31 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

بے تعبیر خواب

 

 بے تعبیر خواب

صبا ایشل

 

رات کی سیاہ چادر پورے ماحول پر حاوی تھی۔عجب پراسرار سی خاموشی نے اس چھوٹےسے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ایسا سکوت طاری تھا کہ کوئی پلک بھی جھپکے تو آواز سنائی دے۔ بلب کی نارنجی روشنی میں سپاٹ زرد چہرے پہ جھریوں کے ہالے میں چمکتی دو سیاہ آنکھیں , ذرا سی آہٹ پر مچل کر دروازے کی سمت اٹھتیں, اور چند لمحوں بعد مایوس ہو کر واپس پلٹ آتیں۔ انتظار ہمیشہ عذاب ہوتا ہے پھر چاہیے وہ دوپل کا ہی ہو, اور کبھی تو دو پل کا انتظاربھی صدیاں معلوم ہوتا ہے۔ ۔ اس درمیانی عمر کے چہرے والی عورت کو جانے کس کا اس قدر بے چینی سے انتظار تھا۔ بے تاثر چہرے کے ساتھ وہ تھکے ہوئے انداز میں چارپائی سے اتری اور کسی خیال میں کھوئی ہوئی, اس چھوٹے سے کمرے سے باہر نکل آئی۔ فضا میں حبس کا راج تھا ,کمرے سے نکل کر وہ چھوٹے سے صحن میں چلی آئی لیکن سکون اب بھی نہ آیا تھا۔
اس گھر کا کل رقبہ ایک کمرے کی لمبائی چوڑائی جتنا تھا۔ ڈیڑھ دو مرلے کے رقبے کے ایک کونے میں اینٹوں کو کھڑا کرکے اوپر ٹین کی چادریں ڈال دی گئی تھی اور اس ٹین کے ڈربے سے باہر چند قدم کا صحن تھا جس کے ایک کونے میں بمشکل تین چار فٹ پر مشتمل غسل خانہ تھا۔ غسل خانہ کیا تھا رفع حاجت سے فارغ ہونے کے لیے پردے باندھ کر گویا عارضی انتظام کیا ہوا تھا۔ کھانا پکانے کا سب کام اس گھرکے واحد کمرے میں ہی سرانجام دیا جاتا۔ پرچھتی پر چند برتن دور دور رکھے نظر آتے اور دو تین ٹوٹی پھوٹی جستی پیٹیاں تھیں جن کو مخمل کی خزاں رسیدہ چادر سے ڈھکنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ کمرے میں تین چارپائیاں تھیں, جن میں سے دو اوپر تلے تھیں۔ ان کے اوپر تلے ہونے کا سبب یقینا جگہ کی قلت تھی۔ چارپائی کے نیچے ترتیب سے کئی مردانہ جوتے رکھے ہوئے تھے جو برانڈڈ نہ سہی لیکن اچھی کوالٹی کے ضرور تھے۔ ایک طرف دیوار پر چند جینز کی پینٹیں اور دو چار شوخ رنگ شرٹیں ٹنگی تھیں۔ شاید اس کمرے میں خاتون کے علاوہ باقی مکین مرد ہی تھے۔ خاتون نے بیرونی دروازے کی کنڈی کھول کر پٹ وا کردیئے۔ ہوا کا تیز لیکن بدبودار جھونکا جیسے دروازہ کھلنے کا ہی انتظار کررہا تھا۔ گردن باہر نکال کر خاتون نے گھپ اندھیرے میں روشنی کی جانے کون سی لکیر تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔ تلاش ناکام ہوئی تو اس نے ایک گہری سانس لے کر پھر سے دروازہ بھیڑا اور کنڈی چڑھا کر واپس اندر آگئی۔ چھت پر لگا پنکھا شدید گرمی اور حبس کے باوجود بند تھا۔ سابقہ طریقے پر بیٹھتے ہوئے اس نے اب کے چارپائی پر دھرا ہاتھ والا اٹھا کر جھلنا شروع کردیا تھا۔ یونہی کتنی دیر خیالوں سے نبرد آزمائی اور اندر باہر کے کئی چکر لگاتے لگاتے رات بیت گئی , پانی کی آواز نے صبح ہونے کا مژدہ سنایا, اس کا گھر گندے نالے کے عین اوپر تھا , جیسے جیسے لوگ اٹھتے جاتے , نالے کے بہتے پانی کی رفتار اور لوگوں کے گھروں سے پلاسٹک کے پائپوں سے نالے میں گرنے والے پانی کی آواز میں اضافہ ہوتا جاتا۔ مؤذن نے اذان دینا شروع کی تو وہ بھی خالق حقیقی کے حضور جھکنے کی تیاری کرنے اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ عین وہی وقت تھا جب بے صبری سے کسی نے دروازہ پیٹنا شروع کردیا۔ خاتون کا بے تاثر چہرہ اس دھڑ دھڑ پیٹے جانے والے دروازے کی آواز پر ایسا تاثر دے رہا تھا گویا کسی نے یکدم پرسکون نظر آنے والی دوا کھلادی ہو, اس نے دروازہ کھولنے کے لیے قدم آگے بڑھادیئے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
“یہ لے اماں! پورے پانچ سو روپے ہیں۔ ” چمکتے سیاہ بالوں میں ایک ہاتھ پھیرتے ہوئے نذیر نے جیب سے ہرا نوٹ نکال کر ماں کی طرف بڑھایا تو اس کی آنکھوں کی جوت مزید بڑھ گئی۔
“آج شام کو مرغی تل کر پکالینا۔ اور دیکھ ساری کبیر کو نہ کھلا دینا۔ میرا بہت دنوں سے تلا ہوا نمکین گوشت کھانے کا دل ہے۔یہ نہ ہانڈی خالی ہو اور مجھے آج بھی باہر ہی کھانا پڑے۔ ویسے بھی بندہ گھر کھائے بھی کیا؟ اس گھر میں مدتوں بعد کچھڑڈھنگ کا پکتا ہے ہاں تیری یہ پرانی صورت روز دکھائی دیتی ہے۔” نذیر نے نوٹ ماں کو پکڑا کر دروازہ کھولا اور اس کے بالکل ساتھ دیوار کے ساتھ کھڑی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ جیسا تم کما کر لاؤ گے ویسا ہی پکاسکتی ہوں۔ لیکن اسے اتنا کہنے کی اجازت کہاں تھی۔ اولاد پر اس کا اختیار تو اسی دن ختم ہوگیا تھا جس دن انہیں نوکری ملی تھی۔
“کل سے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ذرا ڈاکٹر کے پاس جانا تھا اور میری جوتی ٹوٹ گئی ہے یہ بھی ضروری ہے۔ پہلے ہی کئی دنوں سے تو نے خرچہ دینا بند کیا ہوا ہے۔ ” جوت دھیمی ہوتے ہوتے ختم ہوئی ۔ نحیف سی آواز میں وہ بولی تھی۔
“ارے تو میں تیرا اکلوتا بیٹا ہوں کیا؟ وہ کبیر کس مرض کی دوا ہے۔ میرا دھندا آج کل بالکل چوپٹ ہے ۔ میری آس پرنہ رہا کر۔ دوسرے بیٹے کا کوئی حق نہیں ہے کیا؟ خوامخواہ میں صبح صبح بکواس شروع کردی۔ دماغ ہی خراب کردیا۔ جی تو چاہتا ہے گھر ہی چھوڑ کر چلا جاؤں۔”
ماں کی منمناتی آواز پر بیٹے نے چلا کر ایسے جواب دیا کہ وہ بیچاری دھندلی ہوتی نگاہوں سے اس کے موٹر سائیکل کو دیکھتی رہ گئی۔
“ساڑھے تین سو کا گوشت اور گھی بھی ختم ہوگیا ہے ,ڈیڑھ سو میں کلو گھی ہی بمشکل آئے گا۔ ” سوچوں کے زاویوں میں الجھتے اس نے ایک نظر اپنی کسی بوسیدہ کوٹ سے بھی پرانی جوتی کو دیکھا جسے کئی بار سوئی سے سیا جاچکا تھا ,جو اتنی پرانی ہوگئی تھی کہ اس کا تلوا گھس گھس کر ختم ہونے کو تھا, انگوٹھے کے نیچے سے تو تلوا اڑ گیا تھا کھال زمین سے لگنے سے انگوٹھے میں جلن ہوتی تھی۔ بے بسی سے ہاتھ میں پکڑا واحد نوٹ دیکھتے ہوئے کر اس کے ہونٹوں پر زہر خند مسکراہٹ پھیل گئی۔
“ارے واہ! صبح صبح یہ کڑکڑاتا نوٹ۔ امیر ہوگئی ہے تُو تو۔ ” جینز کی چپکی ہوئی پتلون پر سفید اونچے کرتے کے بازو چڑھائے, لمبا چوڑا وجیہہ کبیر نک سک سے تیار ہو کر کمرے سے نکلا تھا۔
“نذیر دے گیا تھا گوشت پکانے کا کہہ گیا ہے۔ مجھ سے تو ہلنا مشکل ہے, جوڑ جوڑ ٹوٹ رہا ہے ,میرا بیٹا مجھے گوشت لے کر دے جانا۔ میں نے نذیر کو بتایا بھی کہ میری طبیعت خراب ہے,جانے کیوں سر چکرارہا ہے اور دل میں عجیب سی بے چینی ہورہی ہے ۔ جوتی بھی پہننے کے قابل نہیں رہی۔ نذیر کہہ رہا تھا کبیر سے اور پیسے لے لینا۔ پانچ سو روپے اور مل جاتے تو دوا اور جوتی دونوں ہی آجائیں۔” وہ حسب عادت دھیمے لہجے میں ڈرتے ڈرتے کہہ رہی تھی۔
“چلو جی ہوگئی شروع!! ہر وقت پیسا پیسا, درخت پر اگتا ہے کیا پیسا۔ پتا نہیں کیسی ماں ہے۔؟ پیسے سے شروع ہو کر پیسے پر ہی ختم ہوجاتی ہے۔ تجھے ہزار بار کہا ہے مجھ سے, پیسے کے سوا ہر بات کر لیا کر اور ایک تو ہے کہ تیرا یہ ورد بند ہی نہیں ہوتا۔وہ تیرا لاڈلا تجھے بھر دیتا ہے کبیر سے لے لینا اور تو اس کی باتوں میں آجاتی ہے۔کہاں سے لاؤں تیرے لیے قارون کا خزانہ؟”
پالش کی ہوئی نئی نکور جوتی سے زمین کو ٹھوکر مارتا وہ گھر سے باہر نکل گیا۔
“مولا جس حال میں تو رکھے۔ “وہ کافی دیر تک دیوار سے ٹیک لگائے پریشان بیٹھی رہی۔ شام ہونے کو تھی ,سر بھاری ہورہا تھا, آنکھوں کی نمی کو پیچھے واپس انڈیلتے ہوئے اس نے جوتی کو پیر میں اڑسا اور پیر گھسیٹتے ہوئے بیٹے کی خواہش پوری کرنے کے لیے گوشت خریدنے چل دی۔
*-*-*-*-*
“کیسا ہے جگر؟” وہ کاکے چائے والے کے کھوکھے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا جب اس جنید اسے دیکھ کر اسی طرف چلا آیا۔
“فٹ ہوں , تو سنا بڑے دنوں بعد نظر آیا۔ اتوار کو کبوتروں کی بڑی بازی تھی , تو وہاں بھی دکھائی نہیں دیا۔ ” کبیر نے سوال کیا۔
“کیا بتاؤں یار ! غم روزگار میں الجھا ہوا ہوں۔ اماں کی طبیعت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تو دوسری طرف بہنوئی نے بہن اور اس کے بچوں کو لڑائی کے بعد میکے بھیج دیا ہے۔ تو تو جانتا ہے میں گھر کا واحد کفیل ہوں ۔ ذمہ داریاں بڑھ گئیں ہیں ایسے میں فارغ اوقات والے شوق کون پورے کرسکتا ہے۔؟”
“کیا ہوا خالہ جان کو۔ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔اپنی بستی کے سڑک چھاپ ڈاکٹر تو بس لوٹنے کو بیٹھے ہیں اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلاجھجھک کہہ دینا۔ دوست دوست کے کام نہ آئے تو پھر دوستی کیسی۔” کبیر کے لہجے میں فکرمندی در آئی۔
“بس اسی لیے تیرے گھر آرہا تھا۔ تجھے چائے پیتا دیکھ یہیں آگیا۔ کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ اگر تیرے پاس دو چار ہزار ہوں تو مجھے دے دے , تنخواہ ملتے ہی لوٹا دوں گا.”
جنید جھجھکتے ہوئے بولا
“ارے تکلف کیسا۔ یہ رکھ پورے پانچ ہزار ہیں۔ تیری ماں اور میری ماں میں کیا فرق۔ لوٹانے کی فکر نہ کرنا۔یہ پیسے اب تیرے ہی ہیں۔”جیب سے گن کر پانچ ہرے نوٹ اس نے جنید کی طرف بڑھائے اور باقی واپس جیب میں رکھ لیے۔
“بہت بہت شکریہ”
“دیکھ پھر کردی نا غیروں والی بات۔ تو مجھ سے الگ نہیں ہے۔ میں تجھے سگا بھائی سمجھتا ہوں۔اور بھائیوں میں تیرا میرا اور تکلف کیسا۔ خالہ جان کو ڈاکٹر کے پاس لیجانا اور ان کو میرا سلام بھی کہنا۔” اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کبیر نے اسے اپنے ساتھ کا یقین دلایا۔ کھوکھے کے سامنے سے گوشت لینے کے لیے گذرتے ہوئے ,اڑے رنگ والی پرانی چادر لیے سیدھی سادھی عورت , بیٹے کی جیب سے نکلنے والے پیسوں اور بعد کے منظر کو دیکھ کر ششدر کھڑی تھی۔ جانے کیسے اگلے چند لمحوں کے بعد, اپنے بے جان وجود کو سنبھالتی ہوئی, وہ بھاری قدموں کو پوری طاقت لگا کر آگے گھسیٹنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ بوڑھی ہڈیوں میں شاید ابھی جوان اولاد کے ستم مزید سہنے کا دم خم باقی تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*
خالد حسین روزگار کے سلسلے میں دوسرے شہر آیا تو پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اندرون شہر میں کپڑے کی فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ چند سالوں بعد گاؤں گیا تو ماں باپ نے شادی کرکے بیوی ہمراہ کردی, اور اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئے۔ نصیبہ بانو ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اس کی قسمت کہ دونوں ہی یکے بعد دیگرے دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ اس وقت وہ کم عمر تھی, جب تک والدین حیات رہے ماں باپ اور رشتے داروں کی آنکھ کا تارا تھی۔ ان کے گذرتے ہی سب کو کھٹکنے لگی۔ زندگی کے کئی سال دوسروں کی باتیں سہتے گذار دیئے۔ پھر خالد حسین سے شادی ہوئی اور دوسرے شہر آگئیں۔
مزاجا سلجھی اور دراز قامت و خوبصورت نقوش والی نصیبہ جلد ہی خالد حسین کی رگ رگ میں بس گئیں۔ بیوی آئی تو خالد کو اپنے گھر کی فکر ستانے لگی۔ بھلے وقت تھے۔ زمین سستی تھی۔ جوڑ توڑ کر کے سستے داموں چھوٹے سے محلے کے گندے نالے کے ساتھ دو مرلے کا پلاٹ لیا۔ اور چند ایک ماہ میں اینٹیں کھڑی کرکے گذارے لائق تیار کیا ۔کرائے کا گھر چھوڑ کر اپنی چھت تلے زندگی بسر کرنے لگے۔ ارادہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس چھوٹے سے گھر کو صاف ستھرا اور خوبصورت بنالیں گے۔ اسی دوران ان کے ہاں دو جڑواں بیٹوں کی پیدائش ہوئیں۔ دونوں خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ان کی عام سی زندگی میں خوشیوں کے ہزاروں رنگ بھرے تھے۔ان کے لب ہر پل شکر الہی بجا لاتے۔ پھر وہ حادثہ ہوا جس نے نصیبہ بانو سے اس کا نصیب چھین لیا۔ خالد حسین ایک دن نوکری پر گیا تو لیکن واپس چار کندھوں پر آیا تھا۔ نصیبہ کی دنیا اجڑ گئی۔ وہ تو جیسے سدھ بدھ ہی کھو بیٹھی۔ بچے الگ ہلکان پھرتے۔ جینے کا مقصد ہی فوت ہوگیا تھا۔ آنسو خشک تھے اور دل ساکت۔ ایسے میں ایک دن بچوں کے چاچا ان سب کو لے جانے آگئے۔ نصیبہ جیسے خواب سے جاگی۔ ماں باپ کے بعد رشتے داروں کا اس کے ساتھ جو سلوک رہا تھا ,وہ نگاہوں کے سامنے چلنے لگا۔ اپنے بچوں کے ساتھ وہ بھلا ناانصافی کیسے ہونے دیتی۔ نصیبہ اس دن ایسا چیخی . چلائی اور اتنا بولی کہ سننے والوں کو لگتا تھا کہ الفاظ اور آواز ختم ہوجانے کو ہیں۔
“میری زندگی میں میرے بچے کسی کے در پر نہیں پل سکتے۔ میں خود مرد بن کر ان کو پالوں گی, لیکن کسی کا احسان نہیں لوں گی۔ ” نصیبہ کا فیصلہ حتمی تھا۔جسے کوئی شخص بدل نہ سکا اور کوئی دلیل قائل نہ کرسکی تھی۔ آنے والے جہاں سے آئے تھے وہیں واپس لوٹ گئے۔ ارد گرد کے لوگوں میں جان پہچان ہوگئی تھی۔ نصیبہ نے اپنا اور بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ہر وہ کام کیا جو وہ کرسکتی تھی۔
سلائی, کڑھائی , بنائی , بستی کی شادیوں میں برتن دھونے اور صفائی کرنے کے کام وہی کرتی۔ پاپڑ تل کر دروازے کے سامنے بیٹھ کر بیچتی ,اور ساتھ ساتھ کڑھائی بھی کرتی جاتی۔ بچوں کو ایک متوسط اسکول میں لگادیا تھا۔ قول کی پکی تھی, محنت اتنی کی کہ تھک مر گئی لیکن کبھی کسی سے مدد کے نام پر ایک آنا لینا گوارہ نہ کیا۔ اپنا رویہ اس حد تک بدل لیا کہ کوئی مرد کسی ضروری کام سے بھی مخاطب ہونا چاہتا تو سو بار سوچتا۔ مردوں کے معاشرے میں ایک عورت مردوں سے بڑھ کر کوشش کررہی تھی۔ ایک بات تھی وہ جتنا کماتی تھی اس سے بمشکل دو وقت کی روٹی پوری ہوتی یا نذیر کبیر کے اسکول کے اخراجات نکلتے۔
جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے گئے فیسیں اور اخراجات بڑھتے چلے گئے۔پھر وہ دن آیا جب اس کے دونوں بیٹوں نے میٹرک امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا۔ نصیبہ نے نتیجہ دیکھ کر سکون کا سانس لیا۔ برسوں کی محنت کا ثمر مل گیا تھا۔ اب اس کے بیٹے کمانے کے قابل تھے, وہ آرام کرسکتی تھی۔ زندگی کی آزمائشیں اسے ختم ہوتی دکھائی دینے لگی۔کسی جاننے والے کے توسط سے نذیر کو کسی مل میں ٹھیکا مل گیا۔ تو کبیر کسی اونچی دکان پر منشی لگ گیا تھا۔ نصیبہ کی تو گویا لاٹری نکل آئی تھی۔
“کمیٹی ڈال کر اس دو مرلہ گھر کا نقشہ بدل دینا ہے۔ سب سے پہلے کمرہ پلستر کرنا ہے, پھر غسل خانہ بنوانا ہے۔ باورچی خانہ تو اوپر بنالینا۔ پرچھتی کا اب رواج نہیں رہا یہ تڑوا کر دیوار کے ساتھ لکڑی کے دراز بنوالیں گے۔ کافی چیزیں اس میں سماسکیں گی۔ تمہارے ابا کا خواب اب ہم مل کر پورا کریں گے۔ ” نصیبہ بیگم ہر شب اپنے چھوٹے چھوٹے لیکن خوبصورت خواب بیٹوں کے پاس بیٹھ کر بنتیں۔ اس بنت کے دوران ان کی آنکھوں کی چمک نگاہوں کو خیرہ کرتی معلوم ہوتیں۔ نوکری کا پہلا ماہ مکمل ہوا بیٹے لدے ہوئے گھر پہنچے تھے۔ برانڈڈ جینز کی پینٹیں, نئی نکور شرٹیں, بند جوتے ,گھڑی, شیمپو , پرفیوم . مہنگا منہ دھونے کا ٹیوب والا صابن ,منہ کی کریم الگ تھی تو بالوں پر لگانے کی الگ۔۔سب کچھ تھا اگر کچھ نہیں تھا تو اس سب میں ماں کا حصہ۔ ۔ ماں حیرانی سے دیکھتی رہ گئی۔
“سو بندوں میں باہر نکلنا ہوتا ہے۔ صاف ستھرا رہنا اور اچھے کپڑے پہننا ضروری ہے۔ ورنہ لوگ غریب سمجھ کر منہ نہیں لگاتے۔” تنخواہ خرچ کرنے کی وجہ بتا کر نصیبہ جیسی سیدھی سادی کو مطمئن کرنا کون سا مشکل تھا۔ چند ہزار روپوں کے ساتھ تنگی سے مہینہ کٹا۔اور پھر اگلا ماہ آگیا جس کا آغاز پچھلے ماہ سے الگ نہ تھا۔دونوں ہی بیٹے اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کے لیے جانے کب سے مچل رہے تھے۔ پیسا ہاتھ آیا تو اس ماں سے بھی غافل ہوگئے جس نے اپنی جوانی کی زندگی ان کے لیے تیاگ دی تھی۔وقت یونہی گذرتا رہا , نذیر اور کبیر نے اپنی اپنی علیحدہ موٹر سائیکل بھی خرید لی تھی۔چند فٹ کے صحن میں دو موٹر سائیکلیں کھڑی ہوتیں تو چلنے کو راہ بھی نہ ملتا تھا۔ نصیبہ نے پھر سے محنت کرنا شروع کردی تھی۔ لیکن اب کی بار حوصلہ و ہمت مفقود تھی۔آنکھوں کی روشنی کم ہوگئی۔ کمر میں مسلسل درد رہنے کی وجہ سے زیادہ بیٹھنا ممکن نہ ہوتا۔ ہاتھ پیر اور بدن کا ایک ایک جوڑ درد کی شدت سے چلاتا تھا۔لوگ الگ سوال اٹھاتے کہ دو دو کماؤ بیٹوں کے ہوتے لوگوں کا کام کرنے کی کیا ضرورت ؟ وہ ہنس کر ٹال دیتی۔ کچھ عرصہ تو یونہی رہا, لیکن آخر لوگوں کے سوال اعتراضات میں بدلنے لگے۔ بیٹوں کا بھرم قائم رکھنے کو نصیبہ نے ہونٹ سی لیے اور خاموشی سے گھر میں رہنے لگی۔ اب کبھی کوئی کسی کام کا کہتا تو وہ فورا منع کردیتی۔ کسی کے آگے عمر بھر ہاتھ نہ پھیلایا تھا۔جب تک جان تھی پیٹ بھرکھاتی اور بیٹوں کو کھلاتی تھی۔ اولاد کی محتاج ہوئی تو فاقوں کی نوبت آگئی۔ گھر کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی لیکن نذیر اور کبیر کی حالت سنورتی رہی۔ باہر نکلتے تو خوشبوؤں میں نہائے اور بہترین لباس پہنا ہوتا۔ پہلے رات کو دیر سے گھر آنے لگے, پھر ساری ساری رات ہی گھر سے غائب رہتے۔ من ہوتا تو گھر میں کھانا کھالیتے ورنہ ہوٹلوں میں خود بھی کھاتے اور دوستوں کو بھی کھلاتے۔ ماں بیچاری شب بھر بیٹوں کے انتظار میں بے کل جاگتی رہتی۔ علی الصبح گھر آتے تو اس کی جان میں جان آتی۔ نیند پوری نہ ہوتی تو ہفتہ میں ایک دو دن تو لازمی نوکری سے چھٹی کے ہوتے۔
“خوش نصیب ہو بہن ! اللہ نے نیک اولاد دی ہے۔ طویل عرصہ مشقتیں اٹھائیں ان کا پھل مل رہا ہے۔ نیک و صالح اولاد ماشاءاللہ دن رات خوب کمارہی ہے۔اللہ نے چاہا تو جلد ہی اس دو مرلہ مکان کا نقشہ بدل جائے گا۔ میری مانو تو یہ جگہ بیچ کر کسی اچھی کالونی میں گھر لے لینا۔ نالے کے اوپر تو مکان کا خطرہ ہی ہے۔ سیلن سے دیواریں گل سڑ جاتی ہیں اور بارش زیادہ ہوجائے تو سارا گھر گندگی سے بھر جاتا ہے۔ ” محلے سے کوئی خاتون آکر اس کے بیٹوں کی تعریف کرتی تو نصیبہ خوامخواہ مسکرائے جاتی. کہتی بھی تو کیا۔قمیض اوپر کرنے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے۔ لوگ تو شاید یہی کہتے برسوں پہلے کیا گیا اس کا غلط فیصلہ آگے آرہا ہے۔ آنے والی چلی جاتی تو نصیبہ کی ادھڑیں خواب زدہ آنکھوں سے شفاف موتی نکلنے لگتے۔ کافی دیر ہلکان ہونے کے بعد وہ سر آسمان کی طرف اٹھا کر ٹھنڈی سانس لیتی اور زیر لب بڑبڑاتی۔
“مولا جس حال میں تو رکھے تیرا شکر ہے۔ بس کسی کے آگے پھیلانے کی نوبت آئے اس سے پہلے اپنے پاس بلالینا “

*-*-*-*-*-*-*
سورج کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔ گرمی اور حبس سے سب پریشان تھے ۔ چھوٹے سے گھر کی ہر دیوار تپتا تندور بنی ہوئی تھی۔
“پنکھا پھر بند کیا ہوا ہے۔ایک تو باہر سے جب گھر آؤ یہ منحوس بند ہی ملتا ہے” دونوں بھائی آگے پیچھے گھر میں داخل ہوئے۔نذیر نے پنکھے کا بٹن نیچے کیا۔گھرر گھرر کی آواز کے ساتھ پنکھا گھومنا شروع گیا تھا۔
“بیٹا ! آکر سانس تو لے لیا کرو۔آتے ہی اونچی آواز میں بات کرنا شروع کردی۔ تم جانتے تو ہو ,پچھلے ماہ پورے چار سو روپے بجلی کا بل آیا تھا جو اب تک بھرا نہیں جاسکا۔ اس بار جرمانہ بھی ساتھ لگ کر آئے گا تو کون جانے پورا ایک ہزار بل ہی آجائے۔ اسی لیے پنکھا بند کردیتی ہوں اور ہاتھ والا پنکھا جھلتی ہوں کہ ذرا بل کا سانس نکلے۔” کمر پر ہاتھ رکھ کر وہ چارپائی کے ایک طرف بیٹھ گئی۔
“خیر یہ تو تو بہت اچھا کرتی ہے۔ تیرے لیے پنکھے کی ہوا نقصان دہ بھی ہے۔بوڑھی ہڈیوں کے لیے پنکھے کی ہوا زہر ہے۔بعد میں ہوا سے ٹانگوں اور کمر کا درد ہوجاتا ہے۔ اور پھر تو ایک بار پھر ڈاکٹر کی فیس مانگنا شروع کردیتی ہے۔” کبیر نے ماں کی بات سن کر لقمہ دیا۔ نذیر البتہ موبائل فون کے ساتھ مصروف ہوگیا تھا۔ نصیبہ بانو نے بیٹے کی بات سن کر بہت مشکل سے اندر کے درد کو آنکھوں تک آتے سے روکا ہوا تھا۔
“چل اب کھانا تو لے آ شدید بھوک لگی ہے۔ آج تو ملازموں نے بھی دماغ کا دہی بنادیا۔ ” کبیر نے موبائل سے ایک پل کو نظر ہٹا کر ماں کو حکم دیا۔ اس نے شکایتی نگاہوں سے بیٹے کی طرف دیکھا جو ایک بار پھر موبائل پر مصروف ہوگیا تھا۔بیٹے کو شدید مصروف جان کر وہ دونوں ہاتھوں سے چارپائی کو مضبوطی سے پکڑ کر آہستہ سے اٹھی۔ اور کچھ منٹوں کے بعد چنگیر میں روٹیاں اور پلیٹ میں سالن لا کر بیٹوں کے سامنے رکھ دیا۔ دونوں نے جلدی جلدی کھانا شروع کردیا۔ نصیبہ حسرت سے اپنی سگی اولاد کی طرف دیکھ رہی تھی, جن کے منہ میں اس نے اپنے وجود کو ریزہ ریزہ کرکے دو دہائیوں تک نوالے ڈالے تھے وہ آج کھانے سے پہلے یہ بھی نہیں پوچھتے تھے کہ ماں کیا تونے کھانا کھالیا ہے؟ لبوں کو بھینچ کر اس نے اندر کی بھوک کو اندر ہی دفن کردیا۔
“نصیرہ بتارہی تھی جنید کی اماں بیمار ہے؟ جا کر پتا کر آنا تھا۔ میرے بازو اور کمر کا درد بڑھتا چلا جارہا ہے ورنہ میں چلی جاتی” آج پہلی بار اولاد سے بات کرتے وقت اسے نظریں جھکانی پڑی تھیں۔ کیونکہ اس نے آج پہلی بار ہی اولاد سے کوئی جھوٹ بولا تھا۔ آنکھوں دیکھی کو نصیرہ کا نام دے کر جانے وہ کیا جاننا چاہ رہی تھی۔
“ہاں آج ملا تھا بیچارہ۔ کافی پریشان تھا۔ اسے پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ میں نے تو کہہ دیا کہ میں تو خود آنے آنے سے تنگ آیا ہوا ہوں۔ اور تو فکر نہ کر, کل ہی جا کر پتا کر آؤں گا۔ ” ماں نے نگاہ جھکا کر بات کی تھی لیکن بیٹے نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا۔ نصیبہ نے خاموشی سے اثبات میں گردن ہلادی۔
“کیوں منع کردیا جنید کو ۔ بیچارہ بہت شریف اور اچھا لڑکا ہے۔اسے پیسے دے دینے تھے۔اگر تمہارے پاس نہیں تھے تو مجھے کہہ دیا ہوتا۔جانے بیچارے کو کتنی ضرورت تھی۔” نصیبہ برتن اٹھا کر باہر لے گئی تو کبیر نے نذیر کو ڈپٹا۔
“چپ پاگل! آرام سے بول۔ پانچ ہزار دیئے ہیں اس کو ۔ وہ تو اماں کے سامنے یونہی کہا۔ ایک اکیلی جان ہے کھانے والی۔اور گھر کے خرچے ہی نہیں پورے ہوتے۔ صبح شام پیسے مانگتی رہتی ہے۔ سچ مجھے تو اب اماں کی شکل سے بھی وحشت ہوتی ہے۔” نذیر نے نسبتا کم آواز میں بات کی تھی۔ اسی پل نصیبہ کمرے میں داخل ہوئی۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ کہیں ماں نے ان کی باتیں تو نہیں سن لیں .پھر ماں کا بے تاثر چہرہ دیکھ دونوں مطمئن ہوگئے۔ شب کے نو بجنے والے تھے ۔ دونوں بھائی خود کو سنوارنے میں مصروف ہوگئے اور نصیبہ خاموشی سے انہیں تیار ہوتے دیکھنے گی۔۔ کوئی پون گھنٹے بعد دونوں باہر نکل گئے , اب ظاہر ہے ان کی واپسی صبح ہی ممکن تھی۔ نصیبہ نے دروازہ بند کیا وضو کیا۔اور واپس آکر کمرے کا دروازہ بھی بند کیا, نماز پڑھی, دعا کے لیے ہاتھژاٹھائے۔ کچھ لمحوں بعد کمرے میں ہچکیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ اس کا خود پر اختیار ختم ہوگیا تھا, وہ ضبط کھو بیٹھی تھی۔ اسی لیے تو ایسا ٹوٹ کر روئی کہ زندگی میں شوہر سے جدائی کے سوا, بڑی سے بڑی آزمائش پر بھی ایسے نہ روئی تھی۔ جس اولاد کے جوان ہونے کے لیے ایک ایک پل گن گن کر کاٹا تھا, اسے اب اس کی شکل تک سے وحشت تھی۔
“الہی تیری گنہگار بندی ہوں۔ مولا تیرا شکر ہے تو جس حال میں رکھے۔ جیسی بھی ہوں , تیری ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ تو دیکھتا ہے نا اب نہیں سہا جاتا۔ ۔ ۔ ۔ بس کردے مولا! میں تیری بہت عام بندی ہوں, بہت ٹوٹ گئی ہوں ۔ بکھر گئی ہوں ۔ آج میرا کلیجہ پھٹا جارہا ہے۔۔ ۔ میرے اللہ اب بس ۔ ۔ آزمائش پر پورا اترنے کا حوصلہ اب میرے پاس نہیں ہے۔ جن کی خاطر ہر مشکل سے گذری آج وہی میرے نہیں۔ ۔ ۔ میں ختم ہوگئی۔۔ ۔ نصیبہ کا نصیب پر سے اعتبار اٹھ گیا۔میری پہچان میری نہ رہی۔۔ ۔ ۔ میری اولاد میری نہیں۔” ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ زیر لب اپنے خالق حقیقی سے مخاطب تھی۔ آج بیٹوں کی باتیں سن کر اس کا سارا وجود ایسے ریشہ ریشہ ہونے لگا تھا, جیسے شیشہ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو کر بکھر جاتا ہے۔ اور پھر ان ٹوٹی کرچیوں کو ناصرف جوڑنا ناممکن ہوتا ہے بلکہ انہیں اکھٹا رکھا بھی نہیں کیا جاسکتا۔
*-*-*-*-*-*-*-*

“خوش ہے نا اب تو۔ جو تو چاہتی تھی وہ ہو تو ہوگیا ہے۔ہر وقت گھر میں چک چک لگی رہتی تھی۔ یہ نہیں ہے وہ نہیں ہے۔ اب تو سب ہی ہوجائے گا۔ ” نذیر انتہائی تلخ انداز ماں سے ایسے بات کررہا تھا جیسے ماں اپنے شیر خوار بچے سے غصے میں بھی نہ کر سکتی تھی۔ “مائیں کبھی اولاد کا برا نہیں سوچتی ہیں۔ یہ تو اولاد ہے جو ماں باپ کی عمر بھر کی محنت کے صلے میں ان کے دامن میں بجھے کوئلوں کی راکھ رکھ دیتی ہے۔ جس میں نہ تو چنگاری جلتی ہے اور نہ ہی وہ کسی کام آتی ہے۔ بس ریزہ ریزہ ہو کر اڑتی چلی جاتی ہے۔ بالکل ایسے جیسے میری نافرمان اولاد نے مجھے تنکا تنکا کردیا ہے۔ اللہ گواہ ہے بدکلامی , بدمزاجی , جھوٹ سب کچھ سہا لیکن تمہارے لیے بددعا نہ کرسکی۔ ” نصیبہ کو آج جانے کیا ہوگیا تھا جو وہ دل کے اندر کی باتیں باہر نکال رہی تھی۔ پچھلے ہفتے نذیر کی فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی۔ آگ لگنے سے جہاں لاکھوں کروڑوں کے نقصان ہوئے تھے, وہیں فیکٹری مالکان نے خاکستر فیکٹری بیچنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ نئے مالک نے یہ اعلان کردیا کہ تمام پرانے ملازمین خود کو برطرف سمجھیں کیونکہ فیکٹری کی ضروری مرمت کے بعد نئے ملازمین کو نوکریاں دی جائیں گی۔ اس خبر کے بعد نذیر کا صدمے سے برا حال تھا۔ نئی نوکری کا ملنا اتنا بھی آسان نہ تھا۔ فضول خرچی کرتے وقت کب نذیر نے سوچا تھا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔
“بس کر اماں ! میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔ میرا اپنا جیب خرچ ہی روزانہ ہزار پندرہ سو ہے۔ کہیں اور نوکری مل بھی گئی تو پندرہ ہزار سے زیادہ تنخواہ نہیں ملے گی۔سمجھ نہیں آرہا میں کیسے گذارا کروں گا۔ ” پریشانی میں گھرا نذیر خود اپنے ہی راز افشاں کیے جارہا تھا۔ نصیبہ کا دل ڈوب گیا۔ اسے ہفتے بھر کے خرچ کی مد میں چند سو روپے دینے والے بیٹے کا ذاتی جیب خرچ ہر دن ہزار سے پندرہ سو روپے تھا۔ اس نے ایک نظر اپنے گھسے ہوئے لان کے سوٹ پر ڈالی۔ پچھلے تین سال سے اس نے کوئی نیا کپڑا نہیں سلوایا تھا۔ اور پچھلے ایک سال سے وہ ایک ہی جوتی پہن رہی تھی جو اب پہننے کے قابل بھی نہ رہی تھی۔ ماں کو پل پل طعنے دینے والا , اونچی آواز میں بات کرنے والا نافرمان بیٹا اب پریشان تھا۔۔ جیسا بھی تھا آخر وہ ماں تھی . اولاد کو دکھ میں کیسے برداشت کرتی۔۔ دل ہی دل میں بیٹے کی نئی اور اچھی نوکری کی دعا کرنے لگی۔ ۔ ۔
“اماں ! کچھ کھانے کو ہے تو جلدی لے آ۔ بڑی شدید بھوک لگی ہے۔” کبیر نے گھر میں داخل ہوتے ہی صدا دی۔ نذیر کافی دیر سوچوں کے گرداب میں الجھنے کے بعد اب سورہا تھا۔
“گھر میں رتی بھر آٹا نہیں۔ دالیں چاول .چینی ہر چیز ختم ہوگئی ہے۔ کھانا کہاں سے لاؤں۔ آج صبح میں نے خود رات کی بچی روٹی بھگو کر گرم کی,کچھ نرم ہوئی تو پیٹ کی آگ بجھائی۔ نذیر کی نوکری چھوٹ گئی ہے اب اللہ کے بعد تیرا ہی آسرا ہے۔ تھوڑا بہت راشن لادے۔ پیٹ تو روٹی مانگتا ہے نا۔ ” نصیبہ نرمی اور حلاوت سے بیٹے کو منانے کے جتن کررہی تھیں۔
“لے بھئی!میں تو ویسے ہی باہر کھانا کھالیتا ہوں۔ آج اگر گھرمیں پوچھ ہی لیا تو سب ٹڈیاں چاٹ گئیں ہیں۔ شکریہ آج ویسے بھی 13 اگست کی رات ہے۔ میں دوستوں کے ساتھ باہر جارہا ہوں۔ اور یہ لے بس اگلے ہفتے تک یہی ہیں میرے پاس , حالات نے شہر بھر کے کاروبار پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اب بار بار پیسے مانگ کر میرا سر نہ کھانا۔ ” چار سرخ نوٹ جیب سے نکال کر اس نے نصیبہ کے آگے پھینکے اور انہی پیروں پر باہر نکل گیا۔ بے وقعتی اور بے بسی کے احساس نے نصیبہ کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لیا . احساس حد سے سوا ہوا تو آنکھوں سے موتی پھسل پھسل کر باہر گرتے چلے گئے۔
“بہت بھوک لگی ہے اماں۔ کچھ پکایا نہیں؟” وہ کافی دیر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہی تھی ,جب آنکھیں مسلتا نذیر باہر آیا تھا۔
“راشن بالکل ختم ہے اور کبیر یہ چار سو روپے دے گیا ہے۔ سمجھ نہیں آرہا آٹا ,دالیں, گھی , سبزی کیا لاؤں اور کیا چھوڑوں؟اس بھوک نے الگ ستایا ہوا ہے۔ اور ان پیسوں میں تو دس کلو آٹا بھی نہیں آنے والا ۔ ” اس نے پریشانی سے نذیر سے کہا۔
“لا یہ پیسے مجھے دے میں کھانے کا کچھ کرتا ہوں۔” نذیر نے دبے دبے جوش سے کہا۔ نصیبہ نے خاموشی سے پیسے اسے پکڑادیے۔ حلیہ ٹھیک کرکے وہ بھی اپنی موٹر ساثیکل کھینچ کر باہر نکل گیا ۔ نصیبہ نے گہرا سانس بھر کر ہمیشہ کی طرح زیر اب اللہ کا شکر ادا کیا , اور عشاء کی نماز کی تیاری کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ کچھ دن پہلے نذیر اور کبیر کی باتوں سے جو تکلیف ہوئی تھی , اس کی شدت میں اب کچھ کمی آگئی تھی۔
وضو کرکے اس نے نماز ادا کی۔ صدق دل سے اولاد کی ہدایت کے لیے بھی دعا کی۔ دس بجنے کو تھے , اسے بے چینی سے نذیر کا انتظار تھا۔ضعیف آنتیں قل ھواللہ کا ورد کررہی تھیں۔ صبح ایک ٹکڑا روٹی کا کھایا تھا۔آخر کب تک اسی پر گذارا ہوسکتا تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*
محلے بھر میں رونقیں نظر آرہی تھیں۔ تقریبا ہر مکان پر سبز ہلالی جھنڈا لہرارہا تھا۔ ہری اور سفید روشنیوں نے گلیوں میں چراغاں کیا ہوا تھا۔ ملی گانوں کی گونج جگہ جگہ سنائی پڑ رہی تھی۔
“اوئے فرید چل آ سی ویو پر چلیں۔ منچلے خوب موجیں منارہے ہیں آج , اور تو یہیں بیٹھا ہے۔؟ نکڑ پر محلے کے دوست فرید کو دیکھ کر نذیر جو پیدل موٹر سائیکل چلاتا جارہا تھا رک گیا اور اسے آواز دی۔ جب سے ہاتھ میں چار پیسے آئے تھے, دونوں بھائی ہر سال ایسے ہی جشن آزادی مناتے تھے۔
“یار جیب خالی ہے۔ آج موڈ بھی نہیں ہے۔” وہ کپڑوں سے مٹی جھاڑتا چلا آیا اور اپنا وہی پرانا جملہ دہرادیا جس کے بعد نذیر اسے کھانا اور رات بھر شہر کی سیریں مفت کروایا کرتا تھا۔
“پٹرول ڈلوانے کے پیسے تو ہیں میرے پاس۔ لیکن اس سے زیادہ آج میری جیب بھی خالی ہے۔” نذیر دلگرفتگی سے بولا۔
“چل پھر کسی دن چلیں گے۔ ابھی میں گھر جاتا ہوں۔” فرید ہاتھ لہراتا چلا گیا۔
“بے غیرت۔ ۔ سالے ۔ ۔ سب پیسے کے پجاری ہیں۔ جب تک میری جیب بھری تھی آگے پیچھے پھرتے تھے۔ اور آج چند دن کے لیے برا وقت کیا آیا, سب دور بھاگتے ہیں۔ چلو کوئی بات نہیں کبیر بھی تو وہیں ہی گیا ہوگا اس کے اور اس کے دوستوں ساتھ مل کر ہی ہلہ گلہ ہوجائے گا۔ اور واپسی پر بھی ہم ساتھ ہی آجائیں گے۔ ” نذیر بڑبڑاتا ہوا پٹرول پمپ تک آگیا۔ تین سو کا پٹرول ڈلوایا۔ ساتھ والے ہوٹل سے رات کے اس پہر پراٹھوں کی سوندھی خوشبو اسے بے قرار کر گئی, باقی بچے ایک سو روپے میں سے دو پراٹھے اور ایک کڑک چائے پی کر پیٹ بھرا ۔ موٹر سائیکل کا سائیلنسر پہلے ہی اتارا ہوا تھا۔ اب وہ ساحل کی منچلی ہواؤں اور رنگینیوں تک کا سفر کرنے کے لیے تازہ دم تھا۔وہاں چھوٹے سے گھر کے تپتے کمرے میں, بلب کی زرد روشنی میں ,ہاتھ سے پنکھا جھلتی اس کی ماں, بھوک سے بے حال اس کے واپس پہنچنے کی منتظر تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
رات قطرہ قطرہ پگھلتی بیتتی چلی جارہی تھی۔ کافی دیر تک تو وہ یہاں وہاں چکر کاٹتی رہی۔ ایک امید تھی کہ شاید آج اس کے بیٹوں میں سے کوئی ایک ہی جلد گھر آجائے کچھ دیر بعد نصیبہ کی حالت غیر ہونے لگی تو وہ چارپائی پر بیٹھ گئی۔ اس کا دل بری طرح گھبرارہا تھا۔ کمرے میں گھٹن اور حبس کا راج تھا۔اپنی ساری ہمت جمع کرکے وہ بمشکل اٹھی اور پنکھے کا بٹن نیچے کیا۔ اور
واپس آکر چارپائی پر بیٹھ گئی۔ سینے میں عجیب سی بے چینی تھی۔ وہ دایاں ہاتھ بار بار سینے پر مسلنے لگی , کوئی فرق نہ پڑا تو وہ ایک بار پھر بمشکل تمام اٹھی ,کونے میں رکھے گھڑے سے گلاس بھر کر پانی پیا, خالی پیٹ پانی سیدھا معدے سے جا کر لگا تھا۔ چند لمحوں کے لیے وہ درد سے بے حال ہوئی پھر آڑھے ٹیڑھے قدم لیتی کمرے سے باہر آ کر اس نے ایک نظر ارد گرد دوڑائی۔ سیاہ اندھیرا اسے اپنے آنکھوں کے سامنے چھاتا محسوس ہونے لگا۔ اس کے وجود میں جان ہی بھلا کتنی تھی۔ بظاہر ٹھیک ٹھاک لیکن اندر سے اس کے وجود کا ہر حصہ ریزہ ریزہ تھا۔دکھوں اور تکلیفوں نے اسے اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ ایسا خالی وجود کب تک بنا کھائے رہ پاتا, بھوک اور نقاہت نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اسی کشمکش میں موذن نے صبح ہونے کی نوید دے دی, اس نے گرتے سنبھلتے اٹھ کر وضو کرکے نماز پڑھی۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر وہ خاموشی سے گہری لکیروں کے جال والی ہتھیلیوں میں جانے کیا تلاش کرتی رہی۔ کتنی دیر تک وہ خالی الذہنی کے عالم میپ یونہی ایک ہی زاویے پر بیٹھی رہی۔ پھر تھک کر وہیں ڈھیر ہوگئی۔ وہ اتنا سہہ چکی تھی کہ اس کی سوچیں اور الفاظ دونوں ساتھ دینے سے انکاری تھے۔ دونوں بیٹے عموما علی الصبح گھر آ جاتے تھے, پر آج تو دن چڑھ آیا لیکن نذیر اور کبیر اب تک گھر نہ لوٹے تھے۔ بھوک سے بے حال نصیبہ اپنی حالت بھلا کر ایک بار پھر سنبھل کر بیٹھ گئی اور اس بار دونوں ہاتھ اٹھا کر بیٹوں کے خیریت سے گھر پہنچنے کی دعائیں کرنے لگی۔ نقاہت سے آنکھیں بند ہوئی جارہیں تھیں۔ اس کا دل کسی انہونی کے احساس کو محسوس کررہا تھا۔ دور سے آتی سائرن کی آواز قریب ہوتے ہوتے تیز ہوگئی تھی لیکن بیٹوں کے لیے دعا میں منہمک نصیبہ کو یہ آواز سنائی نہیں دی تھی۔
دروازے پر تیز دستک ہوئی تو اس کی جان میں جان آئی۔ زمین پر دونوں ہاتھوں کا زور ڈال کر وہ بدن کی ساری جان لگا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ نذیر کا خون میں لت پت اور پٹیوں میں جکڑا وجود اسے اندر سے ہلا گیا۔ اسے لگا آسمان اس کے سر پہ آن گرا ہے۔ناتواں بدن میں پہلے ہی کتنی جان باقی تھی رہی سہی کسر اب پوری ہوگئی تھی۔ اس کا سر چکرانے لگا۔ کائنات جیسے گھومنے لگی تھی, اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔ اس نے بھلا ایسا کب چاہا تھا۔اولاد چاہے ماں کو جیتے جی مار دے, ماں کو اولاد کی طرف سے ملنے والے ہر دکھ کا صدمہ ہوتا ہے, دل سے آہیں نکلتی ہیں, آنکھیں اولاد کی نافرمانی پر پل پل نم ہوتی ہیں.اندر کا آتش فشاں گرم سیال میں بدل کر کبھی من کے اندر اور کبھی آنکھوں سے باہر بہتا ہے لیکن اس سب کے باوجود ایک ماں اپنی اولاد کے لیے دل سے کبھی بددعا نہیں کرسکتی۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
“چل آنکھیں کھول بیٹا! یخنی میں روٹی بھگو لائی ہوں۔ تھوڑی سی کھالے۔ “نصیبہ نے گیلے کپڑے سے اس کا منہ صاف کیا۔ نذیر کی آنکھوں کی جنبش بتارہی تھی کہ وہ جاگ رہا ہے۔ لیکن اس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں۔ ”
“اماں یہاں رکھ دے میں خود کھالوں گا۔” آنکھ پر بازو رکھ کر نذیر نے ہولے سے کہا۔
“ایسے کیسے خود کھالوں گا۔ میں یہ پیالہ خالی کروائے بنا یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ جلدی سے آنکھیں کھول لے پھر مجھے غزالہ بی بی کے گھر جانا ہے۔ آج بی بی کی بیٹی کی شادی کی تاریخ پکی ہونی ہے۔ پتا نہیں وہاں کتنی دیر لگ جائے۔ کہہ رہی تھیں کہ چالیس کے قریب مہمان ہوں گے اور کام تو کوئی خاص نہیں۔ بس مہمانوں کے کھانے کا دھیان رکھنا ہے کہ ان کو تناول کرنے میں کوئی کسر نہ رہ جائے۔ تجھے کھانا نہ کھلایا تو میرا دھیان یہیں اٹکا رہے گا۔ آج کچھ پیسے مل جائیں گے تو کبیر سے کہوں گی کل ایک بار تجھے ڈاکٹر کے ہاں بھی دکھا لائے, تیرا چیک اپ کروائے ہوئے پورا ہفتہ گذرگیا ہے۔ چل اب آنکھیں کھول بھی لے مجھے دیر ہورہی ہے۔ ” نصیبہ بولتے بولتے کمرے کا پھیلاوا بھی سمیٹتی جارہی تھی ۔ نذیر نے کن انکھیوں سے ماں کی طرف دیکھا جس کا رخ دوسری طرف تھا,جلدی سے آنکھیں صاف کیں اور اٹھنے لگا۔اس کوشش میں اس کی کراہ نکل گئی۔ نصیبہ متوجہ ہوتی فورا اس کی طرف لپکی۔ دونوں ہاتھوں سے اسے سنبھال کر بٹھاتے اس کے پیچھے تکیہ رکھ کر ٹیک لگوائی اور پیالہ پکڑ کر اس کے قریب بیٹھ گئی۔ چمچ سے یخنی میں ڈوبی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کھلاتے ہوئے وہ بیٹے کی صحت کے لیے دل ہی دل میں دعاگو تھی۔
“تو نے کچھ کھایا؟ “نذیر نے تھوڑا سا کھا کر ہاتھ کے اشارے سے بس کا اشارہ کرکے ماں سے سوال کیا۔
“مجھے ابھی بھوک نہیں۔ ویسے بھی میں غزالہ بی بی کے ہاں جارہی ہوں وہاں کچھ کھالوں گی۔ ” نصیبہ نے نظریں چرائیں۔
“لا دے آج میں تجھے کھلاتا ہوں۔ ” نذیر نے ماں کے ہاتھ سے پیالہ پکڑ لیا۔
نصیبہ ششدر تھی۔ وہ شوربے میں ڈوبی روٹی نہیں امرت کے قطرے تھے جس کا ذرہ ذرہ اس کے دل کو تسکین فراہم کررہا تھا۔ اس کے نحیف وجود میں جوان زندگی کی رمق دوڑنے لگی۔ چہرے پر چھائی ساری کسلمندی اچانک غائب ہوگئی اور اس کی جگہ ہشاش بشاش قوس و قزح کے رنگوں نے لے لی تھی۔ اگر یہ خواب ہوتا تو پھر اس کی ضرور یہ خواہش ہوتی کہ وہ عمر بھر سوتی رہے۔ وہ ہر نوالہ کھا کر اگلے کے لیے ذرا سا آگے ہو کر منہ کھول دیتی اور نذیر اس کے منہ میں چمچ سے روٹی ڈال دیتا۔ زندگی میں پہلی بار اولاد کے ہاتھ سے کھانا کھارہی تھی۔ بیک وقت خوشی اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات اس کے چہرے سے جھلک رہے تھے۔
“اماں برتن خالی ہوگیا۔” نذیر نے اس کی حالت دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا تو نصیبہ گوبا خواب سے جاگی, پیچھے کو ہو کر خجل ہوتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“میں پوری کوشش کروں گی کہ جلدی آجاؤں۔ یہ پانی کا گلاس تیرے پاس ہی رکھا ہے۔ یہ گولیاں آدھے گھنٹے بعد کھانی ہیں۔صبح کبیر کو کہہ دیا تھا کہ مجھے جانا ہے تو شام کو جلدی آجانا وہ بس آتا ہی ہوگا۔ خود اٹھنے کی کوشش ہرگز نہ کرنا کہیں خود کو سنبھالا نہ گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔” اپنی گھسی ہوئی چادر اوڑھ کر اس نے ٹوٹی سیاہ چپل میں پیر اڑسے, نذیر کو ہدایات دیں اور پھر اس کا ماتھا چوم کر باہر نکل گئی۔
نذیر نے اتنی دیر سے جو بند باندھ رکھا تھا وہ ٹوٹ گیا تھا, آنکھوں سے آنسوؤں رواں تھے۔ اس دن ماں کے لیے کھانا لینے گیا تھا لیکن ان پیسوں سے خود کھانا کھا کر , موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوایا اور سی ویو کی جانب تیز رفتاری سے جارہا تھا کہ اچانک پیچھے سے کسی گاڑی کی ٹکر نے اسے ہوش و حواس سے بیگانہ کردیا۔ آنکھ کھلی تو وہ کسی سرکاری اسپتال میں تھا۔دائیں ٹانگ کی ہڈی دو جگہ سے ٹوٹ گئی تھی اور بائیں بازو میں بھی فریکچر تھا۔ چھوٹی موٹی چوٹیں اس کے علاوہ تھیں۔اس کے اعصاب اس اچانک حادثے پر شل تھے۔ وہ کچھ سوچنے کے قابل ہی نہ رہا تھا۔ بدن کا ریشہ ریشہ شدید درد سے دوچار تھا۔ کسی نے گھر والوں کا پوچھا تو اس نے کبیر کا نمبر دیا۔ ضروری طبی علاج معالجے کے بعد ڈاکٹر نے چھٹی دی تو کبیر اسے گھر لے آیا۔ نصیبہ تو جوان بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر ادھ موئی ہوگئی تھی۔ کبیر نے راستے میں ایمبولنس رکوا کر کچھ جوس وغیرہ لیے تھے , نذیر کو پلانے کی کوشش کی, عین اسی لمحے ماں کی طرف نظر اٹھی تو وہ کٹ کر رہ گیا, اسے یاد آیا کہ اس کی ماں کا معدہ کب سے خالی ہے, اس نے پہلے ماں کو پلانے کا کہا۔ نیم بیہوشی کی کیفیت میں کچھ پیٹ میں گیا تو نصیبہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی۔ کبیر اسے اور ایمبولنس کی آواز سن کر آس پڑوش سے آنے والے لوگوں کو واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کررہا تھا۔ سب افسوس کا اظہار کررہے تھے۔ نذیر بے بسی کی عملی تصویر بنا آنکھیں موندے کچھ سوچتا رہا۔ ۔ ۔
اس واقعے کو تقریبا پندرہ دن گذر گئے تھے۔ گذرے ہر دن میں نذیر ,چت لیٹا ماں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو یاد کرتا رہا تھا۔ وہ بستر سے آن لگا تھا تو کبیر کی جیب اسپتال کے بیرونی خرچوں اور اس کی دوائیوں کے چکر میں خالی ہوگئی تھی۔ مہینہ پورا ہونے میں ابھی پندرہ دن باقی تھے۔ کمزور و لاغر نصیبہ نے بیٹے کی خاطر ایک بار پھر سے محنت کرنا شروع کردی تھی۔ سارا دن پاپڑ بنا کر انہیں خشک کرکے تلتی۔انہیں شفاف مومی تھیلیوں میں پیک کرکے ان تھیلیوں کو موم بتی کی آگ سے بند کر کے پیک کرتی رہتی۔ اب باہر جا کر تپتی دھوپ میں بیٹھنے کا حوصلہ تو نہ تھا سو باہر کا دروازہ کھلا چھوڑ دیتی اور صحن میں بچھی واحد چارپائی پر پاپڑ بچھا کر ایک طرف خود بیٹھ جاتی۔ اس کے بنائے پاپڑوں کے ذائقے کا سارا محلہ معترف تھا سو بچے بڑے سب خرید کرکھاتے۔ ہر کچھ دیر بعد نصیبہ نذیر کو بھی دیکھتی رہتی ۔ اس کی صحت کا دھیان وہ بہت اچھی طرح رکھ رہی تھی۔ جوان بیٹا چارپائی پر لاچار پڑا تھا اس سے بڑا کیا دکھ ہوسکتا تھا وہ اپنے دکھ بھلائے اسے پیروں پر کھڑا کرنے کی تک و دو میں لگ گئی۔
کسی نے اپنے بیٹے کی شادی میں کام کاج میں ہاتھ بٹانے کا کہا تو اس نے بنا سوچے ہامی بھر لی۔ وہ چاہے اندر سے کتنی ہی کمزور تھی لیکن اپنا ہر کام ذمے داری سے کرتی تھی اسی لیے تو جلد ہی ایک بار اسے تقریبات پر کام کے لیے بلایا جانے لگا۔ جانے سے پہلے وہ نذیر کو حوائج ضروریہ سے فارغ کروا کر اسے کچھ کھلاتی , پھر ایک طویل ہدایت نامہ دے کر اس کی ضرورت کی چیزیں اس کے سرہانے رکھتی۔ اور جلدی واپس آنے کا کہہ کر جاتی۔
نذیر کو یہ سب اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔جس ماں کو آج تک اس نے منہ نہ لگایا تھا وہ آخر عمر میں اسی کے لیے دربدر دھکے کھارہی تھی۔ روز ہی یخنی ,سوپ اور پرہیزی کھانا جانے کیسے تیار کرلیتی تھی۔ پتا نہیں خود کچھ کھاتی تھی یا نہیں لیکن اس نے نذیر کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی, اس پر ستم یہ کہ اس کے ماتھے پہ شکن تک نہ آتی , نہ ہی کبھی اس نے بیٹے کو کوئی طعنہ دیا یا گلہ کیا۔ اپنی کوتاہیوں کا احساس اسے اندر ہی اندر کاٹ رہا تھا۔ وہ نادم تھا لیکن اتنی ہمت نہ تھی کہ اس ندامت کا اظہار کرپاتا۔
*-*-*-*-*-*-*-*
گرمی کی بڑھتی شدت میں کچھ کمی آئی تھی۔ شام کا وقت تھا۔ آگ کا دہکتا گولا سارا دن تپش برسا کر اس وقت کچھ ٹھنڈا ہوتا لیکن ایسے میں اس کا رنگ اور تیز ہوجاتا۔ نصیبہ پاپڑ بیل کر صحن میں کپڑا بچھا کر اس پر پھیلاتی جارہی تھی۔کل دھوپ میں چند گھنٹے سوکھنے کے بعد یہ پکنے کے لیے تیار ہوتے۔
“اماں جلدی سے اندر آ۔” کبیر کام سے واپس آیا تو دروازہ کھلا ہی تھا۔موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کرکے اس نے اس پر ٹنگے پلاسٹک کی بڑی تھیلیاں اتاریں اور کمرے میں جاتے ہوئے ماں کو آواز دی۔ نصیبہ بیلنا رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ کبیر زمین پر بیٹھا تھا۔ وہ بھی اس کے قریب بیٹھ گئی۔
“یہ تیری جوتی , یہ چادر اور یہ لان کے دو سوٹ ہیں۔” وہ تھیلیوں میں موجود چیزیں نکال رہا تھا۔
” اور ان سب کے بعد میری تنخواہ سے انیس ہزار پانچ سو روپے بچے ہیں۔ ڈھائی ہزار میں نے پٹرول کا خرچہ رکھ لیا ہے باقی سترہ ہزار یہ رہے۔ ” اس نے پیسے ماں کی طرف بڑھائے۔ وہ حیرانی اور نا سمجھ میں آنے والے انداز میں کبیر کو دیکھنے لگی۔یہ سب کیا تھا؟ آج سے پہلے ایسا کبھی ہوا ہوتا تو اسے ضرور سمجھ آتا۔ کبیر نے خشک آٹے سے لتھڑا ہاتھ پکڑ کر اس پر پیسے دھر دیئے۔ وہ گنگ تھی۔
“آج سے تجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں نے ایک دو جگہ بات کی ہے شاید اس سے اچھی نوکری مل جائے۔ میں جو کماؤں گا تیرے ہاتھ پر لا کر رکھ دوں گا۔ بس اب تو وعدہ کر کہ کسی کے گھر کام کے لیے نہیں جائے گی. نہ ہی یہ پاپڑ وغیرہ بیچے گی۔” کبیر نظریں چراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ جانتا جو تھا کہ اس نے ماں کو کتنے دکھ پہنچائے ہیں۔ نصیبہ اب بھی خاموش تھی, البتہ اس کی بوڑھی آنکھوں سے آنسو چہرے پہ بہہ نکلے تھے۔ کبیر نے ہاتھ بڑھا کر پونچھنا چاہے تو وہ تڑپ کر بیٹے کے کندھے سے آن لگی۔ دونوں ماں بیٹا شدت سے رو رہے تھے۔ آنسوؤں کے اس سیلاب میں ہر غلطی , ہر کوتاہی, ہر دکھ بہہ گیا تھا۔
“میں نہیں چاہتا کہ میں کسی ٹھوکر کے بعد سنبھلوں۔ میں نے تیرا بہت نقصان کیا ہے لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب میں اس کا مداوا بھی کروں گا۔ اور ذرا اسے ٹھیک ہونے دے پھر دیکھنا میں اس کی بھی کیسی خبر لیتا ہوں۔ تیرے دونوں بیٹے مل کر تیرے ہر دکھ کا مداوا کریں گے۔ “وہ ماں کو تھام کر نذیر کے پاس لے آیا تھا۔ جس کی آنکھوں سے بہتے اشک اس کی دلی جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔ نصیبہ نے آگے بڑھ کر نذیر کی پیشانی چومی۔ جس ماں کے دو فرمانبردار جوان بیٹے ہوں اسے بھلا کوئی دکھ کیونکر چھو سکتا تھا۔ حبس زدہ بے تعبیر خوابوں کو تعبیر ملنے کا آغاز ہورہا تھا ۔فخر و طمانیت کا احساس نصیبہ کی رگ رگ میں سرایت کرنے لگا اور وہ دل ہی دل میں اپنے مالک کے حضور شکر بجا لانے لگی۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles