25 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

مطلوبہ اہداف

(ساتواں خط بہ ترتیب ویب سائٹ شان اردو)
امامیات (مکاتیب) ( خط نمبر۵)
میری پیاری !
سلامتی و فضل ہمیشہ تم پہ نازل ہو ۔
کبھی کبھار اپنی ہی اولاد کو وہ سب ضروری باتیں جو انکی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں ‘ بتاتے ہوئے انسان خود ان تمام تجربات کو جن سے وہ خود گزر چکا ہوتا ہے از سر نو یاد کرتے ہوئے تھکن سے چور ہو جاتا ہے ۔
انسانوں میں مختلف قسم کے انسان ہوتے ہیں ۔ کچھ ایسے جنہیں خود اپنی ذات پہ کسی قسم کا کوئی قابو (کنٹرول) نہیں ہوتا ۔ اور انکی ڈوریں ہمیشہ دوسروں کے ہاتھ میں رہتی ہیں ۔ وہ نہ تو اپنے دل و دماغ کو کسی ایک نکتے پہ یکجا کر پاتے ہیں نہ ہی دل یا دماغ دونوں میں سے کسی ایک کی سن لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اور کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی ذات پہ قابو پانے کا بہترین ہنر آتا ہے ۔ ایسے افراد کی شخصیات مکمل اور کمپوز ہوتی ہیں ۔
بچپن میں آپ سب بچے اکثر ایک کھیل کھیلا کرتے تھے ۔ ایک سادہ صفحہ لے کر اسکے بالکل وسط میں ایک نکتہ ڈالتے اور پھر سب وقت نوٹ کرتے کہ کس نے کتنی دیر تک اس نکتے پہ نظریں جمائے رکھیں ۔ جو بچہ زیادہ دیر تک نگاہوں کے ارتکاز کو ٹوٹنے نہیں دیتا تھا وہ ہی فاتح کہلاتا ۔
ایسے کھیلوں کو دماغ پہ کنٹرول حاصل کرنے والے کھیل تصور کیا جاتا تھا ۔
ارتکاز ہی وہ واحد اصول ہے میری بچی جس کی مستقل مشق سے آپ دل و دماغ دونوں کو ایک نکتے پہ یکجا کرکے مطلوبہ اہداف حاصل کر سکتے ہیں ۔
لیکن یہ ارتکاز حاصل کیسے کیا جائے گا ؟
میری پیاری بیٹی میں نے تم سے کہا تھا کہ زندگی میں فلاح بے حد ضروری ہے ۔ اور فلاح مشقت کے بعد ملنے والی نشاط انگیز کامیابی ہے ۔
میری شہزادی ! آج میں تمھیں ایک کہانی سناؤنگی ۔
گو میں بہت پڑھی لکھی خاتون نہیں لیکن تمھاری ماں ہونے کی حیثیت سے اپنی پیاری بچی کو چند ایسی کہانیاں ضرور سنانا چاہتی ہوں جنہوں نے زندگی کے سفر میں میری مٹھی میں وہ جگنو تھما دیے کہ جب اندھیرا بہت بڑھ جائے تو میں مٹھی کھول کے جگنوؤں کی روشنی سے دل بہلا سکوں۔ اور تاریکی کی بجائے وہ جگنو میری توجہ کا مرکز رہیں ۔
تو کہانی کا آغاز ہوتا ہے دنیا کے سب سے پیارے شخص سے ۔ جن کا تعلق بہترین خاندان سے تھا ۔ لیکن یتیمی و یسیری سے بھر پور بچپن گزارا ۔
اور جب اللہ نے دنیا کے اس سب سے پیارے انسان کو نبوت دی تو اُنکے گنتی کے چند ساتھی جنہوں نے انکی حقانیت کو تسلیم کیا وہ زمانے والوں کے ہاتھوں شدید تکالیف سے دوچار ہوئے ۔
پیاری بچی یہ تکلیف سہنے والے معاشرے میں خود کو بالکل ویسے ہی تنہا اور اکیلا محسوس کرتے تھے جیسے تم خود کو کرتی ہو ۔ ان لوگوں کے درمیان جو دنیا کی حُب میں مبتلا تھے ۔ جنہیں دنیا کی جاہ و حشمت ‘ دولت وحکمرانی عزیز تھی اور ان ہی سب چیزوں کو وہ زندگی کا مطمع نظر خیال کرتے تھے ۔ ان سب کے بیچ وہ ان سے مختلف اور اکیلے تھے ۔
ان لوگوں میں وہ چند گنے چنے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو نہ تو دولت رکھتے تھے نہ ہی سردار تھے نہ ان سب چیزوں کی محبت میں اللہ کے رسول کی اتباع کر رہے تھے وہ بھی مصائب زمانہ سے گھبرا جایا کرتے ۔
رؤسائے کفار انھیں حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے ۔
وہ دُکھی ہوجاتے تب اللہ نے ان پیارے اصحاب کو خوش خبری دی ۔
اللہ کیسی عظیم ہستی ہے میری بچی جس نے انسانوں کے جذبات کا کیسا خیال رکھا کہ جب انھیں ضرورت تھی کہ کہیں وہ خود کو کمتر نہ سمجھنے لگیں تب اللہ نے انکا مورال بلند کر ڈالا
اور ان کو پیغام دیا ۔ کہ یہ کفار کی جاہ و حشمت یہ کامیابی نہیں ہے ۔ یہ ” فلاح ” نہیں ۔
بلکہ فلاح پانےوالے تو کوئی اور ہیں ۔
بھلا وہ فلاح پانے والے کون ہونگے میری بچی ؟؟ وہ تمھاری نظر میں کون ہو سکتے ہیں ؟ اور کن کوہوناچاہیے ؟
میں چاہتی ہوں جب میں تمھیں ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فلاح کی کہانی سناؤں تو اس سے پہلے میں تمھارا نظریہ جان لوں ۔
میری پیاری بیٹی کی نظر میں فلاح کیا ہے ؟
اور میرے رب نے کن کو فلاح پانے والے قرار دیا ؟
تھوڑے کو بہت اور تار کو خط جانو ۔ جواب جلد دینے کی کوشش کیا کرو پیاری ۔ اماں کو بیٹی کے خط کا انتظار رہتا ہے ۔
اللہ تمھیں فلاح پانے والوں میں سے کر دے آمین ۔
فقط تمھاری اماں
سمیرا امام

پیاری دوستو !
کچھ وقت ادھر ہم نے خطوط لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یہ خطوط ہمارے والدِ محترم کی ہم سے کی گئی ان کی تمام عمر کی نصیحتیں تھیں ۔ زندگی کے ہر مرحلے پہ جب ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں ہمارے کانوں میں مرحوم والد کی آوازیں گونجتی ہیں ان کے ہمت بھرے جملے ہمارے کاندھے تھپتھپاتے ہیں ۔ اور ہم اپنے عزم اور حوصلے کو بلند کر کے دوبارہ اسی جوش اور جذبے سے جُت جاتے ہیں ۔
ہمارے والد کا شمار ان والدین میں سے تھا جو شاہین کی طرح اپنے بچے کو پہاڑ کی چٹان پر سے گرا کر انکو اپنے پر کھولنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہوتے ہیں ۔
انکا لاڈ اور پیار فقط یہ تھا کہ خود اڑو ۔ وہ اڑنے کے لیے ہمیں حوصلہ دے سکتے تھے ۔ ہمت بندھا سکتے تھے لیکن اڑانے میں کوئی مدد نہ کرتے اس وقت وہ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیتے ۔
اور ہم غصے سے ایسی اڑان بھرتے کہ خود ہمیں بھی یقین نہ آتا ۔ کہ ہم اس قدر بلند پرواز بھر چکے ہیں ۔
بے جگری ، بے خوفی ، نڈر اور بے باکی سے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا انھوں  نے سکھایا ۔
انکی زندگی میں ہم چیتے کا جگر رکھتے ۔ انکی موت سے لگا ہم کمزور ہو گئے ۔ لیکن انکی آواز کانوں میں گونجتی ۔
جھکنا مت ۔
ڈرنا نہیں ۔
اصولوں پہ ڈٹ جاؤ تو سر کٹوا لینا ۔
اپنا وعدہ نبھانا ۔
اپنی زبان سے کبھی مت پھرنا ۔
اور ہم اسی جوش اور جذبے سے آگے بڑھتے ۔
ان خطوط میں اگر کچھ اچھی باتیں ہیں تو وہ بابا کی کہی گئی ہیں ۔ اگر کچھ کمزوریاں ہیں تو وہ میری ذات کی ہیں ۔
اگر آپکو ان سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میرے والد کی مغفرت کے لیے دعا کر دیجیے گا ۔
ان خطوط کو بہت سی بہنوں نے سراہا ۔ کئی بہنوں نے اپنی پیاری بچیوں کو جہیز کے تحفے کے طور پہ یہ خطوط دئیے ۔ کئی بہنوں نے ان کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کر کے اپنے دلوں کے حال سنائے ۔
ان خطوط نے بہت عزت دی حالانکہ یہ فقط اپنی یاد دہانی کے لیے لکھے گئے تھے ۔ مجھے لگتا میری اولاد کو کون بتائے گا کہ زندگی کیسے گزارنے کی ضرورت ہے ؟؟
انکے نانا دنیا سے جا چکے ۔ وہ نانا جو تب تک تحمل سے سمجھایا کرتے جب تک کسی بات کو عادت ثانیہ نہ بنا لیتے ۔
جزاک اللہ خیرا
سمیرا امام

 

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles