئی اور نہیں۔
میری معلومات کے مطابق اِس کی تعمیر ۱۰۰۰ء سے بھی قبل کی ہے، تاہم جو علامات مَیں نے دیکھی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایکس ہام کی جگہ پہلے ایک معبد تھا جسے رومنوں کے ایک خاص فرقے نے تعمیر کیا تھا اور وُہ چوہے کی پوجا کرتے تھے۔‘‘
’’چوہے کی پوجا؟‘‘ مَیں چلّا اٹھا۔ ’’مَیں نہیں مان سکتا۔‘‘
’’آہ ….. آپ نہ مانیں، لیکن یہ حقیقت ہے۔‘‘ بسانیو نے اُسی لہجے میں کہا۔ ’’آپ نے چوہے کا وہ مجسمہ نہیں دیکھا جو صدر دَروازے کے قریب رکھا تھا۔ اُس زمانے میں رومنوں کے مختلف فرقے تھے جو شیطانوں اور بدروحوں کی عبادت کرتے اور اُن کے لیے انسان بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔
اُن کا خیال تھا کہ خدا کی نسبت شیطان، انسان کے زیادہ قریب ہے اور وُہ اُن کی جلدی مدد کر سکتاہے۔ اِس لیے اُنھوں نے چوہے، سانپ، چمگادڑ، بھیڑیے کو اَپنا دیوتا بنایا۔
وہ اِن جانوروں کو شیطانی علامت (symbol) قرار دَیتے تھے اور اُن کا کہنا ہے کہ اِن جانوروں کے اندر شیطانی صفات اور خوبیاں دوسرے جانوروں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
پرانی تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ زمانہ آگسٹائن سوم کا تھا جبکہ پلید اور مکروہ جانوروں کو پوجنے والے کئی خفیہ رومن فرقے وجود میں آ چکے تھے۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے اِس قسم کی پوجا اور قربانی سخت ممنوع اور ناقابلِ معافی جرم سمجھی جاتی تھی، تاہم اُس دور میں سینکڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔ مَیں جس رومن فرقے کا ذکر کرتا ہوں، اُس کا دیوتا چوہا تھا۔
یہاں ….. اِس محل کے کئی بڑے کمروں میں ہزاروں لاکھوں چوہے پلے ہوئے تھے جنہیں انسانی خون اور گوشت کا چسکا ڈالا گیا۔ یہ آدم خور چوہے بڑے موٹے تازے اور خونخوار تھے۔
ایک روز یہ چوہے آزاد ہو گئے اور اُنھوں نے نہ صرف ایکس ہام کے اندر رَہنے والے تمام جانوروں اور اِنسانوں کو چٹ کیا، بلکہ قصبہ مانچسٹر میں بلا بن کر نازل ہوئے اور بڑی تباہی مچائی۔
کئی ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد اُنھیں چُن چُن کر مارا گیا اور چوہوں کی دشمنی اب تک مانچسٹر کے لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔
اب یہاں کوئی چوہا نہیں ہے اور اَگر کہیں باہر سے آ جائے، تو یہ لوگ اُس وقت تک دانہ پانی اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں جب تک اُسے ہلاک نہ کر لیں۔
’’ایکس ہام کا پہلا بیرن ۱۲۶۱ء میں گزرا ہے۔ اُس وقت انگلستان پر ہنری سوم حکمران تھا اور یہ وہی بیرن تھا جس نے اپنے خاندان کے تمام افراد اَور نوکروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
اُس کا نام تھا گلبرٹ ڈی لاپور، جو بعدازاں آپ کا خاندانی نام بن گیا۔
لوگوں میں مشہور ہے کہ بیرن گلبرٹ کے اندر کسی چوہے کی روح حلول کر گئی تھی جس کے زیرِ اثر وُہ رَات کو چوہا بن جاتا اور اِنسانی لہو پیتا اور گوشت کھاتا۔
اُس کے بعد جب نوریز فیملی نے ایکس ہام خریدا، تو اُن کی کئی عورتیں بھی چڑیلیں بن گئیں۔
یہ ۱۳۰۷ء کا واقعہ ہے۔ اُن میں لیڈی مارگریٹ ٹریور کا نام قابلِ ذکر ہے جسے بعدازاں مانچسٹر کے لوگوں نے پکڑ کر آگ میں زندہ جلا دیا۔‘‘
جُوں جُوں وہ اَپنی داستان سناتا گیا، میرے جسم کے رونگٹے دہشت سے کھڑے ہوتے گئے۔ حلق خشک ہو گیا اور ایسی اینٹھن سی اٹھنے لگی جیسے کوئی میرا گلا دبا رہا ہو۔
’’کیا بات ہے جناب! آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ بسانیو نے پوچھا۔
’’ہاں! ابھی تو ٹھیک ہے، لیکن اگر آپ اِسی طرح یہ بھیانک اور بےسروپا قصّے سناتے رہے، تو یقیناً خراب ہو جائے گی۔‘‘
مَیں نے مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے کہا اور وُہ ہنس کر چپ ہو گیا۔
چند لمحے سنجیدہ رَہنے کے بعد اُس نے کہا:
’’لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اِس عمارت میں رہائش کا ارادہ ترک کر دیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اِس لیے کہ وہاں ابھی تک بدروح کا اثر ہے۔‘‘
’’آپ سائنس دان ہو کر ایسی باتیں مانتے ہیں۔‘‘
’’سائنس کا اِن باتوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک الگ دنیا ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ کیپٹن نوریز وہاں آ گیا اور گرم گرم بحث شروع ہو گئی جس کا اختتام اِس پر ہوا کہ یہ روایات ممکن ہے کسی دور میں سچ ہوں،
لیکن اب تو گزشتہ دو سو برس سے کسی شخص کو ایکس ہام سے کوئی نقصان نہیں پہنچا، اِس لیے وہاں رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
دوسرے یہ کہ مانچسٹر والوں کے دل سے ایکس ہام کا خوف اور دَہشت نکالنے کے لیے بھی اب ضروری ہو گیا ہے کہ اُس کا مالک وہیں جا کر رہے۔
جیسا کہ مَیں نے ابتدا میں کہا، ۱۶ جولائی ۱۹۲۳ء کا وہ منحوس دن تھا جب مَیں نے رہائش کے ارادے سے ایکس ہام میں قدم رکھا۔ مرمت ہونے کے بعد عمارت کی شکل ہی کچھ اور نکل آئی تھی۔
اِس سے پیشتر جس ویرانی اور سناٹے کا احساس ہوتا تھا، وہ اِحساس اب کسی حد تک زائل ہو چکا تھا۔
میرے عملے میں سات ملازم اور نو بلیاں شامل تھیں۔ شاید آپ یہ سمجھیں کہ مَیں نے ایکس ہام کے آدم خور ’’چوہوں‘‘ کے ڈر سے یہ بلیاں پالی ہوں گی، جی نہیں، بلکہ بلیاں پالنے کا شوق مجھے بچپن سے ہے۔
جس وقت مَیں امریکا سے چل کر انگلستان پہنچا ہوں، اُس وقت بھی میرے پاس بارہ بلیاں تھیں جن میں سے تین اب تک مر چکی تھیں اور نو باقی بچیں۔
اُن میں سے سیاہ رنگ کی ایک خوبصورت سیامی بلی مجھے سب سے زیادہ عزیز تھی اور وُہ بھی ہر وقت میرے ساتھ لگی رہتی۔ حتیٰ کہ رات کو میرے بستر پر پائنتی کی طرف سوتی اور اَپنے اگلے پنجے اِس خیال سے میرے پیروں پر رکھتی کہ مَیں اُس کی بےخبری میں کہیں چلا نہ جاؤں۔
اُس کا نام مَیں نے ’’کوئین‘‘ رکھا تھا۔ اُس کی چال ڈھال اور عادتیں بالکل شاہانہ تھیں اور وُہ گزشتہ سات برس سے میرے پاس تھی۔
ایکس ہام میں آنے کے بعد پانچ دن انتہائی سکون اور آرام سے گزرے۔ اِس مکان کے چپے چپے اور گوشے گوشے پر میرے عظیم آبا و اَجداد کے نقوش مرتسم تھے اور دَر و دِیوار اُنہی کی داستان زبانِ حال سے سناتے تھے۔
کیپٹن نوریز اب مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز تھا کیونکہ وہ میرے آنجہانی بیٹے الفرڈ کا پیارا اَور قابلِ اعتماد دوست تھا۔ وہ دِن کا بیشتر حصّہ میرے پاس ہی رہتا۔
طرح طرح کے قصّے کہانیاں اور لطیفے سنا کر الفرڈ کا غم میرے دل سے نکالنے کی کوشش کرتا۔
۲۲ جولائی کے روز ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے کچھ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیا،
تاہم مَیں نے اُسے اپنا وہم سمجھ کر ٹالنا چاہا اور کسی سے اُس کا ذکر نہ کیا۔
قصّہ یہ تھا کہ اُس دن میری چہیتی بلی کوئین خلافِ معمول بےحد مضطرب اور بےچین نظر آئی۔ اُس نے اپنا ناشتہ بھی نہ کیا اور سارا دِن ایکس ہام کے مغربی حصّے میں گھومتی رہی۔ یہ حصّہ مَیں نے اپنی رہائش کے لیے بہتر اور مناسب خیال کیا تھا۔
وہ دِیوار کے ساتھ ساتھ دور تک جاتی اور پھر اپنے پنجوں سے اُسے کھرچنے کی کوشش کرتی۔ کبھی کبھی وہ رُک کر دیوار کو گھورنے لگتی اور اُس کے کان کھڑے ہو جاتے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا اُسے کیا ہو گیا ہے۔
تیسرے پہر جب مَیں دوسری منزل پر اپنی مختصر سی لائبریری میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا، ایک ملازم اندر آیا۔
اُس کے چہرے پر پھیلے ہوئے خوف کے ہلکے ہلکے تاثرات مَیں نے صاف پڑھ لیے۔
گھبرائے ہوئے لہجے میں اُس نے کہا:
’’سرکار! تمام بلیاں بےچین ہیں ….. وہ نچلی نہیں بیٹھتیں۔
پوری عمارت میں اِدھر سے اُدھر بھاگی دوڑی پھرتی ہیں۔‘‘
عین اُسی لمحے کوئین جو میرے قدموں میں چپ چاپ گردن جھکائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی، چونک کر سامنے مغربی دیوار کی طرف گھورنے لگی۔
اُس کے کان کھڑے ہو گئے، پھر وہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں اِس انداز میں آگے بڑھی جیسے اپنے شکار پر جھپٹنے کا ارادہ کر رہی ہو، لیکن وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔
دیوار کے قریب پہنچ کر وہ اُسے سونگھنے اور پھر پنجے سے کھرچنے لگی۔
مَیں نے اُسے ڈانٹ کر اَپنے پاس بلایا۔ وہ آ تو گئی، لیکن اُس کی متجسس اور مضطرب نظریں دیوار ہی پر جمی رہیں۔ میرا ملازم بھی اُس کی یہ حرکت غور سے دیکھ رہا تھا، کہنے لگا:
’’جناب! ساری بلیاں بالکل اِسی طرح کر رہی ہیں ….. خدا ہی بہتر جانتا ہے، کیا معاملہ ہے۔‘‘
’’شاید اُنھیں اِن دیواروں سے چوہوں کی بُو آتی ہے۔‘‘
مَیں نے کہا۔
’’صدیوں پیشتر یہاں ہزارہا چوہے رہتے تھے، یقیناً اُن کی بُو اَبھی تک باقی ہو گی اور چونکہ بلیوں کی قوتِ شامہ ہماری نسبت تیز ہے، اِس لیے وہ اُس بُو کو پا کر بےچین ہو رہی ہیں۔ جاؤ گھبرانے کی کیا بات ہے۔
دو چار دِن میں بلیاں اِس کی عادی ہو جائیں گی۔‘‘
’’لیکن سرکار! شروع کے پانچ دن بھی تو یہ بلیاں یہیں رہی ہیں۔ اُس وقت اُنھوں نے کوئی بُو کیوں نہ پائی؟‘‘ ملازم نے پوچھا اور مَیں حیرت سے اُس کا منہ تکنے لگا۔
میرے پاس اِس دلیل کا کوئی جواب نہ تھا، چنانچہ مَیں نے ذرا ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اُسے ٹال دیا۔
جب وہ سلام کر کے جا چکا، تو مَیں کرسی سے اٹھا اور مغربی دیوار کا معائنہ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا، لیکن دوسرے ہی لمحے کوئین مجھ سے پہلے دیوار کے پاس پہنچ چکی تھی اور اَب اُس کے کھلے منہ سے غرغر کی ہلکی آواز بھی برآمد ہونے لگی۔
مَیں نے دیوار پر ہاتھ پھیرا، تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ دیوار چونے اور پتھر کی نہیں، کسی نرم کھال سے بنی ہوئی ہے۔ خدا کی پناہ …..
میرے بدن میں ایک ثانیے کے لیے تھرتھری سی چھوٹ گئی، مگر فوراً ہی یہ احساس جاتا رہا۔ اب مَیں ایک بوسیدہ، لیکن سخت دیوار پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور بلی عالمِ دیوانگی میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک بار بار آ جا رہی تھی۔
سورج غروب ہونے کے فوراً بعد تمام بلیاں پُرسکون ہو گئیں اور اَپنے اپنے کمروں میں جہاں اُنھیں رکھا گیا تھا، آرام سے جا بیٹھیں۔
مَیں نے حسبِ عادت تنہا کھانا کھایا اور چونکہ بہت جلد سو جانے کا عادی ہوں، اِس لیے کوئین کو لے کر اَپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔
یہ خواب گاہ اَیکس ہام کے جنوبی حصّے میں سب سے الگ تھلگ واقع تھی۔
مانچسٹر کی طرف سے اٹھنے والے شور کی آواز بمشکل ہی یہاں پہنچتی۔ اِس لیے مَیں نے اِس کمرے کا انتخاب کیا تھا۔
کمرے میں داخل ہو کر مَیں نے لکڑی کا بھاری، مگر بےحد مضبوط دروازہ اَندر سے بند کر لیا اور کھڑکیوں کے پردے گرا دِیے اور خود آرام دہ نرم بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔
ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی، حتیٰ کہ کسی جانور کے بولنے کی آواز بھی کان میں نہ آتی۔
ایکس ہام کے نواح میں پھیلا ہوا ویران اور اُجڑا ہوا باغ پرندوں سے خالی پڑا تھا، البتہ آسمان پر بڑی بڑی چمگادڑیں ضرور اُڑ رہی تھیں۔
کبھی کبھی وہ خاصی نیچے آ جاتیں، لیکن اُن کے پھیلے ہوئے مکروہ پَروں سے کوئی آواز نہ نکلتی تھی۔
میری نظروں کے عین سامنے شمال کے رخ ایک کھڑکی جس کا پردہ مَیں نے دانستہ نہیں کھینچا تھا تاکہ باہر سے تازہ ہوا آتی رہے۔
اگرچہ سورج غروب ہوئے دیر ہو چکی تھی اور چاند غالباً رات کے پچھلے پہر صرف تھوڑی دیر کے لیے نکلنے والا تھا، تاہم مغرب کی طرف آسمان پر چند رنگ برنگی قوسیں اور زاویے چمکتے دکھائی دیے۔
اُن کی شکلیں بار بار بدل رہی تھیں۔ مَیں دیر تک یہ تماشا دیکھتا رہا۔ پھر نہ جانے کب نیند کی آغوش میں جا پہنچا۔ لیکن فوراً ہی ایک بھیانک خواب دیکھا اور پھر آنکھ کھل گئی۔
میرے سرہانے جلتے ہوئے تیل کے لیمپ کی روشنی مزید مدھم پڑ چکی تھی۔
باہر گھپ اندھیرا تھا، مَیں نے اپنے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز خود سنی اور بدن کو پسینے میں تربتر پایا۔
خدا کی پناہ، کیسا عجیب اور ڈراؤنا خواب تھا۔
مَیں نے ہاتھ بڑھا کر قریبی میز پر سے پانی کا گلاس اٹھانا چاہا اور اِس اثنا میں پائنتی کی جانب نگاہ گئی۔
کیا دیکھتا ہوں، میری وفادار سیاہ بلی اپنی جگہ بےحس و حرکت بیٹھی سامنے دیوار پر ٹکٹکی باندھے تَک رہی ہے۔ اُس کے کان کھڑے تھے اور آنکھیں …..
اُف، دہکتے ہوئے سرخ کوئلوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
بلی کی یہ کیفیت اِس سے پہلے کبھی مَیں نے مشاہدہ نہ کی تھی۔ مجھے اُس سے ڈر لگنے لگا۔
اگرچہ وہ مجھے بستر میں حرکت کرتے دیکھ چکی تھی، مگر اُس نے ذرا جنبش نہ کی اور یونہی بیٹھی دیوار کو گھورتی رہی۔
اُس کی آنکھوں کی چمک دم بہ دم بڑھتی جاتی تھی۔
مَیں نے پیار سے اُسے آواز دی، لیکن اُس نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی اور چھلانگ لگا کر بستر سے نیچے کود گئی۔
اب وہ اِنتہائی احتیاط اور چالاکی سے ایک ایک انچ کر کے دیوار کی طرف بڑھ رہی تھی۔
مَیں نے بھی دیوار کی طرف دیکھا، مگر وہاں کچھ نہ تھا،
تاہم بلی کی حرکات اور اُس کے پُراسرار تیور ظاہر کرتے تھے کہ وہ ضرور کسی شے کے تعاقب میں ہے۔
کھڑکی کے عین نیچے پہنچ کر بلی نے منہ آگے کیا اور دِیوار کو خوب سونگھا،
پھر وہ باری باری اپنے دونوں پنجے دیوار پر رگڑنے لگی۔
دیوار پر اُس کے لمبے، تیز، نوکیلے ناخن چلنے کی آواز اُس وقت مجھے یوں سنائی دے رہی تھی جیسے کوئی بڑھئی لکڑی پر آرا چلا رہا ہے۔
یک لخت میرا دِل اِس زور سے دھڑکا جیسے اچھل کر سینے سے باہر آ جائے گا۔
ہاتھ پیر سنسانے لگے اور مجھ پر غشی سی طاری ہوئی۔
مَیں نے اُس وقت کچھ دیکھا نہیں، البتہ ایک اور آواز سنی جس نے مجھے اِس حالت کو پہنچا دیا۔
خدا رَحم کرے ….. واقعی اُنہی کی آواز ہے یا ….. یا میرے کان بج رہے ہیں۔
مَیں نے جلدی سے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک ایک گھونٹ میں ختم کر کے میز پر رکھ دیا۔ اوسان کچھ بحال ہوئے، تو مَیں نے دوبارہ اُس آواز کی طرف کان لگائے۔
اب مَیں واضح طور پر سن سکتا تھا کہ کمرے کے اندر ایک عجیب مدھم سا شور برپا ہے۔
اُس کی آواز اُس سامنے والی دیوار کے اندر سے اُٹھ رہی ہے جسے بلی دیوانہ وار کھرچنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
یہ چوہوں کے بولنے اور پنجے مارنے کی آواز تھی۔
ایسی آواز جس سے اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ دیوار کے پرلی طرف ایک دو نہیں، ہزارہا چوہے موجود ہیں۔ آدم خور اَور خوںخوار چوہے۔
مَیں نے لیمپ کی بتّی اونچی کر دی، بستر سے اٹھا اور دِیوار کے قریب گیا۔ مگر اتنی دیر میں آواز غائب ہو چکی تھی۔
بلی نے حیرت اور غصّے کی ملی جُلی نظروں سے مجھے دیکھا، پھر مایوسی سے چلتی ہوئی بستر پر چڑھ کر پائنتی کی طرف لیٹ گئی۔
مَیں دیر تک جاگتا اور اِس معاملے پر غور کرتا رہا۔
کئی بار اِس دیوار کا معائنہ کیا، اُسے خوب بجا بجا کر دیکھا کہ شاید کہیں خفیہ راستہ ہو یا اندر سے کھوکھلی ہو، مگر بےسود۔
بلی اب اِن باتوں سے بےپروا آرام کی نیند سو رہی تھی ۔
مشرق کی جانب آسمان کا رنگ کچھ کچھ سفید اور کچھ کچھ گلابی ہو چلا تھا۔
اگلے روز مَیں نے تمام نوکروں کو طلب کر کے دریافت کیا کہ کوئی غیرمعمولی بات اُنھوں نے محسوس کی؟
لیکن سب کا جواب یہی تھا کہ بلیوں کی خلافِ معمول بےچینی کے سوا اُنھوں نے کوئی ایسی بات نہ پائی جو قابلِ ذکر ہو۔
باورچن نے صرف اتنا بتایا کہ اُس کے ساتھ رہنے والی بلی جو قریب ہی فرش پر پڑی سوتی تھی، آدھی رات کو یکایک بیدار ہو کر نہایت ڈراؤنی آواز میں غراّنے اور دِیواروں پر پنجے مارنے لگی۔
’’جناب! اُس بلی کی حالت دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔
مَیں نے خیال کیا کہ شاید کوئی دوسرا جانور کمرے میں آ گیا ہے یا زیادہ کھانے کے باعث بلی کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے، مگر اُن دونوں میں سے کوئی بات بھی نہ تھی۔
مَیں نے خود کمرے میں گھوم پھر کر دیکھا، وہاں کچھ نہ تھا۔‘‘
دوپہر کو کیپٹن نوریز جب میرے پاس آیا اور مَیں نے یہ تمام واقعہ بیان کیا۔
اُس کا خوب صورت روشن چہرہ یک لخت مارے دہشت کے سفید پڑ گیا اور نیلی آنکھیں رنگت بدلنے لگیں۔
پیشانی پر نمودار پسینے کے قطرے پونچھتے ہوئے اُس نے کہا:
’’انکل! ممکن ہے یہ آپ کا وہم ہو …..
مگر ….. آپ کہتے ہیں کہ چوہوں کی آوازیں آپ نے خود اَپنے کانوں سے سنی ہیں؟‘‘
’’ہاں، ہاں! مَیں ساری رات سو نہ سکا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کسی جگہ ….. تہ خانے یا بند کوٹھڑی میں، اِن مغربی دیواروں کے پیچھے یا نیچے ہزاروں چوہے موجود ہیں۔
میری ساری بلیاں ساری رات مضطرب اور پریشان رہی ہیں۔
اِس کی شہادت گھر کے نوکر بھی دے سکتے ہیں۔‘‘
’’کیا نوکروں نے بھی اپنے کانوں سے چوہوں کی آوازیں سنی ہیں؟‘‘
’’مَیں اِس کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔
ممکن ہے سنی ہوں یا نہ سنی ہوں، لیکن بلیوں کی حرکات کو بہرحال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
کیپٹن نوریز کے چہرے پر ایک رنگ آتا، ایک جاتا …..
کچھ کہے بغیر وہ بےتابی سے کمرے کے اندر ٹہلنے لگا۔ اُس نے ہر دیوار کو ٹھونک بجا کر دیکھا۔ فرش پر زور زور سے پیر مارے۔ پھر کہنے لگا:
’’میری عقل حیران ہے کہ کیا کہوں اور کیا سمجھوں۔
آپ کا مشاہدہ اِس قدر وَاضح اور مکمل ہے کہ اُسے جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا، لیکن دوسری طرف اتنا مجھے معلوم ہے کہ ایکس ہام کے اندر اِن سنگین اور کئی کئی فٹ موٹی دیواروں کے پیچھے کوئی چوہا نہیں ہے ۔
اگر ہو بھی، تو اُس کی آواز آپ تک پہنچی کس راستے سے؟‘‘
’’یہ مَیں نہیں جانتا۔‘‘ مَیں نے اُس کی بحث سے اکتا کر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
’’بہرحال مَیں صحیح کہہ رہا ہوں۔ آج رات بھی ممکن ہے کچھ ایسا ہی معاملہ ہو۔ تم صبح ضرور میرے پاس آنا۔ پھر بتاؤں گا۔‘‘
جیسا کہ مجھے توقع تھی، اُس رات بھی یہی واقعہ پیش آیا۔
بستر پر لیٹتے ہی مَیں نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ڈراؤنی صورت کا شخص جس کے دانت باہر نکلے ہوئے اور ناخن بےحد لمبے لمبے ہیں، میرے کمرے میں موجود ہے۔
اُس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہیں۔ وہ میری طرف اس انداز سے دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو:
’’تُو میرے ہاتھ سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ دیکھ، غور سے دیکھ …..‘‘
پھر مَیں نے دیکھا کہ اُس نے پشت پر اشارہ کیا اور لاکھوں کروڑوں چوہوں کی ننھی ننھی سرخ آنکھیں چمکتی دکھائی دیں۔
وہ چیں چیں کرتے ہوئے دفعتاً میری مسہری کی طرف بڑھے اور ….. گھٹی گھٹی چیخ کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی۔
مَیں نے اپنے آپ کو پسینے میں شرابور پایا اور دِل کی دھڑکن عروج پر تھی۔
کانپتے ہاتھوں سے مَیں نے اپنے سرہانے رکھا ہوا پانی کا گلاس اٹھایا اور لبوں تک لایا تھا کہ پائنتی سونے والی بلی کے پنجے میرے پاؤں میں گڑ گئے۔
درد کی شدت سے مَیں بلبلا گیا اور وُہ اُسی طرح سامنے والی دیوار کو گھور رَہی تھی۔
مَیں نے بڑی مشکل سے لیمپ کی بتّی اونچی کی، کمرے میں روشنی پھیل گئی۔
لیکن آہ ….. خون سرد کر دینے والی وہ منحوس آواز ….. چوہوں کی آواز اب بھی کانوں میں گونج رہی تھی …..
یہ خواب میں دکھائی دینے والی چوہوں کی آواز نہ تھی، بلکہ اِس کمرے کے اندر چوہوں کی دیواریں زندہ ہو گئی تھیں۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر دیوار اُن کے بوجھ سے لرز رہی ہے ….. کانپ رہی ہے اور پھر ….. بلی نے جست کی اور دِیوانہ وار شمالی دیوار کو سونگھتی، کبھی پنجے مارتی۔
میاؤں میاؤں کی آواز سے کمرہ گونجنے لگا۔ بلی کے جنون میں ہر لمحے اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
پھر وہ بند دروازے کی طرف گئی اور اُسے پنجوں سے کھرچنے لگی۔ لکڑی پر تیز پنجوں کے رگڑنے کی آواز اُس اعصاب شکن ماحول میں کیسی عجیب لگ رہی تھی۔
مَیں نے بستر سے اٹھ کر لیمپ ہاتھ میں لیا اور لکڑی کا بنا ہوا بھاری دروازہ کھول دیا۔
بلی جھپٹی اور تاریکی میں سنگین زینے کی سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی۔
باہر خاصی تیز ہوا چل رہی تھی اور اَیکس ہام کے عقبی حصّے میں واقع مرگھٹ میں سے ایک ڈراؤنا شور اُٹھ رہا تھا جیسے ہزاروں بدروحیں چلّا رہی ہوں …..
لیکن یہ شور اُن بےجان شاخوں اور مُردہ ٹہنیوں کا تھا جو ہوا کے زور سے ہل کر آپس میں ہی ٹکراتی تھیں۔
چند لمحے راہداری کے کنارے کھڑے رہنے اور بلی کے واپس آ جانے کا بےسود اِنتظار کرنے کے بعد مَیں بھی نچلی منزل کی طرف چلا۔
لیمپ میرے دائیں ہاتھ میں تھا اور بائیں ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیتا ہوا ایک ایک سیڑھی نیچے اترنے لگا۔
بلی خدا جانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔
نچلی منزل میں عین اُس کمرے کے نیچے جسے مَیں نے خواب گاہ بنا رکھا تھا، ایک وسیع و عریض تہ خانہ تھا۔
تہ خانے کا دروازہ کھلا تھا۔
اُس کے اندر سے چوہوں کے چیں چیں کرنے اور دِیواروں کو کھرچنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
دھڑکتے دل اور ماؤف ذہن کے ساتھ مَیں نے تہ خانے میں جھانکا، لیکن وہاں کچھ نہ تھا۔
البتہ میری پالتو بلی اُسی جنون و اِضطراب کے عالم میں سنگین دیواروں سے سر پھوڑ رہی تھی۔ معاً چوہوں کی آواز تھم گئی۔
آواز تھمتے ہی بلی نے گردن اٹھا کر تھکی تھکی نظروں سے میری جانب دیکھا اور پھر میرے پاس آ کر پیر چاٹنے لگی۔ اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ مَیں ننگے پاؤں ہی نیچے چلا آیا ہوں۔
صبح اپنے وعدے کے مطابق کیپٹن نوریز میرے پاس آیا۔
مَیں نے الف سے لے کر یے تک گزشتہ رات کا سارا قصّہ اُسے سنایا۔ اِس مرتبہ اُس کے چہرے پر خوف کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔
اُس نے سب نوکروں کو ایک جگہ جمع کیا اور پوچھا کہ اُن میں سے کسی نے گزشتہ رات چوہوں کی آواز سنی ہے؟ سبھی نوکر اِس سوال پر دم بخود تھے اور ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
آخر ایک بڈھے خانساماں نے زبان کھولی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا:
’’کیپٹن! ہم میں سے کسی نے کوئی آواز نہیں سنی اور نہ کسی کو دیکھا …..
ہاں ہماری بلیاں ضرور رَات کو بےچین ہوتی ہیں۔ ممکن ہے اُنھیں کچھ سنائی یا دکھائی دیتا ہو۔‘‘
’’تم میں سے کسی شخص نے رات کو کوئی ڈراؤنا خواب تو نہیں دیکھا؟‘‘
’’نہیں جناب! ہم میں سے کسی نے کوئی خواب نہیں دیکھا۔‘‘ سب کی طرف سے متفقہ جواب ملا۔
’’اچھا تم لوگ جا سکتے ہو۔‘‘ کیپٹن نے اُنھیں رخصت کیا اور مجھ سے کہنے لگا:
’’انکل! بڑا پُراسرار معاملہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ چوہوں کی آوازیں صرف آپ ہی کو سنائی دیتی ہیں، دوسروں کے کان اِس سے محروم ہیں۔‘‘
’’گویا مَیں ہی پاگل ہوں ….. خبطی ہوں ….. دیوانہ ہوں۔ میرے کان بجتے ہیں۔
اُف خدایا! کس طرح سمجھاؤں …..
ممکن ہے یہ منحوس چوہے عمارت کے اُسی حصّے میں ہوں جہاں مَیں رہ رَہا ہوں اور دُوسرے حصّوں میں نہ ہوں۔‘‘
’’ہاں! یہ ممکن ہے۔‘‘ کیپٹن نوریز نے اقرار کیا۔
’’آئیے، ذرا ایک نظر اُس تہہ خانے کا معائنہ کرتے ہیں جو نچلی منزل میں ہے۔‘‘
دن کی روشنی میں بھی تہہ خانہ تاریک اور سرد تھا اور اُس کے اندر جاتے ہوئے خوف آتا تھا۔
زنگ آلود لوہے کی سلاخوں کا بنا ہوا دَروازہ جو نہ جانے رات میں کس طرح بند ہو گیا تھا، مَیں نے اور کیپٹن نے بڑا زور لگا کر کھولا اور پتھر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے نیچے اتر گئے۔
کیپٹن نے جیب سے برقی ٹارچ نکالی اور اُس کا بٹن دبا دیا۔
تہ خانہ کیا تھا، ایک بڑا سا ہال کمرہ تھا جس کے ایک گوشے میں صدیوں پرانا فرنیچر اور کپڑے ابھی تک بھرے ہوئے تھے۔
یہاں عجیب سی ناگوار بدبُو پھیلی ہوئی تھی۔
جونہی ہم اندر دَاخل ہوئے چند بڑی چمگادڑیں پھڑپھڑاتی ہوئی کسی گوشے سے نکلیں اور دَروازے سے باہر نکل گئیں۔
پختہ فرش پر گرد و غبار کی دبیز تہہ جمی ہوئی تھی۔
تہ خانے کے شمالی حصّے میں ایک اونچا چبوترہ دِکھائی دیا جس پر ایک بڑا پتھر کتبے کی صورت میں لگا ہوا تھا۔ کیپٹن نے رومال سے اُسے صاف کیا، تو چند عجیب سی شکلیں، حروف اور نہ جانے کیا کیا کھدا ہوا نظر آیا۔
’’آہ ….. یہ قربان گاہ ہے۔‘‘
کیپٹن نوریز نے دبی آواز سے کہا۔
’’دیکھیے، خون کے بڑے بڑے دھبے ابھی تک موجود ہیں جو قربان گاہ کے سنگین چبوترے پر جما ہوا تھا اور اِمتدادِ زمانہ کے باعث اُس کی رنگت خاکستری ہو چکی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے، اِس کے نیچے کوئی چھوٹا تہ خانہ اور بھی ہے۔‘‘
نوریز بولا۔
’’آپ دیکھتے ہیں، فرش پر چلنے سے کیسے آواز نکلتی ہے۔
یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کے نیچے بھی کچھ ہے۔‘‘
’’مَیں نے سنا ہے رومن اپنے خفیہ تہ خانے اِس انداز میں بناتے تھے کہ کوئی غیرآدمی اُن کے اندر جانے کا راستہ آسانی سے تلاش نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
’’بےشک یہ صحیح ہے۔‘‘ نوریز نے کہا۔
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس تہ خانے میں وہ اَپنے دیوتا پر انسانی جانوں کی بھینٹ چڑھاتے اور بعدازاں اِس سے نچلے تہ خانے میں لاشیں پھینک دیتے تھے۔
اِس کے معنی یہ ہیں کہ نچلے تہہ خانے میں چوہے رہتے تھے اور وُہ یہ لاشیں چٹ کر جاتے ہوں گے۔‘‘
نوریز کے یہ الفاظ سن کر مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔
معاً مَیں نے اپنی پشت پر کوئین کی آواز سنی۔ وہ اَپنا سر میرے پیروں پر رگڑ رہی تھی۔
’’آہ! آپ کی بلی ….. اِس نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔‘‘ نوریز بلی کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’نہ معلوم مجھے اِس سے ڈر کیوں لگتا ہے۔
کہتے ہیں سیاہ رنگ کی بلیوں کے بھیس میں بدروحیں ہوتی ہیں۔‘‘ وہ آپ ہی آپ اِس بات پر ہنسا اور قربان گاہ کا معائنہ کرنے لگا۔
’’میرا خیال ہے کہ خفیہ تہہ خانے کا راستہ اِسی میں سے ہو کر جاتا ہو گا۔
ذرا اَپنے آدمیوں کو بلائیے اور کہیے کہ کدالیں اور ہتھوڑے لے کر آ جائیں۔
مَیں یہاں سے فرش اکھیڑنا چاہتا ہوں۔ لیکن ٹھہریے، یہ کیا چیز ہے؟‘‘
اُس نے ایک کونے میں پڑی ہوئی وزنی سی سلاخ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اُن لوگوں کو بلانے کی ضرورت نہیں، خواہ مخواہ ڈریں گے اور طرح طرح کی باتیں قصبے میں پھیلائیں گے۔ ہمیں خود ہی سب کام کرنا ہو گا۔‘‘
اور اِس سے پیشتر کہ مَیں اُسے روکوں یا کچھ کہوں، اُس نے لوہے کی یہ سلاخ قربان گاہ کے عظیم پتھر میں لگے ہوئے لوہے کے کڑے میں پھنسائی اور پوری قوت صَرف کر دی۔
میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ چند لمحے بعد ہی مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ وزنی پتھر اپنی جگہ سے سِرک گیا اور وَہاں ایک تنگ سا راستہ نمودار ہوا۔ مَیں اُسے دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔
’’ٹھہریے انکل! ٹھہریے جلدی نہ کیجیے۔‘‘ نوریز نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’نہ جانے کتنی صدیوں بعد یہ تہہ خانہ کھلا ہے۔ ذرا گندی ہوا نکل جانے دیجیے، پھر اندر اُتریں گے۔‘‘
اُس نے اپنی ٹارچ کی روشنی اُس تنگ سرنگ نما راستے میں پھینکی۔
ہمارے اترنے سے پہلے بلی آگے بڑھی اور اُس سرنگ میں غائب ہو گئی۔ کیپٹن نوریز اُس کے پیچھے گیا اور مَیں آخر میں اترا۔ اُف ….. یہاں تو سرنگوں کا ایک جال سا بچھا ہوا تھا۔
ہم کوئی نو دس فٹ گہرائی میں چل رہے تھے۔
راستہ پتھروں کا بنا ہوا تھا اور دونوں جانب پختہ دیواریں تھیں۔ ابتدا میں تو بدبُو کا احساس ہوا، لیکن چند لمحے بعد ایک طرف سے تازہ ہوا کا جھونکا آیا اور ہمارے قریب سے گزر گیا۔
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرنگیں بنانے والوں نے تازہ ہوا کا انتظام خوب کر رکھا تھا۔‘‘ نوریز نے کہا۔
ٹارچ کی روشنی میں راستہ طے کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔
بلی نہ جانے کہاں میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے ایک ایسی چیز دیکھی جس کے باعث ہمارے قدم آگے بڑھنے سے رک گئے۔
یہ انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کا ایک عظیم الشان ڈھیر تھا جس میں بلی نہ جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی۔ اِس طرح کے اور کئی ڈھیر ہمیں جا بجا دکھائی دیے۔
اُن ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں خوب چمک رہا تھا اور یہ منظر ایسا لرزہ خیز اور دِل دوز تھا کہ بھلایا نہیں جا سکتا۔
ہڈیوں کے اُنہی ڈھیروں میں سے بعض کھوپڑیاں ہم نے ایسی دیکھیں جن کی ساخت بن مانسوں کی کھوپڑیوں سے ملتی جلتی تھی۔
چوہوں اور دُوسرے جانوروں کی بوسیدہ ہڈیاں بھی کثیر مقدار میں جمع تھیں۔
’’خدا کے لیے جلدی یہاں سے نکل چلیں انکل!‘‘ کیپٹن نوریز نے بدحواس ہو کر کہا۔
’’مَیں یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے ابھی اِن ہڈیوں کے اندر سے چوہوں کا ایک لشکرِ جرار نکل کر ہم پر ٹوٹ پڑے گا ….. آہ …..‘‘
اُس کے حلق سے چیخ نکلی اور وُہ اَندھادھند بھاگنے لگا۔
میری پالتو بلی پوری قوت سے اُس کے تعاقب میں دوڑ رہی تھی۔
چونکہ ٹارچ نوریز کے ہاتھ میں تھی، اِس لیے اُس کے چلے جانے سے سرنگ میں گھپ اندھیرا ہو گیا اور مَیں نے اپنے آپ کو تن تنہا کھڑے پایا۔
انسانی ہڈیوں کا ڈھیر، صدیوں پرانی سرنگیں ….. آدم خور چوہے ….. میرا سر چکرانے لگا اور پھر …..
جیسے خون میری رگوں میں جم گیا۔
ہڈیوں کے اُس عظیم ڈھیر کے اردگرد، اوپر نیچے اور دَائیں بائیں ….. چاروں طرف چوہے ہی چوہے تھے …..
موٹے تازے بلی کی سی قدوقامت والے خوفناک چوہے …..
وہ اَپنی سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے گھور رَہے تھے۔
مَیں اُن کے نوکیلے سفید دانت بخوبی دیکھ رہا تھا۔ اُس اندھیرے میںاُن کے سانس لینے کی آواز برابر میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔
وہ نئے آدمی کے آنے سے بےحد خوش اور چلّا چلّا کر دوسرے چوہوں کو اَپنے قریب آنے کی دعوت دے رہے تھے۔
’’نہیں ….. ہرگز نہیں …..
مَیں اپنے آپ کو اِن چوہوں کا کھاجا کبھی نہ بننے دوں گا ….. کبھی نہیں …..‘‘
میرے حلق سے ہذیانی چیخیں نکلنے لگیں۔ مَیں بھی اندھادھند سرنگ میں دوڑنے لگا۔
کیپٹن نوریز جائے جہنم میں، یہ سب کیا دھرا اُسی کا ہے۔
اُسی نے میرے بیٹے کو ایکس ہام خریدنے کا لالچ دیا تھا ….. اُسی کے باعث میرے بیٹے کی ٹانگیں ضائع ہوئیں۔
آخر وہ مر گیا۔ میرا خوبصورت اور وَفادار بیٹا ….. لیکن مَیں نہیں مر سکتا۔
کوشش کے باوجود مجھے اوپر جانے کی راہ نظر نہ آئی اور مَیں ایک ستون سے ٹکرا کر فرش پر گر گیا۔ میری نظروں کے سامنے چنگاریاں سی اڑنے لگیں۔ چوہے میرے چاروں طرف گھوم رہے تھے۔
اب مَیں اُن کی مکروہ کھالیں اپنے بدن سے مَس ہوتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔
وہ مجھے چبا جائیں گے، کچھ بھی نہ چھوڑیں گے ….. مجھے بھاگنا چاہیے۔
مَیں نے اٹھنا چاہا، مگر اٹھنے کی ہمت نہ تھی۔ پھر مَیں تاریکی کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔
تین گھنٹے بعد میرے آدمیوں نے مجھے وہاں سے اٹھایا۔
اُس وقت مَیں ہوش میں تھا، لیکن وہ کہتے تھے کہ میرے کپڑے اور ہاتھ پیر خون میں لت پت ہیں۔ پھر پولیس نے مجھےچوہوں کی دیواریں
وہ میری زندگی کا انتہائی منحوس، لیکن ناقابلِ فراموش دن تھا کہ
مَیں اپنے آبائی محل ایکس ہام میں داخل ہوا۔
جولائی کی ۱۶ تاریخ تھی اور زمانہ آج سے سو سال پہلے کا۔
محل کی مرمت گزشتہ کئی ماہ سے ہو رہی تھی اور یہ وہ دِن تھا کہ
آخری مزدور بھی کام ختم کر کے جا چکا تھا۔ ایکس ہام محل گزشتہ کئی صدیوں سے خالی اور ویران پڑا تھا۔
غالباً جیمز اوّل کے دور سے اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ
ایک روز میرے خاندان کے چند افراد پُراسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔
روایت یہ تھی کہ اُنھیں کسی شخص نے تیزدھار آلے کی مدد سے قتل کیا ہے۔
پھر لاشوں کو اِس بری طرح نوچا اور بھنھوڑا جیسے بلی، چوہے کو نوچتی اور بھنبھوڑتی ہے۔
ایکس ہام محل کے بارے میں عوام کے اندر طرح طرح کی لرزہ خیز کہانیاں اور دَاستانیں مشہور تھیں جو ہمارے خاندان میں بھی سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو منتقل ہوئی تھیں۔
کہتے ہیں کہ میرے دادا کا پردادا جو گیارہویں بیرن کے نام سے مشہور تھا، اِن داستانوں کا اصل سبب بنا۔
اُس نے نامعلوم جنون کے تحت پہلے اپنے تمام خادموں کو قتل کیا، پھر بیوی اور پانچ بچوں کو ہلاک کیا اور وِرجینیا کی طرف بھاگ گیا جہاں ہمارے خاندان کے کچھ اور اَفراد بھی رہتے تھے۔
اُس کے بعد پتا نہیں چل سکا کہ گیارہویں بیرن کا کیا حشر ہوا اَور وُہ وِرجینیا سے کہاں گیا …..
ایکس ہام محل جیسی عظیم الشان عمارت یوں یکایک چھوڑ دینا جس میں دولت کے بےشمار اَنبار نوادر کی شکل میں جمع تھے اور اَپنے بیوی بچوں اور خادموں کو وحشیانہ انداز سے قتل کر دینا صحیح الدماغ آدمی کا کام نہیں ہو سکتا۔
لوگ کہا کرتے تھے کہ بیرن کو کالے علم سے بڑی دلچسپی تھی۔
بالآخر اُسی علم کے باعث ایکس ہام کے مکینوں پر یہ آفت ٹوٹی۔
یہ عظیم الشان محل جو صدیوں پرانا تھا اور گاتھک، سیکسن اور رُومیوں کے عظیم فنِ تعمیر کا نادرِ روزگار نمونہ، اِس مشہور وَاقعے کے بعد بالکل خالی پڑا رَہا۔
اِس کا وسیع و عریض باغ اجڑ گیا۔ بڑے بڑے کمروں کی دیواریں اور فرش گرد و غبار سے اٹ گئے۔
جگہ جگہ مکڑیوں نے مہیب جالے تن دیے ۔
ہزارہا چمگادڑیں اِس کے اندھیرے برآمدوں اور لمبی راہداریوں میں لٹکی رہنے لگیں۔
لوہے اور لکڑی کے بنے ہوئے بلند دروازے، کھڑکیاں اور اُن پر لٹکے ہوئے بھاری پردے سب بوسیدہ ہو گئے، لیکن گرے نہیں۔
چپے چپے پر اونچی گھاس اور خاردار پودوں نے جنم لیا اور آہستہ آہستہ ایکس ہام کی پُرشکوہ اَور شاندار عمارت اُس ویرانی اور ہولناک سناٹے کے اندر پوشیدہ ہو گئی اور صدیوں تک پوشیدہ رہی۔
چونکہ ایکس ہام محل کا مالک قتل جیسی بھیانک واردات کر کے بھاگا تھا،
اِس لیے اُس کی جائیداد شاہی حکم کے تحت ضبط کر لی گئی ۔
چونکہ بیرن کی طرف سے مقدمہ لڑنے والا کوئی شخص انگلستان میں نہ تھا،
اِس لیے عرصۂ دراز تک اِس عمارت کے دروازوں اور کمروں پر قفل چڑھے رہے۔
آخر نوریز فیملی کے ایک مقتدر رُکن نے جس کا اُمرا پر خاصا اثر تھا، خاصی خطیر رقم کے عوض یہ محل حکومت سے خرید لیا اور اَپنے خاندان سمیت یہاں آن بسا، مگر اُسے ایک ماہ رَہنا بھی نصیب نہ ہوا۔
روایت یہ ہے کہ ایک روز وُہ بھی اپنے خاندان کے تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتار کر ایسا غائب ہوا کہ آج تک اُس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
اِس دوسرے حادثے کے بعد ہی تمام ملک میں ایکس ہام کے بارے میں عجیب عجیب کہانیاں مشہور ہوئیں اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کالا علم جاننے والے بیرن کی روح اِس میں رہتی ہے۔
وُہ کسی بھی شخص کو جو محل کے اندر قدم رکھے گا، جیتا نہ چھوڑے گی۔
بعض مہم پسند اور خطروں سے کھیلنے والے لوگوں نے ایکس ہام میں جانے اور رَہنے کی کوشش بھی کی اور اِن کہانیوں کے بارے میں تحقیق و تفتیش بھی کی، لیکن کوئی قابلِ ذکر نتیجہ برآمد نہ ہوا،
تاہم وہ شخص جو کبھی زمانۂ قدیم میں اِس محل کے اندر گیا، اِس بات پر یقین رکھتا تھا کہ یہاں ’’کچھ نہ کچھ‘‘ ہے ضرور۔
قصبہ مانچسٹر کے مغرب میں تین میل کے فاصلے پر چونے، لوہے، لکڑی اور پتھر کی بنی ہوئی اِس قدیم اور پُرشکوہ عمارت کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر کے ماہرینِ تعمیرات آتے رہتے تھے۔
اِسی وجہ سے اِس کی شہرت انگلستان اور دوسرے یورپی ملکوں میں عام تھی، لیکن مَیں اِس سے بالکل بےخبر رہا۔
شاید اِس لیے کہ کئی پشتوں سے ہمارا خاندان انگلستان سے نکل کر امریکا جا بسا تھا۔
مجھے خوب یاد ہے مَیں سات سال کا تھا کہ ایک روز دادا نے کھانے کی میز پر ایکس ہام محل کا ذکر کیا اور میرے والد کو بتایا کہ وہ تاریخی عمارت ہماری ملکیت رہی ہے۔
اُنھوں نے ایک وصیت نامے کا ذکر بھی کیا جو لفافے میں بند تھا اور میرے پردادا کے پاس حفاظت سے رکھا تھا۔
وہ کبھی کبھی اُسے تنہائی میں کھول کر دیکھا کرتے اور کچھ سوچتے، لیکن اُنھوں نے اپنے بیٹے کو اُس کے بارے میں کچھ نہ بتایا کہ اِس میں کیا لکھا ہے۔
اُن دنوں وہ کارفیکس میں رہتے تھے اور سول وار کا دور تھا۔
اچانک ایک روز مکان میں آگ لگی اور سب کچھ جل گیا۔
پردادا بھی اُسی آگ میں جل مرے اور پھر وہ بڑا سا لفافہ کسی نے نہ دیکھا۔
میرے دادا کارفیکس سے اپنے خاندان کو لے کر میساچوسٹس چلے آئے اور اُن کا انتقال وہیں ہوا۔
میرے والد اُن دنوں فوج میں تھے اور زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتے۔
اِس لیے ایکس ہام کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں مل سکیں اور نہ وہ وَقت ایسا تھا کہ مَیں اُن سے کچھ پوچھ سکتا۔
۱۹۰۴ء میں میرے والد نے وفات پائی۔ مرنے سے تھوڑی دیر پہلے تک وہ پورے ہوش و حواس میں تھے۔
خاندان کے سبھی افراد اُن کے پاس موجود تھے۔
والد نے زندگی کے آخری سانس لیتے ہوئے اپنی انگلی سے میری طرف اشارہ کیا اور بولے:
’’ایکس ہام ….. نوریز فیملی سے واپس لے لو ….. وہ ہمارا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہی اُنھوں نے دم توڑ دیا۔
چند روز تک تو اُن کے یہ پُراسرار الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رہے، پھر مَیں اُنھیں بھول گیا۔
کیونکہ اپنے کاروبار میں اِس قدر پھنسا ہوا تھا کہ کسی اور طرف توجہ کرنے کی فرصت نہ تھی۔
اُنہی دنوں میری بیوی بھی دنیا سے رخصت ہوئی اور دَس سال کے اکلوتے لڑکے الفرڈ کی پرورش اور تربیت کی ذمےداری میرے ہی کندھوں پر آن پڑی۔
الفرڈ نہایت سمجھ دار اَور ذہین بچہ تھا اور ہمیشہ مجھ سے اپنے خاندان کے بزرگوں کے حالات پوچھا کرتا، مجھے کچھ معلوم ہوتا، تو بتاتا؟
تاہم چند موٹی موٹی باتیں مَیں نے اُسے بتائیں۔
اُسے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ ہم کوئی ایرے غیرے نہیں، بلکہ انگلستان کے قدیم، معزز اور اَمیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
مانچسٹر کی مشہور عمارت ایکس ہام کے اصل مالک بھی ہم ہی ہیں۔
الفرڈ کو مَیں نے اُس کی ضد اور شدید شوق کے پیشِ نظر انگلستان بھیجا اور ہوابازی کی تربیت دینے والے ایک سکول میں داخل کرا دِیا۔
اُس نے بہت جلد تربیت ختم کی اور ہواباز بن گیا۔
وہ برابر مجھے خط لکھتا اور ہر خط میں کوئی نہ کوئی نئی دریافت اپنے خاندان سے متعلق ضرور ہوتی۔
رائل فلائنگ کارپس کا ایک کیپٹن ایڈورڈ نوریز اُس کا دوست بن گیا تھا۔
جب کیپٹن نوریز نے اُسے بتایا کہ ایکس ہام کا قدیم محل ابھی تک اُنہی کے قبضے میں چلا آتا ہے، تو الفرڈ مزید صبر و ضبط سے کام نہ لے سکا ۔
اُس نے ایک خط میں اپنے دادا کی وصیت کے الفاظ لکھے اور زور دِیا کہ ایکس ہام محل نوریز خاندان سے واپس خرید لیا جائے۔ وہ اُسے فروخت کرنے کے لیے بھی بخوشی آمادہ ہیں۔
اُس میں کوئی شخص گزشتہ تین سو برس سے نہیں رہا کیونکہ عمارت بدنام ہو چکی ہے۔
اُس کے بارے میں مانچسٹر کا ہر فرد کہتا ہے کہ یہ آسیب زدہ ہے۔
کیپٹن نوریز نے میرے لڑکے کو ایکس ہام کی چند لرزہ خیز کہانیاں سنائیں جن کے بارے میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی کہ غلط ہوں گی۔
جب سے اُس فیملی نے یہ عمارت خریدی تھی، اُسی وقت سے اُن پر کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہی حتیٰ کہ اُن لوگوں نے آپس میں ہی ایک دوسرے کے گلے کاٹنے شروع کر دیے۔
آخر وہ سب کے سب یہاں سے نکل گئے اور اَنچسٹر کے دوسرے مکانوں میں جا بسے۔
الفرڈ کے بار بار کے تقاضوں سے تنگ آ کر آخر مَیں نے ایکس ہام خریدنے کا ارادہ کر لیا۔
اُس وقت کیپٹن نوریز کا حقیقی چچا اُس کا مالک تھا اور اَپنی عمر کے اسّی برس مکمل کر چکا تھا۔
انتہائی نفرت اور حقارت کے ساتھ اُس خبیث بڈھے نے مجھے دیکھا اور آپ ہی آپ کچھ بڑبڑانے لگا۔
کیپٹن نوریز نے اُس کی طرف سے معذرت کی اور اَیکس ہام کو بیچنے کے سلسلے میں بھاگ دوڑ کر کے تمام کاغذات مکمل کرائے۔
یوں یہ عمارت صدیوں بعد دوبارہ ہمارے خاندان کے قبضے میں آ گئی۔
الفرڈ کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ اُس نے جوش میں آ کر کہا:
’’ابّا! تم دیکھنا مَیں اِس محل کی کیسی عمدہ مرمت کراتا ہوں …..
بڑے بڑے لوگ آئیں گے اور حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دے لیں گے۔
غضب خدا کا ہم کوئی معمولی آدمی ہیں ….. ہم ڈی ….. لا ….. پورز ہیں …..
جس کے خاندان کا ہر شخص بیرن ہے بیرن۔‘‘
مجھے اپنے کاروبار کے سلسلے میں اُنہی دنوں امریکا واپس جانا پڑا اَور پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی۔
دو سال تک مجھے اپنے بیٹے کا کوئی خط نہ ملا کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے، البتہ ایک دو مرتبہ کیپٹن نوریز کا خط آیا جس سے معلوم ہوا کہ اَلفرڈ بخیریت ہے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد جب مَیں اپنے الفرڈ کو دیکھنے انگلستان گیا، تو وہ اَپنی دونوں ٹانگیں کھو چکا تھا۔
اُسے اِس حالت میں دیکھ کر کلیجہ پھٹ گیا اور قریب تھا میرے دل کی حرکت بند ہو جائے، اُس نے بڑے استقلال اور حوصلے سے کہا:
’’ابّا! اِس میں گھبرانے یا رونے کی کیا بات ہے۔ مَیں نے ایک نیک مقصد اور وَطن کی حفاظت کا فرض انجام دیتے ہوئے ٹانگیں کھوئی ہیں …..
خدا کو یہی منظور تھا …..
اب مَیں کچھ زیادہ دِن نہ جیوں گا، لیکن مرنے سے پہلے ایکس ہام کو اپنی اصلی حالت میں ضرور دَیکھنا چاہتا ہوں ….. پیارے ابّا! آپ میری یہ خواہش پوری کریں گے؟‘‘
میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ مَیں نے بےاختیار اُسے لپٹا لیا اور بولا:
’’بیٹا! میری یہ تمام دولت آخر ہے کس کی؟
یہ سب کچھ تمہارے ہی لیے ہے۔ مَیں بہت جلد ایکس ہام کی مرمت کراؤں گا اور خدا نے چاہا، تو آئندہ موسمِ سرما تک ہم امریکا سے آ کر اُس میں آباد ہو جائیں گے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ مکان آسیب زدہ ہے،
لیکن مَیں اُن آسیبوں اور بھوتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ ویسے بھی کیپٹن نوریز کا خیال ہے کہ لوگوں نے خواہ مخواہ کی کہانیاں بنا رکھی ہیں۔
اگر کسی انسان نے اُس عمارت کے اندر کسی کا خون بہایا ہے یا کسی کو قتل کیا، تو اُس کی وجہ بدروحیں یا آسیب نہیں ہو سکتے۔‘‘
میرے اِن جملوں پر الفرڈ کی آنکھیں فرطِ مسرّت سے چمکنے لگیں۔
اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مَیں تمام کاروبار اَپنے حصّےداروں کے سپرد کر کے انگلستان آ گیا اور مانچسٹر ہی میں ایک مکان کرائے پر لے کر رہنے لگا۔
مَیں نے بہت جلد محسوس کر لیا کہ اِس قصبے کے لوگ ہمیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور دُور دُور رَہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابتدا میں خیال آیا شاید دو چار روز میں گھل مل جائیں اور چونکہ ہم اتنے دن دیارِ غیر امریکا میں رہ کر آئے ہیں، اِس لیے یہ ہمارے قریب نہیں آتے۔ مگر بہت جلد پتا چل گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔
وہ ہمیں شیطان، مردود اَور نہ جانے کیا کچھ سمجھتے اور برملا کہتے تھے کہ ہم ڈی لا پورز والے انسانوں کے بھیس میں بلائیں ہیں
اور ایک نہ ایک دن اِس گاؤں پر کوئی ایسی آفت لے کر آئیں گے کہ ایک فرد بھی زندہ نہ بچے گا۔
ایکس ہام کی مرمت اور تعمیر کے کام کے لیے مانچسٹر کا کوئی آدمی تیار نہ ہوا۔
اُن کے دلوں میں ہمارے خاندان کے خلاف صدیوں سے نفرت اور حقارت کا مادہ بھرا ہوا تھا جو آہستہ آہستہ نکل رہا تھا۔
اُنھوں نے ہمیں مانچسٹر سے نکالنے کی بڑی کوشش کی،
مگر پولیس ہماری مدد کے لیے موجود تھی اور پھر الفرڈ کی خدمات کا جب ذکر کیا جاتا، جو اُس نے اِس جنگ میں انگلستان کے لیے ادا کی تھیں، تو لوگوں کا غصّہ کچھ ٹھنڈا پڑتا۔
اُنھوں نے اِس قصبے کے اندر رَہنے کی اجازت تو دے دی، مگر ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنا پسند نہ کیا۔
ہم نے اِسی کو غنیمت سمجھا۔
مانچسٹر کے لوگوں کے اِس نامعقول اور بےہودہ رَویّے سے ہمیں بےحد رنج ہوا۔
خصوصاً الفرڈ نے اُسے بہت زیادہ محسوس کیا۔
اُس کا کہنا تھا کہ انگریز جتنا قدامت پسند، مُحبِ وطن ہے، اُس سے کہیں زیادہ کینہ پرور اَور تنگ دل بھی ہے۔ کیپٹن نوریز کبھی کبھی ہم سے ملنے آتا اور وُہ بھی رات کی تاریکی میں …..
کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مانچسٹر کا کوئی شخص اُسے ہمارے پاس آتا جاتا دیکھے۔
وہ کسی قدر پست قامت اور فربہ آدمی تھا۔ طبیعت کا نرم اور بےحد خوش مزاج۔
اُسے الفرڈ سے بےپناہ محبت تھی۔ وہ کہا کرتا:
’’الفرڈ! فکر نہ کرو، مَیں تمہارے ابّا کا ہر معاملے میں ساتھ دوں گا۔
جہاں تک ممکن ہو سکا، ایکس ہام کی مرمت کے کام میں اُن کا ہاتھ بٹاؤں گا۔‘‘
بڑی مشکل سے چند راج مزدور باہر سے گراں معاوضے پر لائے گئے اور کام کا آغاز ہوا، لیکن چند روز بعد ہی اچانک الفرڈ کی حالت بگڑی اور اِس سے پیشتر کہ مَیں کسی ڈاکٹر کو بلاؤں،
اُس نے آخری ہچکی لی اور دَم توڑ دیا۔ مرتے وقت اُس کے لبوں پر بھی ایکس ہام کا نام تھا۔
الفرڈ کے مرنے سے میری کمر ہی گویا ٹوٹ گئی۔
اب مَیں یہاں رہ کر کیا کرتا اور ایکس ہام سے مجھے کیا دلچسپی تھی؟
چنانچہ مَیں نے امریکا چلے جانے کا فیصلہ کیا، مگر کیپٹن نوریز نے دلاسا دیا اور کہا:
’’مَیں آپ کو اپنا حقیقی چچا تصوّر کرتا ہوں۔
الفرڈ کی بڑی خواہش تھی کہ ایکس ہام اِس کے خاندان کو دوبارہ مل جائے۔
اُس کی یہ خواہش پوری ہو چکی۔ اب مرمت کا کام باقی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اُس کی روح کو تسکین پہنچانے کے لیے آپ الفرڈ کی دوسری خواہش رد نہ کریں گے۔‘‘
مَیں نے سرِ تسلیم خم کر دیا اور مرمت کا کام زور شور سے شروع ہوا۔
میری خستہ حالت اور کیفیت دیکھ کر مانچسٹر کے بعض معّمر اور شریف لوگوں کے دل میں خدا نے رحم کے جذبات پیدا کر دیے۔
جب اُنھوں نے یہ سنا کہ مَیں محض اپنے آنجہانی بیٹے کی آخری خواہش پوری کرنے کے احترام میں ایکس ہام کی مرمت کرا رَہا ہوں، تو اُن کے ذہن کسی قدر صاف ہوئے۔
اب وہ میرے کام میں روڑے اٹکاتے نہ گالیاں دیتے، تاہم اکثر لوگ ایسے تھے جو اَب بھی مجھے آدمی کے بھیس میں شیطان سمجھ کر دُور دُور رَہتے اور قریب سے گزرنا بھی پڑتا، تو سینے پر انگلی سے صلیب کا نشان بناتے ہوئے گزرتے۔
اُنہی دنوں ایک اطالوی ماہرِ آثارِ قدیمہ مسٹر بسانیو مانچسٹر میں آیا۔
اُس کا مقصد ایکس ہام کو دیکھنا اور اُس کے بارے میں مزید تاریخی معلومات حاصل کرنا تھا۔
میرے ساتھ ہی وہ اُس کے معائنے کے لیے گیا اور جونہی ہم وادی سے گزر کر آخری سِرے پر پہنچے اور اَیکس ہام کے بلند بُرج دکھائی دیے، بسانیو ٹھٹک گیا۔
اُس کے چہرے پر حیرت اور خوف کے آثار نمودار ہوئے اور آنکھیں تارہ سی بن گئیں۔
چند لمحے بعد اُس نے اِس انداز میں گردن ہلائی جیسے میری موجودگی سے بالکل بےخبر کسی نادیدہ شخص کے سوال کا جواب دے رہا ہو۔ مَیں پریشانی کے عالم میں اُسے دیکھ رہا تھا۔
یکایک وہ ہوش میں آیا اور مجھ سے معذرت طلب انداز میں بولا:
’’معاف کیجیے، مَیں ایک خیال میں گم ہو گیا تھا۔ عمارت لافانی اور بےحد قیمتی ہے، بےحد قیمتی۔ مَیں اِس عظیم خزانے کے مالک کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔
آپ بہت خوش نصیب ہیں جناب کہ یہ عمارت جس کی قدامت کا کوئی اندازہ فی الحال ممکن نہیں، آپ کے قبضے میں ہے۔‘‘
مَیں چپ چاپ اُس کے ساتھ چلتا رہا۔ جب ہم اُس اجڑے ہوئے، لیکن وسیع و عریض باغ میں داخل ہوئے جو عمارت کے شرقاً غرباً پھیلا ہوا تھا ۔
جہاں سے اُس کا پُرشکوہ اَور عظیم دروازہ صاف دکھائی دیتا تھا، تو بسانیو کے حلق سے ایک ہلکی سی چیخ نکلی۔
’آہ ….. یہ دروازہ …..  بُرجیاں …..  کھڑکیاں ….. دیواریں …..‘‘
انتہائی بےتابی اور اِضطراب کے عالم میں وہ میری پروا کیے بغیر دوڑا اَور دَروازے کے قریب پہنچ گیا۔
میرا خیال تھا کہ وہ شاہ بلوط کے بنے ہوئے دروازے کے نقش و نگار دیکھنا چاہتا ہے،
لیکن وہ تو کچھ اور ہی دیکھ رہا تھا اور جب میری اُس پر نگاہ پڑی، تو ایک لحظے کے لیے جیسے میرا خون سرد ہو گیا۔
یہ کسی نامعلوم دھات کا بنا ہوا سیاہ رَنگ کا ایک بڑا مجسمہ تھا اور کس کا؟
چوہے کا ….. بہت بڑے چوہے کا جس کا منہ بڑے بھیانک انداز میں کھلا ہوا تھا اور سفید نوکیلے دانت جو خدا جانے کس چیز سے بنائے گئے تھے، صاف نظر آتے تھے۔
چوہے کی آنکھوں میں سرخ رنگ کے چمکدار پتھر جڑے تھے۔
میرے ساتھی نے اپنا رومال نکالا اور گرد و غبار سے اٹے ہوئے چوہے کے اُس مکروہ مجسمے کو صاف کرنے لگا۔
اب مَیں نے دیکھا کہ اُس پر رومن الفاظ میں چند حروف لکھے ہیں جنہیں میرا ساتھی محدّب شیشے کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اُس کے لب سختی سے بھنچے ہوئے تھے اور وُہ دُنیا و مافیہا سے بےخبر اُن الفاظ میں کھویا ہوا تھا۔ مَیں نے اُس سے پوچھنے کی کوشش کی، مگر اُس نے ہاتھ اٹھا کر کہا:
’’جناب ذرا صبر کیجیے ….. مَیں سب کچھ آپ کو بتاؤں گا۔‘‘
پھر وہ محل کے اندر گیا اور ایک ایک کمرے اور ایک ایک راہداری اور برآمدے کو دیکھا۔
جس چیز پر اُس کی نظر پڑتی، وہیں جم جاتی۔
کبھی کبھی وہ اَپنی بغل میں دبی ہوئی ایک کتاب نکال کر کچھ دیکھتا اور پنسل سے کہیں کہیں نوٹ لکھتا۔
ایکس ہام کے مغربی حصّے کی دیواریں اُس کی خاصی دلچسپی کا باعث بن رہی تھیں۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اُن پرانی، بوسیدہ اَور پلستر سے اکھڑی ہوئی سیاہ دِیواروں میں اُس شخص کو کیا نظر آ رہا تھا کہ وہ وَہاں سے ٹلنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔
پاگلوں کی طرح وہ ایک طرف سے دوسری طرف جاتا اور پھر فیتہ نکال کر دیواروں کی لمبائی چوڑائی ناپنے لگتا۔
اِس دوران میں اُس کی توجہ نہ اُن ہزاروں چمگادڑوں کی طرف گئی جو تاریک زینوں اور اُونچی چھتوں کے اندر لٹکی ہوئی تھیں اور نہ مکڑیوں کے اُن مہیب اور بڑے بڑے جالوں کو دیکھ سکا جو بار بار اُس کی راہ میں حائل ہوتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:
https://shanurdu.com/general-ki-khopdi/
جنگلی کبوتروں اور چڑیوں کے وہ بےشمار گھونسلے جو ایکس ہام کے اندرونی اور تاریک کمروں میں جا بجا بنے ہوئے تھے، اُس کی نگاہ میں نہ آئے۔
رات کو کھانے کے بعد جب وہ آرام سے بیٹھا قہوہ پی رہا تھا کہ میرے استفسار پر مدھم لہجے میں بولا:
’’جناب! مَیں حیران ہوں کہ کن الفاظ میں اِس عظیم اور تاریخی عمارت کا ذکر کروں۔
یقین فرمائیے پورے انگلستان میں ایسی عمارت کوئی اور نہیں۔
میری معلومات کے مطابق اِس کی تعمیر ۱۰۰۰ء سے بھی قبل کی ہے، تاہم جو علامات مَیں نے دیکھی ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایکس ہام کی جگہ پہلے ایک معبد تھا جسے رومنوں کے ایک خاص فرقے نے تعمیر کیا تھا ۔
وُہ چوہے کی پوجا کرتے تھے۔‘‘
’’چوہے کی پوجا؟‘‘ مَیں چلّا اٹھا۔ ’’مَیں نہیں مان سکتا۔‘‘
’’آہ ….. آپ نہ مانیں، لیکن یہ حقیقت ہے۔‘‘ بسانیو نے اُسی لہجے میں کہا۔
’’آپ نے چوہے کا وہ مجسمہ نہیں دیکھا جو صدر دَروازے کے قریب رکھا تھا۔
اُس زمانے میں رومنوں کے مختلف فرقے تھے جو شیطانوں اور بدروحوں کی عبادت کرتے اور اُن کے لیے انسان بھینٹ چڑھایا کرتے تھے۔
اُن کا خیال تھا کہ خدا کی نسبت شیطان، انسان کے زیادہ قریب ہے اور وُہ اُن کی جلدی مدد کر سکتاہے۔
اِس لیے اُنھوں نے چوہے، سانپ، چمگادڑ، بھیڑیے کو اَپنا دیوتا بنایا۔
وہ اِن جانوروں کو شیطانی علامت (symbol) قرار دَیتے تھے اور اُن کا کہنا ہے کہ اِن جانوروں کے اندر شیطانی صفات اور خوبیاں دوسرے جانوروں کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
پرانی تاریخ کی کتابوں کے مطالعے سے آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ زمانہ آگسٹائن سوم کا تھا جبکہ پلید اور مکروہ جانوروں کو پوجنے والے کئی خفیہ رومن فرقے وجود میں آ چکے تھے۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے اِس قسم کی پوجا اور قربانی سخت ممنوع اور ناقابلِ معافی جرم سمجھی جاتی تھی، تاہم اُس دور میں سینکڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا۔
مَیں جس رومن فرقے کا ذکر کرتا ہوں، اُس کا دیوتا چوہا تھا۔
یہاں ….. اِس محل کے کئی بڑے کمروں میں ہزاروں لاکھوں چوہے پلے ہوئے تھے جنہیں انسانی خون اور گوشت کا چسکا ڈالا گیا۔
یہ آدم خور چوہے بڑے موٹے تازے اور خونخوار تھے۔
ایک روز یہ چوہے آزاد ہو گئے اور اُنھوں نے نہ صرف ایکس ہام کے اندر رَہنے والے تمام جانوروں اور اِنسانوں کو چٹ کیا، بلکہ قصبہ مانچسٹر میں بلا بن کر نازل ہوئے اور بڑی تباہی مچائی۔
کئی ماہ کی مسلسل کوششوں کے بعد اُنھیں چُن چُن کر مارا گیا اور چوہوں کی دشمنی اب تک مانچسٹر کے لوگوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔
اب یہاں کوئی چوہا نہیں ہے اور اَگر کہیں باہر سے آ جائے، تو یہ لوگ اُس وقت تک دانہ پانی اپنے اوپر حرام سمجھتے ہیں جب تک اُسے ہلاک نہ کر لیں۔
’’ایکس ہام کا پہلا بیرن ۱۲۶۱ء میں گزرا ہے۔
اُس وقت انگلستان پر ہنری سوم حکمران تھا اور یہ وہی بیرن تھا جس نے اپنے خاندان کے تمام افراد اَور نوکروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
اُس کا نام تھا گلبرٹ ڈی لاپور، جو بعدازاں آپ کا خاندانی نام بن گیا۔
لوگوں میں مشہور ہے کہ بیرن گلبرٹ کے اندر کسی چوہے کی روح حلول کر گئی تھی جس کے زیرِ اثر وُہ رَات کو چوہا بن جاتا اور اِنسانی لہو پیتا اور گوشت کھاتا۔
اُس کے بعد جب نوریز فیملی نے ایکس ہام خریدا، تو اُن کی کئی عورتیں بھی چڑیلیں بن گئیں۔
یہ ۱۳۰۷ء کا واقعہ ہے۔ اُن میں لیڈی مارگریٹ ٹریور کا نام قابلِ ذکر ہے جسے بعدازاں مانچسٹر کے لوگوں نے پکڑ کر آگ میں زندہ جلا دیا۔‘‘
جُوں جُوں وہ اَپنی داستان سناتا گیا، میرے جسم کے رونگٹے دہشت سے کھڑے ہوتے گئے۔
حلق خشک ہو گیا اور ایسی اینٹھن سی اٹھنے لگی جیسے کوئی میرا گلا دبا رہا ہو۔
’’کیا بات ہے جناب! آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟‘‘ بسانیو نے پوچھا۔
’’ہاں! ابھی تو ٹھیک ہے، لیکن اگر آپ اِسی طرح یہ بھیانک اور بےسروپا قصّے سناتے رہے، تو یقیناً خراب ہو جائے گی۔‘‘
مَیں نے مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے کہا اور وُہ ہنس کر چپ ہو گیا۔
چند لمحے سنجیدہ رَہنے کے بعد اُس نے کہا:
’’لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اِس عمارت میں رہائش کا ارادہ ترک کر دیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’اِس لیے کہ وہاں ابھی تک بدروح کا اثر ہے۔‘‘
’’آپ سائنس دان ہو کر ایسی باتیں مانتے ہیں۔‘‘
’’سائنس کا اِن باتوں سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایک الگ دنیا ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ کیپٹن نوریز وہاں آ گیا اور گرم گرم بحث شروع ہو گئی جس کا اختتام اِس پر ہوا کہ یہ روایات ممکن ہے کسی دور میں سچ ہوں،
لیکن اب تو گزشتہ دو سو برس سے کسی شخص کو ایکس ہام سے کوئی نقصان نہیں پہنچا، اِس لیے وہاں رہنے میں کوئی حرج نہیں۔
دوسرے یہ کہ مانچسٹر والوں کے دل سے ایکس ہام کا خوف اور دَہشت نکالنے کے لیے بھی اب ضروری ہو گیا ہے کہ اُس کا مالک وہیں جا کر رہے۔
جیسا کہ مَیں نے ابتدا میں کہا، ۱۶ جولائی ۱۹۲۳ء کا وہ منحوس دن تھا جب مَیں نے رہائش کے ارادے سے ایکس ہام میں قدم رکھا۔
مرمت ہونے کے بعد عمارت کی شکل ہی کچھ اور نکل آئی تھی اور اِس سے پیشتر جس ویرانی اور سناٹے کا احساس ہوتا تھا، وہ اِحساس اب کسی حد تک زائل ہو چکا تھا۔
میرے عملے میں سات ملازم اور نو بلیاں شامل تھیں۔
شاید آپ یہ سمجھیں کہ مَیں نے ایکس ہام کے آدم خور ’’چوہوں‘‘ کے ڈر سے یہ بلیاں پالی ہوں گی، جی نہیں، بلکہ بلیاں پالنے کا شوق مجھے بچپن سے ہے۔
جس وقت مَیں امریکا سے چل کر انگلستان پہنچا ہوں، اُس وقت بھی میرے پاس بارہ بلیاں تھیں
جن میں سے تین اب تک مر چکی تھیں اور نو باقی بچیں۔
اُن میں سے سیاہ رنگ کی ایک خوبصورت سیامی بلی مجھے سب سے زیادہ عزیز تھی۔
وُہ بھی ہر وقت میرے ساتھ لگی رہتی۔
حتیٰ کہ رات کو میرے بستر پر پائنتی کی طرف سوتی اور اَپنے اگلے پنجے اِس خیال سے میرے پیروں پر رکھتی کہ مَیں اُس کی بےخبری میں کہیں چلا نہ جاؤں۔ اُس کا نام مَیں نے ’’کوئین‘‘ رکھا تھا۔
اُس کی چال ڈھال اور عادتیں بالکل شاہانہ تھیں اور وُہ گزشتہ سات برس سے میرے پاس تھی۔
ایکس ہام میں آنے کے بعد پانچ دن انتہائی سکون اور آرام سے گزرے۔
اِس مکان کے چپے چپے اور گوشے گوشے پر میرے عظیم آبا و اَجداد کے نقوش مرتسم تھے
دَر و دِیوار اُنہی کی داستان زبانِ حال سے سناتے تھے۔
کیپٹن نوریز اب مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز تھا کیونکہ وہ میرے آنجہانی بیٹے الفرڈ کا پیارا اَور قابلِ اعتماد دوست تھا۔
وہ دِن کا بیشتر حصّہ میرے پاس ہی رہتا اور طرح طرح کے قصّے کہانیاں اور لطیفے سنا کر الفرڈ کا غم میرے دل سے نکالنے کی کوشش کرتا۔
۲۲ جولائی کے روز ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے مجھے کچھ سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کر دیا،
تاہم مَیں نے اُسے اپنا وہم سمجھ کر ٹالنا چاہا اور کسی سے اُس کا ذکر نہ کیا۔
قصّہ یہ تھا کہ اُس دن میری چہیتی بلی کوئین خلافِ معمول بےحد مضطرب اور بےچین نظر آئی۔
اُس نے اپنا ناشتہ بھی نہ کیا اور سارا دِن ایکس ہام کے مغربی حصّے میں گھومتی رہی۔
یہ حصّہ مَیں نے اپنی رہائش کے لیے بہتر اور مناسب خیال کیا تھا۔
وہ دِیوار کے ساتھ ساتھ دور تک جاتی اور پھر اپنے پنجوں سے اُسے کھرچنے کی کوشش کرتی۔
کبھی کبھی وہ رُک کر دیوار کو گھورنے لگتی اور اُس کے کان کھڑے ہو جاتے۔
سمجھ میں نہ آتا تھا اُسے کیا ہو گیا ہے۔
تیسرے پہر جب مَیں دوسری منزل پر اپنی مختصر سی لائبریری میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا،
ایک ملازم اندر آیا۔
اُس کے چہرے پر پھیلے ہوئے خوف کے ہلکے ہلکے تاثرات مَیں نے صاف پڑھ لیے۔
گھبرائے ہوئے لہجے میں اُس نے کہا:
’’سرکار! تمام بلیاں بےچین ہیں ….. وہ نچلی نہیں بیٹھتیں۔
پوری عمارت میں اِدھر سے اُدھر بھاگی دوڑی پھرتی ہیں۔‘‘
عین اُسی لمحے کوئین جو میرے قدموں میں چپ چاپ گردن جھکائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی، چونک کر سامنے مغربی دیوار کی طرف گھورنے لگی۔
اُس کے کان کھڑے ہو گئے، پھر وہ آہستہ آہستہ دبے پاؤں اِس انداز میں آگے بڑھی جیسے اپنے شکار پر جھپٹنے کا ارادہ کر رہی ہو، لیکن وہاں تو کچھ بھی نہ تھا۔
دیوار کے قریب پہنچ کر وہ اُسے سونگھنے اور پھر پنجے سے کھرچنے لگی۔
مَیں نے اُسے ڈانٹ کر اَپنے پاس بلایا۔ وہ آ تو گئی، لیکن اُس کی متجسس اور مضطرب نظریں دیوار ہی پر جمی رہیں۔
میرا ملازم بھی اُس کی یہ حرکت غور سے دیکھ رہا تھا، کہنے لگا:
’’جناب! ساری بلیاں بالکل اِسی طرح کر رہی ہیں ….. خدا ہی بہتر جانتا ہے، کیا معاملہ ہے۔‘‘
’’شاید اُنھیں اِن دیواروں سے چوہوں کی بُو آتی ہے۔‘‘ مَیں نے کہا۔
’’صدیوں پیشتر یہاں ہزارہا چوہے رہتے تھے،
یقیناً اُن کی بُو اَبھی تک باقی ہو گی اور چونکہ بلیوں کی قوتِ شامہ ہماری نسبت تیز ہے،
اِس لیے وہ اُس بُو کو پا کر بےچین ہو رہی ہیں۔ جاؤ گھبرانے کی کیا بات ہے۔
دو چار دِن میں بلیاں اِس کی عادی ہو جائیں گی۔‘‘
’’لیکن سرکار! شروع کے پانچ دن بھی تو یہ بلیاں یہیں رہی ہیں۔
اُس وقت اُنھوں نے کوئی بُو کیوں نہ پائی؟‘‘ ملازم نے پوچھا اور مَیں حیرت سے اُس کا منہ تکنے لگا۔
میرے پاس اِس دلیل کا کوئی جواب نہ تھا، چنانچہ مَیں نے ذرا ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اُسے ٹال دیا۔
جب وہ سلام کر کے جا چکا، تو مَیں کرسی سے اٹھا اور مغربی دیوار کا معائنہ کرنے کے ارادے سے آگے بڑھا،
لیکن دوسرے ہی لمحے کوئین مجھ سے پہلے دیوار کے پاس پہنچ چکی تھی ۔
اَب اُس کے کھلے منہ سے غرغر کی ہلکی آواز بھی برآمد ہونے لگی۔
مَیں نے دیوار پر ہاتھ پھیرا، تو یوں محسوس ہوا جیسے یہ دیوار چونے اور پتھر کی نہیں، کسی نرم کھال سے بنی ہوئی ہے۔ خدا کی پناہ …..
میرے بدن میں ایک ثانیے کے لیے تھرتھری سی چھوٹ گئی، مگر فوراً ہی یہ احساس جاتا رہا۔
اب مَیں ایک بوسیدہ، لیکن سخت دیوار پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور بلی عالمِ دیوانگی میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک بار بار آ جا رہی تھی۔
سورج غروب ہونے کے فوراً بعد تمام بلیاں پُرسکون ہو گئیں اور اَپنے اپنے کمروں میں جہاں اُنھیں رکھا گیا تھا،
آرام سے جا بیٹھیں۔ مَیں نے حسبِ عادت تنہا کھانا کھایا اور چونکہ بہت جلد سو جانے کا عادی ہوں،
اِس لیے کوئین کو لے کر اَپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔ یہ خواب گاہ اَیکس ہام کے جنوبی حصّے میں سب سے الگ تھلگ واقع تھی۔ مانچسٹر کی طرف سے اٹھنے والے شور کی آواز بمشکل ہی یہاں پہنچتی۔
اِس لیے مَیں نے اِس کمرے کا انتخاب کیا تھا۔
کمرے میں داخل ہو کر مَیں نے لکڑی کا بھاری، مگر بےحد مضبوط دروازہ اَندر سے بند کر لیا اور کھڑکیوں کے پردے گرا دِیے اور خود آرام دہ نرم بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں۔
ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی، حتیٰ کہ کسی جانور کے بولنے کی آواز بھی کان میں نہ آتی۔
ایکس ہام کے نواح میں پھیلا ہوا ویران اور اُجڑا ہوا باغ پرندوں سے خالی پڑا تھا،
البتہ آسمان پر بڑی بڑی چمگادڑیں ضرور اُڑ رہی تھیں۔
کبھی کبھی وہ خاصی نیچے آ جاتیں، لیکن اُن کے پھیلے ہوئے مکروہ پَروں سے کوئی آواز نہ نکلتی تھی۔
میری نظروں کے عین سامنے شمال کے رخ ایک کھڑکی جس کا پردہ مَیں نے دانستہ نہیں کھینچا تھا تاکہ باہر سے تازہ ہوا آتی رہے۔
اگرچہ سورج غروب ہوئے دیر ہو چکی تھی اور چاند غالباً رات کے پچھلے پہر صرف تھوڑی دیر کے لیے نکلنے والا تھا، تاہم مغرب کی طرف آسمان پر چند رنگ برنگی قوسیں اور زاویے چمکتے دکھائی دیے۔
اُن کی شکلیں بار بار بدل رہی تھیں۔ مَیں دیر تک یہ تماشا دیکھتا رہا۔
پھر نہ جانے کب نیند کی آغوش میں جا پہنچا۔ لیکن فوراً ہی ایک بھیانک خواب دیکھا اور پھر آنکھ کھل گئی۔
میرے سرہانے جلتے ہوئے تیل کے لیمپ کی روشنی مزید مدھم پڑ چکی تھی۔
باہر گھپ اندھیرا تھا، مَیں نے اپنے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز خود سنی اور بدن کو پسینے میں تربتر پایا۔
خدا کی پناہ، کیسا عجیب اور ڈراؤنا خواب تھا۔ مَیں نے ہاتھ بڑھا کر قریبی میز پر سے پانی کا گلاس اٹھانا چاہا اور اِس اثنا میں پائنتی کی جانب نگاہ گئی۔
کیا دیکھتا ہوں، میری وفادار سیاہ بلی اپنی جگہ بےحس و حرکت بیٹھی سامنے دیوار پر ٹکٹکی باندھے تَک رہی ہے۔ اُس کے کان کھڑے تھے اور آنکھیں ….. اُف، دہکتے ہوئے سرخ کوئلوں کی طرح چمک رہی تھیں۔
بلی کی یہ کیفیت اِس سے پہلے کبھی مَیں نے مشاہدہ نہ کی تھی۔
مجھے اُس سے ڈر لگنے لگا۔ اگرچہ وہ مجھے بستر میں حرکت کرتے دیکھ چکی تھی،
مگر اُس نے ذرا جنبش نہ کی اور یونہی بیٹھی دیوار کو گھورتی رہی۔
اُس کی آنکھوں کی چمک دم بہ دم بڑھتی جاتی تھی۔
مَیں نے پیار سے اُسے آواز دی، لیکن اُس نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی اور چھلانگ لگا کر بستر سے نیچے کود گئی۔ اب وہ اِنتہائی احتیاط اور چالاکی سے ایک ایک انچ کر کے دیوار کی طرف بڑھ رہی تھی۔
مَیں نے بھی دیوار کی طرف دیکھا، مگر وہاں کچھ نہ تھا،
تاہم بلی کی حرکات اور اُس کے پُراسرار تیور ظاہر کرتے تھے کہ وہ ضرور کسی شے کے تعاقب میں ہے۔
کھڑکی کے عین نیچے پہنچ کر بلی نے منہ آگے کیا اور دِیوار کو خوب سونگھا،
پھر وہ باری باری اپنے دونوں پنجے دیوار پر رگڑنے لگی۔
دیوار پر اُس کے لمبے، تیز، نوکیلے ناخن چلنے کی آواز اُس وقت مجھے یوں سنائی دے رہی تھی جیسے کوئی بڑھئی لکڑی پر آرا چلا رہا ہے۔
یک لخت میرا دِل اِس زور سے دھڑکا جیسے اچھل کر سینے سے باہر آ جائے گا۔
ہاتھ پیر سنسانے لگے اور مجھ پر غشی سی طاری ہوئی۔ مَیں نے اُس وقت کچھ دیکھا نہیں،
البتہ ایک اور آواز سنی جس نے مجھے اِس حالت کو پہنچا دیا۔ خدا رَحم کرے ….. واقعی اُنہی کی آواز ہے یا ….. یا میرے کان بج رہے ہیں۔
مَیں نے جلدی سے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک ایک گھونٹ میں ختم کر کے میز پر رکھ دیا۔
اوسان کچھ بحال ہوئے، تو مَیں نے دوبارہ اُس آواز کی طرف کان لگائے۔
اب مَیں واضح طور پر سن سکتا تھا کہ کمرے کے اندر ایک عجیب مدھم سا شور برپا ہے۔
اُس کی آواز اُس سامنے والی دیوار کے اندر سے اُٹھ رہی ہے جسے بلی دیوانہ وار کھرچنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
یہ چوہوں کے بولنے اور پنجے مارنے کی آواز تھی۔
ایسی آواز جس سے اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ دیوار کے پرلی طرف ایک دو نہیں، ہزارہا چوہے موجود ہیں۔ آدم خور اَور خوںخوار چوہے۔
مَیں نے لیمپ کی بتّی اونچی کر دی، بستر سے اٹھا اور دِیوار کے قریب گیا۔
مگر اتنی دیر میں آواز غائب ہو چکی تھی۔
بلی نے حیرت اور غصّے کی ملی جُلی نظروں سے مجھے دیکھا، پھر مایوسی سے چلتی ہوئی بستر پر چڑھ کر پائنتی کی طرف لیٹ گئی۔
مَیں دیر تک جاگتا اور اِس معاملے پر غور کرتا رہا۔
کئی بار اِس دیوار کا معائنہ کیا، اُسے خوب بجا بجا کر دیکھا کہ شاید کہیں خفیہ راستہ ہو یا اندر سے کھوکھلی ہو، مگر بےسود۔
بلی اب اِن باتوں سے بےپروا آرام کی نیند سو رہی تھی اور مشرق کی جانب آسمان کا رنگ کچھ کچھ سفید اور کچھ کچھ گلابی ہو چلا تھا۔
اگلے روز مَیں نے تمام نوکروں کو طلب کر کے دریافت کیا کہ کوئی غیرمعمولی بات اُنھوں نے محسوس کی؟
لیکن سب کا جواب یہی تھا کہ بلیوں کی خلافِ معمول بےچینی کے سوا اُنھوں نے کوئی ایسی بات نہ پائی جو قابلِ ذکر ہو۔
باورچن نے صرف اتنا بتایا کہ اُس کے ساتھ رہنے والی بلی جو قریب ہی فرش پر پڑی سوتی تھی، آدھی رات کو یکایک بیدار ہو کر نہایت ڈراؤنی آواز میں غراّنے اور دِیواروں پر پنجے مارنے لگی۔
’’جناب! اُس بلی کی حالت دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔
مَیں نے خیال کیا کہ شاید کوئی دوسرا جانور کمرے میں آ گیا ہے یا زیادہ کھانے کے باعث بلی کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے، مگر اُن دونوں میں سے کوئی بات بھی نہ تھی۔
مَیں نے خود کمرے میں گھوم پھر کر دیکھا، وہاں کچھ نہ تھا۔‘‘
دوپہر کو کیپٹن نوریز جب میرے پاس آیا اور مَیں نے یہ تمام واقعہ بیان کیا۔
اُس کا خوب صورت روشن چہرہ یک لخت مارے دہشت کے سفید پڑ گیا اور نیلی آنکھیں رنگت بدلنے لگیں۔
پیشانی پر نمودار پسینے کے قطرے پونچھتے ہوئے اُس نے کہا:
’’انکل! ممکن ہے یہ آپ کا وہم ہو ….. مگر ….. آپ کہتے ہیں کہ چوہوں کی آوازیں آپ نے خود اَپنے کانوں سے سنی ہیں؟‘‘
’’ہاں، ہاں! مَیں ساری رات سو نہ سکا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کسی جگہ …..
تہ خانے یا بند کوٹھڑی میں، اِن مغربی دیواروں کے پیچھے یا نیچے ہزاروں چوہے موجود ہیں۔
میری ساری بلیاں ساری رات مضطرب اور پریشان رہی ہیں۔ اِس کی شہادت گھر کے نوکر بھی دے سکتے ہیں۔‘‘
’’کیا نوکروں نے بھی اپنے کانوں سے چوہوں کی آوازیں سنی ہیں؟‘‘
’’مَیں اِس کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ممکن ہے سنی ہوں یا نہ سنی ہوں، لیکن بلیوں کی حرکات کو بہرحال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
کیپٹن نوریز کے چہرے پر ایک رنگ آتا، ایک جاتا ….. کچھ کہے بغیر وہ بےتابی سے کمرے کے اندر ٹہلنے لگا۔
اُس نے ہر دیوار کو ٹھونک بجا کر دیکھا۔ فرش پر زور زور سے پیر مارے۔ پھر کہنے لگا:
’’میری عقل حیران ہے کہ کیا کہوں اور کیا سمجھوں۔
آپ کا مشاہدہ اِس قدر وَاضح اور مکمل ہے کہ اُسے جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا،
لیکن دوسری طرف اتنا مجھے معلوم ہے کہ ایکس ہام کے اندر اِن سنگین اور کئی کئی فٹ موٹی دیواروں کے پیچھے کوئی چوہا نہیں ہے اور اگر ہو بھی، تو اُس کی آواز آپ تک پہنچی کس راستے سے؟‘‘
’’یہ مَیں نہیں جانتا۔‘‘ مَیں نے اُس کی بحث سے اکتا کر ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
’’بہرحال مَیں صحیح کہہ رہا ہوں۔ آج رات بھی ممکن ہے کچھ ایسا ہی معاملہ ہو۔ تم صبح ضرور میرے پاس آنا۔ پھر بتاؤں گا۔‘‘
جیسا کہ مجھے توقع تھی، اُس رات بھی یہی واقعہ پیش آیا۔
بستر پر لیٹتے ہی مَیں نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ
ایک ڈراؤنی صورت کا شخص جس کے دانت باہر نکلے ہوئے اور ناخن بےحد لمبے لمبے ہیں، میرے کمرے میں موجود ہے۔
اُس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہیں۔ وہ میری طرف اس انداز سے دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو:
’’تُو میرے ہاتھ سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ دیکھ، غور سے دیکھ …..‘‘
پھر مَیں نے دیکھا کہ اُس نے پشت پر اشارہ کیا اور لاکھوں کروڑوں چوہوں کی ننھی ننھی سرخ آنکھیں چمکتی دکھائی دیں۔
وہ چیں چیں کرتے ہوئے دفعتاً میری مسہری کی طرف بڑھے اور …..
گھٹی گھٹی چیخ کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی۔
مَیں نے اپنے آپ کو پسینے میں شرابور پایا اور دِل کی دھڑکن عروج پر تھی۔
کانپتے ہاتھوں سے مَیں نے اپنے سرہانے رکھا ہوا پانی کا گلاس اٹھایا اور لبوں تک لایا تھا کہ پائنتی سونے والی بلی کے پنجے میرے پاؤں میں گڑ گئے۔
درد کی شدت سے مَیں بلبلا گیا ۔ وُہ اُسی طرح سامنے والی دیوار کو گھور رَہی تھی۔
مَیں نے بڑی مشکل سے لیمپ کی بتّی اونچی کی، کمرے میں روشنی پھیل گئی۔
لیکن آہ ….. خون سرد کر دینے والی وہ منحوس آواز …..
چوہوں کی آواز اب بھی کانوں میں گونج رہی تھی …..
یہ خواب میں دکھائی دینے والی چوہوں کی آواز نہ تھی، بلکہ اِس کمرے کے اندر چوہوں کی دیواریں زندہ ہو گئی تھیں۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر دیوار اُن کے بوجھ سے لرز رہی ہے ….. کانپ رہی ہے اور پھر …..
بلی نے جست کی اور دِیوانہ وار شمالی دیوار کو سونگھتی، کبھی پنجے مارتی۔
میاؤں میاؤں کی آواز سے کمرہ گونجنے لگا۔ بلی کے جنون میں ہر لمحے اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
پھر وہ بند دروازے کی طرف گئی اور اُسے پنجوں سے کھرچنے لگی۔
لکڑی پر تیز پنجوں کے رگڑنے کی آواز اُس اعصاب شکن ماحول میں کیسی عجیب لگ رہی تھی۔
مَیں نے بستر سے اٹھ کر لیمپ ہاتھ میں لیا اور لکڑی کا بنا ہوا بھاری دروازہ کھول دیا۔
بلی جھپٹی اور تاریکی میں سنگین زینے کی سیڑھیاں پھلانگتی ہوئی نہ جانے کہاں غائب ہو گئی۔
باہر خاصی تیز ہوا چل رہی تھی اور اَیکس ہام کے عقبی حصّے میں واقع مرگھٹ میں سے ایک ڈراؤنا شور اُٹھ رہا تھا جیسے ہزاروں بدروحیں چلّا رہی ہوں …..
لیکن یہ شور اُن بےجان شاخوں اور مُردہ ٹہنیوں کا تھا جو ہوا کے زور سے ہل کر آپس میں ہی ٹکراتی تھیں۔
چند لمحے راہداری کے کنارے کھڑے رہنے اور بلی کے واپس آ جانے کا بےسود اِنتظار کرنے کے بعد مَیں بھی نچلی منزل کی طرف چلا۔
لیمپ میرے دائیں ہاتھ میں تھا اور بائیں ہاتھ سے دیوار کا سہارا لیتا ہوا ایک ایک سیڑھی نیچے اترنے لگا۔
بلی خدا جانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔
نچلی منزل میں عین اُس کمرے کے نیچے جسے مَیں نے خواب گاہ بنا رکھا تھا، ایک وسیع و عریض تہ خانہ تھا۔ تہہ خانے کا دروازہ کھلا تھا اور اُس کے اندر سے چوہوں کے چیں چیں کرنے اور دِیواروں کو کھرچنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
دھڑکتے دل اور ماؤف ذہن کے ساتھ مَیں نے تہ خانے میں جھانکا، لیکن وہاں کچھ نہ تھا۔
البتہ میری پالتو بلی اُسی جنون و اِضطراب کے عالم میں سنگین دیواروں سے سر پھوڑ رہی تھی۔
معاً چوہوں کی آواز تھم گئی۔
آواز تھمتے ہی بلی نے گردن اٹھا کر تھکی تھکی نظروں سے میری جانب دیکھا اور پھر میرے پاس آ کر پیر چاٹنے لگی۔ اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ مَیں ننگے پاؤں ہی نیچے چلا آیا ہوں۔
صبح اپنے وعدے کے مطابق کیپٹن نوریز میرے پاس آیا اور مَیں نے الف سے لے کر یے تک گزشتہ رات کا سارا قصّہ اُسے سنایا۔ اِس مرتبہ اُس کے چہرے پر خوف کی کوئی علامت نمودار نہ ہوئی۔
اُس نے سب نوکروں کو ایک جگہ جمع کیا اور پوچھا کہ اُن میں سے کسی نے گزشتہ رات چوہوں کی آواز سنی ہے؟ سبھی نوکر اِس سوال پر دم بخود تھے اور ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
آخر ایک بڈھے خانساماں نے زبان کھولی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا:
’’کیپٹن! ہم میں سے کسی نے کوئی آواز نہیں سنی اور نہ کسی کو دیکھا …..
ہاں ہماری بلیاں ضرور رَات کو بےچین ہوتی ہیں۔ ممکن ہے اُنھیں کچھ سنائی یا دکھائی دیتا ہو۔‘‘
’’تم میں سے کسی شخص نے رات کو کوئی ڈراؤنا خواب تو نہیں دیکھا؟‘‘
’’نہیں جناب! ہم میں سے کسی نے کوئی خواب نہیں دیکھا۔‘‘ سب کی طرف سے متفقہ جواب ملا۔
’’اچھا تم لوگ جا سکتے ہو۔‘‘ کیپٹن نے اُنھیں رخصت کیا اور مجھ سے کہنے لگا:
’’انکل! بڑا پُراسرار معاملہ ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ چوہوں کی آوازیں صرف آپ ہی کو سنائی دیتی ہیں،
دوسروں کے کان اِس سے محروم ہیں۔‘‘
’’گویا مَیں ہی پاگل ہوں ….. خبطی ہوں ….. دیوانہ ہوں۔ میرے کان بجتے ہیں۔
اُف خدایا! کس طرح سمجھاؤں …..
ممکن ہے یہ منحوس چوہے عمارت کے اُسی حصّے میں ہوں جہاں مَیں رہ رَہا ہوں
اور دُوسرے حصّوں میں نہ ہوں۔‘‘
’’ہاں! یہ ممکن ہے۔‘‘ کیپٹن نوریز نے اقرار کیا۔
’’آئیے، ذرا ایک نظر اُس تہ خانے کا معائنہ کرتے ہیں جو نچلی منزل میں ہے۔‘‘
دن کی روشنی میں بھی تہہ خانہ تاریک اور سرد تھا اور اُس کے اندر جاتے ہوئے خوف آتا تھا۔
زنگ آلود لوہے کی سلاخوں کا بنا ہوا دَروازہ جو نہ جانے رات میں کس طرح بند ہو گیا تھا،
مَیں نے اور کیپٹن نے بڑا زور لگا کر کھولا
اور پتھر کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہوئے نیچے اتر گئے۔
کیپٹن نے جیب سے برقی ٹارچ نکالی اور اُس کا بٹن دبا دیا۔
تہ خانہ کیا تھا، ایک بڑا سا ہال کمرہ تھا
جس کے ایک گوشے میں صدیوں پرانا فرنیچر اور کپڑے ابھی تک بھرے ہوئے تھے۔
یہاں عجیب سی ناگوار بدبُو پھیلی ہوئی تھی۔
جونہی ہم اندر دَاخل ہوئے چند بڑی چمگادڑیں پھڑپھڑاتی ہوئی کسی گوشے سے نکلیں اور دَروازے سے باہر نکل گئیں۔ پختہ فرش پر گرد و غبار کی دبیز تہہ جمی ہوئی تھی۔
تہ خانے کے شمالی حصّے میں ایک اونچا چبوترہ دِکھائی دیا
جس پر ایک بڑا پتھر کتبے کی صورت میں لگا ہوا تھا۔
کیپٹن نے رومال سے اُسے صاف کیا،
تو چند عجیب سی شکلیں، حروف اور نہ جانے کیا کیا کھدا ہوا نظر آیا۔
’’آہ ….. یہ قربان گاہ ہے۔‘‘ کیپٹن نوریز نے دبی آواز سے کہا۔
’’دیکھیے، خون کے بڑے بڑے دھبے ابھی تک موجود ہیں جو قربان گاہ کے سنگین چبوترے پر جما ہوا تھا
اور اِمتدادِ زمانہ کے باعث اُس کی رنگت خاکستری ہو چکی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے، اِس کے نیچے کوئی چھوٹا تہہ خانہ اور بھی ہے۔‘‘
نوریز بولا۔
’’آپ دیکھتے ہیں، فرش پر چلنے سے کیسے آواز نکلتی ہے۔
یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اِس کے نیچے بھی کچھ ہے۔‘‘
’’مَیں نے سنا ہے رومن اپنے خفیہ تہہ خانے اِس انداز میں بناتے تھے کہ
کوئی غیرآدمی اُن کے اندر جانے کا راستہ آسانی سے تلاش نہیں کر سکتا تھا۔‘‘
’’بےشک یہ صحیح ہے۔‘‘ نوریز نے کہا۔
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس تہہ خانے میں وہ اَپنے دیوتا پر انسانی جانوں کی بھینٹ چڑھاتے
اور بعدازاں اِس سے نچلے تہہ خانے میں لاشیں پھینک دیتے تھے۔
اِس کے معنی یہ ہیں کہ نچلے تہہ خانے میں چوہے رہتے تھے
اور وُہ یہ لاشیں چٹ کر جاتے ہوں گے۔‘‘
نوریز کے یہ الفاظ سن کر مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی۔
معاً مَیں نے اپنی پشت پر کوئین کی آواز سنی۔ وہ اَپنا سر میرے پیروں پر رگڑ رہی تھی۔
’’آہ! آپ کی بلی ….. اِس نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔‘‘ نوریز بلی کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’نہ معلوم مجھے اِس سے ڈر کیوں لگتا ہے۔
کہتے ہیں سیاہ رنگ کی بلیوں کے بھیس میں بدروحیں ہوتی ہیں۔‘‘
وہ آپ ہی آپ اِس بات پر ہنسا اور قربان گاہ کا معائنہ کرنے لگا۔
’’میرا خیال ہے کہ خفیہ تہہ خانے کا راستہ اِسی میں سے ہو کر جاتا ہو گا۔
ذرا اَپنے آدمیوں کو بلائیے اور کہیے کہ کدالیں اور ہتھوڑے لے کر آ جائیں۔ مَیں یہاں سے فرش اکھیڑنا چاہتا ہوں۔
لیکن ٹھہریے، یہ کیا چیز ہے؟‘‘ اُس نے ایک کونے میں پڑی ہوئی وزنی سی سلاخ اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’اُن لوگوں کو بلانے کی ضرورت نہیں، خواہ مخواہ ڈریں گے اور طرح طرح کی باتیں قصبے میں پھیلائیں گے۔ ہمیں خود ہی سب کام کرنا ہو گا۔‘‘
اور اِس سے پیشتر کہ مَیں اُسے روکوں یا کچھ کہوں،
اُس نے لوہے کی یہ سلاخ قربان گاہ کے عظیم پتھر میں لگے ہوئے لوہے کے کڑے میں پھنسائی
اور پوری قوت صَرف کر دی۔
میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ چند لمحے بعد ہی
مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ وزنی پتھر اپنی جگہ سے سِرک گیا
اور وَہاں ایک تنگ سا راستہ نمودار ہوا۔
مَیں اُسے دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔
’’ٹھہریے انکل! ٹھہریے جلدی نہ کیجیے۔‘‘ نوریز نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’نہ جانے کتنی صدیوں بعد یہ تہہ خانہ کھلا ہے۔ ذرا گندی ہوا نکل جانے دیجیے، پھر اندر اُتریں گے۔‘‘
اُس نے اپنی ٹارچ کی روشنی اُس تنگ سرنگ نما راستے میں پھینکی۔
ہمارے اترنے سے پہلے بلی آگے بڑھی اور اُس سرنگ میں غائب ہو گئی۔
کیپٹن نوریز اُس کے پیچھے گیا اور مَیں آخر میں اترا۔ اُف ….. یہاں تو سرنگوں کا ایک جال سا بچھا ہوا تھا۔
ہم کوئی نو دس فٹ گہرائی میں چل رہے تھے۔
راستہ پتھروں کا بنا ہوا تھا اور دونوں جانب پختہ دیواریں تھیں۔
ابتدا میں تو بدبُو کا احساس ہوا، لیکن چند لمحے بعد
ایک طرف سے تازہ ہوا کا جھونکا آیا اور ہمارے قریب سے گزر گیا۔
’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرنگیں بنانے والوں نے تازہ ہوا کا انتظام خوب کر رکھا تھا۔‘‘ نوریز نے کہا۔
ٹارچ کی روشنی میں راستہ طے کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے رہے۔ بلی نہ جانے کہاں میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ہم نے ایک ایسی چیز دیکھی جس کے باعث ہمارے قدم آگے بڑھنے سے رک گئے۔
یہ انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کا ایک عظیم الشان ڈھیر تھا جس میں بلی نہ جانے کیا ڈھونڈ رہی تھی۔
اِس طرح کے اور کئی ڈھیر ہمیں جا بجا دکھائی دیے۔ اُن ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں خوب چمک رہا تھا
یہ منظر ایسا لرزہ خیز اور دِل دوز تھا کہ بھلایا نہیں جا سکتا۔
ہڈیوں کے اُنہی ڈھیروں میں سے بعض کھوپڑیاں ہم نے ایسی دیکھیں
جن کی ساخت بن مانسوں کی کھوپڑیوں سے ملتی جلتی تھی۔ چوہوں اور دُوسرے جانوروں کی بوسیدہ ہڈیاں بھی کثیر مقدار میں جمع تھیں۔
’’خدا کے لیے جلدی یہاں سے نکل چلیں انکل!‘‘ کیپٹن نوریز نے بدحواس ہو کر کہا۔
’’مَیں یوں محسوس کر رہا ہوں جیسے
ابھی اِن ہڈیوں کے اندر سے چوہوں کا ایک لشکرِ جرار نکل کر ہم پر ٹوٹ پڑے گا ….. آہ …..‘‘
اُس کے حلق سے چیخ نکلی اور وُہ اَندھادھند بھاگنے لگا۔
میری پالتو بلی پوری قوت سے اُس کے تعاقب میں دوڑ رہی تھی۔
چونکہ ٹارچ نوریز کے ہاتھ میں تھی، اِس لیے اُس کے چلے جانے سے سرنگ میں گھپ اندھیرا ہو گیا
مَیں نے اپنے آپ کو تن تنہا کھڑے پایا۔
انسانی ہڈیوں کا ڈھیر، صدیوں پرانی سرنگیں ….. آدم خور چوہے …..
میرا سر چکرانے لگا اور پھر ….. جیسے خون میری رگوں میں جم گیا۔
ہڈیوں کے اُس عظیم ڈھیر کے اردگرد، اوپر نیچے اور دَائیں بائیں ….. چاروں طرف چوہے ہی چوہے تھے …..
موٹے تازے بلی کی سی قدوقامت والے خوفناک چوہے ….. وہ اَپنی سرخ سرخ آنکھوں سے مجھے گھور رَہے تھے۔ مَیں اُن کے نوکیلے سفید دانت بخوبی دیکھ رہا تھا۔
اُس اندھیرے میںاُن کے سانس لینے کی آواز برابر میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔
وہ نئے آدمی کے آنے سے بےحد خوش اور چلّا کر
دوسرے چوہوں کو اَپنے قریب آنے کی دعوت دے رہے تھے۔
’’نہیں ….. ہرگز نہیں ….. مَیں اپنے آپ کو اِن چوہوں کا کھاجا کبھی نہ بننے دوں گا ….. کبھی نہیں …..‘‘ میرے حلق سے ہذیانی چیخیں نکلنے لگیں۔ مَیں بھی اندھادھند سرنگ میں دوڑنے لگا۔
کیپٹن نوریز جائے جہنم میں، یہ سب کیا دھرا اُسی کا ہے۔ اُسی نے میرے بیٹے کو ایکس ہام خریدنے کا لالچ دیا تھا ….. اُسی کے باعث میرے بیٹے کی ٹانگیں ضائع ہوئیں۔ آخر وہ مر گیا۔
میرا خوبصورت اور وَفادار بیٹا ….. لیکن مَیں نہیں مر سکتا۔
کوشش کے باوجود مجھے اوپر جانے کی راہ نظر نہ آئی
مَیں ایک ستون سے ٹکرا کر فرش پر گر گیا۔ میری نظروں کے سامنے چنگاریاں سی اڑنے لگیں۔ چوہے میرے چاروں طرف گھوم رہے تھے۔
اب مَیں اُن کی مکروہ کھالیں اپنے بدن سے مَس ہوتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔ وہ مجھے چبا جائیں گے، کچھ بھی نہ چھوڑیں گے ….. مجھے بھاگنا چاہیے۔
مَیں نے اٹھنا چاہا، مگر اٹھنے کی ہمت نہ تھی۔ پھر مَیں تاریکی کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔
تین گھنٹے بعد میرے آدمیوں نے مجھے وہاں سے اٹھایا۔
اُس وقت مَیں ہوش میں تھا،
لیکن وہ کہتے تھے کہ میرے کپڑے اور ہاتھ پیر خون میں لت پت ہیں۔
پھر پولیس نے مجھے گھیرے میں لے لیا۔ اُنھوں نے میرے سامنے کیپٹن نوریز کی لاش وہاں سے اٹھائی۔
مَیں اُسے اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔
اُسے یقیناً چوہوں نے مار ڈالا تھا اور آدھا دھڑ بھی ہڑپ کر گئے تھے،
کیونکہ مجھے نوریز کی ٹانگیں نظر نہیں آئیں ….. اور میری پالتو بلی ….. کوئین کہاں تھی۔
وہ قریب ہی تھی، بالکل قریب ….. ایک سپاہی نے اُسے پکڑ رکھا تھا۔
بلی کے پنجے اور منہ خون سے بھرے ہوئے تھے۔ پولیس انسپکٹر کی خشمگیں نگاہیں میرا جائزہ لے رہی تھیں۔ مَیں نے چلّا کر کہا:
’’مجھے چھوڑ دو ….. مجھے جانے دو ….. یہاں ہزاروں چوہے ہیں ….. تمہیں ایک سیکنڈ میں ہڑپ کر جائیں گے۔ دیکھتے نہیں، اُنھوں نے نوریز کو مار ڈالا ہے۔ اُس کا آدھا دھڑ کھا گئے ہیں۔‘‘
وہ مجھے سرنگ سے باہر لے آئے ….. وہاں اور بھی بہت سے لوگ کھڑے تھے …..
مانچسٹر کے ظالم اور بےرحم لوگ۔ مجھے دیکھ کر سب دور دُور ہٹ گئے جیسے مَیں کوئی بھوت ہوں۔
پولیس افسروں نے مجھے ایک لمبی گاڑی میں بٹھایا اور نہ جانے کہاں لے گئے۔ ایک بڑی سی عمارت میں۔ پھر اُنھوں نے مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ مَیں پاگل ہوں ….. مَیں نے کیپٹن نوریز کو قتل کر دیا ہے۔ بےوقوف کہیں کے۔ مَیں اُسے قتل کیوں کرتا ….. اُسے تو چوہوں نے ہلاک کیا ہے …..

(مقبول جہانگیر کی مکمل سنسنی خیز کتاب “آدم خور چوہے” جلد آ رہی ہے)

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles