26 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

نمازوں کے محافظ

(نواں خط بہ ترتیب ویب سائٹ شان اردو)
امامیات ( مکاتیب ) ساتواں خط
بیٹی کے نام خط
میری پیاری
السلام علیکم !
تمھارے خط میں موجود تمھاری کیفیات اور بے چینی کو محسوس کر کے مجھے یک گو نہ سکون ملا ۔
میری بچی ہر وہ چیز جو بغیر طلب کے مل جائے اپنی اس قدر مسلم اہمیت نہیں رکھتی جتنی وہ شے اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس کے لیے ہمیں دست طلب دراز کرنا پڑتا ہے ۔
پچھلے کچھ عرصے سے میں مسلسل تمھاری توجہ ایک خاص نکتے کی طرف دلانے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
کہ فلاح کیا ہے ؟ اور یہ کیوں ضروری ہے ؟
فلاح کے معنی بعض بڑے لوگوں نے کچھ یوں بیان کیے ہیں کہ
” ہر تکلیف دور ہو جائے اور ہر مراد حاصل ہو “
یہ معانی پڑھ کر ہم حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر وہ چیز جس کی خواہش کی جائے وہ انسان کو حاصل ہو جائے اور ہر تکلیف جس نے اسے آزار میں مبتلا کر رکھا ہے وہ دور ہو جائے ۔
اگرایسا ہو جائے تو دنیا جنت ہو جائے گی ۔
لیکن دنیا بھلا جنت کیسے ہو سکتی ہے ؟؟ دنیا تو امتحان گاہ ہے ۔ اور جنت ایک ابدی مقام ۔
تو حقیقی فلاح بھی یقیناً اسی ابدی مقام کے حوالے سے ہے ۔ اور اس فلاح کے عام اثرات اس عارضی دنیا کی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔
جیسے ایک لائق بچے کا نتیجہ تو سال کے آخر میں ہی سنا کر اسے انعام دیا جاتا ہے لیکن اسکی لیاقت کی وجہ سے پورا سال وہ اسکول میں ممتاز رہتا ہے ۔ اساتذہ اور والدین کی آنکھ کا تارہ بنا رہتا ہے ۔
تو میری پیاری فلاح اس کامیابی کا نام ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم رہے ۔ اور اسکے اثرات آپکی عارضی و دائمی زندگی پہ مرتب رہیں ۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس فلاح کا حصول کیسے ممکن ہو ؟؟
میری بچی تم نے جواب درست دیا تھا لیکن اپنے جواب کی گہرائی اور حقیقت کو تم خود بھی نہیں پا سکی ۔
فلاح پانے والے تو بلاشبہ مومن ہیں ۔ یعنی جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں ۔
لیکن فقط ایمان لانے سے فلاح بھی مل جائے گی کیا ؟؟
نہیں میری بچی ۔ ایمان تو ایڈمیشن ہے داخلہ ہے اس مکتب کا ۔ اب نصاب پڑھنا پڑے گا امتحان دینا پڑے گا تب ہی تو نتیجہ آئے گا ۔
اور پھر میری جان تمھیں جو مشکل نصاب تھمایا گیا تم اس میں الجھ گئی
۔
ہاں ہر انسان الجھ جاتا ہے کہ نصاب پڑھنا کبھی بھی کسی بھی درجے میں آسان نہیں ہوا کرتا ۔
تم نے اس نوجوان کو دیکھا ہے جو فوج میں جانے کا جذبہ رکھتا ہے ۔؟؟
فوج وہ ادارہ ہے جہاں آپ کو ادب آداب’ نظم و ضبط ‘ صف بندی اصول و ضوابط کا پابند کیا جاتا ہے ۔ تو اس جوان کو یہ سبھی اصول سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
تم نے پوچھا تھا نا کہ فلاح پانے والے تو وہ ہیں جن کی نمازوں میں خشوع و خضوع ہے تو خضوع کیسے آئے ؟؟؟
فوکس کرنا مشکل ہے ۔ ارتکاز بار بار ٹوٹتا جاتا ہے ۔
نماز ادا کر لینا اور نماز کو مومن کی معراج بنا لینا دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔
فلاح کے باب میں دو قسم کے ڈسپلن کا ذکر کیا گیا ہے ۔
اول وہ جو نمازوں میں خشوع و خضوع رکھنے والے ہیں ۔
اور پھر صرف اسی پہ اکتفا نہیں بلکہ اپنی نمازوں کے محافظ ہیں ۔ سیکیورٹی گارڈ ۔
اب یہ خشوع و خضوع  آئے گا کیسے ؟؟
میری بچی ! تم نے کہا تھا کہ زندگی میں ایک آدھ مرتبہ تم اس کیفیت کے سرور سے گزری ہو جہاں نماز مومن کی معراج ہو جاتی ہے ۔ اس مقام پہ جہاں دل اور دماغ ہلکے پھلکے ہو کر ہر بوجھ سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔اور انسان کو عبادت میں لطف آنے لگتا ہے ۔
ایسی ہی کیفیت کے لیے تو سوال کیا گیا ہو گا
کہ کیا اللہ کے ذکر سے تمھارے دلوں کوسکون نہیں ملتا ؟
یہ وہ سکون ہوتا ہے کہ ہزاروں مسائل منہ پھاڑے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ۔ لیکن دل مضبوط چٹان بنا مسکرا  کے ان سے نبرد آزما ہو جاتا ہے ۔
اس کیفیت کا حصول کیسے ممکن ہو ؟؟
یہ آسان تو نہیں ۔ یہ بازار میں ملنے والی سکون کی دوا تو نہیں کہ جیب میں پیسے ہوں تو جا کے خرید لائیں ۔ نہ ہی ڈرگز ہیں کہ ذرا پریشان ہوئے تو جیب سے سگریٹ نکال لی یا الکحل پی لیا اور پریشانیوں سے کٹ کر کچھ لمحوں کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے حقیقت سے نظر چرا لی اور خود کو کسی اور دنیا میں محسوس کرنے لگے ۔ ہواؤں کے سنگ اڑتے ہوئے زمینی حقائق سے منہ موڑ کے مسائل بڑھاتے رہیں ۔ اور جب نشہ اترے تو حالات پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہو چکے ہوں ۔
میری بچی ! حالات کا سامنا کرنا ہی اصل ہمت اور جواں مردی ہے ۔ اور جواں مرد ہونے کے لیے دل و دماغ کا نہ صرف پرسکون ہونا ضروری ہے بلکہ ان کی لگاموں کا آپ کے ہاتھ میں ہونا بھی اشد ضروری ہے ۔
نشہ آپکو ہواکے دوش پہ اڑا کے کچھ لمحے کو ذہنی سکون دے سکتا ہے ۔ لیکن یہ آپ کو آپکی ذات کا استحکام کبھی بھی نہیں بخش سکتا ۔
اور وہ چند لمحوں کا ذہنی سکون ہوش کی دنیا میں آنے کے بعد مزید وحشت اور بے سکونی سے دو چار کر دیتا ہے ۔ اور انسان ہمہ وقت سہارے کی تلاش میں سرگرداں زندگی کے اندھیروں میں گم رہنے لگتا ہے ۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ زینہ بہ زینہ کامیابی کی منزل طے کرتے جائیں اور سفر میں راستے روشن اور روح پر سکون رہے ۔ دل و دماغ ہلکے ہوں اور ان پہ آپکی گرفت مضبوط رہے تو جھوٹے سہاروں سے پیچھا چھڑا نا ناگزیر ٹہرے گا ۔
یہ سب ہو گا کیسے ؟؟ نمازوں میں خشوع سے اور نمازوں کے محافظ بن کے ۔
یہی سے پریشانی کا آغاز ہوتا ہے کہ نماز میں خشوع کیسے آئے ؟؟
میں نے امام صاحب سے سوال کیا تھا کہ نمازمیں خشوع کیسے آئے گا ؟
انھوں نے جو جواب دیا تھا اس نے مجھے مزید الجھا دیا تھا ۔
” کہ یہ تو محض اللہ کا فضل ہے “
میں سوچتی تھی کہ ایک ایسی شے جس پہ ہمارا اختیار ہی نہیں وہی ہماری فلاح کی کنجی کیسے ہو سکتی ہے ؟؟
دنیا کی تو ہر شے اللہ کے فضل کے سبب ہے ۔ چاہے وہ رزق ہے اولاد ہے خودزندگی ہے یا کوئی بھی کام ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کے حصول کا راستہ تو دکھا رکھا ہے ۔ کہ یہ راہ ہے اس پہ چلو اور جو حاصل کرنا چاہتے ہو کر لو ۔
پھر کیسے ممکن ہے کہ خضوع و خشوع کے حصول کا طریقہ کار نہ سکھایا گیا ہو ؟؟
اس سوال کے جواب نے مجھے بھی ان ہی بے چینیوں کا شکار کیا اسی آزار میں مبتلا رکھا جس میں تم نے خود کو محسوس کیا تھا ۔
میری پیاری ! جب بھی تمھیں خط لکھتی ہوں بات اس قدر طویل ہو جاتی ہے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔
ابھی نماز کا وقت ہونے والا ہے اور پھر تمھاری نسل لمبی تقریر کو پسند بھی تو نہیں کرتی نا ۔
تو اب اجازت دو ۔ اگلی دفعہ جب خط لکھوں گی تو بتاؤں گی کہ مجھے اس طریقے کو سیکھنے کے لیے کن مشکلات سے گزرنا پڑا ۔
بھلا طلب کے بغیر بھی کبھی ثمر ملتا ہے ؟؟؟
تمھاری طلب ہوئی تو تم بھی ضرور سیکھ جاؤ گی ۔ اور اپنے دل میں طلب کی شمع نہ جلتی ہو تو ماں کے دل میں پھیلی روشنی بیٹی کے دل میں اجالا کرنے سے قاصر ہے ۔
ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دلوں کے چراغ خود ہی روشن کرنے ہونگے ۔
والسلام ۔
تمھاری اماں
سمیرا امام
۱۷ دسمبر ‘ ۲۰۱۹

پیاری دوستو !
کچھ وقت ادھر ہم نے خطوط لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یہ خطوط ہمارے والدِ محترم کی ہم سے کی گئی ان کی تمام عمر کی نصیحتیں تھیں ۔ زندگی کے ہر مرحلے پہ جب ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں ہمارے کانوں میں مرحوم والد کی آوازیں گونجتی ہیں ان کے ہمت بھرے جملے ہمارے کاندھے تھپتھپاتے ہیں ۔ اور ہم اپنے عزم اور حوصلے کو بلند کر کے دوبارہ اسی جوش اور جذبے سے جُت جاتے ہیں ۔
ہمارے والد کا شمار ان والدین میں سے تھا جو شاہین کی طرح اپنے بچے کو پہاڑ کی چٹان پر سے گرا کر انکو اپنے پر کھولنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہوتے ہیں ۔
انکا لاڈ اور پیار فقط یہ تھا کہ خود اڑو ۔ وہ اڑنے کے لیے ہمیں حوصلہ دے سکتے تھے ۔ ہمت بندھا سکتے تھے لیکن اڑانے میں کوئی مدد نہ کرتے اس وقت وہ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیتے ۔
اور ہم غصے سے ایسی اڑان بھرتے کہ خود ہمیں بھی یقین نہ آتا ۔ کہ ہم اس قدر بلند پرواز بھر چکے ہیں ۔
بے جگری ، بے خوفی ، نڈر اور بے باکی سے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا انھوں  نے سکھایا ۔
انکی زندگی میں ہم چیتے کا جگر رکھتے ۔ انکی موت سے لگا ہم کمزور ہو گئے ۔ لیکن انکی آواز کانوں میں گونجتی ۔
جھکنا مت ۔
ڈرنا نہیں ۔
اصولوں پہ ڈٹ جاؤ تو سر کٹوا لینا ۔
اپنا وعدہ نبھانا ۔
اپنی زبان سے کبھی مت پھرنا ۔
اور ہم اسی جوش اور جذبے سے آگے بڑھتے ۔
ان خطوط میں اگر کچھ اچھی باتیں ہیں تو وہ بابا کی کہی گئی ہیں ۔ اگر کچھ کمزوریاں ہیں تو وہ میری ذات کی ہیں ۔
اگر آپکو ان سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میرے والد کی مغفرت کے لیے دعا کر دیجیے گا ۔
ان خطوط کو بہت سی بہنوں نے سراہا ۔ کئی بہنوں نے اپنی پیاری بچیوں کو جہیز کے تحفے کے طور پہ یہ خطوط دئیے ۔ کئی بہنوں نے ان کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کر کے اپنے دلوں کے حال سنائے ۔
ان خطوط نے بہت عزت دی حالانکہ یہ فقط اپنی یاد دہانی کے لیے لکھے گئے تھے ۔ مجھے لگتا میری اولاد کو کون بتائے گا کہ زندگی کیسے گزارنے کی ضرورت ہے ؟؟
انکے نانا دنیا سے جا چکے ۔ وہ نانا جو تب تک تحمل سے سمجھایا کرتے جب تک کسی بات کو عادت ثانیہ نہ بنا لیتے ۔
جزاک اللہ خیرا
سمیرا امام

 

 

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles