29 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

حریص

حریص

سمیرا امام

ابا نے جلدی جلدی ہاتھ میں دابے پیسے گِنے پھر انھیں ایک دھاگے سے باندھ ہاتھ میں پکڑے چاکلیٹ یا بسکٹ کے خالی کاغذ میں لپیٹ لیے۔ اس کے بعد چور نظروں سے چاروں اطراف کا جائزہ لیا۔ کسی کے نہ ہونے کی اچھی طرح سے تسلی کی اور پھر پیسے شلوار میں بنی جیب میں ڈال مطمئن ہو کر بیٹھ گئے۔
عینا نےابا کی اس حرکت کو آج دوسری بار نوٹ کیا تھا۔ وہ شدید الجھن کا شکار ہو گئی۔ ابا جی کی کچھ حرکتیں آج کل نہایت مشکوک ہوتی جاتی تھیں۔ پہلے پہل عینا کو شدید جھٹکا تب لگا جب اس نے ابا کے دھلنے والے کپڑوں میں سے پیسے نکال کے ابا جی کو پکڑائے تو وہ اسے شدید برہم لگے۔
جیسے کوئی اپنا پوشیدہ راز پتا لگنے پر غصے میں آ جاتا ہے۔ تب تو اُس نے غور نہ کیا لیکن دوسری مرتبہ جب ابا نے بڑے بھیا کو اس بات پر سخت سست سنائیں کہ بھیا انھیں پیسے بھیجنے میں دیر کر رہے ہیں جبکہ ان کے پاس ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے پھوٹی کوڑی تک نہیں۔
عینا کو اس بیان پر شدید حیرت یوں ہوئی کہ بھیا ہر ماہ باقاعدگی سے رقم بھیجا کرتے اور ابا کے پاس ہمہ وقت خاصی تگڑی رقم موجود ہوا کرتی جس میں سے ایک روپیہ بھی وہ خود پر خرچ نہیں کرتے تھے لیکن ہر ماہ کے آغاز میں بھیا سے پیسوں کے معاملے میں بحث ضرور کیا کرتے۔
پیسوں میں ایک دن کی تاخیر انھیں اُداس اور پریشان کر دیا کرتی۔ عینا نے ابا کو اس سے پہلے کبھی پیسوں کے معاملے میں اس رویے کا شکار ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ابا کی یہ سب حرکتیں اسے روزبہ روز الجھا رہی تھیں۔
اسے یاد پڑتا تھا جب ابا خود کماتے تھے تو وہ کس قدر فیاض تھے۔ کتنی بیواؤں کا خرچ اُٹھاتے۔ نہایت خوش لباس تھے۔ نہ صرف یہ کہ اپنے لباس کا خیال رکھتے بلکہ اماں اور خود بچوں کا لباس بھی بہترین اور شاندار خریدنے پر یقین رکھتے۔ پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتے اور کہا کرتے:
’’بچے! اپنے مال کو خود پر اور دوسروں پر خرچ کیا کرو۔ جو لوگ اپنے ہاتھ سے صدقات و خیرات نہیں دیتے وہ یہ گمان کیسے کر سکتے ہیں کہ ان کے بعد اولاد ان کے لیے صدقہ دے گی۔‘‘ لہٰذا ابا انفاق فی سبیل اللہ کا اہتمام بھی کرتے اور گھر والوں پر بھی کبھی پیسے کی تنگی نہ رکھی لیکن پھر اب انھیں کیا ہو گیا تھا۔
اُسے شدت سے محسوس ہو رہا تھا کہ ابا پیسہ انتہائی ضرورت کے وقت خرچ کرتے اور خرچ کرتے ہوئے پریشان سے ہو جایا کرتے۔ خرچ کرنے کے بعد سارا دن چھپ چھپ کے گنتی کیا کرتے کہ کتنے کم ہو گئے۔
پھر انھیں ایسے چھپا کے رکھتے کہ اگر کوئی اُن سے پیسوں کی بابت پوچھتا بھی تو ابا کی ناراضی اور غصے کا سبب بنتا۔ بچوں پر خرچ کرنا وہ آہستہ آہستہ چھوڑ چکے تھے۔
عینا انھیں ہمہ وقت پیسوں کی فکر میں مبتلا دیکھتے دیکھتے اب باقاعدہ چڑنے لگی تھی لیکن اسے یہ سمجھ نہ آتی کہ وہ کیسے ابا سے اس معاملے پر بات کرے؟ یا کسی اور سے اس کا تذکرہ کیسے کرے؟ اُسے محسوس ہونے لگا تھا کہ گزرتی عمر کے ساتھ ابا شاید پیسوں کے معاملے میں حریص ہونے لگے ہیں اور یہی بات عینا کی چڑ کا باعث بننے لگی تھی۔
وہ جان بوجھ کر ابا سے پیسوں کا سوال کرتی اور ابا صاف انکار کر کے اسے مزید چڑاتے۔
ایک رات ابا سوئے تو پھر صبح نہیں اُٹھے۔ بھیا نے ابا کو غسل دیتے وقت ان کے کپڑے عینا کو لا پکڑائے۔ ابا کی جیب سے وہی چاکلیٹ کا ریپر نکلا جس میں انھوں نے پیسے رکھے تھے۔ مبلغ پچیس ہزار روپے جس کے ساتھ ایک پرچی موجود تھی۔
’’میرے اُوپر کسی کا ایک آنہ بھی قرض نہیں۔ میرا کفن الماری میں پڑا ہے۔ مجھے اسی میں دفنایا جائے۔ میری جیب میں پڑے پیسے میری تدفین کے لیے کافی ہوں گے۔‘‘
…اور عینا کو سکتا ہو گیا۔ پھر وہ باقی سب پیسے کہاں گئے جو ابا نے خود پر کبھی نہ لگائے تھے۔ یہ رازابا کے ساتھ ہی دفن ہو گیا لیکن عینا جان گئی تھی کہ جسے وہ پیسوں کے لیے ابا کی حرص سمجھتی تھی وہ ابا کا خود کو غیر محفوظ خیال کرنا تھا۔
جو انسان ساری عمر اپنی کمائی لوگوں پہ لگاتا رہا ہو، اسے آخری عمر میں تحفظات لاحق ہو جاتے ہیں کہ کسی روز شاید اس کی اولاد اسے تنہا چھوڑ دے گی۔ شاید جب انھیں ضرورت پڑے تو وہ دستِ سوال دراز نہ کر پائیں۔
جب سب بہن بھائی ابا کی جدائی میں رو رہے تھے… عینا ابا کی بے بسی محسوس کر کے زاروقطار رو پڑی۔
٭٭٭

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles