26 C
Lahore
Thursday, March 28, 2024

Book Store

بادشاہ سلامت

 

بادشاہ سلامت

مشکور حسین یاد

ہماری زندگی معمول کے مطابق اچھی خاصی گزر رَہی تھی کہ پچھلے دنوں ہمارے بچوں کی منجھلی خالہ ہمارے گھر تشریف لائیں اور ہمارے غیرمعمولی انکسار کو دیکھ کر بولیں
’’اے ہے بھائی جان! آپ اتنا بھی اپنے آپ کو نہ گرائیں۔ کسرِنفسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اِس گھر کے بادشاہ ہیں۔‘‘
’’اری بہن! چھوڑو۔ ہم بادشاہ کیسے ہوئے؟‘‘
ہمارے اس سوال پر اُن محترمہ نے ایسے ایسے زبردست دلائل پیش کیے کہ ہمیںخاموش ہونا پڑا۔ واقعی ہم اپنے گھر کے سب سے بڑے فرد ہیں۔ کما کر بھی لاتے ہیں۔ ماشاءاللہ نصف درجن بچوں کے باپ ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک عدد بیوی کے خاوند ہیں۔ خاوند خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، آخر خاوند ہے، بیوی کا مجازی خدا۔
ہم نے سوچا ہم بھی کس قدر بےوقوف واقع ہوئے ہیں کہ حالات ہمارے حق میں اِس قدر سازگار ہوں اور ہم پھر بھی گھر میں بھیڑ بکری بنے پھر رہے ہیں۔ ہمیں تو گردن اکڑا کر، سینہ تان کر اور ایک خاص رعب و دَبدے کے ساتھ چلنا چاہیے۔ بادشاہ کیا ہوتا ہے ؟ یہی نا کہ وہ اپنی مرضی چلاتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے، کرتا ہے۔ سونے کی خواہش ہوئی تو سو گئے، کھانے کی خواہش ہوئی تو کھا لیا، جی بہلانے کی خواہش ہوئی، جی بہلا لیا۔ یہی کچھ گھر کا ایک اعلیٰ فرد بھی کر سکتا ہے۔ پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم …..کہ جو ایک عدد بادشاہ سلامت ہیں!
اِس خیال کے آتے ہی ہم نے اپنے اردگرد نگاہ ڈالی، تو واقعی تمام ماحول پر ہم ہی ہم چھائے ہوئے نظر آئے۔ ماشاءاللہ یہ چھے عدد بچے کس کے ہیں؟ ہمارے ….. یہ ایک عدد بیوی کس کی ہے؟ ہماری ….. مکان میں جو سامان اِدھر اُدھر بکھرا پڑا ہے، کس کا ہے؟ ہمارا ….. تو پھر ہم بادشاہ نہیں، تو اور کیا ہیں ….. یقیناً ہم بادشاہ ہیں۔ ہم نے فلمی بادشاہوں کی طرح تالی بجا کر کہا: ’’ارے کوئی ہے؟‘‘
جواب ندارد۔ ہم نے دوبارہ تالی بجائی: ’’ارے کوئی ہے؟‘‘
اِس دفعہ بھی ہماری اس تالی کا کوئی اثر نہ ہوا۔ تیسری دفعہ ہم نے ذرا زور کے ساتھ تالی بجاتے ہوئے کہا: ’’ارے کوئی ہے؟‘‘
بیوی نے صحن میں سے جواب دیا: ’’یہ آج آپ کو بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا ہے جو تالیاں بجا بجا کر کوے سے اُڑا رَہے ہیں؟‘‘
ہم غصے میں آ کر چلائے: ’’میں پوچھتا ہوں، کوئی ہے؟‘‘
’’میں کہتی ہوں سب ہیں۔ آپ کو نظر نہیں آ رہا کیا؟ بچے بھی سامنے کھیل رہے ہیں، میں بھی یہاں صحن میں بیٹھی ہوں۔‘‘
بیوی کے اِس جواب پر ہمیں خیال آیا کہ ہم نے اپنی بادشاہی کا اظہار صحیح طریقے سے نہیں کیا۔ واقعی جس وقت سب لوگ سامنے ہوں، اُس وقت ’’ارے کوئی ہے؟‘‘ کی آواز نکالنا بالکل بےمعنی بات ہے۔ فلموں میں بھی بادشاہ سلامت اُسی وقت تالی بجا کر ’’ارے کوئی ہے؟‘‘ کہتے ہیں جس وقت اُن کے سامنے کوئی نہ ہو۔ لہٰذا ہم بادشاہ ضرور ہیں، لیکن نامعقول بادشاہ سلامت ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی ہونا چاہتے ہیں۔
ہم خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ اِتنے میں ہمیں پیاس لگی۔ پہلے تو ہم باقاعدہ کسی بچے کا نام لے کر کہا کرتے تھے کہ عزیزم فلاں! میاں ہمیں پانی پلاؤ اور اَگر بچے نہ ہوئے تو بیگم سے کہہ دیا، لیکن اب سوچا کہ کسی کا نام لینا اصولِ بادشاہت کے خلاف ہو گا۔ ویسے بھی بادشاہ لوگ کم سے کم الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ حکم دیتے وقت جس قدر لفظ کم ہوں، اُسی قوت کے ساتھ حکم کا صدور بہتر ہو گا۔ چنانچہ ہم نے صرف اتنا کہا: ’’پانی‘‘۔
ہمارے اِس حکم پر کوئی تعمیل نہ ہوئی۔ ہم نے دوسری بار کہا: ’’پانی‘‘۔
اب بھی بچے حسبِ معمول کھیلتے رہے۔ تیسری دفعہ ہم واقعی بادشاہوں کی طرح کڑک کر پانی کہنے لگے تھے کہ ہمیں خود خیال آیا: کیا بادشاہ خالص پانی پیتے ہیں؟ اور فرض کرو کہ پیتے ہیں تو کیا پانی کو وہ بھی عام آدمی کی طرح پانی ہی کہتے ہیں؟ ہم نے ویسے تو کسی بادشاہ کو آج تک قریب سے دیکھا ہی نہ تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہم نے کسی فلم میں بھی بادشاہ کو پانی مانگتے نہیں سنا تھا۔ لہٰذا ہم خاصے پریشان ہوئے اور آخر ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ ہم پانی ضرور طلب کریں گے لیکن کڑک کر نہیں بلکہ اس کے برعکس آہستگی اور رومانوی انداز کے ساتھ۔ چنانچہ ہم نے لفظ پانی کے دو ٹکڑے کرتے ہوئے بڑی ملائمت سے کہا: ’’پا ….. نی‘‘۔
بیوی صحن سے برآمدے میں ہماری طرف آ رہی تھی، کہنے لگیں: ’’کچھ حیا کرو ….. بچوں کے سامنے یہ جا ….. نی ….. جانی ….. کہہ کر مجھے کیا پکار رَہے ہو؟‘‘
ہمارا گلا واقعی خشک ہو گیا۔ ہم بیوی کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم نے اُسے جانی نہیں کہا اور ظاہر ہے کہ فی الحال پانی کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ قہرِدرویش کے بجائے قہرِبادشاہ برجانِ بادشاہ کی نئی کہاوت کے تحت خود ہی اُٹھ کر پانی پی لیا۔
پانی پی کر واپس اپنے کمرے میں آئے، تو ہمیں کچھ نیند سی آنے لگی۔ سوچا کہ بادشاہ کی جملہ حرکات و سکنات کا علم اُس کے گھر والوں کو ہوتا ہے۔ یعنی سب کو معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ سلامت اس وقت کیا کر رہے ہیں؟ سو رہے ہیں کہ جاگ رہے ہیں؟ اپنے کمرے میں ہیں یا دیوان خانے میں؟ آرام فرما رہے یا مطالعے میں مصروف ہیں؟ بیٹھے ہیں یا کھڑے ہیں۔ غرض گھر والے بادشاہ کی ایک ایک حرکت سے باخبر ہوتے ہیں۔ کیوں نہ ہم بھی اپنے گھر والوں کو بتا دیں کہ ہم سونے لگے ہیں! چنانچہ ہم نے تمام بچوں کو باری باری بلا کر کہا:
’’ارے بھئی! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں سونے لگا ہوں۔‘‘
اپنے اِس اعلان پر ہم نے محسوس کیا کہ ہر بچہ کچھ حیران و پریشان ہو رہا ہے۔ سب سے چھوٹی بچی دُرِنجف نے تو ہمیں فوراً تڑاخ سے جواب دیا: ’’ابو! آپ سونے لگے ہیں، تو سو جائیے۔ ہمیں کس لیے بتا رہے ہیں؟‘‘
بیوی کو بلا کر کہا، تو وہ نیک خصلت ایک دم بولی: ’’اے ہے! سونے کے علاوہ آج تک آپ نے کچھ کیا بھی ہے۔ جو اَب ماشاءاللہ باقاعدہ سونے کا اعلان فرما رہے ہیں؟ میں کہتی ہوں ایک بار نہیں، ہزار بار سو جائیے۔ لو اور سنو مجھے کام کرتی کو باورچی خانے سے بلا کر بتایا جا رہا ہے کہ میں سونے لگا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ آپ ساٹھ سال کی عمر ہونے سے پہلے کہیں سٹھیا گئے ہیں، خدا خیر کرے‘‘۔
ہم نے سوچا بادشاہ کی ایک ایک حرکت کا علم اُس کے گھر والوں کو ہو، یہ بادشاہت کا ایک دقیانوسی تصور ہے۔ ماڈرن بادشاہ کو اِس کی قطعی ضرورت نہیں۔ اُسے ہر صورت میں آپ اپنی پرائیویسی Privacy کہہ سکتے ہیں جو ہمارے افسر صاحبان اکثر و بیشتر قائم رکھتے ہیں۔ اُن کے گھر ملنے جائیے یا دفتر میں، آپ کو لمحہ لمحہ پتا چلتا رہے گا کہ اب صاحب بہادر کیا کر رہے ہیں!
لہٰذا ہم چونکہ نہ دقیانوسی بادشاہ رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی فرعون بننے کا، یعنی بڑا اَفسر ہونے کا ہمارا کوئی پروگرام ہے، اِس لیے ہمارے واسطے یہی مناسب ہے کہ اپنی جگہ ہم بادشاہ بھی رہیں اور ایک عام آدمی کی آزادیاں بھی ہمیں پوری طرح حاصل ہوں۔ اِس خیال کے آتے ہی ہم آرام سے پڑ کر سو گئے۔ گویا اب ہم بادشاہت کے تصور میں ایک انقلاب برپا کر رہے تھے۔ ہمارے ہر خراٹے سے اِس انقلاب کی رُوح پرور صدا بلند ہو رہی تھی لیکن ابھی ہم نے اِس قسم کے دس پندرہ خراٹے ہی لگائے تھے کہ ہماری چھوٹی بیٹی نے ہمیں جھنجھوڑا:
’’ابو، ابو! اُٹھیے۔ امی کہہ رہی ہیں آٹا ختم ہے۔ بازار سے جا کر آٹا لائیے۔ آٹا نہ لائے تو کھانا نہیں ملے گا‘‘۔
ہم گھبرا کر اُٹھے۔ واقعی بیوی کل سے کہہ رہی تھیں کہ آٹا لانا ہے لیکن ہم ٹال مٹول کر رہے تھے۔ فوراً اُٹھ کر بازار کی طرف چل دیے۔ ابھی گھر سے نکلے ہی تھے کہ چھوٹی بیٹی دوڑی ہوئی آئی اور ہمارے ہاتھ میں سبزی کا تھیلا پکڑا کر بولی: ’’ابو! امی نے کہا ہے کہ یہ کانے بینگن واپس کر کے آئیے اور سنیے! امی نے کہا ہے کہ دکان دار سے آنکھیں کھول کر سبزی لیا کیجیے‘‘۔
ہم نے سوچا کیا بادشاہ سلامت خود سبزی خرید کر لاتے ہیں؟ اور اگر لاتے ہیں تو کیا واپس کرنے بھی وہی جاتے ہیں؟ کیا کسی بادشاہ نے دکان سے جا کر آٹا خود خریدا ہے؟ ہمیں اپنے اندر سے آواز آئی: ’’بادشاہ ہو یا فقیر، اپنے گھر کا کام کرنا کوئی عیب کی بات نہیں۔‘‘
اِس آواز کو سنتے ہی ہم ایک شانِ بےنیازی سے سبزی کا تھیلا ہاتھ میں لیے بازار کی طرف چل دیے۔ ہم اپنے آپ کو اس وقت بھی بادشاہ تصور کیے ہوئے تھے، حالانکہ ہمیں اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر ایسا تصور کرنے کا کوئی حق نہ تھا۔
بہرحال ہم بزعمِ خود ایک بادشاہ کی طرح چلے جا رہے تھے کہ ہمیں سامنے سے فارسی کے پروفیسر ل۔م آتے دکھائی دیے۔ اُنھوں نے حسبِ معمول فارسی میں ہماری خیریت پوچھی لیکن ہم نے اُنھیں حسبِ معمول جواب نہ دیا بلکہ اُن کے سلام کے جواب میں نہایت آہستگی سے یعنی دوسرے لفظوں میں نہایت رعونت کے ساتھ سر کو معمولی سی جنبش دی۔ پروفیسر ل۔م نے ہمارا گریبان پکڑ کر اپنے خاص انداز میں ہم سے خطاب فرمایا:
’’اوئے میاں! تجھے آج کیا ہو گیا ہے کہ اُونٹ کی طرح اکڑ اکڑ کر چل رہا ہے؟ یعنی شتر غمزے فرما رہا ہے؟‘‘
ہم اگرچہ اس وقت اپنے آپ کو پوری طرح بادشاہ تصور کیے ہوئے تھے لیکن پروفیسر کے اس بےساختہ فقرے پر اپنی بادشاہت کو فراموش کر کے داد دِیے بغیر نہ رہ سکے اور اُن سے ہنس کر پوچھا:
’’یار اُونٹ کا اکڑ کر چلنا تمہی سے سنا ہے۔ کیا اُونٹ بھی اکڑ کر چلتا ہے؟ اور کیا اُس کا اکڑ کا چلنا مضحکہ خیز نہ دکھائی دے گا؟‘‘
پروفیسر ل۔م نے فوراً جواب دیا: ’’یہی تو کہہ رہا ہوں کہ تم بھی ا س وقت چلتے ہوئے مضحکہ خیز حد تک اونٹ نظر آ رہے ہو‘‘۔
پیارے! میں تو اِس وقت ایک بادشاہ کی حیثیت سے چلا جا رہا تھا‘‘۔
’’وہ کیسے؟‘‘
’’کیا گھر کا سربراہ بادشاہ نہیں ہوتا؟‘‘
’’اِس حساب سے تو میں بھی بادشاہ ہوں، لیکن بھائی میاں! واضح رہے کہ بادشاہ سلامت ابھی ابھی گھر میں جھاڑو دے کر آ رہے ہیں۔ جمعدارنی ایک ہفتے سے نہیں آئی اور بیگم صاحبہ کو بخار ہے‘‘۔
ہمیں پروفیسر ل۔م کی یہ صاف گوئی بےحد پسند آئی۔ کچھ اِس لیے بھی کہ ہمیں پتا چلا کہ ابھی دنیا میں ایسے بادشاہ موجود ہیں جو نہ صرف سبزی بازار سے خرید لاتے بلکہ گھر میں جھاڑو بھی خود لگاتے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحے ہماری گردن اکڑ گئی۔ ہم نے اچھی خاصی بلند آواز سے اپنے آپ سے کہا:
’’ہم جھاڑو ہرگز ہرگز نہ دیں گے۔ یہ بادشاہت کی کھلم کھلا توہین ہے۔ جھاڑو دینا جمعدارنی یا پھر بیوی کا کام ہے۔ اگرچہ اُس وقت سڑک پر بیوی کے نمودار ہونے کے دُور دُور تک مکان نظر نہ آتے تھے، لیکن ہمیں یوں لگا جیسے بیوی نے گھور کر دیکھتے ہوئے ہم سے پوچھا ہے:
’’کیا بیوی اور جمعدارنی کو آپ برابر سمجھتے ہیں؟‘‘
ہماری ٹانگیں کانپنے لگیں اور نہایت گرم موسم ہونے کے باوجود ہمارے دانت بجنے لگے۔ ہم نے گڑگڑا کر کہا: ’’نہیں ، نہیں، ہم ایسے بدتمیز اور ناہنجار خاوند نہیں ہیں، ہم تو بیوی کو سر کا تاج سمجھتے ہیں‘‘۔
سبزی خرید کر واپس گھر پہنچے تو بیوی نے اعلان کیا: ’’گٹر بند ہو گیا ہے، اسے کھلوانے کا جلد از جلد انتظام کیا جائے‘‘۔
ہم نے غصے میں آ کر جواب دیا: ’’ابھی ابھی اپنی ایسی تیسی کرا کے سبزی وغیرہ لے کر آیا ہوں۔ آتے ہی آپ نے یہ حکم صادر فرما دیا۔ میں گٹر کھلوانے کا اس وقت کوئی انتظام نہیں کر سکتا۔‘‘
بیوی نے نہایت ملائمت سے فرمایا: ’’میں کب کہہ رہی ہوں کہ آپ گٹر کھلوانے کا انتظام کریں، اگر ایسا نہیں کر سکتے، تو خود گٹر کھول دیجیے۔ ایک دفعہ آپ نے کھولا تھا‘‘۔
اِس مکالمے کے چند لمحے بعد ہی ہم یعنی بادشاہ سلامت کپڑے اُتارے، لنگوٹ کسے، گٹر کھولنے میں مصروف تھے۔ گٹر سے فارغ ہو کر بیٹھا ہی تھا کہ بیوی کی پھر آواز آئی۔ لیکن اس آواز میں محبت اور لجاجت اپنے کمال پر تھی۔ بیوی کہہ رہی تھیں: ’’میں نے کہا پیارے! آپ اس وقت کہاں ہیں؟ اجی! آپ سن رہے ہیں؟ میں کہہ رہی ہوں سرتاجِ من …..‘‘۔
شاید زندگی میں دوسری یا تیسری مرتبہ بیوی نے ہمیں اِس انداز میں پکارا تھا۔ اس وقت ہم واقعی اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ رہے تھے۔ ہمارا سر غرور کی وجہ سے عرش کو چھو رہا تھا۔ ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم اِس وقت جو حکم بھی صادر فرمائیں گے، اُس کی تعمیل معاذ اللہ کُن فَیکُوْن کے انداز میں سرزد ہو سکتی ہے۔ چونکہ ہم اس وقت پلنگ پر دراز تھے، اِس لیے بیوی نے بائیں ہاتھ کی پانچوں اُنگلیوں سے ہمارے سر کے بالوں میں گدگدی کرتے ہوئے فرمایا: ’’میری جان! کیا آپ تھک گئے ہیں؟‘‘
ہم نے ایک دم اُٹھتے ہوئے کہا: ’’ارے واہ! تھکنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟‘‘
’’سچی مچی‘‘۔
’’ہاں ….. ہاں، اور کیا جھوٹ بول رہا ہوں؟‘‘
اِس کے بعد بیگم نے اپنی اُنگلی ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر کہا: ’’آپ میری اُنگلی دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’اُف! اِسے کیا ہوا؟‘‘
’’سبزی تراش سے کاٹتے ہوئے زخمی ہو گئی۔ اب چونکہ دائیں ہاتھ کی اُنگلی ہے، اِس لیے …..‘‘
’’بولو ….. بولو ….. رُک کیوں گئیں؟‘‘
’’آپ میرا ایک کام کریں گے؟‘‘
’’کیوں نہیں‘‘۔
’’تو پھر ذرا مسالا پیس دیجیے۔ آپ کی لاڈلی سالی صاحبہ آئی ہوئی ہیں نا۔ وہ ہاتھ کا پسا ہوا مسالا ہی پسند کرتی ہے‘‘۔
بیوی کی اِس التجا اور وجہ معقول کے بعد آپ خود ہی فرمائیے۔ ہم مسالے پیسنے سے کس طرح انکار کر سکتے تھے! اگرچہ ہم نے کسی بادشاہ کو مسالا پیستے نہ سنا تھا لیکن بڑے بڑے ادیب اور شاعر مسالا پیستے رہے ہیں۔ خود ہمارے ڈپٹی نذیر احمد سے اُن کی ہونے والی بیوی نے مسالا پسوایا تھا، یعنی ہماری بیوی ہماری بیوی بن چکی تھی۔ ڈپٹی صاحب کی بیوی تو ابھی بیوی نہ بنی تھی۔
بہرحال ہم مسالہ پیسنے میں دل و جان سے مصروف تھے کہ شاپنگ کرنے کے بعد بازار سے ہمارے بچوں کی منجھلی خالہ تشریف لے آئیں۔ ہمیں مسالا پیستے دیکھ کر فرمانے لگیں:
’’بھائی جان! میں نہ کہتی تھی کہ خاوند اپنے گھر کا بادشاہ ہوتا ہے! جو کام وہ کرنا چاہتا ہے، کر سکتا ہے، خواہ مسالا پیسنا ہی کیوں نہ ہو۔ آج تک آپ خواہ مخواہ انکسار سے کام لیتے رہے ہیں۔ اِتنی عاجزی اچھی نہیں۔ بس اِس طرح آپ اپنی مرضی چلایا کریں۔ آپ کا موڈ مسالا پیسنے کا تھا، آپ نے پیسنا شروع کر دیا۔ میرا خیال ہے آپا نے آپ کو بہت منع کیا ہو گا لیکن آپ گھر کے بادشاہ تھے، حکم آپ کا چلا ….. مجھے بےحد خوشی ہوئی کہ آپ نے میری بات مان لی‘‘۔
سالی صاحبہ کی اِس دل جوئی کے بعد ہمارا دل چاہا کہ مسالا پیس کر ہم اپنے ہی منہ پر مل لیں، تو زیادہ اچھا رہے گا۔ ہم جل کر کباب بنے جا رہے تھے، مسالا لگ جائے گا، تو چٹ پٹا کباب بن جائیں گے۔
٭٭٭

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles