36 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

Allama iqbal and sufism|اوج اقبالؒ

sitaron se aage jahan aur bhi hain
sitaron se aage jahan aur bhi hain abhi ishq ke imtihan aur bhi hain

عافیہ مقبول جہانگیر

’’میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبالؒ اور سلطنت میں سے کسی ایک کومنتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبالؒ کو منتخب کروں گا۔‘‘

(قائد اعظم محمد علی جناح، یومِ اقبالؒ ۱۹۴۰

حضرت علامہ اقبالؒ پر سینکڑوں کتب لکھی گئیں، انھیں بے تحاشا پڑھا اور سمجھا گیا، مگر صد افسوس کہ ہماری نسلِ نو آج بھی انھیں محض ایک #صوفی #شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے اور ان کی #شخصیت کے روحانی پہلو سے کسی حد تک ناواقف ہے۔

ان کی شخصیت اتنی ہمہ صفت تھی کہ تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لیے شاید اس #مختصر عمر کے تمام برس بھی ناکافی ہوں اور ایک ضخیم کتاب تیار ہونے کے بعد بھی کچھ پہلو رہ جائیں۔

تشنگی پھر بھی رہے گی۔
؍۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو خوش نصیب والدین کا خوش نصیب بیٹا اس دنیا میں تشریف لایا اور عالمِ اسلام کو ورطۂ حیرت میں ڈال کر ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو رخصت ہو گیا۔
آپؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن اُن کی عظمت اس بات کی متقاضی ہے کہ انھیں بار بار یاد کیا جائے، ان کا تذکرہ کیا جائے اور ان کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا رہے۔

حضرت علامہ اقبالؒ کو بچپن سے ہی گھر کا صوفیانہ اور روحانی ماحول میسر تھا۔ انھوں نے شاید کتابوں سے زیادہ، پرورش اور ماحول سے سیکھا۔

اُن کے والد گرامی شیخ نور محمدؒ سلسلہ عالیہ قادریہ کے صاحبِ فیض اور صاحبِ اجازت بزرگ تھے۔ وہ #تصوف کا خاص مقام رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے علامہ اقبالؒ بھی سلسلہ قادریہ سے بیعت تھے۔

بحیثیت شاعر ان کی ذات کا ہر روشن پہلو سب پر عیاں ہے لیکن اگر ان کا حقیقی مقام دریافت کرنے نکلیں تو شاید ایسے بے شمار روحانی اسرار و رموز آشکارا ہوں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جائے۔ اُن کی روحانیت کا سفر ان کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔

پیدائش سے قبل خواب میں اشارہ:

آپؒ کی پیدائش سے کچھ روز قبل ان کے والد بزرگوار  نے خواب میں دیکھا کہ کسی وسیع میدان میں بہت سے لوگ فضاء میں چکر لگاتے ایک سفید کبوتر کو ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر پکڑنے کی دیوانہ وار کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کبوتر کبھی نیچے اُترتا ہے اور کبھی آسمان کی طرف اُڑ جاتا ہے۔

بالآخر اس نے اچانک فضا میں غوطہ لگایا اور ان کی جھولی میں آن گرا۔ شیخ محمد اسے اشارۂ غیبی سمجھے اور خواب کی تعبیر یوں کی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جو #اسلام کی #خدمت میں نام پیدا کرے گا۔

ماں کا خواب:

علامہ اقبالؒ نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہاں اسلام اور قرآن کی عملداری تھی۔ آپؒ کے والد اور والدہ دونوں تہجد گزار نمازی تھے اور ماحول ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سے پُر نور رہتا۔

اقبالؒ ابھی شکم مادری میں ہی تھے کہ ان کی والدہ نے ایک خواب میں دیکھا کہ آسمان سے چاند کا ایک ٹکڑا ان کی گود میں آن گرا جس سے تمام گھر روشن ہو گیا۔
اس خواب کی تعبیر جب ایک عالمِ دین سے پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا کہ اللہ آپ کو ایسا بیٹا دینے والا ہے جو قرآن کی روشنی پھیلائے گا اور یہی ہوا بھی۔

tere ishq ki inteha chahta huun
tere ishq ki inteha chahta huun meri sadgi dekh kya chahta huun

علمِ حصول کا والہانہ جنون:
پانچ یا چھے برس کی عمر میں ان کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ انھیں علم حاصل کرنے کا ایسا جنون تھا کہ رات کو نیند میں بھی اُٹھ اُٹھ کر پڑھتے رہتے۔

ایک دفعہ نصف شب کے قریب ان کی والدہ کی آنکھ کھل گئی تو انھوں نے اقبالؒ کو دیے کی روشنی کے پاس بیٹھے اسکول کا کام کرتے پایا۔

انھوں نے ایک دو آوازیں دیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انھوں نے اُٹھ کر اقبالؒ کو شانوں سے پکڑ کر ہلایا اور کہا:

’’اقبال! اس وقت آدھی رات کو کیا پڑھ رہے ہو؟ اُٹھو اور سو جاؤ۔‘‘

انھوں نے جواب دیا: ’’ بے جی! سویا تو ہوا ہوں۔‘‘

قرآن کی روشنی:

حضرت علامہ اقبالؒ کے بچپن میں ایک بار ان کی والدہ محترمہ نے انھیں رات کے پچھلے پہر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا۔

وہ بھی اس حال میں کہ ان کا کمرہ بقعۂ نور بنا ہوا تھا اور عجیب سی تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ والدہ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گئیں اور صبح ان کے استاد محترم مولوی میر حسن سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ استاد محترم نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’خوش ہو جاؤ محترمہ! تمہارا لختِ جگر بڑا ہو کرقرآن کی روشنی پھیلائے گا۔‘

اور ایسا ہی ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ حضرت علامہ اقبالؒ کا پورا کلام، قرآن کا ترجمان بن کر ایمان اور قرآن کی روشنی پھیلا رہا ہے۔

حکیم الامت کی حکمت کا راز:

جب علامہ اقبالؒ ۴ برس کے تھے تو #حضرت خواجہ محمد عمر عباسی قادریؒ اپنے خلیفہ اور دوست حضرت سائیں عبد اللہ شاہ قادری کو سیالکوٹ ملنے تشریف لائے۔

میاں جی (والد علامہ اقبالؒ) نے اپنے دادا پیر کی دعوت کی اور علامہ کو مرشد کے توسط سے بسم اللہ کے لیے دادا پیر کی گود میں بٹھایا۔

انھوں نے مسکرا کر اپنا لعابِ دہن علامہ اقبالؒ کے منہ میں لگا کر بسم اللہ پڑھائی۔ ان دو بزرگوں کی تقدیر ساز توجہ اور اپنے والد گرامی کی دعاؤں سے ہی اقبالؒ حکیم الامت بنے۔

نیک والدین کی تربیت کا گہرا اثر:

علامہ اقبالؒ کے والد زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن وہ مذہبی علوم سے بڑا شغف رکھتے تھے۔ علماء اور صوفیاء کی صحبتوں سے ہمیشہ استفادہ کرتے رہتے۔

اس استفادہ نے ان میں علم و عرفان کا ذوق پیدا کر دیا تھا۔ اکثر لوگ تصوف کی کتابوں کے مشکل مطالب کی تشریح کے لیے ان سے رجوع کیا کرتے۔

علامہ اقبالؒ کی تربیت ایک ایسے باپ کے زیرِ سایہ ہوئی جو دینی مزاج رکھتے تھے اور #عشقِ #رسولﷺ تو انھیں اپنے والد سے وراثت میں ملا۔ اقبالؒ کو جب بھی موقع ملتا وہ سیالکوٹ تشریف لے جاتے اور ان کی صحبت سے فیض یاب ہوتے۔

اکبر الہٰ آبادی کو ایک خط میں انھوں نے لکھا:
’’واقعی آپ نے سچ فرمایا کہ ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہِ شفقت ایک طرف۔

اسی واسطے تو جب موقع ملتا ہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پہاڑ پر جانے کے بجائے ان کی گرمیٔ صحبت سے مستفید ہوتا ہوں۔
والدۂ اقبال بڑی نیک سیرت اور عبادت گزار خاتون تھیں۔ وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتی تھیں۔ انھیں صرف نماز ازبر تھی جو وہ باقاعدہ پڑھا کرتی تھیں۔

ناخواندہ ہونے کے باوجود بڑی سمجھدار، معاملہ فہم اور مدبر خاتون تھیں۔ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت غرباء کی مدد کرنا تھی۔

کئی حاجت مند خواتین کو خفیہ طور پر نقدی دیتی تھیں۔ ان کی صحیح تربیت کا اقبالؒ کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوا۔

استاد سیّد میر حسن کا اثر:

والدین کے بعد علامہ اقبالؒ کی ابتدائی طالب علمانہ زندگی پر ان کے استاد سّید میر حسن کی شخصیت کا بہت بڑا اثر ہے۔

سّید میر حسن نہ صرف علوم اسلامی اور عرفان و تصوف سے آگاہ تھے بلکہ علوم جدیدہ، ادبیات، لسانیات اور ریاضیات کے بھی ماہر تھے۔

انھوں نے اقبالؒ کو عربی، فارسی اور اردو ادبیات، علم و حکمت اور تصوف وغیرہ کی تعلیم دے کر #علوم #قدیمہ اور #اسلامیہ کے لیے ان کے دل میں بے پناہ تشنگی اور ذوق پیدا کر دیا تھا۔

اقبالؒ کی طبیعت میں جو سادگی، قناعت، استغنا، ظرافت اور نکتہ سنجی ہم دیکھتے ہیں، یہ سب سیّد میر حسن کے مزاج کا عکس تھیں۔
اُن کے بارے میں اقبالؒ فرماتے تھے کہ شاہ صاحب کی صحبت میں بیٹھ کر اطمینان خاطر نصیب ہوتا ہے اور فکرمندی دور ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اقبالؒ کو صحیح معنوں میں #اقبالؒ بنا دیا۔

قرآن کے سچے عاشق:

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فکر قرآنی، عشق رسولﷺ اور روحانیت میں انھیں جو بلند مقام و مرتبہ حاصل ہوا ہے اس کے سامنے مال و زر اور دنیاوی جاہ و جلال کا بڑے سے بڑا عہدہ بھی ہیچ نظر آتا ہے۔

موجودہ دور میں جس طرح اقبالؒ کو قرآن کی روح کی معرفت نصیب ہوئی اور جس طرح انھوں نے قرآن کے علم و حکمت اور آیات کی تشریح و توضیح کی ہے اور کسی نے نہیں کی۔

حقیقت یہی ہے کہ جس نے قرآن کو پڑھا اور سمجھا نہیں، وہ کلامِ اقبال کا مفہوم پانے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کلامِ اقبال کا ماخذ، منبع اور محور قرآن کریم ہے۔

بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ عمر کے آخری حصے میں علامہ اقبالؒ نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے، اپنے سامنے کوئی کتاب نہ رکھتے۔

سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجہ پر وہ پہنچے وہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور جس کے ہاتھ آ جائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔
قرآن سے مسائل کے حل:
ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے اور ان کا جواب مانگا۔

ان کے قریب رہنے والے لوگ سوچ رہے تھے کہ وہ اب اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتب نکال کر ان میں مسائل کا حل تلاش کریں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انھوں نے صرف قرآن ہاتھ میں لیا اور جواب لکھنے بیٹھ گئے۔
عشقِ رسولﷺ کی انتہا:
علامہ اقبالؒ کی زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابلِ قدر وصف جذبۂ عشقِ رسولﷺ ہے۔

اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدۂ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے حضورﷺ کا نام مبارک لیا، ان پر جذبات کی شدت اور رقّت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔

رسولِ اکرمﷺ کا نام آتے یا ذکر چھڑتے ہی علامہ اقبالؒ بے بس اور بے قابو سے ہو جاتے۔ باتیں کرتے کرتے کسی کام کے لیے اٹھتے، تو زبان سے یا رسول اللہﷺ نکلتا، لیٹے ہوئے پہلو بدلتے تو بھی رسول اللہﷺ پکارتے۔

اپنے پاؤں میرے چہرے پر پھیر دو:
ایک بار ایک صاحب حج کرنے کے بعد حضرت علامہ اقبالؒ سے ملاقات کے لیے آئے۔ علامہؒ نے اس سے پوچھا کہ روضۂ رسول کریمﷺ پر بھی حاضری دی تھی؟ اس شخص نے جواب دیا :’’جی۔‘‘ علامہ اقبالؒ پر یکدم رقّت طاری ہو گئی اور وہ کہنے لگے۔
’’تمہارے پاؤں آنحضورﷺ کے در سے ہو کر آئے ہیں۔ انھیں میرے چہرے پر پھیر دو۔‘‘
وہ آدمی یہ سُن کر گھبرا گیا اور تمام حاضرینِ مجلس زار و قطار رونے لگے۔ یہاں تک کہ روتے روتے حضرت علامہ اقبالؒ کی ہچکی بندھ گئی۔

اقبالؒ کی روحانیت کا مقام:

علامہ اقبالؒ نے خود کبھی بھی روحانیت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ ان کا تو کہنا تھا:
نہ شیخ شہر نہ شاعر نہ خرقہ پوش اقبال
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد
(اقبال کی کیا پوچھتے ہو۔ نہ وہ شاعر ہے نہ عابد، زاہد نہ ہی کوئی بڑا ولی اللہ۔ وہ تو ایک ایسا فقیر ہے جو سرِ راہگزر بیٹھا ہے۔ صرف دل کا غنی ہے)۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپؒ قدرت کی طرف سے قوم کے لیے بہت بڑا انعام تھے۔ آپؒ انوار الٰہی کا پیکر تھے۔
روحانیت کوئی علم نہیں بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے۔

یہ بحث نہیں بلکہ تسلیم و رضا کا مقام ہوتا ہے۔ صاحبِ نظر کی ایک نگاہ سے سینہ روشن ہو جاتا ہے۔ روحانیت ایمان کا دروازہ کھول کر عبادت کے راستے منزل کی طرف سفر کرتی ہے۔

عصرِ حاضر کے دانائے راز بزرگ جناب واصف علی واصف ؒکو کسی نے خط لکھا کہ علامہ اقبالؒ کے ایک شعر کی تشریح کر دیں۔

حضرت واصفؒ نے اس کے جواب میں فرمایا:

’’ اقبال کے شعر کی تشریح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بیان کرنے والا کم از کم قلندر ہو، اور سننے والا کم از کم رموزِ قلندری سے آگاہ ہو۔‘‘
جب روح کی آنکھ وا ہوتی ہے تو انسان اپنی چشم بینا سے مستقبل میں وقوع پزیر ہونے والے واقعات و حالات کو بھی محسوس کر لیتا ہے، جہاں تک عام انسان کی رسائی ممکن نہیں۔

khudi ko kar buland itna ki har taqdir se pehle
khudi ko kar buland itna ki har taqdir se pehle khuda bande se khud puchhe bata teri raza kya hai

قیامِ پاکستان کئی سال پہلے ہی بنتے دیکھ لیا:

حضرت علامہ اقبالؒ پر جب فیض کا دروازہ کھلا تو آپؒ نے ۱۹۳۰ء کے خطبۂ الہٰ آباد میں یہ تقدیر ساز فقرہ ادا کیا:
’’میں دیکھتا ہوں کہ پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک مجموعی ریاست بنا دی جائے۔

مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو آخر کار ایک ہندوستانی مسلم ریاست بنانا پڑے گی اور یہی ان کی تقدیر ہے۔‘‘
اقبالؒ کو اللہ تعالیٰ نے وہ بصیرت عطا کی تھی جس کے بارے میں حدیث شریف میں بھی ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نُور سے دیکھتا ہے۔

اس تقریر کے بعد ایک بار پھر آپؒ نے ۱۹۳۴ء میں اسد ملتانی سے کہا:
’’زود یا بدیر ملک (ہندوستان) کے شمال مغربی حصوں میں مسلم مملکت کا وجود عمل میں آئے گا۔‘‘ بقول خود اقبالؒ:

مجھے رازِ دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے
وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے

۲۱؍ جون ۱۹۳۷ء کو جو خط انھوں نے قائد اعظمؒ کو لکھا وہ بھی ان کے اسی یقین کی ایک کڑی تھی۔
’’ آنے والے دنوں میں صرف آپ ہی ہندوستانی مسلمانوں کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔‘‘

دیکھا جائے تو غور طلب بات یہ ہے کہ قائد اعظمؒ ظاہری طور پر کوئی دینی راہنما نہیں تھے , جن کے جبہ و دستار کو دیکھ کر انھیں کروڑوں مسلمانوں کی تقدیر کا مالک بنا دیا جاتا۔ یہ تو صرف قضا و قدر کا وہ فیصلہ تھا جس سے اقبالؒ کو آگاہ کیا گیا اور انھوں نے اس آگاہی کے نتیجے میں ہی یہ فیصلہ دیا:

’’مسلمانوں کو چاہیے کہ جناح کے ہاتھ مضبوط کریں اور لیگ میں شامل ہو جائیں۔ لیگ اگر کامیاب ہو گی تو جناح کے سہارے۔ جناح کے سوا اب اور کوئی شخص مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں۔‘‘

اُن کے اس الہامی فیصلے کی تائید بعد میں کئی اہلِ خبر نے بھی کی۔
مثنوی اسرار خودی جب شائع ہوئی تو بعض صوفیاء بشمول علامہؒ کے دوست احباب سمیت سبھی نے اس کی مخالفت کی۔

حضرت علامہ اقبالؒ نے علمی و عقلی، دونوں طرح سے لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر جب ان کی کسی نے نہ سُنی تو انھیں یہ کہہ کر راز فاش کرنا ہی پڑا:
’’اس خدائے واحد کی قسم، جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ میں نے یہ مثنوی خود نہیں لکھی بلکہ مجھے اس کے لکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘‘

علامہؒ کے کچھ حیرت انگیز یادگار واقعات:

حضرت علامہ اقبالؒ بیسوی صدی کے سب سے عظیم مفکّر اور شاعر تھے۔ قدرت نے ان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا۔ تاریخ کے اوراق ان کی بصیرت، معاملہ فہمی، دور اندیشی اور روحانی تصرفات سے جگمگاتی ہے۔

٭ مولانا رومیؒ اور مرزا غالب سے ملاقات:

ایک دن کا واقعہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اپنے کمرے میں حسبِ معمول نیم دراز تھے اور کوئی ملاقاتی اس وقت موجود نہ تھا۔ اپنے دیرینہ خادم علی بخش کی آہٹ سُن کر وہ چونکے اور اسے مخاطب کر کے فرمایا:

’’علی بخش! میرے پاس مرزا غالب بیٹھے ہوئے تھے۔ ابھی ابھی باہر گئے ہیں۔ جلدی جاؤ اور انھیں واپس بُلا لاؤ۔‘‘

علی بخش ایک فرمانبردار اور سادہ لوح خادم، علامہ کا حکم سنتے ہی باہر لپکا اور ادھر اُدھر دیکھ کر بظاہر مرزا غالب کی تلاش میں ناکام ہو کر واپس آ گیا اور بولا، ’’غالب صاحب مجھے نہیں ملے۔‘‘
علامہ نے فرمایا: ’’بھئی! تم کیا کہہ رہے ہو؟… وہ ابھی تو میرے پاس اس کرسی پر بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے ہیں۔‘‘
انتقال سے چند روز قبل بھی بالکل اسی نوعیت کا واقعہ پھر پیش آیا۔ اس دفعہ انھوں نے مولانا رومیؒ کے متعلق علی بخش سے کہا کہ وہ ابھی ابھی میرے پاس سے گئے ہیں انھیں واپس بلا کر لاؤ۔‘‘ (ملفوظات اقبالؒ)

٭ ایک مردِ قلندر کی آمد:

روحانی طور پر علامہ اقبالؒ کی #نگرانی یا #تربیت کے حوالے سے ایک ہی واقعہ دو طرح سے ملتا ہے۔ ایک تو سینہ بہ سینہ روایات اور دوسرے #تحقیق سے۔

وہ اس طرح سے ہے کہ علامہ اقبالؒ چوتھی یا پانچویں جماعت میں #سیالکوٹ کے #اسکاچ #مشن اسکول میں پڑھتے تھے . ایک روز ان کی جماعت میں ایک اُونچا لمبا اور سرخ و سفید اپنے حال میں مست #قلندر ننھے اقبالؒ کے پاس آیا اور ان کے سر پر دستِ #شفقت رکھا، پیشانی کو بوسہ دیا اور رخصت ہو گیا۔
بعد میں تحقیق کرنے سے پتا چلا کہ اس مرد درویش نے اقبالؒ کی بابت کسی سے کچھ دریافت نہ کیا تھا اور خود ہی سیدھا ان کی جماعت میں جا پہنچے۔ روایات کے مطابق یہ مردِ درویش علامہ اقبالؒ کے مستقل طور پر نگران تھے۔ (اقبال نامہ، حصہ اوّل و دوم)
٭ جیسا سُنا تھا ویسا ہی پایا، تُو تو خود آگاہِ راز ہے
ایک بار ایک درویش علامہ اقبالؒ کے پاس آیا۔ آپؒ نے اس سے دعا کی درخواست کی۔ اُس نے پوچھا:
’’دولت چاہتے ہو؟‘‘
جواب دیا، ’’میں درویش ہوں، دولت کی ہوس نہیں۔‘‘
پوچھا، ’’عزت و جا ہ مانگتے ہو؟‘‘
جواب دیا، ’’وہ بھی خدا نے کافی بخش دی ہے۔‘‘
پوچھا، ’’تو کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟‘‘
جواب دیا،

’’سائیں جی! کیا کہہ رہے ہو؟ میں بندہ وہ خدا، بندہ خدا سے کیونکر مل سکتا ہے؟ قطرہ دریا میں مل جائے تو قطرہ نہیں رہتا۔ میں قطرہ کی حیثیت میں رہ کر دریا بننا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ سُن کر اس درویش پر خاص کیفیت طاری ہوئی اور کہا:
’’بابا جیسا سُنا تھا ویسا پایا، تُو تو خود آگاہِ راز ہے۔ تجھے کسی کی دعا کی کیا ضرورت؟‘‘ (اُردو ڈائجسٹ، مئی ۱۹۹۵)
٭ علی بخش!تم ضرور حج کرو گے
علامہ اقبالؒ کو حج کرنے کی بڑی آرزو تھی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ علی بخش! خدا نے چاہا تو ہم اگلے برس ضرور حج کو چلیں گے اور تم میرے ساتھ ہو گے، مگر ہر بار کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آ جاتا کہ یہ آرزو پوری نہ ہوتی۔

اس کا انھیں بہت قلق ہوتا اور وہ پھر اگلے برس حج کو جانے کے منصوبے باندھنے لگتے۔
وفات سے چند ماہ پیشتر وہ حج کرنے کے لیے اور بھی بے تاب نظر آتے تھے۔

وہ کہا کرتے کہ جب میں حج کو جاؤں گا تو راستے میں ایک اور کتاب لکھوں گا۔ آخری ایّام میں ایک دن کہنے لگے:
’’علی بخش! اب تو حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ میرے حج پر جانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی مگر تم ضرور حج کرو گے۔‘‘
چنانچہ ان کی وفات کے بعد علی بخش کو بیت اللہ اور روضۂ رسولﷺ پر جانے کی سعادت نصیب ہو گئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد جب مجھے بیت اللہ جانے کی سعادت نصیب ہوئی تو مجھے یوں لگا جیسے ڈاکٹر صاحب میرے سامنے کھڑے مسکرا رہے ہیں اور ان کی یاد آتے ہی میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ (اقبالؒ از عطیہ بیگم)

٭ علامہ اقبالؒ کی روحانی بیعت بہ زبانی خود:

مولانا محمد بخش مسلمؒ نے ارشاد فرمایا کہ ایک دن میں حضرت علامہ اقبالؒ سے جرأت کر کے یہ پوچھ بیٹھا کہ کیا آپ بھی کسی بزرگ سے بیعت ہیں؟

یہ سُن کر آپؒ پر ایک کیفیت سی طاری ہو گئی اور کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ پھر فرمایا:
مسلم صاحب! ایک دن جو میری قسمت نے یاوری کی تو میں حضرت #شیخ #عبدالقادر #جیلانیؒ کی بارگاہ میں پہنچ گیا اور حضرت نے باکمال عنایت مجھے بنفسِ نفیس بیعت فرمایا۔‘‘ (واقعاتِ اقبالؒ)

٭ ایک شہزادے کےبلند #روحانی #مقام کی #پیش گوئی:

اللہ تعالیٰ نے علامہ اقبالؒ کو #بصارت کے ساتھ ساتھ #بصیرت کی دولت بھی وافر عطا فرمائی تھی۔ نوازے گئے لوگ مستقبل کی جھلک کی خبر رکھتے ہیں۔
ایک دفعہ #داتا کی نگری لاہور میں ’’منزل عشقیہ‘‘ پر اہلِ دل کا ایک پاکیزہ اجتماع تھا جس میں ملک بھر کے دردمند جمع ہو رہے تھے۔

اسی دوران #مفکّر پاکستان علامہ اقبالؒ بھی تشریف لائے۔
اچانک ان کی نظر ایک نوجوان پر پڑ گئی۔ انھوں نے بے ساختہ فرمایا:
’’سبحان اللہ! کیا #بلند اقبال بندہ ہے۔

حُسنِ صورت پر قربان جائیں۔ حسین صورت پائی ہے۔ ساتھیو! دیکھو تو سہی، کس قدر باطنی پاکیزگی اور کمال کی مقناطیسیت ہے اور ابھی سے یہ عالم ہے تو آگے کیا کیفیت ہو گی؟

دیکھنا مستقبل میں یہ شہزادے بہت بڑے روحانی مقام کے مالک ہوں گے۔‘‘
یہ فرمان حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ یہ عظیم المرتبت شہزادے خواجہ نظام الدین تونسوی تھے۔ اس موقع پر راجہ حسن اختر بھی موجود تھے۔ علامہ اقبالؒ اور خوابہ نظام الدین تونسوی کے تعلق کی ابتدا اسی واقعہ سے ہوئی۔ (فکرِ اقبالؒ)

٭میں نے خدا کو دیکھا ہے

فقیر سیّد وحید الدین لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ علامہ اقبالؒ کی محفل میں ممتاز حسن نے کہا:

’’ڈاکٹر صاحب! اگر اجازت ہو تو ایک بات میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
علامہ نے فرمایا: ’’کیا؟‘‘
’’آپ ایک دانشور، فلسفی ہیں اور نہ صرف یہ کہ قدیم و جدید فلسفیوں سے اچھی طرح آگاہ و باخبر ہیں، بلکہ آپ اپنی جگہ خود بہت بڑے مفکّر ہیں۔

اس کے باوجود آپ اپنے اشعار اور مقالات میں خدا کا ذکر غیر فلسفیانہ انداز میں کرتے ہیں۔ یہ آپ کے لیے کس طرح ممکن ہے کہ خدا کے وجود پر عقلی دلیل لانے کے بجائے خوش اعتقادی کے ساتھ اس کا ذکر کریں؟‘‘

علامہ اقبالؒ نے ممتاز حسن کے خیالات بہت خاموشی اور ہمدردی کے ساتھ سنے۔ انھوں نے نہ تو درمیان میں ٹوکا نہ ہی کسی تعجب کا اظہار کیا۔ جب ممتاز حسن اپنی بات مکمل کر چکے تو علامہ نے فرمایا:

’’خدا کے متعلق پوچھتے ہو؟ میں نے اُسے دیکھا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر اقبالؒ مسکرائے اور پھر بولے:

انسان کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ خدا کو دیکھ سکتا ہے لیکن یہ لمحے کم نصیب ہوتے ہیں۔‘‘
پھر کچھ توقف کے بعد فرمایا: ’’بہت ہی کم۔‘‘

ممتاز صاحب نے دریافت کیا:

’’کیا ہر شخص کے لیے خدا کا مشاہدہ ممکن ہے؟‘‘
علامہ نے فرمایا:
’’یہ دروازہ کسی پر بند نہیں ہے لیکن جو شخص مشاہدے کا طالب ہو، اُسے صبر اور انتظار لازم ہے۔‘‘
یہ ساری گفتگو انگریزی میں ہوئی۔

علامہ اقبالؒ کے اصل فقرے یہ ہیں۔
“I have seen him. there are moments in a man’s life, when he can experience God.”
ـ”Such moments, are however, ‘rare’ he added a little later, “very rare”.
“No one is a shut out, but, he who wants the has to wait for it.”experience”.

٭اب میرا زندہ رہنا ممکن نہیں

میاں ایم اسلم مشہور ناول نگار اور علامہؒ کے شاگرد بھی تھے۔ وہ علامہ اقبالؒ سے اپنی آخری ملاقات کے بارے میں یوں بتاتے ہیں:
’’حضرت علامہ اقبالؒ کے میرے والدسے بہت اخلاص مندانہ تعلقات تھے۔ آپؒ مہینے میں کم از کم تین یا چار بار ہمارے ہاں والد صاحب سے ملنے تشریف لایا کرتے اور بالعموم ان سے اسلامی اور قومی مسائل پر گفتگو فرمایا کرتے۔
اپریل ۱۹۳۸ء میں حضرت ؒ کی بیماری نے خطرناک صورتِ حال اختیار کر لی تھی۔ ایک روز میں اور والد صاحب ان کی مزاج پُرسی کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔علامہؒ اپنے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ پاس ہی دو چار کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ والد صاحب نے خیر خیریت پوچھی اور کہا:
’’ڈاکٹر صاحب! ان شاءاللہ آپ بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔‘‘
یہ سُن کر ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ بڑھایا اور کہا:

’’میاں صاحب! یہاں میرے پاس چارپائی پر آ بیٹھیے۔‘‘
اس کے بعد علامہؒ نے والد صاحب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا:
’’میاں صاحب! میں گزشتہ دو مہینے سے قدرت کے ایسے ایسے اسرار دیکھ رہا ہوں کہ اب میرا زندہ رہنا ممکن نہیں۔‘‘
ہم تھوڑی دیر بعد اجازت لے کر واپس آ گئے اور اُسی رات حضرت علامہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔‘‘
۲۰؍ اپریل ۱۹۳۸ء کی رات ان کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ ۲۱؍ اپریل کی صبح پو پھٹنے سے کچھ دیر پہلے راجہ حسن اختر نے حالت زیادہ خراب دیکھی تو ڈاکٹر کی طرف بھاگے۔ واپس آئے تو علامہ آخری سانس لے چکے تھے۔ وہ روتے اور چِلّاتے ہوئے علامہؒ پر جھکے اور بولے:
’’ہم سب کی آنکھیں کھول کر اب اپنی آنکھیں کیوں بند کر لیں؟‘‘
علامہ اقبالؒ کا سارا کلام پڑھنے کے بعد صرف ایک سیدھی سی بات انسان کی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ انسان زندگی میں چاہے کچھ اور کرے نہ کرے مگر اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو پہچانے اور ان سے کام لے۔

آپ یہ بھی پڑھیے

https://shanurdu.com/hazrat-ismael-se-hazrat-hussain-tak/

اللہ اور اس کے رسولﷺ سے عشق رکھے، اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھے اور اس پر عمل کرے۔ اگر وہ یہ سب کرتا ہے تو یقیناً وہ خدا کا پیارا بن کر اپنی تقدیر کا آپ مالک بن سکتا ہے۔
آج وہ ہم میں موجود نہیں لیکن ان کے افکار، ان کے اشعار اور ان کا تصوف زندہ ہے اور ہمیں بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔
اقبالؒ کی آنکھیں بند ہوئیں تو تمام دنیا کی مسلم قوم کی آنکھوں سے آنسو گِرنے لگے اور روشنی پھیلاتے گئے۔
پاکستان بھی اقبالؒ کی آنکھ سے ٹپکا ہوا ایک تابندہ آنسو ہے۔

You may also read

https://www.britannica.com/biography/Muhammad-Iqbal

٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles