37 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

امریکہ میں پیش آنے والے کچھ ناقابلِ فراموش واقعات

امریکہ میں پیش آنے والے کچھ ناقابلِ فراموش واقعات

تحریر شاہد لطیف

چرکی ریڈ انڈین نَورا

یہ سن دو ہزار کے شروع کا ذکر ہے، راقم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست ویسٹ ورجینیا کے ایک قصبے ’ اُوک ہِل ‘ میں رہتا تھا۔او ر کام کے سلسلے میں یہاں سے ۵۲ میل کے فاصلہ پر بڑے شہر، سائوتھ چارلسٹن منتقل ہونے کا سوچ رہا تھا ۔ میری عادت تھی کہ فرصت کے اوقات کسی ویران اور متروک قبرستان میں اپنی ۱۹۸۹ ماڈل کی ٹویوٹا ٹرسل میں جا کر گھومتا پھرتا۔میں ایک فارمیسی میں کام کرتاتھا۔ وہاں ایک ریڈ اینڈین خاتون، نَورا سے مُلاقات ہوئی جو اپنے آپ کو خالص چرکی کہلواتی تھی ( جِس کو ہم لوگ چیروکی کہتے ہیں) اس کی آنکھیں اور چہرہ مہرہ سب ہی خالص ریڈ انڈین تھا۔ نَورا جز وقتی کارکُن تھی۔جیسے ہمارے ہاں کچھ لوگ کام کے معاملے میں شہزادے واقع ہوتے ہیں کہ کبھی آئے کبھی نہ آئے… عین اُسی طرح نَورا بھی شہزادی تھی …ایک تو پہلے ہی جزوقتی کام اوپر سے اُس کاشہزادی ہونا سونے پہ سہاگہ تھا ۔ میں اُس سے چرکی رسومات ، چرکی موسیقی اور ثقافت کے بارے میں معلومات لیتا تو وہ گرم جوشی سے بتاتی۔ ایک دن باتوں باتوں میں پرانے اور متروک قبرستانوں اور مقابر میں جانے اور وہاں پر رکھے تابوتوں اور صاحبِ تابوت دیکھنے کا ذکر ہوا ۔ عجیب بات ہے کہ میں نے جب پرانے قبرستانوں، مقابر، سال خوردہ تباہ حال تابوتوں اور اُن میں پائی جانے والی ’ باقیات ‘ کا ذکر کیا تو یک لخت نَورا سپاٹ تاثرات لئے میرے بائیں کاندھے سے بالکل اوپر ٹکِٹکی باندھے ہلکی آواز میں کسی نامعلوم زبان میں کچھ الفاظ ادا کر نے لگی۔میں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی ۔ایسا کئی مرتبہ ہوا۔کبھی یہ دورانیہ محض چند ثانیہ ہوتا کبھی یہ کافی کافی دیر بھی رہا ۔ میرا اس قسم کے خواتین و حضرات سے واسطہ رہا ہے لہٰذا ایسے میں خاموش رہنا اور مقابل سے اُس کیفیت سے متعلق کبھی کوئی سوال نہ کرنا، خاکسار کو وقت نے سکھلا دیا تھا۔
پھر ایک روز میرے شوق کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے ایک خاندانی متروک قبرستان میں لے آئی۔ ٹوٹے اور جھولتے ہوئے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی اندازہ ہو گیا کہ واقعی یہاں تو زمانے سے کوئی زندہ یا مردہ نہیں آیا ۔قبرستان خاصا وسیع تھا۔ وہ مجھے وہاں کے ایک قدیم مقبرے میں لے آئی جس کا آدھا دروازہ کب کا گر چکا تھا ۔ امریکہ میں دستور ہے کہ قبرستان میں کچھ جگہ خرید کر اُسے مقبرہ بنا سکتے ہیں۔باقی قبرستان میں تو تابوت زمین میں دفن ہوتے ہیں لیکن مقبرے میں تابوت زمین کے اوپر رکھے جاتے ہیں۔ ہم اُس مقبرے میں داخل ہوئے تو باہر سورج کی روشنی کافی تھی لیکن اس میں کچھ کم محسوس ہوئی ۔ اندر ایک ہی بڑا کمرا تھا جس میں اوپر تلے کئی ایک تابوت رکھے نظر آئے۔
میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ تابوت کھول کر دیکھتے ہیں جِس پر اُس نے پوچھا کہ کہ میں یہ تابوت اور صاحبِ ِ تابوت کیوں دیکھتا ہوں؟ میں نے جواب میں کہا کہ ــ ’’ مجھ کو معلوم نہیں ‘‘ ۔اِس پر نورا نے حیرانی سے مجھے دیکھا ۔ پھر ہم نے کئی تابوت کھول کر دیکھے۔تمام تابوتوں میں صرف ہڈیاں تھیں۔کچھ میں مکمل ڈھانچے تھے جب کہ کچھ میں ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں گویا ہم سے پہلے کسی نے آ کر انہیں چھیڑا ہو۔اِس تمام عرصہ میں نَورا خاموش رہی۔ کافی دیر بعد شام ڈھلے ہم اُس مقبرے سے واپس ہونے لگے تو اُس وقت نورا نے آہستہ سے کہا کہ اگر مجھے یہاں سے کوئی چیز بطور یادگار لے جانی ہے تو وہ میں لے جاسکتا ہوں۔ میں نے ایک نظر اُسے دیکھا اور کہا ’’ نَورا ! تمہارا بہت شکریہ جو تم مجھے یہاں لائی۔ہم مُردوں کا بہت احترام کرتے ہیں ‘‘ ۔وہ خاموشی سے پلٹی اور ہم آگے پیچھے قبرستان سے باہر آ گئے۔
شام کو وہ میری فارمیسی میں آئی ۔میں تھوڑی دیر کے لئے اپنے فارماسسٹ کی اجازت سے دفتر میں خاتون کے ساتھ آ گیا۔نَورا نے کہا : ’’ تم قبرستان میں بہت خوش لگ رہے تھے لیکن تمہارے اندر ایک پریشانی تھی ، بتائو وہ پریشانی کیا ہے؟ ‘‘۔ میں بہت حیران ہوا کہ اُسے کیسے علم ہوا۔ میں نے کہا : ’’ میں نے کام کے سلسلے میں سائوتھ چارلسٹن منتقل ہونا ہے۔وہاں مجھے حکومتی ملکیت کا تخفیف شدہ کرایہ پر اپارٹمنٹ درکار ہے جو ریاستی ادارے Urban Development Housing and کے تحت آتا ہو۔میں نے بہت کوشش کی لیکن ابھی تک کوئی بندوبست نہیں ہو سکا ‘‘۔

عجیب معاملہ
نَورا مسکرائی اور کہا کہ فون بُک یعنی ٹیلی فون ڈائریکٹری لائو۔وہ لائی گئی، تب اُس نے اپنے پرس سے کچھ رنگین کپڑوں کے ٹکڑے نکال کر ڈائریکٹری کے دائیں طرف رکھ دئیے پھر آنکھیں بند کر کے تاش کے پتوں کی طرح ڈائریکٹری کے صفحات کو چھیڑا۔اُس کے بعد دو تین دفعہ کھولا بند کیا ۔ پھر بالآخر اُس کو کھو ل کر بند آنکھوں سے دائیں جانب کے صفحے پر دائیں ہاتھ کی انگلیاں پھیریں ایک جگہ اُنگلی رکھ کر اپنی آنکھیں کھول دیں اور بغیر دیکھے کہا کہ اِس نمبر پر فون کر لو۔اب جو میں نے وہ صفحہ دیکھا تو دانتوں تلے انگلیاں آ گئیں۔یہ صفحہ اور اس سے ملحق کچھ اور صفحات ’ رئیل اسٹیٹ ‘ کے تھے اور خاص وہ صفحہ جہاں اُس نے انگلی رکھی تھی ہائوسنگ اینڈ اربن ڈیویلپمنٹ والوں کی پراپرٹی کا تھا۔
میری حالت غیر دیکھتے ہوئے وہ بولی ’’ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔تم اب ہمارے ہو ‘‘۔یہ کہا اور اُس نمبر پر فون گھما دیا۔ چھوٹتے ہی اُس نے اپنا تعارف کرایا اور اگلے کی بات سنتے ہی وہ اپنی مقامی زبان میں بات کرنے لگی۔اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ مخاطب بھی اس کا ہم قوم ہے۔دو منٹ میں اس نے بات مکمل کر لی۔فون بند کر کے مجھے کہنے لگی : ’’ تمہارا کام ہو گیا ہے۔ آئو! میں تمہیں گھر دلانے تمہارے ساتھ ۱۸۰ میل سے زیادہ کا آنا جانا بخوشی کر وں گی ‘‘۔
میں نے اُسی وقت فارمیسی انچارج سے اجازت لی اور ہم دونوں متعلقہ پتہ پر پہنچ گئے ۔ یہ جگہ انٹر اسٹیٹ ۶۴ ( جیسے ہماری موٹر وے ایم ۔ ۲ )سے خاصی قریب تھی۔ ایک وسیع احاطے میں، قدرے نئے بنے ہوئے ایک اور دو منزلہ مکانات نظر آئے ۔ راہنمائی کے اشارات کی مدد سے ہم اِس کمپلیکس کے دفتر پہنچ گئے۔یہاں کا انچارج اور اُ س کی بیوی دونوں چرکی تھے۔ نَورا نے آنے کا منشاء بتایا اور آناََ فاناََ وہ سب کاغذی کاروائی ہو گئی جو سرکاری طور پر دِنوں میں ہوتی۔چونکہ میری بیوی اور تین بچوں کو بھی یہاں رہنا تھا لہٰذا مجھے ۳ کمروں والا مکان الاٹ ہوا۔ سامنے کی جانب ایک چھوٹی سی خوبصورت کیاری کے ساتھ مین گیٹ،نیچے کی منزل میں ایک لِونگ روم، ایک بیڈ روم، ایک غسلخانہ اور باورچی خانہ اور اوپر کی منزل میں دو بیڈ روم اور ایک غسلخانہ۔گھر کی پچھلی جانب چھوٹا سا باغ اور اسٹور روم۔ میرا گھر قطار کا آخری مکان تھا۔ اِس سے کچھ فاصلہ پر ایک برساتی ندی تھی جہاں درمیان میں پانی تھا۔ندیا کے پار غیر آباد علاقہ اور اُس سے آگے جنگل ۔ میرے گھر اور ندی کے درمیان بلدیہ والوں نے ایک بڑا سا موٹے پلاسٹک کا کوڑے دان رکھا ہوا تھا۔
واپسی کے سفر میں شدید برف باری ہو رہی تھی۔ مجھ سے زیادہ تو نَورا خوش تھی۔اُس کو اُس کے ٹریلر ہائوس میں چھوڑا تو نورا نے کافی کی پیشکش کی۔
’’ تم کب شفٹ ہو رہے ہو؟ـ ـ‘‘۔کافی پیتے ہوئے بغیر تمہید کے اُس نے سوال کیا۔
ــ’’ کل دوپہر تک ‘‘۔میں نے جواب دیا۔
کچھ سوچ کر بولی ’’ کل رات تمہارے گھر مہمان آئیں گے اُن کی خدمت کر نا ‘ ‘۔اِس پر میں نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔اوربائی بائی کر کے چلا آیا۔تھی تو عجیب سی بات لیکن ایسی عجیب و غریب باتیں اس سے پہلے بھی پیش آتی رہی تھیں ۔
میری کیا تیاری ہونا تھی اُس وقت تو صرف مسافری سامان ہی تھا جو کار میں آسانی سے سما گیا اور یوں میں دوپہر سے قبل ہی اپنے گھر منتقل ہو گیا۔ میں ایک قصبہ سے آیا تھا اور یہ اس ریاست کا سب سے بڑا شہر تھا لہٰذا گھومنے پھرنے اور نئی کھُلنے والی فارمیسی دیکھنے چلا گیا جہاں میں نے انشاء اللہ کل سے کام کرنا تھا۔یہاں کی فارمسسٹ لبنانی تھیں وہ مجھے شہر کے دو انڈین اسٹوروں میں لے گئی جہاں سے میں ضروری سامان لے کر رات گئے نئے گھر لوٹا۔گاڑی سے باہر نکلا، اس وقت بھی ہلکی برفباری ہو رہی تھی۔میں نے دروازے میں چابی گھمائی ہی تھی کہ میائوں کی آواز کے ساتھ دو عدد بلّی کے بڑے سائز کے بچے نظر آئے۔ دیکھنے میں تو یہ عام سے تھے۔ بے اختیار میں نے اُن کو پچکارا تو وہ دونوں میرے پیروں سے لپٹنے لگے۔میں حیران تھا کہ یہ دونوں کہاں سے آ گئے۔آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف دیکھا لیکن دور دور تک برف پر بلیوں کے پنجوں کا کوئی نام و نشان نہ تھا اور گرتی برف اُن پر ٹِک بھی نہیں رہی تھی۔ یہ دونوں ہی چیزیں نا ممکن تھیں لہٰذا طے ہو گیا کہ وہ بلیاں نہیں کوئی اور مخلوق تھی ۔ لیکن یقین ما نیے قطعاََ کوئی خوف محسوس نہیں ہوا ۔
میں اِنہیں پچکار کر اندر لے آیا۔پلیٹ میں کچھ دودھ ڈال کر اُن کے آگے رکھا ۔اور تھوڑی دیر اُن کو پیار کرنے کے بعد فرش پر بستر بنا کر لیٹ گیا ۔ دونوں بِلّیاں میرے اوپر اُچھل کود کرنے لگیں۔رات کو سونے کے ا ذکار پڑھ کر بلند آواز سے اُنہیں کہا کہ میں سونے لگا ہوں اپنا گھر سمجھ کر رہیں اور برائے مہربانی گندگی سے پرہیز کریں ۔ اب وہ اُردو سمجھتے تھے یا نہیں مجھے معلوم نہیں مگر رات آرام سے گُزری۔ صبح اُن میں سے ایک میرے بازو پر دوسرا میرے پیٹ پر استراحت فرما رہا تھا۔ اُن کی پلیٹ دیکھی جو ویسی ہی بھری ہوئی تھی۔پھر بھی میں نے وہ دودھ گرایا اور پلیٹ کو اچھی طرح سے دھو یا۔ پھر نیا دودھ ڈال کر اُن کے سامنے رکھا لیکن انہوں نے اسے نظر بھر بھی نہ دیکھا اور میرے ساتھ ساتھ لگے رہے۔ میںناشتہ سے فارغ ہو کر فارمیسی جانے لگا ۔ دروازے سے باہر نکلا تو یہ بھی باہر نکل آئے ۔ گھر کے اندر ان کو چاہتے ہوئے بھی نہیں رکھا جا سکتا تھا کیوں کہ کرایہ نامے کے معاہدے کے تحت میں اپنے گھر میں پالتو جانور نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایک مرتبہ اور، دِن کی روشنی میں اِن کے برف پر چلنے کے تازہ نشان دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ دکھائی نہیں دئیے۔یوںمیں نے اِن کو خدا حافظ کہا۔
آج میں نے فارمیسی سے چھٹی کے بعد اسلامک سینٹر جانے کا پروگرام بنایا تھا ۔ وہاں سے فارغ ہو ا تو سوچا کہ کل جس انڈین اسٹور سے خریداری کی تھی اُس کے میاں بیوی مالکان سے گپ شپ کی جائے۔کل وہ بہت محبت سے پیش آئے تھے اور دوبارہ ملاقات کے لئے دعوت دی تھی۔ اُن کے نام ٹھاکر پٹیل اور کرن تھے۔ انہوں نے بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کیا۔میرا اور اُن کا مشترکہ شوق موسیقی تھا۔ کچھ دیر اُن سے گپ شپ کی اور پھر رات گئے گھرواپس آ گیا۔ دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ وہی بلّے دوبارہ نمو دار ہو گئے۔وہی کل والی کہانی ہوئی فرق صرف اتنا تھا کہ میں نے آج کچھ لکھنے پڑھنے کا کام کیا اور وہ گھر کا معائنہ کر کے میرے سامنے ہی بیٹھ گئے۔ اِسی طرح دو دِن اور گزر گئے۔ اِنہوں نے اس دوران گھر میں کوئی گندگی نہیں کی نہ کوئی دودھ ہی پیا۔یوں سنیچر کا دِن ہو گیا۔اب دو دن میری چھٹی تھی ۔اُس دن وہ دوپہر تک میرے ساتھ رہے جب تک کہ میں دوپہر کو نَورا سے ملنے گھر سے نہ نکلا۔میں اُس کے ٹریلر ہائوس اوک ہِل آیا تووہ بڑے تپا ک سے مِلی۔
’’ کہو ! پھرمہمان آئے؟ ‘‘۔ اُس نے چھوٹتے ہی سوال کیا ۔
’’ آئے تو تھے! لیکن بات چیت نہیں ہو سکی ‘‘۔میں نے جواب دیا۔
’’ اچھا ! ‘‘۔اُس نے سر ہلایا ۔
’’ میں اُن کی زبان سمجھنے سے قاصر رہا ‘‘۔میں نے جواباََ کہا۔ ’’ لیکن وہ میرے پاس خوش تھے ۔مگر وہ تھے کون؟ ‘‘۔ لوہا گرم دیکھتے ہوئے میں نے سوال کیا ۔
’’ تُم سے اور تمہاری اشیاء سے مانوس ہونے کے لئے بھیجے گئے تھے۔تم نے ہمارے پُر کھوں کو پسند کیا اُنہوں نے تُم کو ‘‘ … اُس کے بعد۔۔۔۔۔ ایسا لگا جیسے کسی نے اُس کو بات کرنے سے منع کر دیا ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایف۔بی۔آئی۔ والوں کے سوال جواب
نئے گھر میں منتقل ہونے کے فوراََ بعد راقم نے اپنا موسیقی کا کام بھی شروع کر دیا۔گھر، فارمیسی، میوزک، اور گھومنا پھرنا۔یوں ۲۰۰۱ آ یا اور وقت پر لگا کر اُڑنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے ستمبر کا مہینہ آ گیا اور ۱۱ تاریخ کو نیو یارک ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے واقعات ہو گئے۔دسمبر میںابھی کرسمس اور نئے سال کی چھٹیاں شروع نہیں ہوئیں تھیں جب مجھے میوزک پروگرام کے سلسلے میں ہفتہ اتوار کی چھٹی کے ساتھ ایک چھٹی مِلا کر جرمن ٹائون، ریاست میری لینڈ جانا پڑا۔ واپس آیا تو میری لبنانی فارماسسٹ کہنے لگی کی ایف بی آئی والے تمہارا پوچھتے ہوئے آئے تھے۔ کم و بیش یہی بات میرے محلہ والوں نے کہی کہ ہائوسنگ اینڈ اربن ڈیویلپمنٹ والے تمہارے بارے میں پوچھ گچھ کرتے پھر رہے تھے۔میں اسِ پس منظر میں اپنے گھر میں گیا تو ایک نظر میں علم ہو گیا کی گھر کی تلاشی لی گئی ہے۔
اگلے روز دِن کے دس بجے میڈیکل ریپ کی طرح کے لمبے اور چھوٹے قد کے دو افراد فارمیسی میں آئے۔میں نے اُن سے کہا کہ انتظار فرمائیں فارمسسٹ ابھی آتی ہیں۔
’’ ہم تم سے ملنے آئے ہیں! ‘‘۔ اور اپنے ایف بی آئی کے بیج دکھائے۔
’’ ادہر بیٹھ کر بات کرتے ہیں ‘‘۔میں اُن دونوں کو لے کر سامنے رکھی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔
اُنہوں نے اپنے تعارف کروا یا اور کہا کہ وہ کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔میں نے کہا ضرور کیجئے۔
’’ ہمارا پہلا سوال تو یہ ہے کہ آپ ہمیں دیکھ کر ڈرے کیوں نہیں؟ ‘‘۔
مجھے ہنسی آ گئی۔’’ جناب یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔آپ دونوں یہاں کی ایف بی آئی سے متعلق ہیںتو ڈرنا کیسا؟ ہاں! اگریہ پاکستان ہوتا اور آپ پاکستانی پولیس والے ہوتے تو میں آپ لوگوں کو دیکھ کر بیساختہ کھڑکی سے چھلانگ لگا دیتا چاہے ہڈی ٹوٹ جاتی۔کیوں کہ ہماری پولیس ہم جیسے عام آدمی کو پہلے مارتی ہے پھر سوال کرتی ہے۔کم از کم آپ لوگ مجھے مار پیٹ کے بغیر پوچھ رہے ہیں تو کیسا ڈرنا؟‘‘۔
میری اس بات پر لمبے قد والا ایجنٹ کہنے لگا : ’’ یہ صرف تمہارے ملک کا معاملہ نہیں بلکہ تمام تیسری دنیا کا یکسا ں مسئلہ ہے ‘‘۔
اُن دونوں میں سے لمبے قد والا، جو خود بھی نسلاََ پولینڈ سے تعلق رکھتا تھا ، صرف وہی سوال کرتا تھا جبکہ دوسرا صرف مشاہدہ کرتا تھا۔ اُس نے بہت سے سوالات کئے، ان میں بعض ذاتی اور نجی نوعیت کے بھی تھے۔پھر جاتے جاتے یہ کہہ گیا : ’’ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تمہارے پاس اسلامک سینٹر کی چابی ہوتی ہے، اور میوزک تمہاری روزی کا بڑاذریعہ ہے۔قبرستانوں ویرانوں میں گھومنا پھرنا تمہارا شوق۔ ہم دونوں ایک مرتبہ اور آئیں گے ‘‘۔یہ کہہ کر دونوں یہ جا اور وہ جا۔
شاید یہ سوال جواب کرنا ، لبنانی فارمسسٹ کے لئے پریشانی کا باعث تھے حالاں کہ وہ تو مسلمان بھی نہیں تھی۔کہنے لگی کہ اُس کا تجربہ ہے کہ خفیہ والے اتنی آسانی کے ساتھ پیچھا نہیں چھوڑتے لہٰذا اب آئیں تو انہیں کہیں باہر ملنا ۔فارمیسی میں کاروبار متاثر ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا بہتر! اب آئے، تو اُن سے درخواست کروں گا کہ کہیں اور چل کر بات کرتے ہیں۔

ایف بی آئی والوں کا مشورہ
چند روز بعد وہ دونوں پھر صبح صبح وارِد ہو گئے۔میں نے طریقے سے کہا کہ مجھے تو آپ لوگوں کے یہاں آنے پر کوئی اعتراض نہیں البتہ میری فارمسسٹ کو الجھن ہوتی ہے لہٰذا کہیں اور چل کر بیٹھتے ہیں۔وہی لمبے قد والا شخص کہنے لگا کہ ہم زیادہ وقت نہیں لیں گے ۔ میرے گرین کارڈ سے متعلق کچھ بات چیت کی اور کہا کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جو ہوم ورک ہم کر کے لائیں اور سامنے والے کے جوابات اُس سے سو فی صدمیل کھا جائیں۔تم خوش قسمت ہو۔نیز سنجیدگی سے کہنے لگا کہ اپنے قریبی ساتھیوں (ہم وطنوں) سے بہت ہوشیار رہنا ۔ ہمیں اُن ہی کی اطلاع پر بھیجا گیا ہے۔اور اپنی جیب سے ایک مُڑا تڑا کاغذ کا پُرزا نکالا ۔ اِس پر کچی پنسل سے ایک ٹیلیفون نمبر لکھا ہوا تھا۔ اور اُس لمبے قد والے ایجنٹ کا نام۔کہنے لگا کہ خبردار رہنا، تمہارے قریبی لوگ ، اوچھا وار کریں گے۔جب کبھی ایسا ہوا تو اِس نمبر پر پیغام چھوڑ دینا۔میں خود تم سے رابطہ کروں گا۔اور کہا کہ یہی کاغذ کا پُرزا ایف بی آئی کی جانب سے تمہاری بریت ہے۔

سات  ماہ میں ،۳۰ ہزار میل
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا کہ مجھے گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے نیز میوزک کے پروگرام کرنے کے لئے بھی میں دور و نزدیک ریاستوں میں جاتا تھا اُس پر مستزاد ۲۰۰۱ تا ۲۰۰۲ میں پاکستان سے میرے والد صاحب ، میری ہمشیرہ کے ہاں ریاست جارجیا کے شہر آگسٹا رہنے کے لئے آئے۔اِن کی طرف بھی آنا جانا لگا رہا۔پھر وہ میرے خالہ زاد بھائی کے پاس کلینٹن ریاست ایلاباما گئے تو میں وہاں بھی اُن سے ملنے جاتا رہا۔یہ تقریباََ ۷ ماہ تھے جس میںمیری ٹویوٹا ٹرسل نے ۰۰۰،۳۰ میل کا سفر طے کیا۔ہر ایک مرتبہ لمبے سفر پر جانے سے قبل میں اپنی وفا دار ٹویوٹا ٹرسل ماڈل ۱۹۸۹ کو فارمیسی کے پڑوس میں واقع بریک اور مینٹننس ورک شاپ میں لے جا کر اُس کو سفر کے قابل کرواتا ۔گورے میاں بیوی، آئرا اور باربرا اسٹار یہ کاروبار چلاتے تھے۔ ۱۵۰۰ ڈالر کی خریدی ہوئی اِس کار پر بتدریج اس سے کہیں زیادہ خرچ ہو چکے تھے۔جیسے ورک شاپ والے کہتے میںویسے ہی کرتا۔ نتیجہ؟ …… آخر وقت تک یہ چلتی رہی جب تک کہ اِس بے چاری کی جنگلی کتوں کے غول سے ٹکر نہیں ہوئی …

جنگلی کتوں کے غول سے گاڑی کی ٹکر

ہوا یوں کہ میں اپنے والد سے ملنے کے بعد ریاست الاباما سے واپس آ رہا تھا۔رات کا ایک بجا تھا ۔کیوں کہ وقت بچانے کے لئے میں رات کا سفر کرتا تھا۔برف باری تھم چکی تھی۔ مگر دھند بہت شدید تھی۔ہیڈ لائٹ میں بھی حدِ نگاہ بہت کم تھی۔میں احتیاطاََ ایک ٹرک کی آڑ میں جا رہا تھا۔کچھ دیر بعد میرا وہ موڑ آنے والا تھا جس سے میں نے میں نے اُس ریاست سے اپنی ریاست میں داخل ہونا تھا۔اس کا نشان ’’ Only ‘‘ مجھے دھند میں بھی کچھ فاصلے سے نظر آ گیا۔اب میں ٹرک کی اوٹ سے نکلا تا کہ اپنی لین پکڑوں تو ناگہاں سڑک پار کرتے جبگلی کتوں کے غول سے سے سامنا ہو گیا۔یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ پینتالیس میل گی گھنٹہ کی رفتار کے باوجود بریک لگاتے لگاتے میں اس غول سے ٹکرا گیا۔اس ٹکر سے اُس غول کو تو کوئی نقصان نہ ہوا لیکن میری گاڑی پھسل کر دائیں جانب ہو گئی۔وہاں سیوریج کا نالہ گزر رہا تھا۔ گاڑی پھِسلتی ہوئی اس کے درمیان رک گئی۔ایک لمحے کو مجھے لگا کہ گاڑی گئی !! کیوں کہ اس کا انجن بند ہو گیا تھا۔پھر اللہ کا نام لے کر گاڑی اسٹارٹ کی تو وہ چل پڑی۔اوپر جانے کا کوئی راستہ نہ تھا تو میں نالے کے درمیان ہی سامنے کی جانب چلانے لگا۔ گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگی۔کچھ دور نالے کے بائیں جانب ایسے نشان دکھائی دیے جیسے کوئی بھاری ٹائروں والی چیز اوپر گئی ہو۔میں نے وہیں سے کوشش کی تو گاڑی اُسی سڑک پر آ گئی جہاں سے نیچے پھسلی تھی۔آہستہ آہستہ چلتے کچھ دور گیس اسٹیشن نظر آیا۔وہاں گیا۔باہر نکلا تو معلوم ہوا کہ گاڑی غلاظت سے بھری ہے۔بہرحال وہاں ڈیوٹی پر ایک ہی شخص تھا۔اُس نے میرا بہت خیال کیا۔میری حالت دیکھتے ہوئے اُس نے مجھے مفت کافی اور ڈونٹ دیے مگر وہ مکینک نہیں تھا۔اُس نے مجھے وہیں گاڑی پارک کرنے اور اُس میں سونے کی اجازت دی کہ صبح مکینک آ کر صورتِ حال بتائے گا۔صبح بھی اُس نے مفت کافی پلائی۔مکینک آیا، گاڑی دیکھی اور مجھے تسلی دی : ’’ آہستہ آہستہ لے جائو… چلی جائے گی ‘‘۔حالاں کہ مجھے ابھی مزید سو میل سفر کرنا تھا۔بہرحال شام تک میں اپنے شہر پہنچ گیا۔اور میری پیاری ٹیوٹا ٹرسل ریٹائر ہو گئی !!
باربر ا اسٹار اور آئرا کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے میری اور کار دونوں کی مثال اپنے ریکارڈ میں رکھی ہوئی ہے کہ پرانی کار میںبھی ۷ ماہ میں ۰۰۰،۳۰ ہزار میل ہو سکتے ہیں اگر موٹر ورک شاپ والوں کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔ اُس کے بعد اُس نے مجھے اپنی والدہ کی ۱۹۹۲ ماڈل کی پانٹییک کار ۲۵۰۰ ڈالر میں دِلوا دی۔نورا اِس کار سے بہت خوش تھی کہا کرتی تھی اِس کی قدر کرو یہ تمہاری خدمت اپنے آخری دم تک کرنے والی ہے۔راقم کے ساتھ ماضی میں بارہا ایسے واقعات پیش آئے تھے جِن کا ’’ ۱۶ ‘‘ کے عدد سے کوئی خوشگوار تعلق نہیں ہوتا تھا۔ میں توہم پرست نہیں لیکن ایمان داری کی بات ہے اِس کار کا بھی ۱۶ واں دِن بری طرح سے تجسس میں گزرا کہ اب کچھ ہوا کہ جب… لیکن ہوا کچھ بھی نہیں!! بہرحال اِس کاپہلا ہی دِن تھا۔سنیچر کی چھٹی تھی۔ میں اپنی ہمشیرہ کے ہاں اگسٹا ، جارجیا جانے کی نیت سے نکلا۔ راستہ میں نورا کے گھر ہیلو ہائے کرنے کے لئے رُکا ہی تھا کہ ایک بنگلہ دیشی طالبِ علم ، شفقت چوہدری کا بَیکلے ( اوک ہِل کے پاس ) شہر سے فون آیا کہ اُس کا چھوٹا بھائی فہیم ، جو ڈھاکہ سے آ رہا تھا وہ چارلسٹن ویسٹ ورجینیا کے بجائے چارلسٹن سائوتھ کیرو لینا جا اُترا ہے۔ ظاہر ہے بے چارے اسٹوڈنٹ کے اتنے وسائل کہاں کہ ٹیکسی میں تقریباََ چار سو میل ایک طرف جا کر بھائی کو لے کر آئے۔ اُس کا فون کرنا ہی کافی تھا۔میں نے اپنی ہمشیرہ کو فون کر دیا اور شفقت کے ساتھ اُس کے بھائی کو لینے چلا گیا۔ ماشا ء اللہ میری اِس کار کی یہ پہلی خدمتِ خلق تھی۔

میری پہلی نئی کار اور اُس پرفائرنگ
یوں ۲۰۰۳ ہو گیا البتہ نَورا سے ملنا جلنا اور اکٹھے ویرانوں،پرانے قبرستانوں اورمقابِر میں آناجانا جاری رہا۔اِس دوران میوزک کی وجہ سے جب معاشی حالات مزید اچھے ہوئے تو اپنی زندگی کی پہلی نئی کار ’ ہائی اونڈی ا لنٹرا ‘ لی ۔ میں سنیچر اور اتوار کو اپنے شہر یا دور و نزدیک کی ریاستوں میں میوزک کے سلسلے میں مصروف رہتا تھا لہٰذا نورا سے ملنا جلنا کچھ کم ہو گیا۔گاڑی کو لئے پندھرہ روز ہوئے ہوں گے توایک اتوار میں نَورا کو اپنی نئی کار دکھانے گیا۔اُس نے ایک نظر دیکھ کر کہا : ’’ اشارے ٹھیک نظر نہیں آتے ‘‘۔پھر خاموش ہو گئی ۔ میں نے دور کسی ویرانے میں چلنے کی خواہش کا اظہار کیا جِس پر اُس نے کہا چلو ں گی لیکن اپنی کھٹارا میں۔ پورے راستے اُس نے کوئی بات نہیں کی۔میں ایسے لوگوں کے قریب رہا اور اُنہیں سمجھتا تھا لہٰذا میں بھی چپ رہا۔اُس کی موجودگی میں پتہ نہیں یہ کیوں لگتا تھا کہ جیسے ہم کسی حفاظت میں ہیں اور ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔
اب کی دفعہ وہ کسی دریا کی قدیم گزرگاہ میں لے آئی۔امریکی جِس کو دریا کہتے ہیں وہ ہمارے ہاں کے دریا ئوں کے مقابلے میں بہت کم چوڑے ہوتے ہیں۔بہر حال وہ کبھی کسی پرانے دریا کی گزرگاہ رہی ہو گی لیکن اب چار سو وحشت برس رہی تھی۔ جِس کی خاک بھی برف آلود ہو چکی تھی۔ مجھے لے کر وہ وہاں آلتی پالتی مار کے خود بیٹھ گئی اور مجھے بھی ایسے کرنے کو کہا ۔اُس نے ایسے کیوں کیا؟ معلوم نہیں البتہ ایسا کرنے سے مجھے بہت سکون ملا ۔ ایسا لگا گویا گرمی میں ٹھنڈے پانی سے غسل کیا ہو۔پھر ہم واپس اُس کے ٹریلر ہائوس آئے اور کافی پی کرجب میں رخصت ہونے لگا تو وہ کچھ رنگین سُوتی کپڑوں کے ٹکڑے لائی اور میری نئی کار کے تمام شیشوں پر پھِرا کر ، بغیر کچھ بولے ،مجھے جانے کا اشارہ دیا۔وہ رات کے ایک بجے کا وقت ہوگا جب میں اُسے بائی بائی کہہ کر گھر روانہ ہوا۔
تھوڑی دیر بعد میںانٹر اسٹیٹ ( ہماری موٹر وے سمجھئے )پر تھا۔ مجھے ا بھی چلتے ہوئی آدھ گھنٹہ ہی ہوا ہو گا کہ اپنے پیچھے کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی۔یہ وہ مقام تھا جہاں سے پیچ در پیچ سڑک کے موڑ شروع ہو رہے تھے۔ ریاست ویسٹ ورجینیا بالکل ہمارے مری کی طرح ہے۔میری کار آٹو ڈرایئو پر ۶۵ میل (کلو میٹر نہیں) فی گھنٹہ کی رفتار سے جا رہی تھی مجھے یوں لگا گویا کوئی میرے عقب میں بمپر ٹو بمپر چلا آتا ہے۔اِس کو وہاں ’ ٹیل گیٹنگ ‘ کہا جاتا ہے۔ میں نے پیچھے سے آنے والے ٹریفک کو دیکھتے ہوئے سڑک کے آہستہ رفتار والے حصہ کی جانب آنا چاہا تو پیچھا کرنے والے، جو میں ابھی سوچ ہی رہا تھا، وہ کر بھی گزرے یعنی وہ خود آہستہ رفتار والے حصہ میں آ کر باقاعدہ مجھے کنکریٹ کے میڈ یئن median (جیسے ہماری موٹر وے میں آنے اور جانے والی ٹریفک کے درمیان کنکریٹ کی رُکاوٹ ہوتی ہے) کی جانب دبانے کی کوشش کرنے لگے۔اب ایک طرف کنکریٹ کی ٹھوس رُکاوٹ اور دوسری طرف ایک کار جِس میں کئی افراد سخت سردی میں بھی کھڑکیاں نیچے کئے قہقہے لگا رہے تھے۔میں نے حتی الامکان کنکریٹ سے بچنے کو کوشش کی اور گاڑی کو سیدھا رکھنے کی سعی کرنے لگا۔تب میں نے دیکھا کہ اب تو وہ کار میری کار سے خطرناک حد تک قریب آ چکی ہے اور ڈرائیور کی پچھلی نشست سے میں نے شاٹ گن کی نالی باہر نکلتے دیکھی۔ٹھائیں ! ایک فائر ہوا۔میری کار کا ایک ٹائر گیا۔ٹھا! دوسرا فائر ہوا اور گاڑی یکدم قابو سے باہر ہو گئی۔ میری کار کے دائیں جانب کا اگلا اور پچھلا ٹائر تباہ ہو گیا۔آٹو ڈرائیو پر ۶۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے راقم کی کار ایک دہماکے سے کنکریٹ سے ٹکرائی ۔ بیٹری سیل والیکھلونا کار کی طرح مونہہ سیدھا کر کے پھر اُسی رفتار سے ۲ پھٹے ٹائروں کے ساتھ بے ڈھنگے طریقے سے چل کر ایک دفعہ اور ٹکرائی پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔
جب ہوش آیا تو میں ایک اسٹیٹ ٹروپر کی کار میں لیٹا ہوا تھا، کئی ایک پولیس والے میرے پاس موجود تھے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میرے جسم میں کوئی بڑی ٹوٹ پھوٹ نہیں ہوئی تھی۔ویسے تو ایمبولینس اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی موجود تھا لیکن اللہ کے فضل سے میں ذہنی صدمے سے محفوظ رہا ۔ میرے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا وہ مجھے اسٹیٹ پولیس والے نے بتایا :
’’ اِس جگہ کچھ لوگوں نے کھیل بنا رکھا ہے کہ سینچر کی رات کوئی نئی کار، سستی، مہنگی، لوکل یا امپورٹِڈ جِس پر عارضی نمبر پلیٹ ہو، چلانے والا یا والی اکیلی ہو اور رات گئے کا وقت ہو تو یہ لوگ اُس اکیلے ڈرائیور کو ڈرا ڈرا کرمجبور کرتے ہیں کہ وہ کنکریٹ سے ٹکرائے ۔ یہی اِن کا کھیل ہے۔ موت کے اِس کھیل میں اب تک ۲ سے زیادہ اموات بھی ہو چکی ہیں ۔اسٹیٹ پولیس کے لئے یہ گروہ دردِ سر بنا ہوا ہے۔اب تک تو یہ لوگ محض ڈرا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے تھے، لیکن آج پہلی مرتبہ فائرنگ بھی کی گئی کیوں کہ تُم نے اُن کو ـ
’ ٹفٹ ٹائم ‘ دیا ۔ ان کا کافی وقت لگ گیا اور تمہاری گاڑی کنکریٹ سے نہیں ٹکرائی۔تم خوش قسمت ہو کہ اُنہوں نے سیدھے سیدھے تمہیں گولیاں نہیں ماریں صرف ٹائروں پر گولی چلائی ‘‘۔
میری گاڑی اتنا کچھ ہونے کے بعد صرف بائیں طرف سے بری طرح گھائل ہوئی تھی باقی انجن، ٹرانسمشن، لائیٹیں، بریک سب کچھ ٹھیک تھا۔ یہ کاروائی ایک پیچھے آنے والے ۱۸ ٹائروں والے ٹرک ڈرائیور نے ہوتے دیکھی ۔وہ تو سمجھا کہ کار والا تو گیا۔جب اُس نے دیکھا کہ کار ٹکرا کر کھڑی ہو گئی تو اُس نے یہ اطلاع اسٹیٹ پولیس کو دی اور فوراَ َ ہی اُس نے روڈ پر ’ محتاط رہیں ‘ کے بہت سے چمکنے والے اشارے جا بجا پیچھے سے آنے والوں کے لئے رکھ دئیے کہ کہیں کوئی پیچھے سے آنے والا مجھ سے دوبارہ نہ ٹکرا ئے۔ اسٹیٹ پولیس والے نے کہا کہ تمہاری بے ہوشی کے دوران تمام ضروری قانونی کاروائی کر لی گئی ہے ۔ انشورنس کمپنی کو اطلاع بمع پولیس رپورٹ بھیج دی گئی۔ استعمال شدہ گولیاں اور کچھ خالی شیل بھی ڈھونڈ نکالے گئے ۔ اور پولیس میکینک نے گاڑی کی تسلی کر لی کہ وہ سائوتھ چارلسٹن تک آرام سے جا سکتی ہے ۔
ہم لوگ اُٹھتے بیٹھتے امریکہ مردہ باد کہتے رہتے ہیں، راقم آج جو یہ سطور لکھ رہا ہے وہ کسی انسان دوست امریکی کی بدولت ہی ممکن ہوا۔واقعی تمام امریکی جن سے میرا واسطہ پڑا بہت اچھے تھے در اصل مردہ باد حکومت ہوتی ہے۔ انسان دوست امریکی کی مثال دیتا ہوں کہ دنیا جہاں کی کاروں میں صرف ایک اسپئر ٹائر ہوتا ہے۔ میری کار کے دو ٹائر گولی مار کر پھاڑے گئے تھے۔اب اُن دونوں ٹائروں کی جگہ میری کا رمیں دو اور ٹائر موجود تھے۔ ایک تو میری کار کا اسپئر ٹائر ہوا لیکن دوسرا کہاں سے آیا؟ اِس سوال کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا۔یقیناََ یہ کسی ایسے شخص نے رکھا ہو گا جو چھپی نیکی کرنا جانتا تھا!!
یہ میرا کار خریدے سولہواں دن تھا!!

چرکی بزرگ کی وارننگ
میں نے وہ کار ٹھیک ہونے کے لئے انشورنس کمپنی کے منظور کردہ موٹر گیراج میں دے کر کمپنی کے کھاتے میں ویسی ہی ایک کار کرایہ پر لے لی جس کا کرایہ انشورنس کمپنی کے ذمہ تھا۔جب میں نے نَورا کو کار پر فائرنگ کا فون پر بتایا تو اُس نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔میں نے اسی ویک اینڈ میں اُس کی طرف جانے کا پروگرام بنایا کیوں کہ اُس نے مجھے بتایا تھا کہ میرے ساتھ اوپر تلے ہونے والے واقعات کی وجہ سے وہ مجھے اپنے ایک چرکی بزرگ کے ہاں لے کر جا نا چاہتی ہے ۔جب میں اُس کے ہاں پہنچا تو کچھ دیر وہ بالکل خاموشی سے مجھے تکتی رہی۔پھر جب میں نے کار کے حادثے کی تفصیل بتانا چاہی تو اشارے سے منع کر دیا۔مجھے بٹھا کر تھوڑی دیر میں مکمل چرکی حلیے میں سج کر آ گئی اور ہم دونوںا س رینٹل کار میں تقریباََ ۳۵ میل کے فاصلے پر واقع پر یَٹ Pratt روانہ ہوئے ۔ سفر خوشگوار گزرا۔ یہاں نورا کے والد کے عزیز رہتے تھے۔یہ بہت ہی چھوٹا قصبہ تھا۔مکان پر ایک نگاہ پڑتے ہی بخوبی اندازہ ہو گیا کہ یہ کسی چرکی ریڈانڈین کا گھر ہے ۔ وہاں زیادہ تر اُنہی کے حلیے والے بچے بچیاں کھیل کود رہے تھے۔یوں لگا کہ نورا تمام بچوں میں کافی مقبول ہے۔گھر کے سب چھوٹے بڑے مجھ سے ملنے آئے۔گھر میں دو بزرگ بھی تھے ایک مر د اور دوسری خاتون ۔ دونوں تپاک سے ملے البتہ اُن بزرگ خاتون نے میرے بائیں کاندھے پر اپنا دایاںہاتھ رکھ کر کچھ کہنا شروع کیا جو میرے سر سے گزر گیا۔میں نے پہلے بزرگ صاحب پھر نورا کے چہروں کی طرف دیکھا جس پر نورا نے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔تھوڑی دیر کے بعد اُن بزرگ خاتون نے نورا سے کچھ کہا جو میں نہیں سمجھ سکا۔مجھے نورا نے بتایا کہ یہ اُن کے خاندان کی ایک بڑی روحانی شخصیت ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ میں اب تک زندہ کیسے ہوں؟ اُصولاََ تو اب تک مجھے اپنے تابوت میں ہونا چاہیے تھا۔ اب توبہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے عرض کرتا چلوں بعینہٖ یہی بات ۸ سال قبل کراچی کی ایک شخصیت کہہ چکی تھیں۔اور اُن کے کہنے پرکہ کراچی شہر سے فوراََ نکل جائو، راقم نے عمل بھی کیا تھا۔

ڈاج کاروان وین کا خریدنا
چھ مہینے اور گزر گئے۔ گرمیاں آ گئیں اور میرے اقتصادی حالات مزید بہتر ہو گئے ۔ میں نے میوزک اور اس سے متعلق سامان، جیسے ۱۶ ٹریک کا آڈیو مکسر، دو عدد کی بورڈ اور اُن کے اسٹینڈ، بھاری سامان کے اُٹھانے کے لئے فولڈ ہو جانے والی ٹرالی، ہال میں رکھے جانے والے بڑے ۴ اسپیکر، اسٹیج کے ۴ مانیٹر اسپیکر، اسٹیج لائٹنگ کا مکمل سامان ، اسپیکر اور مائکروفون کی لیڈ کیبلز، اسٹیج پر روشنی کا ضروری ساز و سامان وغیرہ کے لانے لے جانے کے لئے اپنی کار واپس کر کے بالکل نئی ڈاج کاروان وین لے لی۔ اِس کی پچھلی سیٹیں نکال کر سامان برداری کی گاڑی بنا لیا۔نورا نے اپنے اعتقاد کے لحاظ سے گاڑی کے سامنے والے بمپر پر رنگین کپڑوں کے ٹکڑے باندھ دئیے۔وین کو لئے ابھی ۱۶ واں دِن تھا میں دوائوں کی ڈیلیوری دے کر واپس فارمیسی آ رہا تھا کہ سامنے روڈ پر آگے جانے والے ایک فارم ٹرک نے اچانک بریک لگائی۔ میں نے بھی بریک لگائی لیکن میری وین کا اگلا حصہ ٹرک سے جا ٹکرایا۔اسٹئرنگ وہیل اور ڈیش بورڈ کے ائیر بیگ نکل آئے۔ لیکن انجن میں کوئی ایسی ٹوٹ پھوٹ ہوئی کہ وین اسٹارٹ نہ ہو سکی ۔ انشورنس کے منظور شدہ گیراج والوں نے کہا کہ ایک نیا مرکزی کمپیوٹر کارڈ لگے گا جو پڑوس کے ملک کولمبیا میں بنتا ہے ، یہ چھ ماہ سے قبل نہیں آ سکتا لہٰذا اب یہ وین اُس مدت کے بعد ہی مِل سکے گی۔نیز یہ کہ معاہدے کے حساب سے میں اپنی وین سے ملتی جلتی ایک رینٹل وین زیادہ سے زیادہ صرف ۳ ماہ کے لئے ہی استعمال کر سکتا ہوں اُس کے بعد مجھے اپنا انتظام خود کرنا ہو گا۔ وقت گزرتا رہا اور میری ڈاج وین تیار ہو گئی۔راوی چین ہی چین لِکھ رہا تھا کہ ایک دِن صبح وین کے اسٹارٹ کرنے پر ایک آواز آنے لگی جو پہلے نہیں سُنائی دی تھی۔میں کھانے کے وقفے میں وین کو فارمیسی کے پڑوس کے گیراج میں لے گیا ۔
میری بات سُن کر آئرے نے خود وین چلا کر ایک رائونڈ لیا۔

ایک اچھی خبر
’’ مبارک ہو ! ‘‘۔ آئرا نے خوش ہو کر کہا ۔
’’ کِس چیز کی؟ ‘‘۔میں نے حیرانگی سے پوچھا۔کیوں کہ میں تو کوئی منفی خبر سننے کو تیار تھا۔
’’ گاڑی میں مینو فیکچیر نگ فالٹ ہے ۔اب تمہاری لاٹری نکل آئی سمجھو ‘‘۔
میرے تاثرات سے عاری چہرے پراُس نے رحم طلب نگاہ ڈالتے ہوئے اپنی بیوی باربرا کو آواز دے کر بلوایا۔اور گاڑی میں خرابی کی تحریری رپورٹ دکھلائی۔فرطِ خوشی سے باربرا کا بھی چہرہ دمک اُٹھا۔
’’ مسٹر لطیف ! ‘‘ باربرا نے کہنا شروع کیا۔’’ آئرا نے تحریراََ ،مینو فیچرنگ فالٹ کی رپورٹ دے دی ہے ، ۔ہم لوگ چونکہ ڈاج کمپنی کے منظور کردہ سروس اور ریپیئر شاپ والے ہیں لہٰذا اس کی بنیاد پرتمہارے حق میں کچھ بہتر ہونے والا ہے ۔ تم اسی وقت ،جہاں سے گاڑی لی ہے اُسی ڈیلر کے پاس وین لے جا ئو ‘‘۔
راقِم تقریباََ ساڑھے تین سو میل دور پڑوس کی ریاست میری لینڈمیں وِہٹَن نام کے قصبے میں ڈاج والوں کے پاس پہنچ گیا۔ باربرا نے وہاں فون پر میری وین کی خرابی کا پہلے ہی بتلا دیا تھا ۔ یہاں پہنچتے ہی اُن لوگوں نے رسماََ وین کو چلایا اور فوراََ ہی مجھے زبردست پیشکش کی۔ یہ کہ میری پہلے والی ۴ سیلینڈر، اسٹینڈرڈ ڈاج کاروان وین، ۲۳ فی صد انٹرسٹ پر ملی تھی۔ اب بغیر کسی ا نٹرسٹ کے، ۶ سیلینڈر والی فُل لوڈڈ، گرانڈ کاروان اسپورٹس، جو اسٹینڈرڈ وین سے ایک فٹ لمبی اور ایک فٹ چوڑی تھی، مِل رہی تھی۔ اِس کے ساتھ ایک سال کے لئے پٹرول بالکل مُفت۔ اِس لکھت پڑھت کے بعد کہ میں نے یہ پیشکش اپنی رضامندی سے ،بغیر کسی دبائو کے قبول کی ، مجھے یہ نئی وین مِل گئی۔یوں میں تھکن وکن سب بھول کر گھر کے لئے ر وانہ ہوگیا۔
اگلی شام فارمیسی بند کر کے میں سیدھا نورا کے ہاں گیا۔وہ سب باتوں سے خوش ہوئی لیکن میری نئی وین میں بیٹھنے سے انکار کر دیا۔
’’ آخر تم نے مسلسل یہ تیسری نئی گاڑی سِلور رنگ ہی کی کیوں لی ہے؟ ‘‘۔نورا نے عجب سوال کر دیا۔
’’ پتا نہیں کیوں؟۔اُنہوں نے مجھ سے پوچھا تو تھا کہ کیا رنگ پسند ہے میں نے کہا کہ جو رنگ سب سے کم بِکتا ہو ‘‘۔اِس جواب کے بعد وہ خاموش ہو گئی ۔اور میں جانے کے لئے اُٹھ گیا۔ویسے بھی رات ہو رہی تھی اور میں نے اگلی صبح ۹ بجے فارمیسی کھولنا تھی۔
میں اِس نئی وین میں نیو جرسی، نیو یارک اور اٹلانٹا ہو آیا اور ۱۵ دِن گزر گئے۔ اب پھر ۱۶ واں دِن تھا۔شاید یہ میرا وہم ہی تھا جس نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔شام کے ۶بجے ایک اور ڈاج وین والے نے میری وین کو پیچھے سے ٹکر مار دی۔ڈاج کے پچھلے اور اگلے بمپر جاپانی گاڑیوں کی طرح پلاسٹک کے نہیں بلکہ لوہے کے ہوتے تھے ۔میری گردن میں جھٹکا آیا اورگاڑی میں پیچھے خفیف سا ڈینٹ ۔ اُس کی وین کو بھی کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا تھا۔ وین چلانے والا کوئی گورا تھا۔ کہنے لگا کہ پولیس کو اطلاع نہ کرنا۔ڈیل یہ ہوئی کہ وہ اپنی جیب سے میری وین کا کام کروائے گا اور میں پولیس اور انشورنس کے چکر میں نہیں پڑوں گا۔ یہاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ۱۶ کے چکر سے ایک اور واسطہ پڑ گیا۔ مزاحیہ بات یہ ہوئی کہ ڈینٹر پنیٹر نے مجھے بڑی عزت دی اور اپنے سرپرست گاہک کا درجہ دے دیا ۔دوسرے الفاظ میں یہ کہ سر پرست کی حیثیت سے میں آئے دِن گاڑیاں مار کے اُس سے مرمت کروانے آئوں۔

دیوالیہ پن کا چیپٹر ۷ فائل کرنا

حالات بتدریج بدلنے لگے۔اور بقول ثاقبؔ لکھنوی :
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
ْقصہ مختصر یہ کہ پہلے اُسی فارمیسی نے میری سنیچر کی چھٹی ختم کی پھرمیرے پیسے بھی کم کر دئیے ۔قانونی طور پر میں ابھی یہاں سے کام چھوڑ کر جا بھی نہیں سکتاتھا کیوں کہ اِسی فارمیسی سے میرا ورک پرمٹ بنا تھا۔ دوسرے الفاظ میں اب غلامی کا دور شروع ہوا ۔اوپر سے عین اُس زمانے میں فارمیسی والوں کے اِس ’’ عمدہ سلوک ‘‘ کی وجہ سے بیوی بچے میرے پاس آنے سے رہ گئے۔اگر میرا میوزک کا ساتھ نہ ہوتا تو۔۔۔۔۔ شاید ۔۔۔۔ سب ٹھیک نہ ہوتا۔میں نے اِس دوراں روزانہ ۵سے ۶ گھنٹے کی بورڈ کی خوب مشق کی۔جب تک ممکن ہوا اِس کو کیش بھی کرایا۔میرے زیادہ تر میوزک پروگرام سنیچر کی رات اپنی ریاست سے باہر ہوا کرتے تھے۔ اب جب سنیچر کی چھٹی ختم تو ۔۔۔۔۔۔وہ کام بھی۔۔۔۔۔ ختم۔
یوں مجھے مجبور ہو کردیوالیہ پن چیپٹر ۷ کا آٹومیٹک اسٹے لینا پڑا۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے دیوالیہ پن کے قوانین کے مطابق یہ حکمِ امتناعی فی الفور نافذ ہو جاتا ہے جِس کی رو سے آپ کو قرض دینے والے، کریڈٹ کارڈ والے، گاڑی کی اقساط والے، کسی بھی قسم کے قرض خواہ اس چیپٹر کو فائل کرنے والے سے ایک ٹیڈی پائی کا تقاضا نہیںکر سکتے۔ اِس کا فیصلہ بینک رَپسی کی عدالت میں ایک ہی نشست میں کر دیا جاتا ہے۔اللہ کا شکر کہ وہ میرے حق میں ہو گیا۔ڈاج موٹر کمپنی، کریڈٹ کارڈ، کار انشورنس کمپنی کے نمائندوں نے عدالت میں اپنے موقف کے لئے کوئی وکیل یا نمائندہ سرے سے بھیجا ہی نہیں۔شکریہ امریکہ۔ ایف بی آئی والوں نے ٹھیک ہی کہا تھا… میرے اپنوں نے ہی یہ سب میرے ساتھ کیا۔لہٰذا میں عدالت کی اجازت سے ریاست ویسٹ ورجینیا سے ریاست فلوریڈا کے شہر فورٹ مائر منتقل ہو گیا۔
باقی واقعات انشاللہ آیندہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles