32 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

بدنصیب

 

بد نصیب

محمد ہشام

گاڑی سے پشت ٹکائے وہ بہت دیر سے زمین کو گھور رہا تھا۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے اس کے احساسات مر چکے ہوں۔ اسے لگا شاید وہ شرمندگی اور بے بسی کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترتا جا رہا ہے۔ اس کے اندر سنّاٹا تھا اور وہ بھی ایسا کہ جیسے سینکڑوں لاؤڈ اسپیکر شور کرتے کرتے اچانک خاموش ہو گئے ہوں۔ جس جگہ وہ کھڑا تھا وہ ایک معروف سڑک تھی اور گاڑیوں کا بہت شور بھی تھا لیکن اس کے اندر بھیانک خاموشی تھی۔ اسے اپنے آس پاس تک کی خبر نہ تھی۔ وہ گاڑی سے پشت ٹکائے اردگرد سے بے نیاز بس زمین کو گھور رہا تھا۔
اس کے اندر ایک جنگ سی جاری تھی جس کا سپہ سالار اس کا اپنا ضمیر تھا اور مخالف وہ خود۔ اس کے دماغ میں ماضی کی فلم چل رہی تھی۔ وہ چھوٹا سا تھا تو اس کے والد اکرام اللہ گوندل نے اسے اسکول میں داخل کروانے سے پہلے مدرسے میں داخل کروا دیا۔ تاکہ بچہ دینی تعلیم کی سمجھ بوجھ حاصل کر سکے۔
وہاں سے اس نے ناظرہ کے ساتھ ساتھ اسلام کی ابتدائی باتیں اور روزمرّہ کی دعائیں اپنے ذہن میں محفوظ کیں اور اس کے بعد عصری تعلیم کا دور شروع ہوا۔ پڑھائی میں وہ تیز تھا اور دلچسپی بھی لیتا۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی۔
چوہدری اکرام اللہ کا کاروبار بہت اچھا چل رہا تھا۔ بینک بیلنس بھی سوا تھا۔ ان کے اکلوتے بیٹے جاذب کے لیے دو گاڑیاں ہمہ وقت تیار رہتیں۔ وہ اسکول جاتے وقت ٹوڈی میں جانے کی ضد کرتا اور کسی دوسری جگہ جانے کے لیے ریبورن پر جاتا۔
ہم عصروں میں اس کا لباس اور کھانا سب سے بہترین ہوتا۔ اس کی جیب میں خرچ کرنے کے لیے ہر وقت بہت سے پیسے ہوتے۔ وہ جس چیز کی طرف اشارہ کرتا چوہدری اکرام اللہ لمحوں میں وہ خرید لیتے۔ جاذب کے پاس مہنگے سے مہنگا کھلونا تھا۔ اس کے کزن اور اسکول کے ساتھی اس کی شاہانہ زندگی پر رشک کرتے تھے۔
وہ لائق اور ذہین تھا۔ آگے بڑھنا جانتا تھا، آگے بڑھتا رہا اور پڑھائی مکمل کرنے کے بعد باپ کا کاروبار سنبھالنے لگا۔ اس کے باپ نے اسے تمام داؤ پیچ سکھائے۔ مارکیٹ کا اُتار چڑھاؤ اور تیزی مندی کی کیفیات سے آگاہ کیا۔
زندگی گزارنے کا ڈھب اور اس کا پس منظر واضح کر دیا۔ وہ قسمت کا دھنی تھا۔ منزلوں پہ منزلیں طے کرتا ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا۔ شہر کے معززین اور کاروباری حلقوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ ملک کے چیدہ چیدہ لوگ اس کا دم بھرتے۔ ہزاروں ملازمین اس کی مختلف فیکٹریوں میں کام کرتے۔
اس کی شادی ایک پڑھی لکھی، مالدار اور جدت پسند خاندان میں ہوئی۔ شادی میں ملک کے نامور لوگ مدعو کیے گئے۔ دارالحکومت کے سب سے مہنگے ہوٹل میں ولیمے کی تقریب سجائی گئی۔ وہ جب اپنی بیوی کے ساتھ کسی تقریب میں جاتا تو لوگ دونوں کی جوڑی کو سراہتے اور تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ وہ خود تو مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا ہی لیکن اس کی بیوی بھی خوب صورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔
بہت جلد وہ اپنے ہم عصروں سے آگے نکل گیا۔ بزنس کی دنیا میں اس کا قد اتنا بڑھا کہ پرانے دوست اب اسے بونے لگتے۔ اسکول و کالج کے ساتھی اس کی کمپنی میں نوکری کے لیے آتے لیکن باوجود کوشش کے اس سے ملاقات نہ کر پاتے۔ اس کے پاس وقت ہی کہاں تھا…؟
ایک دن اس کا نہایت قریبی دوست عرشمان اس سے ملنے آیا۔ عرشمان اسکول سے کالج اور یونیورسٹی تک کا گہرا اور بہترین دوست تھا۔ ان دونوں کی دوستی مثالی رہی تھی لیکن جاذب اپنے بزنس میں اتنا اندر تک چلا گیا کہ عرشمان کی یاد ایک بھولی بسری کہانی کی مانند ہو گئی۔ اب دس برسوں بعد عرشمان کینیڈا سے اسے ملنے آیا تھا۔ کینیڈا جانے کے ایک ڈیڑھ سال تک دونوں کا رابطہ رہا۔ جاذب کی طرف سے لاپروائی برتنے کی وجہ سے عرشمان نے رابطہ کم کر دیا۔ آہستہ آہستہ ان کا آپس میں رابطہ بالکل ہی ختم ہو گیا۔
عرشمان جاذب کے دفتر کی انتظار گاہ میں بیٹھا بلاوے کا منتظر تھا۔ اسے یہاں بیٹھے پون گھنٹہ ہونے کو آیا تھا۔
’’سر! آپ اندر جا سکتے ہیں۔‘‘ ریسیپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے اس کی یادوں کا تسلسل توڑا۔ وہ چونکا اور جاذب کے کمرے کی طرف قدم بڑھا دیے۔ اس کا دل عجب انداز میں دھڑک رہا تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ پچھلے دس برسوں میں خیالات اور واقعات میں کتنا بدلاؤ آیا ہے۔ جانے وہ اور جاذب اب کس طرح ملیں گے؟ کیا کالج کی طرح بے تکلفی سے گلے لگ کرایک دوسرے کو خوب صلواتیں سنائیں گے یا مصنوعی رکھ رکھاؤ اپناتے ہوئے بس ہاتھ ملانے اور ایک دوسرے کی طرف روایتی مسکراہٹ اچھالنے پر ہی اکتفا کریں گے۔
انھی خدشات میں کھویا وہ دروازہ کھولنے لگا تو ہینڈل تک ہاتھ جانے سے پہلے ہی دوسری طرف سے کھل گیا۔ سامنے جاذب کھڑا مسکرا رہا تھا۔ دونوں بغلگیر ہوئے اور ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپانے لگے۔
’’ویسے کبھی سوچا نہیں تھا کہ تم مجھے یوں بھول جاؤ گے۔‘‘ عرشمان شکوہ کناں تھا۔
’’معاف کر دینا میرے یار!دراصل کاروبار میں ایسا پھنسا کہ وقت ہی نہیں مل پاتا۔‘‘
’’کبھی سگے رشتے داروں سے بھی ملتے ہو یا …؟‘‘
عرشمان آج سب حساب بے باق کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ جاذب نے ایک بار گہری نظر سے اسے دیکھا اور پھر ایک طویل سانس لے کر نظریں جھکا دیں۔ عرشمان پہلے تو خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر کچھ توقف کے بعد اس نے لب کشائی کی۔
’’میں کینیڈا میں اچھا خاصا کماتا ہوں۔ پاکستان کے بہت سے امیر خاندانوں سے زیادہ بینک بیلنس رکھتا ہوں لیکن میں رشتہ داروں اور یار دوستوں کو کبھی نہیں بھولا۔کامیابی کا مزہ ہی کیا جب ہمارے اپنے ساتھ نہ ہوں۔ میں روزانہ کسی نہ کسی کو فون کر کے حال احوال لازمی دریافت کرتا ہوں، چاہے کچھ منٹ ہی سہی، لیکن جاذب! تمہیں کیا ہوا؟‘‘
جاذب لاجواب خالی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اُس کے پاس عرشمان کے سوالوں کا جواب نہیں تھا۔
’’دیکھو جاذب! یہ بات یاد رکھو کہ ہمیں خاص طور پر اپنے ان رشتہ داروں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے جو ضرورت مند ہیں۔ یہاں پاکستان میں تمہیں پتا ہے لوگ کس طرح اپنا گزارہ کرتے ہیں؟‘‘
عرشمان ذرا آگے کو جھک گیا اور اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
’’یہاں کئی لوگوں کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے ڈھنگ کے کپڑے نہیں۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے انھیں سوکھے ٹکڑے حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف لگتا ہے۔‘‘
جاذب مستقل خاموش نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا یا شاید اب ایسا بن چکا تھا۔ اس کے پاس رشتہ داروں اور دوستوں کے لیے وقت نہیں تھا۔ زندگی کی دوڑ میں وہ کامیاب بزنس مین تو بن گیا تھا لیکن شاید ایک کامیاب اور کامل انسان نہیں بن پایا تھا۔ عرشمان تو چلا گیا لیکن وہ جاتے جاتے جاذب کے لیے لامتناہی سوچوں کا دَر وا کر گیا۔
اسی رات اس کی زندگی میں جیسے بھونچال آ گیا۔ اس کے باپ چوہدری اکرام اللہ کو دل کا دورہ پڑا۔ گھر والے اُسے مہنگے اسپتال لے کر بھاگے لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔ معززینِ شہر تعزیت کے لیے آتے اور رسمی و روایتی دکھ بھرے دو چار لفظ بول کر چلے جاتے۔
جاذب نے دیکھا کہ اس کے وہ رشتے دار، جو اس سے کم حیثیت کے تھے، جنہیں اُس نے ہمیشہ نظر انداز کیا، آج وہ سب اس کے بنگلے میں جمع تھے۔ تجہیز و تکفین کے انتظامات بھی وہ اپنی نگرانی میں دیکھ رہے تھے۔ اس کے چچا ابرار اور خالو شفقت حسین نے تمام معاملات سنبھال لیے۔ اس کے وہ کزن جنہیں آج سے پہلے وہ درخور اعتنا بھی نہ جانتا تھا، بھاگ بھاگ کر سارے کام نمٹا رہے تھے۔ دُورسے آنے والے مہمانوں کے رہنے کا انتظام، ان کا کھانا پینا وغیرہ سب انھوں نے بغیر کسی کے کہے یا لالچ کے، اپنے ذمے لے لیا تھا۔
٭٭٭
جنازے کا وقت مقرر ہوا۔ اس کا باپ جسے لوگ چوہدری اکرام اللہ گوندل کے نام سے جانتے تھے، لمحوں میں ایک میت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کا نام، شناخت سب پس پردہ جا چکی تھی۔ آخر کارغسل دے کر جنازہ اُٹھایا گیا اور سب جنازگاہ کی طرف روانہ ہوئے۔
مولوی صاحب آئے اور جنازے کا طریقہ مختصراً بیان کرنے کے بعدمیت کی طرف رُخ کر قبلہ رُو کھڑے ہو گئے۔ جاذب سب سے اگلی صف میں تھا۔ جنازے میں بہت زیادہ لوگ شامل ہوئے تھے۔ جاذب دل ہی دل میں اپنے والد کی قسمت پر رشک کر رہا تھا۔ اسے یاد آیا کہ جب وہ مسجد میں سپارہ پڑھنے جاتا تھا تو مولوی صاحب نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جنازے میں زیادہ لوگوں کا شامل ہونا مرنے والے کی خوش بختی ہے۔ وہ اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی بخشش اور مغفرت کے لیے ہاتھ اُٹھاتے ہیں۔
بلند آواز سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوئی اور وہ خیالوں سے واپس آیا مگر’ سبحانک‘ کے بعد وہ خالی ذہن اور بند زبان لیے ہکا بکا کھڑا تھا۔ یہ کیا…؟ اس کےدل و دماغ میںاندھیرا چھا گیا۔ وہ آنکھ بند کر کے یاد کرنے لگا لیکن…
اتنے میں دوسری ندا آئی… اللہ اکبر… درود شریف بھی جیسے تیسے پڑھ لیا گیا۔ ابھی وہ شش وپنج میں ہی تھا کہ پھر اللہ کی بڑائی و بزرگی کی ندا آئی…اللہ اکبر…
اس کا دماغ بھک سے اُڑ گیا۔ اسے تو نماز جنازہ کی ابتدا تک یاد نہ تھی۔
ایک بار پھر صدا بلند ہوئی… اللہ اکبر… اور سلام پھیر دیا گیا۔ وہ ابھی تک ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ کیا واقعی اس کا باپ خوش نصیب تھا یا…بدنصیب!
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles