16 C
Lahore
Thursday, December 5, 2024

Book Store

Why We Dance in Ads|ناچو پاکستان

 

حمیت وغیرت سے ناآشنا عوام کی حالت کومے کے مریض جیسی ہے

جینا جہانگیر

ارے! آپ چونک کیوں گئے؟ حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ میں نے صرف وہی کہا جو آج کل ہماری نوجوان نسل کرنے میں مصروف ہے۔#

بچے, بزرگ، خواتین ہوں یا مرد۔ ہر کام کرنے سے پہلے #ناچنا گانا بہت ضروری ہے۔

لگتا ہے آپ اب بھی نہیں سمجھے۔

ٹی وی نہیں دیکھتے کیا؟ پھر تو آپ کا ترقی کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ ناچنا گانا نہیں سیکھیں گے تو ایک ترقی یافتہ، ماڈرن قوم کیسے بنیں گے؟

شاید آپ کو لگے کہ میں مذاق کے موڈ میں ہوں، یا یہ کوئی #طنز و مزاح پر مبنی مضمون ہے۔ جی نہیں! ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے صرف ایک سرسری سا جائزہ لیا تھا، اپنے سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے پروگرامز اور خاص طور پر #اشتہارات کا۔ جب نظر دوڑائی تو محسوس ہوا کہ پوری قوم ہی ناچنے گانے میں مصروف ہے۔ لگتا ہے آپ کو اب بھی یقین نہیں آیا۔ حیرت ہے! آپ ایسے حیران و پریشان ہو رہے، جیسے میں نے کوئی انہونی بات کہہ دی۔

کچھ سال پہلے اگر ایسی بات کہی جاتی تو آپ کا حیران و پریشان ہونا سمجھ بھی آتا۔ اب توآپ کو عادی ہو جانا چاہیے تھا۔ مگر خیر جب میں عادی نہیں ہو پائی تو کسی سے کیا ’’شکوہ‘‘۔ کوشش تو بہت کی میڈیا نے کہ میں بھی خود کو اس رنگ میں رنگ لوں۔

اگرایسا ہوتا تو شاید یہ سطریں لکھنے سے پہلے یا بعد، میں بھی سہیلیوں کے جھرمٹ میں بھنگڑا تو ڈال ہی لیتی، آج کل ہر ضروری اور غیر ضروری کام کرتے وقت ناچنا بہت ضروری ہو چکا۔

بات کڑوی ہے اس لیے ہلکے پھلکے انداز میں ہی کی جائے تو مناسب ہو گا۔ جیسے کڑوی دوائی میٹھے شربت یا چینی کے ساتھ بچوں کو پلائی جاتی ہے، تاکہ کڑواہٹ کم سے کم محسوس ہو اور دوا اثر بھی کر جائے۔

میری سمجھ سے بالاتر ہے، آخر اخلاقیات سے گرے ہوئے، بے تکے اور بھونڈے اشتہارات دکھا کر پاکستانی عوام کو کیا سکھایا جا رہا ہے؟

پہلے اگر کوئی پروگرام یا ڈراما معیار کے مطابق نہ ہوتا تو چینل تبدیل کر لیا جاتا تھا۔ کوئی منظر قابلِ گرفت لگتا تو بڑے بزرگ فوراً اُسے تبدیل کر دیا کرتے تاکہ نسلِ نو کے نازک اور کچے ذہنوں پر غلط اثرات مرتب نہ ہوں۔ مگر اب کیا کیا جائے ، جب نوے فیصد اشتہارات میں بوڑھے اور ادھیڑ عمر حضرات بھی دیوانوں کی طرح اچھلتے کودتے اور ناچتے گاتے نظر آتے ہیں اور ناچنے کی وجہ بھی کیا…؟

بس ایک کپ چائے وہ بھی من پسند دودھ میں بنی ہوئی، تو ناچنے کا موقع تو ہوا نا۔آئیے ٹی وی آن کریں اور کومے میں گئے ہوئے، خواب غفلت میں کھوئے ہوئے اس عوام کو جگائیں۔اگر آپ چائے پیناچاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ چندماڈل لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے کریں۔ کسی دوسری چائے کی کمپنی کا نام لیے بغیر، اس کا لیبل دکھا کر، تھوڑا سا دھندلا کر دیں، مگر یوں کہ واضح نظر آئے اور پھر طنزیہ جملے کستے ہوئے اپنی برانڈ کی چائے کی تعریف کریں۔ چاہیں تو ووٹنگ کرا لیں۔

 

ہمارے نوجوان فارغ ہی تو ہیں۔ سارے کام دھندے چھوڑ کر وہ لازمی ووٹ دیں گے ، کہ چائے لال ڈبے والی اچھی ہے ، یا پیلے ڈبے والی۔

چائے پسند آئی، لوجی ایک بھنگڑا تو بنتا ہے۔ لڑکیاں لڑکے بے ہودگی سے، آگ جلائے، راتوں کو کیمپ لگائے، نہ جانے کس فلمی دنیا کے باسی ہیں۔ چائے کے کپ ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔ ایک لڑکا گٹار بجائے گا باقی ساتھ دیں گے، چائے کا شغل بھی چل ہی رہا ہے نا ساتھ ساتھ۔ اب تو آپ پئیں گے نا اس برانڈ کی چائے۔

چلیں چائے نہیں پینی توکوئی کولڈڈرنک ہی پی لیں۔

آپ نے وہ اشتہار نہیں دیکھا کیا؟ ڈر کے آگے جیت ہے۔ لو بھلا یہ کیا بات ہوئی۔

ایسا مشروب آپ نے ابھی تک پیا ہی نہیں۔ اسے پی کر تو اچھے اچھے۔ میرا مطلب ہے بچے بچے کو پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگانی آ جاتی ہے۔ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی ریس میں اوّل آنے کی وجہ بھی یہی مشروب ہوتا ہے۔ لڑکے لڑکیاں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، شوروغل کرتے، چیختے چنگھاڑتے اپنی فتح پر ناچ رہے ہیں۔ ارے انھوں نے کولڈ ڈرنک ہی ایسی پی ہے کہ اب جیتنا ناگزیر ہے۔ بیچارہ غریب کا بچہ جو اس کولڈ ڈرنک سے محروم رہا، وہ ہار گیا۔ دو پہاڑوں کے درمیان گہری کھائی ہے۔

آدھے نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک گروپ کے ساتھ۔ باقی دوسرے گروپ کے ساتھ۔

مقابلے بازی کی فضا زوروں پر ہے جناب۔ اب ایسے میں ایک لڑکے کے ہاتھ اس جادوائی کولڈ ڈرنک کا ٹِن پیک لگ گیا۔

اُس نے ایک ڈرامائی انداز میں اسے کھولا۔ حلق میں انڈیلا اور بس جی۔ کھائی کیا اب وہ تو سات آسمانوں کو بھی پار کرنے کے قابل ہو چکا۔ بلاوجہ ڈر رہا تھا پاگل نادان جانتا نہیں تھا…؟ کہ اس کو پی کر ڈرنے کا کوئی جواز ہی نہیں۔ اب تو ملک الموت بھی اسے کھائی میں گرنے سے خود روکے گا۔

اب چلتے ہیں ایک دوسرے مشروب کی طرف۔ جہاں ایک طوفان بدتمیزی مچائے کالج کینٹین کی میز کے اردگرد نوجوان لڑکے لڑکیاں بیٹھے بریانی کھا رہے ہیں۔

ایک منچلا نوجوان کھانے کے تمام آداب بالائے طاق رکھ کر ایک بوتل کھولتا ہے۔ کولڈ ڈرنک پی کر اس کے اندر مداری کی روح آ جاتی ہے۔ وہ زور سے میز پر ہاتھ مارتا ہے۔

بریانی کی پلیٹیں ایک قلابازی لگا کر واپس میز پر چپک جاتی ہیں۔ تمام طلبہ باری باری یہی مظاہرہ کرتے ہیں۔

بہت افسوس کا مقام کہ یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔ کہاں ہے ہمارا مذہب جو رزق کے ادب و احترام کی تلقین کرتا ہے۔

یہ کس ملک کے نوجوان ہیں جو اتنا نہیں جانتے، اسلام ہی نہیں باقی تمام ترقی یافتہ مہذب ممالک میں بھی شاید، رزق کی ایسی توہین یا مذاق نہیں بنایا جاتا ہو گا۔ ہم تو پھر مسلمان ہیں، چاہے نام کے ہی سہی۔ رزق کی بے حرمتی اور بے ادبی کی ایک اور اعلیٰ ترین مثال ایک اور اشتہار سے صاف جھلکتی ہے۔

مشہور سابق کرکٹر واشنگ پاؤڈر طاقتور ترین ہونے کا ثبوت دیتے نظر آتے ہیں۔ اب قابل مذمت بات یہ ہے کہ کیا کپڑے پر لگے وہ داغ جو پائوڈر مٹائے گا۔ اس کے لیے مٹی کے داغ بھی لگائے جا سکتے تھے۔

پینٹ کے، گھاس کے، گندے تیل کے، الغرض ہزاروں اور ایسی چیزیں ہیں جن کی مثال دی جا سکتی تھی۔ لیکن کیا عمارتوں کی کھڑکیوں سے اس قدر بدتمیزی کے مظاہرے کے ساتھ، انتہائی بدتہذیبی اور بے ادبی کے ساتھ خواتین سالن کے بھرے ڈونگے، چائے، مشروبات، جوس وغیرہ کپڑے پر بے دردی کے ساتھ انڈیلتی دکھانی بہت ضروری ہو گئی تھیں؟

یہ اشتہار بناتے وقت یا بنانے کے بعد دیکھتے وقت، ایک دفعہ غریب، بھوکی اور بے بس عوام تھر کے قحط زدہ، بھوک پیاس کے ہاتھوں دم توڑتے بچے، صومالیہ کے غریب و افلاس سے نحیف پسلیوں کے ڈھانچے بنے بچے، خواتین، مرد، کیا آنکھوں اور عقل کے اندھوں بے ضمیروں کو کچھ نظر نہیں آیا؟

چلو اور کچھ نہیں تو کیا اپنا ضمیر اور دل بھی نہیں کانپا؟ کیا ایک سرف کی طاقت دکھانے کے لیے اللہ کے رزق کو یوں اچھال اچھال کر پھینکنا بہت ضروری تھا؟ کون لوگ ہیں یہ؟ کیا یہ مسلمان ہیں؟ کیا یہ انسان بھی ہیں؟ اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایک اشتہار بنانے کے لیے کتنی ہی شوٹنگز کی گئی ہوں گی۔ یہ مظاہرہ بار بار دہرایا گیا ہو گاجب تک کہ مطلوبہ سین ’’او کے‘‘ نہ ہو جائے۔

چلیں کڑوی باتیں بہت ہو گئیں۔ آئیے تھوڑا منہ میٹھا کریں۔

کوئی چاکلیٹ کھائیں، مگر رکیں! کیا آپ کا کوئی بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ ہے؟

اگر ہے تو ٹھیک اگر نہیں تو پھر آپ چاکلیٹ نہیں کھا سکتے۔ معاف کیجیے گا مجھے ایسا کہنا پڑا۔ کیونکہ یہی تو دکھایا اور سکھایا جا رہا ہے ہمارے اشتہاروں میں۔

کیا آپ نے، چاکلیٹ کے کسی اشتہار میں بچے کو اپنے ماں باپ ، بہن بھائی کے ساتھ چاکلیٹ کھاتے دیکھا ہے؟

کیا کہا؟

دیکھا ہے؟ کہاں…! اچھا پڑوسی ملک کے اشتہار ہیں؟ لیکن وہ تو بہت مغرب زدہ، ترقی یافتہ، ماڈرن کلچر کا شکار ملک ہے۔ وہاں ایسا فیملی اشتہار سمجھ سے باہر ہے۔ تو پھر ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں، چاکلیٹ صرف اپنی لڑکی دوست یا لڑکے دوست کے ساتھ ہی کھاتے کیوں دکھاتے ہیں…؟

یعنی ہم انڈیا سے بھی دو ہاتھ آگے نکل چکے۔ اچھا چھوڑیں چلیں کھانا پکاتے ہیں۔ اچھا سا گھی پسند کریں۔ لیکن یہ کیا؟

اچھا گھی وہی ہوتا ہے، جس سے آپ کی صحت، دل کی دھڑکن، خون کی شریانیں ایسی صحتمند اور تندرست رہیں

آپ کھل کر ناچ سکیں، نہیں سمجھے؟ آپ کی ماں، بہن، بیوی بہت سوچ سمجھ کر چُن کر گھی لاتی ہے۔ جس میں پکا کھانا کھا کر

آپ بے دھڑک دل کے دورے سے بے خطر ہو کر اپنے آپ میں مگن ہو کر ناچ سکیں۔ آخر اچھی صحت اور کس کام آئے گی۔

ناچنا ہی تو زندگی کا نصب العین ہے۔اب یہی دیکھیے، کیا خوبصورت منظر ہے۔ ایک خوبصورت ماڈل بدن سے چپکی میکسی پہنے، جس کے بازوغائب ہیں۔ دھیمے دھیمے سروں میں لہراتی، بل کھاتی مدھر سی لڑکی ناچ رہی ہے۔

ہیرو اُسے وارفتگی سے تک رہا ہے۔ اس کا بس نہیں چل رہا کہ اس ہیروئن کو لے کر کہیں دُور نکل جائے۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھماتے لہراتے ناچتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں محبت کا پیغام دیتا ہے۔ (بے حیائی کا)

اور وہ لڑکی اترا کر ہمیں بتاتی ہے کہ یہ سب صرف ایک صابن سے نہانے کی بدولت ہوا ہے اور ہم احمق جو منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے ایسا رومانوی منظر ، کسی فلم کا سین سمجھ کر اماں ابا سے چوری چوری دیکھ رہے تھے، ہونق بنے بیٹھے رہ گئے۔

لوجی، صابن کا کمال! ہائے ایسا صابن ہر لڑکی کے پاس آ جائے تو فواد خان کیا سلمان خان،

شاہ رخ خان اور جتنے بھی ’’خان‘‘ ہیں، وہ تو ہماری مٹھی میں بند ہو جائیں۔

مٹھی میں بند ہونے سے یاد آیا پرانے زمانے میں ایک بہت خوبصورت ’’بے ضرر‘‘ سا اشتہار ہوا کرتا تھا۔ پان مسالے کا جس میں لڑکا لڑکی کشتی میں نہر کی سیر کرتے ہیں اور لڑکی بڑی اداسی سے ‘‘کہتی ہے ’’میری مٹھی میں بند ہے کیا…؟

اُس وقت پر اشتہار ہمیں نہایت معیوب، بے تکا اور واہیات لگا کرتا تھا۔ لو آخر تُک کیا بنتی ہے، پان مسالا کھانے کے لیے کشتی رانی بڑی ضروری تھی کیا؟ لیکن اب غور کریں تو محسوس ہو گا کہ وہ تو کچھ بھی نہیں تھا، کچھ بھی نہیں۔ اسے بُرا یا غلط سمجھنا ہماری بچکانہ حرکت تھی۔ لیکن بہرحال جو بھی تھا۔ اس وقت کی عوام میں کم از کم اتنی جرأت تو تھی ، کہ وہ غلط کی نشاندہی کر سکیں۔

گرمیاں آ رہی ہیں تو ظاہر ہے لان کے اشتہارات بھی مقابلے بازی میں کسی سے کم ہیں…؟ ایک، دو، تین اوپر تلے کئی برانڈز نے، اپنے اشتہارات ٹی وی پر یوں پھینکے جیسے غلیل میں رکھ کر چھوڑے گئے ہوں۔

تاک تاک کر کمزور دل حضرات کے مردہ دلوں میں جان ڈالنے کی واہیات لغو کوشش کرنے میں ہر اشتہار ، دوسرے سے سبقت لے جاتا نظر آ رہا ہے۔

۔اپنے گھر والوں سے دُور، کالج کی لڑکیاں

کہیں شہر سے باہر ، کیمپ میں گٹار بجاتی، گاتی، بسوں پر رنگین نقش و نگاربناتی، بھاگتی دوڑتی نظر آتی ہیں۔

نہ جانے ہر دوسرے اشتہار میں لڑکیاں لڑکے

اتنے آزادانہ طریقے سے آدھی رات کو بون فائر کس خوشی میں مناتے دکھائے جاتے ہیں؟

کیا یہی ہماری روایت و ثقافت ہے؟ کہ نوجوان ہر تفریح ایک تو شہر سے باہر جا کر ہی کر سکتے ہیں۔

دوسرا نت نئی لڑکیاں بنی ٹھنی ساتھ ضرور ہوں۔ تیسرا گانے بجانے، ناچنے اور درمیان میں آگ جلتی ہو۔

ماں باپ، خاندان کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو۔ اب اس سارے منظر میں جو ہلکی سی ایک دو لان کی جھلک آ ہی گئی ۔ تو وہ بھی بغیر بازو کی چھوٹی سی قمیص ٹاپر جیسی ساتھ بے حد تنگ ٹرائوزر اور ڈوپٹا اوڑھنے کے بجائے زمین پر پوچا لگاتا ہوا لاحول ولا قوۃ۔

اگلے ہی ایک منظر میں لان میں بھیگتی لڑکی۔ اب بارش کا لان سے تعلق کوئی بتلائو کہ ہم بتائیں کیا…

یا تو وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بارش کا مزا، اسی لان کو پہن کر اُٹھائیں۔ ہماری لان اتنی مضبوط ہے کہ بارش کے تھپیڑوں سے بھی خراب نہیں ہونے والی… واللہ اعلم

ناچے گائے بغیر تو شاید اب ہمارا میڈیا ادھورا ہے۔ ان کا بس چلے تو یہ رمضان میں بھی روزہ افطار کرنے والے خاندان کو ناچتا گاتا، ’’افطار پارٹی‘‘ مناتا دکھائیں

لیکن ابھی مکمل بربادی میں تھوڑا وقت باقی ہے۔

ایک دُودھ کی کمپنی ہے جس نے اپنی برانڈ کے نیا نیا شروع ہونے کی خوشی میں اپنے اشتہار میں تقریباً پورا خاندان دو منٹ تک نچایا۔

ہر اشتہار ایک باقاعدہ کہانی کی صورت لیے ہوئے ہے، جس میں دو خاندانوں کی آپس میں ملاقات، دوستی، رشتہ طے ہونا، شادی کی تقریب اور اس تقریب میں تقریباً سبھی کا پاگلوں کی طرح ناچنا، حتیٰ کہ عورتیں بھی۔

بزرگ بھی اُچھل کود کرتے، دو مرغوں کی طرح آمنے سامنے کھڑے ہو کر، کود پھلانگ کرتے انتہائی واہیات لگتے ہیں۔

سمجھ سے باہر ہے کہ آخر اشتہار کس چیز کا ہے؟

کیونکہ ابھی تک تو صرف دوستی ایسا ناتا پرناچ گانا ہی چل رہا ہے۔

بدمست ہاتھیوں کی طرح، بھنگ پیے ہوئے چماریوں کی طرح۔

اشتہار ختم ہوا تو پتا لگا کسی نئے برانڈ کے دودھ کے ڈبے کا اشتہار تھا۔

یہ سب اسی کے ’’مِل‘‘ جانے کی خوشی میں ناچ رہے ہوں گے شاید۔

انھوں نے تو ناچنے میں باتھ رومز صاف رکھنے والے اشتہارات میں دکھائے جانے والے جراثیموں کے ناچ کو بھی مات دے دی ہے۔

حشرات الارض کے ناچنے کی جگہ ہی نہیں بچی، اب پورا پاکستان ہی ناچ رہا ہے۔مارکیٹ میں نیا ماڈل آیا ہے پلازمہ کا۔

اب لگا کر چیک تو کرنا ہے نا کہ کس کوالٹی کا ہے؟ تو ہیروئن اس میں یو ایس بی لگا کر اندھا دھند ناچ رہی ہے۔ تبھی تو پتا چلے گا کہ اس پلازمہ ٹی وی کی آواز کیسی ہے؟ تصویر کا معیار کیسا ہے؟

اس کے لیے پلازمہ کے آگے بیٹھنا ضروری تو نہیں… آپ پلازمہ لائیں، دیوار میں ٹھونکیں اور کھلے سے خالی لائونج میں شروع ہو جائیں۔ جتنا اچھا آپ ناچیں گے اتنا ہی اچھا رزلٹ آپ کے نئے پلازمہ کا ہو گا۔لگتا ہے ناچ ناچ کے آج تو آپ تھک گئے۔ میرا مطلب ہے پڑھ پڑھ کے دماغ، آنکھیں بھی گھوم رہی ہوں گی نا۔

تو چلیں تھوڑا آرام کر لیں۔ آئیں ہم اشتہارات کی دنیا کو یہی چھوڑتے ہیں اور کسی اچھے پروگرام میں چلتے ہیں۔ جہاں جا کر طبیعت کو سکون ملے۔ صبح صبح اچھی اور مزیدار گفتگو سننے کو ملے۔ جہاں اچھے اچھے طبی اور معلوماتی مشورے ملیں گے۔ کیسی خوبصورت پڑھی لکھی مشہور شخصیت کے ساتھ باتیں سننے کرنے کا موقع ملے گا۔ دماغ جو پلپلا ہو رہا ہے اسے تقویت ملے گی۔

جی ہاں! اب ہم آ گئے ہیں ہر چینل پر چلنے والے ’’مارننگ شو‘ میں۔ شاید یہاں کچھ ماحول بدلا ملے۔ ارے واقعی، یہاں تو سچ مچ ماحول بدلا ہوا ہے۔ اشتہارات سے کہیں زیادہ ’’سچے‘‘ واقعات تو ہمیں یہاں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہاں تو باقاعدہ سازوسامان کے ساتھ ناچنے گانے کا ’’سنہری موقع‘‘ دستیاب ہے۔

بڑے بڑے نامور اداکاروں اور اداکاراؤں کے ساتھ گفتگو کے نام پر جو غیر اخلاقی، غیر مذہبی، غیر مہذب اور میرے مطابق تو ’’غیر قانونی‘‘ بھی، ہلڑ بازی مچائی جاتی ہے دل خون کے آنسو روتا ہے۔

اکثر مہمان اور میزبان کی لائیو آن ائیر لڑائی، جھگڑے بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں ، کیونکہ میزبان نے جتنی مقررہ بدتمیزی کی اجازت لے رکھی ہوتی ہے۔ اس سے ایک دو قدم آگے بڑھ جانے پر آنے والا مہمان ناراض ہو کر چل دیتا ہے۔

مارننگ شو میں بس ایک ہی بات اپنے ٹائٹل سے میل کھاتی ہے اور وہ ہے اس کا وقت۔ صبح نو بجے شروع ہونے والے یہ واہیات ترین پروگرامز ، ایسی ایسی فضول، لغو حرکات و سکنات اور گفتگو میں ملوث پائے جاتے ہیں کہ الامان

تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک کونے میں بیٹھا گلوکار گلا پھاڑ کر کوئی نئی دھن شروع کرتا ہے۔ پھر آڈئینس میں بیٹھی لڑکیاں بھی اسٹیج پر بلا لی جاتی ہیں ۔

مزید قابل افسوس بات یہ ہوتی ہے کہ اکثر لڑکیوں نے حجاب، اسکارف لے رکھا ہوتا ہے۔ وہ اس کی بھرپور طریقے سے بے حرمتی، بلکہ بے عزتی کرتے ہوئے اپنے من پسند فنکار کے ساتھ ناچنے میں مشغول ہو جاتی ہیں۔

کئی ایک دفعہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ انھوں نے رکاوٹ بننے والے اپنے نام نہاد ڈوپٹے بھی اتار کر ایک طرف رکھ دیے۔ ایک چیخ پکار، شوروغل، ہلڑ بازی۔

یہ پاکستان ہے۔ پاکستانی مسلمان قوم کا ٹی وی ہے۔

اگر کسی دوسرے انسان سے آپ اپنے ٹی وی پروگرامز، اشتہارات کی رائے لیں تو پہلی اور آخری سوچ جو دماغ میں آتی ہے وہ یہ کہ ،

پورا پاکستان بچہ، بوڑھا، آدمی، عورت، نوجوان لڑکے، لڑکیاں سب کے سب صرف اور صرف ناچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کپڑے دھونے ہوں، چائے بنانی ہو، برتن دھونے ہوں، چائے پینی ہو، کولڈ ڈرنک پینی ہو، اچھے کپڑے پہننے ہوں۔ موبائل فون لینا ہو یا نئی سم۔ ناچنا بہت ضروری ہے۔

اتنا ناچنے اور نچانے کے بعد، مجھ میں حوصلہ نہیں کہ میں پاکستانی ڈراموں کی طرف بھی رخ کر سکوں۔ وہ پھر کبھی کے لیے اٹھا رکھتے ہیں بشرطِ زندگی!ویسے ذاتی طور پر مجھے یہ بات پسند نہیں ، کہ اپنے مسئلے اور شعبے میں دوسرے ممالک سے موازنہ کیا جائے۔

ہمیں خود شعور ہونا چاہیے کہ کیا اچھا ہے کیا بُرا!

لیکن پھر بھی اگر ہمارے میڈیا کو یہ بات سمجھانی بہت ضروری ہی ہے، تو کم سے کم وہ غیر ملکی سبق آموز اشتہارات سے ہی فائدہ اٹھا لیں۔

ویسے تو ہماری قوم دوسروں کے خیالات اور آئیڈیاز چرانے میں نہ تو شرم محسوس کرتی ہے نہ مشکل۔ تو اگر اشتہارات میں بھی ان کے اچھے رجحانات کی نقل کر لی جائے تو کیا حرج ہے؟ لیکن ہمیں شاید برائی کی نقل کرنے میں ہی مزا آتا ہے۔ ایک غیر ملکی اشتہار نے انٹرنیٹ پر۔ بہت دھوم مچائی۔

اشتہار غالباً انسانیت کے حساس موضوع پر بنایا گیا ہے جس میں ایک بوڑھی عورت اپنے نواسے نواسی کے ساتھ بیکری میں چیزیں خریدنے جاتی ہے۔

وہاں بچی اپنے نانا کے لیے کیک لینا چاہتی ہے، مگر بوڑھی نانی کے پاس پیسے نہیں۔

اچانک ایک نوعمر لڑکا ان کی مدد کرتا ہے، اس بچی کو کیک تحفتاً دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن ایسے ہی کسی آدمی نے اس کی مدد کی تھی اور آج میںآپ کی مدد کر کے انسانیت کی ہمدردی کی لہر کو آگے بڑھا رہا ہوں۔

وہ بچی کیک لے کر اپنے بوڑھے نانا کے پاس جاتی ہے۔ یہ نانا وہی آدمی ہے جس نے اپنی جوانی میں اس بچے کی مدد کی تھی اور کہا تھا، ہمیشہ دوسروں کی مدد کرو۔ کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جو ہمیشہ آپ کے پاس کسی نہ کسی شکل میں واپسی آتی ہے۔کیا خوبصورت پیغام، کیا خوبصورت خیال اور بہت زبردست طریقے سے عوام تک پہنچایا گیا۔ ایک اخلاقی سبق اور مزے کی بات یہ کہ وہ اشتہار ایک بیکری کا تھا۔ لیکن اشتہار کے خلاقی پس منظر نے اسے ٹاپ ٹین اشتہارات کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔لیکن صد افسوس کہ ہمارے ملک میں اشتہارات کا مقصد، صرف اور صرف اپنی برانڈ کی نمودونمائش اور ہلہ گلہ رہ گیا ہے۔

اشتہارات کا مقصد کیا ہوتا ہے؟#|why #ads are made?

وہ مصنوعات ہمارے لیے کیا بہتر تبدیلی لا سکتی ہے اس کی مثبت اچھائیاں کیا ہیں۔ وہ کس طرح ہمارے لیے مفید ہے؟ اشتہار میں اپنی مصنوعات کے ساتھ ساتھ کیا اخلاقی انسانیت کا سبق بھی مخفی ہے یا نہیں۔ ہماری کمپنیاں یہ بات بالکل نہیں سوچتیں۔ ایک اچھا اشتہار ایک مکمل ٹیم ورک، کہانی، اخلاقیات اور ایک اچھے اختتامی سبق پرمشتمل ہونا چاہیے۔ تھوڑی بہت حسِ مزاح سے بھی کام لے لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ جیسے ہماری ایک موبائل نیٹ ورک کمپنی ہمیشہ پُرمزاح اور لطیف اشتہارات بناتی ہے۔ جس میں ایک مزاحیہ کہانی مزیدار انداز میں پیش کی جاتی ہے۔

اس میں فضول ناچنا گانا ہوتا ہے نہ ہی لغو اور بیکار حرکتیں۔ ایسے اشتہار بار بار کی رپیٹیشن یعنی دہرائے جانے پر بھی بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتے۔

crazy and weird

پاکستان میں زیادہ تر اشتہاری کمپنیاں صرف بھونڈا میوزک،

شور شرابہ اور بولڈ مناظر (بے باک) سے ہی اشتہار بنانے کو ترجیح دیتی ہیں،

جبکہ یہ ایک بہترین تخلیقی شعبہ ہے۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں تخلیقی کام تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔

بنی بنائے، کھانے کے رواج نے تخلیقی صلاحیتیں تقریباً ختم ہی کر دی ہیں۔

آسانی اور سہل پسندی نے رہی سہی کسر پوری کر دی, ورنہ جہاں محنت ہو، لگن ہو،

اپنی مصنوعات کو خوبصورت کہانی یا واقعے کے تانے بانے میں پرو کر ایک خوبصورت، معیاری اور مختصر اشتہار بنانا ایک تخلیقی ذہن ہی کر سکتا ہے۔ جو ہمارے یہاں اب مفقود ہوتا جا رہا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی روایت اب نہیں رہی۔ اس قوم کی حالت ایسی ہے جیسے کومہ میں گیا ہوا کوئی مریض۔ جسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کے سامنے کیا ہو رہا ہے؟ کیا بولا جا رہا ہے، کیا دکھایا جا رہا ہے۔ وہ بے حس و حرکت لیٹا خاموش تماشائی بنا اپنا وقت گزار رہا ہے۔

ہم مردہ قوم بنتے جا رہے ہیں۔ جس کی اپنی ناکوئی آواز ہے نہ اخلاقی حدود اور نہ ہی مذہبی اقدار۔ ایک طرف خواتین کے تحفظ کے بل پاس کروا رہے ہیں۔

دوسری طرف عورت کے بغیر اشتہار نامکمل سمجھا جاتا ہے اور عورت کی اشتہاروں کے ذریعے تذلیل کی جا رہی ہے۔ ۔

اس کی آزادی اور خودمختاری کو بہانہ بنا کر، ناجائز طریقوں اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے نئی نسل کو گمراہ وبرباد کیا جا رہا ہے۔

عورت کی آزادی#|#women freedom

حقیقت یہ ہے کہ مرد عورت کو آزادی دینے کے بہانے عورت تک پہنچنے کے اپنے راستے آسان بنا رہا ہے۔ عورت یہ بات سمجھنے پر تیار ہی نہیں کہ آزادی ایک حد تک اور جائز وجوہ کے لیے حاصل کی جائے تو ٹھیک ہوتی ہے ،ورنہ بربادی اور ایسی ناچنے گانے والی آزادی سے قومیں تباہ و برباد ہو جایا کرتی ہیں۔ ہمیں کیا فکر، ہمیں کیا پروا۔ ہم تو زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ کبھی کبھار پیمرا کو دوچار باتیں سنا دیں کہ یہ سب اس کی ڈھیل کی وجہ سے ہے، لیکن آپ ہی بتائیے پیمرا کیوں کرے کچھ؟ کیا آپ کو شعور نہیں؟ کیا ذمے داری اور فرائض کے تمام ٹوکرے صرف پیمرا کے سر ہیں؟

بحیثیت قوم کیا ہم ایسے ذومعنی، بے معنی کچھ واہیات، خطرناک بے لگا اشتہاروں کے گھوڑوں کی لگامیں، اپنے زور پر نہیں کھینچ سکتے؟

ایک طاقتور عوام تو حکمرانوں کے تختے الٹا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ہم کیا ان اشتہارات کی مذمت کرنے ، انھیں بند کرانے یا ان کے مرکزی خیالات تبدیل کرانے کی بھی اپنے اندر ہمت نہیں رکھتے؟

ہم اتنے بزدل ہو چکے کہ عام سے معمولی سے اشتہار کے خلاف بھی آواز بلندنہیں کر سکتے، تو ہم جیسے بزدلوں کی اولاد اور نسل کے بگڑنے کے ذمے دار, شاید پھر یہ میڈیا اور اشتہارات، پروگرامز، ڈرامے نہیں ہم خود ہوں گے۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles