میری پیاری آج جو باتیں مجھے تم سے کہنی ہیں انھیں غور سے سننا ۔ شاید یہ باتیں تمھیں مشکل لگیں ۔ شاید یہ تمھاری سمجھ میں ابھی نہ آئیں ۔ شاید تم انھیں احمقانہ سمجھو لیکن ایک بات یاد رکھنا
یہ باتیں تمھاری ماں کی زندگی کے کل تجربات کا نچوڑ ہے ۔ تمھاری ماں کوئی معلمہ نہیں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون نہیں ۔ لیکن تمھارے لیے وہ دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ ہے ۔
اگر اس درسگاہ سے حاصل کیا ہوا علم تمھیں ازبر نہ ہوسکا تو پھر دنیا کی عظیم ترین درسگاہیں بھی تمھیں ایک کامیاب انسان کبھی نہیں بنا سکتیں ۔
تمھاری زندگی میں حاصل کیے گئے ہر علم کی عمارت اسی بنیاد پہ کھڑی ہوگی جو تمھاری ماں نے بنائی ہے ۔
میری بچی ! زندگی ڈسپلن کا نام ہے ۔ لیکن ہم لفظ ” ڈسپلن ” کو کبھی سمجھ ہی نہیں پاتے ۔
تم نے کبھی کسی فوجی کو دیکھا ہے ؟ ان کی وردی کس قدر صاف ستھری ہوتی ہے ۔انکے جوتے تمھیں ہمیشہ چمکتے ہوئے ملیں گے ۔ انکے کندھے کبھی جھکے ہوئے نہیں دکھائی دیں گے ۔ انکی گاڑی پہ گرد دکھائی نہیں دے گی ۔ انکا ہر کام منظم ہوگا۔
ایسا صرف فوجیوں کے ساتھ کیوں ہوتا ہے ؟؟ ہم سب اتنے مستعد اور چوکس کیوں نہیں ہوسکتے ؟
اسکا سادہ اور آسان جواب یہ ہے کہ فوجیوں کی تربیت کی جاتی ہے انھیں ٹریننگ دے کر مستعد کیا جاتا ہے ۔ جب کہ ہم اس قدر تربیت یافتہ نہیں ہوتے ۔ ہم کاموں کو بس مارے باندھے کرنا سیکھتے ہیں ۔
آسان الفاظ میں سمجھاؤں تو سنو ۔
جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے ابا نے ہمیں کسی فوجی جوان کی طرح ٹرین کیا ۔
صبح فجر کے وقت ایک آواز پہ بستر چھوڑ دو ۔ بستر سے نکلتے ہی اپنا بستر تہہ کر کے اپنی جگہ پہ رکھ کے اپنے بستر کی چادر درست کر کے پانچ منٹ میں وضو کر کے ابا کے سامنے جائے نماز پہ آن کھڑے ہو ۔
نماز پڑھ کے قرآن کی تلاوت ابا کے سامنے کی جاتی ۔
اسکول کے لیے تیاری ایک الگ سے دشوار گزار مرحلہ تھا ۔ یونیفارم صاف ستھرا ہونا ازحد ضروری تھا ۔ ابا کی صورت گھر میں ایک پی ٹی آئی موجود تھا ۔ جو یونیفارم پہ موجود کسی ایک شکن کو بھی برداشت نہیں کرتے تھے ۔ ہر روز اسکول سے واپسی پہ یونیفارم اتار کے پھینک دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ یونیفارم اتارنے کے بعد اسے ہینگر میں لگا کے اپنی مقرر کردہ جگہ پہ رکھنے کے بعد عین اسی وقت اپنے بوٹ پالش کرکے موزے سرف میں بھگو کے ہاتھ منہ اچھی طرح دھو کر دسترخوان پہ بیٹھ جاتے ۔
کھانا کھا کے ظہر پڑھتے اور موزے سرف سے نکال کے نتھار لینے کے بعد دھوپ میں ڈال کے سوجاتے ۔ یہ قیلولہ فقط دو گھنٹے پہ محیط ہوتا ۔ پھر جاگ کے وضو بناتے قرآن پڑھتے اور عصر کی نماز پڑھ کے کھیل کود کا آغاز کرتے ۔
ہماری زندگی سوئیوں کی ٹک ٹک کے ساتھ گزرتی ۔ ہر کام میں ڈسپلن ہر کام پہلے سے پلان شدہ ترتیب کے مطابق انجام پاتا ۔
یہ سب لکھنے میں فقط دو منٹ لگے ہیں ۔ لیکن جب گرمیوں کی تپتی دوپہر میں آپ گھر میں داخل ہوں اور بھاگ کے پنکھے کی ٹھنڈی ہوا میں بیٹھ جانا چاہتے ہوں ۔ فوراً ٹھنڈا پانی پی لینا چاہتے ہوں ۔ تب آپ کو یہ ڈر لاحق ہو کہ یونیفارم پہلے ہینگ کرنا ہے ۔ حلق پیاس سے خشک ہے لیکن آپ بوٹ چمکا رہے ہیں ۔ تو جی چاہتا گھر چھوڑ کر کہیں بھاگ جائیں ۔
سردیوں کی برفیلی صبحیں جب آپ ایک آواز پہ اٹھنے کی بجائے کچھ دیر گرم بستر میں کسمسانا چاہتے ہوں اور ایک فوجی ڈکٹیٹر کا اس قدر رعب ہو کہ آپکو اپنے مخصوص وقت پہ بستر کی چادر بھی درست کرنی ہو اور جائے نماز پہ حاضر بھی ہونا ہو تو آپ اپنے ان تمام کزنز کو دنیا کے خوش نصیب ترین انسان سمجھتے ہیں جن کی زندگی میں ڈسپلن نامی کوئی بلا نہیں ہوتی ۔
جب آپ ایک پاکستانی نازک لڑکی ہوں اور لال بیگ کو دیکھ کے چیخ ماریں اور آپکے والد اس دن گھر میں موجود تمام لال بیگ آپ سے مروا کر آپکے ڈر کو ہمیشہ کے لیے بائی بائی کروا دیں تو آپ خود کو اس لمحے شدید مظلوم سمجھتے ہیں ۔
ڈسپلن سیکھنے کا ہر عمل ہر انسان پہ بے حد بھاری گزرتا ہے ۔ کیونکہ ایسا ہر کام اسکی نفس پہ تازیانہ ہوتا ہے ۔ نفس کچلنا آسان کہاں ہے ؟
ہم دیکھتے ہیں ایک بچہ ماں سے موبائل فون مانگتا ہے ماں نہیں دیتی تو بچہ رونے لگتا ہے ۔ ماں اسکے رونے سے فوراً متأثر ہوکر موبائل فون بچے کے ہاتھ میں پکڑا دیتی ہے ۔
اب اسی ماں کے برعکس ایک اور ماں ہے جو بچے کو بالکل واضح الفاظ میں یہ سمجھاتی ہے کہ موبائل فون قطعاً اسکے استعمال کی چیز نہیں ہے ۔ اور وہ اسے کھیلنے کے لیے کوئی متبادل کھلونا دیتی ہے ۔ یہ بچہ بھی روتا ہے لیکن اسکی ماں اسکے رونے پہ ہتھیار نہیں ڈالتی ۔ بلکہ بچے کو ڈسپلن سکھاتی ہے کہ ہر وہ چیز جو وہ مانگ رہا ہے صرف اسی صورت اسے ملے گی اگر وہ اسکے لیے مفید ہوگی ۔ ورنہ اسے دوسری چیزوں کو متبادل کے طور پہ استعمال کرنا ہوگا ۔
یہ دونوں بچے دو مختلف بچے بن جاتے ہیں ۔
اول الذکر بچہ جب بھی کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے رونا دھونا شروع کر دیتا ہے ۔ اور وہ چیز نہ ملنے کی صورت میں بھی واویلا مچائے رکھتا ہے ۔ یہی واویلا اسکی فطرتِ ثانیہ بن جاتا ہے ۔ اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں اس رویے کا عادی ہو جاتا ہے ۔
آخر الذکر کچھ الگ خصوصیات کا حامی ہوتا ہے ۔ وہ رونے دھونے کی بجائے صابر و شاکر رہتا ہے ۔ ایک چیز نہ ملنے کی صورت میں متبادل کو زندگی میں شامل کرتا ہے ۔ اور پراعتماد زندگی گزارتا ہے ۔
ہمیں اپنی زندگی کی فلاح کے لیے بھی ڈسپلن کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کوئی بھی کامیاب انسان کبھی بھی غیر منظم نہیں ہوسکتا کہ بس جدھر ہوا اڑا لے جائے ادھر کو چل پڑے ۔
اللہ نے بھی فلاح کی بات کر کے انسان کو اپنی صوابدید پہ نہیں چھوڑ دیا بلکہ ڈسپلن سکھایا کہ فلاح کیسے ملے گی ۔
نماز پڑھو فلاح مل جائے گی
اور صرف پڑھنی ہی نہیں خضوع و خشوع سے پڑھنی ہے ۔ پھر انکا محافظ بھی ہونا ہے
ہم کہتے ہیں خضوع و خشوع کیسے آئے ؟؟
ایک فوجی کمانڈو فوج میں شمولیت کے پہلے دن ہی کمانڈو نہیں ہوتا ۔ وہ اسکے لیے ٹریننگ حاصل کرتا ہے ۔ مجاھدہ کرتا ہے ریاضت کرتا ہے ۔ کبھی دریاؤں میں تیرتا ہے کبھی پہاڑوں پہ چڑھنے کی مشق کرتا ہے ۔ کبھی برفیلی وادیوں میں وقت گزارتا ہے تو کبھی تپتے صحراؤں میں ۔
وہ سانپوں کو پکڑ کر دانتوں سے ہلاک کر دیتا ہے ۔ وہ اپنی نگاہ تیز اور حواس بیدار رکھنے کی مسلسل مشق سے ایک کمانڈو بن جاتا ہے ۔
ہم سات سال کی عمر سے بچے کو نماز سکھاتے ہیں ۔ نماز کیا ہے ؟؟ بس وضو کرو اور جا کے مصلے پہ کھڑے ہو کے چند کلمات کہہ لو سلام پھیرو بات ختم ہو گئی نماز ؟؟
اور پھر ہم کہتے ہیں خضوع و خشوع نہیں آتا ۔
نماز ایک مستقل اور مسلسل ٹریننگ ہے ۔
ایک سپاہی کو آرڈر ملتا ہے تمھاری تعیناتی سیاچن میں ہوگئی ۔
شدید برف ۔ چہار سو برفانی تودے ۔ جہاں عام انسان کے لیے سروائیول ہی ممکن نہیں ۔ لیکن سپاہی وہاں جاتا ہے اپنی ڈیوٹی سنبھال کے اپنے فرائض پورے کرتا ہے ۔
عام انسان وہاں کیوں نہیں جا کے رہ سکتا ؟
کیونکہ وہ تربیت یافتہ نہیں ؟ بالکل یہی بات ہے لیکن ایک بات اور بھی ہے ۔ کیا ایک عام شخص جسمانی طور پہ اتنا فِٹ ہے جتنا ایک فوجی ؟؟
یعنی کسی بھی قسم کی ٹریننگ کے لیے جسمانی طور پہ مکمل صحت مند ہونا بھی ضروری ہے ۔ ۔
کیا نماز کے لیے بھی صحت مند ہونا ضروری ہے ؟
کیا نماز کے لیے بھی تربیت یا ٹریننگ کی ضرورت ہے ؟؟
کیا خضوع و خشوع ٹریننگ سے حاصل کرنا ممکن ہے ؟
زندگی رہی میری بیٹی تو ان شاء اللہ اگلے خطوط میں ان سب سوالات کے جوابات پہ بات ہوگی ۔ اپنی ماں کو دعاؤں میں یاد رکھنا ۔
اللہ تمھارا حامی و ناصر ہو آمین ۔