تحریر، جاوید راہی
ائیر پورٹ کا گیٹ عبور کرتے ہوئے وہ تیزی سے اسکرینگ ٹرالی پر اپنا بریف کیس رکھتا دوسری طرف آ گیا۔ بریف کیس پر سیکیورٹی آفیسر نے کراچی کا ٹیگ لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا اور وہ بریف کیس سنبھالتا چانس والوں کی لائن میں آ لگا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے پتا چلتا تھا کہ وہ کسی اندرونی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کے آگے کھڑا ہوا مسافر کب کا کاؤنٹر پر پہنچ چکا تھا۔ اس کے پیچھے کھڑے ہوئے شخص نے اسے شانے سے پکڑ کر اس بات کا احساس دلایا ۔ وہ کھسیانا سا ہو کر بریف کیس سنبھالتا کاؤنٹر پر آیا اور چانس کا اسٹیکر لگا کر ٹکٹ آگے بڑھا دیا اور کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے شخص کی طرف پراعتماد نظروں سے دیکھا کیونکہ اس سے اگلا مسافر پڑتال کروانے والے مسافروں کی لائن میں کھڑا تھا۔
ویسے بھی جس ٹریول ایجنسی سے اس نے بنکاک کا ٹکٹ بنوایا تھا۔ اس ایجنٹ نے اس بات کی حامی بھری تھی کہ وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔
اسے بورڈنگ کارڈ مل گیا اور وہ جلدی سے سیکیورٹی گیٹ کی طرف آخری چیکنگ کے لئے بڑھ گیا۔ وہاں سے فارغ ہو کر وہ دوسرے مسافروں کے ساتھ لاؤنج میں آ بیٹھا۔ دوسروں سے الگ اکیلا اکیلا سا چہرے پر بے حسی کی جھلک نمایاں لگ رہی تھی۔ سگریٹ کا ایک لمبا سانس اس نے پھیپھڑوں میں بھر کر کڑوی حقیقت کی طرح فضا میں اُگل دیا، جیسے اس نے اپنے اندر کے درد کو خود سے آزاد کر نے کی کوشش کی ہو۔
جہاز آنے میں شاید ابھی دیر تھی کیونکہ تمام مسافروں کو چائے وغیرہ دی جا رہی تھی۔ اس نے بھی چائے طلب کی اور سگریٹ کے دھوئیں میں ڈوب گیا۔ اس کے ذہن کے قرطاس پر لہراتے ہوئے کئی ایک خاکے گڈمڈ ہونے لگے۔ اسے وہ دن اچھی طرح یاد تھا۔ جب وہ میڑک کا اسٹوڈنٹ ہوا کرتا تھا۔
اسکول سے جب وہ واپس آیا تو گھر میں کہرام مچا تھا۔ اس کے والد نے اس کی والدہ کو اس بات پر قتل کر ڈالا تھا، کہ اس نے اس کی بڑی بہن کا رشتہ اپنے بھائی کے بیٹے کو دینے پر اصرار کیا۔ اس کے والد نے طیش میں آ کر اس کی والدہ کا گلا دبا کر ہلاک کر ڈالا ۔ پولیس آئی اور اس کے والد کو گرفتار کر کے لے گئی۔
وہ سہما سہما چاروں جانب دیکھ رہا تھا۔ ماں کی لاش قبر تک جانے سے لے کر باپ کو عمر قید کی سزا ہونے تک حالات کی ستم ظریفی کے چرکے سہتا سہتا اتنا سخت مزاج ہو گیا تھا کہ ہر پل اس کے چہرے پر وحشت ٹپکتی رہتی۔
پوری فیملی کا بوجھ اور کاروبار کا سارا نظام اس کے سپرد ہو چکا تھا ۔ فیکٹری میں اس کا ہاتھ بٹانے کے لئے اس کا ماموں کبھی کبھار آ جاتا ، مگر اسے بہت جلد علم ہو گیا کہ ماموں صرف اس کی بڑی بہن سمیرا کا رشتہ طلب کرنے آتا ہے۔ جس کے جھگڑے کی بھینٹ اس کا پورا گھر چڑھ گیا تھا۔ اس کے والد کے رشتہ دار اس کا فیکٹری آنا جانا پسند نہیں کرتے تھے مگر وہ ان کی پروا کئے بغیر اپنے ماموں کے مشوروں پر ناصرف عمل کرتا بلکہ اس سے مالی تعاون بھی کرتا رہتا۔ اکثر وہ جب اپنے والد کو ملنے سنٹرل جیل جاتا تو اس کو اپنے والد کی برہمی کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ بالکل پسند نہیں کرتا تھا کہ اس کا ماموں اس کے بیٹے سے میل جول کرے، مگر وہ بڑے طریقے سے اپنے والد کو مطمئن کر دیتا۔
ایک دن اس نے صاف لفظوں میں اپنے ماموں کو سمیرا کے رشتہ سے انکار کر دیا ۔ جس پر اس کا ماموں دلبرداشتہ ہو کر واپس چلا گیا اور اس کے آنے جانے کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ اسی دوران اس کے والد نے سمیرا کا رشتہ اپنی بہن کے بڑے بیٹے خالد سے طے کر دیا اور یوں سمیرا کی شادی ہو گئی۔ اس نے اپنے ماموں کے گھر والوں کو شادی پر مدعو کیا ،مگر ان میں سے کوئی بھی شامل نہ ہوا۔
سمیرا اپنے گھر چلی گئی۔ اب گھر میں وہ اور دو چھوٹی بہنیں اور سب سے چھوٹا بھائی رہ گیا، جو تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس کے والد نے دوران ملاقات کئی ایک بار اس سے شادی کی بات کی مگر اس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ابھی ضرورت نہیں۔ اس کے ماموں کے خاندان کے ساتھ ایک کشیدگی تو ماں کے قتل کی تھی اور دوسری سمیرا کی شادی خالد سے ہو گئی۔ بات مزید طول پکڑ گئی۔ کبھی اگر اس کا سامنا اپنے ماموں کے لڑکے راشد سے ہو جاتا تو وہ نفرت سے منہ پھیر لیتا۔ جس کا اسے شدید دکھ پہنچتا۔ وہ رشتوں کے ان ڈستے ہوئے سانپوں کی بدولت سوچوں کے اندھے نگر میں کھو کر اپنے آپ کو تلاش کر نے لگتا۔
سیمرا کے دو بیٹے ہو گئے۔ اس کے تینوں چھوٹے بہن بھائی دو کلاسیں آگے نکل گئے۔ باپ کی سزا کی مدت دو سال اور گزر گئی، مگر سارا ماحول جوں کا توں تھا۔ ایک روز وہ فیکٹری سے واپس آیا تو سمیرا کو اپنے بچوں سمیت گھر میں موجود دیکھا۔ وہ اکیلی تھی ،خالد نظر نہ آیا تو اس نے براہ راست بڑی بہن کی آنکھوں میں جھانکا۔ خالد فیکٹری اور جائیداد کا حصہ طلب کر رہا تھا ورنہ اس نے طلاق کی دھمکی دی ہے۔ سمیرا نے اپنے دونوں بچوں کو سینے سے لگاتے ہوئے کرب سے کہا ۔
کوئی بات نہیں باجی۔ میں خود بات کر لوں گا۔ تم فکر نہ کرو ۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنی باجی کو حوصلہ دیا ۔ خالد سے جب وہ ملا تو اسے سخت مایوسی ہوئی۔ ملاقات پر اس نے اپنے والد کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو وہ پریشان ہو گیا ۔ حالانکہ جہیز میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ بات کیا بنتی ،بگڑتی ہی چلی گئی۔ آخر بات طلاق پر ختم ہوئی۔ عدالت نے دونوں بچوں کو ماں کی تحویل میں دے دیا اور سمیرا گھر میں اجڑ کر آ بیٹھی۔
بہن کے دُکھ کو وہ اندر ہی اندر ضبط کر نے کی کوشش کرتا مگر جب تنہا ہوتا تو بے بسی سے اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں ۔ لمبی مدت کے بعد ایک بار پھر اس کا ماموں اور ممانی اس کے گھر آئے اور ماضی کو فراموش کرنے کے ساتھ ساتھ سمیرا اور راشد کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔
ماموں جان میں آپ کو کیسے سمجھاؤں کہ میں مجبور ہوں۔ ابو جان کبھی رضا مند نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی باجی اب شادی کے نام سے نفرت کرتی ہے۔
وقار تم ایک بار بھائی صاحب سے بات تو کر دیکھو مرنے والی تو مر گئی۔ بھائی صاحب کو سزا ہو گئی۔ اگر نئے سرے سے اچھے شگون کا آغاز کریں تو آگے چل کر بہتر صورت نکل آئے گی۔ اس کے ماموں نے اسے سمجھایا۔
ٹھیک ہے ماموں جان میں ابو جان سے بات کر کے آپ کو بتاؤں گا۔ ایک بار باجی صاحبہ سے بھی دریافت کر لوں۔ ٹھیک ہے، ممانی نے بھی اس کی تائیدکی۔
یوں وہ واپس چلے گئے۔ اس نے پہلے باجی سے پوچھا۔ اس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ میرا فیصلہ وہی ہو گا جو ابو اور آپ کا ہو گا۔ ملاقات پر اس نے اپنے والد سے بات کی تو انھوں نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔ ٹھیک ہے بیٹا۔ جو کچھ کرنا خاموشی سے کر لینا ۔
کہہ کر وہ رنجیدہ سے ہو گئے۔ ابو جان اب اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی تو نہیں۔ ابھی تو باجی اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لے گی۔ اگر وقت بیت گیا تو واپس نہیں آئے گا۔
دونوں بچوں کا مسئلہ ہے۔ خالد پہلے بھی اصرار کر چکا ہے کہ اس کے بیٹے اسے واپس کر دیے جائیں۔ اگر باجی رضا مند ہو گئی تو کسی معقول شرائط کے عوض دونوں بچے اس کے سپرد کر دیں گے یا بڑا لڑکا خالد کو دے دیں گے اور چھوٹا بیٹا باجی کے ساتھ رہے گا۔
ہاں اگر دونوں اس بات پر رضا مند ہو جائیں تو۔ اس کے والد نے سامان سمیٹتے کہا اور واپس چلا گیا۔
وہ کھویا کھویا گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔ اب رشتوں کے درمیان روز رسہ کشی ہونے لگی۔ باپ دونوں بیٹوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہا تھا، کیونکہ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ اگر سمیرا بیگم دوسری شادی کرے گی، تو خالد اپنے دونوں بیٹوں کو قانوناً ان کی والدہ سے واپس لے سکتا تھا۔
ادھر ماموں کا زور بڑھ رہا تھا کہ کب تک وہ نکاح لینے کی تاریخ پکی کرے۔ سمیرا کسی قیمت پر اپنے بیٹے دینے کے لیے رضا مند نہیں تھی۔
باجی آپ سمجھتی کیوں نہیں؟ اگر بچے خالد کے پاس ہوں گے تو آخر کو وہ ان کا باپ ہے۔
بھیا میں شادی نہیں کروں گی۔ آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں، اگر میرا اور میرے بچوں کو آپ اس گھر میں بوجھ محسوس کرتے ہیں، تو میں پڑھی لکھی ہوں۔ کہیں نوکری کر کے گزارا کر لوں گی ،مگر خدا کے لئے بھیا مجھے میرے بچوں سے دور مت کرو۔
سمیرا کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہو گیا۔
ٹھیک ہے باجی۔ جیسے آپ کی خوشی۔ کہتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس نے ساری حقیقت اپنے ماموں سے کہہ دی اور اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے اس مسئلہ کو ختم کر دیا مگر اس نے بات کو کسی اور انداز سے لیا۔
اس کے دل میں یہ بات اس طرح بیٹھ گئی کہ اس انکار کے پیچھے جائیداد اور اس کا اپنا عمل دخل ہے، حالانکہ وہ اپنی باجی کی بہتری کے لئے دل و جان سے کوشاں تھا مگر سمیرا اپنے بچوں کو اپنے آپ سے کسی قیمت پر الگ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
بڑے بیٹے کو اس نے اس ڈر سے اسکول تک داخل نہیں کروایا تھا کہ کہیں خالد اسے اپنے ساتھ نہ لے جائے۔ سمیرا کی زندگی ایک سطح پر آ کر رُک گئی تھی۔ ایک روز وہ کام میں مصروف تھی کہ گھر میں اس کی ممانی اور اس کی بیٹی نرگس آ گئی۔ نرگس اس کی ہم عمر تھی اور ابھی تک اس نے شادی نہیں کی تھی۔ اِدھر اُدھر کی باتوں میں سمیرا نے نرگس سے ابھی تک شادی نہ کرنے کا سبب دریافت کیا، تو نرگس نے ہنس کر اسی کی مثال پیش کرتے ہوئے جواب دیا کہ تمہیں شادی کر کے کون سا سُکھ نصیب ہوا ۔
سمیرا سنتے ہی رنجیدہ ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ نرگس کی ماں نے اُٹھ کر سمیرا کے آنسو صاف کیے اور اسے تسلی دی کہ بیٹی حالات کے ساتھ سمجھوتا کر لینا چاہئیے۔ تمہارے اس طرح اُجڑ کر گھر بیٹھ جانے کا کیا ہمیں دکھ نہیں؟
تمہارے ماموں کی سگی بہن اور تمہاری والدہ کو مار دینے کے باوجود ہم نے آپ لوگوں سے ناتا نہیں توڑا۔ اب تو بھائی صاحب نے بھی جیل سے پیغام بھیج دیا ہے کہ سمیرا اگر چاہے تو بے شک اپنا گھر آباد کر سکتی ہے۔
بیٹی، راشد تمام زندگی شادی نہیں کرے گا۔ اس کی ضد ہے اگر اس کی شادی ہوئی تو وہ صرف تم سے ہو گی ورنہ نہیں ۔
نرگس نے آہستہ سے کہا کہ سمیرا باجی آپ کو نہیں معلوم۔ راشد بھائی آپ کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں۔ آپ ان کے لئے ضرور سوچیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ بچوں کی فکر نہ کریں۔ وہ ان کے لئے اوپر تک لڑنے کو تیار ہیں۔ آپ خدارا کچھ سوچیں۔
نرگس میں سوچ کر تمہیں لکھ بھیجوں گی۔ سمیرا نے چائے بناتے ہوئے آہستہ سے جواب دیا۔
شام کو جب وقار گھر آیا تو سمیرا نے اس کو ممانی اور نرگس کے آنے کا بتایا اور ساری باتیں کہیں جو نرگس نے اس سے کی تھیں۔
باجی میرے ایک جاننے والے وکیل ہیں۔ میں ان سے ملا تھا۔ آپ کے کیس کے فیصلے کی بات کی تھی ۔ اس نے بتایا تھا کہ آپ نئے گراؤنڈ پر دوبارہ مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ جب تک دونوں بچے اپنے آپ کی سوجھ بوجھ نہیں کرتے، ان کا باپ واپس نہیں لے سکتا ۔
رہا شادی کا تو یہ کوئی مسئلہ نہیں اور پھر باجی تمہارا بھائی وقار جب تک زندہ ہے، تمہاری خوشیاں برقرار رہیں گی۔ آپ کو پتا ہے کہ ابو جان اپنی بات کے پکے ہیں۔ انہوں نے آپ کی چھوٹی سی بات پر امی کا غصے میں گلا دبا دیا تھا۔ حالانکہ یہ ایک حادثہ ہے۔ اس میں امی جان کو سچ مچ مارنے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ابو جان امی جان کے مرنے کے غم میں اور ہم لوگوں کی جدائی کے غم میں کتنے لاغر ہو چکے ہیں۔ پچھلی ملاقات پر آپ سب لوگ جب گاڑی میں آ بیٹھے تو مجھے انہوں نے کہا تھا کہ آپ میں سے کوئی بھی میرے ساتھ ملاقات پر نہ آیا کرے ۔
بتاتے ہوئے وہ خاموش ہو گیا۔ وقار ابو جان کی اپیل کا کیا ہوا؟ باجی ابھی تاریخ نہیں نکلی۔ کل وکیل صاحب کے دفتر جاؤں گا پتا کرنے کے لئے۔ یقین تو بہت دلاتا ہے کہ ضمانت ہو جائے گی۔ آگے اللہ مالک ہے۔
اس نے سمیرا کے بچے پر کپڑا درست کرتے ہوئے جواب دیا۔
وقار اگر میں آپ لوگوں کی بات مان لوں تو کیا میرے بچے تو مجھ سے نہیں چھن جائیں گے؟میں اس سلسلے میں بات کر بیٹھا ہوں، مگر ایک بار پھر بات کر دیکھتا ہوں۔ اس نے جواب دیا۔ وقار تم نہیں جانتے۔ خالد کی فطرت کو وہ انتہائی گھٹیا انسان ہے۔ میں نے اس کے ساتھ جس طرح وقت کاٹا ہے، وہ میں ہی بہتر جانتی ہوں۔ جو روپے پیسے کی خاطر مجھے اور اپنے بچوں کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ ہم سے رشتہ توڑ سکتا ہے۔ وہ اور کیا نہیں کر سکتا۔ باجی ہم اس سے خوفزدہ ہیں۔ کیا جو اس کے ڈر سے بندھے رہیں۔ وہ تو آپ کی مرضی کے خلاف ہم کچھ نہیں کر سکتے، ورنہ اس کی کیا مجال اس نے اُٹھتے ہوئے جواب دیا۔
وہ آفس میں آ کر بیٹھا تو سیلز مینجر نے بتایا کہ راشد نامی کسی صاحب کا فون آیا تھا۔ وہ بتا رہا تھا کہ آپ کے ماموں کو سخت بخار ہے اور وہ آپ کو یاد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وقت نکال کر گھر سے ہوتے جائیں۔
ٹھیک ہے۔ اس نے جواباً کہا اور اپنے آگے پڑے رجسٹر کو چیک کرنے لگا۔ فیکٹری کو اس نے دن رات ایک کر کے سنبھال رکھا تھا، ورنہ شیخ صاحب کی سزا کے بعد فیکٹری کا دیوالیہ ہو جانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔
پہلے پہل اس کو بڑی پریشانی ہوئی مگر آہستہ آہستہ سارا نظام درست ہو تا گیا۔ پروٹیکشن جو کافی حد تک نیچے آ رہی تھی، وہ بھی کنٹرول ہو گئی۔ وہ ناتجربہ کار تھا مگر حالات نے اسے وقت سے پیشتر ہی تجربہ کار بنا دیا۔
وہ خود مارکیٹنگ کرتا شہروں کی خود خاک چھانتا ،آرڈر بُک کر تا، مال اپنی زیر نگرانی بھجواتا ، پارٹنرز سے خود ملتا اگر کسی کو کوئی شکایت ہوتی تو خود اس کا ازالہ کرتا۔ غرض یہ کہ اس نے اپنے ابو کی کمی کو کسی حد تک پورا کر رکھا تھا شیخ صاحب جیل میں بھی کام کی نوعیت وقار سے دریافت کر تے رہتے اور اسے مشورے دیتے رہتے ساتھ میں اسے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کیطرف بھی توجہ رکھنے کی ہدایت کرتے۔ سمیرا کیلئے وہ پریشان ہونے کیساتھ ساتھ اس بات پر بھی دلبرداشتہ تھے کہ معمولی بات کے عوض سارا گھر برباد ہو گیا اور جس کیلئے یہ سارا کچھ ہوا وہ بھی اُجڑ کر گھر آبیٹھی۔بیوی کی موت اور بیٹی کا صدمہ اتنا شدید تھا کہ شیخ صاحب ٹوٹ پھوٹ گئے ان میں جو ہٹ دھرمی کا عنصر تھا وہ بھی دم توڑ گیا۔
اس نے چند ایک وکلاء سے بچوں کے بارے میں اور سمیرا کی دوسری شادی کے سلسلہ میں مشورے کئے آخر وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ سمیرا کی شادی کر دینے میں کوئی حرج نہیں اس نے اپنے ابو سے بات کر کے اپنے ماموں کو بلا بھیجا اور اس سے بات کر کے انتہائی سادگی سے سمیرا کا نکاح پڑھوانے کا وعدہ کر لیا۔ یوں ایک روز سمیرا اپنی اجڑی ہوئی مانگ میں افشاں بھر کر راشد کی بیوی بن گئی۔
جب یہ خبر خالد نے سنی تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس نے ٹیلیفون پر وقار کو سخت برا بھلا کہا اور بُرے نتائج کی دھمکی دی۔ اپنے دونوں بچوں کی واپسی کا تقاضا کیا۔ جس پر اس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ اس کے پاس خالد کی فضول گفتگو کا کوئی جواب نہیں۔ وقار نے راشد کو بھی اس فون کا بتایا اور ہوشیار رہنے کی ہدایت کی۔ اُدھر خالد نے اپنے دونوں بیٹوں کی واپسی کے لئے قانون کا سہارا لیا۔ مقدمہ نئے سرے سے چلنے لگا۔ راشد نے ہر طرح سے دفاع کیا۔ پولیس تک بات پہنچ گئی۔ راشد نے پیش بندی رپٹ دائر کروا دی کہ ہم کو خالد سے خطرہ ہے، کیونکہ خالد نے ایک دو بار کھلم کھلا پستول تان کر راشد کا راستہ روکا اور بچوں کی واپسی کا تقاضا کیا مگر لوگوں کی مداخلت پر بات ختم ہو جاتی۔ پولیس نے خالد کو قتل کرنے کی دھمکی اور کھلے عام پستول لہرانے کے الزام میں گرفتار کر لیا اور اس پر مقدمہ درج کرتے ہوئے حوالات میں بند کر دیا۔
اس کی ضمانت تو ہوئی مگر وہ باز نہ آیا۔
سمیرا نے بتایا کہ راشد انسان کے روپ میں فرشتہ ہیں۔ وہ بچوں کو اس قدر پیار دیتے ہیں کہ شاید ان کا سگا باپ بھی نہ کرتا ہو، اتنا پیار کہ چھوٹے کو بخار آ گیا۔ تو وہ دیوانوں کی طرح اس کو ڈاکٹروں کے پاس لے کر دوڑتے پھرے تمام رات جاگ کر اس کی تیمارداری کرتے رہے۔ میرے ماتھے کی ذرا سی شکن پر وہ تڑپ تڑپ جاتے ہیں۔ وقار بھائی کاش ابو جان نے کچھ سوچا ہوتا تو مجھے اور ان کو یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے کہتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
بس کرو باجی اللہ پاک تمہیں سارے سُکھ ہمیشہ کے لئے بخش دیں اور تمہارے نزدیک کبھی کوئی دُکھ نہ آئے۔ وقار نے اپنی باجی کو حوصلہ دیتے دعا دی۔ سمیرا کی شادی کو سال بھر سے زیادہ عرصہ بیت رہا تھا۔ اس دوران جتنی خوشیاں اس کو راشد کی طرف سے ملیں، اس سے کہیں زیادہ اذیتیں خالد کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ کی صورت میں اور آئے دن اس کی طرف سے اُٹھائے جانے والے نت نئے حربوں کی شکل میں ملتی آ رہی تھیں، مگر راشد کی دل جوئی کے باعث وہ زیادہ فکر مند نہ ہوتی۔
دونوں بچوں کو وہ سمیرا سے بھی زیادہ پیار کرتا سمیرا راشد کے طرزِ عمل پر دل ہی دل میں خوش ہوتی مگر آنے والے حالات سے بے نیاز وہ آگے بڑھتی رہی، آخر خالد مقدمہ ہار اور دونوں بچے عدالت نے سمیرا کے سپرد کر دیے، راشد کو اس جیت کی بہت خوشی تھی۔
وقار نے اپنی باجی کو خوش دیکھ کر اپنے انداز میں ایک عجیب سی خوشی محسوس کی۔ اس نے راشد کو کہا کہ تم اور باجی بچوں سمیت کسی دوسرے ملک کی سیر کر آؤ میں اس کاانتظام کر دیتا ہوں۔
وقار نے ان کے ضروری کاغذات اور تھائی لینڈ ، سنگا پور ،منیلا کے لئے ٹکٹ بنوائے اور خود انہیں جہاز میں سوار کروایا ،ان کو گئے ابھی کچھ روز ہوئے تھے کہ خالد کو علم ہو گیا۔ اس کے سینے پر سانپ تو ہر وقت لوٹتے تھے۔ اس نے ایک انتہائی فیصلہ کیا اور ان کی تلاش میں نکل پڑا ۔
بنکاک کے ایک شہر چنگ پائی میں راشد اور سمیرا کا اسے پتا مل گیا، جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس میں کمرا حاصل کر کے خالد موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔ اس نے اپنے اندر ایک ایسا منصوبہ تیار کر رکھا تھا، جس کے اندر صرف اور صرف اپنی شکست خوردگی کا عنصر تھا اور آخر اسے موقع مل گیا۔
سمندر کے کنارے پتایا بیچ سمیرا ،راشد اور خالد کے دونوں بیٹے دنیا سے بے نیاز رنگین چھتر کے نیچے کھلے سمندر کے منظر کا نظارہ کر رہے تھے کہ خالد نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے پستول نکالا اور اندھا دھند فائرنگ کر کے چاروں زندگیوں کا خاتمہ کر دیا، چاروں جانب بھگدڑ مچ گئی ۔
مقامی پولیس آئی اور لاشوں کو اپنے قبضہ میں کر کے قاتل کی تلاش شروع کر دی مگر خالد موقع واردات سے صاف بچ نکلا۔ اس سے پہلے پولیس اس تک پہنچتی، اس نے تھائی لینڈ کو خیر آباد کہتے سنگا پور کا رخ کر لیا۔
بدنصیب سمیرا، راشد اور خالد کے اپنے دونوں بیٹوں کی لاشیں دوسرے ملک کی پولیس کے رحم و کرم پر پڑیں تھیں۔ ان کے پاسپورٹ سے پاکستان میں ان کی رہائش کا پتا لگوا کر وہاں کی پاکستان ایمبیسی نے اطلاع کر کے بتایا کہ ان سب کو قتل کر دیا گیا ہے ۔
وقار پر سنتے ہی غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ اس نے اپنے والد صاحب کو یہ روح فرسا خبر سنائی تو وہ سکتہ میں رہ گئے۔ اس نے لاشیں پاکستان لانے کے لئے سارے انتظامات مکمل کئے اور پیچھے کئی غم زدہ چہرے چھوڑ کر تھائی لینڈ کے شہر چنگ مائی جانے کے لئے نکل پڑا۔
مسافروں میں اضطراب دیکھ کر اس نے سلگتا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلا اور جلدی جلدی بریف کیس اُٹھا کر کراچی جانے والے مسافروں کی لائن میں آ گیا، جو بورڈنگ کارڈ دِکھا دِکھا کر جہاز کی طرف بڑھ رہے تھے۔