Home اردو ادب دوسری شادی

دوسری شادی

0
602

تحریر، جاوید راہی

گوتم بدھ نے کہا تھا کہ زندگی دکھوں کا گھر ہے۔ ہسٹری کی کتاب میں پڑھا مگر کوئی بات پلے نہ پڑی۔ میری بربادی کا آغاز اسی روز سے شروع ہو چکا تھا، جب میں چھٹی کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ میرے گھر والوں کا شمار محنت مزدوری کر کے بچوں کو پالنا اور سفید پوشی کو برقرار رکھنے والوں میں ہوتا تھا۔
والد شہر میں دکان کرتے تھے، یوں ہمارے گھر کی گزر اوقات ہوتی ۔ ہم بہن بھائی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ کچھ خواب ماں باپ دیکھ رہے اور کچھ ہم بُن رہے تھے۔
دوپہر کا وقت تھا۔ میرے والد گھر پر کام کر رہے تھے کہ ایک شخص جو شکل صورت سے انتہائی شریف انسان دکھائی دیتا تھا، میرے والد صاحب کے پاس آ کر رُکا۔ پہلے تو گھر والوں نے سمجھا کوئی کام ہو گا اسے ، مگر چند پل بعد وہ سیدھا اندر چلا آیا۔ میں گھر کے کام میں لگی ہوئی تھی۔ اس شخص کو اچانک اندر پا کر بڑی پریشانی ہوئی مگر جلد ہی پتا چل گیا کہ یہ صاحب جن کا نام فاروق ہے، ہمارے دور کے رشتہ داروں میں سے ہیں اور اسی شہر میں کسی کام کے سلسلہ میں وارد ہوئے ہیں۔ مجھے دیکھنے کی غرض سے ہی ہمارے گھر آئے ہیں، کیونکہ میرا رشتہ اپنے لئے مانگ رہے تھے۔ اس نے مجھے اور میں  نے اسے دیکھ لیا بات یہاں ختم ہو گئی۔ میں اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گئی ۔
دونوں خاندانوں میں ہمارے رشتے کی بات چلتی رہی۔ میں نے میٹرک پاس کر لیا اور گھر میں بیٹھ گئی۔ اس کے بعد گھر  کے حالات سامنے رکھتے ہوئے میں نے نوکر ی کر لی ۔ بچوں کو تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کا کام بھی سکھاتی رہی۔ اسی دوران میری منگنی فاروق سے ہو گئی۔
شادی جن حالات میں انجام پائی اس کا ذکر کرنا اس لئے مناسب نہیں کہ عزت والے لوگ اپنی لڑکیوں کو بس اپنے گھر سے چلتا کر تے ہیں۔ میرے سسرال والوں نے بھی اسی پر اکتفا کیا کہ مجھے بیاہ کر ہی  لے گئے ۔ میں نے اپنے میاں کے گھر کا ماحول دیکھا اور خود پر جبر کرتے ہوئے نباہ کر نے پر تیار ہو گئی۔
میری ہر ممکن کوشش ہوتی کہ میں کسی کو شکایت کا موقع نہ دوں، مگر میری ساس روایتی ساس سے بھی زیادہ سنگدل واقع ہوئی۔ میرے میاں جو ابھی تک زیر تعلیم تھے، ان کی حوصلہ افزائی پر میں ہر طرح کے ستم ہنس کر سہہ جاتی ۔ میرے ساتھ یہاں تک سنگدلی کا مظاہرہ کیا جاتا کہ افطاری پر سارا گھر برف والے مشروبات سے افطاری کرتا ، مگر میں اپنے کمرے میں خدا کا لاکھ بار شکر ادا کر تے ہوئے گھڑے کے اُبلے پانی سے روزہ کھولتی ۔سارے گھر کا کام میرے ذمہ ہوتا۔ میرے سسر جو انتہائی سفاک انسان تھے ، میری حالت پر برہم ہو جاتے اور مجھ پر طعنہ زنی کی بوچھار کر دیتے۔ میں تڑپ اُٹھتی اور اپنے ناکردہ گناہ کی سزا تصور کر کے چپ ہو جاتی۔
سُنا کرتی تھی کہ کچھ سسر نام کے سسر ہوتے ہیں، اندر سے وہ شیطان صفت ہوتے ہیں۔ اس کی مثال مجھے اپنے گھر میں نظر آتی تھی۔ میرا دیور مجھے اپنی طرف راغب کرتا، جبکہ سسر صاحب کی عنایت اپنے اندر کسی اور جہان کی خبر دیتی ۔
میں ثبت قدم کانٹوں پر رینگتی رہی مگر شکوہ تک نہ کیا۔ میرے شوہر اسی دوران لاہور شفٹ ہو گئے۔ انہیں کام مل گیا تھا، اور میں ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ اب میں  نے اپنے بیٹے کی خاطر جینا سیکھ لیا تھا ۔ گھر میں جو وقت ملتا وہ دوسروں کے کپڑے وغیرہ بنا کر اپنی ضروریات پوری کرتی ۔
میرے شوہر جو کماتے، اپنے ماں باپ کے ہاتھ پر لا کر رکھتے۔ اس گھر میں میری حیثیت ایک کام کرنے والی کی سی تھی۔ اگر کسی کے کام میں کوتاہی ہوتی ،تو میرے شوہر میرا جینا حرام کر دیتے۔ ان کا رویہ میرے لئے بہت ہی تکلیف دہ ثابت ہوا۔
فاروق کا یہ انداز میری رہی سہی قوت برادشت  بھی ختم کر گیا۔ میں اس گھر میں فضول چیز سمجھ کر پھینک دی گئی۔ میں نے اپنے گھر والوں کو سارے حالات سے آگاہ کیا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ  لے گئے۔ کئی ماہ تک میرے شوہر اور اس کے گھر والوں نے میرا حال تک نہ دریافت کیا۔ آخر مجبوراً مجھے خود ہی اپنے شوہر کے گھر جانا پڑا۔
میں اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے اپنے کمرے میں پڑی رہتی ۔ میرا شوہر آتا بھی تو اپنے ماں باپ بہن بھائیوں میں زیادہ وقت صرف کرتا۔ میرا شوہر تعلیم کے ساتھ ساتھ شہر میں کسی جگہ ٹیوشن پڑھانے کا کام بھی سر انجام دیتا تھا ۔ جس گھر کے بچے پڑھاتا تھا، اسی گھر میں اسے رہنے کے لئے جگہ بھی مل گئی تھی۔ پہلے تو گاؤں آ جاتا تھا، پھر اس نے یہ سلسلہ بھی بند کر دیا۔
اس کے سارے گھر والے اسے شہر جا کر مل لیتے۔ جب واپس آتے تو اس گھر کی مالکن کی بہت تعریف کرتے۔ میرے دل میں ایک عورت کا دل تھا۔ میں اپنی تباہی کا منظر اپنے ذہن کے کینوس میں آہستہ آہستہ بُن رہی تھی ۔
ایک روز میرے شوہر آئے او ر مجھے اپنے ساتھ لے کر شہر آ گئے۔ یہاں آ کر مجھے معلوم ہوا کہ اس گھر کی مالکن کو زچگی کے مراحل سے دو چار ہونا تھا۔ مجھے اس کی خاطر داری کے لئے لایا گیا تھا ۔ مجھ پر جلد یہ انکشاف ہو گیا کہ میرا شوہر کیوں گاؤں آنا پسند نہیں کرتا تھا۔
ٹیوشن کی آڑ میں گھر کی مالکن کو پڑھانے میں مصروف تھا ۔ وہ میری موجودگی میں کھانا اکٹھے کھاتے۔ وہ عورت ذرا سا بیمار ہو جاتی تو میرا شوہر رات گئے تک اسے دباتا۔ مجھے دوسرے کمرے میں بھیج دیتا ۔ میں اپنے سامنے اپنی بربادی کا تماشا دیکھتی اور منہ سے کچھ نہ بولتی ۔ جب میرے صبر کا پیمانہ چھلکنے لگا تو میں  نے اپنے شوہر سے کہا کہ مجھے وہ گاؤں چھوڑ آئے۔ وہ بھی شائد اسی انتظار میں تھا۔ فوراً مجھے تیار کرایا اور گاؤں  لے آیا۔ تمام راستے وہ بات بات پر میری بے عزتی کرتا رہا۔
گھر آئی تو اپنے بیٹے کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی۔ وہ بیمار پڑا تھا۔ میں دوسرے گھر میں غیر بچوں کی دیکھ بھال میں لگی تھی۔ اُدھر میرا بیٹا سوکھ کر کانٹا بن گیا تھا۔ میرا بیٹا جو باپ کی شفقت کو ترس گیا تھا، اپنے باپ کو سامنے پا کر ایک دم اس کی جانب لپکا ، مگر اس سنگدل انسان نے یہ کہہ کر اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ پیچھے کر دیئے کہ کیا اپنا انفیکشن دوسروں کو دینے کا ارادہ ہے ؟
جتنی دیر تک وہ رُکا، اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے باتیں کرتا رہا۔ میں اپنے بیٹے کی حالت پر اتنی پریشان تھی کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔
میں نے دو تین بار اپنے شوہر سے کہا کہ منے کی حالت بہت خراب ہے۔ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس  لے چلیں۔ اس نے بات سنی اَن سنی کر کے اپنے چھوٹے بھائی کی ذمہ داری میں دے دیا ۔ میرا شوہر شام تک رکا، پھر واپس چلا گیا۔ میں نے اپنے گھر والوں کو لکھا۔ میری والدہ مجھے اور میرے بیٹے کو ساتھ لے آئی ۔
یہاں آ کر میرے غریب والدین نے دن رات ایک کر کے میرے بیٹے کا علاج کروایا اور وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا۔ میری والدہ اور میری خالہ میرے شوہر کے پاس گئیں اور اسے سمجھایا کہ تم جس آگ سے کھیل رہے ہو ، وہ تمہارا سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا، اُس عورت نے میری والدہ اور خالہ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میرے شوہر  نے اس عورت کی طرفداری کرتے ہوئے میری والدہ کو مارنا شروع کر دیا۔  والدہ کی بزرگی کا اس شخص کو خیال نہ آیا۔ میری والدہ آنسو بہاتی واپس آ گئی ۔
میں کئی ماہ تک اپنے ماں باپ کے گھر رہی۔ میرے سسرال والوں کی جانب سے نہ کوئی آیا اور شاید نہ ہی کسی کو آنا تھا ۔ میرا والد اس صورتحال سے اتنا پریشان تھا کہ اکثر انہیں میں نے رات کو اپنی چارپائی پر پڑے روتے دیکھا۔ میری وجہ سے میری دوسری بہنیں بھی پریشان تھیں۔
میں نے اپنے والد سے اجازت طلب کی کہ وہ تو مجھے نہیں لینے آئیں گے، میں بھائی کو ساتھ لے کر چلی جاتی ہوں۔  بہرصورت اب زندگی کا سفر طے تو کرنا ہے ۔ میں اپنے بیٹے کو  لے کر بھائی کے ہمراہ گاؤں چلی آئی۔ پورے گھر کے لوگ ہمارے جانے سے بیزار سے نظر آنے لگے تھے ۔ میں نے سب کی پروا کئے بغیر سارے گھر کے کام کاج پھر سے سنبھال لئے ۔ میرا بھائی مشکل سے ایک دو روز ٹھہرا اور واپس چلا آیا۔ میرے دیور کو میرے آتے ہی بھیج دیا گیا کہ وہ میرے شوہر کو گاؤں لائے۔
زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا ۔ میرا شوہر چوتھے روز گاؤں آ گیا۔ دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی اس نے مجھے بالوں سے پکڑ لیا اور میرے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی اور گندی گالیاں نکالنا شروع کر دیں کہ اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ۔ میرے سسر اور دیور بھی میرے شوہر کی طرفداری کر رہے تھے ۔ میرا سسر طلاق دینے پر زور دے رہا تھا۔ میرا بیٹا سہم کر دروازے کے پیچھے چھپا کھڑا تھا۔ جب شوہر مجھے مارتے مارتے بے دم ہو گیا ،تو مجھے گھسیٹ کر سب سے آخر والے کمرے میں لے آیا۔ ڈوپٹے سے میرے بازو پشت پرباندھ دیئے اور چار پائی پر پھینک دیا۔
اس کے دل کا زہر اس کی زبان سے بہہ نکلا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ فریدہ اگر تم نے مجھے دوسری شادی کی اجازت نہ دی، تو میں تمہارا خون کر دوں گا۔
اب میرے ذہن میں اس درندہ صفت انسان کی بات آئی کہ وہ مجھ سے کیا چاہتا تھا۔ میں اپنے ہاتھوں اپنے گھر کو کیسے آگ لگا سکتی تھی؟ میں اس کے آگے تن گئی کہ میرے جیتے جی یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ وہ مجھے اسی حالت میں چھوڑ کر باہر نکل گیا۔
میں اپنے خدا کے آگے سجدہ ریز ہو گئی کہ اگر میرے نصیب میں یہ کچھ لکھا ہے تو پھر گلہ کیسا ؟
رات کے اندھیرے پھیل رہے تھے کہ میرا شوہر پھر آ گیا۔ اب اس کا رویہ کچھ نرم تھا۔ میں اس کے لہجہ کا بدلا ہوا رنگ محسوس کر کے سمجھ گئی کہ اب یہ اس کی نئی چال ہے ۔ میں نے اس کے ارادوں کو سختی سے جھڑک دیا اور وہی جواب دیا جو پہلے دے چکی تھی۔
وہ پھر آگ بگولا ہو گیا اور مجھ پر لاتوں، گھونسوں کی بارش شروع کر دی اور باہر نکل گیا۔ جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل تھی جو اس نے مجھ پر چھڑک دی۔ میرے سامنے موت کا خوفناک تصور رقص کرنے لگا۔ میرے شوہر نے ماچس کی تیلی نکالی اور کھینچ کر مجھ پر اُچھال دی۔
ایک دم میرا جسم آگ کے شعلوں میں تبدیل ہو گیا۔ میرے منہ سے دلخراش چیخوں کی آواز سن کر باہر لوگ اکٹھے ہو گئے ۔ میرا سسر جلدی سے اندر آ گیا۔ مجھ پر رضائی وغیرہ پھینک کر آگ پر قابو پا لیا۔ میں موت و زندگی کی کشمکش میں پھنسی بے ہوش ہو چکی تھی۔
میرے شوہر وغیرہ  نے باہر یہ بات مشہور کر دی کہ میں بتی جلاتے ہوئے جھلس گئی ہوں۔ مجھے گاؤں سے شہر لایا گیا اور ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کے زیر علاج رکھا گیا۔ جب تھوڑی سی چلنے پھرنے کے قابل ہوئی تو فوراً گاؤں لے آیا گیا تاکہ میں کسی پر آگ لگانے کا راز افشاں نہ کر دوں کہ مجھے قتل کرنے کی نوبت کیوں آئی؟
اس طرح دو ماہ گزر گئے۔ میری نگرانی ہوتی رہی۔ میرا چہرہ مکروہ اور خوفناک بن چکا تھا۔ میں سارا دن چادر میں منہ چھپائے پڑی رہتی۔ میرے گھر والوں کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی ، تو وہ مجھے ساتھ لے آئے۔ میں اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے آئی۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب فاروق کے پاس کبھی نہ جاؤں گی۔ اپنے گھر آ کر میں نے اسکول میں نوکری کر لی۔
میرے میاں نے میرے پیچھے کئی الزام لگا کر طلاق بھیج دی۔ میں اس آخری گھاؤ کو بھی مقدر کا لکھا جان کر سہہ گئی ۔ میرا بیٹا اب بھی مجھ سے اپنے ابو کو ملنے کے لئے ضد کرتا ہے۔ میں اس کے ننھے منے جملوں کا زہر اپنی ممتا میں سمیٹ کر تڑپ اٹھتی ہوں۔

٭٭٭٭٭

NO COMMENTS