21 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

اُونچی اُڑان

(پانچواں خط بہ ترتیب ویب سائٹ شان اردو)
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۳
پیاری اماں کے لیے خط (۱)
پیاری اماں !
السلام علیکم !
اماں ! آپ نے میری خیریت پوچھی تھی اور اس خیریت کے جواب میں میرا دل چاہتا ہے کہ بس کچھ دیر کے لیے اڑ کر آپ کے پاس آ جاؤں اور آپ مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیں ۔
اماں ! مجھے لگتا ہے آپ بہت ظالم ماں ہیں ۔ جیسے ہی میں یہ سوچتی ہوں کہ آپ ظالم ماں ہیں۔ اسی وقت مجھے یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید میں ایک فرماں بردار بیٹی نہیں ۔
اپنے گھر سے دور ایک انجان شہر انجان لوگوں میں رہتے ہوئے جب میں آپ کے اونچے آدرشوں بھرے خط پڑھتی ہوں تو گھٹن کا احساس بڑھنے لگتا ہے ۔
پیاری اماں ! آپ کو سوچوں تو لگتا ہے جو آپ کہتی ہیں وہی درست ہے اور دنیا کا چلن دیکھوں تو یہی درست لگتا ہے ۔
میری دوستیں مجھے کچھ زیادہ پسند نہیں کرتیں ۔ ان کا خیال ہے کہ میں بہت زیادہ ” آؤٹ ڈیٹڈ ” ہوں ۔ اور مجھے زندگی گزارنے کا چلن نہیں آتا ۔ وہ کہتی ہیں یہی وقت ہے زندگی سے لطف اٹھانے کا ۔ chill کرو
اور میں جو خود بھی chill کرنا چاہتی ہوں ، مجھے اس chill کا طریقہ ہی نہیں آتا ۔ مجھے لگتا ہے میں اپنی دنیا کے انسانوں جیسی نہیں ہوں ۔ آپ کی باتیں خوب صورت ہیں لیکن ان پہ عمل کرنا بے حد مشکل ہے ۔ میں ان سب باتوں کو اپنانا چاہتی ہوں لیکن ان کو اپنانے کے چکر میں میں اپنے مدار میں تنہا رہ جاتی ہوں ۔
جب میں اپنے اردگرد دیکھتی ہوں سب اس دائرے سے نکل کر دور جا چکے ہوتے ہیں ۔ اور میں وہیں کہیں اس دائرے کے اندر موجود اکیلی کھڑی خود سے دور جانے والوں کو تکا کرتی ہوں ۔
آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ تعلیم کو زندگی کا محور و مقصد سمجھنا ۔ اور مقصدپہ فوکس رکھنا ۔
اماں ! مجھے لگتا ہے میں نہ تو زندگی پہ فوکس قائم رکھ پا رہی ہوں نہ ہی مقصد پہ ۔
اور مجھے ان سب امتحانوں سے نبٹنے کا طریقہ بھی شاید نہیں آتا ۔
کل میں اپنی دوستوں کے ساتھ سردیوں کے لیے کچھ ضروری اشیاء کی خریداری کرنے ایک قریبی مال گئی ۔
جانے کتنی دیر وہ سب وہاں گھومتی رہیں ۔ کتنے کپڑے ان کے شایانِ شان نہیں تھے اور کتنے ہی جوڑوں کو انھوں نے اپنے قابل سمجھا ۔ رنگ و بو کا ایک سیلاب تھا جس میں وہ خوش تھیں چہلیں کرتی اسے زندگی سے لطف اٹھانا خیال کرتی تھیں ۔
اور میں سوچ رہی تھی کہ کسی دن اماں سے سوال ضرور پوچھوں گی کہ آخر یہ اونچی اڑان اڑتے شاہین کس برانڈ کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔
اماں ! یہ پرندے کیسے خوش نصیب ہیں نا ان کی فکروں اور ہمارے تفکرات میں کیسا واضح فرق ہے ۔ وہ جانتے ہیں ان کے اہداف کیا ہیں ۔ جب کہ ہم آئے روز اپنے لیے کسی نئے ہدف ( goal ) کو پسند کرتے ہیں ۔ ہمارے اندر یہ خیر و شر کی جنگ بڑی تکلیف دہ ہے اماں ۔ اس جنگ کو لڑنا اور اس میں فتح یاب ہونا بے حد مشکل ۔ تبھی آپ کی باتیں میری گھٹن بڑھا دیتی ہیں ۔
خود جنگ لڑنا اور کسی سے جنگ لڑنےکا کہنا دو الگ الگ باتیں ہیں پیاری ماں ۔ مجھے لگتا ہے شاید میں اس جنگ کی فاتح نہیں بن پاؤں گی ۔ کیا آپ اپنی شکست خوردہ بیٹی کی شکست تسلیم کر لیں گی ؟؟
وہی بیٹی اماں جو رات کو اپنی دوستوں سے کہتی ہے آج ہم  نے پورا دن بے مقصد گزارا ۔ جانے کتنے گھنٹے تن بدن کے سنوارنے سجانے کے اوزاروں کی دیکھ بھال میں گزارے ۔ اور کتنے ہی فتنوں کا شکار ہوئے ۔ تو وہ مجھ سے ناراض ہو گئیں ۔ اب بھی ناراض ہیں ۔
پیاری اماں ! اکیلے زندگی گزارنا بے حد مشکل ہے ۔ میرا جی چاہتا ہے میں اپنی ان ہی سہیلیوں کے رنگ میں رنگ جاؤں ۔ کہ جب میں ان کی نظروں میں اپنے لیے طنزیہ ہنسی دیکھتی ہوں تو مجھے نہایت شرمندگی ہوتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے یہ سب جو کہتی ہیں اسے مان کر مجھے ان کی محبت اور پسندیدگی مل جائے گی ۔
پیاری اماں زندگی میں اپنی ذات کو ڈگمگانے سے بچا لینے کا ڈھنگ ابھی شاید میں سیکھ رہی ہوں ۔ اور یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ امر ہے۔
امید ہے آپ کی زندگی میں وہ کمزور لمحات ضرور آئے ہوں گے جب بلند پروازی سے تھک کر گر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ جب آپ کو لگا ہو کے دنیا میں کتنی مخلوق ایسی ہے جو بلند پرواز نہیں لیکن اسی دنیا کا حصہ ہے اور بہت آرام اور سکون سے زندگی گزارے جا رہی ہے ۔ پھر آخر ان آسمانوں کی وسعتیں چھو لینے والوں کے وجود میں بھرے پارے کے کیا معنی ہیں ۔ یہ کیونکر اپنے بازوؤں کی تمام قوت کو بروئے کار لائے خود کو مشقت کی چکی میں پیستے چلے جاتے ہیں ۔
پیاری اماں فلاح مشقت کے بعد ملنے والی کامیابی ہے ۔ اس فلاح کا حصول کیونکر ممکن ہے ؟؟
اور کامیابی کے شارٹ کٹ آخر کیوں نہیں ہوا کرتے ؟؟
یہ فلاح اس قدر مشکل کیوں ہے ؟؟
جوابات کی منتظر
آپکی بیٹی ۔
سمیرا امام
۶ نومبر ‘ ۲۰۱۹

پیاری دوستو !
کچھ وقت ادھر ہم نے خطوط لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یہ خطوط ہمارے والدِ محترم کی ہم سے کی گئی ان کی تمام عمر کی نصیحتیں تھیں ۔ زندگی کے ہر مرحلے پہ جب ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں ہمارے کانوں میں مرحوم والد کی آوازیں گونجتی ہیں ان کے ہمت بھرے جملے ہمارے کاندھے تھپتھپاتے ہیں ۔ اور ہم اپنے عزم اور حوصلے کو بلند کر کے دوبارہ اسی جوش اور جذبے سے جُت جاتے ہیں ۔
ہمارے والد کا شمار ان والدین میں سے تھا جو شاہین کی طرح اپنے بچے کو پہاڑ کی چٹان پر سے گرا کر انکو اپنے پر کھولنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہوتے ہیں ۔
انکا لاڈ اور پیار فقط یہ تھا کہ خود اڑو ۔ وہ اڑنے کے لیے ہمیں حوصلہ دے سکتے تھے ۔ ہمت بندھا سکتے تھے لیکن اڑانے میں کوئی مدد نہ کرتے اس وقت وہ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیتے ۔
اور ہم غصے سے ایسی اڑان بھرتے کہ خود ہمیں بھی یقین نہ آتا ۔ کہ ہم اس قدر بلند پرواز بھر چکے ہیں ۔
بے جگری ، بے خوفی ، نڈر اور بے باکی سے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا انھوں  نے سکھایا ۔
انکی زندگی میں ہم چیتے کا جگر رکھتے ۔ انکی موت سے لگا ہم کمزور ہو گئے ۔ لیکن انکی آواز کانوں میں گونجتی ۔
جھکنا مت ۔
ڈرنا نہیں ۔
اصولوں پہ ڈٹ جاؤ تو سر کٹوا لینا ۔
اپنا وعدہ نبھانا ۔
اپنی زبان سے کبھی مت پھرنا ۔
اور ہم اسی جوش اور جذبے سے آگے بڑھتے ۔
ان خطوط میں اگر کچھ اچھی باتیں ہیں تو وہ بابا کی کہی گئی ہیں ۔ اگر کچھ کمزوریاں ہیں تو وہ میری ذات کی ہیں ۔
اگر آپکو ان سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میرے والد کی مغفرت کے لیے دعا کر دیجیے گا ۔
ان خطوط کو بہت سی بہنوں نے سراہا ۔ کئی بہنوں نے اپنی پیاری بچیوں کو جہیز کے تحفے کے طور پہ یہ خطوط دئیے ۔ کئی بہنوں نے ان کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کر کے اپنے دلوں کے حال سنائے ۔
ان خطوط نے بہت عزت دی حالانکہ یہ فقط اپنی یاد دہانی کے لیے لکھے گئے تھے ۔ مجھے لگتا میری اولاد کو کون بتائے گا کہ زندگی کیسے گزارنے کی ضرورت ہے ؟؟
انکے نانا دنیا سے جا چکے ۔ وہ نانا جو تب تک تحمل سے سمجھایا کرتے جب تک کسی بات کو عادت ثانیہ نہ بنا لیتے ۔
جزاک اللہ خیرا
سمیرا امام

 

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles