36 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

وسیلہ رزق ایک شجر سایہ دار

احساس کے انداز

وسیلہ رزق، ایک شجر سایہ دار

تحریر ۔ جاوید ایاز خان

زندگی میں آگے بڑھنے خواہش میں مجھے بے شمار تجربات اور مشکلات کی بھٹی سے گزرنا پڑا۔
اس یادگار سفر کے دوران جہاں بےشمار کامیابیاں اور ناکامیاں میرے حصے میں آئیں، وہیں زندگی نے بےشمار اور قیمتی سبق  اور تجربات سے بھی سکھا دئیے۔
جو آج بھی میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ ان سے ہی فائدہ اُٹھا کر میں زندگی کے مختلف شعبہ جات میں کامیابی کا زینہ چڑھ سکا۔
یہی چند اہم اور مرکزی خیالات آپ تک بھی پہنچانا چاہتا ہوں۔
میں  نے ۱۹۷۱ ء سے اپنے رزق کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ بےشک رزق دینے والی تو صرف میرے پاک رب کی ذات ہے۔
رزق اور اس میں اضافے کے لیے اس کی عطا کردہ سولہ کنجیاں بھی ہمیں عظا فرمائیں۔
دنیا کے رازق نے ہمارے لیے وسیلہ رزق بھی ترتیب دئیے۔ ہر وہ ادارہ، کاروبار، زمین جائیداد یا شخص، جس کے پاس یا جس کے ذریعے آپ کو اللہ رزق فراہم کرتا ہے۔
وہ دراصل ایک وسیلہ اور ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کا خیال اور حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔
میرے رزق کا پہلا وسیلہ “تھل جیوٹ ملز مظفر گڑھ  “بنا۔ جہاں سے میں نے بظور ایک مزدور اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔
پھر ادارے اور عہدے بدلتے رہے۔ محکمہ تعلیم میں استاد بننے کا شرف حاصل ہوا۔ یہاں سے بطور کیشیر حبیب بینک لمیٹڈ سے اپنی بینکنگ ملازمت کا آغاز کیا۔
مسلم کمرشل بینک لمیٹد، بینک الفلاح اسلامک اور بینک اسلامی میں بڑے اور اعلیٰ عہدوں پر کام کیا۔
خدا کے فضل سے ہر ادارے میں میرا نام کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ اس دوران بینک کے تقریباً تمام اعلیٰ اعزازت حاصل کیے، جن میں چار بینک کے صدارتی ایوارڈز بھی شامل ہیں۔
تقریباً نصف پاکستان میں تعیناتی رہی۔
اس کارکردگی کی وجہ صرف بزنس  یا کاروبار میں اضافہ نہ تھا، بلکہ ادارے کے ہر شعبہ میں  بہتری بھی تھا اور ادارے سے وفاداری اور وابستگی کا اظہار بھی تھا۔
دراصل رزق میں برکت کے لیے محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ ادارے سے وفاداری، محبت اور دلی وابستگی بھی آپ کے رزق میں بھی برکت اور ترقی کا باعث بنتی ہے۔
بطور ایک ورکر یا لیڈر اپ کا مخلصانہ کردار اور آپ کے رزق اور کام کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
میں جہاں بھی رہا، میں نے ادارے سے وہی رویہ رکھا جو اپنی ذات اور اپنے گھر سے ہوتا ہے۔
ادارے کی ہر چیز کی حفاظت اور خیال ایسے ہی رکھا جیسے اپنی ذاتی اشیا کا رکھتا ہوں۔
کبھی افسران کو دکھانے کے لیے کام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سوچا کہ خدا ہماری تمام حرکات دیکھ رہا ہے۔
ہمیں ہماری محنت کا صلہ بھی وہی عطا فرمائے گا ۔شاید میری تمام کامیابیوں میں سے ایک اہم کامیابی کا راز یہی ہے۔
اکثر جب اسٹاف کے ساتھ میٹنگ ہوتی تو انہیں ہمیشہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ہمارے رزق کا تعلق ہمارے ادارے کی ترقی اور منافع سے جڑا ہے، “قدرت نے اس کاروبار کو تمہارے لیے رزق کا وسیلہ بنایا ہے۔ رزق کے اس وسیلے کی قدر کرو کیونکہ جو لوگ رزق کے وسیلے کی قدر نہیں کرتے۔ قدرت انہیں اس وسیلے سے محروم کر دیتی ہے۔ ”
کیونکہ کوئی دیکھے نہ دیکھے، ہمارے رب ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہماری نیتوں کے حال بھی جانتا ہے، انسان کو وہی ملتا ہے۔ جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
جس کے لیے انہیں کئی مثالیں بھی دیتا تھا،
ہم  نے صرف ادارے کی ترقی اور کامیابی کے لیے ہی کام نہیں کرنا، بلکہ ہر کاروبار کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔
جس کے لیے آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں مناسب کمی اور کنٹرول بےحد ضروری ہے۔
ذرا سوچیں اگر ہم آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کا معاوضہ لیتے ہیں۔ تو مختلف حیلوں بہانوں سے وقت ضائع  کیوں کریں؟
اگر ہم اپنے گھر میں کسی مقصد کے لیے ایک ٹشو استعمال کرتے ہیں۔ تو اسی مقصد کے لیے ادارے کے دو ،تین یا چار ٹشو تک استعمال کرنا بدیانتی کے ضمرے میں نہیں آتا؟
اگر  اپنے گھر  بجلی ہم زیادہ بل کے خوف سے کم استعمال کرتے ہیں اور غیر ضروری لائٹس بند کر دیتے ہیں، تو کیا  ادارے میں بھی ایسا ہی طرز عمل نہیں ہونا چاہیے؟
گھر کے اے سی، اگر ہم  نے ابھی تک نہیں چلائے تو پھر دفاتر میں قبل از وقت اے سی چلانے کا کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟
دفتری اسٹیشنری اور بے شمار استعمال کی چیزوں کا بےجا استعمال یا اس کو لاپروائی سے ضائع کر دینا کہا تک درست ہو سکتا ہے؟
اس طرح کی چھوٹی چھوٹی بےشمار چیزیں ہیں۔ جو ہم سوچتے تک نہیں، لیکن یہ ہمارے ادارے کو نقصان پہنچا کر اس کا منافع اور آمدنی کم کر دیتی ہیں۔
اخرجات خواہ گھر کے ہوں یا دفتر کے ان میں کمی لانا کیا ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی بچت بڑے بڑے منافعوں میں بدل جاتی ہے۔
اسلام بھی ہمیں ہر معاملے میں اسراف ناشکری اور فضول خرچی سے منع فرماتا ہے، تو کیوں ہم اپنے گھروں اور دفاتر میں اس کے مرتکب ہوں؟
اداروں اور ہمارے رزق کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک منافع بخش ادارہ ہی اپنے ملازمین کو اچھی ادائیگی کر سکتا ہے؟
اچھے اور مضبوط ادارے ہی آپ کی ملازمت کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن نشیں کر لیں  وسیلہ رزق سے وفاداری، محنت اور جہد مسلسل کا راستہ ہمیشہ خوشحالی، ترقی اور رزق کے اضافے کی منزل کی جانب جاتا ہے۔
محنت اور لگن سے کام کرنے والوں کی ہمیشہ قدر کی جاتی ہے، کیونکہ رب کا وعدہ ہے کہ وہ کسی کی محنت ضائع نہیں کرتا۔

۞۞۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles