20 C
Lahore
Tuesday, November 12, 2024

Book Store

زندگی کے رنگ 

زندگی کے رنگ 

یہ کہانی ہیلپرز کو لعنت ملامت کے لئے نہیں لکھی گئی۔ ان کی مدد کے بغیر گھر چلنا مشکل ہے۔ صرف اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کے لئے تاکید یے ۔ انسانی فطرت ہے وہ ہمیشہ اپنے سے اوپر والے کو دیکھ کے ترستا ہے اور ان کا حصول چاہتا ہے۔ میری سوچ کے مطابق ہزاروں چیزیں میرے پاس نہیں ہے لیکن مجھے ان کے حصول کے لئے دوسرے یا تیسرے زرائع استعمال نہیں کرنے ۔
(زارا مظہر)
۞۞۞

پچھلے برس رمضان میں زبیدہ نامی ہیلپر میرے پاس تھی۔ کام میں ڈنڈی مارنے والی۔ بلا کی باتونی۔ ہر ہر جملے میں مطالبہ کرنے والی۔ باتوں باتوں میں دوسری باجیوں کا دیا گنواتی رہتی ۔ گھنٹے ڈیڑھ میں سے آدھا گھنٹہ فرمائشی پروگرام جاری رہتا ۔ جو چاہتی منٹوں میں حاصل کر لیتی۔
ایک مہینہ پہلے ہی میرے پاس آئی تھی ۔ اس کی بے تحاشا مانگنے والی شہرت سوچ کے میں اسے رکھنا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوری تھی کہ کوئی متبادل نہیں تھا۔
میری تکلیف دیکھ کر برابر والی انیلہ نے بھیجا تھا کہ وقتی طور پہ کام چلاؤں۔ اسے بھی کام کی ضرورت ہے۔ مانگتی تو ہے لیکن چھٹی نہیں کرتی،چوری بھی نہیں کرتی۔ جب من پسند کا بندوبست ہو جائے تو فارغ کر دیجیے گا ۔
اس کے کام کرنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ افتاں و خیزاں گھر میں داخل ہوتی۔ گیٹ کھولتے ساتھ ہی لگتا کہ گھر میں طوفان بلکہ کوئی سونامی داخل ہو گیا ہے۔ اپنا بولنے والا بٹن بھی آن کر لیتی۔ نعرہ لگاتی۔
لو جی زبیدہ آ گئی۔
گھر چمکانے بظاہر وہ اکیلی آتی لیکن پوری فیملی اس کے کندھوں پہ سوار ہوتی ۔ ہر روز کی نئی کہانی اور کہانی کی تفصیل بھی۔
چھوٹی اور چھوٹا بیمار ہیں ۔ میں جلدی جاؤں گی۔  آج باتھ روم نہیں دھو سکوں گی ۔ بڑی نے اسکول جانا ہے، اس کی کتابیں لینی ہیں ۔ میاں کی کمر میں رات بھر شدید درد رہا ہے۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا۔ آج اوپر والی سیڑھیاں صاف نہیں کروں گی ۔ بڑی والی پنجاب سے روٹھ کر آئی ہوئی ہے۔ کُچھّڑ کاکا بھی ہے۔ اسے کام ڈھونڈ کے گھر لگوا کے دینے ہیں۔ نو نمبر والی باجی کے ہاں لے جاؤں گی۔ آج اوپر اوپر سے کام کروا لو ۔۔
۔دوسرے نمبر والا پانی سپلائی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ چھٹی کرنے پہ وہ اس کے پیسے کاٹ لیتے ہیں ۔ جھاڑو پوچا کرنے کے لئے پورا گھر الٹ پلٹ دیتی۔ تپائیاں گھسیٹ کے بے جگہ کر دیتی۔ کئی بار کچن کی کرسی فریج کی کمر میں دے ماری ۔
جوتے چپلیں بکھیر دیتی ۔ اٹھا پٹخ اور اونچا اونچا بولنے کے شور سے گھر بھر جاتا۔ جیسے گھر کو اچانک بخار چڑھ گیا ہو اور تھرمامیٹر دم بدم اوپر جاتا ہے ۔
آدھا کام ہاتھوں سے کرتی اور آدھا پیروں سے۔ کسی دروازے میں دامن اٹکتا ، کسی میں آستین، کہیں پائنچا پھنستا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کی گلو کاری بھی جاری رہتی ۔
مطلب وہ چلتی گاڑی تھی، جس کا ہر پرزہ چلنا ضروری تھا ۔ بچے شدید چڑتے۔ کرونا کی وجہ سے عجیب حالات تھے۔ بچے چوبیس گھنٹے گھر پہ ہوتے۔ کسی کی آن لائن کلاس کبھی لگ رہی ہے کسی کی کبھی۔
چاروں کہتے، اسے ہمارے کمرے میں مت بھیجا کریں۔ یا منہ اور ہاتھ پاؤں باندھ کے آنے دیا کریں۔ سمع خراشی کرتی۔ گیجٹس توڑ دیتی ہے۔ وائرز ہلا دیتی ہے۔ شکایات کا ڈھیر تھا ۔
اللہ جی میں کہاں جاؤں؟ میرا سر گھومنے لگتا ۔ اپنی فون کالز سننے کی بےحد شوقین تھی۔ آتے ہی فون ہاتھ سے سیڑھیوں والے بڑے سے دریچے میں رکھ دیتی۔ باجی دھیان رکھنا۔ میرے فون کا سپیکر خراب ہے۔ بجے تو مجھے فوراً بتانا ۔
بڑی باجی، جھاڑو لگانے تک میرے لئے چائے پراٹھا بنا دیں۔ میں نے صبح جلدی میں کچھ نہیں کھایا ۔۔۔ لڑاپ شڑاپ جھاڑو گھماتی اور شرلی کی طرح گھومتی یہ جا وہ جا ۔۔
گھنٹہ بھر لگتا مجھے اس روز کے زلزلے کے آفٹر شاکس بھگتتے اور گھر کا ٹمپریچر نارمل کرتے ۔
اگر اس دوران اس کی کال آ جاتی تو آدھا پونا گھنٹہ مجھے اس درجۂ حرارت میں مزید کھولنا پڑتا۔۔
بوٹے سے قد کی دبلی پتلی عورت تھی۔ شائد اسی لئے مجھے بڑی باجی کہتی ۔ سوسائٹی میں تین جگہوں پہ لنگر خانے ہیں، جہاں دو وقت لنگر تقسیم کیا جاتا ہے ۔ دریاں بچھا کر بھی کھلاتے ہیں اور گھر لے جانے کی سہولت بھی دیتے ہیں۔ زبیدہ جیسے پنجاب سے آئے بہت سے کنبے آرام سے پل رہے ہیں ۔ پکانے اور بعضے تو کمانے دھمانے کے جھنجھٹ سے بھی آزاد ہیں ۔
پچھلے برس رمضان میں نسبتاً گرمی تھی ۔ باجی گرمی اور روزے ایک ساتھ شروع ہو جائیں گے۔ آپ کے پاس وقت نہیں ہو گا۔ مجھے لان کے کپڑے پہلے ہی نکال دیں۔ میرے پاس کپڑے ختم ہیں ۔ تیسرے چوتھے روزے پہ بنا سیاق و سباق، اچانک جھاڑو روک کے بولی۔
”اس دفعہ میں نے فیصلہ کیا ہے، میں فریج لوں گی۔ ہم بھی ٹھنڈا پانی پئیں گے۔ فریج میں سے لنگر نکال کے کھائیں گے۔ میں چھے گھروں میں کام کرتی ہوں۔ میری باجیاں کہہ رہی ہیں ، زبیدہ برف نہ مانگا کرو۔ ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ اب فریج لے لو۔ ہم پانچ پانچ ہزار دیں گی۔ پچیس ہزار تو یہ ہو گئے۔”
اس نے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے چٹکی بجائی۔ ”پانچ کا حصہ تم بھی ڈالو۔ میں نے سیکنڈ ہینڈ فریج دیکھ رکھا ہے ۔”
میں ہکا بکا رہ گئی ۔۔ چار دن ہوئے ہیں کام کرتے اور مطالبات دیکھو ۔۔ لیکن اس کی تریا چلتّر کا مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا۔ ضرور کوئی چکر چلا رہی تھی۔ برس ہا برس سے ان لوگوں سے واسطہ ہے۔ ایک ہی دن میں پانچوں باجیاں کیسے مان گئیں بھلا؟
اس کے جانے کے بعد ٹیرس پہ انیلہ سے علیک سلیک ہوئی تو اسے پوچھا کیا ایسا ہی ہے؟ وہ ہق دق رہ گئی۔
”بھابھی، میرے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ یہ فریج لے رہی ہے۔ نہ اس نے مجھ سے پانچ ہزار کی ڈیمانڈ کی۔ خیر میں نازیہ اور صائمہ سے پوچھتی ہوں۔ ان کے نمبر میرے پاس ہیں۔ آیا وہ اسے پانچ پانچ ہزار دے رہی ہیں ۔”
انیلہ نے ہاتھ کے ہاتھ دونوں کو فون ملا لیا۔ پتا چلا اُدھر بھی یہی کہانی ڈالی کہ انیلہ باجی اور بڑی باجی نے پانچ پانچ ہزار دیئے ہیں، تم بھی دو تاکہ میں فریج خریدوں ۔۔۔
کونے والی شائستہ بھابھی رہ گئیں تھیں۔ انہیں پوچھا تو وہ بھڑک گئیں کہ پچھلے برس میں فریزر لیا تھا تو چھوٹا فریج اسے دے دیا تھا۔ اب اس نے فریج کیا کرنا ہے؟ میں تو مزید روپے نہیں دوں گی ۔ اس کی چالاکی پہ ہم حیران بلکہ غصہ ہوئے ۔۔
اگلے دن آئی۔ جونہی مطالبہ دہرایا، میں  نے تحقیقات کا رجسٹر اس کے سامنے پیش کر دیا ۔
بنا شرمندہ ہوئے بولی، ”شائستہ باجی والا فریج تو میں نے بیچ دیا تھا۔ فلیٹ میں رکھنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔ مجھے پیسوں کی ضرورت بھی تھی۔ بیٹی کا چھلہ ڈالوایا تھا۔ قرضدار تھی ۔”
دل میں سوچا اب جگہ کیسے بنے گی؟
خیر اسے اندازہ ہو گیا کہ یہ داؤ تو خالی چلا گیا۔ ہفتہ بھر گزرا، کچھ روزے پار لگ گئے تھے۔ سوسائٹی کی فضا معّطر معّطر سی پاکیزہ سی لگتی۔ کرونا کی وجہ سے بندہ نہ بندے کی ذات۔ چڑیا تک کا پر نظر نہ آتا تھا ۔ اب اس کا فطرانوں اور زکوة و خیرات عید کے کپڑوں کا مطالبہ شروع ہو گیا کہ فلاں باجی نے اتنے دئیے فلاں نے اتنے ۔
بلکہ ان کے دئیے ہوئے جوڑے مجھے دکھاتی بھی رہی ۔ میں ذرا دیکھ بھال کے حقدار کو زکوة و خیرات دیا کرتی ہوں۔ جہاں میرا دل گواہی دے ۔ زبیدہ پہ دل نہیں مان رہا تھا۔ میں نے اپنی خیرات اور فطرانے چشمہ اپنی پرانی ہیلپر کو بھیج دئیے۔ یوں بھی سوچا، اسے یہاں کی باجیوں نے پانچ جوڑے ڸے دئیے ہیں۔ اس کی عید ہو جائے گی ۔
لیکن اس نے پیچھا لے لیا۔ ”تم نے میرا حق کسی اور کو کیسے دیا؟میرا بجلی کا بل بہت زیادہ آیا ہوا ہے ۔ ہم نے عید کرنے پنجاب جانا ہے۔ کرایہ بھاڑا بھی لگے گا۔ ہمیں یہی تو لالچ ہوتا یے کہ عید پہ زکوة و خیرات مل جاتی ہے۔ ہم سال بھر اسی لالچ میں خوار ہوتے ہیں۔”
عین روزوں میں کام چھوڑ دینے کی دھمکی دے دی۔ میں اکیلی جان کتنے کام نمٹاتی؟ غرض اس نے اتنی لے دے کی کہ مجھے دو ہزار اس کی بلیک میلنگ کے حوالے کرنے پڑے ۔۔ جو اس نے  لے کے لاپروائی سے پلو میں باندھ لئے جیسے ہاتھ کا میل ہو ۔
ہمارے پاس ہی کہیں جمعہ بازار یا اتوار بازار لگتا ہے ۔ جمعہ کے روز وہاں پہنچ گئی۔ جامہ وار کا “ٹروزل” اور نئی چپل خرید لائی۔ نئے جوتے کپڑے اور لال رنگ چوڑیاں پہن کے چھم چھم کرتی کام پہ آ گئی۔ خوشی خوشی دکھایا کہ بڑی باجی کل تم  نے جو روہے دئیے تھے، میں اپنے لئے یہ چیزیں لائی ہوں۔
مجھے لگا ان گھٹیا چمکیلی چیزوں پہ روہے برباد کر آئی ہے۔ چار دن بھی نہیں نکالیں گی۔ روہے سنبھال کے رکھنے چاہئے تھے ۔ کسی اچانک افتاد میں کام آ جاتے۔ بجلی کا بل ہی بھر لیتی ۔۔
عید بھی ابھی ڈیڑھ دو ہفتے کی دوری پہ تھی۔ آج ہی پہن لینے کی کیا ضرورت تھی؟ خیر میں  نے روکھی سی مبارک باد دے دی ۔
میرے تاثرات دیکھ کر بولی۔ ”نئے کپڑے پہننے کو ہمارا بھی دل کرتا ہے بڑی باجی۔”
مجھے اپنے تاثرات کی بے حجابی پہ افسوس ہوا تو خود کو دل ہی دل میں پھٹکارا ۔ نئی چپلیں پانی میں شپ شپاتی رہی اور پھر پوچا لگاتے سستی جامہ وار کا ٹراؤزر بھی بری طرح سے چِر گیا۔ اتنا بری طرح سے کہ چلنے سے عریاں ہو رہی تھی۔ مجھے اسے ڈھانپنے کے لئے ایک شلوار دینی پڑی ۔ مجھے اپنی چشمہ والی ہیلپر شدت سے یاد آتی۔ کیسی باسلیقہ عورت تھی ۔ اس کے اوپر لکھنا قرض ہے ۔ سوچتی ہوں سلیقہ بھی تربیت سے آتا ہے۔ زندگی کو گزارنا اور احتیاط سے برتنا دو الگ طرح کے کام ہیں ۔
✍ ۔۔۔۔۔ ز ۔ م
٤ اپریل ٢٠٢٢ء

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles