6 C
Lahore
Wednesday, December 18, 2024

Book Store

نوجوت سنگھ سدھو

جینا جہانگیر

پچپن سالہ نوجوت سنگھ سدھو ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں بھارت کے شہر پٹیالہ میں جٹ سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد سردار بھگونت سنگھ بھی کرکٹر تھے۔
ان کا خواب تھا کہ ان کا یہ لاڈلا سب سے چھوٹا بیٹا نوجوت سنگھ سدھو بھی نامور کرکٹر بن کر نام روشن کرے۔
ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر پٹیالہ میں حاصل کرنے کے بعد سدھو مزید تعلیم کے لیے ممبئی چلے گئے۔
بچپن میں وہ بہت ضدی اور نخریلی طبیعت کے مالک تھے۔
شاید وہی ضد آج بھی ان میں موجود ہے،
اسی وجہ سے وہ جو کرنے کی ٹھان لیں پھر اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔

کرکٹ کی شروعات
دنیائے کرکٹ میں نامور کھلاڑی کا اعزاز رکھنے والے سدھو اپنی قہقہہ بار شخصیت اور ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے مشہور ہیں۔
انھوں نے اپنا پہلا میچ ۱۹۸۱ء میں کھیلا جس میں وہ ۵۱ رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے۔
۱۹۸۳ء میں انھوں نے باقاعدہ انٹرنیشنل کرکٹ میں قدم رکھا۔
۱۹۸۷ء کے ورلڈ کپ کی پانچ اننگز میں چار آدھی سنچریوں نے انھیں بےحد مقبولیت بخشی۔
اکیاون ٹیسٹ میچ اور ۱۳۶ ایک روزہ کرکٹ کھیل کر سدھو نے کرکٹ کی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان قائم کی۔
کمنٹری کی دنیا میں قدم
سدھو نے ۲۰۰۱ء کرکٹ کمینٹری کی دنیا میں اس وقت قدم رکھا جب انڈیا اور سری لنکا کا میچ تھا۔
بہت جلد اپنے انداز، ون لائنر یعنی شروعاتی جملے اور لب و لہجے کی وجہ سے مستقل بنیادوں پر اس شعبے میں اپنے پاؤں مضبوط کر لیے۔ ان کے ون لائینر کو سدھوازم کا نام دیا گیا۔
یہ میچ سونی میکس کمپنی سے نشر ہوتا تھا۔
اس  نے سدھوازم ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی شروع کی۔
اس پر ان کے جملے ’’سدھو ازم آف دی ڈے‘‘ کے نام سے پوسٹ کیے جاتے۔
دورانِ کمنٹری ہنسنا اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کو ایک الگ ہی نظر سے دیکھتے ہوئے مزاحیہ جملے بولنا، حوصلہ افزائی کرنا اور کسی امتیازی فرق کے بغیر ہر کھلاڑی کو جانچنا ان کی خاصیت رہی ہے۔
سدھو، ایک کامیاب سیاستدان
نوجوت سنگھ سدھو کا ایک اور نیا روپ دنیا نے تب دیکھا ، جب ۲۰۰۴ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی ٹکٹ پر امرتسر سے الیکشن میں حصہ لے کر بھاری اکثریت سے جیت اپنے نام کی۔
اب وہ کرکٹر کے ساتھ ساتھ میدانِ سیاست میں بھی عوام کو اپنا گرویدہ بنانے لگے۔
اتنا سب کر لینے کے بعد بھی ان کے اندر کہیں بے چینی موجود تھی۔
بقول خود ان کے انسان کو کسی ایک جگہ ٹھہرنا نہیں چاہیے،
کیونکہ ٹھہرے ہوئے انسان کی مثال اس جوہڑ جیسی ہوتی ہے،
جس کا پانی اگر رک جائے تو اس میں سے بساند آنے لگتی ہے.
وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ ان کے نزدیک ہر وقت متحرک رہنا، زندگی کو مختلف کاموں میں مصروف رکھ کر، بھرپور طریقے سے جینا ہی انسان کا اصل جیون ہے۔
سدھو، ایک جج اور انڈین لافٹر چیلنج
سدھو اپنی زندگی کا کوئی پل بھی بھرپور طریقے سے جینے کے بغیر نہیں گزرنے دیتے۔
پہلے کھیل، پھر کمنٹری اور پھر سیاست، ان تینوں میدانوں میں اپنا آپ منوانے کے بعد سدھو کو بالکل ایک نیا شوق چُرایا۔
انھوں نے شوبز کی دنیا میں بھی قدم رنجہ فرما دیے۔
انھوں نے اپنی اداکاری اور شوبز میں آمد کی شروعات ۲۰۰۴ء میں بھارت کے ایک مشہور ٹی وی چینل پر مزاحیہ پروگرام انڈین لافٹر میں بطور جج کی۔
یوں وہ ایک بہترین، خوش اخلاق اور محبت بانٹنے والے انسان کے روپ میں سامنے آئے اور ایک بار پھر چھا گئے۔
اس پروگرام میں نہ صرف کامیڈئین اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے بلکہ
خود سدھو نے بھی ہمیشہ اپنے برجستہ چٹکلے سنا کر حاضرین اور ناظرین کو بہت تفریح مہیا کی۔
اس پروگرام کی ریٹنگ بلا شبہ سدھو کی شمولیت کی وجہ سے ہی آسمانوں کو چھونے لگی۔
اس پروگرام میں پاکستانی مزاح نگار عالمی شہرت یافتہ امان اللہ نے بھی کئی بار اپنے فن کا مظاہرہ کیا
اور بطور مہمانِ خصوصی اس پروگرام کے فائنل میں بھی حصہ لیا۔
اس میں دیگر پاکستانی اداکار بھی بہت مشہور ہوئے
جن میں کراچی کے ہی رؤف لالہ، حسن اور احسن کی جوڑی نے بہت لوگوں کو اپنا پرستار بنایا۔
پاکستانی فنکاروں سے خاص یگانگت
سدھو نے ہمیشہ پاکستانی فنکاروں کے اسٹیج پر آنے پر ان کا نہ صرف پُرجوش استقبال کیا
بلکہ اکثر وہ درمیان میں کہیں کہیں پاکستان اور ہندوستان کی دوستی کے خواہاں ہوتے ہوئے شعر بھی سنایا کرتے ۔ اپنے کمنٹس میں ہمیشہ پاکستان سے دلی وابستگی اور محبت کا اظہار کھل کر کیا کرتے۔
تب کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ واقعی ان کے دل کی آواز ہے۔
سننے والے یہی سمجھتے کہ پاکستانی اداکاروں کو عزت بخشنے کے لیے ایسے جملے اکثر و بیشتر وہاں کے اداکار اور سلیبرٹی بولتے ہی رہتے ہیں۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ آنے والے چند سالوں میں سدھو کی پاکستان دوستی اور تعلق کے چرچے پوری دنیا میں ہوں گے، خود شاید سدھو بھی نہیں۔
مزاح کا دیوانہ، قہقہوں کا بادشاہ
سدھو کی کمنٹری اور سیاست بھی کامیابی سے جاری رہی۔
شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے سدھو نے اس پروگرام کے کئی سیزن بہت کامیابی کے ساتھ کیے۔
سیاسی مصروفیات کی وجہ سے جب ان کے لیے اس پروگرام کو مزید جج کرنا ممکن نہ رہا ،
تو یہ پروگرام بھی بند کر دیا گیا
کیونکہ ناظرین سدھو کے بغیر اس پروگرام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے،
لہٰذا اسے ۵ سیزن کے بعد بند کر دیا گیا۔
یوں لگتا تھا کہ عوام کو کامیڈئین سے زیادہ اس کے جج میں دلچسپی تھی۔
انھیں بلند و بانگ قہقہے لگانے کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔
یہاں سے ان کے ہر دلعزیز ہونے کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
انڈین لافٹر کے بعد انھوں نے کئی اور دوسرے پروگراموں میں بھی جلوہ گری دکھائی جن میں فنجابی چک دے اور کرینہ کرینہ قابلِ ذکر ہیں۔
مشہور رئیلٹی شو بگ باس میں شرکت
اس کے بعد کافی عرصے تک سدھو اپنی سیاسی اور کرکٹ کمنٹری کی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔
ان کا انٹرٹینمنٹ والا روپ عارضی طور پر مداحوں کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
۲۰۱۲ء میں ایک بار پھر نوجوت سنگھ سدھو کے اندر کے اداکار نے جوش مارا۔
انھوں  نے بھارتی چینل کلرز کے ایک مشہور ترین رئیلٹی شو بگ باس میں دھماکے دار اینٹری کر کے سب کو چونکا دیا۔
بھارت میں یہ پروگرام سب سے بڑا رئیلٹی شو ہے۔ اس کے اب تک 14 سیزن آن ائیر جا چکے اور اکتوبر 2022 میں پندرہواں سیزن شروع ہو گا جو جنوری ۲۰۱۹ء کو اپنے اختتام پر پہنچے گا۔
یہ گیم شو اپنے شرکا (Contestants) کے لڑائی جھگڑوں، فضول گوئی اور متنازع حرکات کے باعث بہت چرچا میں رہتا ہے۔
اس میں زیادہ تر وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جنہیں خبروں میں رہنے ۔
اپنے ڈوبتے یا ختم ہوتے کیرئیر کو پھر سے سہارا دینے کی ضرورت ہوتی ہے،
کیونکہ اس شو کے بعد اس کے شرکا کو ایسے مزید کئی پروگراموں میں کاسٹ کر لیا جاتا ہے، جہاں ایڈونچر اور جھگڑوں کا امکان ہو،
تاکہ چینل کی ریٹنگ (مقبولیت) بڑھتی رہے۔
مختصراً یہ کہ سدھو جیسے سلجھے، کامیاب اور پہلے سے ہی بے انتہا مقبول و مشہور انسان کا اس شو میں کھلاڑی کی حیثیت سے حصہ لینا سب کو اچنبھے میں ڈال گیا۔
مگر نوجوت سنگھ سدھو نے ہمیشہ وہی کیا جو اس کا دل چاہا۔
اپنے من کے آگے اس نے کسی کی کبھی پروا نہیں کی۔
وہ من موجی انسان ہے جو صرف اپنے دل کی آواز سنتا ہے۔
دنیا کیا کہے گی، لوگ کیا کہیں گے جیسے جملوں کی اس کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں۔
دل جیتنے اور اپنا بنانے کے گرو
دیکھنے والوں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ وہ اس پروگرام میں اپنا وقار اور اتنی محنت سے برسوں کی بنائی عزت گنوا بیٹھیں گے کیونکہ اس میں ہر انسان دوسرے سے جھگڑا کرتا ہے۔
چاہے سامنے والا عمر اور رتبے میں کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔
کچھ کے خیال میں اس پروگرام میں آ کر سدھو نے بہت بڑی غلطی کی تھی۔
دوسری طرف ان کے پرستار اور مداح خوش بھی تھے
کہ انھیں اپنے پیارے سدھو کا ایک نیا اور الگ چہرہ دیکھنے کو ملے گا کہ
اپنی حقیقی زندگی میں وہ کیسے ہیں؟
یہ بگ باس کا چھٹا سیزن تھا۔
پھر سب نے دیکھا کہ سدھو نے یہاں بھی ۱۵ افراد کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔
یہ وہ افراد تھے جن کا آپس میں کوئی رشتہ تھا نہ وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
یہاں بھی سدھو اپنی ازلی بزلہ سنجی اور برجستہ فقروں، محاوروں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے جھگڑے اور مسٔلے حل کرتے نظر آئے ۔
ایک بار بھی انھوں نے غصے یا جھگڑے کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ ہر صورتِ حال کا بڑی سمجھداری اور محبت سے سامنا کیا۔
ان کے مداح ایک بار پھر یہ ماننے پر مجبور ہو گئے کہ
وہ واقعی ایک شفاف دل اور مثبت سوچ کے حامل انسان ہیں۔
عین ممکن ہے کہ وہ یہ شو جیت بھی جاتے،
مگر اسی دوران ان کے حلقے سے انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
انھیں یہ شو درمیان میں ہی چھوڑ کر جانا پڑا۔
حالانکہ اس شو کے کانٹریکٹ میں صاف لکھا جاتا ہے کہ
کوئی بھی کھلاڑی اسے اپنی مرضی سے بیچ میں نہیں چھوڑ سکتا
جب تک عوام ووٹوں کے ذریعے نکال نہ دے۔
اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے ہرجانے کے طور پر دو کروڑ یا جتنی بھی رقم کانٹریکٹ میں لکھی ہو، وہ ادا کرنی پڑتی ہے۔
چونکہ سدھو انتخابات کا اہم ستون تھے، لہٰذا انھیں اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے شو چھوڑ کر جانے کی اجازت مل گئی۔
اس پروگرام سے باہر آنے کے بعد سدھو  نے ایک انٹرویو میں اس تجربے کو اپنی زندگی کا سب سے خوبصورت اور یادگار وقت قرار دیا۔
غرور اور تکبر جیسی بیماری سے کوسوں دور بھاگنے والے نوجوت سنگھ سدھو نے ۲۰۱۴ء کے امرتسر لوک سبھا کی نشست سے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی۔
یوں انھوں نے اپنے حریف سریندر سنگلا کو ۷۷ ہزار ۶۲۶ ووٹوں سے ہرا دیا۔
سدھو اور کامیڈی نائٹس وِد کپل
۲۰۱۳ءمیں سدھو نے ایک بار پھر مداحوں کے دلوں پر راج کرنے کی ٹھانی۔
اس دفعہ ان کا انتخاب ایک کامیڈی شو ’کامیڈی نائٹس ود کپل‘ تھا۔
اس میں وہ بطور جج نہیں بلکہ خاص مہمان یعنی پروگرام کی ٹیم کے رُکن کے طور پر بڑی سی کرسی پر بیٹھتے/
پروگرام کے درمیان اپنے لطیفوں اور مزیدار واقعات کے ساتھ ساتھ اپنی مشہور جاندار ہنسی کے ساتھ شعر و شاعری کرتے اور دل لبھاتے نظر آئے۔
کپل اور سدھو کی جوڑی اتنی کامیاب ہوئی کہ اس شو نے کئی سال کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
وفاداری اور محبت کا پیکر سدھو رشتہ نبھانا جانتا ہے۔
اسی لیے جب چینل اور کپل شرما( کامیڈئین، پرڈیوسر، ایکٹر) کے درمیان ان بن ہوئی تو یہ شو کلرز سے بند ہو گیا ۔
کچھ ہی ماہ بعد کپل شرما نے اسے سونی چینل سے دوبارہ شاندار طریقے سے پیش کیا۔
اس میں بھی سدھو ہی ان کی ٹیم کا حصہ بنے۔
حالانکہ کلرز چینل نے انھیں یہ پیشکش بھی کی کہ وہ پہلے کی طرح پرانے شو میں جڑے رہیں۔
چینل اسی پلیٹ فارم اور اسی سیٹ پر ویسا ہی پروگرام نئی ٹیم اور نئے انداز میں شروع کر چکا تھا،
مگر سدھو نے کپل شرما کے ساتھ اپنی دوستی اور وعدے کو نبھایا ۔
جب تک کپل کا شو ختم نہیں ہوا ، وہ اس کے ساتھ جڑے رہے۔
یہ سدھو کی مستقل مزاجی اور دوستی نبھانے کی عمدہ مثال ہے۔
سدھو؛ ایک من موجی انسان ہیں
دورانِ شو، کئی دفعہ سدھو نے اس بات کا تذکرہ بھی کیا کہ
ان کی سیاسی پارٹی کے ارکان اس بات سے سخت خفا ہیں کہ وہ اپنا قیمتی وقت بے کار کے ہنسی ٹھٹھے میں ضائع کر رہے۔
ایک وزیر کو یہ سب ’’شوبھا‘‘ نہیں دیتا۔ سدھو اپنی تفریح اور شوق کو سیاست سے الگ رکھتے ہیں۔
انھوں نے اپنی پارٹی سے بھی یہی کہا کہ
وہ کام کے وقت صرف کام کرتے ہیں جبکہ تفریح کا وقت وہ اپنی مرضی سے گزارنے میں آزاد ہیں۔
کوئی چیز ان کے شوق کے آڑے نہیں آ سکتی۔
وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔ ۲۰۱۷ء میں یہ شو کچھ وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔
جب انھوں نے سیاسی پارٹی بدلی
۲۰۱۷ء میں انھوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت کی اور ریاست امرتسر کے پی ایل اے یعنی (punjab Legislative Assembly) منتخب ہوئے۔
اس وقت وہ بھارتی پنجاب کے وزیر سیاحت و ثقافت کے عہدے پر فائز ہیں۔
اس کے علاوہ وہ عالمی جٹ آریان فاؤنڈیشن کے صدر بھی ہیں۔
کانگریس میں شمولیت کے حوالے سے ان کا ماننا ہے کہ پارٹی بدلنے کے پیچھے وجہ صرف اور صرف اپنے دیس سے ان کی محبت ہے۔
انھوں نے لوک سبھا چھوڑ کر اندرا گاندھی کی پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ
وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پارٹی اچھی یا بُری ان لوگوں کی وجہ سے بنتی ہے جو اس کے رکن ہوتے ہیں۔
یعنی ان کا صاف اشارہ نریندر مودی کی طرف بھی تھا ،
کیونکہ کانگریس مودی حکومت کے خلاف ہے ۔
سدھو کا اس پارٹی میں شامل ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ
وہ مودی کو بحیثیت انسان یا سیاستدان، پسند نہیں کرتے ۔
اکثر اپنی تقاریر میں وہ نریندر مودی کو اپنی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دو ٹوک صاف بات بغیر کسی خوف کے کر جاتے ہیں۔
انھی خصوصیات کی بِنا پر سدھو ایک نڈر، بے باک مگر سچے انسان کہلاتے ہیں ،
جو اپنی کہی بات سے پیچھے ہٹتا ہے نہ ہی مکرتا ہے۔
پاکستان سے محبت کا اظہار
انھوں نے جب بھی کھل کر کسی پارٹی یا ایجنڈے کی مخالفت کی یا پاکستان کی محبت میں کوئی بیان دیا تو ہزاروں سوال ان کی ذات پر اُٹھائے گئے۔
وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پہلی بار کوئی کھلاڑی یا اداکار یا سلیبرٹی اپنی مقبولیت کی وجہ سے تو الیکشن جیت سکتا ہے، لیکن دوسری بار وہ صرف اپنے کام کی وجہ سے جیتتا ہے۔
سدھو اب تک چھ الیکشن جیت چکے۔
یہ ان کی بے خوفی، بہادری اور درست سمت میں کام کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دو دوست، دشمنوں کی بھیڑ میں
سدھو کی زندگی میں شہرت اور کامیابی کا ایک عظیم انقلابی دور تب شروع ہوا،
جب انھوں نے وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں ان کے قریبی اور عزیز دوست کی حیثیت سے شرکت کی۔
بھارت نے انھیں سخت الفاظ میں تنبیہہ کرتے ہوئے وارننگ بھی دی کہ
اگر انھوں نے پاکستان جا کر کسی سرکاری تقریب میں شرکت کی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو انھیں سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سدھو نے اپنے دوست عمران خان سے کیا کئی سال پرانا وعدہ پورا کیا کہ
جب بھی وہ وزیرِ اعظم بنے تو حلف برداری کی تقریب میں سدھو کو اپنے ساتھ پائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے کئی بھارتی دوستوں میں سے صرف نوجوت سنگھ سدھو ہی دیدہ دلیری سے کسی کی پروا کیے بغیر پاکستان آئے۔
تقریب میں شریک ہو کر اپنی کئی برس پرانی دوستی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
پاکستان میں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا ۔
عزت افزائی کے طور پر انھیں تقریب میں بالکل سامنے کی صف میں بٹھایا گیا۔
جہاں سے ان کی اور عمران خان کی مسکراہٹوں کا آپس میں تبادلہ بھارت میں بے چینی اور غصے کی چنگاری بھڑکا گیا۔
بھارتی حکومت کو سدھو کا یوں ببانگِ دہل پاکستان آنا اور سونے پہ سہاگہ، ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف سے بغل گیر ہونا اور سرگوشی میں کچھ کہنا گویا بھارت میں قیامت برپا کر گیا۔
سدھو کے واپس جانے تک وہاں کے انتہا پسند ہندو ان کے لیے جلتے انگاروں جیسے سوالات کا الاؤ تیار کر چکے تھے جس میں بھارتی میڈیا نے بھی دونوں ہاتھوں سے گھی ڈالا۔
جادو کی جپھی کا حیران کُن اثر
واہگہ بارڈر پار کر کے جیسے ہی سدھو نے اپنے دیس میں قدم رکھا، میڈیا نے انھیں گھیر لیا۔
چاروں طرف سے سوالات کی بوچھار ہونے لگی۔
انھیں کئی چینلوں پر بھی بلایا گیا اور میزبانوں نے ان پر سخت تنقید کرتے ہوئے ملک دشمن تک کہہ ڈالا۔
ان کا پہلا اعتراض پاکستان جیسے ’ناپسندیدہ‘ ملک کی کسی سرکاری تقریب میں جانا اور دوسری ’ناقابلِ معافی‘ غلطی جنرل قمر باجوہ سے ہاتھ ملا کر بغل گیر ہونا تھا۔
بقول بھارتی حکومت اور انتہا پسند ہندؤں کے، یہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تھا۔
ان کے نزدیک سدھو نے خود وزارت کے عہدے پر ہوتے ہوئے، پاکستانی سپہ سالار سے دوستی کا مظاہرہ کر کے کروڑوں ہندوستانی گھرانوں کا دل دکھایا۔
جن کے بیٹے، بھائی یا شوہر فوج میں تھے اور مبینہ پاکستانی فائرنگ سے ان کی جانیں گئیں۔
بھارتی میڈیا کا یہ الزام بھی تھا کہ سدھو پاکستان اور عمران کی محبت میں اپنے ہی ملک سے غداری کے مرتکب ہو رہے۔
اگر وہ اپنی غلطی تسلیم کر لیں کہ انھیں پاکستان نہیں جانا چاہیے تھا،
تو بھارتی عوام انھیں ایک بار پھر اپنا مان لے گی۔
نڈر اور بے باک سدھو
آفرین ہے دلیر سردار جاٹ پر، کہ انھوں نے بڑی بے خوفی اور دیدہ دلیری و بےباکی کے ساتھ میڈیا کی ہر پھنکار کا جواب ٹھنڈے مگر مستحکم لہجے میں دیتے ہوئے واضح کیا کہ
انھوں نے پاکستان جا کر کوئی غلطی کی نہ ہی انھیں کسی قسم کا پچھتاوا ہے
کیونکہ وہ عمران خان کے دوست ہیں ۔
دوستی نبھانے میں اپنے ملک سے غداری کا قطعی کوئی سوال نہیں اُٹھتا۔
وہ ایک بار نہیں ہزار بار پاکستان جائیں گے۔
جہاں تک بات ہے جنرل قمر باجوہ کے کان میں سرگوشی کرنے کی،
تو انھوں نے محض کرتارپور سرحد کو کھولنے کی ایک درخواست کی تھی،
تاکہ سیکڑوں سکھ گرونانک یاترا کا سُکھ پا سکیں۔
نوجوت سنگھ سدھو کی اس بات سے جہاں بھارتی سکھوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھے،  وہیں ہندوؤں کے دلوں میں آگ لگ گئی۔
انھوں نے پھر سدھو سمیت سبھی سکھوں کو اپنی تنقید کی توپ کے نشانے پر رکھ لیا۔
کرتار پور بارڈر کا معاملہ
واضح رہے کہ ہندوستان میں پہلے ہی سکھ برادری اپنے وجود اور خالصتان کے قیام کو لے کر ہندو برادری اور بھارتی سرکار کے خلاف کھڑی ہو چکی۔
اس نئے اقدام نے سدھو کو سکھ برادری کی آنکھ کا تارا بنا ڈالا ور وہ ان کے دل سے مشکور ہو گئے۔
یوں بھارت کے تمام سکھ سدھو کی پاکستان یاترا کا دفاع کرنے باہر نکل آئے۔
کئی ایک چینلوں خصوصاً پنجاب کے ٹی وی چینلوں نے سدھو کا ساتھ دیا۔
ان کی اس بات کو صرف بہانہ سمجھا گیا کہ وہ شاید میڈیا یا بھارتی سرکار سے جان چھڑانے کے لیے ایسے جذباتی بیان دے رہے ہیں،
لیکن سدھو کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے۔
پاکستان کی طرف سے ان کے اس بیان کی تائید۔
پھر ان کی درخواست پر غور کرنے کی بات سامنے آئی تو ثابت ہو گیا کہ سدھو نے غلط نہیں کہا تھا۔
ایسا ہونا بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ
کرتارپور سرحد گزشتہ ۷۱ سال سے بند ہے اور کسی دورِ حکومت میں بھی اسے کھولنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
دوسری طرف عمران خان کے وعدوں اور دعوؤں پر بھی کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا کہ نئی حکومت شروع میں بہت سے منصوبے بناتی ہے۔
مگر خال خال ہی ان پر عمل کیا جاتا ہے یا وہ بمشکل پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔
عمران سدھو دوستی رنگ لائی اور آخر کار کرتار پور بارڈر کو کھولنے کا عندیہ سنا دیا گیا۔
اس فیصلے نے بھارتی سکھ برادری پر شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری کر دی۔
کرتار پور کی تاریخ
کرتار پور صاحب وہ جگہ ہے جہاں بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے۔
بابا جی گرونانک مہاراج، جو سکھ مذہب کے بانی تھے،
اپنی باون سالہ زندگی گزارنے کے بعد ۱۵۲۱ء میں اس مقام یعنی کرتار پور پہنچے۔
اس جگہ کو پہچان دینے کے لیے انھوں نے ہی اس کا نام کرتار پور صاحب رکھا۔
انھوں نے یہاں گاؤں اور شہر بسائے۔
یہاں کے گرنتھی اور گیانی گوبن سنگھ کے مطابق ۲۲ ستمبر ۱۵۳۹ء میں بابا جی گرونانک مہاراج دنیا سے رخصت ہو گئے۔
وہاں کے مسلمانوں کا کہنا تھا کہ بابا جی ان کے پیر اور ولی تھے،
لہٰذا انھیں وہ اپنی عقیدت کے مطابق دفن کریں گے۔
دوسری طرف سنگتان(نانک نام لیوا) کا کہنا تھا کہ وہ گرو صاحب کا سسکار( آخری رسومات) اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں گے، کیونکہ سکھ مذہب میں مرنے کے بعد نعش کو جلا دیا جاتا ہے۔
سکھوں سے یہی روایت ہے کہ جب اس بحث کا فیصلہ کرنے کے لیے ابا گرونانک کے جسدِ خاکی سے چادر ہٹائی گئی تو وہاں ان کا جسم نہیں صرف پھول پڑے ہوئے تھے۔
جھگڑا کرتے لوگ حیران رہ گئے اور پھر اُس چادر اور پھولوں کو برابر تقسیم کر لیا گیا۔
جو حصہ مسلمانوں کے پاس آیا، انھوں نے اپنے عقیدے کے مطابق اسے دفنا کر وہاں مزار اور درگاہ بنا لی۔
باقی آدھے پھول اور چادر سنگتان کے حصے میں آئے جس کا انھوں نے سسکار کر کے سمادھی بنا دی۔
کرتار پور کی خوبصورتی
کرتار پور صاحب بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور چاروں طرف کا نظارہ مبہوت کر دینے والے حُسن کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
اس کے ارد گرد دریا اور چھوٹی نہریں بھی ہیں اور ہرے بھرے کھیت کھلیان انسان پر سحر طاری کر دیتے ہیں۔
کرتار پور صاحب کی سفید عمارت کو دُور سے دیکھنے میں ننھے منے تاج محل کا گمان ہوتا ہے۔
 اکہتر سال بعد بارڈر کا کھلنا، تاریخی گھڑی
دو دوست جب مل کر کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو ان کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔
کوئی رکاوٹ ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔
جب دو دیرینہ دوست اپنے اپنے ملک میں اہم عہدوں پر فائض ہوں،
تب کچھ ایسا کرنا ،جس سے دونوں ممالک کے عوام کو خوش کیا جا سکے، بہت بڑی کامیابی کہلاتی ہے۔
نوجوت سنگھ سدھو کی کرتار پور بارڈر کھلوانے کی کاوش بالآخر رنگ لائی ۔
اسے کھولنے کی افتتاحی تقریب ۲۸ نومبر ۲۰۱۸ء کو انجام پا گئی۔
جس نے پوری دنیا کے سکھوں کی نظروں میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان۔
بھارتی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو ان کا ہیرو بنا ڈالا،
کیونکہ سکھ گرونانک یاترا کو اپنی اتنی ہی اہم عبادت کہتے ہیں، جتنا ایک مسلمان کے لیے حج یا عمرہ کرنا۔
پاکستان میں بابا گرونانک کا استھان ان کے لیے ان کے مکہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
بلاشبہ اس تاریخ ساز اقدام نے وہ کر دکھایا جو گزشتہ ۷۱ء سال میں کبھی نہ ہو سکا۔
کرتار پور صاحب سے بھارتی پنجاب کا سفر محض ۴ کلومیٹر کی دوری پر ہے
جو سرحد بند ہونے کی وجہ سے پورے ایک دن جتنا بن جاتا ہے۔
اس میں سکھ بذریعہ واہگہ پہلے لاہور، اس کے بعد نارووال اور پھر کرتار پور پہنچتے۔
کسی بھی انسان کو اس کے مذہب میں آسانی مہیا کرنا
کہ وہ اپنے فرائض بخوبی بہ احسن طریقے سے انجام دے سکے، پوری انسانیت کو محبت کا درس دیتا ہے۔
نوجوت سنگھ نے ثابت کیا کہ
وہ واقعی ایک محبت سے گندھے، رشتوں کو نبھانے والے بےخوف اور کھرے انسان ہیں۔
سدھو کی ایک ذاتی ویب سائٹ شیری آن ٹاپ بھی ہے،
جس میں ان کی تمام زندگی کے ہر پہلو بطور کرکٹر، کمنٹیٹر اور اداکار موجود ہیں۔ (شیری ان کا گھریلو نام ہے)
ان کی بیگم کا نام نوجوت کور سنگھ ہے۔
وہ خود بھی سیاست سے تعلق رکھتی ہیں۔
پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں بطور ڈاکٹر بھی اپنے فرائض انجام دیتی ہیں۔
اس ہم نام جوڑی کے دو بچے بیٹی رابعہ اور بیٹا کَرَن ہیں،
جو اپنے والد پر فخر کرتے اور ان جیسا بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles