37 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

میری بہن

 

میری بہن

 

ارشد فخر الدین محمد

میں آج بھی خود کو مجرم محسوس کرتا ہوں کہ یہ حالات کا جبر تھا کہ میری بدقسمتی کہ جس موقع پر میری بہن کو میری سب سے زیادہ ضرورت تھی یعنی بیماری کے آخری سالوں میں جب وہ الزائمر اور ہڈیوں کے کینسر کی وجہ سے بستر مرگ سے جا لگی تھیں۔ میں اپنی اوپن ہارٹ سرجری اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوائی جہاز کے سفر سے معذور ہو گیا تھا۔
میرا روسلو ناروے سے ٹورنٹو کینیڈا جانے کا مقصد اپنے دیگر سسرالی رشتہ داروں سے ملاقات کے علاوہ اپنی سب سے بڑی بیوہ بہن قدسیہ خاتون کے ساتھ کچھ معیاری وقت گزارنا ہوتا تھا۔ ہمارا ماضی بعید کا پس منظر یکساں ہونے کی وجہ سے تال میل خوب بیٹھتا تھا۔
اس کے علاوہ ان معلومات کا حاصل کرنا بھی ہوتا تھا جو کہیں اور سے دستیاب ہونے کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے تھے جن کا ذکر آگے آنا ہے۔ قدیہ آپا ہی واحد ذریعہ بچی تھیں۔ میں 1970ء میں کراچی چھوڑ کر ناروے آ چکا تھا۔ بہت سی باتوں کا علم دوسرے ذرائع سے ہوا جبکہ بہت سے سوالات آج بھی تشنہ ہیں۔
بحری دخانی جہاز کے ذریعے بمبئی سے کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے بعد اونٹ گاڑیوں میں لا کر سولجر بازار کے دو کمروں کے فلیٹ میں دس افراد پر مشتمل خاندان کس طرح سمایا ہو گا۔ اس کرب و اذیت سے میرے بزرگ کیسے گزرے ہوں گے؟ اس بارے کوئی تاثر قائم کرنا میرے لیے ناممکن ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی تھا کہ ایک دو سالہ بچے سے آپ کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں۔ جس کو انڈیا کے بارے میں کوئی پس منظر یا یاد محفوظ ہو۔ ہماری عمروں میں دو عشروں کے فرق کی وجہ سے زیادہ تر سوالات انڈیا اور ہجرت کے گرد ہی مرتکز ہوتے تھے۔
ابتدا میں ہمارا خاندان دو بہنوں میری والدہ اور خالہ کی اولاد پر مشتمل تھا۔ جو آج 70 سال بعد انتہائی وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں یورپ اور شمالی امریکا منتقل ہو گیا ہے۔
قدسیہ آپا 2004ء میں اپنے بیٹے حامد اسلم کے ساتھ ٹورنٹو مسی ساگا کینیڈا میں رہائش پزیر ہو گئی تھیں۔ جو ان کے لیے قید تنہائی تھا اور یہ تنہائی صرف ان کا المیہ نہیں تھی بلکہ ان بزرگوں ہجرت جن کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا کا مشترکہ گھاؤ تھا جسے صرف موت ہی نے بھرنا تھا۔ جن کی اولاد نے انھیں بہتر مستقبل کی تلاش میں ہجرت در ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔ پہلے انڈیا سے پاکستان اس کے بعد یورپی یا شمالی امریا۔
ایک بات یقینی تھی کہ مسی ساگا ٹورنٹو میں سرونسٹن چرچل بلے وارڈ اور بیٹل فورد ڈرائیو کے درمیان رہائشی باکز کے گرد عصر اور مغرب کے درمیان ٹہل قدمی کے عمل میں باہمی گفتگو سے ہم دونوں بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ مجھے ان کی تھکن کی فکر رہتی تھی۔ جبکہ وہ ماضی کی تلاش ہمارے مشترکہ ماضی کے اس سفر کا ہر لمحہ نچوڑ لینا چاہتی تھی۔ ان کی زبان تو سب سمجھ لیتے تھے مگر زبان کے ساتھ جڑے ہوئے ماضی کا صرف میں گواہ تھا۔ واپسی میں ہم ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔ جو زیاہد تر میرا فرمائشی ہوتا تھا یعنی سبزی اور دال۔ ان کی باتوں میں گلوں کی کی خوشبو اور ذائقہ کراچی کی یاد دلا دیتا تھا۔
ٹورنٹو کے تیسرے دورے میں مجھے اندازہ نہیں ہوا بلکہ انھوں نے خود بتایا کہ وہ اب چیزوں کو بھولنے لگی ہیں۔ جو بعد میں الزائمر تشخیص ہوا میری آپا ایک چولہا جلا کر دوسرے پر کھانا بنانے لگیں تھی۔ جو میرے بھانجے حامد کے لیے الارمنگ تھا۔ انھوں نے شام کو اکیلے ٹہلنے کے دوران اپنے کھو جانے کا واقعہ بہت دلچسپ جان کر بخوشی مجھے بتایا کہ کس طرح وہ غلط موڑ مڑ جانے کی وجہ سے کہیں اور جا پہنچی تھیں۔ لیکن ان کی یاداشت میں اپنی پوتیوں کا قرآن اسکول محفوظ تھا۔ وہاں پہنچ کر زنانہ حصے میں اندرونی لاؤڈ اسپیکر پر اپنی گمشدگی کا اعلان کہ مہر اور یسرہ کی دادی عصر سے گم ہیں سنا۔ اتفاق سے مسجد کی انتظامیہ نے ان کو پہچان کر حامد سے رابطہ کر لیا۔ اس طرح واپسی ہوئی۔
میرے والد فخرالدین محمد کے خاندان کا بہار انڈیا سے کوئی فرد پاکستان نہیں آیا تھا۔ کیوں نہیں آیا تھا اس کا جواب میں کہیں سے نہ حاصل کر سکا۔ میرے والد پیشے کے اعتبار سے استاد تھے۔ لیکن کراچی آ کر انھوں نے اپنا سارا سرمایہ ایک فلیٹ اور دکان کی خریداری میں لگا دیا۔
دکانداری ان کی طبیعت وے کوئی مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ گلستان بوستان کا سبق پڑھانے والے استاد کو دو دو پیسے کی پڑیاں بنانی پڑ گئیںتھیں۔ دن کو دکان خوب چلتی تھی اور شام گئے سیاست ابتدائی پانچ سالوں میں اس دکان سے ہمارے بنیادی مسائل یعنی روٹی، کپڑا اور تعلیم کی ضروریات کو مناسب انداز میں حل کر دیا تھا۔ بھائی نسیم نے اسی سوال کا جواب مجھے کہیں سے نہیں مل سکا کہ آخر انھوں نے دکان کھولنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جبکہ ابتدائی دور میں کراچی میں اساتذہ کی بہت ضرورت تھی اور یہ ایک اعزاز تھی تھا۔
میرے والد نے اپنی ہندوستان کی تمام غیر مقولہ جائیداد اپنے بہن بھائیوں کے لیے وقف کر دی تھی۔ کیونکہ پاکستان کے لیے ہجرت انھوں نے مسلمانوں کے دیرینہ خواب کی ایک روشن تعبیر کے لیے کی تھی یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پاکستان میں جائیداد کا کوئی دعویٰ نہیں کیا تھا۔ جبکہ جعلی دعوں کی گنگا میں مہاجرین خوب ہاتھ دھو رہے تھے۔ ان کا یہی جرم میری والدہ کے ساتھ وجہ نزاع رہا۔ قائداعظم کے انتقال اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی سیاست میں جو افراتفری اور گراؤٹ آئی اس سے میرے والد اور بے شمار پاکستانیوں کا اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دھندلا گیا۔
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔
اس تمام عرصہ ان کے جگر میں ایک عارضہ پلتا رہا۔ جو ان کی موت کا سب بنا اور دکان بھی زوال کا شکار ہو گئی۔
اپنے والد کی شخصیت کے بارے میں میں نے جو تصور قائم کیا تھا وہ اس سے بہت مختلف تھی جو قدسیہ آپا میرے علم میں لائیں اداس اور مایوس۔ جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے حالات کے تقاضوں نے سوائے جدوجہد کے سارے دروازے بند کر دیے تھے اور اسی جہد مسلسل نے وقت کے ساتھ کامیابی کے لیے بے شمار دروازے کھول دیے۔
میرے بڑے بھائیوں نے چھوٹی موٹی نوکریاں کر کےگھر چلانے کا بندوبست کیا۔ بھائی فہیم نے اپنی تعلیمی سرگرمی ترک کر کے ڈالمیا سمنٹ میں کلرکی اختیار کر لی۔ بھائی شمیم خالو کی دکان پر سیلز مین لگ گئے۔ تعلیم کا سلسلہ شام کو اسلامیہ کالج میں جاری رہا۔ ان دو بھائیوں کی قربانی سے گر کے دیگر افراد کی تعلیم اور رہائشی اخراجات احتیاط کے ساتھ چلتے رہے۔ بھائی شمیم 1959ء میں لندن چلے گئے۔
ایک قدیم لیکن روشن قدر خاندان میں بہت معیاری بنیادوں پر ہمیشہ سے ایستادہ تھی جو کہ ابتدائی دو عشروں میں زیادہ پروان چڑھی۔ ایک دوسرے کی مدد اپنے اپنے وسائل اور استطاعت کے مطابق۔ بعد میں غم روزگار نئے رشتوں کی شمولیت اور کراچی کے طویل فاصلوں نے زمینی حقائق بدل دیے۔
آج ہمارا خاندان اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائیوں اور اپنی محنتوں کے طفیل دو بہتر اور بہتر تر مالی اکائیوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ لیکن محبتیں تقسیم نہیں ہوئی ہیں۔ وجوہات بڑی سادہ بے جا دخل اندازی سے گریز، تجسس سے پرہیز اور تعلقات میں میانہ روی۔
احسان و تعاون کی اس تمام حقیقت بیانی میں جہاں کرداروں کا رول یکسر تبدیل ہو گیا ہے۔ مالی اور معاشرتی طور پر بہت بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ بلا کسی مبالغہ آرائی متعلقین کی حساس فطرت سے آگاہی کے خیال سے بہت زیادہ تفصیل میں جائے بغیر نہایت محتاط انداز اپنانا پڑا ہے۔
امداد باہمی اور قربانی کا یہ سلسلہ جو 1947ء سے شروع ہو کر جس کا آغاز ہلال منزل (جو تاریخی اور سماجی اعتبار سے ایک دلچسپ ناول کا مداوا اپنے اندر رکھتی ہے) کی خریداری سے جڑا ہوا ہے۔ جسے پرچم ستارہ و ہلال سے ایک ترقی و کمال کی نسبت ہے۔ ہماری خالہ سلطانہ خاتون نے اپنے شوہر فضل الرحمان اور اپنی اولاد کے خاموش مالی تعاون سے استوار کیا تھا۔
ایک طویل داستانِ جس کے صرف چند کردار ہی نمایاں کیے گئے ہیں۔ قیام پاکستان سے سقوط ڈھاکا کا احاطہ کرتی ہے۔ 1948ء میں بہار انڈیا کے مہاجر رشتہ داروں کے بعد 1971ء میں بنگلہ دیشی بہاری رشتہ داروں کے قیام و طعام سے روزگار کی فررہمی تک چلتا رہا اور پھر حکومتی وسائل سے اورنگی ٹاؤن میں زمین کی فراہمی کے بعد چادر اور چہار دیواری سمیت ممکنہ بنیادی کو مہیا کرنے میں امداد کا سلسلہ برقرار رہا۔ ہلال منزل جو ارتنائی کی مدد سے رتن تلاؤ۔ طارق روڈ اور پھر خیابانِ حافظ ہاؤسنگ سوسائٹی ڈیفنس میں اسی مبارک نام سے اپنے وراثتی مکینوں کے ساتھ منتقل ہو گئی ہے۔
اس درد مشترک کی مسیحائی کا سلسلہ نصف صدی کے ایثار قربانی اور اخوت پر محیط تھا۔ جو ہماری خالہ کے انتقال پر ختم نہیں ہو گیا بلکہ نیکی کا یہ سلسلہ دراز ہو کر فضل الرحمان کی ہر دلعزیز بہو انجم رحمان کے سپرد ہو گیا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضرورت کے وقت پناہ گزینوں کے لیے ایک مختصر سہارے نے ان سائلوں کو نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا بلکہ اب وہ خود کئی خاندانوں کی کفالت کے ذمہ ادر ہو گئے ہیں۔ کہاں، کب اور کتنا تعاون کیا گیا یہ آپس کا باہمی معاملہ تھا۔ تیسرا وہ علیم و خبیر۔ جو دلوں کے بھید جانتا اور نوازتا ہے۔ وہ دائرہ جس کا مرکزی کردار میری خالہ ہوا کرتی تھیں افرادی حیثیت میں تحلیل ہو گیا ہے۔ مگر اب کئی اور دائرے وجود میں آ گئے ہیں۔ جو متوازی تو نہیں مگر زکوٰۃ صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی طور پر اتنے فعال ہیں۔
اس تمام عرصے میں تعلیم اور کاروبار کی بنیاد پر ترقی کر کے اعلیٰ اور درمیانی درجے پر مشتمل ہمارا خاندان کراچی کی شاہراہ فیصل کے دونوں جانب گلشن اقبال، نارتھ کراچی، گلستان جوہر اور ڈیفنس میں جو کراچی کے طبقاتی اور رہائشی معایر کے درمیان حد فاصل ہے آباد ہیں۔ بہت بڑا حصہ یورپ اور شمالی امریکا میں آباد ہے۔
تعاون کے اس نیٹ ورک کا صرف ایک ہی نصب العین تھا۔ نیکی میں تعاون، جس کا کوئی بجٹ یا منشور نہیں تھا۔ نہ کوئی طویل مدتی پلان، بس چھوٹے مسائل اور ان کا جلد حل۔ کالہ کی نظر ایسے حلقے کے وسائل پر بہت گہری تھی۔ انھیں علم تھا کہ کس مسئلے کا حل خاندان میں کہاں سے دستیاب ہو گا۔
سلطانہ خالہ کے شورائی نظم میں میری والدہ نعیمہ خاتون بڑے بھائی فہیم احدم اور بڑی بہن بالترتیب شامل ہوئیں۔ ان سب کا کردار مالی تعاون سے زیادہ افراد کی ضروریات کے بارے میں علم فراہم کرنا ہوتا تھا کہ کون کہاں کس قسم کی مدد کا حقدار ہے؟
شادی بیاہ کے معاملات اور ان سے پیوستہ معاشرتی ضرریات بند کمروں میں چائے کے بڑے پیالوں کی نشست میں طے کیے جاتے تھے جن میں غیر متعلقہ افراد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔
نسیم بھائی کچھ عرصہ اس ٹیم کے متحرک کارکن رہے مگر ان کی بیوروکریٹک رویوں کی وجہ سے ان کا دائرہ کار صرف مالی تعاون تک محدود کر دیا گیا۔
خالہ کا انداز نہایت حکیمانہ اور مدبرانہ ہوتا تھا وہ درخواست اس نرمی اور درست انداز میں کرتی تھیں کہ سر تسلیم خم کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ بھائی نسیم حکم دیا کرتے تھے بات دونوں کی مانی جاتی تھی ایک کی احتراماً دوسرے کی احتیاطاً۔ بھائی نسیم کے بارے میں اتنی صاف گوئی کے باوجود یہ اعتراف بھی ایک حقیقت ہے کہ والد کے انتقال کے بعد ہم سب دس بہن بھائیوں کی ذمہ داری تین بڑے بھائیوں نے مل جل کر اٹھائی تھی۔ جس میں بھائی نسیم اپنی مالی توانائی ار اعلیٰ منصب کی وجہ سے سب سے بڑے شراکت دار تھے۔
بڑے بھائی فہیم احدم مجسم شرافت، صلح جو اور اپنی نیک فطرت کی وجہ سے ہمارے درمیان ثالث کی حیثیت رکھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی اولاد اور ہمارے رشتوں میں اعتدال اور توازن برقرار رکھا۔
مجھ سے بڑے بھائی کلیم الدین مالی طور پر کمزور مگر مضبوط اعصاب کے ماکل تھے۔ وہ ہر خوشی اور غم کے موقع پر اپنی ذاتی علامات کے ساتھ نمایاں ہو کر ہر ذمہ داری اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھا لیتے تھے۔ ان کی موجودگی بذات خود ایک سہارا اور ڈھارس ہوتی تھی۔ وہ سب سے پہلے کام کی نوعیت کے اعتبار سے حاضر ہو کر سب سے آخر میں حق وضعداری نبھا کر متعلقین یا متاثرین سے اجازت طلب کرتے تھے۔ ان کا بیٹا مصطفیٰ کلیم ان کی روایتوں کو قدم قدم آباد رکھے ہوئے ہے۔
یہ تو تھا ایثار و محبت کا تانہ بانا جس نے مستقبل میں ہمارے آئندہ نسلوں کو تعلیم اور معاشی اعتبار سے استحکام اور معزز بنا دیا اُسی کے متوازی خلوص و احساس کا ایک اور سلسلہ دبے پاؤں اپنی منزلیں طے کر رہا تھا۔ شاید ہماری خواتین کی سرشت میں خدا ترسی اور قناعت گوندھ دی گئی تھی۔
میری درمیانی بہن ارمانی خاتون جو خود کسی وقت صاحب نصاب اور نیکی کے کاموں میں خاندان کی معاون رہیں تھیں۔ نہایت کم عمری میں عارضہ قلب سے انتقال کر گئیں تھیں۔ اسی دوران میرے بہنوئی انوار الامام کو انکم ٹیکس کے محکمے سے فارغ کر دیا گیا۔ میری بھانجی عظمیٰ امام نے 1980ء میں میٹرک میں کراچی بورڈ میں 42000 طالب علموں میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ ارمانی امام کے دونوں بچوں عظمیٰ اور اظہر امام نے کراچی کے بہترین اسکولوں سینٹ جوزف اور BVS سے میٹرک کیا تھا۔ ان دونوں نے اپنی ذہانت محنت اور تعلیم اعلیٰ معیار کی وجہ سے آغا خان میڈیکل کالج اور NED انجینئرنگ کالج میں داخلہ حاصل کر لیا تھا۔ انور الامام کے لیے یہ بدترین دور تھا۔ بقول ان کے یار ارشد میں تو فٹ پاتھ پر آ گیا تھا۔ وہ اب بھی کینیڈا میں اس دور کو چشم نم کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل اعتماد کے بعد دو سچائیوں نے اُن کو اس پر آشوب دور میں ٹوٹنے نہیں دیا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے ان کا استقلال اور دوسری خودداری کہ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ ان کے اس استقلال میں مددگار بنی میری دو بہنیں قدسیہ خاتون اور رحمانی خاتوم۔
درمیانی درجے کی لگی بندھی آمدنی کی وجہ سے دونوں کوئی مالی تعاون تو نہیں کر سکتی تھیں البتہ گلبرگ اسکوئر فیڈرل بی ایریا کے فلیٹ سے منی ویگن W11 کے ذریعے 45 منٹ کے فاصلے پر کیپری سینما کے عقب میں ڈپولائن کے فلیٹ میں جا کر امام بھائی کی مہیا کردہ گروسری سے دو دن کا کھانا تیار کر دیتی تھیں۔ امام بھائی جیسے تیسے انشورنس بیچ کر گھر چلا رہے تھے۔ اس خانہ داری میں دونوں پڑوسی بہنوں نے ضرورت اور سہولت کے مطابق دن بانٹ لیے تھے۔ اپنے بچوں کو ایک دوسرے کی نگہداشت میں چھوڑ کر یہ ذمہ داری مسلسل کئی سال نبھائی۔ یہاں تک کہ دونوں بہن بھائی نے تعلیم مکمل کر لی۔ عظمیٰ امام نے آغا خان کا پہلا میڈیکل بیج ہونے کی وجہ سے ڈگری پرنس کریم آغا خان سے وصول کی تھی۔ اس کار خیر میں نہ تو کراچی کی گرمیاں مزاحمت بنیں اور نہ ہی سردی میں کوئٹہ کی یخ بست ہوائیں۔ بس ایک احساس ذمہ داری اور رشتوں کی کشش جس نے ان دونوں کو برسوں متحرک رکھا۔
…یہ تو ذکر تھا ذمہ داری کا دوسرا پہلو تھا خودداری کا…
اکلوتی بیٹی نشاط اسلم کی رخصتی کے بعد جب ہم سب تھک ہار کر چائے کی پیالیوں سے غم غلط اور تھکن اتار رہے تھے۔ تنہائی میں اکیلا پا کر قدسیہ آپا نے اپنا بوجھ اتار دیا شاید وہ کافی عرصے سے اس وقت کی منتظر تھیں۔ نہایت سادگی سے بلا کسی تمہید بات کا آغاز کیا کہ ارشد میرے اور میرے بچوں کے لیے تم نے جو کچھ کیا ہے اس کے لیے بس دعا ہے جو ہم دے سکتے ہیں اور ہمیشہ دیتے رہیں گے۔ اب میرا بیٹا حامد برسر روزگار ہو گیا ہے الحمدللہ بیٹی وداع ہو چکی ہے۔ بس تم اپنے بچوں پر خرچ کرو۔ اُن کے سنجیدہ چہرے پر اعتماد اور سکون کا ایسا ہالہ تھا جو مطمئن اور آسودہ دل کی عکاسی کر رہا تھا۔ میرے لیے خاموشی کے علاوہ کیا چارہ تھا۔ میں نے نہایت ادب سے اپنی معصوم بہن سے گاہے بگاہے تحفوں کی گنجائش نکال لی۔ لالچ اور ہوس کے اس دور میں جب دوریشی بھی ہماری اور سلطانی بھی ہماری۔ سادگی کی ایسی مثالیں نایاب ہیں۔
میں تو اپنی بہن کی آخری وقت میں کوئی خدمت نہ کر سکا تاہم میری اہلیہ رخسانہ ناصری کو قدسیہ آپا کی تیمارداری کے کئی مواقع میسر آئے۔ جب TRILIUM اسپتال مسی ساگا ٹورنٹو میں رخسانہ نے قدسیہ آپا سے سوال کیا کہ آپا آپ نے مجھے پہچانا تو براہ راست جواد ینے کےبجائے ڈپلومیٹک انداز میں بولیں کہ ہم تم کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ حالانکہ موفین کے زیر اثر نیم غنودگی کی حالت میں وہ مکمل طور پر پہچان نہیں پا رہی تھیں۔ رخسانہ کے نرم ہاتھوں کی لمس آواز کی اپنائیت اور چہرے کی دھندلی سی شناخت کے بعد ان کے اگلے سوال نے صورتحال واضح کر دی جب انھوں نے پوچھا کہ حامد کہاں ہے؟ جبکہ حامد وہیں سرہانے موجود تھا۔ رخسانہ سمجھ گئیں کہ وہ بھابی کے رشتے سے ارشد کو پوچھ رہی ہیں اور ہمیشہ کی طرح نام میں مغالطہ کر رہی ہیں۔
آپا باہم گفتگو میں مجھے حامد کہہ کر ہی خطاب کرتی تھیں۔ غلطی کا احساس ہو جانے پر ہنستے ہوئے تصیح یا معذرت کر لیتی تھیں کہ کبھی کبھی وہ حامد کو بھی ارشد کہہ کر بلاتی ہیں۔ میرے لیے ماں اور بہن دونوں رشتے مقدس تھے۔ میرے لیے یہی کافی تھا کہ میں انھیں یاد تھا دونوں رشتوں میں۔
میری معصوم بہن لاشعوری طور پر بھی کسی سے ناراض نہیں ہوتی تھیں حالانکہ ہونا چاہیے تھا۔ ویسے بھی الزائمر نے ان کو سب کچھ بھلا دیا تھا اس رودار کے تمام کردار اپنا اپنا رول ادا کر کے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ حقیقتاً ایک بہترین اجر ان کا منتظر ہے۔ انشاء اللہ۔
زندگی ایک عطیہ ہے جس کا کم از کم حق یہ ہے کہ اس کی نوازشوں میں دوسروں کو اس کا حصہ دار بنا لیا جائے۔ اس نفسا نفسی کے عالم میں جہاں ہر شخص صرف اپنے لیے زندہ ہے یہ لوگ دوسروں کے لیے جیے۔ ان کی قرمانیوں اور مہربانیوں نے ہمارے جیسے بہت سوں کی زندگی آسان کر دی۔ کیا ہم بھی کسی دوسرے کی منزلیں آسان کر سکتے ہیں۔

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles