Home جائزہ بلی کا انتقام

بلی کا انتقام

لوہے کی سلاخیں اس کی کھوپڑی، سینے اور پسلیوں کو توڑ کر باہر نکل گئی تھیں۔ دروازہ اوپر اٹھتے ہی ہوچیسن کا مردہ اور مسخ شدہ جسم پرشور آواز کے ساتھ کمرے کے فرش پر گرا ۔

1
635

بلی کا انتقام

مقبول جہانگیر

یہ ناقابل فراموش اور عبرت ناک حادثہ نورمبرگ کے پرانے قلعے میں پیش آیا تھا۔
میں جس زمانے کا ذکر کرتا ہوں، اس زمانے میں نورمبرگ کا یہ پرانا قلعہ سیاحوں کے لیے کچھ زیادہ کشش نہ رکھتا تھا۔
اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جرمنی کے اس دورافتادہ اور بہت پرانے شہر تک پہنچنے کی سہولتیں کچھ زیادہ نہ تھیں ۔
بہت کم لوگ ایسے تھے جو دوردراز کا سفر طے کر کے اور سینکڑوں مصیبتیں برداشت کرنے کے بعد نورمبرگ پہنچتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں نازیوں نے نورمبرگ کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔
اس لیے اس کی شہرت دوردور تک پھیل گئی اور جب سیروسیاحت سے دلچسپی رکھنے والوں کو پتہ چلا کہ نورمبرگ میں بارھویں صدی عیسوی کی عمارتوں کے آثار موجود ہیں، تو وہ اسے دیکھنے کے لیے جوق درجوق آنے لگے۔
ان دنوں میری شادی ہوئے دو ہی ہفتے گزرے تھے اور ہم میاں بیوی یورپ کے کئی ملکوں کی سیر کرتے ہوئے ایک روز فرینکفرٹ کے ریلوے اسٹیشن پر اترے، تو ہماری ملاقات ہوچیسن سے ہوئی۔
وہ خوبصورت نوجوان نہایت باتونی اور سمخرے پن کی حد تک ہنس مکھ امریکی سیاح تھا۔ جس نے جلد ہی ہم سے گہری دوستی کر لی۔
وہ منہ ٹیڑھا کر کے جب تیزی سے انگریزی بولتا، تو میری بیوی کے لیے اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جاتا۔
ہوچیسن کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتیں۔ وہ اپنی بہادری اور سیاحت کے ایسے ایسے عجیب قصے بیان کرتا کہ حیرت ہوتی تھی۔
اگرچہ مجھے بعد میں احساس ہو گیا کہ وہ جھوٹ بولنے کے فن میں اپنا ثانی نہیں رکھتا، تاہم ایسے ساتھی کی موجودگی ہمارے لیے بہت اچھی ثابت ہوئی اور وہ تفریح کا بہت عمدہ ذریعہ بن گیا۔
نورمبرگ کا قلعہ دیکھنے کی تجویز بھی اسی نے پیش کی تھی اور میری بیوی امیلیا جسے ایسی عمارتیں دیکھنے کا ازحد شوق تھا فوراً آمادہ ہو گئی۔
نورمبرگ دریائے پیگنیز کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔
ایک حصہ پرانا شہر کہلاتا ہے اور دوسرا حصہ نیا شہر ۔۔۔۔۔ پرانا شہر تمام تر قرونِ وسطیٰ کے روہن فن تعمیر کا بہت اچھا نمونہ ہے۔
یہاں شہر کے چاروں طرف الونچی فصیل ہے
جس میں چار بڑے بڑے دروازے اور ۱۲۸ سیڑھیاں ہیں۔ شہر کا یہ حصہ زیادہ تر پہاڑیوں کے اوپر آباد ہے
جو شمال سے مغرب کی جانب پھیلتی چلی گئی ہیں،
اسی مقام پر سرخ پتھروں کا بنا ہوا وہ عظیم الشان قلعہ واقع ہے جس کے ایک کمرے میں یہ عبرت ناک حادثہ پیش آیا تھا جو میں آگے چل کر بیان کرنے والا ہوں۔
نورمبرگ کا قدیم قصبہ اس قلعے سے نیچے آباد ہے۔ چونکہ یہ قلعہ سب سے اونچی چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے، اس لیے اس کی فصیل سے شہر کا نظارہ بڑی آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
قلعے کی شمالی فصیل کے ساتھ ساتھ ایک بہت گہری کھائی ہے جو صدیوں سے پانی نہ ملنے کی وجہ سے پیاسی ہے۔
رومن بادشاہوں کے عہدِحکومت میں یہ کھائی جسے دیکھ کر خوف پیدا ہوتا ہے، یقینا پانی سے بھری رہتی ہوگی ۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کتنے آدمی گر کر ہلاک ہوئے ہوں گے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ اکثر مجرموں کو جب اذیتیں دے دے کر ہلاک کیا جاتا، تو اس کے بعد لاشوں کو کھائی میں پھینک دیا جاتا تھا۔
ان دنوں اس کی گہرائیوں میں گوشت خور مچھلیاں بھی بڑی تعداد میں پرورش کی گئی تھیں۔ یہ لاشیں ان مچھلیوں کا من بھاتا کھاجا تھیں۔
اس خشک کھائی نے زمین کا بہت سا حصہ گھیر رکھا تھا، اس لیے نورمبرگ کے گورنر نے اسے استعمال کرنے کا عجیب طریقہ اختیار کیا۔
اس نے یہاں درختوں اور پودوں کی بہت سی قسمیں لگوا دی تھیں اور کہیں کہیں پھولوں کے تختے بہار دکھا رہے تھے۔ قلعے کی فصیل کے ساتھ ان کا نظارہ بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔
فصیل سے اس کی گہرائی اندازاً پچاس ساٹھ فٹ ہوگی۔
اس سے پرے شہر کے مکانات دکھائی دیتے ہیں جن کی سرخ سرخ ڈھلوان چھتیں تیز دھوپ میں خوب چمکتی ہیں۔ دائیں جانب قلعے کی فصیل کے ساتھ ہی وہ چھوٹی بڑی برجیاں اور گنبد دور تک پھیلے ہوئے تھے ۔
جن میں پہرے دار رہا کرتے تھے اور انہی کے درمیان ایک بڑے سے گنبد کے نیچے قلعے کا سب سے اہم کمرا بنا ہوا تھا، جسے خاص طور پر دیکھنے کے لیے ہم یہاں آئے تھے۔
یہ وہ کمرا تھا جو سینکڑوں آدمیوں کی جانیں لے چکا تھا۔
اسی کمرے میں وہ عجیب و غریب مشینیں رکھی ہوتیں جن کی مدد سے انسان صدیوں سے اپنے ہی جیسے انسانوں پر ظلم، اذیت اور عذاب کے طریقے آزماتا چلا آیا ہے۔
یہاں بادشاہ مجرموں کو ایسی ہول ناک سزائیں دیتے تھے کہ آج بھی انھیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ پہلے پورے قلعے کی سیر کر لیں، پھر اس ہیبت ناک کمرے کو سب سے آخر میں دیکھیں تاکہ ہماری طبیعتیں یہ ناخوشگوار اثر کم سے کم قبول کریں۔
اسی دوران میں ہم تینوں ذرا دم لینے کے لیے فصیل کے قریب جا کھڑے ہوئے اور جھک کر کھائی میں لگے ہوئے پھولوں کے تختوں اور درختوں کو دیکھنے لگے۔
جولائی کی تیز اور روشن دھوپ میں یہ نظارہ آنکھوں کے لیے بڑا فرحت انگیز اور خوش گوار تھا۔ رنگ برنگ پھولوں کے تختے بڑے بڑے خوش نما قالینوں کی صورت میں ہمارے سامنے بچھے ہوئے تھے ۔
جب تیز ہوا چلتی، تو یہ پھول جھومنے لگتے ۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا جیسے قدرت کے بنائے ہوئے ان حسین قالینوں میں حرکت پیدا ہو گئی ہے۔
قلعے کی سیر کرتے ہوئے ہم واقعی تھک گئے تھے اور اب کچھ دیر آرام کرنا چاہتے تھے،
مگر وہاں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔  ہوتی بھی تو اس کھلے آسمان تلے دھوپ میں بیٹھتے بھی کہاں؟
دفعتاً میری بیوی نے انگلی سے ایک جانب اشارہ کیا۔  ہم نے جھک کر ادھر دیکھا، تو ایک دلچسپ تماشا نظر آیا۔
سیاہ رنگ کی ایک بڑی بلی جس کی کھال دھوپ میں خوب چمک رہی تھی، فصیل کے عین نیچے دھوپ میں آرام سے لیٹی تھی۔ اس کا بچہ جس کا رنگ بھی سیاہ تھا، قریب ہی کھیل رہا تھا۔
بلی اپنی لمبی دم ہلاتی اور بچہ اس کی طرف جھپٹتا۔
کبھی وہ دم پر پنجہ مارتا اور کبھی اسے اپنے منہ میں دبا لیتا۔
پھر زور لگا کر اپنی ماں کو گھسیٹنا چاہتا۔ بلی اپنے پائوں کو جنبش دے کر بچے کو آہستہ سے پرے دھکیل دیتی اور دم زور زور سے ہلانے لگتی۔
اس پر بچہ اور جوش میں آ کر اچھلنے کودنے لگتا۔ غالباً اسے اس کھیل میں بڑا مزا آ رہا تھا۔
چند منٹ تک ہم تینوں نہایت دلچسپی سے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ پھر یکایک امریکی نوجوان نے قریب پڑا ہوا ایک پتھر اٹھایا اور ہنس کر بولا:
’’ذرا دیکھنا میں آپ لوگوں کو ایک اور دلچسپ کھیل دکھاتا ہوں۔ میں یہ پتھر ان کے قریب پھینکتا ہوں۔ وہ دونوں حیران ہوں گے کہ یہ پتھر کہاں سے آن گرا؟‘‘
’’ارے یہ کیا غضب کرتے ہو۔‘‘ میری بیوی نے اسے روکتے ہوئے کہا۔
‘‘ وہ ڈر جائیں گے۔ کیوں ان کا مزا کرکرا کرنے کی فکر میں ہو۔‘‘
’’مادام، آپ قطعاً نہ گھبرائیے ۔۔۔۔۔ یہ کھیل اور دلچسپ بن جائے گا۔‘‘
’’اچھا بھئی تمھاری مرضی ۔۔۔۔۔ مگر خدا کے لیے ذرا احتیاط سے پتھر پھینکنا۔ کہیں تم اس پیارے سے ننھے بچے کو زخمی نہ کر دو۔‘‘
’’اجی آپ خواہ مخواہ ڈرتی ہیں۔ کیا میں بچہ ہوں جو ایسی بے احتیاطی کروں گا۔‘‘ امریکی نوجوان نے گردن ہلا کر کہا۔
’’مادام، میں تو ایسا رحم دل آدمی ہوں کہ میں نے آج تک کسی چیونٹی کو بھی نہیں مارا۔‘‘
’’اور شیر چیتے ہلاک کرتا رہا ہوں۔‘‘
میں نے لقمہ دیا۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنسا اور اپنا ہاتھ بڑھا کر پتھر نیچے پھینک دیا۔
آہ ۔۔۔۔۔ وہ منحوس لمحہ جب اس امریکی نے پتھر نیچے پھینکا، مجھے ساری زندگی یاد رہے گا۔
ہوا کے زور سے وہ وزنی پتھر تیزی سے نیچے گیا اور بلی کے معصوم بچے کے سر پر جا لگا ۔
ہمارے دیکھتے دیکھتے اس کا ننھا سا سر پھٹ گیا اور بھیجا باہر نکل آیا۔ چند سیکنڈ تک تڑپنے کے بعد وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔
اب ہم تینوں آنکھیں پھاڑے بلی کے بچے کی لاش کو دیکھ رہے تھے جو چند ثانیے پیشتر جوانی، زندگی اور حسن کی بہترین تصویر تھا۔
مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس غیر متوقع حادثے نے میرے جسم کو بھی سرد کر دیا ہے۔
ایک لمحے کے لیے سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں بے کار ہو گئیں۔
یہی حال میری بیوی اور امریکی نوجوان کا تھا، بلکہ میری بیوی کا تو خوف کے مارے چہرہ بھی زرد پڑ گیا تھا۔
پتھر گرتے ہی سیاہ بلی نے سر اُٹھا کر ہماری جانب دیکھا۔
خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔ اس کی بڑی بڑی سبز آنکھیں یک دم انگاروں کی مانند سرخ ہو گئیں اور اس کا جبڑا بھیانک انداز میں کھل گیا۔
اس نے اپنی شعلہ بار نگاہیں ہوچیسن پر جما دیں۔
میرے بدن میں دہشت سے تھرتھری چھوٹ گئی اور میری بیوی تو تقریباً غش کھا کر میرے اوپر ہی آن پڑی۔
سیاہ بلی نے پلٹ کر اپنے تڑپتے ہوئے بچے کی جانب دیکھا جو جان کنی کے آخری مراحل سے گزر رہا تھا۔
اس کی چھوٹی چھوٹی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور سر پر سے سرخ سرخ خون کی نکلتی ہوئی پتلی سی دھار نے اس کا سارا جسم لت پت کر دیا تھا۔
بلی کے حلق سے ایک دردناک چیخ نکلی، وہ اچھل کر اپنی جگہ سے اٹھی اور نہایت محبت سے اپنے مرے ہوئے بچے کا جسم چاٹنے لگی۔
اس کا جبڑا اپنے بچے کے تازہ خون میں بھر گیا۔ جب اس نے منہ کھولا، تو اس کے لمبے سفید چمکتے ہوئے دانت دیکھ کر میرا کلیجہ بھی حلق میں آ گیا۔
اس کے  نوکیلے ناخن بھی پوری طرح باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس وقت وہ جوش اور انتقام کا ایسا نمونہ بن گئی تھی کہ بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔
چند لمحے تک وہ نہایت غیظ آلود اور نفرت انگیز نظروں سے امریکی کو تکتی رہی، پھر پوری قوت سے دوڑتی ہوئی آئی اور قلعے کی پتھریلی دیوار پر چھڑنے کی کوشش کرنے لگی۔
اس کے حلق سے اب غراہٹوں اور چیخوں کی دلدوز آوازیں نکل رہی تھیں۔
بلی کا یہ غیظ و غضب اور جوش کی حالت دیکھتے ہوئے مجھے یقین تھا کہ اگر اس کا بس چلے، تو وہ امریکی نوجوان کی بوٹیاں اڑا دے گی۔
اس کی خوف ناک شکل اور غرانے، چیخنے اور سپید دانت دکھانے کا انداز اتنا ڈراؤنا تھا کہ میری بیوی اسے برداشت نہ کر سکی۔
اسے ہوش میں لانا بھی میرے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ بلی بار بار دوڑتی ہوئی آتی اور قلعے کی سنگین غیر ہموار دیوار پر چڑھنے کی کوشش کرتی، مگر ہر مرتبہ پیٹھ کے بل نیچے گر جاتی۔
تاہم اس کے جوش و خروش میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا تھا۔
ایک مرتبہ جب وہ اس کوشش میں ناکام ہو کر نیچے گری، تو اپنے مرے ہوئے بچے پڑ جا پڑی اور بلی کا سارا جسم خون میں لت پت ہو گیا۔
امریکی وہیں کھڑا اس کی ان حرکات کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ شاید اس کے لیے یہ بھی ایک پُرلطف تماشا تھا۔
میں جلدی سے اپنی بیوی کو وہاں سے ہٹا کر ذرا فاصلے پر ایک جگہ سائے میں لے گیا اور اسے ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگا۔ چند منٹ بعد امیلیا ہوش میں آ گئی، لیکن اس کی آنکھوں سے خوف کے آثار نمایاں تھے۔
امیلیا کو وہیں چھوڑ کر جب میں دوبارہ دیوار کے قریب گیا، تو ہوچیسن نے کہا:
’’میں نے دنیا میں ایک سے ایک خوف ناک درندے دیکھے ہیں، مگر جس وحشی پن کا مظاہرہ سیاہ بلی کر رہی ہے، یہ میرا پہلا مشاہدہ ہے۔ اس کا غصہ ہر لمحے بڑھتاہی جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ اسی طرح کا ایک اور قصہ بیان کرنے لگا جسے میں نے ڈھنگ سے نہیں سنا، کیونکہ میں بلی کی عجیب و غریب حرکات دیکھنے میں لگا ہوا تھا۔
اس نے پندرہ یا بیس مرتبہ دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی۔ ایک بار تو وہ کافی اوپر آ گئی تھی کہ پَیر پھسل جانے کے باعث دھڑام سے نیچے جا گری۔ یقیناً اسے سخت چوٹ لگی تھی،
لیکن بلی نے اس چوٹ کی کوئی پروا نہ کی اور نئے ولولے کے ساتھ دوبارہ دوڑتی ہوئی آئی اور دیوار پر چڑھنے لگی۔
یہ دیکھ کر امریکی کہنے لگا:
’’اس جانور کی ہمت پر آفرین ہے ۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دیوار پر چڑھ کر ہی دم لے گی۔ مگر افسوس کہ وہ یہاں کبھی نہ پہنچ سکے گی۔ تھوڑی دیر بعد جب اس کا غصہ سرد پڑ جائے گا، تو وہ اس حادثے کو بھول جائے گی۔
صدافسوس ۔۔۔۔۔ مجھے بالکل معلوم نہ تھا کہ پتھر اس کے بچے کو لگ جائے گا ۔۔۔۔۔ یہ حادثہ بالکل اتفاقیہ ہوا ہے، ورنہ میری نیت اسے ہلاک کرنے کی نہ تھی۔ خیر ۔۔۔۔۔ اب جو ہونا تھا ہو گیا ۔۔۔۔۔ اب اس بچے میں دوبارہ جان نہیں ڈالی جا سکتی۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے پیچھے ہٹتے ہی بلی نے بھی دیوار پر چڑھنے کی کوشش ترک کر دی اور وہیں بیٹھ کر اپنی غضب ناک نظروں سے اوپر دیکھنے لگی۔
پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
’’کرنل، مجھے افسوس ہے کہ اس حادثے نے آپ کو ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیا۔ آہ ۔۔۔۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ آپ کی بیوی نے تو اس کا بہت ہی زیادہ ناگوار اثر قبول کیا ہے ۔۔۔۔۔ مجھے ان سے معذرت کرنی چاہیے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اس جگہ گیا جہاں میری بیوی آرام سے لیٹی تھی۔
’’مادام، ۔۔۔۔۔ کیا آپ مجھے معاف نہ کریں گی ۔۔۔۔۔
یقین کیجیے، اس میں میری کوئی خطا نہ تھی۔ بلی کے بچے کی قسمت یمں اسی طرح مرنا لکھا تھا۔ اب جو ہونا تھا ہو گیا ۔۔۔۔۔
اسے فراموش کر دیجیے اور آئیے قلعے کی باقی چیزیں دیکھ کر ہم جلدازجلد اس منحوس مقام سے رخصت ہوں۔‘‘
ہم تینوں ادھر سے گزرتے ہوئے جب فصیل کے قریب آئے تو غیر ارادی طور پر ہم نے نیچے جھانکا۔ سیاہ بلی اسی طرح بیٹھی اوپر دیکھ رہی تھی۔ جونہی امریکی کا چہرہ اسے نظر آیا، اس نے وہیں سے چھلانگ لگائی۔
اس کے دونوں پنجے اس انداز میں باہر نکلے ہوئے تھے جیسے وہ امریکی کا منہ نوچ لینا چاہتی ہے۔ مگر وہ حسب معمول پھر نیچے جا پڑی۔ ساٹھ فٹ اونچی دیوار پر چڑھنا بلاشبہ بلی کے لیے ایک ناممکن بات تھی۔
امریکی نے اب خوش طبعی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلی کو مخاطب کیا:
’’پیاری بلی ۔۔۔۔۔ مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر تمھارے بچے کو نہیں مارا ۔۔۔۔۔ میں تو دراصل تمھارا کھیل اور دلچسپ بنانا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ اب یہ اتفاق تھا کہ پتھر تمھارے بچے کو جا لگا اور وہ مر گیا۔ بخدا اس میں میرا ذرہ برابر بھی قصور نہیں ۔۔۔۔۔ اب تم دیوار پر چڑھنے کی کوشش چھوڑ کر بچے کے کفن دفن کا بندوبست کرو ۔۔۔۔۔ جائو شاباش۔‘‘
امیلیا ایک بار پھر بلی کو دیکھ کر ڈر کے مارے کانپنے لگی اور اس نے نوجوان سے کہا:
ہوچیسن، تم اسے مذاق نہ سمجھو ۔۔۔۔۔ بلی کا ارادہ فاسد ہے۔ وہ اگر یہاں ہوتی، تو تمھیں ضرور مار ڈالتی ۔۔۔۔۔ مجھے اس کی آنکھوں میں تمھارے لیے نفرت اور حقارت کی چنگاریاں سلگتی دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘
وہ قہقہہ مار کر ہنسا اور کہنے لگا:
’’مادام، آپ مجھے ۔۔۔۔۔ شیر دل ہوچیسن کو ۔۔۔۔۔ اس حقیر سیاہ بلی سے ڈراتی ہیں۔ جس نے نہ جانے کتنے درندوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ بلی میرے سامنے کیا حقیقت رکھتی ہے؟ میں اب چاہوں، تو نیچے جا کر آپ کے سامنے اس کا گلا گھونٹ دوں۔‘‘
بلی نے جب ہوچیسن کا قہقہہ سنا، تو اس میں دفعتاً ایک عجیب تغیر رونما ہوا۔
اس کا سارا جوش و خروش اور غضب یک لخت ختم ہو گیا اور وہ پرسکون دکھائی دینے لگی۔ اس نے پھر ہوچیسن کی طرف ایک بار دیکھا اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس طرف گئی، جہاں اس کا بچہ مرا پڑا تھا اور پھر زبان نکل کر بچے کا جسم چاٹنے لگی۔
’’واقعی بلی تمہیں دیکھ کر اب ڈر گئی ہے۔ دراصل اس نے تمہاری آواز سن کر اندازہ کر لیا ہو گا کہ یہ شخص تو بہت بڑی بلا ہے۔ اس سے نبٹنا آسان کام نہیں۔‘‘
میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ امیلیا بھی یہ فقرہ سن کر ہنس پڑی اور ہم تینوں وہاں سے آگے بڑھے۔ تھوڑی دور جانے کے بعد جب ہم نے نیچے جھانکا، تو یہ دیکھ کر ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ سیاہ بلی بھی اسی جانب چلی جا رہی تھی جدھر ہم جا رہے تھے۔
اس نے منہ میں اپنے مردہ بچے کو دبا رکھا تھا، لیکن چند لمحے بعد جب ہم نے دیکھا، تو مردہ بچہ اس کے منہ میں نہ تھا۔
بلی نے شاید اسے کسی جگہ چھپا دیا تھا۔ اسے پراسرار انداز میں تعاقب کرتے دیکھ کر امیلیا پر پھر خوف طاری ہونے لگا۔ اس نے امریکی کو ہوشیار رہنے کی تاکید کی، مگر وہ بے پروائی سے ہنسا اور کہنے لگا:
’’مادام، آپ کو اس بلی سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اگر وہ ہمارے پیچھے آتی ہے، تو آنے دیجیے۔ بھلا وہ میرا کیا بگاڑ سکتی ہے؟
اور فرض کیجیے اگر اس کا ارادہ مجھے نقصان پہنچانے کا ہے، تو میں ابھی آپ کے سامنے اس کا خاتمہ کیے دیتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنی کمر سے بندھا ہوا پستول نکالنا چاہا۔
’’زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا نا کہ ایک بلی کو مارنے کے جرم میں چند منٹ کے لیے پولیس مجھے پکڑ  لے گی، وہ مجھے پھانسی پر لٹکانے سے تو رہے۔‘‘
امیلیا نے اسے پستول نکالنے سے روکا، ورنہ وہ ضرور بلی پر گولی چلا دیتا۔
ہوچیسن نے ایک بار پھر نیچے جھانکا، تو بلی اسے دیکھ کر غرائی اور پھر جلدی سے ایک پتھر کی آڑ میں ہو گئی۔
میں اس کی یہ حرکت دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ کیا بلی کو ہوچیسن کے مہلک ارادے کا پتہ چل گیا تھا؟
بلی کے یوں دبک جانے پر ہوچیسن نے فخریہ انداز میں امیلیا کی جانب دیکھا اور کہا:
’’دیکھا مادام آپ نے؟ یہ شریر بلی اب مجھ سے ڈرنے لگی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے یہاں سے لوٹ کر اپنے مردہ بچے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ کہیں دوسری بلیاں اسے ہڑپ نہ کر لیں۔ جاؤ خالہ بلی، یہاں سے ٹل جاؤ، ورنہ میرا پستول خواہ مخواہ چل جائے گا۔‘‘
امیلیا نے جلدی سے ہوچیسن کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹ کر آگے لے گئی، لیکن جاتے جاتے بھی امریکی نوجوان نے نیچے جھانک کر بلی سے چند مزاحیہ فقرے کہہ ہی دیے:
’’اچھا، الوداع ۔۔۔۔۔ خالہ بلی ۔۔۔۔۔ میں تم سے معذرت کر چکا ہوں کہ میں نے جان بوجھ کر تمھارے بچے کو نہیں مارا۔ مگر تم ہمارا پیچھا ہی نہیں چھوڑتیں۔ بہرحال تم اب اس حادثے کو فوراً ہی فراموش کر دو۔‘‘
جلد ہی ہم قلعے کی اندرونی دلچسپیوں اور عجائبات کو دیکھنے میں اس قدر محو ہو گئے کہ تھڑوی دیر پہلے جس ناخوشگوار حادثے نے ہمیں مکدر کر دیا تھا، اس کی یاد بھی باقی نہ رہی۔ پھرتے پھرتے آخر کار ہم قلعے کی سب سے زیادہ مشہور اور ہیبت ناک جگہ پر پہنچ ہی گئے۔
جہاں ۹ سو سال پیشتر مجرموں اور جاسوسوں کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کیا جاتا تھا۔
اس وسیع و عریض کمرے کے عمر رسیدہ چوکیدار نے ہمارا استقبال کیا۔
وہ ہمیں دیکھ کر خاصا خوش نظر آتا تھا، کیونکہ اس روز وہاں کی سیر کرنے والے ہم تین ہی افراد تھے۔
چونکہ چوکیدار کی بالائی آمدنی کا ذریعہ سیاحوں کی دی ہوئی بخشش ہی ہوتی ہے، اس لیے وہ ضرورت سے زیادہ ہماری جانب توجہ دے رہا تھا۔
وہ عرصہ دراز سے اس کمرے کا چوکیدار تھا۔ یہاں رکھی ہوئی ہر شے کے متعلق اس کی معلومات حیران کن تھیں۔
جب ہم اس کے اندر داخل ہوئے، تو ماحول کی تاریکی اور اس میں رکھی ہوئی عجیب اور پراسرار مشینوں اور ہتھیاروں نے ہمارے اعصاب پر برا اثر ڈالا۔
یہ گنبد نما کمرا دو حصوں پر مشتمل ہے۔ اوپر کے حصے میں جانے کے لیے چند سیڑھیاں طے کرنی پڑتی ہیں۔
ہم نے پہلے نچلے کمرے کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔
یہاں دن کے وقت بھی ملگجا سا اندھیرا تھا۔ اس کی دیواریں بہت چوڑی اور موٹی تھیں اور کمرے میں اوپر کی جانب کوئی روشن دان نہ ہونے کے باعث روشنی اور ہوا آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ دیواروں کا پلستر جگہ جگہ سے اکھڑ چکا تھا اور جا بجا مکڑوں نے بڑے بڑے جالے تن رکھے تھے۔ جنہیں صاف کرنے کا خیال شاید منتمظین کو کبھی نہ آیا۔
ہم نے جب غور سے ان دیواروں کا معائنہ کیا، تو ان پر بڑے بڑے سیاہ دھبے بھی دکھائی دیے۔ بوڑھے چوکیدار نے بتایا کہ یہ دھبے صدیوں پرانے ہیں اور یہ خون ان لوگوں کا ہے جن کو کسی جرم یا جاسوسی کے شک میں پکڑ کر اذیتیں دی جاتی تھیں۔
چند ہی لمحے بعد ہمیں احساس ہونے لگا کہ اس بھیانک کمرے کی دیواریں زندہ ہو رہی ہیں۔ ان کے اندر سے ہمیں ان بدنصیب لوگوں کے چیخنے اور کراہنے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
امیلیا کے چہرے کی اڑی ہوئی رنگت سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کمرے کے ماحول سے ڈر رہی ہے، لیکن میری خاطر وہ بظاہر بڑی دلچسپی سے ان چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے آدمیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی داستانیں ان خونیں دیواروں میں پوشیدہ تھیں۔
ہم بہت جلد گھبرا کر اس وحشت ناک جگہ سے نکل آئے۔ چوکیدار اب ہمیں اوپر کی سیڑھیوں کے ذریعے دوسرے کمرے میں لے جا رہا تھا۔
جونہی ہم دوسرے کمرے میں داخل ہوئے، دہشت کی ایک نئی لہر ہمارے جسموں میں دوڑ گئی۔ امیلیا  نے میرا بازو سختی سے تھام لیا۔
اس کا ہاتھ کپکپا رہا تھا اور خود میرا یہ حال تھا کہ اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز بخوبی سن سکتا تھا۔
اس کمرے کا ماحول پچھلے سے بھی کہیں زیادہ خوف ناک تھا۔ ہر شے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ  کر ہمیں گھور رہی تھی۔
ہم نے ان اذیت دینے والی مشینوں اور دیواروں پر لگے ہوئے سینکڑوں قسم کے ہتھیاروں کے قہقہوں کی آوازیں بھی سنیں۔
بوڑھے چوکیدار نے فوراً محسوس کر لیا کہ ہم ڈر گئے ہیں۔ اس نے جلدی سے ایک موم بتی جلائی۔ جس کی مدھم کانپتی ہوئی روشنی وسیع و عریض کمرے میں پھیل گئی۔
اب ہم آسانی سے یہاں رکھی ہوئی چیزوں کو پہچان سکتے تھے۔ چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی تلواریں، کلہاڑے، نیزے اور خنجر لگے ہوئے تھے۔
ان میں سے اکثر تلواریں اور کلہاڑیاں اتنی بڑی اور وزنی تھیں جنہیں اٹھانا عام آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔
غالباً ان کی گرانڈیل حبشی جلادوں کے استعمال میں آتی تھیں۔ جنہیں خاص طور پر مجرموں کی گردن مارنے کے لیے تربیت دی جاتی تھی۔
ان ہتھیاروں کے قریب ہی پرانی سیاہ لکڑی کے بہت بڑے بڑے کندے بھی پڑے دکھائی دیے جن پر جابجا کسی روغن کے دھبے جمے ہوئے تھے۔
چوکیدار نے ہمیں بتایا کہ لکڑی کے یہ وہ کندے ہیں جن پر مجرموں کو لٹا کر ان کی گردن کاٹی جاتی تھی۔
ہم نے جھک کر ان کندوں پر تلواروں کے گہرے نشان بھی دیکھے۔
کمرے کے ایک حصے میں وہ تمام چھوٹی بڑی مشینیں یکجا رکھی تھیں جو مجرموں اور جاسوسوں کو اذیت پہنچانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔
انھیں دیکھ کر ہی ہیبت طاری ہوتی تھی۔ یہاں ہم نے ایک کرسی دیکھی جس کی نشست پر لوہے کی لمبی لمبی اور نہایت ہی نوکیلی سلاخیں لگی تھیں۔
چوکیدار نے ہمیں بتایا کہ یہ موت کی کرسی ہے،اس پر مجرم کو بٹھا دیا جاتا تھا اور یہ سلاخیں اس کے گوشت میں پیوست ہو جتای تھیں۔ ایسا مجرم کئی کئی دن جان کنی کی حالت میں مبتلا رہنے کے بعد مرتا تھا۔
اس کرسی کے علاوہ متعدد قسم کے شکنجے بھی موجود تھے جن میں انسانی جسم کو اس طرح جکڑا جا سکتا تھا کہ ذرا بھی جنبش نہ کر سکے۔ لوہے کی چھوٹی بڑی پیٹیاں، لوہے کے جوتے، سر اور گردن کو جکڑنے والے شکنجے اور آہنی خول جو بھیجے کو کھوپڑی سے باہر نکال سکتے تھے۔
کمرے میں گھومتے ہوئے ہم ایک بڑی سی آہنی مشین کے قریب پہنچے
جس کی عجیب و غریب ساخت نے امریکی نوجوان کو بہت متاثر کیا۔ یہ مشین ایک عورت کے مجسمے سے مشابہ تھی اور اس میں جابجا زنگ لگا ہوا تھا۔
اس کے عین وسط میں کچھ اوپر اٹھا ہوا ایک بڑا سا آہنی کڑا تھا۔ جس میں موٹا سا رسا بندھا تھا۔ اس رسے کا دوسرا سرا ایک ستون سے بندھا ہوا تھا۔
چوکیدار نے ہمیں بتایا کہ اس مشین کو ’’آئرن ورجن‘‘ کہتے ہیں ۔ اذیت دے کر ہلاک کرنے کے لیے اس مشین سے زیادہ بہتر اور کوئی مشین نہیں ۔۔۔۔۔
آپ اسے غور سے دیکھیے، یہ برسوں تک خون میں نہا چکی ہے اور اب بھی اس کے ایک ایک حصے پر خون کی جمی ہوئی تہہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔
چوکیدار نے ستون سے بندھا ہوا موٹا رسا کھولا اور پوری قوت سے اسے کھینچنے لگا۔
اب ہم نے حیرت سے دیکھا کہ مشین کے اوپر بنا ہوا ایک چھوٹا سا دروازہ گڑگڑاہٹ کی سی آواز کے ساتھ آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔
یہ آہنی دروازہ بہت بھاری تھا، کیونکہ اسے کھینچتے ہوئے بوڑھا چوکیدار جلد ہی بانپنے لگا۔ تاہم اس نے دروازہ پوری طرح اوپر اٹھا دیا جس پر بہت سی نوک دار سلاخیں لگی ہوئی تھیں ۔
ہمیں مشین کے اندر دیکھنے کا اشارہ کیا۔ آہنی دروازہ اٹھنے کے بعد مشین کے اندر اتنی جگہ تھی جس میں ایک آدمی آسانی سے لیٹ سکتا تھا۔ چوکیدار نے ہمیں بتایا:
’’اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ مشین کس کام آتی تھی۔ ملزم کے ہاتھ پَیر باندھ کر اس مشین کے اندر خالی جگہ میں لٹا دیا جاتا تھا ۔ لوہے کے اس سلاخ دار دروازے کو آہستہ آہستہ نیچے گرایا جاتا۔
بدنصیب قیدی جب ان خون آشام سلاخوں کو اپنی آنکھوں اور جسم کی طرف بڑھتے دیکھتا، تو موت کے لرزہ خیز خوف سے جرم کا اقبال کر لیتا اور سارے راز گل دیتا، لیکن بعض ایسے مجرم بھی ہوتے جو اس حالت میں بھی زبان نہ کھولتے، تو رسے کو فوراً چھوڑ دیا جاتا۔
یہ آہنی دروازہ پوری قوت سے نیچے گر جاتا اور سلاخیں قیدی کے تمام جسم میں پیوست ہو جاتیں۔ وہ آناً فاناً موت سے ہم کنار ہو جاتا۔
امیلیا کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور وہ دوڑتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
میں اس کے پیچھے گیا۔
’’خدا کے واسطے مجھے اس منحوس جگہ سے فوراً  لے چلو ۔۔۔۔۔ میں یہاں اب ایک لمحے کے لیے بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ ورنہ میرے دل کی حرکت بند ہو جائے گی۔‘‘
میں نے اسے دلاسا دیا اور کہا کہ ہم تو صرف یہاں کے عجائبات دیکھنے آئے ہیں اور ہمارے ساتھ ایک مہمان بھی ہے۔ وہ کیا خیال کرے گا؟
میں اسے سمجھا بجھا کر جب واپس کمرے میں لایا، تو امریکی نوجوان اس مشین کے پاس کھڑا اس کا بغور معائنہ کر رہا تھا۔ مجھے آتے دیکھ کر وہ بولا:
’’آپ کی بیوی بہت کمزور دل کی خاتون یہں۔ بلاشبہ انھیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ میں نے آپ کی غیرحاضری میں اس مشین کے بارے میں بعض دلچسپ باتیں چوکیدار سے معلوم کی ہیں۔
میں نے اپنے ملک کے ریڈ انڈین باشندوں کے متعلق بڑی بڑی داستانیں سنی تھیں کہ وہ اپنے دشمنوں اور حریفوں کو عجیب عجیب سزائیں دیتے تھے، مگر یہ مشین بے مثال ہے۔
خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔ مجھے تو اس کے تصور ہی سے اذیت ہوتی ہے، لیکن ۔۔۔۔۔ میں اپنا تجربہ مکمل کر کے ہی واپس جاؤں گا ۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا کہتے ہو، کیسا تجربہ؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
وہ مسکرایا اور کہنے لگا۔
’’یہی معمولی سا تجربہ ۔۔۔۔۔ میں خود ایک منٹ کے لیے اس مشین کے اندر لیٹ کر دیکھنا چاہتا ہوں کہ لوہے کا یہ سلاخ دار دروازہ کس طرح آہستہ آہستہ نیچے آتا ہے۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔‘‘ امیلیا نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’خدا کے لیے ہوچیسن ایسا نہ کرنا۔ کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟‘‘
’’آپ جو چاہیں سمجھیں، مگر میں یہ تجربہ کر کے رہوں گا۔‘‘
ہوچیسن نے اصرار کیا۔ ’’اگر آپ ڈرتی ہیں، تو تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر چہل قدمی کیجیے۔ میں آپ سے کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ میں ڈرپوک آدمی نہیں ہوں۔ نہ جانے اب تک کیسے کیسے واقعات و حادثات مجھ پر بیت چکے ہیں۔
آپ یقین نہیں کریں گی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ مونٹانا کے جنگل سے میں گزر رہا تھا کہ دشمنوں نے مجھے مار ڈالنے کے لیے جنگل میں آگ لگا دی۔ میں رات بھر ایک مرے ہوئے گھوڑے کے اندر چھپا رہا، تب جان بچی۔
اسی طرح نیو میکسیکو میں مجھے سونے کی ایک کان میں جو حادثہ پیش آیا، وہ بڑا خوف ناک تھا۔ دو روز تک میں ایک غار میں قید رہا جس کے دروازے پر ایک بڑا پتھر آن گرا تھا۔
غور کیجیے جب ایسے ایسے عظیم حادثوں سے میں بچ گیا، تو اس دو منٹ کے تجربے سے کیا قیامت برپا ہو جائے گی۔‘‘
میں نے دیکھا کہ وہ اپنی ہٹ کا پکا ہے اور یہ کام ضرور کر گزرے گا، تو کہا۔
’’اچھا ۔۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔۔۔ جو کچھ کرنا ہے جلدی کر لو ۔۔۔۔۔ ہم اب یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے۔ میری بیوی کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے۔‘‘
امریکی نے مسخرے پن سے مجھے سلیوٹ کیا اور کہنے لگا
’’جو حکم جناب کا ۔۔۔۔۔ بس ابھی فارغ ہوا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔‘‘
پھر وہ چوکیدار سے مخاطب ہوا جو امریکی نوجوان کے اس خطرناک تجربے میں مدد دینے پر راضی نہ ہوتا تھا۔
’’بڑے میاں، تم بھی ڈر گئے؟ یہ لو اپنی جیب گرم کرو۔‘‘
ہوچیسن نے سونے کا ایک سکہ بوڑھے کی مٹھی میں دیتے ہوئے کہا۔
’’اب لپک کے ایک رسی سے میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس مشین میں مجھے لٹا دو تاکہ میں اس تجربے کا وہی مزہ پا سکوں جو پرانے زمانے کے مجرموں کو ملتا تھا۔‘‘
بوڑھے چوکیدار کو پہلی مرتبہ اس معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا۔ اس نے گھبرا کر کہا
’’جناب، آپ یہ حرکت نہ کریں ۔۔۔۔۔ اس میں جان کا خطرہ ہے۔ فرض کیجیے اگر رسا میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا، تو ۔۔۔۔۔‘‘
امریکی نے جوش میں آ کر کہا:
’’بڑے میاں، تمہیں زیادہ دیر تک رسا پکڑنا نہیں پڑے گا۔ بس ایک یا دو منٹ کا کام ہے۔ اس کے بعد میرا دوست مجھے مشین سے باہر نکال لے گا۔ تم فکر نہ کرو۔ اس تجربے کی ساری ذمے داری مجھ پر ہے۔ کہو تو تحریر لکھ کر دے دو۔‘‘
’’اچھا صاحب، جس طرح آپ کہتے ہیں، کرتا ہوں۔ مگر براہ کرم باہر کسی سے اس کا ذکر نہ کیجیے گا، ورنہ میری ملازمت جاتی رہے گی، روزی کا معاملہ ہے صاحب۔‘‘
’’اجی تم پروا نہ کرو ۔۔۔۔۔ ذرا جلدی سے رسی تلاش کر لاؤ۔‘‘
چوکیدار باہر گیا اور پتلی رسی کے دو لمبے لمبے ٹکڑے لے کر آیا اور پہلے اس نے ہوچیسن کے دونوں ہاتھ پشت کی طرف باندھ دیے اور پَیر باندھنے والا تھا کہ ہوچیسن نے کہا۔
’’بڑے میاں، ذرا ٹھہرو، تمہاری دعا سے میں کافی صحت مند آدمی ہوں۔ تم مجھے اٹھا کر اس مشین کے اندر لٹا نہیں سکو گے۔ اس لیے میں خود اس میں داخل ہو جاتا ہوں۔ بعد ازاں تم میرے پَیر بھی باندھ دینا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور مشین کے اندر داخل ہو کر اس اطمینان سے لیٹ گیا جیسے کسی آرام دہ بستر پر سونے کا ارادہ رکھتا ہے۔
چوکیدار نے جلدی سے اس کی دونوں ٹانگیں باندھ دیں۔ ہوچیسن اب موت کی اس مشین میں بالکل بے بس پڑا تھا، لیکن خوف کی کوئی علامت اس کے چہرے پر ظاہر نہ ہوئی۔ بلکہ وہ بچوں کی طرح اس ’’کارنامے‘‘ پر خوش ہو رہا تھا۔
واہ واہ ۔۔۔۔۔ کیا شاندار جگہ ہے ۔۔۔۔۔ بھئی میرا تو جی چاہتا ہے کہ اس مشین کو اپنے ساتھ امریکا لے جاؤں۔ بڑی آرام دہ چیز ہے ۔۔۔۔۔ اچھا بڑے میاں، اب تم اس آہنی دروازے کو ذرا ڈھیل دے کر آہستہ آہستہ نیچے اتارو۔ میں دیکھوں تو سہی کہ جب یہ سلاخیں میری جانب بڑھیں گی، تو کیا مزا آتا ہے۔‘‘
’’اوہ ۔۔۔۔۔ خدا رحم کرے ۔۔۔۔۔ ہوچیسن، کیا تم اس بے ہودہ مذاق سے باز نہیں آ سکتے؟‘‘ میری بیوی چِلّا اٹھی۔ ’’بس کافی ہے ۔۔۔۔۔ تمہارا تجربہ مکمل ہو گیا ۔۔۔۔۔ اب باہر آ جاؤ ۔۔۔۔۔‘‘
ہوچیسن نے قہقہہ لگایا اور مجھ سے کہنے لگا:
’’کرنل صاحب، مہربانی کر کے اپنی ڈرپوک بیگم کو ذرا باہر گھمانے لے جائیے ۔۔۔۔۔ غضب خدا کا، میں آٹھ ہزار میل کا سفر طے کر کے محض اس مشین کی خاطر آیا ہوں۔ اب اس کے اصل تجربے سے محروم ہی چلا جاؤں؟
ہرگز نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ آپ پانچ دس منٹ ان کو سیر کرائیے، اتنی دیر میں یہ تجربہ پورا ہو چکے گا۔ پھر ہم اسے یاد کر کے خوب ہنسیں گے۔‘‘
امیلیا کی حالت اگرچہ ابتر ہو رہی تھی، مگر وہ کمرے سے باہر جانے پر تیار نہ تھی۔  خاموشی سے میرا بازو پکڑے ہوچیسن کی طرف تکتی رہی۔
بوڑھا چوکیدار آہستہ آہستہ، ایک ایک انچ کر کے رسا چھوڑنے لگا اور آہنی دروازہ مشین کی طرف جھکتا گیا۔ ہوچیسن کا چہرہ فرطِ مسرت سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھیں لمبی نوک دار سلاخوں پر جمی ہوئی تھیں۔ یکایک وہ کہنے لگا
’’کرنل، سچ کہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں اتنا لطف میں نے پہلے کبھی نہیں اٹھایا۔ بخدا تم بھی اس تجربے کو آزما دیکھو۔ اسے بڑے میاں، ذرا آہستہ ۔۔۔۔۔ تم تو ایک دم رسا چھوڑ دینے پر تلے ہوئے ہو۔‘‘
بوڑھے چوکیدار نے رسا پوری قوت سے پکڑ رکھا تھا، لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ لحظہ بہ لحظہ اس کی پریشانی اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پانچ منٹ کے قلیل عرصے میں آہنی دروازہ صرف تین انچ کے قریب جھک سکا تھا۔ دفعتاً میں نے اپنے بازو پر ایک تھرتھراہٹ سی محسوس کی۔
امیلیا کی انگلیوں کی گرفت نرم پڑ رہی تھی۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
اس کے چہرے کا رنگ ہلدی کی مانند زرد ہو رہا تھا اور ہونٹ سپید پڑ گئے تھے۔
وہ پلک جھپکائے بغیر مشین کے ایک جانب گھور رہی تھی۔ میں نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا، تو دہشت سے میری رگوں کا خون جم گیا۔
خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔ وہی منحوس کالی بلی کمرے کے دروازے میں کھڑی مشین کی جانب دیکھ کر غرا رہی تھی۔
اس کی زرد آنکھیں مشعل کی مانند روشن تھیں۔ اس کے جسم کا رواں رواں کھڑا تھا ۔وہ اپنی معمولی جسامت سے دوگنی نظر آتی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ اپنا خون آلود جبڑا کھول کر آگے بڑھی۔ ہوچیسن نے بھی اس کی آواز سن لی تھی، وہ وہیں سے چِلّایا
’’کرنل، ذرا اس شریر بلی کو دھتکار کر نکال دو۔‘‘
لیکن ۔۔۔۔۔ آہ ۔۔۔۔۔ اس سے پیشتر کہ میں آگے بڑھتا، بلی نے اپنی لمبی دم کو گردش دی اور بجلی کی مانند اچھل کر بوڑھے چوکیدار پر حملہ کیا۔
بلی کا دایاں پنجہ چوکیدار کی آنکھ پر پڑا اور آنکھ باہر آ گئی۔
بوڑھے کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی، وہ لڑکھڑا کر زمین پر گرا اور موٹا رسا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
میں نے رسے کو پکڑنے کے لیے چھلانگ لگائی۔ میری انگلیوں نے اسے چھو لیا، مگر اگلے ہی ثانیے میں رسا کڑے میں سے گزر چکا تھا۔
بدنصیب ہوچیسن کے چہرے کی آخری جھلک میں مرتے دم تک نہ بھولوں گا۔
موت کے خوف سے اس کا چہرہ دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید پڑ چکا تھا۔ آنکھیں تارہ بن گئی تھیں۔ آہنی دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ بند ہو گیا۔
ہوچیسن کے منہ سے آواز تک نہ نکل سکی اور اسی لمحے میری بیوی غش کھا کر دھڑام سے فرش پر گر گئی۔
میں نے امیلیا کو وہاں سے اٹھایا اور کمرے سے باہر برآمدے میں  لے جا کر ایک بنچ پر ڈال دیا۔ اس وقت میرے ہوش وحواس بھی گم تھے۔
امیریکی نوجوان کی بھیانک موت کا تصور خود میرے لیے جان لیوا تھا۔ جب میں کمرے گیا، تو بوڑھا چوکیدار تکلیف کی شدت سے زمین پر لوٹ رہا تھا۔
اس کا چہرہ اور کپڑے خون میں تر ہو چکے تھے۔ میں نے رسا پکڑ کر پوری قوت سے مشین کا آہنی دروازہ اٹھایا۔ ہوچیسن کا حال دیکھ کر میری روح لرز گئی۔
لوہے کی سلاخیں اس کی کھوپڑی، سینے اور پسلیوں کو توڑ کر باہر نکل گئی تھیں۔ دروازہ اوپر اٹھتے ہی ہوچیسن کا مردہ اور مسخ شدہ جسم پرشور آواز کے ساتھ کمرے کے فرش پر گرا ۔
وہ منحوس سیاہ بلی جو ابھی تک موجود تھی، اس کی جانب لپکی اور ہوچیسن کے جسم سے نکلے ہوئے خون کو بڑی رغبت سے چاٹنے لگی۔
میں نے جھپٹ کر وہاں رکھی ہوئی بہت سی تلواروں میں سے ایک تلوار اٹھائی اور بلی کے دو ٹکڑے کر دیے۔

۞۞۞۞

1 COMMENT

  1. واہ……
    اس کہانی کا دیرپا تاثر آج بھی قائم ہے.
    یہ ان کے ایک مجموعے میں شامل تھی….زمانہ طالب علمی میں پڑھی تھی…. آج دوبارہ پڑھی اور وہی لطف پایا…
    سطر سطر تجسس…
    اللہ مقبول جہانگیر صاحب کے درجات بلند فرمائے…….