16 C
Lahore
Friday, December 6, 2024

Book Store

خود کو سنواریں

خود کو سنواریں

بہت سی بچیاں بہت سے نازیبا رویوں کی شکایت کرتی ہیں ۔
سسرال میں ساس سسر سے شاکی رہنا ۔
ورک پلیس پر باس کی شکایات
یا
پھر کہیں پر بھی ان رویوں سے سامنا جہاں دوسرے آپ کی حق تلفی کرتے ہیں اور آپ خاموش بُت بنے سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ آیا اس ظلم کا جواب خاموشی ہو یا آواز اٹھانا ۔
میرے مشاہدے میں کچھ ایسی چیزیں جنہیں میں سمجھتی ہوں کہ بہت سی خرابیوں کی جڑ ہیں ۔ میں فرداً فرداً ان کا تذکرہ کرنا چاہوں گی ۔
میں نے اپنے بیٹے ماحِِ کو گھر کی چابیاں پکڑائیں اور کہا انھیں حفاظت سے رکھنا ۔ اگر یہ کھو گئیں تو ہم گھر میں داخل نہیں ہو پائیں گے ۔
تب سے آج تک ماحِِ کو ان چابیوں کی حفاظت کا خیال رہتا ہے ۔ اور وہ ہمہ وقت ان کی فکر میں ہلکان ہوتا رہتا ہے کہ یہ گم نہیں ہونی چاہیئیں ۔
جس روز میرے میٹرک کلاس کے نتیجے کا اعلان ہوا ، اس روز ابا نے مجھے ایک فائل خرید کر دی اور کہا،  آج سے اپنے تمام ضروری اور اہم کاغذات اس میں سنبھال کر رکھنا ۔
اب آپ سمجھ دار ہیں اور سمجھ دار انسان کو ذمے دار ہونا پڑتا ہے ۔
کئی دن تک یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ فائل کو آخر کس محفوظ مقام پر سنبھال کر رکھا جائے ۔
کبھی الماری میں رکھی جاتی تو خیال آتا کہ مشترکہ الماری ہونے کی بدولت ہماری بہن نے اگر فائل ادھر ادھر کر دی تو ہمارا بہت بڑا ناقابل تلافی نقصان ہو جاۓگا ۔
لہذا محفوظ سے محفوظ مقام کا تعین کرنے کی کوشش جاری رہتی ۔
لیکن ذمےداری کا سبق ہم اس سے بہت پہلے سیکھ چکے تھے ۔
جب ہم سے یہ کہا گیا تھا کہ اسکول سے واپس آنے کے بعد اپنے جوتے پالش کر کے رکھنے ہیں۔ اپنا یونیفارم ٹانگ کے رکھنا ہے ۔ اس کے بعد کھانے کی میز پر آنا ہو گا ۔
تو اس دن سے آج تک یہ احساس دل میں جڑ پکڑ گیا کہ اپنا کام کرنا خود ہماری ذمے داری ہے ۔
لیکن کیا صرف اپنا ہی کام کرنا ہماری ذمے داری ہے ؟
یہاں ہماری والدہ نے ہمارے دماغ میں ایک بات راسخ کی ۔ کہ جو نیکی کر سکو اس کے لیے کبھی بھی انکار مت کرنا ۔ نیکی کرتے ہوئے اپنے فائدے اور نقصان سے بے نیاز ہو جانا ۔
جو لوگ دوسروں کے کسی کام آتے ہیں، وہ اللہ کی دی گئی توفیق ہوتی ہے ۔ اور جو کسی کے کام کو کرنے کی استطاعت کے باوجود انکار کر دیتے ہیں، وہ اللہ کی دی گئی توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں ۔
یہ ذمے دار بننے اور دوسروں کے کام آنے کے کچھ اولین سبق تھے جنہیں گھٹی میں ڈالا گیا ۔
ایک وقت تک ان دو خصوصیات کی اہمیت کا احساس تک نہ تھا ۔
لیکن پھر سمجھ آئی کہ یہ کتنی اہم بات ہے کہ اسے اپنےبچوں کو بھی سکھایا جائے ۔
سسرالی معاملات میں جب بچیاں رویوں کی شکایت کرتی ہیں ۔ ورک پلیس پر شکایات کا ہونا ۔
تو یہاں کچھ چیزوں کو سمجھ لیجیے ۔
ہم اپنے بچوں کو ذہنی طور پر بالغ کرنے کی بجائے اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ یہ تو لاڈلے ہیں ۔ اور تیس سال کے نوجوان کو بھی منا منی سمجھا جاتا ہے ۔
منا منی کو ذمے داریوں کے قابل بنانے کی بجائے پچکار پچکار کر انکو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ کام کرنے سے انسان کی شان گھٹتی ہے ۔
اور یہ کہ کام کرنا تو ان کا کام ہے جن کا کوئی ہو نہ ۔
منی کی امی اور بڑی باجی ابھی زندہ ہیں منی کا کام کریں گی ۔ اچانک سے منی اور بڑی باجی کا رشتہ آگے پیچھے جھٹ پٹ طے ہو جاتا ہے ۔
منی پنگھوڑے سے نکلتے ہی رومان کے پرستان میں پہنچ جاتی ہیں ۔
شادی ہمارے ہاں کی کم سن بچیوں کے لیے نئے خوبصورت لباس ‘ زیورات ‘ من پسند شاپنگ ‘ اپنا ذاتی کمرا اور ایک عدد ایسے ہیرو کا نام ہے جو ہمہ وقت آپ کے حسن جہاں سوز کی تعریف کرے ۔ آپ کے لیے رومان بھرے گیت گائے ۔ شاہ رخ خان بن کر ساحلِ سمندر پر بانہیں پھیلائے اور منیاں ننھیاں ہوا کے دوش پہ سفر کریں ۔
ایک حد تک تو شروع شروع میں لڑکے بھی اسی چکر میں رہتے ہیں لیکن چونکہ ان پر معاش کی ذمے داری اور کچھ لڑکوں کا پریکٹیکل مزاج انھیں جلد اس فیز سے باہر لے آتا ہے ۔
اب لڑکی کو گھر سنبھالنا ہے ۔ وہ گھر جو اس کی ساس پچھلے کئی دہائیوں سے اپنے طریقے سے سنبھال رہی ہیں ۔
ساس کو گھر کی جملہ ذمے داریوں کی فکر ہوتی ہے ۔ گھر کے کس فرد کے کیا معاملات اور معمولات ہیں ۔
لیکن جو بچی بیاہ کر آئی ہے اسے ذمہ دار بننے کی ٹریننگ نہیں دی گئی ۔ اس کے حساب سے گھر کا کام ایک مصیبت ہے جو اس پر ڈال دیا گیا ہے ۔
خود کو گھر کا ایک ذمے دار انسان سمجھنے کی بجاۓ وہ اپنی دنیا اپنے کمرے تک ہی بسانے کی آرزو مند ہوتی ہیں ۔
ساس چونکہ ڈائریکٹ بات اس لیے نہیں کر سکتیں کہ اگر منع کر دیا تو کیا عزت رہ جاۓ گی۔ وہ طنز اور طعنوں سے کام لینا شروع کر دیتی ہیں کہ کسی طرح بہو کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا جائے ۔
اب بہو کا مزاج اس طنزیہ رویے سے مزید برہم ۔ دوریاں سمٹنے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔
غیر ذمے داری کے ساتھ ساتھ دوسروں کے کام آنے کی خو نہ ہونا ایک اور مصیبت کو دعوت دیتی ہے ۔
ہم کسی کے لیے ایک تنکا اٹھائیں تو خواہش ہوتی ہے کہ وہ قدردان ہوں ۔ لیکن اگر وہ شکر گزاری کے احساس سے نابلد ہوں تو شکوہ کہ بہت کچھ کیا لیکن کوئی نہیں مانتا ۔
اگر بہ حیثیتِ انسان بچیوں کو ذمے دار بننے دوسروں کے کام آنے کی ٹریننگ دی جاۓ تو سسرال میں وہ رویوں سے شاکی نہ ہو ۔
ورک پلیس پہ کسی کی باتیں نہ سننی پڑیں ۔
اور دو چار زائد کام کر کے خود کو مظلوم سمجھنے کی بجائے اللہ کی شکر گزار ہوں جس نے نیکی کی توفیق دی ۔
*ذمے دار اور بے لوث ہونے کے علاوہ کن رویوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ان شاءاللہ پھر بات کریں گے ۔
سمیرا امام

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles