33 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

سبز غبار

تحریر، جاوید راہی

انگریز کی نوکری کرنا بھی بڑے دل گردے کا کام ہے ۔مسٹر برکلّے نے میری معمولی سی شکایت پر میرا تبادلہ بڑے اسٹیشن سے برانچ لائن کے ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر کر دیا۔ میں کوشش کے باوجود اپنا تبادلہ نہ رکوا سکا۔
ہوا یہ کہ شہر کا ایک معروف زمیندار فضل دین جو انگریز آفیسر کا وفادار تھا, کراچی جانے کی غرض سے اسٹیشن پر آیا تو میں اس کی خدمت اس کی مرضی کے مطابق نہ کر سکا کیونکہ فرسٹ کلاس ویٹنگ روم کی مرمت کے باعث وہ جگہ استعمال کے قابل نہ رہی تھی۔
مستری وہاں کام کر رہے تھے میرے کمرے میں اتنی گنجائش نہ تھی کہ میں فضل دین اور اس کے ساتھ آئے بہت سے آدمیوں کو کرسیاں پیش کرتا ۔ گاڑی آئی اور وہ اس میں سوار ہو گیا ۔گاڑی چلی گئی تو قلی عبدالرحمن میرے پاس بڑا ہی افسردہ سا چہرہ لے کر آ گیا۔
بابو جی یہ اچھا نہیں ہوا‘‘ اس نے اسٹول پر بیٹھتے اور سگریٹ سلگاتے ہوئے مجھے مخاطب کیا۔’’
کیوں کیا ہوا‘؟میں نے رقم کا اندراج کرتے ہوئے چونک کر اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔’’
چودھری فضل دین بُرا تاثر  لے کر گیا ہے ۔‘‘
وہ کس لئے؟ میں نے کتاب بند کرتے ہوئے پوچھا۔
میں نے اسے بوگی میں سوار کرایا ہے۔ اس نے بڑے تیکھے انداز میں کہا تھا کہ تمہارا اسٹیشن ماسٹر کچھ زیادہ ہی خود اعتماد ہو گیا ہے۔  جا رہا ہوں۔ اس کا بھی بندوبست کرتا آؤں گا۔
اتنا کہہ کر عبدالرحمن سگریٹ کے کش لگانے لگا اور میں پریشان ہو گیا۔
وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا۔ تیسرے روز میرے تبادلے کے آرڈر آ گئے۔ میری جگہ مجراب کا اسٹیشن ماسٹر بخشی ایشغر داس آیا تھا ۔ اس نے ہندو ہوتے ہوئے بھی ایسے حالات میں میرے تبادلے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ دو روز تک چارج نہیں لیتا، اگر میں اپنا ٹرانسفر رکوا سکتا ہوں تو کوشش کر دیکھوں، کیونکہ جس طرح بیٹھے بٹھائے مصیبت میرے گلے پڑی تھی، یہی حال اس کا تھا ۔
میں تو اکیلا تھا مگر اس کے سب بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور کئی دوسرے مسائل بھی اسے درپیش ہوں گے ۔ میں نے شہر کے با اثر لوگوں سے رابطہ قائم کیا مگر ہر طرف سے ناکامی ہوئی اور میں نے دلبرداشتہ ہو کر چارج چھوڑ دیا اور اپنے خدا کو یاد کر کے سامان اکٹھا کیا اور فضل دین کو کوستا ہوا بخت پور چلا آیا۔
میرے وہاں پہنچتے ہی مجھے وہاں ہر چیز بالکل تیار ملی۔ اسٹیشن ماسٹر نذر علی اس تبادلہ پر بہت خوش تھا مگر میں اس کے برعکس خاصا پریشان ، کیونکہ اکثر میں اپنے گھر ایک ماہ میں دو تین چکر لگا لیتا تھا۔ پیچھے کام چل جاتا تھا۔ اب یہ بات ناممکن تھی۔ یہاں دن میں صرف دو بار پیسنجر گاڑی رُکتی تھی یا پھر تھرو کا زور تھا۔
چھوٹی سی عمارت اور چھوٹا سا پلیٹ فارم ۔ دو عدد بینج ، ایک پانی کا نل، دو عد مٹی کے تیل سے روشن ہونے والے کھمبے اور دو ہی سگنل ۔ وہاں پر موجود پانچ چھے سرکاری ملازمین کے کوارٹر تھے جو اسٹیشن کی عمارت میں بنا دیئے گئے تھے۔
بخت پور چھوٹا سا قصبہ تھا۔ اس کی آبادی تقریباً پانچ سات ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ اسٹیشن کے ساتھ ساتھ دور تک کری کے بوڑھے درختوں کا سلسلہ تھا ، جو شہر میں سے ہوتا ہوا جنگل میں گڈ مڈ ہو جاتا۔
اسٹیشن چونکہ بخت پور کی آبادی سے ذرا فاصلے پر تھا ، اس لئے یہاں وہی لوگ تھے جن کا واسطہ یا اسٹیشن سے یا پھر سرکاری محکموں سے تھا ۔ مثلاً محکمہ جنگلات، محکمہ انہار وغیرہ۔بہت جلد ہم لوگ ایک دوسرے کے واقف کارہو گئے ۔ شہری آبادی میں ڈاک خانہ تھا۔ دو وقت ڈاک دینے اور لینے والا آتا یا پھر کچھ مسافر ۔ یہ کُل کائنات تھی بخت پور کی۔
میرا کوارٹر جو چھوٹے چھوٹے تین کمروں پر مشتمل تھا، اسٹیشن کی عمارت سے ذرا ہٹ کر بنایا گیا تھا ۔ یہاں میرا عملہ ایک کانٹے والا اور ایک جھاڑو والا تھا۔ ٹکٹ میں خود دیتا اور خود ہی گاڑی گزارتا۔  ٹکٹ وغیرہ چیک کرتا۔
رات کو بتیاں بھی پریتم روشن کرتا ،بے چارہ صفائی سے  لے کر میرے ذاتی کام تک بھی کر تا تھا۔ چند ہی روز میں اس نے میرے گھر کا بھی سارا کام اپنے ذمہ لے لیا۔
یہاں میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ بخت پور تحصیل بصیر نگر میں تھا اور اسے پولیس اسٹیشن بھی وہی لگتا تھا یا پھر ریلوے پولیس کی کبھی کبھار گشت ہوتی جو ایک گاڑی سے اُترتی اور دوسری میں سوار ہو کر واپس چلی جاتی۔
صبح گاڑی گزار کر میں لمبی تان کر سو جاتا۔ اس دوران پریتم میرے کمرے کے باہر بیٹھا اونگھتا رہتا۔ شام کی گاڑی اکثر رات کو آتی۔ بعض اوقات کئی گھنٹے لیٹ ہوتی تو اسٹیشن پر تھوڑی سی رونق ہو جاتی۔ مختلف لوگوں سے مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا۔
بخت پور میں یوں تو ساری قومیں آباد تھیں مگر ہندو زیادہ تھے۔ ملک میں اس بات کے تاثر عام تھے کہ مسلمان اپنے لئے الگ ملک چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہم مسلمانوں کوستم ظریفی کا سامنا تھا۔
نذر علی نے جاتے جاتے بتایا کہ یہاں ہندو بڑے کینہ پرور ہیں ۔ ان سے ذرا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ ہماری آزادی کو یہ تعصب کا رنگ دیتے ہیں ۔ مجھے یہاں آئے تقریباً تین ماہ ہو چکے تھے ۔ کوئی بھی ایسی صورتحال میرے لئے باعثِ پریشانی نہ بنی۔ اس دوران میرا والد اور چھوٹا بھائی دو بار چکر لگا گئے۔ میرے والد صاحب نے میری ٹرانسفر کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہو گئے۔  میری والدہ اور سب سے بڑی بہن میری شکل دیکھنے کو ترس گئے تھے ، مگر میں مجبور تھا۔
آج موسم ذرا اَبر آلود تھا۔ ساون شروع تھا ، اس لئے بارش وقفہ وقفہ سے ہو جاتی۔گاڑی لیٹ تھی۔ مسافر ٹکٹ  لے کر اس کے انتظار میں تھے ۔ کچھ تو چھپڑ کے نیچے کھڑے تھے اور کچھ کھڑکی کے باہر باتوں میں مصروف تھے۔ میں سبز اور سرخ جھنڈی بغل میں دبائے دروازہ بند کرتا ہوا ٹکٹ گھر سے باہر نکل آیا، کیونکہ مسافروں میں ہلچل شروع ہو گئی تھی ۔ جو شائد دور سے گاڑی کا ہیولا دیکھ رہے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد گاڑی اسٹیشن پر آکر رُک گئی۔ کچھ لوگ اُترے اور باقی سوار ہو گئے۔ میں ٹکٹ دیکھ کر فارغ ہوا ، گارڈ سے ضروری بات چیت کی اور گاڑی روانہ کر وا دی۔ چند چھابڑی فروشوں اور پریتم کے سوا سارا پلیٹ فارم سونا ہو گیا۔
میں اپنے دفتر میں آ کر اندراج کرنے بیٹھ گیا ۔ اتنے میں پریتم اندر آیا ۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک تھی۔  اس نے مجھے مخاطب کیا،
’’بابو جی ! ادھر صندوق پڑاہے‘‘
کدھر؟ میں نے دریافت کیا۔
نل کے سامنے والی کرسی کے نیچے۔ پریتم نے بتایا۔
کوئی سواری بھول گئی ہے شائد ۔ میں نے جلدی جلدی کنڈی لگاتے ہوئے خود سے کہا اور پریتم کے ساتھ ہو لیا۔ واقعی وہاں درخت کے نیچے بڑا سا آ ہنی صندوق پڑا تھا ، جس کے دونوں جانب بڑے بڑے دیسی تالے لٹک رہے تھے۔ ہلا کر دیکھا تو بڑا وزنی معلوم ہوا۔
پریتم !کوئی سواری جلدی میں بھول گئی ہے۔ اسے اٹھا کر دفتر میں لے چلتے ہیں۔۔
ٹھیک ہے بابو جی۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
ہم دونوں بڑی مشکل سے وہ صندوق اٹھا کر دفتر میں لا ئے۔ میں نے ضروری تصور کیا کہ اس کامیمو کاٹ دوں تاکہ یہ بات ریکارڈ میں آ جائے۔
کام کرتے کرتے اچانک میرا دھیان اس صندوق کی طرف پلٹ جاتا۔ یہی حال پریتم کا تھا۔ اس کے چہرے سے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے ، مگر کہہ نہیں پاتا۔
میرے اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں تھا ،مگر اس کے باوجود ہم دونوں اس صندوق کے بارے میں متجسس تھے کہ آخر یہ کون بھول گیا؟ اور اس میں ہے کیا؟
میں کام  کے دوران سواریوں کا جائزہ لیتا رہا، جو مجھ سے ٹکٹ لے کر گئیں یا جو ٹرین سے اُتریں مگر ذہن اپنے طور پر کچھ بھی فیصلہ نہ کر سکا۔
میں نے اس صندوق کے بارے میں حکام کو جان بوجھ کر اطلاع نہ دی کہ شائد اس کا کلیم جلد آ جائے اور میں اس کے مالک کے سپرد کر کے جان چھڑواؤں مگر تین دن کے طویل انتظار  کے بعد ہم دونوں کے ذہن اس پراسرار صندوق کی وجہ سے پریشان ہو چکے تھے۔
پر یتم ہندو تھا ۔ وہ اپنی فطری سوچ کی مجبوری کے باعث ہر پل مجھے صندوق کے بارے میں گمراہ کرتا رہتا۔ اس نے مجھے اس بات پر راضی کر لیا کہ صندوق کو کم از کم کھول کر دیکھ ہی لیا جائے۔
میں نے پریتم سے کہا کہ وہ صندوق میرے کوارٹر میں  لے جائے ،تاکہ آسانی سے اسے کھولا جائے۔ میں کہنے کو تو یہ بات کہہ گیا مگر ایک خوف سا تھا میرے دل میں۔ ٹرین نکال کر میں  نے سارا کام ختم کر لیا اور کوارٹر کی طرف چل پڑا۔ پریتم میرا منتظر تھا۔ جس کی آنکھوں میں حرص کی چمک صاف طور پر نمایاں دیکھی جا سکتی تھی۔ اس نے قفل توڑ نے کا سامان پہلے ہی تیار کر رکھا تھا۔
میں نے کوارٹر اچھی طرح بند کر لیا اور پریتم کی طرف دیکھا، جو میرے اشارے کا منتظر تھا۔ جھٹ اس نے بڑی سی سلاخ تالے میں پھنسائی اور تالا منہ پھاڑ کر ہنسنے لگا ۔ دوسرے کا بھی اس نے یہی حال کیا ، پھر میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں  نے اسے ڈھکنا اٹھانے کو کہا۔
جب صندوق کھلا تو ہمارے دونوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔  صندوق میں گہرے سبز رنگ کی مٹی بھری پڑی تھی اور درمیان میں ایک چھوٹا سا سوراخ تھا ، جو شائد مٹی کے نیچے تک جاتا تھا۔ مٹی کے اوپر جس چیز نے ہم کو چونکا دیا وہ گہرے سیاہ رنگ کا کوئی بدبو دار مادہ تھا، جس کی ناگوار سی بُو صندوق کھلتے ہی میرے کوارٹر کے اندر سرائیت کر گئی ۔
صندوق کے اندر ڈھکنے پر کوئی سمجھ نہ آنے والی اوٹ پٹانگ عبارت لکھی تھی۔ پریتم کے چہرے پر خوف کے آثار پھیلتے جارہے تھے۔ میں نے سنبھلتے ہوئے بڑی لاپروائی سے پریتم کومخاطب کیا۔
پریتم یہ کیا بکواس ہے۔ چلو اس کو بند کرو ۔ پتا نہیں کسی نے کیا ٹونہ ٹوٹکا کیا ہے ۔ مجھے بھی چار روز سے پریشان کر رکھا ہے ۔
بابو جی یہ کسی مہان شکتی یوگی کا کام لگتا ہے۔ پتا نہیں یہ کیا بلا ہے۔
پریتم نے صندوق بند کرتے ہوئے کہا۔ میں نے بڑی مشکل سے وہ صندوق اس کے سر پر رکھوایا اور کہا کہ اسے دور  لے جا کر پھینک آؤ۔
پریتم کے جانے کے بعد میں نے کوارٹر کا دورازہ اور کھڑکیاں سب کھول دیں تاکہ وہ گندی سی بدبو باہر نکل جائے۔
خدا معلوم وہ کیسی بدبو تھی ، جس نے میرا دماغ ماؤف کر ڈالا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد پریتم بھی آ گیا۔  اس  نے بتایا کہ وہ صندوق کو بڑے ڈھائے کے پار پھینک آیا ہے۔ یہاں میں عرض کر دوں کہ بڑا ڈھایا بخت پور کی آخری حد تھی کیونکہ یہاں سے نشیبی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔
اس بات کو کئی ہفتے گزر گئے ۔ ہم دونوں اس واقعہ کو فراموش کر گئے۔ اس دوران شہر میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔ ہوا یوں کہ رات کی تاریکی میں کسی نامعلوم بلا  نے دھرم شالا کے برہم چاری اجیت پر حملہ کر دیا۔ اس کے پورے جسم پر گہرے سبز رنگ کے بڑے بڑے داغ اُبھر آئے تھے۔ وہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہو گیا ۔
اس واقعہ کی وجہ سے پورے بخت پور میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس سنگین صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے بصیر نگر پولیس کی نفری بھی پہنچ گئی مگر انسپکٹر سودیش ورما کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا اور لاش کا کریا کرم کر دیا گیا ۔
پریتم اجیت کو جلانے کی رسم میں شامل تھا۔ اس کی زبانی معلوم ہوا کہ برہم چاری کے جسم پر اُبھرنے والے سبز رنگ کے بڑے بڑے دھبوں کو ،جن سے سیاہی مائل مادہ خارج ہو رہا تھا، دیکھ کر خوف آتا تھا۔ میں نے ا پنا خیال ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ اجیت کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا ہو ۔
پریتم رام رام کرتا صفائی کرنے لگا۔
اس واقعہ کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ اسی طرح ایک اور روح فرسا حادثہ رونما ہوا۔ شادی گھر کا منتظم ریشم سنگھ جو علاقے کا مانا ہوا پہلوان تھا، اسی حالت میں پایا گیا۔ وہ شادی گھر کے قریب اکھاڑے میں اوندھے منہ پڑا تھا۔ اس کے پورے جسم کا وہی حشر تھا جو چند روز قبل برہم چاری اجیت کے جسم کا ہوا تھا۔
پورے بخت پور میں اس دوسری موت کو بھگوان کا انتقام قرار دے دیا گیا۔ سبھی لوگ اس اچانک صورتحال سے اتنے پریشان ہو چکے تھے کہ گھروں سے باہر نکلتے گھبراتے ۔
ہر ایک کے ہونٹوں پر سبز موت کا تذکرہ تھا۔ رات کو دلیر قسم کے نوجوانوں نے پہرہ دینا شروع کر دیا مگر اس کے  باوجود تیسرے روز بھی ایک خوبرو نوجوان جو قریبی گائوں سے حصولِ تعلیم کے لئے بخت پور آیا ہوا تھا اس پراسرار موت کی نذر ہو گیا۔
وہ بھی اپنے چھوٹے سے مکان میں اکیلا رہتا تھا۔ ان یکے بعد دیگرے اموات کی ایک چیز مشترکہ تھی۔ جو بھی اس کا شکار ہوا ،وہ اپنی اپنی جگہ اکیلا رہتا تھا۔ جب اس کی لاش جلائی جاتی، تو اس میں سے ناقابلِ برداشت بدبو اُٹھتی، جسے بڑی مشکل سے وہاں کھڑے لوگ قبول کر تے، کیونکہ ان رسوم کو تو بہر صورت نبھانا ہوتا تھا۔
اب تو بخت پور کے لوگ پولیس کو بھی اطلاع نہ کرتے کیونکہ پولیس نے دوسری بار یہ کہہ کر کارروائی کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ کسی زہریلی چیز کی کارستانی معلوم ہوتی ہے ۔
گاڑی کے گزر جانے پر چند سواریاں اس انتظار میں گیٹ پر کھڑی تھیں کہ میں ان کے ٹکٹ دیکھ کر انہیں جانے کی اجازت دوں ، مگر میں بڑے کیکر کے نیچے بیٹھی اس عورت کو دیکھ رہا تھا، جو گیٹ کے بجائے اس طرف جا بیٹھی تھی ۔
کیونکہ رات کے وقت کسی عورت کا وہاں جا بیٹھنا بالکل خلافِ توقع تھا۔ ایک سواری کے اصرار پر میں اس عورت کو چھوڑ کر ٹکٹیں دیکھنے لگا۔ سب لوگ چلے گئے۔ اب میں اور پریتم پلیٹ فارم پر اکیلے کھڑے تھے، یا وہ عورت کیکر کے نیچے لاپروائی سے بیٹھی تھی۔ میں نے ہمت کر کے پریتم کو اس کی طرف بھیجا تاکہ وہ پتا کرے کہ وہ عورت ٹرین سے اُتری یا جانا چاہتی ہے؟ اگر جانے کے لئے کہے تو کہہ دینا کہ اب کوئی گاڑی یہاں نہیں رُکے گی۔
پریتم کیکر کی طرف بڑھ گیا۔ میں اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا مگر اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔
کیا بات ہے پرتیم؟’’
جی وہ بیٹھی روئے جا رہی ہے۔ میرے بار بار اصرار پر بھی اس نے کچھ نہیں بتایا بابو جی !وہ تو مجھے کوئی مصیبت زدہ عورت لگتی ہے۔ آپ خود جا کر معلوم کر یں کہ کیا ماجرہ ہے؟
میں سر ہلاتا ہوا اس طرف چل پڑا۔ واقعی وہ عورت بیٹھی سسکیاں لے رہی تھی۔ میں نے ازراہِ ہمدردی اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس جگہ ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ میں اس کو صحیح طور دیکھ نہ سکا ،مگر میں نے یہ ضرور محسوس کیا کہ وہ اٹھارہ بیس سالہ لڑکی ہے اور مسلسل روئے جا رہی ہے۔ میں نے گلا کھنکھار کر صاف کیا اور اُسے مخاطب کیا۔
محترمہ! آپ کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو آپ بتائیں، شائد میں آپ کی کوئی مدد کر سکوں۔
آپ میری کیا مدد کریں گے؟ میں تو ہوں ہی بدنصیب۔ میرا خاوند مجھے بیاہ کر پونا لے جا رہا تھا مگر ویران اسٹیشن پر چھوڑ کر خود گاڑی میں سوار ہو گیا۔ کہتے کہتے وہ پھر سسکیاں لینے لگی۔
آپ روئیں مت۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں یہ بات روانی سے کہہ گیا۔
اگر آپ اجازت دیں تو میں یہاں رات بسر کر لوں؟ اس نے روتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ اس ویرانے میں آپ رات بسر کریں گی؟ آئیں میرے ہمراہ اور مجھ پر مکمل بھروسا کریں۔
شکریہ۔ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کر میرے ساتھ چلنے لگی۔ جب وہ میرے آفس میں آئی تو میری آنکھیں ساکت ہو کر رہ گئیں۔
بتی کی روشنی میں میرے سامنے ایک اپسرا بیٹھی تھی۔ ہلکے آسمانی رنگ کی ساڑھی میں ملبوس اور سونے سے لدی ہوئی۔ وہ واقعی نئی نویلی دلہن تھی۔ مانگ میں بھرا سیندور مہندی بھرے ہاتھ، پاؤں میں قیمتی زری کی بنی جوتی، اس کے دلہن ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
آپ فکر نہ کریں۔ میں آپ کے خاوند کو ہر حالت میں تلاش کروں گا۔ میں نے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ اس نے اپنی جھکی آنکھیں اُٹھا کر میری طرف دیکھا تو مجھے اس کی آنکھوں میں عجیب قسم کی چمک کا احساس ہوا۔ جیسے سخت گرمی میں شدید دھوپ کی تمازت ہو۔ لمحہ بھر کے نظروں کے تصادم  نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
پریتم دفتر کے باہر کھڑا اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ اسے کوئی حکم جاری کروں۔ اسی احساس کے پیش نظر میں نے اسے دودھ لانے کو کہا ۔
وہ ’’جی اچھا‘‘ کہتا ہوا کوارٹر کی طرف چلا گیا۔
میں اس لڑکی سے بات کرنے کا کوئی جواز تلاش کرنے لگا۔ آپ کے میاں کا آپ سے کوئی جھگڑا ہو گیا تھا جو اس نے یہ حرکت کی؟
کوئی بات نہیں ہوئی۔ بس مجھے انہوں نے اسٹیشن پر اُترنے کا حکم دیا اور میں اُتر گئی۔ جب گاڑی روانہ ہوئی تو وہ بھاگ کر سوار ہو گئے اور میں اسٹیشن پر اکیلی رہ گئی۔
اس نے ساڑی کا پلو سر پر درست کرتے ہوئے جواب دیا۔
بڑا بے حِس انسان ثابت ہو ا ہے۔ میں نے رجسٹر میں حساب چڑھاتے ہوئے کہا ، پھر اسے مخاطب کیا۔
آپ کہاں کی رہنے والی ہیں؟ حیدر آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ ہے میر پور۔ وہاں رہتے ہیں ہم لوگ۔ اس  نے مدھم سی آواز میں بتایا۔ اتنے میں پریتم چھاگل میں دودھ  لے آ یا۔ میں نے دودھ پیالی میں ڈال کر لڑکی کے آگے رکھ دیا اور اس سے اس کا نام دریافت کیا۔
میرا نام لاجونتی ہے۔ اس نے پیالی ہاتھ میں لیتے ہوئے نام بتایا۔
آپ ایسا کریں دودھ پی کر پریتم کے ساتھ کوارٹر میں جائیں اور آرام کریں۔ صبح کوئی بندوبست کروں گا اور ہاں پریتم! تم دیوی جی کو چھوڑ کر میرا بستر دفتر  لے آنا۔ پھر میں  نے لاجونتی کو مخاطب کیا۔
آپ کوارٹر کا دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کر لیں۔ جب تک آپ یہ اچھی طرح یقین نہ کر لیں کہ باہر سے آنے والا ہم دونوں میں سے کوئی ایک ہے، دروازہ مت کھولیں۔
اس  نے جواب میں سر ہلا دیا۔ دودھ ختم کر کے وہ پریتم کے ہمراہ کوارٹر کی طرف چلی گئی اور میں اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ خدا جانے اس کے میاں نے اسے کس جرم کی پاداش میں یہاں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ پریتم بھی ہندو دھرم کا تھا، اس لئے میں نے کسی بات کا سامنے کرنے سے پہلے ہی اپنا بستر دفتر منگوا لیا ۔
لاجونتی نے جو اڈریس پونا اور میر پور کا بتایا تھا، اس پر میں  نے ہر ممکن رسائی کی، مگر ادھر سے کوئی جواب نہ آیا۔ اُدھر لاجونتی بے فکر میرے کوارٹر میں رہتی تھی ۔ اسے آج تیسرا روز تھا۔ میں بھی اس کے آنے پر گھر کے کام سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ وہ ہر کام بغیر بتائے کر رہی تھی۔ جیسے وہ شروع سے میرے ساتھ رہتی آ رہی ہو۔
ایک بات جس نے مجھے چونکا دیا تھا ، وہ دودھ کی زیادتی تھی۔ یعنی پہلے صرف ایک ڈونی پیمانہ آتا اب تین آنے لگے تھے ، کیونکہ لاجونتی صرف دودھ پی کر ہی گزارا کرتی۔ اسے کھانے کے لئے کہا گیا تو اس نے بتایا کہ اسے معدے کی تکلیف ہے۔ اس لئے وہ صرف دودھ ہی پی سکتی ہے۔ میں اس کے جواب سے مطمئن ہو گیا۔
میں جب بھی کوارٹر میں آتا، لاجونتی کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت کے آثار پاتا مگر وہ ایک ہندو لڑکی تھی اور میں ایک مسلمان تھا، اس کے باوجود میرے دل کے کسی کونے میں اس کے لئے گداز سی کرن نمودار ہو رہی تھی جسے میں کوشش کے باوجود نہ دبا سکا۔
بخت پور میں لوگ اس آفت کی وجہ سے اتنے پریشان تھے کہ انہیں دوسرے کام میں مداخلت کرنے کی فرصت نہیں تھی ورنہ پتا نہیں لاجونتی کے معاملہ میں مجھے کیا کرنا پڑتا۔ ویسے بھی پریتم کے علاوہ کسی کو اس کی خبر نہ تھی۔
آخری گاڑی گزر جانے کے بعد پریتم کو بتی گودام کی نگرانی کا کہتا ہوا کوارٹر کی طرف چلا کہ لاجونتی کی خیریت وغیرہ دریافت کر لوں۔ بتی گودام میں جو سامان بُک ہوتا تھا میں وہ رکھوا دیتا تاکہ وہ محفوظ رہے ۔ جب سامان زیادہ ہوتا تو پریتم کو اُدھر ہی رہنا پڑتا تاکہ کوئی نقصان نہ ہو پائے۔ لاجونتی نے میری آواز سن کر دروازہ کھول دیا۔  اس کے چہرے پر نرم سی مسکراہٹ تھی۔ میں اندر داخل ہو گیا تو اس نے دروازہ بند کر دیا۔
لاجونتی! بڑی حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک تمہارے کسی رشتہ دار یا عزیز  نے تمہارا پتا نہیں کیا۔ میں  نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
میری قسمت بابو جی!اس نے کھڑے کھڑے جواب دیا ۔ آپ کے لئے چائے لاتی ہوں۔
نہیں لاجونتی، رہنے دو ۔ کیوں تکلیف کرتی ہو۔ چائے تو میں  نے بنا رکھی ہے۔ لاجونتی نے مسکرا کر جواب دیا اور کمرے سے نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دودھ اور میں چائے کی پیالی پکڑے ان خدشات کی بات کر رہے تھے کہ ابھی تو صرف اس بات کا پریتم کو پتا ہے ، اگر کسی اور کو علم ہو گیا تو میرے لئے مصیبت آ جائے گی۔ لاجونتی کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ میں نے پہلی بار ہمت کر کے اس کے بازو کو پکڑ کر ہلایا۔
کیا بات ہے ؟ تم فکر نہ کرو۔ میں تمہاری خاطر سب کچھ سہہ لوں گا۔
اس کا بازو میرے ہاتھ میں تھا اور میرے سارے جسم میں ایک ملائم سی سرسراہٹ کا احساس گونج گیا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں نے کسی سانپ کو پکڑ رکھا ہو۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سوچتا، لاجونتی جلدی سے پیالی اٹھا کر باہر نکل گئی اور میں شرمندہ سا ہو کر رہ گیا۔ میں تھوڑی دیر اور بیٹھا اور پھر اسے دروازہ بند کر لینے کا کہتے ہوئے باہر نکل آیا۔
چاروں طرف خاموش سناٹا اور گہرا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ اسٹیشن پر نصب لمپ کی مدھم روشنی کا شعلہ ہوا کے دوش پر رقص کناں تھا۔ میں لاجونتی کے خیالوں میں گم آہستہ آہستہ اسٹیشن کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بتی گودام کے باہر پریتم زمین پر بستر بچھائے بیٹھا اپنی چھوٹی سی ناریل کی حقی سے کش لگا رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور لاجونتی کی خیریت پوچھی۔ میں اسے بتاتا ہوا اپنے آفس میں آ گیا ۔ میرا بستر وہ بڑی میز پر لگا دیتا تھا جو یہاں دفتری کام کے لئے رکھی تھی۔ وہ میرے پیچھے اندر آ گیا کیونکہ وہ روز مجھے دبا کر سوتا تھا۔ آج بھی اس  نے میرے لیٹتے ہی میری ٹانگوں کو دبانا شروع کر دیا۔
بابو جی !ہم لوگ کہیں کسی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔ آپ نے اس کے پریوار کو پتر بھی لکھے ہیں پرنتو کوئی جواب نہیں آیا۔
ہاں پریتم میں اس مسئلہ پر کئی بار سوچ بیٹھا ہوں۔ صبح ایک بار پھر خط لکھوں گا۔ تم جاؤ اور خبردار ہو کر لیٹنا۔اچھا بابو جی‘‘ کہتا ہوا وہ باہر نکل گیا اور میں نے کمرا اندر سے بند کر لیا۔
رات کا پچھلا پہر شروع ہو چکا تھا اور وہ بستر پر لیٹی بے چینی میں کروٹیں بدل رہی تھی۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے جسم کی نقاہت مزید بڑھ گئی۔ وہ ایک ہیجانی سی کیفیت میں مبتلا ہو کر اٹھی۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی مانند روشن ہو گئیں۔ اس کے منہ سے گہرے سبز رنگ کا غبار سا خارج ہونے لگا ۔
رات کی تاریکی میں کوارٹر کا دروازہ کھلا اور سبز غبار میں مدغم نسوانی سایہ لہراتا ہوا اسٹیشن کی طرف بڑھنے لگا ۔ بتی گودام کے باہر پریتم دن بھر کا تھکا ہوا بے خبر پڑا تھا ۔ وہ نسوانی سایہ تھوڑا سا جھکا، پریتم کے جسم کے اوپر سبز غبار پھوار کی مانند پڑا اور وہ بلبلا کر اُٹھ بیٹھا۔ اس کے سامنے لاجونتی کھڑی تھی۔ جس کی سرخ انگارہ آنکھیں پریتم پر مرکوز تھیں۔ پریتم کا جسم اس سبز غبار میں گم ہونے لگا۔
پریتم نے لاجونتی کا جسم سمٹتے دیکھا اور پھر سامنے ایک خوفناک سبز ناگن پھن پھیلائے جھوم رہی تھی۔ اس کی آنکھوں کی کشش نے پریتم کو بے سدھ کر ڈالا۔ اب وہ ناگن پریتم کے جسم پر رینگنے لگی۔ اس کے خوفناک دانت بار بار پریتم کے جسم میں پیوست ہو رہے تھے اور پریتم کا جسم چونے کی طرح پھٹتا جا رہا تھا۔ رات بھیگ رہی تھی۔ وہ نسوانی سایہ اس سبز غبار میں دوبارہ نمودار ہوا اور شانِ بے نیازی سے بڑھتا ہوا دوبارہ کوارٹر کی طرف بڑھنے لگا۔
پریتم کی لاش بتی گودام کے باہر پڑی تھی اور میرے ارد گرد مقامی لوگوں کا ہجوم تھا، جو مجھ سے طرح طرح کے سوالات کر رہے تھے، کیونکہ پریتم کے جسم پر بھی وہی نشانات تھے ، جو اس سے پہلے ملنے والی لاشوں کے جسم پر نمایاں تھے۔ وہی سبز رنگ کے بڑے بڑے گڑھے اور ابھرے ہوئے گلے سڑے پھوڑے جن سے سبز رنگ کا لیس دار مادہ بہہ رہا تھا۔
میں اپنے ذہن پر زور دے رہا تھا کہ رات کے کس پہر یہ خوفناک واقعہ پیش آیا؟ مگر میرا ذہن کسی بھی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ پولیس آئی اور اسے بھی پراسرار حادثہ قرار دے کر چلی گئی۔
میں پریشان سا کوارٹر میں آیا اور لاجونتی سے تبادلہ خیال کرنے لگا۔ وہ میری باتوں کا جواب اوں ہاں کر کے دیتی رہی۔ میں پریتم کی وفاداری کے قصے بیان کر تا رہا۔ لاجونتی کا چہرہ سپاٹ تھا اور اس پر کسی تاثر کا کوئی ثبوت نہیں نظر آرہا تھا۔ میں اور کچھ دیر رُکتا، مگر مجھے ہیڈ کوارٹر پریتم کی موت کی اطلاع دینا تھی اور متبادلہ بندوبست بھی کرنا تھا۔ ویسے بھی میرا اپنا دل خوفزدہ تھا کہ میں بھی اس پراسرار بلا کے نرغے میں نہ آجاؤں۔
اس واقعہ کو کئی روز بیت گئے تھے، مگر میں بڑا چوکنارہتا۔ پریتم کی جگہ جو کوٹری سے ملازم آیا تھا، وہ ایک عمر رسیدہ شخص اور عیسائی تھا۔ جوزف نام تھا اس کا ۔ خاموش طبع یہ بزرگ ہر کام بتانے پر کرتا، ورنہ بیٹھا خلاؤں میں گھورتا رہتا۔ جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔
جوزف،
جی بابو جی!‘‘ اس نے چونک کر جواب دیا ۔
جاؤ کوارٹر کی صفائی کر آؤ اور لاجونتی سے پوچھتے آنا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دے۔ کوارٹر کی صفائی سے فارغ ہو کر جوزف نے لاجونتی کو مخاطب کیا۔
بیٹی! بابو جی نے کہلا بھیجا ہے کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو کہیں۔
نہیں بابا جی کچھ نہیں۔ لاجونتی نے پڑے پڑے جواب دیا ۔ جوزف جھاڑو رکھتے ہوئے باہر نکل گیا۔
لاجونتی نے اپنے فیصلہ کے پیش نظر اٹھ کر آخری نظر کوارٹر پر ڈالی اور اپنا جسم سمیٹ کر ناگن کا روپ دھار لیا۔ساڑی زمین پر ڈھیر ہو گئی اور وہ دروازے کی بڑی جھری سے نکل کر جنگل میں روپوش ہو گئی۔
گاڑی گزر جانے کے بعد میں نے حساب بند کیا اور کوارٹر کی طرف چل پڑا۔ چند لمحوں تک میں دروازہ پیٹتا رہا، پھر دھکا دے کر اندر داخل ہو گیا۔
لاجونتی !میری آواز  نے کوارٹر کی گمبھیر خاموشی توڑی مگر کوئی جواب نہ ملا۔ جب سونے کے کمرے میں آیا تو دیکھا کہ زمین پر ساڑی بکھری پڑی ہے مگر لاجونتی نہیں ۔ اس کی سب چیزیں اپنی اپنی جگہ پڑی تھیں اور وہ ساڑی بھی جو اس نے پہن رکھی تھی۔ سارے کوارٹر میں مَیں اسے تلاش کر کے پھر باہر نکل آیا مگر لاجونتی کہیںنظر نہ آئی ۔ میں پریشان ہو کر پلیٹ فارم کی طرف چل پڑا۔
جوزف تم جب صفائی کرنے گئے تھے تو لاجونتی کوارٹر میں تھی۔
جی بابوجی!‘‘جوزف نے بتی کا شیشہ صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔
کیوں بابو جی خیریت توہے نا؟
کچھ نہیں بس وہ کوارٹر میں نہیں۔ کہتا ہوا رجسٹر کھول کر کام کرنے لگا۔
کئی روز ہو گئے مگر لاجونتی کا کوئی پتا نہ چلا۔ میرے ذہن میں طرح طرح کے خیال اُبھر ڈوب رہے تھے ،مگر کسی نتیجہ پر نہ پہنچ پایا۔
اُدھر بخت پور میں پھر سے سبز موت کی کارروائیاں شروع ہو چکی تھیں۔ لوگ ڈر کے مارے بھاگ رہے تھے۔ بصیر نگر سے پولیس کی نفری مکمل طور پر بخت پور میں آ چکی تھی مگر وہ بھی اس کا سراغ لگانے میں ناکام ہو چکی تھی۔
بابوجی !کہیں لاجونتی بیٹی بھی تو اس بلا کا شکار نہیں ہو گئی جو آج تک اس کا پتا نہیں چل سکا۔
جوزف کیا کہا جا سکتا ہے۔ میں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ اچھا جاؤ بتیاں روشن کر آؤ۔
جوزف باہر نکل گیا اور میں لالٹین کی روشنی میں حساب جوڑنے لگا۔
ایک عجیب سی بُو میرے ذہن سے ٹکرائی۔ میں نے چاروں طرف گھوم کر دیکھا اور دوبارہ کام میں لگ گیا۔ پھر یکدم کوئی خیال آیا اور اٹھ کر دفتر کا دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کر لیا۔ تھوڑی دیر گزری ہو گی کہ وہ ناگوار سی بُو پھر محسوس ہوئی۔ اس بار مجھے یہ بُو اپنے بالکل قریب سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جب میں  نے غور کیا تو کمرے میں ہلکا ہلکا سبز غبار سا اُڑتا ہوا دکھائی دیا۔ جس میں سبز ذرات جل بجھ رہے تھے۔ میں خوفزدہ ہو گیا۔ مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے موت رقص کرتی نظر آنے لگی ۔ میں خوف سے چیخ اُٹھا مگر میری سماعت سے ٹکرانے والی آواز  نے مجھے ساکت کر دیا۔
طارق !گھبراؤ مت۔ میں لاجونتی ہوں۔ جس کے احساس کی خوشبو اب بھی تمہارے دل کے کسی گوشے میں مچل رہی ہے۔ پھر وہ سبز غبار ایک جگہ اکٹھا ہونے لگا۔ چند ساعتیں گزرنے کے بعد لالٹین کی مدھم روشنی میں لاجونتی کا چمکیلا جسم اپنی پوری رعنائی کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے تھا۔
طارق! تم میرے لئے پریشان تھے نا۔ لو میں آگئی ہوں۔ تمہیں اس اذیت سے نکالنے کے لئے۔ میں کہاں چلی گئی تھی طارق! میں انتقام ہوں۔ انسان کے جسم میں گردش کرتے گرم گرم خون کا، جس نے مجھے یہ روپ دھارنے پر مجبور کیا۔ کاش وہ یوگی میرے ساتھی کو اپنا جاپ پورا کرنے کے لئے پورن ماشی کی رات ہلاک نہ کرتا اور مجھے قید کر کے یہاں نہ پھینکتا۔ میں کبھی ایسا نہ کرتی۔ تمہارے طرز عمل اور محبت نے مجھے انسان سے نفرت کے باوجود اس سے محبت کا بھی درس دیا ہے۔ میں تمہاری حد سے نکل کر باہر جا رہی ہوں مگر تم مجھے ہمیشہ یاد آتے رہو گے اور ہاں پریتم کا مجھے اس لئے دُکھ نہیں کہ وہ تمہیں غلط مشورے دیتا تھا، جس کی سزا میں نے اس کے لئے یہی تجویز کی تھی۔ اب میں جارہی ہوں۔
کہتے ہوئے لاجونتی اٹھی اور میرا ہاتھ تھام کر ہونٹوں پر لگا لیا۔ مجھے اپنے پورے وجود میں ایک جھرجھری سی اُٹھتی محسوس ہوئی۔ وہ غبار ایک دم سمٹ کر ناگن کا روپ اختیار کر گیا اور آنکھوں کے سامنے دیوار کے سوراخ میں گم ہو گیا۔
میرے ہاتھ پر سبز نشان چمک رہا تھا۔ میں نے سرد آہ بھرتے ہوئے اپنا ہاتھ آنکھوں کو لگا لیا اور میری آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس سبز داغ میں جذب ہو گئے۔

٭٭٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles