31 C
Lahore
Tuesday, March 19, 2024

Book Store

General ki khopdi|جنرل کی کھوپڑی|Maqbool Jahangir

جنرل کی کھوپڑی

مقبول جہانگیر

اُس رات دُھند اور کہر کی چادر لندن میں اِس قدر دبیز تھی کہ برقی قمقمے دیوں کی مانند ٹمٹما رہے تھے

کاروں کی روشنیاں اتنی مدھم تھیں کہ ہر آن اُن کے ٹکرانے کا خدشہ تھا لیکن لندن کے ٹیکسی ڈرائیور اِس موسم کے ہمیشہ سے عادی رہے ہیں۔ اُن کے لیے یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ مَیں گاڑی کی پچھلی نشست پر ٹھنڈ کے باعث سکڑا سکڑیا بیٹھا تھا۔
کھڑکی سے باہر سوائے مدھم روشنیوں کے اور کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔ دوسری گاڑیاں دائیں بائیں زن زن کرتی ہوئی نکل رہی تھیں۔
صرف اُن کے اِنجنوں کی آواز سے پتا چلتا تھا کہ زندگی حرکت میں ہے۔ خدا کی پناہ! کیسا خوفناک موسم تھا اور سردی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔

ایک دم بریکیں لگیں، ٹائر چیخے اور گاڑی رک گئی۔ مَیں نے دیکھا سامنے لندن کے مشہور و معروف کارڈینیل کلب کی شاندار عمارت ہے۔ گاڑی فٹ پاتھ کے ساتھ کھڑی ہے۔
کلب کا باوردی ملازم دوڑتا ہوا آیا۔ اُس نے جھک کر ٹیکسی کا پچھلا دروازہ کھولا۔ مَیں اوورکوٹ پہننے کے باوجود ٹھنڈ سے بےحال ہوتا ہوا باہر نکلا۔ ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور کلب کے مؤدب ملازم کی راہنمائی میں چند قدم چل کر اندرونی ڈیوڑھی میں داخل ہوا۔

یہاں خاصی گرمی تھی۔ ایک دم جیسے جان میں جان آ گئی۔ فوراً ہی دوسرے ملازم نے جھک کر سلام کیا اور میرا اوورکوٹ اور ٹوپی تھامنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ تیسرے آدمی نے مجھے کلب کے ہال میں پہنچا دیا۔
میرے قدموں تلے نہایت دبیز اور قیمتی قالین بچھا تھا۔ خاصا بڑا ہال تھا۔ اُس کی آرائش پر بےشمار رَقم خرچ کی گئی ہو گی۔ فرنیچر، کراکری، پردے سبھی بیش قیمت تھے۔
ہال میں چاروں طرف برقی آتش دان روشن تھے اور پانچ پانچ فٹ کا درمیانی فاصلہ دے کر انتہائی خوبصورت جدید طرز کی میزیں کرسیاں بچھائی گئی تھیں جن پر لندن کے شرفا، معزز خواتین و حضرات بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔

ملازم مجھے ایک گوشے میں لے گیا جہاں مخصوص میز کے پاس صرف دو کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک کرسی میں دھنس کر مَیں نے کوٹ کی اندرونی جیب سے چار اِنچ لمبا کاغذ کا ایک پرزہ نکالا اور اُس پر نظر دوڑائی۔
صبح سے لے کر اب تک کوئی دس مرتبہ مَیں اِس تار کی عبارت پڑھ چکا تھا۔

’’شب کے آٹھ بجے ….. کارڈینیل کلب میں ملیے ….. گورمین۔‘‘

مسٹر گورمین حال ہی میں مومبلاسا سے واپس لندن تشریف لائے تھے۔ افریقا میں برطانوی مقبوضہ نوآبادیوں میں مومبلاسا شاید سب سے بڑی نوآبادی تھی اور مسٹر گورمین ….. بلکہ یوں کہیے کہ سر مائلز گورمین ….. وہاں برطانوی ڈپلومیٹ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
اِس کے علاوہ آپ کو آنجہانی رینڈلف لوسائی کے بہت پرانے اور بےتکلف دوست ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ آخرالذکر صاحب افریقا میں تمام برطانوی نوآبادیوں کے نگرانِ اعلیٰ اور ہائی کمشنر وغیرہ بھی تھے۔ جنرل لوسائی کی موت دو ماہ قبل نہایت عجیب اور پُراسرار حالات میں واقع ہوئی تھی۔

وہ حالات کیا تھے، اُن کا علم کسی کو نہ ہو سکا۔ صرف اتنا پتا چلا کہ جنرل مرتے وقت بھی اپنی سرکاری ڈیوٹی پر کام کر رہا تھا۔ اچانک وہ مر گیا اور اُس کی لاش لندن لا کر سینٹ جان کے قبرستان میں چپ چپاتے دفنا دی گئی۔ بعض برطانوی اخباروں نے کچھ ایسی سرخیاں لگائیں جن سے شبہ ہوتا تھا کہ جنرل لوسائی کی موت طبعی نہ تھی۔
کیا اُسے قتل کیا گیا تھا؟ یا کوئی اور حادثہ پیش آیا تھا؟ اخباری رپورٹروں اور نامہ نگاروں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود اِس راز سے پردہ نہ اُٹھایا جا سکا۔

بڑی مصیبت یہ تھی کہ جنرل لوسائی کے دوست، رشتےدار اَور خود حکومتی حلقے بھی پُراسرار انداز میں مہر بہ لب تھے۔ اِس سے اُن شبہات کو مزید تقویت مل رہی تھی کہ معاملہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے۔
ایک باوقار اَخبار کے ایڈیٹر کی حیثیت سے مجھے خود اِس بارے میں خاصی تگ و دو کرنی پڑی تھی، لیکن میری تمام محنت اکارت گئی۔ کچھ بھی پتا نہ چلا کہ آخر قصّہ کیا تھا۔
جنرل لوسائی کی ایکاایکی موت کے اسباب کیا تھے؟
بہرحال دو باتیں ایسی تھیں کہ اُن پر جس قدر بھی غور کیا جاتا، یہی چیز بار بار سامنے آتی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

غضب خدا کا، پورے انگلستان میں چند مخصوص افراد کے سوا کسی کو بھی پتا نہ تھا کہ جنرل لوسائی جیسا اہم اور معروف آدمی موت سے ہم کنار کیسے ہوا؟
دوسری بات پہلی سے بھی زیادہ شک انگیز اور نرالی تھی۔ اُس کی لاش ایک بند سر بہ مہر تابوت میں لندن لائی گئی۔ اُس کے ساتھ حکومت کے متعلقہ حلقوں کی سخت ہدایات یہ تھیں کہ تابوت ہرگز نہ کھولا جائے گا اور لاش دیکھنے کی اجازت کسی کو نہ ہو گی۔
آخر کیوں؟ اِن ہدایات پر پورا عمل کیا گیا اور جنرل کے رشتےداروں کو بھی آخری بار اُس کا چہرہ نہ دکھایا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ اُس کی موت کیپ ٹاؤن کے ایک اسپتال میں واقع ہوئی۔
اَسپتال کے دو تین ڈاکٹر ہی دنیا بھر میں وہ آخری افراد تھے جنہوں نے آنجہانی کا چہرہ دَیکھنے کی سعادت حاصل کی تھی۔

رپورٹروں نے اپنے پیشے اور عادت سے مجبور ہو کر حالات کو کریدنے کی کوشش کی اور بعض الٹی سیدھی باتیں بھی اخباروں کے کالموں کی زینت بنیں، مگر گاڑی آگے نہ چل سکی۔
ویسے بھی کسی فرد کی موت اُس کے اور اُس کے رشتےداروں کا کچھ ذاتی سا معاملہ ہوتا ہے اور اَخلاقی طور پر یہ کچھ اچھا نہیں لگتا کہ خواہ مخواہ کسی کا کفن نوچا جائے۔

اِس کے علاوہ جنرل لوسائی کے رشتےداروں کو ابتدا میں خاصا پریشان کیا جا چکا تھا اور وُہ قسمیں کھا کر یقین دلا چکے تھے کہ اُنھیں جنرل کی پُراسرار موت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے، وہ تو بس حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔
آخر اِس معاملے کو چھوڑ دیا گیا، لیکن میرے ذہن میں برابر یہ قصّہ تازہ رہا تھا۔
مَیں نے اُسے ذہن سے جھٹک دینے کی بڑی کوشش کی، مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کوئی نادیدہ قوت مجھے اکسا رہی ہے کہ اِس کی تہ تک ضرور پہنچنا چاہیے، چنانچہ مَیں نے چپکے چپکے تفتیش جاری رکھی۔

اُس تفتیش کے ذریعے پتا چلا کہ اپنی موت سے چند ماہ قبل جنرل لوسائی کار کے ایک حادثے میں شدید زخمی بھی ہوا تھا، مگر ڈاکٹروں کی کوشش کے باعث اُس کے زخم ٹھیک ہو گئے تھے۔
وُہ دوبارہ اَپنے سرکاری فرائض سرانجام دینے کے قابل ہو گیا تھا، لیکن حادثے سے ٹھیک آٹھ ماہ بعد جنرل مر گیا۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ اُن آٹھ ماہ کے دوران میں اگرچہ وہ جسمانی طور پر صحت مند رہا اور اَپنا دفتری کام بخوبی کرتا رہا، مگر اُس کی دماغی حالت درست نہ تھی ….. اُس پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگے اور اُسے دماغی امراض کے اسپتال میں لےجایا گیا۔
اُس اسپتال میں وہ کچھ عرصے رہا اور پھر ٹھیک ٹھاک ہو کر واپس اپنی ڈیوٹی پر آ گیا۔ اِن تمام واقعات کی کڑیاں آپس میں ملتی نہ تھیں، درمیان میں ایک یا دو کڑیاں غائب تھیں۔
سوال یہ تھا کہ کار کا وہ حادثہ کیسے اور کیوں کر ہوا؟ جنرل کے زخم کہاں تک ٹھیک ہوئے؟ کیا اُس کے دماغ پر چوٹ آئی تھی جس کے باعث وہ دماغی ابتری کا شکار ہوا؟
پھر پاگل خانے میں کتنے دن رہا اور علاج معالجے کے بعد ٹھیک بھی ہو گیا؟ جُوں جُوں مَیں اِن معاملات پر غور کرتا، میری الجھنیں بڑھتی جاتیں۔

مَیں نے دفترِ خارجہ کے چکر کاٹنے شروع کر دیے۔ اُن لوگوں کو سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔ شاید کسی گم شدہ کڑی کا سراغ ملے، مگر بےسود۔ ہر شخص جنرل لوسائی کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا اور نفی میں گردن ہلا دیتا کہ مجھے کچھ خبر نہیں ’’اوپر والوں‘‘ سے پوچھو۔
’’اوپر والے‘‘ اوّل تو ملتے ہی نہیں تھے، طرح طرح کے بہانے کر کے ملاقات ہی سے معذوری کا اظہار کرتے، اگر کبھی مارے باندھے کوئی مل بھی لیتا، تو مجھے ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیتا کہ جاؤ اپنا کام دیکھو۔
تمہیں جنرل لوسائی کی موت سے کیا سروکار۔ بےچارے کی قضا آئی تھی مر گیا۔ اِس میں کسی کا کیا دوش باقی رہا۔

یہ قصّہ کہ اُس کی لاش سر بہ مہر تابوت میں افریقا سے کیوں لائی گئی تھی اور کسی کو اُس کا چہرہ دَیکھنے کیوں نہ دیا گیا، تو اِس کا جواب یہ ہے کہ افریقا کی شدید گرمی کے باعث اُس کی لاش گل سڑ گئی تھی۔
تعفّن کے مارے برا حال تھا۔
یہی وجہ تھی کہ تابوت کھولنے کی اجازت نہ دی گئی وغیرہ وغیرہ۔

صاف ظاہر تھا کہ یہ ’’اوپر والے‘‘ کچھ نہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اِدھر سے مایوس ہو کر مَیں نے جنوبی افریقا کے اُس اسپتال کے ڈاکٹروں سے خط و کتابت شروع کی جنہوں نے جنرل لوسائی کا علاج کیا تھا۔
وہاں سے پہلا اور آخری جواب ایک سطر پر مشتمل یہ آیا کہ
’’اِس موضوع پر ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ براہِ کرم ہمیں معاف رکھا جائے۔‘‘
چلیے قصّہ ختم۔ کوئی شخص بھی جسے کچھ معلوم تھا، اِس راز سے پردہ اُٹھاتے ہوئے ڈرتا تھا۔

پھر مجھے سر مائلز گورمین کے بارے میں پتا چلا کہ جنرل لوسائی سے اُن کا بڑا یارانہ رہا ہے اور جب اُس کی موت واقع ہوئی، تو سر مائلز گورمین، جنرل کے آس پاس ہی تھے۔
مَیں نے موصوف کو کئی زوردار خط لکھے، مگر جواب ندارد۔ مجھے یقین ہو گیا کہ دنیا میں اگر کوئی شخص اِس سربستہ راز سے پوری طرح واقف ہے، تو وہ صرف سر مائلز گورمین کی ذات ہے۔ خوش قسمتی ہے اُنہی دنوں سر گورمین کے لندن آنے کی خبر چھپی۔
مَیں نے فوراً اُن کی سیکرٹری سے رابطہ قائم کر کے ملاقات کا وقت مانگا۔ اُس حسین و جمیل عورت نے بڑے اخلاق سے وعدہ کیا کہ سر گورمین سے وقت لے کر مجھے ضرور مطلع کرے گی، لیکن وہ دِن کبھی نہ آیا۔

جب بھی مَیں فون کرتا، وہ یہی کہتی کہ سر گورمین باہر گئے ہوئے ہیں، کچھ پتا نہیں کب واپس آئیں۔ مَیں اُن سے وقت لینے کی کوشش کر رہی ہوں۔ آپ انتظار کیجیے، صبر سے کام لیجیے وغیرہ وَغیرہ۔
کبھی یہ بہانا کہ موصوف کی طبیعت ناساز ہے، ڈاکٹروں نے ملنے جلنے سے منع کر رکھا ہے۔ اِن باتوں اور ٹال مٹول نے میری آتشِ شوق کو اور بھڑکا دیا۔
مَیں سمجھ گیا کہ سر گورمین ملنا نہیں چاہتے اور پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہیں۔

آخر مَیں نے ایک خط اُنھیں لکھا کہ مجھے ساری کہانی کا علم ہو گیا ہے، صرف آپ کی تصدیق چاہتا ہوں۔
اگر آپ نے اپنا فریضہ ادا نہ کیا، تو مَیں یہ کہانی نتائج کی پروا کیے بغیر، من و عن اپنے اخبار میں چھاپ دوں گا۔
یہ دراصل بلف چال تھی جو مجھے چلنی پڑی۔ خط بھیجنے کے تین روز بعد ہی مجھے سر گورمین کا وہ تار ملا جس کا ذکر مَیں اوپر کر چکا ہوں۔

اور اَب مَیں کارڈینیل کلب کے پُرسکون، گرم اور آرائش سے بھرپور ہال میں بیٹھا اُنہی حالات پر غور کر رہا تھا کہ دیکھیے مسٹر گورمین کیا داستان سناتے ہیں کہ ایک دم میرے قریب کوئی آن کر کھڑا ہو گیا۔
یہ طویل قد اور مضبوط جسم کا ایک باوقار آدمی تھا جس کی بھوری مونچھیں بےحد شاندار اَور پلی ہوئی تھیں۔
اُس نے سیاہ رَنگ کا بیش قیمت ڈنر سوٹ پہن رکھا تھا۔
اُس کے سیاہ جوتے اتنے چمک دار تھے کہ اُن میں بلاشبہ اپنی صورت دیکھی جا سکتی تھی۔

مَیں ہڑبڑا کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ نووارد نے مسکرا کر سوالیہ انداز میں کہا:

’’آپ ہی ’ایوننگ اسٹینڈرڈ‘ کے ایڈیٹر ہیں؟‘‘

مَیں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اُس نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ’’میرا نام مائلز گورمین ہے۔‘‘

’’تشریف رکھیے۔‘‘ مَیں نے اُس کے مصافحے اور مسکراہٹ میں خلوص کی سرگرمی محسوس کی۔
وہ میرے سامنے دوسری کرسی پر بیٹھ گیا اور گہری نظروں سے میرا جائزہ لینے لگا۔ وہ اُن افراد میں سے تھا جو خود جھوٹ بول سکتے ہیں نہ اپنے مخاطب کو غلط بیانی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
پھر اُس نے سرد آہ بھری اور نہ جانے کن خیالوں میں گم ہو گیا۔ مَیں چپ چاپ منتظر رہا کہ گفتگو کا آغاز وہ خود کرے گا۔

اتنے میں بیرا گرم قہوہ لے آیا، سر گورمین نے چونک کر اُسے دیکھا اور مسکرایا۔ پھر معذرت آمیز لہجے میں مجھ سے بولا:

’’معاف کیجیے! مَیں سوچ رہا تھا کہ کہاں سے ابتدا کروں۔ مجھے بہرحال یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ ٹھیک آٹھ بجے یہاں آ گئے۔
مَیں نے طے کیا تھا کہ اگر آپ تاخیر سے آئیں گے، تو ملاقات سے انکار کر دوں گا۔
مَیں ایسے لوگوں کو اِعتماد کے قابل نہیں جانتا جو وقت کے پابند نہ ہوں۔
فرمائیے! جنرل لوسائی کے بارے میں آپ کیا جاننا چاہتے ہیں؟ کون سی ایسی بات ہے جو آپ کو پریشان کیے ہوئے ہے؟‘‘

’اُن کی پُراسرار موت!‘‘ مَیں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’موت سے پہلے کا ایک حادثہ ….. پھر دماغی شفاخانے میں اُن کا علاج ….. اور اَچانک موت ….. میرا خیال ہے اُن حالات پر آپ سے بہتر کوئی دوسرا رَوشنی نہیں ڈال سکتا۔ آپ سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘

بہت مختصر وقفے کے لیے سر گورمین کے چہرے اور آنکھوں میں گھبراہٹ کے آثار نمودار ہوئے۔ اُس نے قہوے کی دو پیالیاں بنائیں۔
ایک میرے آگے سرکا دی، دوسری اپنے سامنے رکھ لی۔
جیب سے رومال نکال کر چہرے پر پھیرا اَور پہلو بدل کر بولا:

’’بےشک! مَیں جنرل لوسائی کی زندگی اور موت کے بارے میں ایسے حالات سے واقف ہوں جو دوسروں کے علم میں نہیں ہیں یا یوں کہیے کہ کم از کم انگلستان والوں کے علم میں تو بالکل نہیں ہیں۔
کیا آپ کو کیپ ٹاؤن سے کچھ نہیں بتایا گیا؟ وہاں کے دو تین ڈاکٹر بھی کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔‘‘

’’جی نہیں! اِس معاملے میں سبھی گونگی کا گُڑ کھائے بیٹھے تھے، کسی نے ایک لفظ بتا کر نہ دیا۔‘‘مَیں نے ہنس کر کہا۔
’’اور یہی سبب تھا کہ اصل حالات جاننے کی خواہش بڑھتی گئی۔
ویسے بھی میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اِس قصّے کو اَپنی صحیح شکل میں عوام کے سامنے آنا چاہیے، ورنہ قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا دروازہ کھلا رہے گا۔
جنرل لوسائی جس اہم عہدے پر فائز تھے، اُس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اُن کی پُراسرار موت کے اسباب بیان کر دینے چاہئیں۔‘‘

گورمین کے لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اُس نے قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے کہا:

’’آپ اخبار وَالوں سے خدا بچائے، بال کی کھال نکالتے ہیں۔ بھلا یہ آپ حضرات نے کیسے فرض کر لیا کہ جنرل کی موت کے اسباب پُراسرار بھی ہو سکتے ہیں؟
کیا کسی شخص کی لاش کا سر بہ مہر تابوت میں لایا جانا اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُس کی موت پُراسرار حالات میں واقع ہوئی ہے؟‘‘

’’بےشک!‘‘ مَیں نے جلدی سے کہا۔ ’’
اور اِس کے ساتھ ساتھ سختی سے یہ ہدایت بھی کہ کسی فرد کو، خواہ وُہ جنرل لوسائی کا کتنا ہی قریبی عزیز کیوں نہ ہو، اُس کا چہرہ نہ دِکھایا جائے۔ کیا یہ چیز ذہنوں میں شبہات پیدا نہیں کر تی؟‘‘

گورمین نے اثبات میں گردن ہلائی اور قہوے کی چسکیاں لیتا رہا۔ پانی ختم کرنے کے بعد وہ چند لمحے خالی خالی نگاہوں سے میز کو گھورتا رہا، پھر کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہنے لگا:

’’آپ کا کہنا درست ہے جناب۔ ہم نے کوشش کی تھی کہ اِس قصّے کو دبا دینا ہی بہتر ہو گا، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس ساری اسکیم میں کہیں نہ کہیں کوئی غلطی ہو گئی ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ اِس وقت میرے سامنے موجود ہیں اور مجھے یہ لرزہ خیز دَاستان الف سے یے تک آپ کے گوش گزار کرنی پڑ رہی ہے۔
تاہم مَیں درخواست کروں گا کہ اگر آپ اِسے اپنے اخبار میں شائع نہ کریں، تو زیادہ بہتر ہو گا۔
یوں بھی واقعات اتنے حیران کن، عجیب اور دَہشت انگیز ہیں کہ مشکل ہی سے اُن پر یقین کیا جائے گا،
لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہوتی ہے۔ مَیں آپ کو جنرل لوسائی کی زندگی کے آخری چند مہینوں کے واقعات مختصر انداز میں بتاؤں گا۔‘‘

سر مائلز گورمین کی آواز کپکپا رہی تھی۔
اُس کا چہرہ اَزحد سنجیدہ ہو گیا تھا۔ جُوں جُوں اُس کی آواز میں لرزش بڑھ رہی تھی، تُوں توں میرے دل کے دھڑکنے کی رفتار تیز ہوتی جا رہی تھی۔
مَیں نے بےچینی سے پہلو بدل کر سگریٹ سلگایا اور ہمہ تن گوش ہو گیا۔ شاید مَیں اِس صدی کی سب سے حیرت انگیز اور ڈراؤنی کہانی سننے والا تھا۔
اِس کا اندازہ مَیں نے سر گورمین کی مضبوط شخصیت کو خوف زدہ ہوتے دیکھ کر، کر لیا تھا۔ اُس نے خوشبودار سگار سلگایا۔
ایک دو گہرے کش لینے کے بعد دھیمے، بھرائے ہوئے لہجے میں بولنا شروع کیا:

’’آج سے ٹھیک گیارہ ماہ پہلے کی بات ہے۔ یہ ہفتے اور اِتوار کی درمیانی شب تھی۔ سفارت خانے کے کسی جونیئر افسر کے ہاں عشائیہ تھا۔
جن لوگوں کو اُس نے مدعو کیا تھا، اُن میں میرا اَور جنرل لوسائی کا نام بھی شامل تھا۔
رات نہایت حسین تھی۔ کھانا بہت لذیذ اور شراب بےحد نفیس تھی۔
پھر سبھی لوگ آپس میں بےتکلف تھے، خوب چُہلیں ہوئیں۔ ہنسی مذاق، دھول دھپا بھی ہوا۔ گانے بجانے اور رَقص کی محفل بھی گرم رہی۔
وہ ایک یادگار تقریب تھی جس میں آدمی جی بھر کر حظ و مسرّت کے خزانے لٹاتا بھی ہے اور لُوٹتا بھی ہے۔ امید ہے آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔

’’سورج نکلنے میں ابھی غالباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہو گا کہ ہم نے اپنے میزبان سے اجازت لی۔
اُس نے بہت اصرار کیا کہ اِس وقت کہاں جائیے گا، تھوڑی دیر میں صبح ہونے والی ہے، ناشتا کر کے روانہ ہو جائیے، مگر مَیں نے اُس کی بات نہ مانی۔
دراصل جنرل لوسائی کی حالت خاصی ابتر ہو رہی تھی۔
وہ بلانوش تو پہلے ہی تھا، اُس رات ظالم نے نہ جانے کتنی بوتلیں چڑھا لی تھیں۔ ہوش و حواس بالکل جواب دے گئے تھے۔
پاؤں رکھتا کہیں تھا، پڑتا کہیں تھا۔ مَیں نے اُسے سنبھال رکھا تھا۔
یوں بھی وہ جب زیادہ شراب پی لیتا تھا، تو جسم کے ساتھ ساتھ اُس کا دماغ بھی ’’آؤٹ‘‘ ہو جاتا تھا،
حالانکہ شراب پینے کے لیے بڑے اونچے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے اور بدقسمتی سے یہ ظرف جنرل لوسائی کو حاصل نہ تھا۔

’’تقریب میں سفارت خانے کے افسروں کی نوجوان اور حسین بیویاں بھی شریک تھیں۔ جنرل نے اُن کی موجودگی اور آدابِ محفل کا لحاظ کیے بغیر فحش اشارے اور بےہودہ زبان استعمال کی،
لہٰذا یہ اور ضروری ہو گیا کہ مَیں اُسے وہاں سے لے جاؤں، چنانچہ ہم دونوں مکان سے باہر نکل کر گیراج کی طرف چلے جہاں میری اور جنرل کی کاریں کھڑی تھیں۔
جنرل لوسائی مُصر تھا کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہے اور اَپنی کار خود ڈرائیو کرے گا۔ مَیں نے اُسے سمجھایا کہ خاصی دور جانا ہے، راستہ بھی خطرناک ہے، ویسے بھی اندھیرا ہے، شاید وہ گاڑی نہ سنبھال سکے۔
مَیں اُسے اپنی کار میں لے چلتا ہوں۔ یہ سن کر وہ برافروختہ ہو گیا اور مجھے گالیاں دینے لگا۔ پھر اُس نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی اور چل پڑا۔

’’مَیں دیکھ رہا تھا کہ وہ پوری طرح نشے میں ہے اور یقیناً کسی کھڈ یا کھائی میں گرا دَے گا، مگر جنرل کی ضد مشہور تھی اور وُہ اُس سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتا تھا۔
مَیں نے اُس کے تعاقب میں اپنی گاڑی لگا دی۔ وہ مجھ سے کوئی ایک فرلانگ آگے جا رہا تھا اور اُس کی کار دَائیں بائیں ہچکولے کھاتی ہوئی دوڑ رہی تھی۔
بیس میل تک ہم اِسی طرح چلتے رہے۔ راستہ سنسان اور ویران تھا اور ہم ایک جنگل کے اندر سے گزر رَہے تھے۔ اُس تمام راستے میں مجھے ایک بھی ذی روح دکھائی نہیں دیا۔
دفعتاً مَیں نے دیکھا کہ جنرل لوسائی کی کار سڑک سے اتر کر چھوٹے بڑے گڑہوں میں اچھلتی لڑھکتی پوری قوت سے بھاگتی ہوئی ایک بڑے درخت کے تنے سے ٹکرائی اور رُک گئی۔‘‘

’’آہ! تو یہ تھا وہ حادثہ جس کا ذکر مَیں نے سنا۔ گویا اِس کہانی کا یہ جزو صحیح نکلا۔‘‘ مَیں نے کہا۔

’’ہاں! یہ خاصا بھیانک حادثہ تھا۔‘‘ گورمین نے سنجیدگی سے کہا۔
’’مَیں نے رفتار تیز کی اور وَہاں پہنچا۔ جنرل کی کار کا بونٹ اور اِنجن بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔ ونڈ اسکرین بھی ریزہ ریزہ تھی۔
ڈرائیونگ سیٹ پر جنرل لوسائی اسٹیرنگ وہیل تھامے جھکا بیٹھا تھا۔ اُس کی پیشانی، دونوں رخسار، ناک، ٹھوڑی اور گردن خون میں لت پت تھی اور وُہ بالکل بےہوش تھا۔
پہلے مجھے خیال ہوا کہ وہ مر چکا، لیکن ہاتھ لگانے سے پتا چلا کہ اُس میں ابھی زندگی کی حرارت باقی ہے۔

’’اُس کی کار کی بتیاں ابھی تک جل رہی تھیں۔ یہ بھی اچھا ہی ہوا، ورنہ اُس گھپ اندھیرے میں بڑی مشکل ہوتی۔ میری کار جائے حادثہ سے کوئی نصف فرلانگ دور ہی کھڑی تھی۔ مَیں نے جُوں تُوں کر کے بڑی تگ و دو کے بعد بےہوش جنرل کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھایا اور کمر پر لاد کر اَپنی گاڑی تک پہنچایا۔
ہر لمحے مجھے یہ شبہ ہوتا کہ جنرل چل بسا، لیکن دل پر ہاتھ رکھنے سے پتا چلتا کہ ابھی دم باقی ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اُسے کہاں کہاں چوٹ آئی تھی۔

’’نزدیک ترین اسپتال جائے حادثہ سے کوئی سو میل دور تھا۔ اب آپ میری پریشانی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ خیر، خدا کا نام لے کر مَیں چل پڑا، مگر اب یہ خدشہ ستانے لگا کہ میری کار میں اتنے لمبے سفر کے لیے پٹرول بالکل نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ مَیں پچاس ساٹھ میل ہی جا سکتا تھا۔
اُدھر جنرل کی حالت ہر لمحہ ابتر ہوتی جا رہی تھی۔ خون اُس کے زخموں سے برابر رِس رہا تھا اور اَب وہ زور زور سے سانس لے رہا تھا۔
اتفاق سے میرے پاس تھرمس میں پانی کے دو گھونٹ تھے۔ مَیں نے وہ پانی اُس کے حلق میں ٹپکانے کی کوشش کی، مگر بےسود۔ اُس کا جبڑا اِس سختی سے بھنچا ہوا تھا کہ جیسے دوبارہ کبھی نہ کھلے گا۔

’’مَیں نے اپنے آپ پر قابو پا کر سوچنے اور غور کرنے کا وقت نکالا۔ یکایک خیال آیا کہ مَیں واپس اُسی جونیئر افسر کے مکان تک تو جا سکتا ہوں جہاں ہماری دعوت تھی۔
اگر جنرل وہاں پہنچنے تک زندہ رہا، تو پھر اُسے اسپتال لے جانے کی تدبیر کی جائے گی۔
ممکن ہے جونیئر افسر کے گھر فالتو پٹرول موجود ہو یا مہمانوں میں سے کسی کی گاڑی کی ٹینکی پٹرول سے بھری ہوئی مل جائے۔ قصہ مختصر واپس پہنچا، تو وہ لوگ جنرل کی حالت دیکھ کر ڈر گئے۔

’’معلوم ہوا اُس گاؤں کے قریب برطانوی حکومت نے مقامی باشندوں کے علاج معالجے کے لیے ایک چھوٹا سا اسپتال کھول رکھا ہے۔ وہاں گئے۔ وہ تین کمروں کا اسپتال تھا۔
ایک کمرے میں صرف تین بستر بچھے تھے اور ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود مل گیا۔ ڈاکٹر نے جنرل کا معائنہ کیاور اِطمینان دلایا کہ کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی، معمولی زخم ہیں۔
ڈاکٹر نے اُن زخموں کی مرہم پٹی کی۔ اِس دوران میں جنرل برابر بےہوش رہا۔ اُسے ہوش میں لانے کی ہر تدبیر ناکام ثابت ہوئی۔
بہرحال اُسے وہیں اسپتال چھوڑا اَور مَیں واپس اپنے مکان پر آن کر سو گیا۔ نیند اور تھکن کے باعث خود میرا برا حال تھا۔

’’اگلے روز دوپہر کو آنکھ کھلی، تو سرکاری کام سے مجھے فوراً کئی سو میل دور جانا پڑا۔ یہ روانگی اِس قدر عجلت میں ہوئی کہ مَیں اپنے زخمی اور بےہوش دوست جنرل لوسائی کی خیر خبر بھی معلوم نہ کر سکا۔
جمعہ کے روز مَیں واپس سفارت خانے میں آیا اور آپ میری ازحد حیرت کا تصوّر کر سکتے ہیں جب مَیں نے جنرل لوسائی کو سفارت خانے میں موجود پایا۔
وہ اَپنے دفتر میں ایک بڑی سی میز کے پیچھے بیٹھا انہماک سے کام میں مصروف تھا۔ مجھے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا کہ یہ وہی آدمی ہے جسے چند روز پیشتر مَیں موت و حیات کی کشمکش میں گرفتار ایک اسپتال کے کمرے میں چھوڑ گیا تھا۔
اگر اُس کے سر اور گردن پر سفید سفید پٹیاں نہ بندھی ہوتیں، تو مَیں یہی سمجھتا کہ جنرل لوسائی کا ہم شکل کوئی اور آدمی ہے جو اُس کی نشست پر بیٹھا کام کر رہا ہے۔

’’خدا کی پناہ! جنرل ….. اب کیا حال ہے؟ تمہیں چند روز آرام کرنا چاہیے تھا۔ مَیں نے کہا۔

’’اُس نے نگاہ اُٹھا کر مجھے دیکھا، مسکرایا اور کمزور آواز میں بولا …..
’اب مَیں بہتر ہوں۔ معمولی زخم تھے، ٹھیک ہو گئے ہیں۔ کام زیادہ تھا۔ مَیں نے سوچا اِسے نمٹا ہی دوں۔‘ مَیں اُس کی فرض شناسی کا پہلے ہی قائل تھا، اب اور ہو گیا۔
معلوم ہوا کہ وہ مزید دو روز اُسی اسپتال میں دن رات بےہوش پڑا رَہا۔ ایک ثانیے کے لیے بھی اُسے ہوش نہ آیا۔ تیسرے دن خود بخود اُس نے آنکھیں کھول دیں اور ڈاکٹر کو بتایا کہ وہ اَب اپنی حالت خاصی اچھی محسوس کر رہا ہے، چنانچہ ڈاکٹر نے چند ضروری ہدایات کے بعد اُسے اسپتال سے رخصت کر دیا۔

’’دن گزرتے گئے جو تھوڑی بہت جسمانی کمزور خون بہ جانے سے ہو گئی تھی، وہ بھی دور ہو گئی، زخم بھر گئے اور جنرل کی گردن اور سر سے پٹیاں کھول دی گئیں۔
بظاہر جنرل لوسائی بالکل صحت مند تھا۔ وہ باقاعدگی سے دفتر آتا، مقررہ اَوقات میں دلچسپی اور تن دہی سے اپنے سرکاری فرائض سرانجام دیتا اور گھر چلا جاتا۔‘‘

گورمین نے نیا سگار سلگایا، چند لمحے چھت کی طرف گھورتا رہا، پھر دوبارہ بیان شروع کر دیا۔

’’ہم سب سمجھ رہے تھے کہ جنرل اب ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن ابھی اُس حادثے کو تین ہفتے ہی بیتے تھے کہ ایک روز جنرل کے کمرے سے چیخوں کی آوازیں سنائی دیں۔
وہ چیخیں اتنی بھیانک تھیں کہ دفتر کے سبھی ملازم لرز گئے۔ بھاگم بھاگ جنرل کے کمرے میں پہنچے، تو ایک عجب تماشا نظر آیا۔ بےچارہ جنرل دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے، کٹے ہوئے بکرے کی مانند کمرے کے فرش پر پڑا تڑپ رہا تھا۔
اذیت کی شدت سے اُس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، آنکھیں حلقوں سے ابلی پڑ رہی تھیں اور ہونٹوں کے کناروں سے سفید سفید جھاگ ابھر رہا تھا۔
بڑی مشکل سے اتنا پتا چل سکا کہ بائیں آنکھ کے اوپر، کنپٹی کے آس پاس اتنا شدید درد ہو رہا ہے جو ناقابلِ برداشت ہے۔ دیکھتے دیکھتے جنرل بےہوش ہو گیا۔
جلدی سے سفارت خانے کے ڈاکٹر کو طلب کیا گیا۔
اُس نے جنرل کا بغور معائنہ کیا اور بتایا کہ بظاہر کوئی خرابی دکھائی نہیں دیتی، ممکن ہے اعصابی تکلیف ہو۔
بہرحال اُس نے ٹیکہ لگا دیا اور کوئی دوا بھی جنرل کے حلق میں ناک کے راستے نلکی ڈال کر ٹپکائی۔
اُس کا جبڑا تکلیف کی وجہ سے پھر بھینچ گیا اور کوشش کے باوجود کھولا نہ جا سکا۔

’’دو دِن، دو رَاتیں جنرل بےہوش پڑا رَہا۔ تیسرے روز اُسے خود بخود ہوش آ گیا۔ اب اُسے کوئی تکلیف نہ تھی۔
بائیں کنپٹی کے پاس اٹھنے والا درد بھی غائب تھا۔ جنرل اپنے آپ کو پُرسکون محسوس کر رہا تھا۔
اُس نے بعد میں بتایا کہ بیٹھے بیٹھے ایک دم دَرد اُٹھا اور ناقابلِ برداشت ہو گیا۔
ایسا لگتا تھا جیسے کوئی نادیدہ قوت اُس کی رگوں اور شریانوں کو تیزدھار نشتر سے کاٹتی چلی جا رہی ہے۔

’’ایک ہفتہ گزر گیا۔ جنرل ٹھیک ٹھاک اپنی ڈیوٹی پر آتا اور کام کرتا رہا۔ دسویں روز پھر اُس کے چیخنے کی آوازیں سفارت خانے کی عمارت میں گونجنے لگیں۔
ایک بار پھر ہم سب نے وہی مہیب نظارہ دَیکھا۔ جنرل فرش پر پڑا بری طرح ڈکرا رَہا تھا، تڑپ رہا تھا، اِس مرتبہ اُس نے اپنا سرد یوار پر کئی بار دے مارا۔ آخر بےہوش ہو گیا۔
اُس کی یہ حالت دیکھ کر سراسیمگی پھیل گئی۔
فوراً ڈاکٹر دوڑا ہوا آیا، پھر وہی ٹیکہ اور وُہی علاج معالجہ …..
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جنرل کو ہوش میں لانے کی ہر ممکن تدبیر ناکارہ ہو جاتی تھی۔
بعض لوگوں نے دبی زبان سے جادو اَور ٹونے کا ذکر کیا۔ افریقا کے اُس علاقے میں ساحروں اور جادوگروں کی کمی نہ تھی جو اَپنے حریفوں اور دُشمنوں کو سحر کے ذریعے بیمار ڈال دیتے یا ہلاک کر دیتے تھے، لیکن جنرل لوسائی کی کسی شخص سے ایسی دشمنی نہ تھی کہ اُسے جنرل کو ہلاک کرانے کے لیے جادوگروں کی خدمات حاصل کرنی پڑتیں۔
معاملہ روز بروز پُراسرار ہوتا جا رہا تھا اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

بہرحال شبہ مٹانے کے لیے ایک دو جادوگروں کو بھی طلب کیا گیا۔ اُنھوں نے طرح طرح کے شعبدے دکھائے اور بعد میں بتایا کہ جنرل پر کسی نے جادو نہیں کیا۔ یہ کوئی اور ہی مرض ہے۔
اُدھر اسپتال کے انگریز تجربےکار ڈاکٹروں کی بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ چکر کیا ہے۔ وہ لوگ اپنی سی کوشش کرتے تھے، لیکن خود اُنھیں اپنی ناکامی کا قدم قدم پر احساس ہو رہا تھا۔
جنرل کی جسمانی حالت روز بروز کمزور ہو رہی تھی۔ سر درد کے یہ ناقابلِ برداشت دورے مسلسل پڑنے لگے۔ آخر اُسے ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق مکان ہی میں پڑے رہنے پر مجبور کیا گیا۔
دفتر آتا، تو اُس کی چیخیں سن کر ہی دوسرے لوگ دہل جاتے اور کوئی شخص دلجمعی سے اپنا کام کرنے کے قابل نہ رہتا۔
ہم لوگ جو جنرل کے دوست تھے، اُس کی یہ ابتر حالت اور اَذیت دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتے، لیکن کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
ایسا معلوم ہوتا کہ جنرل کے دماغ کو اَندرونی طور پر کوئی صدمہ پہنچا تھا اور بےپناہ سر درد کی وجہ یہی تھی۔
ایک ڈاکٹر کی رائے تھی کہ دماغ کے بعض خلیے بےکار ہو چکے ہیں اور اُن کے اندر خون جم گیا ہے۔
کسی نامعلوم سبب سے اُس خون میں جراثیم پیدا ہو گئے ہیں۔
وہ جب وہ حرکت کرتے ہیں، تو جنرل تکلیف سے تڑپتا ہے۔ آخر بےہوش ہو جاتا ہے۔

’’مَیں روزانہ ہی جنرل کی عیادت کے لیے اُس کے مکان پر جاتا تھا اور یہ جان کر مجھے سخت صدمہ پہنچتا کہ میرا دوست جلد موت کے منہ میں جانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔
اُس کا وزن تیزی سے گھٹ رہا تھا جیسے کوئی اَن دیکھی طاقت اُس کا خون چوس رہی ہو۔
اب وہ ہڈیوں کا ایک بےحس وحرکت ڈھانچہ دکھائی دینے لگا۔ درد کی ناقابلِ برداشت اذیت سے نجات پانے کے لیے ڈاکٹروں نے اُسے مارفیا اور اُسی قبیل کی مسکن، نشہ آور اَور سُلا دینے والی دوائیں دینی شروع کر دی تھیں۔
بعد میں یہ طے پایا کہ اُسے کیپ ٹاؤن کے بڑے اسپتال میں منتقل کر دیا جائے۔‘‘

’’دماغی امراض کے اسپتال میں؟‘‘ مَیں نے دریافت کیا۔

سر گورمین نے نفی میں گردن ہلائی۔

’’نہیں! یہ آگے چل کر ہوا۔ فی الحال یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کیپ ٹاؤن کے اسپتال میں جنرل لوسائی کے دماغ کا آپریشن کیا جائے تاکہ مرض کی اصل نوعیت کا سراغ لگایا جا سکے۔
یہ بڑا نازک اور خطرناک آپریشن تھا جس کے لیے ایک بےحد تجربےکار اَور خاص سرجن کو مقرر کیا گیا۔
اسپتال میں چند روز تک جنرل پر مختلف قسم کے تجربے کیے جاتے رہے جو اَیسے آپریشنوں کے لیے ضروری ہوا کرتے ہیں۔ بعض نئی دوائیں بھی استعمال کرائی گئیں۔
اِس امید میں کہ شاید درد جاتا رہے اور کھوپڑی کھولنے کی نوبت نہ آئے، لیکن ساری تدابیر بےکار ثابت ہوئیں۔
آخر آپریشن کا مرحلہ آ ہی گیا۔ اِس کے سوا ڈاکٹروں کے پاس چارہ بھی کیا تھا۔

’’مَیں نے خصوصی اجازت لی تاکہ آپریشن تھیڑ میں داخل ہو کر مشاہدہ کر سکوں۔ عام حالات میں کسی بھی غیرمتعلقہ شخص کو اَیسے نازک اور اَہم آپریشن کے وقت آپریشن تھیٹر میں گھسنے کی اجازت نہیں دی جاتی،
لیکن جنرل سے میرے خصوصی اور قریبی مراسم کی نوعیت ہی ایسی تھی کہ اُنھیں اجازت دینی ہی پڑی۔
تھیٹر کے ساتھ ہی شیشے کے ایک الگ چیمبر میں اُنھوں نے میرے لیے کرسی ڈال دی۔ وہاں بیٹھ کر مَیں سب کارروائی اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا۔ یہ کہنے میں مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ حد درجہ مضبوط اعصاب کے باوجود اُس روز میرے دل کی دھڑکنوں میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہو گیا تھا۔
مَیں بار بار اَپنی پیشانی سے پسینہ پونچھنے پر مجبور تھا۔ کچھ ایسا احساس ہو رہا تھا جیسے مَیں کوئی انوکھی بات معلوم کرنے والا ہوں۔

’’چند لمحوں میں میرے دوست کو پہیوں والی کرسی پر بٹھا کر آپریشن تھیٹر میں لایا گیا۔
خدا رحم کرے، اُس کی حالت میں کتنا عظیم تغیر رونما ہو گیا تھا۔
پہلی نظر میں مَیں اُسے پہچان نہ سکا کہ یہی وہ شخص ہے جو اَپنی صحت کے اعتبار سے پورے سفارت خانے میں ممتاز و نمایاں تھا۔
جس کے قہقہے رات کے سناٹوں میں دُور دُور تک سنے جاتے تھے۔
ایک قوی ہیکل، صحت مند اور مجسم زندگی سے بھرپور جنرل لوسائی کے بجائے اُس کرسی پر مَیں نے ایک مریل، بجھے ہوئے اور زندگی سے بیزار بڈھے کو دیکھا۔۔۔
جو تحیر آمیز نظروں سے اُس لمبی سی سفید میز پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا جس پر چند لمحے بعد لیٹ کر اُسے آپریشن کے کڑے مراحل سے گزرنا تھا۔
ایسا آپریشن جو اُسے نئی زندگی بھی بخش سکتا تھا اور موت کے اتھاہ اَندھیروں میں بھی دھکیلنے پر قادر تھا۔

’’ڈاکٹروں کی ہدایت پر ایک حجام نے اُس کا سر اچھی طرح مونڈ دیا تھا اور آپریشن تھیٹر کی تیز روشنیوں میں جنرل لوسائی کی کھوپڑی اُس انڈے کی مانند چمک رہی تھی جسے دھوپ میں رکھ دیا گیا ہو۔
جب اُسے کرسی سے اٹھا کر آپریشن کی میز پر لٹایا گیا اور سرجن نے کھوپڑی پر آنکھوں سے کوئی پانچ انچ اوپر کھوپڑی چیرنے کے لیے نشان لگا کر ایک چمک دار پتلی سی آری اٹھائی، تو دہشت سے کانپ کر مَیں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
مجھ میں وہ ہولناک خونیں منظر دیکھنے کی ہمت تھی نہ حوصلہ۔ اِس دوران میں ڈاکٹروں نے جنرل کو کلورو فارم سونگھا کر بےہوش کر دیا تھا۔
چند منٹ بعد مَیں نے انگلیوں کی جھری میں سے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ سرجن آپریشن شروع کر چکا ہے۔
جنرل کی کھوپڑی کا خون آلود اَور کٹا ہوا حصّہ مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔‘‘

سر گورمین نے دونوں ہاتھوں سے یکایک اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور سسکیاں لے لے کر رونے لگا۔ غالباً وہ منظر اُس کے ذہن میں اپنی تمام تر جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ تازہ ہو چکا تھا۔
مَیں دم بخود اَپنی نشست پر بیٹھا اُسے دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے کچھ کہنا چاہا مگر اُس کی حالت دیکھ کر کچھ کہنے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔
گورمین نے رومال سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ پانی کا گلاس حلق سے اتارا اَور ایک غم انگیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا:

’’معاف کیجیے! مَیں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ منظر مَیں مرتے دم تک فراموش نہ کر پاؤں گا۔
آپ میری جگہ ہوتے، تو شاید یہی کیفیت آپ کی ہوتی جو اِس وقت میری ہو رہی ہے۔ ہاں تو مَیں عرض کر رہا تھا کہ وہ ہیبت ناک آپریشن شروع ہوا اَور کامل ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
سرجن نے انگلی کے اشارے سے مجھے قریب بلایا۔ مَیں اپنے چیمبر سے نکل کر آپریشن ٹیبل کے پاس جا کھڑا ہوا۔
سرجن نے مجھے بتایا کہ جنرل کا دماغ بالکل صحیح حالت میں ہے اور کسی قسم کی خرابی کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ ہر چیز نارمل حالت میں ہے اور دماغ کو کسی نوع کا کوئی صدمہ بھی نہیں پہنچا ہے۔

’’سرجن ابھی مجھ سے دبے لہجے میں یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ آپریشن تھیٹر کی فضا میں ایک چیخ گونجی۔
وہ چیخ اُس نرس کے حلق سے برآمد ہوئی تھی جو آپریشن میں مدد دَینے کے لیے وہاں حاضر تھی۔ سب آنکھیں ایک دم اُس نرس پر مرکوز ہو گئیں جس کا رنگ دُھلے ہوئے کپڑے کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔
اُس کے ہونٹ کانپ رہے تھے، پھر اُس نے ہاتھ سے جنرل لوسائی کے خون سے لتھڑے ہوئے سر کی طرف اشارہ کر کے سحرزدہ لہجے میں کہا
’اُدھر ….. وہاں ….. مَیں نے کسی چیز کو حرکت کرتے دیکھا ہے ….. کوئی چیز تھی ….. زندہ …..‘

’’بجلی کی مانند سرجن، جنرل لوسائی کی طرف لپکا۔ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
پھر اُس نے ہاتھ بڑھایا اور کوئی چیز اٹھائی جو خون میں لتھڑی ہوئی تھی۔ مَیں نے حیرت اور خوف سے دیکھا۔ اُس کی انگلیوں میں کوئی جاندار دَبا ہوا تھا جس کی نصف انچ لمبی کئی ٹانگیں تھیں اور وُہ سب ٹانگیں تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔
مَیں نے آگے بڑھ کر غور سے دیکھا اور میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگے۔ خدا کی پناہ ….. وہ تو چھے ٹانگوں والی چھوٹی سی ایک مکڑی تھی۔
اُس کی ٹانگوں پر باریک باریک بال بھی تھے اور وُہ سرجن کی انگلیوں میں دبی ہوئی بری طرح ٹانگیں چلا رہی تھی۔‘‘

’’مکڑی؟‘‘ مَیں چلّا اٹھا۔ ’’جنرل لوسائی کی کھوپڑی میں مکڑی؟‘‘

’’ہاں!‘‘ سر گورمین نے اثبات میں گردن ہلا کر جواب دیا۔
’’قیاس کچھ ایسا تھا کہ جب کار کا حادثہ ہوا اَور مَیں جنرل لوسائی کو لے اُس افریقی گاؤں کے چھوٹے اسپتال میں چھوڑ کر آیا، تو وہ مکڑی بےہوش جنرل کے قریب آئی۔
اُس وقت یا تو وہ اُس بستر پر پہلے سے موجود ہو گی یا چھت پر سے گری ہو گی۔ بہرحال وہ کسی طرح جنرل کے چہرے پر رینگ گئی، پھر اُس نے جنرل کے نتھنوں کا رخ کیا۔
بایاں نتھنا اُسے گرم لگا اور وُہ اَندر چلی گئی۔
جنرل کو پتا بھی نہ چلا کہ ایک ننھا سا جاندار کیڑا اُس کی ناک کے راستے دماغ کی جانب بڑھ رہا ہے ….. وہ بےہوش پڑا تھا۔
بعد مَیں جب اُسے سر درد کے دورے پڑنے لگے، تو اُس کی وجہ بھی یہی منحوس مکڑی تھی جو اُس کا دماغ چاٹتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔‘‘

’’خدا کی پناہ!‘‘ مَیں نے دہشت سے تھرا کر کہا۔
’’واقعی یہ اذیت تو ناقابلِ برداشت ہو گی۔‘‘

’’بلاشبہ یہ جنرل کا حوصلہ تھا کہ برداشت کر گیا۔‘‘ سر گورمین نے کہا۔ ’’بہرحال مکڑی نکال لی گئی۔ آپریشن کامیاب رہا۔
چند روز جنرل لوسائی اسپتال میں رہا۔ اُس کا سر درد جاتا رہا تھا اور تیزی سے اُس کی گم شدہ صحت واپس آ رہی تھی۔ ہم سب خوش تھے۔ چند ماہ کے اندر اَندر وُہ پوری طرح ٹھیک ہو گیا۔
اگرچہ ابھی کسی قدر جسمانی نقاہت محسوس ہوتی تھی، لیکن وہ بضد تھا کہ اُسے دفتر جانے اور اَپنی مصروفیات میں ڈوب جانے کی اجازت دے دی جائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
جس روز وہ طویل غیرحاضری کے بعد دفتر آیا، تو پورے عملے نے خوشی کا اظہار کیا اور جنرل کو نئی زندگی پانے پر مبارک باد دِی۔‘‘

’’کیا اُسے بتا دیا گیا تھا کہ آپریشن کے بعد اُس کے دماغ میں سے زندہ مکڑی برآمد ہوئی ہے؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔

’’نہیں، نہیں! ڈاکٹروں نے سختی سے ہدایت کی تھی کہ جنرل کو یہ بات ہرگز معلوم نہ ہو، ورنہ اُس کے ذہن اور اَعصاب اِس خبر سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ بات اُسے بتانا مناسب نہ تھی۔
چنانچہ ایسا کوئی ذکر اُس کے سامنے نہ آیا۔ میرے اور دو تین ڈاکٹروں یا اُس نرس کے علاوہ مکڑی کا راز کسی اور کو معلوم بھی نہ تھا۔
بہرحال دن گزرنے لگے۔ جنرل روز بروز کھوئی ہوئی توانائی حاصل کرتا گیا۔

’’ایک دن جبکہ سفارت خانے کی عمارت میں سب لوگ خاموشی سے اپنے اپنے کام میں مصروف تھے، جنرل لوسائی کے کمرے سے ہولناک چیخوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔
پہلے تو سب کے سب سکتے میں آ گئے کہ شاید اُن کے کان بج رہے تھے، لیکن جب یہ آوازیں تیز ہو گئیں، تو اُٹھ کر جنرل کے کمرے کی طرف دوڑے۔ ایک بار پھر سب نے دیکھا کہ بدنصیب آدمی فرش پر پڑا تڑپ رہا ہے۔
وہی درد دوبارہ لَوٹ آیا تھا اور اِس مرتبہ پہلے سے بھی زیادہ تکلیف تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل کی بینائی اچانک غائب ہو گئی۔
اُس کے ہوش و حواس بالکل جواب دے گئے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ وہ قطعی پاگل ہو چکا تھا۔‘‘

’’اُف!‘‘ مَیں نے کہا۔
’’غالباً کوئی اور مکڑی اُس کے دماغ میں رہ گئی ہو گی۔‘‘

’’نہیں صاحب! کوئی اور مکڑی اُس کے دماغ میں نہ تھی۔‘‘

’’پھر خدا کے واسطے جلد بتائیے سر گورمین کہ آخر تھا کیا؟‘‘ مَیں نے مضطرب ہو کر پوچھا۔

اُس نے میرے سوال کو نظرانداز کر کے اپنی کہانی جاری رکھی۔

’’جیسا کہ مَیں نے کہا جنرل لوسائی پاگل ہو چکا تھا۔ ایک بار پھر اُسے اُسی اسپتال میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اُس کی کھوپڑی کا آپریشن کیا تھا۔ اتنی جلد دوسرا آپریشن کرنا ممکن نہ تھا۔
یوں بھی محض اِس شبے پر کہ کوئی اور مکڑی دماغ میں نہ ہو، آپریشن نہیں کیا جا سکتا تھا یا جب تک یقین نہ ہو جاتا۔
دوسری طرف لوسائی کو مکان میں قید رکھنا محال تھا، لہٰذا اُسے پاگل خانے میں داخل کرا دِیا گیا۔
پہلے پہل مَیں روزانہ ہی اُسے دیکھنے جاتا، مگر بعد میں جانا چھوڑ دیا۔
اُس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ دَیکھ ہی نہ سکتا تھا کہ اُس سے ملاقات کے لیے کون آیا ہے۔
دوسرے یہ کہ اُس کی دماغی حالت بےحد ابتر تھی۔ اگر وہ دَیکھنے کے قابل ہوتا، تب بھی کسی کو پہچان نہیں سکتا تھا۔
چند دنوں کے اندر اَندر وُہ بتاشے کی طرح گھل گیا اور اَیسا نظر آنے لگا کہ چند روز کا مہمان ہے۔

’’ایک دن وہ سرجن اُسے دیکھنے پاگل خانے گیا جس نے اُس کا پہلی بار آپریشن کیا تھا۔
وہاں اُس نے جنرل کا اچھی طرح معائنہ کرنے کے بعد یہ رائے ظاہر کی کہ مریض بلاشک و شبہ موت کی سرحد تک پہنچ چکا ہے ۔
اِس میں زندگی کے آثار مفقود ہوتے جا رہے ہیں،
تاہم تجربے کے لیے ایک اور آپریشن کرنا غیرمناسب نہ ہو گا۔
ممکن ہے قدرت مدد کرے۔ سب نے اُس رائے پر غور کیا اور فیصلہ ہوا کہ جنرل کا دوسرا دماغی آپریشن ہو جانا چاہیے۔
اِس مقصد کے لیے ایک تاریخ مقرر کر دی گئی اور اُس روز پھر جنرل لوسائی کو پہیوں والی کرسی پر بٹھا کر اُسی آپریشن تھیٹر میں لایا گیا۔ ایک بار پھر مَیں نے اپنے آپ کو اُسی چیمبر میں بیٹھے پایا۔

’’آپریشن کا نازک مرحلہ شروع ہوا۔ تھیٹر میں موت کی سی خاموشی طاری تھی۔
ڈاکٹر اور نرسیں یوں حرکت کر رہے تھے جیسے قبرستان میں سفید کفن لپیٹے ہوئے مردے چل پھر رہے ہوں۔
میرا دوست آپریشن ٹیبل پر بےہوش پڑا تھا۔
اُس کی کھوپڑی کھولی جا چکی تھی۔ دفعتاً مَیں نے چیخوں کی آوازیں سنیں۔
مَیں چیمبر سے نکلا اور آپریشن ٹیبل کے قریب آیا۔
سب ڈاکٹر پرے ہٹ کر کھڑے تھے اور دَبی دبی چیخیں اُنہی کے منہ سے نکل رہی تھیں۔
مَیں نے آگے جھک کر جنرل کی لہولہان کھوپڑی کو دیکھا اور مَیں بھی بری طرح چیخنے لگا۔‘‘

’’کیا دیکھا آپ نے سر گورمین؟‘‘ مَیں نے بےچَین ہو کر پوچھا۔

’’مت پوچھو کیا دیکھا۔ خدایا …..‘‘ وہ ہانپ کر بولا۔
’’کیا مرتے دم تک مَیں وہ خوفناک منظر بھول سکوں گا؟
نہیں، کبھی نہیں ….. جنرل لوسائی کے دماغ پر ننھی ننھی سی بےشمار مکڑیاں رینگ رہی تھیں …..
اُن کی جسامت چھوٹی سیاہ گھریلو چیونٹیوں کے برابر ہو گی ….. اُف کیسا مکروہ منظر تھا …..
ہم میں سے کسی کو جرأت نہ تھی کہ آگے بڑھے اور اُن منحوس کیڑوں کو وَہاں سے ہٹا دے …..
جنرل لوسائی بےہوش پڑا تھا …..
چند لمحے بعد پتا چلا کہ وہ مر چکا ہے۔‘‘

مَیں اور گورمین دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔ آخر مَیں نے جرأت کر کے پوچھ ہی لیا۔

’’سمجھ میں نہیں آیا کہ اتنی ساری مکڑیاں جنرل کی ناک میں سے ہو کر دماغ میں کیونکر پہنچ گئیں؟‘‘

’’یہ بات نہیں تھی۔‘‘ اُس نے آہستہ سے کہا۔
’’بلکہ یہ سارا فساد اُس پہلی مکڑی کا پھیلایا ہوا تھا۔
وہ مادہ تھی اور اُس نسل کی مکڑیوں میں سے تھی جو ہر تین ماہ بعد انڈے دیا کرتی ہیں۔
جن دنوں وہ جنرل کی ناک میں داخل ہوئی،
وہ اُس کے انڈے دینے کا زمانہ تھا، چنانچہ جنرل کے دماغ سے زیادہ بہتر اور محفوظ جگہ اُسے کوئی اور نہ ملی جہاں اُس کے انڈوں سے بچے بن گئے۔
اُنھیں حسبِ خواہش گرمی بھی نصیب ہو گئی جو زندہ رہنے کے لیے ضروری تھی …..
جب تک یہ بچے حرکت کرنے کے قابل نہ تھے، جنرل ٹھیک ٹھاک رہا، لیکن جونہی اُن کی ٹانگوں میں حرکت پیدا ہوئی، سر درد لَوٹ آیا …..
اور چونکہ یہ تمام مکڑیاں آنکھوں کے علاقے میں گھوم رہی تھیں، اِس لیے جنرل کی بینائی جاتی رہی۔‘‘

اگلے روز مَیں سینٹ جان کے قبرستان میں جنرل لوسائی کی قبر پر کھڑا تھا۔ مَیں نے تصوّر کی آنکھوں سے جنرل کی مسخ شدہ لاش تابوت کے اندر پڑی دیکھی۔
اِس خیال سے میرا جسم کانپ اٹھا کہ مرنے والے نے کیسے بھیانک اور تکلیف دہ تجربے سے گزر کر موت کا ذائقہ چکھا۔
یکایک مَیں نے پتلون کے اندر پنڈلی کے آس پاس ایک چُبھن اور سرسراہٹ سی محسوس کی جیسے کوئی کیڑا رِینگ رہا ہو۔
پتلون کا پانچہ الٹ کر مَیں نے دیکھا اور ایک لمحے کے لیے مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔
یہ بھورے رنگ کی چھے ٹانگوں والی ایک ننھی سی مکڑی تھی جو قبر کی مٹی میں سے نکل کر نہ جانے کس وقت میری پتلون کے اندر دَاخل ہو گئی تھی۔
مَیں نے دیوانوں کی طرح اُسے یوں جھٹکا جیسے وہ مکڑی نہیں، کوئی زہریلا سانپ تھا۔
ننھی مکڑی مٹی پر گر کر ایک ثانیے کے لیے رکی، پھر تیزی سے چلتی ہوئی لمبی گھاس میں گم ہو گئی۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles