25 C
Lahore
Monday, October 14, 2024

Book Store

tareek gaar ki makhlooq|تاریک غار کی مخلوق|Maqbool Jahangir


تاریک غار کی مخلوق

مقبول جہانگیر

یہ بھیانک داستان ڈاکٹر جیمز ہارڈ کیسل کے ذاتی کاغذوں میں سے دستیاب ہوئی ہے۔
۴ فروری ۱۹۰۱ء کو ساؤتھ کینسگٹن کے فلیٹ نمبر ۳۶ میں اُس نے انتقال کیا۔ وہ دِق کا پرانا مریض تھا۔
ڈاکٹر جیمز کو جاننے والوں کا بیان ہے کہ
وہ اَپنی زندگی میں ایک بااصول، ذہین اور صاف گو آدمی تھا۔
ہمیشہ کسی نہ کسی پُراسرار گُتھی کو سلجھانے میں مصروف رہتا۔
اُسے کہانیاں گھڑنے اور مبالغہ آمیز باتیں کرنے کی عادت نہ تھی،
اِس لیے یقین ہے کہ جو تحریر اُس کے کاغذات میں پائی گئی ہے، وہ سچی ہے ۔
اُسے من گھڑت نہیں کہا جا سکتا۔ کہانی جن کاغذوں پر لکھی ہوئی ہے، وہ ایک بڑے اور سربمہر لفافے میں بند تھے۔ لفافے کے ایک طرف ڈاکٹر جیمز نے یہ الفاظ تحریر کیے:

’’مَیں نے گزشتہ سال کا موسمِ بہار ڈربی شائر کے شمال مغربی حصّے میں ایلرٹن فارم کے نزدیک گزارا۔ اُس مقام پر مَیں نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، اُسے مختصر الفاظ میں قلم بند کرتا ہوں۔‘‘

لفافے کے دوسری طرف بھی پنسل سے چند سطریں لکھی تھیں:

’پیارے سٹین! گزشتہ برس مجھ پر ڈربی شائر میں جو کچھ بِیتی، وہ مَیں تمہیں سنا چکا ہوں۔ تم نے خود محسوس کیا تھا کہ واقعات کس قدر لرزہ خیز اور ناقابلِ یقین ہیں۔
جانتے ہو مَیں کبھی غلط بیانی نہیں کرتا۔
اگر یہ سب کچھ مَیں نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا،
تو کبھی یقین نہ آتا کہ بلیو جان کے تاریک اور تحت الثریٰ تک پہنچنے والے غار میں
کون سی ’’مخلوق‘‘ رہتی ہے۔
مَیں اُسے ’’مخلوق‘‘ ہی کہوں گا،
کیونکہ ہم ہر طرح کی جاندار چیز کو ’’مخلوق‘‘ ہی کے نام سے پکارتے ہیں۔

’’تم نے مجھے ہدایت کی تھی کہ یہ قصّہ کسی اور کو نہ سناؤں،
اِس سے خواہ مخواہ دَہشت پھیلے گی ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ میری دماغی صحت پر شبہ کرنے لگیں،
چنانچہ مَیں نے تمہاری ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اپنا منہ بند کر لیا،
مگر میری خواہش ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ لرزہ خیز داستان عوام تک پہنچے۔
مَیں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔
شاید مستقبل قریب یا بعید میں کوئی شخص میری اِس داستان سے فائدہ اُٹھائے
اور بلیو جان کے تاریک غار کی پُراسرار مخلوق سے نوعِ انسانی کو نجات دلانے میں کامیاب ہو۔‘‘

مَیں نے سٹین کے بارے میں خاصی پوچھ گچھ کی،
لیکن کچھ پتا نہ چل سکا کہ یہ شخص کون تھا،
ڈاکٹر جیمز کو کہاں ملا؛
بہرحال اُس شخص ….. سٹین ….. کے بارے میں کچھ زیادہ تردّد کی ضرورت بھی نہ تھی،
کیونکہ اُس کا کہانی سے تعلق صرف اتنا ہی ہے کہ
ڈاکٹر جیمز نے اپنی مہم کی رُوداد اُسے ایک مرتبہ سنائی تھی۔
جہاں تک ڈاکٹر جیمز کے سفر ڈربی شائر اور ایلرٹن فارم کا تعلق ہے،
اُس کے بارے میں مَیں تحقیق کر چکا ہوں۔ اُس تحقیق کی روشنی میں ڈاکٹر جیمز کا بیان درست نظر آتا ہے۔
اِس مختصر سی تمہید کے بعد مَیں یہ داستان قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ یہ دراصل ڈاکٹر جیمز کی خود نَوِشْت ڈائری ہے۔ کہیں کہیں عبارت طویل ہے اور کہیں مختصر …..
اکثر صفحے ایسے ہیں جہاں ڈاکٹر نے چند سطریں لکھیں اور پھر اُنھیں ربڑ سے مٹانے کی کوشش کی۔
اُن میں سے چند الفاظ مَیں نے پڑھ لیے،
باقی اتنے مدھم اور مٹے ہوئے تھے کہ پڑھے نہیں جا سکے۔
بہرحال اِس کا آغاز یوں ہوتا ہے۔

۱۷؍اپریل

جب سے مَیں اِس پُرفضا مقام پر آیا ہوں، طبیعت میں انبساط اور آسودگی محسوس کر رہا ہوں۔ ہوا میں تازگی اور سوندھاپن ہے۔
شاید اِس لیے کہ ایلرٹن فارم سمندر کی سطح سے چودہ سو فٹ بلند ہے۔ صبح کے وقت ہلکی کھانسی کا دورہ اُٹھنے کی شکایت ہو جاتی ہے۔
امید ہے چند روز تک یہ شکایت بھی دور ہو جائے گی۔ تازہ دُودھ اور عمدہ لذیذ گوشت باافراط ملتا ہے، خوب کھاتا ہوں اور ہضم بھی کر لیتا ہوں۔ خیال ہے کہ میرا وَزن بھی بڑھ رہا ہے۔

ایلرٹن نام کی دو بہنیں ہیں ….. غالباً جڑواں بہنیں۔ یہ فارم اُنہی کی ملکیت ہے جہاں مَیں ٹھہرا ہوا ہوں۔ آہستہ آہستہ بڑھاپے کی طرف قدم بڑھا رہی ہیں، لیکن صحت بہت اچھی ہے۔
نہایت خوش اخلاق اور مہربان عورتیں ہیں۔ میرے آرام کا بڑا خیال رکھتی ہیں۔
پروفیسر سنڈرسن نے مجھے صحیح جگہ اور صحیح لوگوں میں بھیجا ہے۔ اُس کا یہ احسان مَیں مرتے دم تک نہ بھولوں گا۔

ایلرٹن فارم دیہی آبادی سے الگ تھلگ ایک حسین سرسبز وادی کے سِرے پر واقع ہے۔ اُن لوگوں کے لیے سیر و تفریح کی بہترین جگہ ہے جو تنہائی پسند ہیں۔
چراہ گاہ میں اِردگرد کے کسانوں کی بھیڑ بکریاں گھاس چرتی اور کلیلیں کرتی پھرتی ہیں۔
وادی کے چاروں طرف چُونے کی بےشمار چھوٹی بڑی پہاڑیاں ہیں ۔ اِتنی نرم کہ اُنھیں توڑنے کے لیے کسی اوزار کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہاتھ لگاؤ، تو چُونا جھڑنے لگتا ہے۔

میرا خیال ہے یہاں لاکھوں برس پیشتر کبھی سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا،
پھر سمندر غائب ہو گیا اور چُونے کی چٹانیں
اور اُن کے اندر میلوں لمبے چوڑے تاریک غار وُجود میں آئے۔
اب بھی کہیں کہیں ندیاں بہتی ہیں اور چٹانوں کے اندر سے پانی کثرت سے رِستا رہتا ہے۔ پھر مجھے اُن غاروں کے اندر جانے کا بڑا شوق ہے۔
کچھ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مَیں زمین کے سینے میں اتر رہا ہوں۔
ہر طرف تاریکی ہی تاریکی اور ہولناک سنّاٹا جسے غار کی چھت سے رستے ہوئے پانی کی ٹپ ٹپ ،
کبھی کبھار توڑ دیتی ہے۔

میرے پاس اتفاق سے ایک چھوٹا سا برقی لیمپ ہے۔ مَیں جب صبح یا شام کو ٹہلنے نکلتا ہوں، تو کسی نہ کسی غار کی طرف ضرور جاتا ہوں۔
تاریکی کا سینہ چیرتی ہوئی برقی لیمپ کی کرنیں جب غار میں پھیلتی ہیں،
تو عجیب دلفریب اور سُرور اَنگیز منظر سامنے آتا ہے جیسے کالی اور سفید پریاں آنکھ مچولی کھیل رہی ہوں۔
غار کی بلند چھت پر کاربونیٹ آف لائم کا تہ نشین مادہ ،
اَن گنت قلموں کی شکل میں لٹکا نظر آتا ہے۔
یہ مادہ پانی کے رِسنے سے بنتا ہے اور جب اُس پر روشنی پڑتی ہے،
تو یُوں لگتا ہے جیسے مہتابیاں سی چھوٹ رہی ہوں، لیکن لیمپ بند کرتے ہی تاریکی …..
بےپناہ تاریکی کا دیو مجھے نگل لیتا ہے
حتیٰ کہ مَیں اپنے ہاتھ کی انگلیاں تک دیکھنے سے معذور ہوتا ہوں۔

۲۰؍اپریل

اُن بےشمار غاروں میں سے ایک ایسا ہے جس سے میری دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔
غالباً یہ اِس علاقے کا سب سے بڑا اور سب سے گہرا غار ہے، لیکن قدرتی نہیں،
بلکہ انسانی ہاتھوں کا بنا یا ہوا۔
اِس غار کا نامی یہاں کے لوگوں نے ’بلیو جان‘ رکھ دیا ہے۔ نہ معلوم اِس کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔
میری تحقیق کے مطابق یہاں زمانۂ قدیم میں رومنوں نے سنگِ مرمر نکالنے کے لیے،
اِس غار کو کان کی شکل دے دی تھی۔
غار کے منہ پر بنی ہوئی رومن طرز کی محراب بھی اِس بات کا ثبوت ہے کہ
یہاں سے یہ قیمتی سفید پتھر نکالا جا رہا ہے۔

اِس غار یا سُرنگ میں اترنے کے لیے راستہ بھی بنا ہوا ہے۔ دہانے پر خودرو پودے، گھاس اور جھاڑیاں کثرت سے اُگی نظر آتی ہیں۔ مَیں نے آج اِس کا قریب سے معائنہ کیا۔
اِس کی گہرائی کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکا ہے۔
مجھ حیرت ہے کہ جب اِس غار کے اندرونی حصّوں میں لیمپ کی روشنی پھینکتا ہوں،
تو اِس کی دیواریں ارغوانی رنگ کی نظر آتی ہیں۔
میرا لیمپ زیادہ دِن تک کام نہیں دے گا۔ سوچ رہا ہوں موم بتیوں کا ذخیرہ جیب میں رکھا کروں۔
اُن کے بغیر اِن غاروں اور خصوصاً بلیو جان غار کی سیر ممکن نہیں۔
مَیں جانتا ہوں کہ ایک دفعہ اِن کی تاریکیوں میں گم ہو جانے کے بعد کوئی شخص زندہ سلامت اِس دنیا میں نہیں آ سکتا،
اِس لیے موم بتیوں کا ساتھ لے جانا بےحد ضروری ہے۔

۲۱؍اپریل

آج مَیں پھر بلیو جان کے ہیبت ناک دہانے پر پہنچا اور اُسے بغور دَیکھنے لگا۔
ایک نوجوان جس کا نام آرمی ٹیج ہے، گھومتا گھامتا اِدھر آ نکلا۔ مجھے وہاں پا کر اُس کے چہرے پر حیرت اور خوف کے آثار نمودار ہوئے۔ کہنے لگا:

’’ڈاکٹر جیمز …… پناہ بخدا! آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا اِدھر آتے ہوئے؟‘‘

’’ڈر؟‘‘ مَیں نے تعجب سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ڈر! آخر کس بات کا؟‘‘

اُس نے اپنے انگوٹھے سے غار کی جانب اشارہ کیا:

’’یہ بڑی خطرناک جگہ ہے ڈاکٹر۔ اِس غار کے اندر ایک بہت بڑی بلا رہتی ہے۔‘‘

یہ سن کر مَیں اپنی ہنسی روک نہ سکا۔ مجھے علم تھا کہ یہ نوجوان پڑھا لکھا ہے اور اُس سے اِس توہّم کی توقع نہ تھی، چنانچہ مَیں نے کہا ’’کیا تم بھی ایسی باتوں پر اعتقاد رَکھتے ہو؟‘‘

’’ہاں ڈاکٹر!‘‘ نوجوان نے سنجیدگی سے کہا۔
’’چونکہ آپ کو یہاں آئے ہوئے ایک دو روز ہی ہوئے ہیں، اِس لیے آپ پورے حالات و وَاقعات سے آگاہ نہیں، لیکن ساری تفصیل سننے کے بعد آپ کو بھی میرا ہم خیال بننا پڑے گا۔‘‘

نوجوان آرمی ٹیج کے بیان کے مطابق قصّہ یہ تھا کہ وادی میں گھاس چرنے والی بھیڑیں اور بکریاں وقتاً فوقتاً گم ہو جاتی ہیں۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہ اُن بھیڑ بکریوں کو کون پکڑ کر لے جاتا ہے۔
اِس علاقے میں نہ بھیڑیے ہیں اور نہ کوئی اور وَحشی جانور کہ خیال ہو وہ یہ حرکتیں کرتے ہیں۔
اب رہا کسی چور کا معاملہ، تو وہ بھی ممکن نہیں کیونکہ یہاں گنتی کے لوگ آباد ہیں اور باہر سے آنے والا کوئی بھی شخص زیادہ عرصے تک اپنے آپ کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتا۔
پھر سوال یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو بھیڑ بکریاں اٹھا لے جانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ جب کہ گوشت بےحد سستا مل جاتا ہے۔

صرف ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ اِس غار کے نزدیک ایک جگہ بہت سا تازہ خون اور بھیڑ کے بال بکھرے ہوئے دیکھے گئے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بھیڑ بکریاں ہمیشہ تاریک راتوں میں غائب ہوتی ہیں۔
ایسی راتیں جب کہ آسمان پر سیاہ بادل بھی جمع ہو رہے ہوں اور بجلی کوند رہی ہو۔ چاندنی راتوں میں کبھی کوئی بھیڑ گم نہیں ہوئی۔

’’بہرحال …… جناب آپ مانیں یا نہ مانیں، یہ کام کسی انسان کا ہرگز نہیں۔‘‘
آرمی ٹیج نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
’’مَیں نے خود اِن کانوں سے اُس بلا کی آواز سنی ہے اور اَگر آپ روزانہ یہاں آتے رہے، تو ایک نہ ایک دن یہ آواز آپ کے کان بھی سن لیں گے۔ تب آپ کو میری باتوں پر یقین آئے گا۔‘‘

میرے پاس اِن باتوں کے جواب میں معنی خیز مسکراہٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ بھیڑوں کا اندھیری اور اَبرآلود رَاتوں میں گم ہو جانا ایسی تحیّر خیز بات نہیں۔
یہ کام یقیناً کسی ماہر اور ہوشیار شخص کا ہے جو ایلرٹن فارم میں رہنے والوں کی توہّم پرستی اور دَقیانوسی خیالات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہے۔
اب رہا اُس ’’بلا‘‘ کی آواز سننے کا معاملہ …… تو یہ بھی ایسا پُراسرار نہیں۔
اِس غار کی گہرائی میں چونا بڑی مقدار میں موجود ہے اور اُس میں جب پانی شامل ہو جاتا ہے، تو اُس چونے کے ابلنے سے گونج دار آواز پیدا ہوتی ہے، اُسے یہ سادہ لوح نوجوان بلا کی آواز سمجھ رہا ہے۔

۲۲؍اپریل

مَیں نے ایلرٹن فارم کے کئی اور لوگوں سے بھی وہی داستان سنی ہے جو آرمی ٹیج سنا چکا ہے۔
سبھی لوگ بلیو جان غار کی اُس نادیدہ بلا کے تصوّر میں ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہے ضرور لیکن کیا؟ یہ تو اُسی وقت پتا چل سکے گا جب مَیں غار کا معائنہ کروں گا۔
اگرچہ یہ کام ہے بےحد مشکل اور خطرناک؛ تاہم مَیں مصمّم ارادہ کر چکا ہوں کہ اُس غار کے اندر جاؤں گا ضرور۔

آج مَیں پھر وہاں گیا تھا اور دَیر تک غار کے دہانے کے نزدیک کھڑا رَہا۔ عجب وحشت انگیز مقام ہے۔
کبھی کبھی تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ واقعی اُس کے اندر کوئی نہ کوئی موجود ہے اور اَبھی دہانے پر اگی ہوئی جھاڑیوں اور گھاس میں سے برآمد ہو جائے گا،
مگر …… سوال تو یہ ہے کہ اگر کوئی بلا اُس میں چھپی ہوئی ہے اور وُہ باہر نکلتی ہے، تو اُس کے ’’پیروں‘‘ کے نشان تو ضرور نرم زمین پر نظر آتے ……
لیکن ایسا کوئی نشان اب تک ایلرٹن فارم والوں کو دکھائی دیا ہے اور نہ مَیں نے دیکھا ہے۔

ابھی مَیں اِسی سوچ بچار میں کھویا ہوا تھا کہ دفعتاً ایک عجیب آواز غار کی گہرائیوں میں سے اٹھی۔
دہشت سے میرے بدن کا رواں رواں تھرا گیا۔ ابتدا میں یہ آواز ہلکی تھی، لیکن رفتہ رفتہ بلند اور تیز ہوتی گئی۔ یوں سمجھیے جیسے سینکڑوں ہزاروں گھوڑے ہنہنا رہے ہوں یا …… ہاتھی چنگھاڑ رہے ہوں۔
پھر یک لخت خاموشی چھا گئی۔ اعصاب شکن خاموشی …… اب آرمی ٹیج کی باتیں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں ……
غار میں سے آنے والی آواز جو نہ جانے کتنی گہرائی میں سے آ رہی تھی، یقیناً چونا ابلنے کی نہ تھی …… یا مجھے دھوکا ہوا ہے۔ مَیں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔
مَیں نے غار میں جانے اور اَچھی طرح دیکھ بھال کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ فی الحال مَیں اِس پروگرام سے ایلرٹن فارم کے لوگوں کو آگاہ کرنا نہیں چاہتا؛ ورنہ وہ مجھے کبھی ایسا نہ کرنے دیں گے۔
اِس لیے مجھے چپ چاپ اور اِنتہائی رازداری سے کام لینا چاہیے۔
مَیں اِس راز کو بےنقاب کر کے رہوں گا کہ غار میں کون ہے اور یہ آواز کہاں سے آتی ہے۔

۲۶؍اپریل

تین دن گزر گئے ہیں اور مَیں ہر روز غار کے اندر جا کر واپس آ جاتا ہوں۔ دو دِن برقی لیمپ نے کام دیا، لیکن غار کی تاریکی لیمپ کی روشنی پر حاوی ہو جاتی ہے۔
جوُں جُوں مَیں آگے بڑھتا جاتا ہوں، لیمپ کی روشنی خودبخود مدھم ہونے لگتی ہے۔ ممکن ہے یہ میرا وَہم ہو …… مگر جہاں تک میرے امکان میں ہے، مَیں اُس غار کے اسرار کا سراغ لگانے کی برابر کوشش کروں گا۔
مَیں نے اُس دن کے بعد سے اب تک وہ بھیانک آواز دوبارہ نہیں سنی اور اَب مجھے کچھ یہ احساس ہو رہا ہے کہ مَیں فریبِ گوش و ہوش کا شکار ہو رہا ہوں، لیکن نہیں …… نہیں ……
یہ سب آرمی ٹیج کی بےہودہ اَور بےسروپا باتوں کا اثر ہے۔ مَیں ٹھیک ٹھاک ہوں، میرے حواس صحیح کام کر رہے ہیں ……
تاہم ایک بات مجھے پریشان کیے ہوئے ہے، اور وُہ یہ کہ مَیں نے پہلے پہل جب غار کے دہانے پر اُگی ہوئی جھاڑیوں اور گھاس کو دیکھا تھا، تو وہاں کوئی ایسی علامت دکھائی نہ دی تھی جس سے اندازہ ہوتا کہ کوئی بڑی جسامت کا جانور غار میں داخل ہوا ہے۔
گھاس اور جھاڑیاں روندی ہوئی تھیں، لیکن …… اب …… اب مَیں اُسے دیکھتا ہوں، تو صریحاً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عظیم قد و قامت رکھنے والی مخلوق حال ہی میں اُن جھاڑیوں کو روندتی ہوئی غار کی طرف گئی ہے …… کیا یہ بھی فریبِ نظر ہے …… ہرگز نہیں ……

مَیں آج اپنے ساتھ موم بتیاں اور ماچس کی ایک ڈبیا لے گیا تھا تاکہ زیادہ تیز روشنی میں دور تک جا سکوں۔
مَیں معمول کے مطابق (کسی خوف کے بغیر) غار کے اندر اَندازاً دو فرلانگ دور تک چلا گیا۔ راستے بےحد پیچیدہ اور پُراسرار ہیں …… یا مجھے ہی ایسے نظر آتے ہیں۔
غار کی چھت اتنی اونچی ہے کہ روشنی کے باوجود نظر نہیں آتی۔ عجیب سی بدبُو پھیلی ہوئی ہے۔ مَیں سوچتا ہوں کہ اگر میرے پاس روشنی کا انتظام نہ ہو اَور مجھے اندھیرے ہی میں باہر آنے کی ضرورت پڑے، تو مَیں قیامت تک باہر نہ نکل سکوں گا۔
یہ راستے نہیں، بھول بھلیّاں ہیں۔ سینکڑوں بھول بھلیّاں …… کہیں کہیں غار کی زمین نرم اور گیلی گیلی سی ہے۔ دیواروں پر چونا جما ہوا ہے اور رَوشنی میں چمکنے لگا ہے۔
مَیں زیادہ دَیر تک غار کی گندی ہوا میں رہوں، تو دم پھولنے لگتا ہے۔
دِق کا مریض ہوں نا …… میرے پھیپھڑوں کو تو تازہ ہوا چاہیے …… تاہم مَیں اپنے اندر پہلے سے زیادہ توانائی پاتا ہوں ……
خدا نے چاہا، تو چند روز بعد غار کے اندر مزید گہرائی میں جا سکوں گا۔

مَیں سوچتا ہوں اِس موقع پر کوئی اور شخص اِس مہم میں میرا ساتھ دینے کے لیے موجود ہوتا، تو بڑی آسانی رہتی۔
اگرچہ ایلرٹن فارم میں بھی نڈر آدمیوں کی کمی نہیں، تاہم اِس سلسلے میں مَیں اُن لوگوں سے کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔ مجھے سب کام اکیلے ہی کرنا ہو گا۔
آج رات مَیں مکمل آرام کروں گا اور اَپنے ذہن کو بھی بھٹکنے سے بچاؤں گا تاکہ صبح سویرے غار کے اندر اَور زیادہ دُور تک جانے کے قابل ہو سکوں۔

۲۸؍اپریل

کل کا دن میری زندگی کا ناقابلِ فراموش دن تھا۔ مجھے ایک ہولناک تجربے سے گزرنا پڑا ہے۔ حیران ہوں کہ اُن بعید از فہم و عقل واقعات کو کس طرح بیان کروں کہ اُن کی صحیح صحیح تصویرکشی ہو سکے۔
علی الصبح ضروریات سے فارغ ہو کر مَیں نے موم بتیاں اور ماچس کی ڈبیا جیب میں رکھی اور غار کی طرف روانہ ہو گیا۔
مَیں نہیں چاہتا تھا کہ کسی بھی شخص کو میری اِن سرگرمیوں کا علم ہو، اِس لیے نہایت احتیاط سے چھپتے چھپاتے وہاں پہنچا۔
گھاس اور جھاڑیاں اُسی طرح روندی اور کچلی ہوئی نظر آئیں، چند بڑے پتھر بھی اپنی جگہ سے ہٹے ہوئے تھے۔ ضرور کوئی غار میں داخل ہوا ہے، لیکن پیروں کے نشان (بشرطیکہ اُس کے پاؤں ہوں) دکھائی نہ دیے۔

اُس روز مَیں اندازے کے مطابق گزشتہ دنوں کی نسبت تقریباً پچاس فٹ اور آگے نکل گیا۔
یہاں غار کی زمین پتھروں سے اٹی پڑی تھی اور جا بجا محرابیں نظر آتی تھیں جو رومن معماروں کے فنِ تعمیر کی رہینِ منت تھیں۔
اب مَیں نے اپنے آپ کو ایسے مقام پر پایا جہاں دیواریں چونے کی نہیں، کسی اور سخت مادے کی تھیں۔ اُن دیواروں پر معماروں کے تیشوں اور دُوسرے اوزاروں کی ضربوں کے نشان ابھی تک یوں موجود تھے جیسے ابھی ابھی لگائے گئے ہوں۔
موم بتی کا شعلہ کانپ رہا تھا اور اِردگرد پھیلے ہوئے بڑے بڑے پتھروں کے سائے بھی کانپ کانپ کر مجھے بدحواس کر رہے تھے، لیکن مَیں رکے بغیر آگے بڑھتا گیا۔

ایک تنگ سرنگ سے ہو کر مَیں وسیع و عریض ہال میں داخل ہوا جو رومن تعمیر کا شاندار نمونہ تھا اور یہاں سے بےشمار سرنگ نما راستے دائیں بائیں اور آگے پیچھے نکلتے تھے۔
پھر مَیں نے پانی گرنے کی آواز سنی۔ غالباً یہاں کوئی چشمہ بھی تھا۔ چند لمحوں کے لیے مَیں رک گیا اور پانی گرنے کی آواز بغور سننے لگا۔ کدھر سے آ رہی ہے یہ آواز؟ مَیں نے اپنے آپ سے پوچھا۔
غالباً سامنے سے …… ہاں، اُسی طرف سے …… مَیں اور آگے بڑھا اور پھر میرے پاؤں جیسے کیچڑ میں بھر گئے۔ مَیں نے موم بتی نیچے کی اور جھک کر دیکھنے لگا ……
آہ! ایک ایسی چیز نظروں کے سامنے تھی جس نے مجھے پتھر کا بت بنا دیا۔

یہ گیلی مٹی میں بنا ہوا ایک عجیب و غریب نشان تھا۔ غار کی چھت پر سے پانی کے قطرے رِس رِس کر عین اُسی جگہ گر رہے تھے اور یہاں کی زمین پانی سے تر ہو چکی تھی ……
سرسری نظر میں یوں لگا جیسے کوئی بڑا پتھر اُوپر سے گرا اَور اُس کے گرنے سے یہ نشان بنا ہے، لیکن اِس ہال میں آس پاس تو کیا، دور تک بھی ایسا کوئی بڑا پتھر نہ تھا۔
پھر یہ نشان جو خاصا گہرا اَور کسی قدر چوکور اَور کچھ کٹا پھٹا سا تھا، یہاں کیونکر بن گیا؟
اگر یہ کسی جانور کا پاؤں ہے، تو دنیا میں اتنا بڑا جانور کون سا ہے جس کے پاؤں کا نشان کم از کم ڈیڑھ فٹ چوڑا اَور آٹھ انچ لمبا ہو اَور پھر ایک ہی پاؤں والا جانور؟
دوسرے پاؤں کا نشان بھی ہونا چاہیے۔ ممکن ہے دوسرا نشان خاصے فاصلے پر ہو، یہ سوچ کر مَیں اور آگے بڑھا، لیکن دور تک دیکھنے بھالنے کے باوجود دُوسرا نشان نہ مل سکا ……
اب دہشت سے میرا کلیجہ اندر ہی اندر بیٹھنے لگا اور مَیں نے واپس جانے کا ارادہ کر لیا، مگر روشنی کے باوجود رَاستہ بھول کر ایک اور سرنگ میں جا نکلا۔
اِس سے پیشتر کہ مَیں سنبھل سکوں، ٹھوکر کھائی اور پھر اپنے آپ کو یخ بستہ پانی کے اندر غوطے کھاتے پایا۔

میرے گرتے ہی گھپ اندھیرا چھا گیا۔ یہ نہر …… مَیں اُسے نہر ہی کہوں گا، اندازاً بیس فٹ چوڑی تھی، مَیں نے ہاتھ پیر مارے اور کنارے پر پہنچ کر باہر نکلا۔
سردی سے میرا بدن تھرتھر کانپ رہا تھا اور آنکھوں کے سامنے ستارے سے ناچ رہے تھے۔ مَیں غار سے اتنی دور نکل آیا تھا کہ اب روشنی کے بغیر باہر جانا ممکن نہ تھا، اُس ایک پاؤں والی نادیدہ بلا کا خوف بھی مجھ پر مسلط تھا جس کے ’’قدم‘‘ کا نشان مَیں دیکھ چکا تھا۔

میرے ہر طرف ہیبت ناک سناٹا تھا جو گھپ اندھیرے کے ساتھ مل کر ایسا ماحول پیش کر رہا تھا کہ بیان سے باہر ہے۔
میری حالت اُس چوہے کی سی تھی جسے راہِ فرار نہ مل رہی ہو اَور وُہ کوئی دم میں بلّی کے خون خوار جبڑوں کا شکار ہونے والا ہو۔ موم بتی میرے ہاتھ سے چھٹ کر پانی میں گم ہو چکی تھی، لیکن ابھی میری جیب میں دو موم بتیاں اور تھیں۔
مَیں نے ماچس کی ڈبیا جیب سے نکالی …… مگر بےسود …… سب تیلیاں پانی میں بھیگ چکی تھیں اور اُنھیں سوکھنے کے لیے کئی گھنٹے درکار تھے۔
نہ جانے مَیں کتنی دیر وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ کیا کروں، کہاں جاؤں۔ میرا ذہن اِس حالت میں بھی کام کر رہا تھا۔ اب مَیں تصوّر ہی تصوّر میں غار کے راستے کا نقشہ تیار کرنے لگا۔
کوشش کروں، تو شاید دہانے تک پہنچ جاؤں …… یہ خیال آتے ہی مَیں دیواروں اور پتھروں کو اَندھوں کی طرح ٹٹولتا ہوا ایک طرف کو چلنے لگا۔

لیکن بہت جلد احساس ہو گیا کہ مَیں اندھیرے کی اِس دبیز چادر کو پھاڑ کر راستہ تلاش کرنے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا اور اَب میری قبر اِسی غار کے اندر بنے گی۔
مَیں نے ایک بڑے سے پتھر کے اوپر پناہ لی اور اَپنے بچاؤ کی تدبیروں پر غور کرنے لگا، مگر ذہن اِس قدر اَبتر اور حواس ایسے پراگندہ تھے کہ کوئی راہ سوجھتی نہ تھی۔

مجھے اپنی جذبات آمیز حماقت پر افسوس ہونے لگا۔ کم از کم اپنے کمرے میں اِس مضمون کا رقعہ ہی رکھ آتا کہ مَیں فلاں جگہ جا رہا ہوں۔ یہاں مجھے کوئی ڈھونڈنے نہ آئے گا۔
ماچس کی ایک بھیگی ہوئی ڈبیا اور دو موم بتیاں۔ صرف اِن حقیر چیزوں کے سہارے کچھ امید بندھی تھی کہ میری جان شاید بچ جائے۔
وُہ بھی اُس وقت جب ماچس کی تیلیاں خشک ہو کر جلنے کے قابل ہو جائیں۔ اب مَیں نے ڈبیا کو جیب سے نکال کر اپنی بائیں بغل کے نیچے دبایا تاکہ اُس کی گرمی سی تیلیاں خشک ہوں۔
میری قمیص کی اندرونی جیب میں اتفاق سے چند بسکٹ نکل آئے جو مَیں نے صبح ناشتا کرتے وقت غیرارادی طور پر جیب میں ڈال لیے تھے۔
اگرچہ اُن بسکٹوں نے بھی پانی کا اثر قبول کر لیا تھا، مگر یہ کھانے کے قابل ضرور تھے، چنانچہ اُن سے کسی قدر بھوک مٹائی۔
اِس کے بعد مَیں نے اپنے سونے کے لیے مناسب سی جگہ ٹٹول کر تلاش کی۔ یہ دو بڑے پتھروں کی درمیانی جگہ تھی۔ مَیں نے ہاتھ پاؤں سکیڑ لیے اور گٹھڑی سا بن کر لیٹ رہا۔

کہہ نہیں سکتا کتنی دیر سویا ہوں گا۔ شاید پندرہ منٹ، ایک گھنٹہ یا کچھ زائد ، کیونکہ اُس یکساں اندھیرے میں وقت کا صحیح احساس کرنا ممکن نہ تھا۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مَیں کئی گھنٹے سویا ہوں کیونکہ میرے کپڑے اب گیلے نہ تھے ۔
سردی بھی کسی حد تک کم محسوس کر رہا تھا۔ دفعتاً میرا دِل زور سے دھڑکا اور سارے جسم کا خون یک لخت گرم ہو کر دماغ کی طرف چڑھنے لگا۔
مَیں اٹھ کر بیٹھ گیا، اور اَپنے کان اُس پُراسرار اَور وَحشت انگیز آواز کی طرف لگا دیے جو غار میں کسی جگہ گونج رہی تھی۔

کیا کچھ لوگ میری تلاش میں آ نکلے ہیں اور مجھے پکار رَہے ہیں؟نہیں۔
یہ آواز آدمیوں کی نہیں ہو سکتی۔
پھر مجھے اُس نادیدہ بلا کا خیال آیا جس کی آواز مَیں چند روز قبل غار کے دہانے پر سن چکا تھا۔ اف خدایا۔ یہ تو وہی ہے ، بالکل وہی۔
اگرچہ وہ خاصے فاصلے پر تھی، لیکن مَیں نے محسوس کیا کہ لمحہ بہ لمحہ قریب آتی جا رہی ہے ۔ کسی بڑے گھوڑے کے ہنہنانے یا گدھے کے ہینگنے کی آوازوں کے مشابہہ ۔
لیکن انتہائی ڈراؤنی اور رُونگٹے کھڑے کر دینے والی۔ یہ ضرور کسی زندہ مخلوق کے حلق سے نکل رہی ہے۔

پھر میرا بدن سرد پڑنے لگا اور سر کے بال کانٹوں کی مانند سیدھے کھڑے ہو گئے۔ مَیں نے اپنی پیشانی، چہرے اور ہتھیلیوں کو پسینے میں شرابور پایا، کیونکہ اب میرے کانوں تک اُس کے بولنے کی آواز کے ساتھ ساتھ اُس کے قدموں کی دھمک بھی پہنچ رہی تھی۔
عظیم اور وزنی پیروں کی دھمک جس سے زمین میں ہلکا ہلکا ارتعاش پیدا ہو رہا تھا۔ آہ! ، یہ بلا اِسی جانب بڑھی آ رہی تھی جدھر مَیں چھپا ہوا تھا …… لیکن …… کیا وہ اَندھیرے میں دیکھنے کی قدرت رکھتی ہے؟
ہاں ! یہی بات ہے۔
قدموں کی چاپ یا دھمک اور نزدیک آ گئی۔ شاید میرا اَور اُس کا درمیانی فاصلہ پچاس ساٹھ فٹ سے زائد نہ ہو گا۔
مَیں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اُس سمت دیکھنے کی کوشش کی، مگر بےسود۔ بےہنگم اور لرزہ خیز آوازیں سنائی دینے کے سوا جو غار کی بلند چھت سے ٹکرا کر واپس آتی تھیں، مجھے کوئی ہیولا یا جسم دکھائی نہ دیا۔

معاً یہ ہوشربا آوازیں رک گئیں اور ایک بار پھر گہرا سکوت چھا گیا۔ اعصاب پر چھا جانے والا سکوت، لیکن مَیں اُس سکوت میں بھی اپنے دل کی دھڑکن بخوبی سن سکتا تھا۔
کیا آنے والی بلا نے میری بُو پا لی ہے؟ کیونکہ خود میرے نتھنوں میں ایک عجیب قسم کی ناگوار بدبُو گھسی آ رہی تھی جو یقیناً اُس کے جسم سے خارج ہو رہی تھی۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بلا کوئی مافوق الفطرت شے نہیں، بلکہ اِسی دنیا کی جیتی جاگتی مخلوق ہے جو نہ صرف مادی جسم رکھتی ہے بلکہ اُس کے جسم سے بدبُو بھی اُٹھ سکتی ہے۔

اچانک قدموں کی دھمک شروع ہو گئی، پھر چند پتھروں کے اِدھر اُدھر اچھلنے اور گرنے کی آوازیں گونجیں۔ اُس کے بعد مَیں نے سنا کہ پانی میں ہلچل سی ہوئی اور اَیسی آواز آئی جیسے وہ مخلوق نہر عبور کر کے دوسری جانب چلی گئی ہے۔
پھر مجھ پر غشی طاری ہونے لگی۔ میرے اعصاب اِس سے زیادہ اَذیت برداشت نہیں کر سکتے تھے اور نہ مجھ میں حرکت کرنے کی جرأت تھی۔
اگرچہ مَیں اُس بلا کو اَپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں پایا تھا؛ تاہم اِس بات کا پورا یقین ہو چکا تھا کہ یہ کوئی خوںخوار دَرندہ ہے اور آرمی ٹیج کی بیان کردہ کہانی لفظ بہ لفظ درست ہے۔

جب مجھے ہوش آیا، تو غار میں وہی سکوت اور اَندھیرا چھایا ہوا تھا جس پر وقت بھی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔
مَیں نے اپنی بغل میں دبی ہوئی ماچس کی ڈبیا نکالی اور ایک تیلی رگڑ کر روشن کرنے کی کوشش کی۔ چند ثانیے بعد تیلی جل اٹھی۔
مَیں نے جلدی سے موم بتی جلائی اور اَپنے اردگرد دَیکھا۔ پھر مَیں لڑکھڑاتے قدموں سے راستہ دیکھتا ہوا دَہانے کی طرف چلا۔ آدھ گھنٹے بعد جب مَیں نے اپنے آپ کو غار سے باہر کھلے اور تارے ٹِکے ہوئے آسمان کے نیچے پایا، تو جان میں جان آئی۔

اِس دوران میں مَیں اُس راستے سے بھی گزرا جہاں پہلے وہ نشان گیلی زمین میں دیکھا تھا۔ اب وہاں ایک کے بجائے کئی نشان نظر آئے جو پہلے نشان سے کچھ مختلف نہ تھے۔
اُن سے اندازہ ہوتا تھا کہ غار کی یہ مخلوق کسی ایسے عظیم اور وَزنی جانور کے قدموں سے مشابہت رکھتی ہے جو شیر، گینڈے یا ریچھ کی نسل سے ہے، لیکن ایسا کوئی جانور کرۂ ارضی پر پایا نہیں جاتا۔
مَیں ہانپتا کانپتا ایلرٹن فارم پہنچا اور اَپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر گر گیا۔ اُس وقت رات کے تین بجے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ دوسرے لوگ مزے سے سو رہے تھے.
کسی کو میرے بارے میں خبر نہ تھی کہ مَیں سارا دِن اور ساری رات کہاں غائب رہا۔

تھکن کے باعث میرا جسم چُور چُور تھا، لیکن دہشت اتنی تھی کہ نیند نہ آئی۔
مَیں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ غار کی اِس خطرناک بلا کے بارے میں کسی سمجھدار اَور بہادر شخص کو آگاہ کروں، ورنہ یہ بھیڑ بکریوں کا صفایا کرنے کے بعد انسانوں کو ہڑپ کرنے پر اتر آئے گی۔
یہ بھی تو ممکن ہے کہ اِس غار کی اتھاہ اَور اَندھی گہرائیوں میں ایسی بہت سی بلائیں پل رہی ہوں۔

۲ مئی

گزشتہ دو روز سے سخت بخار اَور ہذیانی کیفیت میں مبتلا رہنے کے بعد ڈائری لکھنے کے لیے قلم اٹھایا ہے۔
مَیں سوچ رہا ہوں کہ کسی شخص کو اپنا رازدار بناؤں گا تاکہ وہ صحیح مشورہ دَے سکے اور میری دماغی صحت پر شبہ نہ کرے۔
پروفیسر سنڈرسن نے ایک مرتبہ کسی ڈاکٹر مارک جانسن کا ذکر کیا تھا جو یہیں ڈربی شائر میں ایلرٹن فارم سے چند میل دور اَپنا اسپتال کھولے ہوئے ہے۔ آج دوپہر مَیں اُس کے پاس گیا تھا۔

اُس نے نہایت توجہ اور غور سے میرا معائنہ کیا۔ ساری کہانی سنی اور سنجیدگی کے آثار چہرے پر لیے گردن ہلاتا رہا، پھر اُس نے مجھے ایک رقعہ لکھ دیا اور زبانی بھی کہا کہ کیسلٹن میں ڈاکٹر پکٹن سے ملوں، وہ اِس سلسلے میں میری صحیح مدد کر سکے گا، چنانچہ مَیں ڈاکٹر پکٹن کی تلاش میں کیسلٹن گیا۔
اُس قصبے کے نواح میں ایک عالی شان عمارت کے صدر دَروازے پر ڈاکٹر پکٹن کے نام کا بہت بڑا بورڈ لگا دیکھ کر مجھے اطمینان ہوا کہ آدمی نامور ہے اور ضرور کچھ کرے گا۔

مَیں اُس سے ملنے کے لیے عمارت کے اندر جانے ہی والا تھا کہ ایک خیال کے زیرِ اثر رک گیا اور قریب سے گزرنے والے ایک شخص سے پوچھا کہ ڈاکٹر کیسا آدمی ہے۔ اُس نے مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا، پھر مسکرا کر بولا:

’’ڈاکٹر پکٹن دماغی امراض کا علاج کرنے میں ماہر ہے۔ یہیں اُس نے پاگل خانہ کھول رکھا ہے۔‘‘

یہ سن کر مَیں چکرایا اور پھر مجھے ڈاکٹر مارک جانسن پر سخت طیش آیا۔
کم بخت نے مجھے شاید سڑی سودائی سمجھ کر یہاں بھیج دیا۔
لعنت ہے اُس پر …… مَیں ڈاکٹر پکٹن سے ملے بغیر ایلرٹن فارم آ گیا۔
مجھے تنہا ہی اُس بلا سے نمٹنا ہو گا۔ کاش! مَیں بیمار نہ ہوتا، تب کوئی پرواہ نہ تھی۔

جس زمانے میں میرا قیام کولبرج میں تھا، وہاں ایک مکان کے بارے میں مشہور ہوا کہ اُس میں آسیب ہے اور کوئی شخص وہاں جانے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا، لیکن مَیں دو رَاتیں اُس مکان میں رہا تھا۔ بلاشبہ وہاں کچھ تھا، لیکن مجھے کوئی ضررنہ پہنچ سکا۔
اِس بیماری میںبھی جبکہ اعصاب کمزور ہو چکے تھے، میں اُس بلا سے دو دو ہاتھ کر لینے کی ہمّت رکھتا ہوں۔

۵ مئی

مَیں ابھی تک اپنے آپ کو اِس کش مکش سے آزاد نہیں کرا سکا کہ مجھے ایلرٹن فارم کے لوگوں کو اَپنے منصوبے سے آگاہ کرنا چاہیے یا نہیں۔
فرض کرو مَیں اِس مہم میں مارا جاتا ہوں، تب کیا ہو گا؟ یہاں کے لوگوںکو پھر کون بتائے گاکہ ’میرا کیا حشر ہوا اَاور اُن پر کیسی آفت ٹوٹنے والی ہے اور اَگر مَیں نہیں بتا دیتا ہوں، توہ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟
وہی جو ڈاکٹر جانسن نے سوچا ہو گا، یعنی پاگل سمجھ کرڈاکٹر پکٹن کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ مجھے اپنے شفاخانے میں داخل کر لے۔
یہ بھی تو ممکن ہے کہ میری داستان سن کر لوگ خوف و ہراس کے مارے یہاں سے بھاگ جائیں اور یہ بستی ویران ہو جائے۔

بہرحال مَیں کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے چند ضروری چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ آج مَیں اِسی مقصد کے لیے دوبارہ کیسلٹن گیا۔
ایک بڑی اور نہایت عمدہ گیس لالٹین خریدی جس کی روشنی اتنی تیز تھی کہ دس فٹ کے فاصلے پر پڑی ہوئی سوئی بھی صاف نظر آ جاتی۔
اُس کے علاوہ مَیں نے نہایت طاقتور دو نالی رائفل اور اَیسے کارتوس خریدے جو قوی ہیکل ہاتھی اور دَریائی گھوڑے کو ختم کرنے کے لیے کافی تھے۔
یہ چیزیں لے کر جب مَیں اپنی قیام گاہ پر آیا، تو بڑی مس ایلرٹن نے حیرت سے پوچھا کہ مَیں اِس رائفل سے کسے مارنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔
مَیں نے مسکرا کر جواب دیا:
ایک ایسے موذی کو جو ہم سب کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ یہ سن کر اُس کے چہرے پر خوف کے آثار نمودار ہوئے۔ کہنے لگی:

’’آہ! مَیں سمجھی تم نے شاید اُس چور کا پتا لگا لیا ہے جو اندھیری راتوں میں ہماری بھیڑ بکریاں پکڑ کر لے جاتا ہے۔‘‘

’’ہاں! یہی بات ہے۔‘‘ مَیں نے سنجیدگی سے کہا۔

’’مگر تمہیں پولیس کو اطلاع دینی چاہیے۔ کیا یہ جرم نہ ہو گا کہ تم قانون کو اَپنے ہاتھ میں لو؟‘‘

’’بہت اچھا، مَیں ابھی پولیس سٹیشن جاتا ہوں۔‘‘

مجھے یقین نہیں تھا کہ پولیس انسپکٹر میری بات غور سے سنے گا، لیکن خلافِ توقع وہ سنبھل کر بیٹھ گیا اور نہایت توجہ اور غور سے ساری کہانی سننے کے بعد اپنے بڑے سے رجسٹر میں اُسے درج کر لیا۔ پھر کہا:

’’آپ جائیے، ہم اُس بلا کا سراغ لگانے کی کوشش کریں گے۔‘‘

مَیں شکریہ ادا کر کے وہاں سے اٹھا۔ اب میرے دل پر سے ایک بوجھ ہٹ گیا تھا، لیکن دوسرے ہی لمحے اُسی پولیس انسپکٹر کے فلک شگاف قہقہے کی آواز میرے کان میں آئی۔
وہ ماتحت سپاہیوں سے ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا کہ ابھی ایک خبطی یہاں آیا تھا اور اَپنی احمقانہ باتوں سے مجھے محظوظ کر کے گیا ہے۔
آدمی دلچسپ ہے، پھر کبھی آئے، تو اُس سے تفریح رہے گی۔ اُسے تو پاگل خانے میں ہونا چاہیے تھا۔

۹ مئی

موسم روز بروز بدل رہا ہے اور موسم کے ساتھ ساتھ اندوہناک واقعات بھی پیش آ رہے ہیں۔
راتیں انتہائی تاریک ہیں اور آسمان بادلوں میں چھپا رہتا ہے۔ گزشتہ تین راتوں میں چار بکریاں گم ہو چکی ہیں۔
دو مس ایلرٹن کی، ایک بڈھے پرسن کی اور ایک مسز مولٹن کی۔
اِس صورتِ حال سے ایلرٹن فارم کے علاوہ گرد و نواح کی بستیوں میں بےحد ہراس پھیل گیا ہے۔
لوگ اُس چور کر پکڑنے کے لیے بےتاب ہیں جو ہمیشہ اندھیری راتوں میں بکریاں اٹھا کر لے جاتا ہے اور اَپنے پیچھے کوئی سراغ نہیں چھوڑتا۔

اِس دوران میں ایک اور بات ایسی ہوئی ہے جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے اور وُہ یہ کہ نوجوان آرمی ٹیج اپنے گھر سے غائب ہے۔ اُسے بدھ کی رات کو اَپنے گھر سے نکلتے دیکھا گیا۔
اُس کے بعد اُس کا کچھ پتا نہیں چلا کہ کہاں گیا۔ بعض کا خیال ہے کہ وہی بکریاں چراتا تھا۔ مگر اکثر لوگوں نے اِس کی تردید کی ہے۔
اُن کا بیان ہے کہ وہ نہایت شریف اور بلند اخلاق نوجوان ہے اور ایلرٹن فارم میں کبھی اُس کی کوئی بری حرکت نہیں دیکھی گئی۔ چونکہ اُس کا باپ خاصی رقم چھوڑ کر مرا ہے اور آرمی ٹیج کوئی کاروبار کرنے کی فکر میں تھا، اِس لیے ممکن ہے وہ لندن یا کہیں اور چلا گیا ہو، مگر مَیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ کہاں گیا۔ اُسے یقیناً غار وَالی بلا پکڑ کر لے گئی ہے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ معاملہ لوگوں کو کیسے سمجھاؤں کہ وہ خطرے کے کتنے بڑے دہانے پر کھڑے ہیں۔ پولیس انسپکٹر میرا مذاق اڑاتا ہے۔
ڈاکٹر جانسن مجھے پاگل سمجھتا ہے، بہرحال جو کچھ بھی ہو، مَیں اِسے یوں نہیں چھوڑ سکتا۔

۱۱ مئی

گزشتہ رات مَیں ایک ڈراؤنے تجربے سے دوچار ہوا ہوں۔ یہ رات بھی معمول کے مطابق تاریک تھی اور آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔
کوئی گیارہ بجے کے لگ بھگ مَیں اپنے کمرے سے نکلا۔ میرے ہاتھ میں برقی لالٹین اور رائفل تھی۔ جانے سے پہلے مَیں نے اِس مضمون کا ایک رقعہ اپنے کمرے میں میز پر رکھ دیا:

’’مَیں بلیو جان غار کی طرف ایک کام سے جا رہا ہوں، اگر کل شام تک واپس نہ آؤں، تو مہربانی کر کے مجھے وہیں تلاش کیا جائے۔‘‘

ہر طرف ہولناک سناٹا طاری تھا اور دُور وَادی کے نیچے کسانوں اور چرواہوں کے چھوٹے چھوٹے مکانوں کی کھڑکیوں اور رَوشن دانوں میں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں۔
غار کے دہانے کے قریب پہنچ کر مَیں نے لالٹین بجھا دی اور ایک طرف جھاڑیوں میں بیٹھ گیا۔
یک لخت چیپل لی ڈیل کے گرجے کے کلاک کے بارہ بجنے کی مدھم آواز میرے کان میں آئی۔

وقت آہستہ آہستہ گزر رَہا تھا اور غار ایک سر بہ فلک دیو کی مانند اپنا منہ کھولے میرے سامنے تھا۔
ایک بج گیا، پھر دو بج گئے۔
اب مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی اور مَیں جھاڑیوں میں لیٹ گیا۔ دفعتاً قریب ہی سے کوئی اُلّو اپنی بھیانک آواز میں چیخا:
ہُو …… ہُو …… او …… اُو۔

یہ آواز دائیں ہاتھ پر واقع چٹانوں میں سے آئی تھی۔ مَیں سنبھل کر بیٹھ گیا اور رائفل کے ٹریگر پر انگلی رکھ دی۔ اب ہوا کے دوش پر تیرتی ہوئی ایک اور لیکن وہی لرزہ خیز مانوس آواز سنائی دی۔
غار کی بلا بیدار ہو رہی تھی۔ میری رگوں میں دوڑتا ہوا خون سرد پڑنے لگا اور پھر بڑے بڑے پتھروں کے اِدھر سے اُدھر لُڑھکنے اور گرنے کا مسلسل شور بلند ہوا۔
غار کے منہ پر اُگی ہوئی قدآدم جھاڑیاں ہلنے لگیں اور پھر موٹی موٹی شاخیں کچلنے کی آواز ۔
مَیں نے ایک ثانیے کے لیے غار کے دہانے سے نظر ہٹا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ بادلوں کی اوٹ سے ایک روشن اور چمک دار ستارہ پُراسرار منظر دیکھنے کے لیے جھانک رہا تھا۔

معاً میری نظریں تاریکی کا سینہ چیرتی ہوئی اُس وحشی اور زندہ مخلوق پر پڑیں جو غار کے دہانے پر جھاڑیوں کے عقب میں کھڑی تھی۔ چند لمحوں کے لیے میرا جسم جیسے بیکار ہو گیا۔
مَیں نے لالٹین کا بٹن دبانے اور پھر رائفل چلانے کی کوشش کی، مگر انگلیوں میں جنبش نہ ہوئی۔ اُس بلا کا قد بارہ چودہ فٹ سے زائد نہ تھا۔
جسم ایک پہاڑ کی مانند پھیلا ہوا اَور مضبوط، لیکن اندھیرے کے باعث مَیں یہ نہیں دیکھ سکا کہ اُس کے جسم پر بال ہیں یا نہیں؛ تاہم یہ اندازہ ضرور ہوا کہ وہ اِسی زمین کی مخلوق ہے اور کوئی غیرمعمولی ہستی نہیں۔

https://shanurdu.com/aakhri-tasveer/

غار سے باہر نکلتے ہی اُس نے فضا میں منہ اٹھا کر کچھ سونگھا ،
پھر تیز بدبُو میرے نتھنوں میں آن گھسی جس کی وجہ سے مَیں ہوش میں آ گیا۔
بجلی کی مانند لپک کر مَیں نے برقی لالٹین روشن کی اور رائفل سنبھال لی۔
تیز روشنی اُس بلا کے چہرے پر پڑی ۔ اُس نے اِس زور سے چیخ ماری کہ اردگرد کی پہاڑیاں لرز گئیں۔
اب مَیں اُسے اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔ اُس کے چار ہاتھ پیر تھے اور وُہ اِس وقت اپنے پچھلے پیروں کے بَل کھڑی تھی۔
جسم پر سیاہ رنگ کے لمبے لمبے اور گھنے بال تھے۔
آگے بڑھے ہوئے بازوؤں کے پنجوں میں ایک ایک فٹ لمبے نوکیلے ناخن۔
اُس کا منہ انتہائی بھیانک اور ڈراؤنا تھا اور سفید سفید بڑے بڑے دانت منہ سے باہر جھانک رہے تھے،
لیکن وہ بلا اندھی تھی۔ بالکل اندھی ……
اگرچہ اُس کی آنکھوں کے بڑے بڑے اور گول گول سفید ڈیلے باہر کو نکلے ہوئے تھے،
لیکن اُن کی پتلیاں گردش نہ کرتی تھیں۔
لالٹین کی روشنی پڑتے ہی اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتا تھا کہ
اتنے عظیم قد و قامت کا اور اَیسا خوف ناک درندہ کہاں سے آیا۔
اِس غار میں کب سے چھپا ہوا ہے۔

مَیں نے اُس کے سینے کا نشانہ لیا اور بیک وقت دو فائر کیے،
مگر اُن گولیوں کا اُس پر کوئی اثر نہ ہوا
بلکہ وہ اَپنے چاروں ہاتھ پیروں کے بَل چیختا اور چنگھاڑتا ہوا میری طرف دوڑا
اَور کئی کئی من وزنی پتھروں کو تنکوں کی طرح پرے پھینکتا ہوا آگے بڑھا۔
اُس کے جسم سے اٹھنے والی بدبُو ناقابلِ برداشت تھی۔ مَیں نے دو فائر اور کیے ۔
اِس مرتبہ گولیاں اُس کے بازو میں لگیں۔
وہ رُک گیا اور پھر پلٹ کر غار کی طرف بھاگا اور چند لمحوں بعد نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اُس کے چیخنے اور گرجنے کی آوازیں دیر تک سنائی دیتی رہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر میرے پاس اُس وقت گیس لالٹین نہ ہوتی،
تو وہ خونخوار دَرندہ جو کسی حد تک ریچھ سے مشابہہ تھا، مجھے پکڑ کر ہڑپ کر جاتا۔
یہ سارا وَاقعہ اِس سرعت اور ناقابلِ یقین تیزی سے پیش آیا کہ
مجھے اب تک یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مَیں نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہو۔

تھوڑی دیر بعد ایلرٹن فارم کی جانب سے لوگوں کے بولنے اور پکارنے کی آوازیں سنائی دیں۔ مَیں نے دیکھا کہ پچاس ساٹھ افراد ہاتھوں میں لالٹینیں تھامے چلے آ رہے ہیں۔
اُن کے کانوں تک اُس بلا کے چیخنے اور گرجنے کی آوازیں پہنچ چکی تھیں،
مگر کوئی بھی شخص اندر جانے کو تیار نہ تھا۔
جب مَیں نے اُنھیں اُس بلا کے حلیے اور قد و قامت کے بارے میں بتایا،
تو سب میری طرف یوں دیکھنے لگے جیسے مَیں دیوانہ ہوں۔

یہاں ڈاکٹر جیمز ہارڈ کیسل کی ڈائری اچانک ختم ہو جاتی ہے۔
کچھ پتا نہیں چلتا کہ تاریک غار کی اُس مخلوق کو بعد میں کسی اور نے دیکھا یا نہیں؛
البتہ تحقیق کے بعد یہ ضرور معلوم ہوا کہ
تاریک راتوں میں ایلرٹن فارم سے بھیڑ بکریاں گم ہوتی رہی ہیں۔
پولیس سرتوڑ کوشش کے باوجود آرمی ٹیج کا سراغ نہیں پا سکی۔

وہاں کے لوگوں نے ڈاکٹر جیمز کو ذہنی ابتری کا مریض قرار دِیا؛
تاہم اُنھوں نے اِس بات کا اقرار کیا کہ ۱۰؍اور ۱۱ مئی کی درمیانی رات کو بلیو جان کی جانب سے،
ہولناک چیخوں کی آوازیں سنی گئی تھیں۔
اُن چیخوں نے سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کر دیا ۔
جب وہ جمع ہو کر وہاں پہنچے، تو اُنھوں نے ڈاکٹر جیمز کو بےہوش پڑے پایا۔
اُس کے قریب ہی دو نالی رائفل اور ایک گیس لالٹین الٹی پڑی تھی۔

ماہرینِ طبقات الارض اور علم الحیوانیات نے بلیو جان غار کا معائنہ کرنے کے بعد اِس امر کی تصدیق کی ہے
کہ اُس میں رہنے والی مخلوق پتھر کے زمانے کے عظیم ریچھ کے سوا اَور کوئی نہیں ہو سکتی۔
چانکہ اُس غار کی بےانداز گہرائی میں پانی اور ہوا دونوں عناصر موجود ہیں،
اِس لیے گھاس پھونس اور پودے بھی ضرور اگتے ہوں گے جن پر یہ ریچھ زندہ رَہا ،
جو رومنوں کے دور میں کان کی کھدائی کے باعث زمین کے بالائی حصّے میں آ نکلا۔
تلاشِ بسیار کے باوجود اُس کا دوبارہ سراغ نہ ملا،
لیکن آج بھی راتوں کے سناٹے میں ایلرٹن فارم کے لوگوں کو اُس نادیدہ ریچھ کی چیخیں سنائی دے جاتی ہیں
جو کئی ہزار برس سے زندہ سلامت ہے اور نہ جانے کتنی مدت تک اِس دنیائے آب و گل میں رہے گا۔

https://shanurdu.com/carmeela/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles